پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، وہ دعائیں سننے، نعمتیں اور رحمتیں عطا کرنے والا ہے ، وہی مشکل کشائی فرماتا ہے، میں اپنے رب کی تعریف اور شکر گزاری کرتے ہوئے اسی کی جانب رجوع کرتا ہوں اور گناہوں کی معافی چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے، وہی عزت و کبریائی والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی جناب محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، آپ کو کامل اور روشن شریعت دے کر بھیجا گیا، یا اللہ! اپنے بندے، اور رسول محمد ، ان کی آل اور نیکیوں کیلیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے صحابہ کرام پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی کما حقُّہ اختیار کرو، تقوی حاصل کرنے والے کے لئے اللہ تعالی دنیا و آخرت کی خیر یکجا فرما دے گا، جب کہ تقوی سے رو گردانی کرنے والا اپنے انجام میں بد بخت ٹھہرے گا چاہے اسے کتنی ہی دنیا مل جائے۔
مسلمانوں!
اللہ تعالی نے دنیا و آخرت کیلیے خیر و سعادت کے اسباب مقرر کر دیے ہیں ، اسی طرح دونوں جہانوں میں نقصان کے اسباب بھی مقرر فرما دیے ہیں، لہذا خیر و فلاح کے اسباب اپنانے والے کیلیے اللہ تعالی نے دنیاوی کامیابی کی ضمانت دی ہے، اور اسی کیلیے آخرت میں اچھا انجام ہو گا وہ ہمیشہ نعمتوں والی جنت میں رہے گا، اور ربِ رحیم کی رضا پائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ
الرحمٰن – 60
بھلائی کا بدلہ صرف بھلائی ہی ہے۔
اور برائی کے اسباب اپنانے والے کو زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی برا انجام ہی ملے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
النساء – 123
[جنت میں داخلہ] نہ تمہاری آرزوؤں پر [موقوف]ہے اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر، جو بھی برے کام کرے گا اس کی سزا پائے گا اور اللہ کے سوا کسی کو اپنا دوست و مدد گار نہ پائے گا۔
یاد رکھیں! اپنی اور دوسروں کی اصلاح ،کامیابی ،دائمی خیر و بھلائی، مصیبتوں اور عقوبتوں سے تحفظ، اور موجودہ مصائب کے ازالے کا اہم طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی سے اخلاص، دلی توجہ اور گڑگڑا کر دعا کی جائے؛ کیونکہ اللہ تعالی دعا پسند فرماتا ہے، اور دعا مانگنے کا حکم دیتا ہے، دعا موجودہ اور پیش آمدہ مصائب کیلیے بہترین اِکسیر ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
غافر – 60
تمہارے پروردگار نے فرمایا: “مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں جلد ہی ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے”۔
حقیقت میں دعا عبادت ہی ہے، جیسے کہ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (دعا عبادت ہی ہے) ابو داود، ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اللہ تعالی کے ہاں کوئی چیز بھی دعا سے بڑھ کر معزز نہیں ہے) ترمذی، ابن حبان، اور حاکم نے اسے روایت کیا ہے، نیز حاکم نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ۔
دعا کرنے کی ہر وقت ترغیب دلائی گئی ہے، دعا کرنے پر اللہ تعالی بڑے ثواب سے نوازتا ہے، دعا کے ذریعے خاص اور عام تمام قسم کے مطالبات پورے کروائے جا سکتے ہیں، چاہے ان کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے، زندگی سے ہو یا موت کے بعد سے۔
دعا کے فوائد کی وجہ سے اللہ تعالی نے فرض عبادات میں بھی دعا کو فرض یا مستحب قرار دیا ہے، یہ ہمارے رب کا ہم پر رحم و کرم اور فضل ہے کہ ہم بھی اس پر اسی طرح عمل کرنے کے قابل ہوئے جیسے اللہ تعالی نے ہمیں سکھایا ، اگر اللہ تعالی ہمیں نہ سکھاتا تو ہم خود اس پر عمل نہیں کر سکتے تھے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ
الانعام – 91
اور تمھیں وہ کچھ سکھایا گیا جو تم اور تمہارے آبا بھی نہیں جانتے تھے۔
اس عظیم نعمت پر ہمہ قسم کی ڈھیروں، پاکیزہ اور برکتوں والی تعریفیں اللہ تعالی کیلیے ہی ہے، جیسے ہمارا رب پسند فرمائے اور راضی ہو۔
دعا کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے لیکن آج کل کے پر فتن دور ، تباہ کن سانحوں اور مسلمانوں کی زبوں حالی کی وجہ سے دعا کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے، کیونکہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے والے بدعتی فرقے پھل پھول رہے ہیں جو کہ معصوم لوگوں کی جان و مال حلال سمجھتے ہیں، مسلم خطوں میں بے چینی اور تخریب کاری کے ساتھ ساتھ فساد پھیلانے کی کوشش میں ہیں، وہ علم و علما کیساتھ جفا کرتے ہیں اور جہالت و گمراہی کیساتھ فتوی دیتے ہیں ، اسلام دشمن قوتیں ان کے ساتھ ہیں اور اہل ایمان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں سر گرم ہیں، مسلمانوں میں پھوٹ، اختلاف اور تصادم پیدا کرنے کے در پے ہیں، ان حالات میں دعا کی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے۔
مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصانات کے باوجود انہیں ظلم و بربریت کیساتھ بے گھر کیا گیا ، ضروریات زندگی میسر آنا مشکل ہو گئیں کہ زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہونے لگی، ایسے سنگین اور سخت حالات میں دعا کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے ، ان حالات کی آگ میں مسلمان ایسے خطوں میں جل رہے ہیں جہاں فتنوں کی بھر مار ہے۔
اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی تعریف بیان کی ہے جو مشکل حالات میں اللہ تعالی سے دعائیں کرتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالی نے پوری انسانیت کے والدین آدم اور حوا علیہما السلام کے متعلق فرمایا:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
الاعراف – 23
ان دونوں نے کہا: “ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے”۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
البقرۃ – 155/157
اور ہم ضرور تمھیں خوف اور فاقہ میں مبتلا کر کے، جان و مال اور پھلوں کے خسارے سے آزمائیں گے، اور ایسے صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دیجئے۔ جنہیں کوئی مصیبت آئے تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں کہ : ہم بھی اللہ ہی کی ملکیت ہیں ، اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی طرف سے عنایات اور رحمتیں برستی ہیں ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوتے ہیں ۔
اسی طرح اللہ تعالی یونس علیہ السلام کے بارے فرمایا:
فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
الانبیاء – 87
انہوں نے اندھیروں میں پکارا: تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، تو پاک ہے، میں ہی ظالموں میں سے تھا۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جو بھی مسلمان کسی بھی چیز کیلیے مچھلی والے [یونس علیہ السلام] کی دعا مانگے تو اللہ تعالی اس کی دعا قبول فرماتا ہے)اسے احمد، ترمذی، اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
اسی طرح جب نبی ﷺ نے ثقیف قبیلے کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور انہوں نے آپ ﷺ کی دعوت قبول کرنے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ اتنے پتھر بھی مارے جن سے آپ کی ایڑھیاں خون میں لت پت ہو گئیں تو آپ ﷺ نے یہ کہتے ہوئے دعا فرمائی:
[یا اللہ! میں اپنی کمزوری، تدبیر کی کمی، اور لوگوں کی نظروں میں ہلکا ہونے کی شکایت تجھ سے کرتا ہوں، یا ارحم الرحمین! تو مجھے کس کے سپرد کرنے والا ہے؟ کسی (تیوڑی چڑھا کر ملنے والے) سخت دشمن کے ؟ یا کسی ایسے دشمن کے سپرد کرنے لگا ہے جسے تو نے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر تو مجھ پر غضبناک نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے، لیکن تیری طرف سے عافیت میرے لیے زیادہ بہتر ہے، میں تیرے چہرے کے نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے اندھیرے بھی روشن ہو گئے ہیں اور دنیا و آخرت کے معاملات درست ہو گئے ہیں، کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو، یا مجھ پر تیری ناراضی اترے ، میں تجھے مناتا رہوں گا حتی کہ تو راضی ہو جائے، نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت تیرے بغیر ممکن نہیں ہے]) اسے ہیثمی نے مجمع الزوائد میں روایت کیا ہے۔اَللَّهُمَّ أَشْكُو إلَيْكَ ضَعْفَ قُوّتِي ، وَقِلّةَ حِيلَتِي ، وَهَوَانِي عَلَى النّاسِ، يَا أَرْحَمَ الرّاحِمِينَ ! إلَى مَنْ تَكِلُنِي ؟ إلَى بَعِيْدٍ يَتَجَهّمُنِي ؟ أَمْ إلَى عَدُوٍّ مَلّكْتَهُ أَمْرِي ؟ إنْ لَمْ يَكُنْ بِك غَضَبٌ عَلَيّ فَلَا أُبَالِي ، وَلَكِنّ عَافِيَتَك أَوْسَعُ لِي ، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِك الّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ الظّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الدّنْيَا وَالْآخِرَةِ أَنْ يَحِلّ بِي غَضَبُك ، أَوْ يَنْزِلَ بِي سُخْطُكَ، لَك الْعُتْبَى حَتّى تَرْضَى ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوّةَ إلّا بِك
اگر انسان کسی مشکل یا مصیبت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوں تو دعا کے ذریعے اس کا مقابلہ کریں ، چنانچہ ثوبان رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ : (تقدیر کو دعا ہی ٹال سکتی ہے، عمر میں نیکی ہی اضافہ کر سکتی ہے، اور انسان کو گناہ کا ارتکاب کرنے پر روزی سے محروم کر دیا جاتا ہے) ابن حبان اور حاکم نے اسے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح الاسناد قرار دیا ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (دعا موجودہ اور آئندہ آنے والی ہر قسم کی مصیبت میں فائدہ دیتی ہے، اس لیے اللہ کے بندو! دعا لازمی کیا کرو) ترمذی، حاکم
اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اللہ تعالی فرماتا ہے: میں بندے کے گمان کے مطابق اپنے بندے کیساتھ ہوتا ہوں، جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں) بخاری و مسلم، یہ بات مسلمان کیلیے کسی اعزاز سے کم نہیں ۔
اسی طرح اللہ تعالی نے مصیبت اور پر فتن وقت میں دعا نہ کرنے والے لوگوں کی مذمت فرمائی، چنانچہ فرمایا:
وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ
المؤمنون – 76
اور ہم نے انہیں عذاب میں مبتلا کیا تب بھی وہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکے اور نہ ہی گڑگڑائے۔
اسی طرح فرمایا:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [42] فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
الانعام – 42/43
آپ سے پہلے ہم نے بہت سی قوموں کی طرف رسول بھیجے ، پھر ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ گڑگڑا کر دعا کریں [42] پھر جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہو گئے اور جو کام وہ کر رہے تھے شیطان نے انہیں وہی کام خوبصورت بنا کر دکھائے۔
اسی طرح فرمایا:
وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ
الاعراف – 94
اور ہم نے جب بھی کسی بستی میں نبی بھیجا تو وہاں کے رہنے والوں کو سختی و تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ گڑگڑا کر دعا کریں۔
سنگین حالات میں بھی دعائیں نہ کرنا گناہوں پر اصرار میں شامل ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالی کی سخت پکڑ کو معمولی سمجھنے کی مانند ہے، حالانکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ
البروج – 12
بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔
اسی طرح فرمایا:
وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ
ھود – 102
اور اسی طرح تیرے رب کی پکڑ [سخت]ہوتی ہے جب وہ کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے، بیشک اس کی پکڑ بہت درد ناک ہے۔
خیر و برکت کے حصول اور مشکل کشائی یا بلاؤں کو ٹالنے کیلیے دعا بہت عظیم ذریعہ ہے، دعا در پیش مصیبت سے نکلنے کیلیے قوی ترین اقدام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (83) فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَ
الانبیاء – 83/84
ایوب نے جب اپنے پروردگار کو پکارا : “مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے”۔ تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کی بیماری کو دور کر دیا، نیز ہم نے اُنہیں صرف اہل و عیال ہی نہ دیئے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیئے ، یہ ہماری طرف سے خاص رحمت تھی اور [اس میں] عبادت گزاروں کے لئے سبق ہے۔
اسی طرح فرمایا:
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ
النمل – 62
کون ہے جو لاچار کے پکارنے پر اس کی مدد کرتا ہے اور مشکل کشائی فرماتا ہے؟
یعنی : اللہ کے سوا کوئی لاچار کی پکار نہیں سنتا۔
اسی طرح فرمایا:
قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ
الانعام – 63
آپ ان سے پوچھیں کہ: بر و بحر کی تاریکیوں میں پیش آنے والے خطرات سے تمھیں کون نجات دیتا ہے؟ جسے تم عاجزی کے ساتھ اور چپکے چپکے پکارتے ہو کہ: “اگر اس نے ہمیں [اس مصیبت سے] نجات دے دی تو ہم ضرور اس کے شکر گزار ہوں گے۔
مسلمان کو اپنے تمام معاملات کی درستگی کیلیے اللہ تعالی سے رجوع کرنا چاہیے، اپنی تمام تر ضروریات اللہ تعالی کے سامنے رکھے، ہر چیز اللہ تعالی سے ہی مانگے، اور مانگنے کی سب سے بڑی چیز جنت میں داخلہ اور آگ سے نجات ہے، حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: (میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو ، سوائے اس شخص کے جسے میں ہدایت دوں، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دونگا، میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو ، سوائے اس شخص کے جسے میں کھلاؤں، اس لیے مجھ سے کھانا مانگو میں تمھیں کھانا کھلاؤں گا، میرے بندو! تم سب کے سب بے لباس ہو ، سوائے اس شخص کے جسے میں لباس پہناؤں ، اس لیے مجھ سے لباس مانگو میں تمھیں لباس پہناؤں گا، میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو، اور میں سارے گناہ معاف کر سکتا ہوں اس لیے تم مجھ سے بخشش مانگو میں تمھیں معاف کر دونگا) مسلم نے اسے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تم مجھ سے ہدایت، کھانا، لباس، اور مغفرت مانگو، [اس لیے ہم بھی اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ]یا اللہ! ہمیں ہدایت دے، ہمیں کھلا، پہنا اور ہمارے سارے گناہ بخش دے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ: (تم اپنے رب سے جوتے کا تسمہ اور کھانے کا نمک تک مانگو)۔
کتنی ہی ایسی دعائیں ہیں جنہوں نے تاریخ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا، شر کو خیر میں اور بہتر کو بہترین سے تبدیل کر دیا، چنانچہ اللہ تعالی نے ہمارے جد امجد ابراہیم علیہ الصلاۃ و السلام کی دعا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
البقرۃ – 129
اے ہمارے پروردگار! ان میں ایک رسول مبعوث فرما جو انہی میں سے ہو، وہ ان کے سامنے تیری آیات کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنا دے۔ بلاشبہ تو غالب اور حکمت والا ہے”۔
ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: “یا رسول اللہ ! آپ کی ابتدا کیسے تھی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اپنے والد ابراہیم [علیہ السلام] کی دعا، عیسی [علیہ السلام] کی خوش خبری ہوں، اور میری والدہ نے دیکھا کہ ان کے بطن سے نور نکلا جس سے شام کے محل بھی روشن ہو گئے، دیگر انبیا کی مائیں بھی اسی طرح نور دیکھتی ہیں) ” احمد
مسلمان اس دعا کی وجہ سے سرمدی خیر میں ہیں، اس دھرتی کو بھی اس دعا سے فائدہ ہوا، نوح علیہ السلام کی دعا بھی موحد مؤمنوں کیلیے نجات اور خیر و برکت کا باعث بنی، اور مشرکین کیلیے تباہی اور نقصان کا باعث بنی۔
ایک وقت آئے گا جب عیسی ﷺ اور آپ کے حواری طور پہاڑ میں محصور ہو کر دعا کریں گے، یہ دعا بھی مسلمانوں کی فتح اور یاجوج و ماجوج کیلیے تباہی و بربادی کا باعث ہو گی، جو کہ ٹڈیوں کی طرح آئیں گے اور پوری زمین پر پھیل جائیں گے، وہ بد ترین اور فسادی و سرکش ہوں گے، چنانچہ نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ : (جس وقت عیسی علیہ السلام دجال کو قتل فرمائیں گے تو اللہ تعالی عیسی ﷺ کی جانب وحی فرمائے گا: “میں نے اپنے ایسے بندے نکال دیے ہیں جن کا مقابلہ کرنے کی کسی میں سکت نہیں ہے، اس لیے میرے بندوں کو طور پہاڑ کی طرف لے چلو، تو اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اور وہ ہر اونچی جگہ سے گھسٹتے ہوئے آئیں گے، ان کا ہراول دستہ بحیرہ طبریہ سے گزرے گا تو اس کا سارا پانی پی جائیں گے، جس وقت ان میں سے آخری شخص گزرے گا تو وہ کہے گا: “یہاں لگتا ہے کہ کبھی پانی تھا” اللہ کے نبی عیسی ﷺ اور ان کے ساتھی محصور ہو کر رہ جائیں گے، حتی کہ ان کے ہاں ایک بیل کی سری تمہارے 100 دینار سے بھی مہنگی ہو گی، تو اللہ نے نبی عیسی علیہ السلام و آپ کے حواری اللہ سے دعا کریں گے، پھر اللہ تعالی یاجوج ماجوج کی گردنوں میں کیڑے پیدا کر دے گا، جس کی وجہ سے وہ سب کے سب یک لخت مر جائیں گے، اس کے بعد اللہ کے نبی عیسی اور ان کے ساتھی نیچے اتریں گے اور انہیں زمین پر ایک بالشت کے برابر بھی جگہ نہیں ملے گی جہاں یاجوج ماجوج کی چربی اور بد بو نہ ہو، پھر اللہ کے نبی عیسی ﷺ اور آپ کے رفقا اللہ تعالی سے دعا کریں گے تو اللہ تعالی ان پر ایسے پرندے بھیجے گا جن کی گردنیں بختی اونٹ جیسی ہوں گی اور وہ انہیں اللہ کے حکم سے اٹھا کر جہاں اللہ چاہے گا پھینک دیں گے”) مسلم
ہمارے نبی اور سید البشر محمد ﷺ نے صحابہ کیساتھ بدر میں جو دعا فرمائی تھی وہ اسلام کیلیے ابدی طور پر کار آمد اور کفر کیلیے سرمدی طور پر رسوائی کا باعث بنی ، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ
الانفال – 9
اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر اللہ نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دونگا جو لگاتار چلے آئیں گے ۔
آپ ﷺ نے بدر کے موقع پر دعا کرتے ہوئے بہت ہی الحاح اور اصرار کیساتھ دعا فرمائی تھی یہاں تک کہ آپ کی چادر گر گئی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو پکڑ کر تسلی دی اور عرض کیا: “اللہ کے رسول! اللہ تعالی سے آپ نے کافی اصرار کر لیا ہے، اللہ تعالی آپ سے کیا ہوا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا”، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (ابو بکر ! خوش ہو جاؤ، یہ جبریل علیہ السلام ہیں جو فرشتوں کو ترتیب دے رہے ہیں اور جبریل کے اگلے دانتوں پر غبار چڑھی ہوئی ہے)”اس سے پہلے کسی بھی نبی کیساتھ فرشتوں نے لڑائی میں براہ راست حصہ نہیں لیا، آپ ﷺ کے مقام و مرتبے ، اللہ تعالی پر آپ کے کامل اعتماد اور صحابہ کرام کے مخلص ہونے کی وجہ سے یہ بلند مقام آپ کو دیا گیا۔
حق کے غلبے اور باطل کے مٹانے کی دعا کرنا حقیقت میں اللہ، کتاب اللہ، رسول اللہ، اور مسلم حکمرانوں سمیت تمام مسلمانوں کی بھی خیر خواہی ہے، دعا سے بے رغبتی وہی شخص کرتا ہے جو دنیا و آخرت میں اپنا نصیب کھونا چاہتا ہے، نیز اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داری میں کوتاہی برت رہا ہے، ایک حدیث میں ہے: (جو شخص مسلمانوں کے معاملات کی پرواہ نہیں کرتا وہ مسلمانوں میں سے نہیں )۔
اگر ہم دعا کے مثبت نتائج، اثرات، برکات، خیر و بھلائی جمع کرنے لگیں تو بہت وقت در کار ہو گا اس لیے جو ہم نے بیان کر دیا ہے وہی کافی ہے۔
دعا کی کچھ شرائط اور آداب ہیں : چنانچہ دعا کی شرائط میں حلال کھانا پینا اور پہننا شامل ہے، جیسے کہ نبی ﷺ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: (سعد! اپنا کھانا پاکیزہ رکھو تمہاری دعا قبول کی جائے گی)۔
اسی طرح دعا کی شرط ہے کہ : انسان سنت پر کار بند ہو، اللہ تعالی کے احکامات کو بجا لائے اور ممنوعات سے بچے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
البقرۃ – 186
اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں کہہ دیجئے کہ میں قریب ہی ہوں، جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں لہذا انہیں چاہیے کہ میرے احکامات بجا لائیں اور مجھ پر اعتماد رکھیں تا کہ وہ ہدایت پا جائیں۔
اور اسی طرح فرمایا:
وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ
الشوریٰ – 26
جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے انہیں زیادہ بھی دیتا ہے۔
لیکن مظلوم کی بد دعا اللہ تعالی قبول فرماتا ہے چاہے وہ کافر یا بدعتی ہی کیوں نہ ہو۔
دعا کی یہ بھی شرط ہے کہ : اس میں اخلاص، حاضر قلبی، اللہ تعالی کے سامنے الحاح، اور سچے دل کیساتھ التجائیں کی جائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ
غافر – 14
اللہ کیلیے عبادت خالص کرتے ہوئے اللہ کو ہی پکارو چاہے یہ کافروں کیلیے نا گوار ہو۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ: (اللہ تعالی کسی ایسے دل سے دعا قبول نہیں فرماتا جو سہو و لہو میں مبتلا ہو)۔
اسی طرح یہ بھی دعا کی شرط ہے کہ: گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ کی جائے اور دعا میں حد سے تجاوز نہ ہو ۔ دعا کی قبولیت کے اسباب میں یہ شامل ہے کہ اللہ تعالی کے اسما و صفات کے ذریعے اللہ تعالی کی خوب حمد و ثنا بیان کی جائے ، اور نبی ﷺ پر درود و سلام پڑھیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا:
“اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّه لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، الأَحَدُ، الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ، وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ”
یا اللہ! میں تجھ سے اپنی گواہی کا واسطہ دیتے ہوئے سوال کرتا ہوں کہ تو ہی معبود بر حق ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، تو ہی یکتا اور بے نیاز ہے، اس سے کوئی پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا ہے، اور اس کا کوئی ہم سر نہیں ہے]تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو نے اللہ تعالی کے اس نام سے مانگا ہے جب بھی اس نام سے مانگا جائے تو وہ قبول فرماتا ہے) ابو داود، ترمذی نے اسے روایت کہا ہے اور ترمذی نے حسن کہا ہے، ابن ماجہ، ابن حبان، اور حاکم نے بریدہ رضی اللہ عنہ سے اسے بیان کیا ہے۔
اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (ایک بار رسول اللہ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آدمی داخل ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے کہنے لگا: “یا اللہ! مجھے معاف کر دے مجھ پر رحم فرما” تو آپ ﷺ نے فرمایا: نماز پڑھنے والے! تم نے جلد بازی سے کام لیا ہے، جب تم نماز پڑھو اور تشہد میں بیٹھو تو اللہ کی شایان ِ شان حمد و ثنا بیان کرو، اور پھر مجھ پر درود بھیجو، اس کے بعد دعا کرو) احمد، ابو داود، ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ : (دعا آسمان اور زمین کے درمیان معلق رہتی ہے جب تک نبی ﷺ پر درود نہ پڑھا جائے)
دعا کے آداب اور قبولیت کی شرائط میں یہ بھی شامل ہے کہ : قبولیت کیلیے جلد بازی نہ کرے، بلکہ دعا کرتا رہے اور صبر سے کام لے چنانچہ حدیث میں ہے کہ : (تمہاری دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک جلد بازی نہ کرے اور کہے: “دعا تو بہت کی لیکن قبول ہی نہیں ہوتی[!]”) بخاری و مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔
لہذا دائمی طور پر دعا کرتے رہنے سے آخر کار دعا قبول ہو جاتی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ: (روئے زمین پر کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی سے کوئی بھی دعا مانگے تو اللہ تعالی اسے وہی عطا کر دیتا ہے یا اس کے بدلے میں کوئی مصیبت ٹال دیتا ہے بشرطیکہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے)، یہ بات سن کر ایک شخص نے کہا: “پھر تو ہم بہت زیادہ دعائیں مانگیں گے! “تو آپ ﷺ نے فرمایا: (اللہ تمھیں اس سے بھی زیادہ دے گا)ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے، نیز حاکم نے اسے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہوئے یہ بھی اضافہ نقل کیا ہے کہ: (یا اللہ تعالی اس کی دعا کو [آخرت کیلیے]ذخیرہ فرما لیتا ہے )
مسلمان کو قبولیتِ دعا کے اوقات تلاش کرنے چاہییں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: “کون سی دعا سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے؟” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے آخر میں) ترمذی نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے حسن قرار دیا ہے۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ: “ہمارا پروردگار رات کی آخری تہائی میں آسمان دنیا تک نازل ہو کر فرماتا ہے: “کوئی دعا کرنے والا ہے میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی سوالی ہے میں اسے عطا کروں، کوئی بخشش چاہنے والا ہے میں اسے بخش دوں” بخاری و مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں کی جاتی، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ: (اپنے رب کے قریب ترین بندہ سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لیے سجدے میں کثرت سے دعائیں کرو) مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
کعبہ کو دیکھتے ہوئے، بارش نازل ہوتے وقت، مشکل کے وقت، ختم قرآن کے بعد، صدقہ کے بعد بھی دعا قبول ہوتی ہے۔
ایسے شخص کی سعادت مندی اور کامیابی کے کیا ہی کہنے جس کا دل اللہ تعالی کی جانب متوجہ رہتا ہے، اسی سے دعائیں مانگتا ہے اور امید رکھتا ہے، اسی پر توکل و بھروسا رکھتا ہے اور مدد مانگتا ہے۔
اور وہ شخص کتنا ہی بد بخت اور شرک و کفر میں مبتلا ہے جو مزاروں اور قبر والوں سے مانگے، یا انبیائے کرام علیہم الصلاۃ و السلام سے مدد مانگے، یا اللہ تعالی کو چھوڑ کر اولیا کو پکارے، اپنی حاجت روائی اور فریاد رسی کیلیے فرشتوں اور نبیوں سے درخواست کرے، حالانکہ انبیائے کرام لوگوں کو یہی دعوت دینے کیلیے آئے تھے صرف ایک اللہ کو پکارو، عبادت صرف اللہ کی کرو، ہمیں وہی عمل کرنے کی تلقین کی گئی ہے جو اولیا کرتے تھے نیز ان سے محبت کا حکم بھی دیا گیا ہے ، لیکن ان سے دعائیں مانگنا منع ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا
الجن – 18
بیشک مساجد اللہ کیلیے ہیں اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا
الجن – 20
آپ کہہ دیں: میں صرف اپنے رب کو ہی پکارتا ہوں اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔
غائب یا فوت شدگان کوئی بھی دعا کا جواب دینے کی سکت نہیں رکھتے، کیونکہ یہ کام صرف اللہ تعالی کا ہی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
لَهُ دَعْوَةُ الْحَقِّ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهِ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ
الرعد – 14
اسی کو پکارنا بر حق ہے اور جو لوگ اس کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں وہ انھیں کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے۔ انھیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف اپنے ہاتھ اس لئے پھیلائے کہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ پانی کبھی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ کافروں کی دعائیں صرف گمراہی میں ہیں ۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (5) وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ
الاحقاف – 5/6
اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کو چھوڑ کر قیامت تک جواب نہ دینے والوں کو پکارے، بلکہ وہ ان کی پکار سے غافل بھی ہوں۔ اور جب لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا تو وہ ان کے دشمن بن جائیں گے اور وہ [معبودان باطلہ ]ان کی عبادت کا یکسر انکار کر دینگے۔
اللہ تعالی نے اپنے افعال کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا:
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِنْ قِطْمِيرٍ(13) إِنْ تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ
فاطر – 13/14
وہ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو اسی نے مسخر کیا ، ہر ایک میعاد معین پر چل رہا ہے، یہی ہے اللہ تم سب کا پالنے والا اسی کی سلطنت ہے، جنہیں تم اللہ کے سوا پکار رہے ہو وہ تو کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے بھی مالک نہیں [13] اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر [با لفرض] سن بھی لیں تو فریاد رسی نہیں کریں گے بلکہ قیامت کے دن تمہارے شریک اس شرک کا صاف انکار کر دینگے ۔ آپ کو کوئی بھی حق تعالی جیسا خبردار خبریں نہ دے گا۔
اللہ تعالی نے کسی سے بھی دعا مانگنے کی اجازت نہیں دی چاہے وہ کتنا ہی مقرب کیوں نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ
المائدۃ – 72
مسیح نے کہا تھا کہ: اے بنی اسرائیل اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے اللہ تعالی نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہو گا ۔
اسی طرح فرمایا:
وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران – 80
کوئی فرشتوں اور نبیوں کو رب ماننے کا حکم نہیں دے سکتا، کیا وہ تمھیں مسلمان بننے کے بعد کفر کا حکم دینا چاہتا ہے؟
اور ایک حدیث میں ہے کہ: (جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ وہ غیر اللہ کو پکارتا تھا تو وہ جہنم میں جائے گا) بخاری نے اس حدیث کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
مسلمانوں!
یہ اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث تمہارے سامنے بیان کر رہی ہیں کہ (دعا عبادت ہی ہے) اور دعا صرف اللہ تعالی سے مانگنی چاہیے، جو شخص اللہ تعالی کیساتھ کسی کو دعا میں شریک کرتا ہے تو وہ شرک اکبر میں ملوث ہے۔
گمراہی اور شرک میں کوئی کسی کی اندھی تقلید نہ کرے ؛ کیونکہ اولاد آدم میں شرک و کفر ؛ اندھی تقلید اور گمراہ لوگوں کی پیروی سے ہی پیدا ہوا، فرمانِ باری تعالی ہے:
أَذَلِكَ خَيْرٌ نُزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ (62) إِنَّا جَعَلْنَاهَا فِتْنَةً لِلظَّالِمِينَ (63) إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ (64) طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ (65) فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ (66) ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ (67) ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَإِلَى الْجَحِيمِ (68) إِنَّهُمْ أَلْفَوْا آبَاءَهُمْ ضَالِّينَ (69) فَهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ
الصآفآت – 62/70
کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا [زقوم] کا درخت۔ جسے ہم نے ظالموں کے لئے ایک آزمائش بنا دیا ۔ بیشک وہ درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے ۔ جس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں ۔ وہ اسی کو کھا کر اپنے پیٹ بھریں گے ۔ پھر اس پر گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔پھر انہیں دوزخ کی طرف لوٹنا ہو گا ۔ انہوں نے اپنے آبا و اجداد کو گمراہ ہی پایا ۔تو وہ انہی کے نشان قدم پر دوڑتے رہے ۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ [55] وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
الاعراف – 55/56
اپنے رب کو گڑگڑا کر اور خفیہ انداز میں پکارو، بیشک وہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ زمین میں خوشحالی کے بعد فساد بپا مت کرو، امید اور خوف کیساتھ اللہ تعالی کو ہی پکارو، بیشک اللہ تعالی کی رحمت احسان کرنیوالوں کے قریب ہے۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں وہی رحمن و رحیم اور عزیز و حکیم ہے، اس کے اچھے نام اور اعلی صفات ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے ، وہی بلند و بالا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے بندے اور چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل ، اور متقی صحابہ کرام پر رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی اختیار کرو تو اللہ تعالی تمہارے امور سنوار دے گاا، اور تمھیں حال و استقبال میں کامیاب ہونے والوں سے بنا دے گا۔
اللہ کے بندوں!
اللہ کی جانب متوجہ رہو، ہمیشہ صرف اسی سے دعائیں مانگو، کیونکہ اس سے مانگنے والا کبھی نا مراد نہیں ہوا، اس سے امید رکھنے والا کبھی محروم نہیں رہا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “میں دعا کی قبولیت کیلیے پریشان نہیں ہوتا، بلکہ میں دعا مانگنے کی توفیق ملنے کی تمنا کرتا ہوں؛ کیونکہ جب مجھے دعا کی توفیق مل گئی تو قبولیت کی ضمانت اللہ تعالی نے دی ہوئی ہے”۔
انسان کو ہر وقت نت نئی ضرورت کا سامنا ہوتا ہے بسا اوقات ایک ہی لمحے میں کئی ضروریات ہوتی ہیں، چنانچہ ہر انسان اپنے علم کے مطابق اللہ تعالی سے خیر مانگے، اسلام کی وجہ سے جن مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے ان کیلیے دعائیں کرے، اور اپنے علم کے مطابق بری چیزوں سے پناہ چاہے۔
مانگنے کی سب سے بڑی چیز رضائے الہی اور جنت ہے، نیز جہنم اور جہنم کی طرف لے جانے والے اعمال سے پناہ مانگنا سب سے بڑی پناہ مانگنے کی چیزیں ہیں۔
مسلمان کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو اللہ تعالی سے الحاح کیساتھ مانگے ؛ کیونکہ اللہ تعالی غنی، کریم، حمید، اور عظیم سخی ہونے کیساتھ ساتھ قادر مطلق بھی ہے، حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: (میرے بندو! اگر ابتدا سے لیکر انتہا تک، جن ہوں یا انسان سب کے سب ایک ہی میدان میں جمع ہو کر مجھ سے مانگنے لگیں تو میں ہر ایک کو اس کی ضرورت بھی دے دوں تو اس سے میرے خزانوں میں اتنی ہی کمی آئے گی جتنی سمندر میں سوئی ڈال کر نکالنے سے آتی ہے) مسلم نے اسے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ: (جو شخص اللہ تعالی سے نہ مانگے تو اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے)
مستحب ہے کہ نبی ﷺ سے منقول جامع دعائیں مانگی جائیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
البقرة – 201
ہمارے پروردگار ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
آپ ﷺ عام طور یہی دعا کثرت سے فرماتے تھے۔
اسی طرح حدیث نبوی میں ہے کہ:
[یا اللہ! میں تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے قول و فعل کا سوال کرتا ہوں ، اور میں تجھ سے جہنم اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و عمل سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔] اور اسی طرح اللہ تعالی سے حسن خاتمہ کی دعا بھی کرے۔اَللَّهُمْ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ ، وَأَعُوذُّ بِكَ مِنَ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو۔
اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)۔
اس لیے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً
کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین !
یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل و رسوا فرما، اور دین کے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! شرک اور مشرکوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! دین سے متصادم بدعات کو قیامت تک کیلیے ذلیل و رسوا فرما،یا ذو الجلال والاکرام، یا قوی! یا متین!
یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ عطا فرما۔
یا اللہ! ہمیں ہمارے نفسوں اور برے اعمال کے شر سے تحفظ عطا فرما۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان ، شیطانی چیلوں ، لشکروں اور اس کے ہمنواؤں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے ہر قسم کی خیر کا سوال کرتے ہیں چاہے وہ فوری ملنے والی ہے یا تاخیر سے، ہمیں اس کے بارے میں علم ہے یا نہیں، اور اسی طرح یا اللہ! ہم ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں چاہے وہ فوری آنے والا ہے یا تاخیر سے، ہمیں اس کے بارے میں علم ہے یا نہیں۔
یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ ! یا ارحم الراحمین! دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں رحم کرنے والے! تیرے ہی ہاتھ میں خیر و بھلائی ہے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! ہمیں فائدہ مند بارش عطا فرما، جو نقصان کی باعث نہ ہو، یا ذو الجلال و الاکرام!
یا اللہ! ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، اور ہماری دھرتی کی حفاظت فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ہمارے ملک کی ہمہ قسم کے نقصانات اور شر سے حفاظت فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ہمیں ہر قسم کے شریر کے شر سے محفوظ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! خادم حرمین شریفین کو تیری مرضی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں تیری مرضی کے مطابق توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کی تمام تر کاوشیں تیری رضا کیلیے مختص فرما ، اور ان کی ہر اچھے کام پر مدد فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! انہیں درست فیصلوں کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! یا رب العالمین! ان کے ذریعے اپنے دین کو غالب فرما، ان کے ذریعے اعلائے کلمۃ اللہ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ یا اللہ! ان کے دونوں نائبوں کو تیری مرضی اور تیری رہنمائی کے مطابق صرف وہی کام کرنے کی توفیق عطا فرما جن میں اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ ہو، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا اللہ! ان کی قبروں کو منور فرما، ان کی نیکیوں میں اضافہ فرما، ان کے گناہوں سے در گزر فرما۔
یا اللہ! ہمارے تمام امور آسان فرما دے، ہمارے سینوں کو بیماریوں سے پاک فرما دے، اور یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تمام مسلمان مرد و خواتین اور مومن مرد و خواتین کے معاملات سنوار دے، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90/91
اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔
عظمت والے اور جلیل القدر پروردگار کو خوب یاد رکھو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ تعالی کی یاد بہت بڑی عبادت ، اللہ تعالی تمہارے تمام کاموں سے باخبر ہے۔