دورِ حاضر میں دینی تعلیم کی اہمیت و ضرورت، قرآن و حدیث کی روشنی میں

Dor-E-Hazir-Main-Deeni-Taleem-Ki-Ahmiyat

دینی تعلیم کی اہمیت و فضیلت مسلم ہے. قرآن و حدیث میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے متعلق بہت تاکید آئی ہے اور اس کی اہمیت و فضیلت کو ہمارے نبی پاک ﷺ نے خوب اجاگر کیا ہے ، دینی تعلیم جہاں نعمت خداوندی ہے وہیں رحمت ربانی بھی ہے، جہاں ذریعہ برکت ہے تو وہیں باعث نجات اور وجہِ سربلندی ہے، اصل علم تو دینی تعلیم ہے،یہی علم ِدین انسان کو گمراہی سے ہدایت تک پہنچاتا ہے، تاریکی کے اندھیروں سے نکال کر نور ہدایت سے روشناس کرتا ہے،اسی علم دین سے وابستگی نے قومِ مسلم کو ہرمحاذ پر کامیاب کیا، مگر موجودہ دور میں دینی تعلیم سے نا آشنائی اتنی بڑھ چکی ہے کہ بہت سارے لوگ وضو اور غسل کے فرائض سے بھی ناواقف ہیں جو ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے کافی شرمناک ہے اس محرومی کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین کی تربیت کا ڈھنگ بدل چکا ہے اب وہ اپنے بچوں کو پہلے انگریزی زبان اور مغربی تہذیب و تمدن سے آشنا کروانا پسند کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بچپن ہی سے دینی تعلیم سے محروم ہونے کے سبب اسلام اور اس کی تعلیمات سے بہت دور ہو چکے ہوتے ہیں حتیٰ کہ حرام و حلال کی تمیز بھی نہیں کر پاتے۔درج ذیل سطور میں دینی تعلیم کی فضیلت ، اہمیت اور ضرورت کے تحت چند سطور قارئین کی خدمت میں پیش كرنا مقصودہے ۔

حکم الہی

ہمیں دینی تعلیم کے حصول کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے،قرآن کریم کے تقریباً 78 ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو اللہ عزوجل نے رسول کریم ﷺ کے قلب اطہر پہ نازل فرمایا وہ ’’ إقرأ ‘‘ہے  یعنی پڑھیئے اور قرآن پاک کی 6ہزارسے زائد آیتوں میں سب سے پہلے جو 5 آیتیں نازل فرمائی گئیں، ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم ِدین کی عظمت وفضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی امت کے نام اپنے پہلے ہی پیغام میں علم ِدین کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ، خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ، الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

( سورۃ العلق :آیت 1 تا 5 )

اے پیغمبر ! آپ پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے (ہر چیز کو) پیدا کیا ہے، (اور) انسان کو خون کےلوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھیے اور آپ کا پروردگار بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا، انسان کو وہ کچھ سکھادیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

سورہ علق کی ان پانچ آیات کے ساتھ نزولِ قرآن پاک کا آغاز ہوا ، یہ وحی الہی کی پہلی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے دینی علم کی اہمیت کے پیش نظر لفظ ’’ إقرأ ‘‘ کو تکرار کے ساتھ لاکر دینی تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ۔پہلی دفعہ حصول علم کے حکم کے ساتھ اپنی خالقیت کا تذکرہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان کے وجود کا مقصد ہی دینی علم سے واقفیت ہے ۔دوسری دفعہ حکم کے ساتھ اپنی شان کریمی کا تذکرہ اس بات کی طرف اشارہ ہے اگر مسلمان دنیا وآخرت میں قابل تکریم رہنا چاہتے ہوں تو سب سے پہلے اسلامی تعلیم حاصل کریں ۔

امیر امؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :

تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا. ثم قَالَ الإمامُ البخاري رحمه الله: وَبَعْدَ أَنْ تُسَوَّدُوا، وَقَدْ تَعَلَّمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كِبَرِ سِنِّهِمْ

(صحيح البخاري 1/ 129)

اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سرداری دی جانے سے پہلےدین کی سمجھ حاصل کرو ،اور امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا۔‏‏‏‏

لہذا معلوم ہوا کہ اسلامی تعلیم حاصل کرنا مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کا اولین حکم ہے ، یہ حقیقت میں مقصد حیات کے ساتھ عزت وشرافت کی ایک مضبوط بنیاد بھی ہے ، جس سے صحیح معنوں میں وابستگی دنیا کی قیادت وسیادت کا  اہل بنادیتی ہے ، اسی لیے اسلام نے دینی تعلیم کو مسلمانوں کے لیے اختیاری نہیں رکھا بلکہ لازمی قرار دیا ہے چنانچہ  رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

طلبُ العلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ  

(صحيح الجامع: 3914)

شرعی علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔

حصول ِعلم کی فرضیت کی نوعیت

علم دو طرح پر فرض ہے ، فرض کفایہ اور فرض عین

فرض کفایہ :  یہ ہے کہ جمیع عقائد و احکام کا تفصیلی علم(دلیل و استدلال کے ساتھ )  اس کا سیکھنا  اور سکھلانا مت پر فرض ہے ،دوسرے لفظوں میں ایسے علماء تیار کرناجو اسلام کےعقائد و احکام کوامت کے عام افراد تک کماحقہا پہنچائیں ، اور علمی دفاع کرسکیں ، (یہ علم اگر کچھ افراد بھی سیکھ لیں تو دوسروں کو کفایت کرتا ہے )

فرض عین  :  فرض عین  وہ علم جو ہر فرد امت پر کسی نہ کسی صورت میں سیکھنا فرض ہے ،یہ ان عقائد و احکام کا اس قدرعلم ہے جس کے نہ ہونے سے بنیادی ایمان میں خلل و نقص آتا ہےاور اسی طرح عملی فرائض کا سیکھنا بھی فرض ہے ، جن کے بغیر اطاعت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ، اور نجات اخروی سے محرومی ہوتی ہے ۔

کونسا علم فرض ہے؟

اسلام جس علم کو واجب اور ضروری قرار دیتا ہے اور جس علم کی بنیادی اور اولین اہمیت ہے وہ علم دین اور علم آخرت ہے ۔ علم دین سے محروم انسان چاہے دنیا کے کیسے ہی اہم اور عظیم الشان علوم و فنون کا فاضل اور ماہر ہو ، دین و شریعت کی نظر میں وہ جاہل ہی ماناجائے گا۔ کیونکہ علم دین ہی وہ علم ہے جو انسان کو اس کے خالق اور رب کا عرفان عطا کرتا ہے ۔ ذہن و فکر کو صحیح عقائد اور اعلیٰ خیالات کی جلا بخشتاہے ۔ اعمال و افعال کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا صحیح رخ دے کر اس صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے ۔ جو دائمی نجات اورابدی عزت و افتخار کا باعث ہے ۔ اس لئے قرآن و حدیث میں جہاں کہیں بھی ’’ علم ‘‘ کا لفظ آیا ہے ، مفسرین کی وضاحت کے مطابق تمام جگہوں پر علم دین مراد ہے ، جس کا تعلق قرآن و حدیث اور فقہ کے جاننے اور سیکھنے سے ہے ۔حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

طَلَبُ ‌الْعِلْمِ ‌فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ: أَنْ ‌يَعْرِفَ ‌الصَّوْمَ وَالصَّلَاةَ ، وَالْحَرَامَ وَالْحُدُودَ وَالْأَحْكَامَ1

جس علم کو سیکھنا فرض ہے، اس سے مراد وہ علم ہے، جس کے ذریعے روزہ، نماز، حلال و حرام اور حدود و احکام شریعت کی معرفت حاصل ہوتی ہو۔

اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  ہرشخص پر اس قدر علم سیکھنا واجب ہے جس قدر سیکھے بغیر اس پر عائد فرائض کی ادائیگی ممکن نہیں ، جیسے ، وضو ء اور نماز کے مسائل ، اسی طرح اس شخص کے لیے زکوٰۃ اور حج وغیرہ کے مسائل جس کے پاس مال ہو ، فرماتے ہیں ـ ”جس قدر علم سیکھنا اس پر فرض ہو چکا ہے اس قدر علم سیکھنے کے لیے اگرگھر سے والدین کی اجازت کے بغیر نکلنے کی ضرورت پڑے تو نکل کر سیکھ لینا چاہیے ـ البتہ علم کے باقی مسائل جن کا تعلق فرض کفایہ سے ہے ان کے سیکھنے کے لیے والدین کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے.2 (

امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے ایک بار پوچھا گیا : کس قدر علم سیکھنا ہرشخص پر ضروری ہے اور اس سے ناواقف رہنے کی گنجائش نہیں ؟ فرمایا : ”کسی بھی چیز کی طرف پیش قدمی علم کے بغیر نہ کرے ، بلکہ سوال کے ذریعہ علم حاصل کرے ، مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر کسی شخص کے پاس مال و دولت نہیں تو زکوٰۃ کے مسائل سیکھنا واجب نہیں ، البتہ اگر اس کے پاس دو سو درہم چاندی ہو ، تو اس پر زکاتہ کے مسائل کا اس قدر سیکھنا واجب ہے کہ جس سے وہ اس فریضہ کو ٹھیک طریقے سے ادا کر سکے، یعنی مذکورہ مال سے کس قدر زکاتہ نکالنی ہوگی ـ کب اور کہاں اسے ادا کرنا ہوگا ، یہی معاملہ باقی فرائض کے ساتھ بھی ہے ـ3

عبداللہ بن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والدمحترم (یعنی امام احمد بن حنبل متوقی 241ھ) سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جس پر طلب علم واجب ہے؟ آپ نے فرمایا :” اس قدر علم کہ جس سے نماز ، روزہ ، نیز دیگر شرائع اسلام کو صحیح طریق سے قائم کر سکے” ہر شخص پر حاصل کرنا ضروری ہے ـ4

آج ملت کے نونہالوں کی بڑی تعداد جہالت میں گھری ہوئی ہے، جن کے مستقبل کی فکر ان کے والدین کو ہونی چاہئے اور اس کے لئے جنگی خطوط پر کام کرنے اور دینی مدارس کو دور حاضر سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

دینی تعلیم کی اہمیت وفضیلت ،قرآن وحدیث کی روشنی میں

مسلمان کے لیے اسلامی تعلیم حاصل کرنا نہ صرف ایک واجب الادا فریضہ ہے بلکہ اس فریضے کی بڑی اہمیت وفضیلت بھی ہے ، اللہ تعالی ٰکا ارشاد ہے :

 يَرْفَعِ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ

(سورۃ المجادلة : 11 )

اللہ تم میں سے ایمان والوں اور اہل علم کے درجات بلند کرے گا ۔

قرآن کا علم ترقی کا ذریعہ

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّ اللهَ يرفعُ بهذا الكتابِ أقوامًا ويضعُ به آخرِينَ

(صحيح مسلم:817)

بے شک اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعہ قوموں کو اٹھاتا ہے اور اسی کتاب کے بدلے قوموں کو نیچے بھی گراتا ہے ۔

یعنی جوقوم قرآن کو پڑھتی ہے اور اس پر عمل کرتی ہے اللہ اسے بلند کرتا ہے اور جو قوم قرآن سے اعراض کرتی ہے اور اس کے مقتضیات پر عمل کرنے سے گریز کرتی ہیں اللہ اسے ذلیل ورسواکرتا ہے اور نیچے گرادیتا ہے ۔

ان دونوں قرآنی آیت وحدیث سے معلوم یہ ہوا کہ قرآن ہی انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ترقی کا زینہ ہے اسی لئے قرآن کوسیکھنےاورسکھانےوالے کو سب سے بہتر کہا گیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

 خيرُكم مَن تعلَّم القرآنَ وعلَّمَهُ

(صحيح البخاري:5027)

’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ‘‘۔

علم کا راستہ ، جنت کا راستہ

علم دین کے حصول سے جنت کے راستے آسان ہوتے ہیں ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:

من سلكَ طريقًا يلتمسُ فيه علمًا ، سهَّل اللهُ له به طريقًا إلى الجنةِ

(صحیح مسلم:2699)

’’جو علم دین کی تلاش میں نکلتا ہے اللہ اس کے لئے جنت کے راستے آسان کردیتا ہے ‘‘۔

دعائے مغفرت

دین کے طالب علم اور علماءکائنات کی وہ معزز ترین ہستیاں ہیں جن کے لیے فرشتے اپنا پَر بچھاتے ہیں اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں ، رسول اللہ کا فرمان ہے :

وإنَّ الملائكةَ لتضعُ أجنحتَها رضًا لطالبِ العِلمِ ، وإنَّ العالِمَ ليستغفرُ له من في السماواتِ ومن في الأرضِ ، والحيتانُ في جوفِ الماءِ

(صحيح أبي داود: 3641، والترمذي :2682)

بیشک فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں۔

علم انبیاء کی میراث

 علم انبیاء کی میراث ہے اور علماء انبیاء کے وارث ہیں۔رسول کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

وإنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ ، وإنَّ الأنبياءَ لم يُورِّثُوا دينارًا ولا درهمًا ، ورَّثُوا العِلمَ فمن أخذَه أخذ بحظٍّ وافرٍ

(صحيح أبي داود: 3641، والترمذي :2682)

بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لئے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا۔

ذرا اس حدیث پہ غور کریں کہ کتنا بڑا مقام ہے نبوت کا علم حاصل کرنے والےاور علم حاصل کرکے عالم بننے والوں کا ۔ آپ ڈاکٹروانجینئر نہیں بنے تو پستی کا احساس نہیں کرنا ہے، علم نبوت سے بڑھ کو دنیا کا کوئی علم نہیں ہے ۔ دنیاوی علوم، دنیا میں محض دنیاکمانے تک محدود ہےجبکہ علم نبوت کا دنیا میں ، مرنے کے بعداور آخرت تک اس کااجروفائدہ پہنچاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی معرفت وخشیت

علمِ دین کی وجہ سے دنیا وآخرت میں درجات کی بلندی ، فرشتوں پر فوقیت کے علاوہ ا للہ تعالیٰ کی صحیح معرفت وخشیت حاصل ہوتی ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ

( سورہ فاطر : 28 )

بے شک اللہ سے اس کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں، بے شک اللہ بڑا زبردست، بڑا مغفرت کرنے والا ہے۔

حقیقی معنوں میں اگر کسی کے پاس علم ہوں تواس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا ایسا خوف اور درد پیدا ہوتا ہے جیسانبی کریم ﷺ کےاندر موجود تھا ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:

والذي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بيَدِهِ، لو تَعْلَمُونَ ما أعْلَمُ، لَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا ولَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا.

(صحيح البخاري |: 6637)

”اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم بھی آخرت کی وہ مشکلات جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم زیادہ روتے اور کم ہنستے۔“

حاصل کلام

ان نصوص سے نہ صرف علم دین کی اہمیت وفضیلت معلوم ہوتی ہے بلکہ اس کی اشد ضرورت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔لیکن افسوس آج جبکہ علم دین کو رضائے الہی کے بجائےکسب معاش کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے اور مقصد اشاعت دین و اصلاح امت کو بھی فراموش کر دیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے لوگوں کے بارے میں وعید سناتے ہوئے فرمایا :

من تعلَّم علمًا مما يبتغى به وجهَ اللهِ تعالى ، لا يتعلَّمُه إلا ليُصيبَ به عرضًا من الدنيا لم يجِدْ عَرْفَ الجنةِ يومَ القيامةِ

(اخرجه ابوداؤد ؛ 3664 ، وحسنه الالبانی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے علم دین کو جس سے خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود ہوتی ہے محض کسی دنیاوی فائدہ کے لیے سیکھا تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا“

معاشرے کی المناک صورت حال

ان سب فضائل کے باوجود بھی آج معاشرہ علم دین سے کوسوں دور ہوتا جارہا ہے اور دن بہ دن دینی علوم سے دوری میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے، اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے کہ ایک بچہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود صحیح کلمہ پڑھنا نہیں جانتا ، طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتا ہے، قرآن مجید کی چھوٹی چھوٹی سورتیں بھی صحیح ڈھنگ سے نہیں پڑھ پاتا، اسلام کے بنیادی عقائد اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتا، شہر،  گاؤں اور دیہات ،ہر جگہ بقدر ضرورت دینی تعلیم کا فقدان ہے اور افسوس صد افسوس یہ ہے کہ مسلم معاشرہ دینی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت ہی کو سرے نظر انداز کررہا ہے اور سارا زور صرف اور صرف عصری علوم کو حاصل کرنے پر لگا رہا ہے،اعلی نوکری اور عمدہ جاب کے چکر میں دین و شریعت کی پاس داری کا لحاظ بھلا بیٹھا ہے، دنیاوی تعلیم کا حصول شریعت میں منع نہیں ہے، لیکن شریعت کو پس پشت ڈال دینا اور دینی تعلیم سے یکسر غافل ہوکر زندگی گذارنا دنیا میں بھی نقصان دہ اور آخرت میں بھی موجب عقاب ہے،حالانکہ دین کا اتنا علم سیکھنا کہ جس کے ذریعہ انسان شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکے، ہر کلمہ گو پر فرض ہے، خواہ اس کا تعلق عقائد سے ہو یا عبادات سے، معاملات سے ہو یا معاشرت سے۔

حصول علم کیلئے دعا کا حکم

اللہ عزوجل کی بارگاہ اقدس میں علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اللہ عزو جل نےعلم کےبے شمار فضائل اور برکات کے سبب اپنے نبی ﷺ کو اور نبی ﷺ کی امت کوحصول علم کیلئے دعا کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ ارشاد فرمایا:

وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا

(سورہ طہ : 114)

اور دعا کیجیے کہ میرے رب مجھے اور زیادہ علم دے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی چیز علم سے بڑھ کر شرف والی ہوتی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اسے مزید مانگنے کا حکم دیتا جس طرح اس نے اس نے اپنے نبی ﷺ کو مزید حصولِ علم کی دعا کا حکم دیا ہے ۔ (تفسیرقرطبی ، تفسیر سورہ طہ)

علم سےکون سا علم مراد ہے؟

امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علم کی فضیلت میں یہ آیت بالکل واضح ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو علم کے علاوہ کوئی اور چیز مانگنے کا حکم نہیں دیا ہے ۔اور یہاں پر علم سے مراد علم ِشرعی ہے جو اس کے دین سے متعلق عبادات ومعاملات کا فہم عطا کرے اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے صفات ِ علیا کی پہچان کرائے ۔( فتح الباری ، کتاب العلم ، باب فضل العلم (

علمائے کرام کی فضیلت، قرآ ن وحدیث کی روشنی میں

قرآن وحدیث میں علماء کرام کی بڑی فضیلت اور شان بیان ہوئی ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّ فضلَ العالمِ على العابدِ كفضلِ القمرِ ليلةَ البدرِ على سائرِ الكواكبِ

(صحيح أبي داود:3641)

بلاشبہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسے ہی ہے جیسے کہ چودھویں کے چاند کی سب ستاروں پر ہوتی ہے ۔

ایک اور مقام پر حضرت امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

ذُكِرَ لرَسولِ اللهِ صلَّى اللهُ علَيه وسلَّم رجُلانِ؛ أحدهما عابدٌ، والآخَرُ عالِمٌ، فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ علَيه وسلَّم: فضلُ العالمِ على العابدِ كفضلي على أدناكم

(صحيح الترمذي: 2685)

رسول اللہ ﷺکے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے“

اہل علم فرشتوں سے ممتاز

جہاں اللہ تعالیٰ نے علم کی وجہ سے اہل علم کو فرشتوں سےبھی ممتاز رکھا ، وہیں ان کی گواہی کو اپنی گواہی کے ساتھ ذکرکرنے کا اعزازبخشا چنانچہ ارشاد فرمایا:

شَهِدَ اللہُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

(سورہ آل عمران :18 )

 اللہ تعالیٰ، فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عدل کو قائم رکھنے والا ہے، اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہاں اہل علم سے مراد قرآن و سنت کا علم رکھنے والے ہیں۔

علمائے حق کے لیے فرشتوں کی دعا

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمايا :

 إنَّ اللَّهَ وملائِكتَهُ وأَهلَ السَّماواتِ والأرضِ حتَّى النَّملةَ في جُحرِها وحتَّى الحوتَ ليصلُّونَ على معلِّمِ النَّاسِ الخيرَ

(صحيح الترمذي: 2685)

یعنی اللہ تعالي اور اس کے فرشتے ، آسمان اور زمين والے يہاں تک کہ چيونٹي اپنے بل ميں اور مچھلياں سمندر کي گہرائي ميں لوگوں کو خير اور بھلائي کي بات سکھانے والوں کے ليے دعاکرتي ہيں۔

اہلِ علم خیر و بھلائی کامرکز

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

مَن يُرِدِ اللہُ به خَيْرًا يُفَقِّهْهُ في الدِّينِ، وإنَّما أنا قاسِمٌ واللہُ يُعْطِي

(صحيح البخاري:71)

’’ اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کے متعلق سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے ، میں تو صرف (علوم الہیٰ کو) تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ (فہم) اللہ عطا کرتا ہے۔

وإنما أنا قاسم» ”اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں“ کی تشریح میں امام قسطلانی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

أي أقسم بينكم تبليغ الوحي من غير تخصيص5

یعنی ”میں بغیر کسی تخصیص کے تمہارے درمیان وحی کو تقسیم کر رہا ہوں۔“

لائق احترام وعزت

جب اللہ تعالیٰ نے علم والے کو سب سے افضل درجے پر فائز کیا تو ہم سب بھی صاحب علم کے احترام واکرام کے پابند ہیں کیونکہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سيأتيكُم أقوامٌ يطلبونَ العِلمَ فإذا رأيتُموهم فقولوا لَهُم مَرحبًا مَرحبًا بوصيَّةِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ واقْنوهُم قلتُ للحَكَمِ ما اقْنوهُم قالَ علِّموهُم6  

’’ تمہارے پاس لوگ علم کی تلاش میں آئیں گے۔ لہٰذا جب تم ان کو دیکھو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق انہیں «مرحبا» (خوش آمدید) کہو، اور انہیں علم سکھاؤ“۔امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کےاستاد محمد بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے حکم سے پوچھا کہ  «اقنوهم»  کے کیا معنی ہیں، تو انہوں نے کہا: «علموهم»، یعنی انہیں علم سکھلاؤ۔

قابلِ توجہ علم

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کا علم ایسا علم ہے جو انتہائی توجہ اور شوق سے حاصل کیے جانے کے لائق ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم ﷺ سے یہ علم حاصل کیا اور آپﷺ نے انہیں خوشخبری دی کہ ان سے بھی یہ علم حاصل کرنے کے لیے دور دراز سے لوگ آئیں گے۔چنانچہ ہر دور میں مسلمان اس مبارک علم کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک سفر کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

مبارکباد کے لائق

دینی علوم کے طلباء مبارکباد کے لائق ہیں جنہیں خوش آمدید کہنے کی وصیت خود نبی ﷺنے کی ہے، دوسرے علوم و فنون کو یہ شرف حاصل نہیں اگرچہ ان کا سیکھنا بھی مسلمان معاشرے کی ضرورت ہے۔لہذاعلمائے دین کو چاہیے کہ طلبہ سے شفقت و محبت کا اظہار کریں اور انہیں دینی علوم کے شرف اور مقام و مرتبہ سے آگاہ کریں تاکہ طلبہ توجہ اور محنت سے یہ علم حاصل کریں اور اس سے راستے میں آنے والی مشکلات کو صبر و حوصلہ سے برداشت کریں۔

لائق اطاعت

اور حصولِ علم کے بعد جب طالب علم سےصاحبِ علم بن جائیں تو ان کی عزت وتکریم کے ساتھ ساتھ ان کی اطاعت بھی ضروری ہے ، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

أطیعوا الله وأطیعوا الرسول وأولی الأمر منكم یعني أهل الفقه والدین  وأهل طاعة الله الذین یعلمون الناس معالی دینهم ویأمرونهم بالمعروف وینهونهم عن المنكر ، فأوجب الله طاعتهم 7

اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں جو با اختیار ہیں ان کی اطاعت کرو ، یعنی دین کی سمجھ رکھنے والے دین دار اور اللہ کے فرمان برداروں کی اطاعت کرو جو لوگوں کو دین کی خوبیاں سکھاتے ہیں ، نیکی کا حکم دیتے ہیں ، برائی سے روکتے ہیں، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے علماء کی اطاعت لازم قرار دی ہے ۔

وكذا قال مجاهد، وعطاء، والحسن البصري، وأبو العالية: وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ يعني العلماء8

یعنی یہی بات امام مجاہد ، امام عطاء بن سائب ، امام حسن بصری اورامام ابو العالیہ رحمہم اللہ سےبھی منقول ہے، فرماتے ہیں کہ ” اولی الامر “ سے مراد علماء کرام ہیں۔

امام فخرالدین رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” اولی الامر “ کی تفسیر میں متعدد اقوال ہیں۔ ان میں سے ایک قول یہ بھی ہےکہ ’’ اُولی الامر‘‘ سے مراد وہ علماء حق ہیں جو احکام شرعیہ کے مطابق فتوی دیتے ہیں اور لوگوں کو دین کی تعلیم دیتے ہیں ۔

تو آیت ” اولی الامر منکم “ سے مراد علماء حق ہیں جو قرآن اور سنت سے مسائل استنباط کرتے ہیں اور پیش آمدہ مسائل میں فتوے دیتے ہیں اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے :

وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ

(سورۃ النساء : 83)

اور اگر وہ اس معاملہ کو رسول کی طرف اور اپنے اولی الامر کی طرف لوٹاتے تو وہ لوگ اسے ضرور جان لیتے جو ان میں سے اس مسئلہ کا اصل مطلب نکالتے ہیں۔

ائمہ فتوی کی پیروی

خلفاء راشدین کے دور کے بعد ہر زمانہ میں مسلمان ،امراء اور حکام کے مقابلہ میں ائمہ فتوی کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ آج بھی اگر عدالت کسی عورت کا یک طرفہ فیصلہ کرکے اس کا نکاح فسخ کردیتی ہے تو مسلمان اس فیصلہ کو ائمہ فتوی کے پاس لے جاتے ہیں اگر وہ اس کی تائید کردیں تو اس فیصلہ پر عمل کرکے عورت کا نکاح کردیتے ہیں ورنہ نہیں کرتے اور خلفاء راشدین خود اصحاب علم اور ائمہ فتوی تھے اس سے معلوم ہوا کہ ” اولی الامر منکم “ سے مراد ہر دور میں ائمہ فتوی اور علماء اور فقہاء ہی ہیں۔

أولِي الامرکی اطاعت

أولِي الامرسے مراد چاہے صاحبِ اقتدار ہو یا چاہے صاحب علم ، دونوں صورتوں میں ان کی اطاعت، اللہ رب العزت اور نبی کریم صل الله علیہ وآله وسلم کی اطاعت سے مشروط ہے، وگرنہ ان کی اطاعت واجب نہیں۔جیساکہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ ‏9

اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔

إنَّما الطَّاعَةُ في المَعروفِ.

( صحيح البخاري : 7257)

 ’اطاعت صرف نیکی کے کام میں ہے۔

دینی علم سے غفلت کے نقصانات

موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان رفتہ رفتہ اسلامی تعلیم سے دوری اور بیزاری بڑھتی جارہی ہے ، اور ساری توجہ محض دنیوی تعلیم کی طرف کی جا رہی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اُن افراد کی مذمت کی ہے جو آخرت کے علم سے غفلت برتتے ہیں اور صرف دنیا کے ظاہری علوم سے واقف رہتے ہیں ، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ

(سورۃ الروم : 7 )

وہ لوگ دنیاوی زندگی کے ظاہری امورکا علم رکھتے ہیں جبکہ آخرت کے علم سے بالکل ہی بے خبر ہیں۔

لہذا ہم مسلمانوں کو چاہیئے کہ کفار کی طرح صرف دنیوی تعلیم کو اہمیت نہ دیں بلکہ سب سے پہلے دینی تعلیم کو لازمی اہمیت دیں۔

اللہ کی محبت سے محرومی

دینی علم سے غفلت برتنے والا اور دنیوی علم کو اہمیت دینے والا نہ صرف قابل ِ مذمت ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی سچی محبت سے محروم اور اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی کا شکار بھی ہے ،جیساكه رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّ اللهَ تعالى يُبغِضُ كلَّ عالِمٍ بالدنْيا ، جاهِلٍ بالآخِرَةِ  

(صحيح الجامع : 1879)

بےشک اللہ تعالیٰ ہر اس آدمی کو ناپسند کرتا ہے جو دنیا کا علم اپنے پاس تو رکھتا ہے لیکن آخرت کے علم کے بارے میں جاہل ہے ۔

دینی علم سے غفلت علامتِ قیامت

دینی علم کی کمی اور روز بروز بڑھتی ہوئی جہالت قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ، جیساکہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنَّ مِن أشْرَاطِ السَّاعَةِ أنْ يُرْفَعَ العِلْمُ، ويَكْثُرَ الجَهْلُ

(صحيح البخاري : 5231،  ومسلم :2671)

قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن و حدیث کا علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی۔

دینی علوم کی منفعت

دینی علوم کی منفعت دائمی ہے،جو انسان کے مرنے کے بعد بھی تا قیامت اسے اجر وثواب  ملتا رہتا ہےجبکہ دنیاوی علوم فانی اور اس کا نفع عارضی ہے۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِذَا مَاتَ الإنْسَانُ انْقَطَعَ عنْه عَمَلُهُ إِلَّا مِن ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِن صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو له.

صحيح مسلم :1631

جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے سارے کاموں کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے۔ مگر تین کاموں کا ثواب بند نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کا ثواب برابر جاری رہتا ہے، صدقہ جاریہ، علم جس سے نفع حاصل کیا جائے، نیک اولاد جو مر جانے کے بعد اس کے حق میں دعا کرتی رہے۔

نفع بخش علم   :  اس میں لوگوں کو تعلیم دینا،طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا،تصنیف وتالیف ، درس وتدریس، دعوت وتبلیغ کا سلسلہ قائم کرنا،مدارس کی تعمیرکرنا،دینی کتب کی طباعت اور ان کی نشرواشاعت کا بندوبست کر نا وغیرہ امورسب ہی داخل ہیں۔

دینی تعلیم باعث ِرحمت وبركت

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا:

وَما اجْتَمع قَوْمٌ في بَيْتٍ مِن بُيُوتِ اللهِ، يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بيْنَهُمْ؛ إِلَّا نَزَلَتْ عليهمِ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَحَفَّتْهُمُ المَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَن عِنْدَهُ،

صحيح مسلم: 2699

اور جو لوگ اللہ کے گھروں (مسجدوں اور دینی مدرسوں میں) جمع ہو کر قرآن مجید پڑھتے اور پڑھاتے ہیں تو ان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے سكینت نازل هوتی ہے اور اللہ کی رحمت ان پر چھا جاتی ہے اور رحمت کے فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس والے فرشتوں سے ان کا تذکرہ فرماتا ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا كہ علمی حلقہ جات اللہ کی خصوصی رحمت کے مقام ہیں، لہذا درس قرآن و حدیث کی مجلس ہو یا مدارس دینیہ میں کسی علم کی کلاس، اس میں حاضری کا اہتمام کرنا چاہیے اور غیر حاضری سے زیادہ سے زیادہ اجتناب کرنا چاہیے۔

علمِ دین کی ضرورت کیوں؟

 یہ ایک اہم سوال ہے ،صاحبان علم و دانش نے شرح و بسط کے ساتھ اس کے بہت سارے جوابات تحریر کئے ہیں خلاصہ یہ ہے کہ علم دین کی ضرورت اس لئے ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ سے سمجھ میں آ رہا ہے:

 وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ  

(سورۃ الذاریات:56)

اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اسی لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسان کی تخلیق عبادت کے لیے کی گئی ہے اور علم کے بغیر عبادت کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے علم کا حاصل کرنا فرض ہوا ۔ نیز قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو اپنے محبوب ﷺ کی پیروی کا حکم فرمایا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے:

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ  إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

(سورۃ الحشر :7 )

جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لےلو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز رہو ، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو،  یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے۔

 ظاہر سی بات ہے کہ جب آدمی کے پاس دینی تعلیم نہیں ہوگی تو وہ نہ تو آپ ﷺ کی تعلیمات کو اپنا سکتا ہے اور نہ ہی منع کی ہوئی باتوں سے خود کو روک سکتا ہے ، اس لیے ضروری ہوا کہ علمِ دین حاصل کرے تاکہ درست طریقے پر حضور ﷺ کی اتباع و تابعداری کر سکے۔

دورحاضر میں علم دین کی اہمیت اور اس کی ضرورت

دورحاضر میں علم دین کی اہمیت اور اس کی ضرورت شدیدترین حد تک بڑھ جاتی ہے ۔ اس بات کا موجودہ صورت حالات کے مطابق بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں ۔اس وقت اسلام کو بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے ، یہ فتنوں کا دور ہے ، برائیوں کے عروج کا فتنہ ، اولاد کی بے دینی ونافرمانی کا فتنہ، عورت کا فتنہ، مال ودولت کا فتنہ ، کفر اور اہل کفر کا فتنہ ، شرک وبدعت کا فتنہ ، عیش پرستی کا فتنہ ، الحاد کا فتنہ وغیرہ ۔

ان ساری صورت حال سے مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں علم دین سے آراستہ ہونا پڑے گا۔ الحمد للہ علم دین عمر کے کسی حصے میں بھی سیکھ سکتے ہیں ۔ مرد وعورت اور بچے سبھی عمروالے علماء کی رہنمائی میں علم دین بآسانی سیکھ سکتے ہیں ۔ ہمارادین نہایت ہی آسان ہے ۔ اس بات کو رب العالمین نے قرآن مجیدمیں اور نبی کریمﷺ نے حدیث پاک میں کئی مقامات پر واضح کیا ہے ۔اس وقت یقین کریں علم دین کی سخت سے سخت ضرورت ہے ۔ قرآن کو فہم وتدبر سے جاننے کی ضرورت ہے تاکہ ہم دین پرصحیح سے عمل کرسکیں ، اسلام اور مسلمانوں کے سامنے جو چیلنجز ہیں ان کا دندان شکن جواب دے سکیں ، سوشل میڈیاکے ذریعہ اسلام کی جس طرح غلط ترجمانیاں کی جارہی ہیں ان کا خاتمہ کرسکیں اور دنیا وآخرت میں زندگی کی اصل ترقی سے ہمکنار ہوسکیں۔

یہ سب کیسے ممکن ہے

یاد رکھیں یہ سب اس وقت ممکن ہے جب ہم کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کا علم حاصل کریں گے ۔ آپ کو عصری علوم سے کوئی نہیں روکتا ، بلاشبہ ہمارے لئے عصری علوم کی بھی ضرورت ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ علم دین کی ضرروت ہے۔ علم دین ہی سے حلال و حرام کی تمیز ہوسکتی ہے، مقصد تخلیق کی ادائیگی کا راز علم دین کے حصول میں ہی پنہاں ہے، یہی وہ علم ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کو اقرأ کے ذریعے سکھلایا ہے ،لہٰذا ضرورت ہے کہ ہم علم دین سے روگردانی کے بجائے اس کی اہمیت،ضرورت اور افادیت کو تسلیم کریں، نہ صرف تسلیم کریں، بلکہ اس سے مضبوط رشتہ استوار کریں، علم دین کے حصول میں اپنے آپ کو اپنی اولاد کو، اپنے خاندان کو تیار کریں۔ اگر ہم آج اس سے روگردانی کریں گے تو شاید آنے والی نسلوں کا دین اسلام اور شریعت محمدی پر باقی رہنا مشکل ہوجائے گا۔

معاشرہ کی موجودہ صورتِ حال

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے کہ:

إنَّ اللَّهَ لا يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، ولَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بقَبْضِ العُلَمَاءِ، حتَّى إذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُؤُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فأفْتَوْا بغيرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وأَضَلُّوا.

(صحيح البخاري: 100، ومسلم:2673)

’’ اللہ علم کو بندوں کے سینوں سے نہیں نکالے گا بلکہ وہ علماء کی روحیں قبض کر کے علم کو اٹھا لے گا ، حتیٰ کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جہلا کو رئیس بنا لیں گے ، جب ان سے مسئلہ دریافت کیا جائے گا تو وہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے ، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو گمراہ کریں گے ۔

اس حدیث شریف میں جو صورت حال بتائی گئی ہے اس وقت من وعن اسی صورت حال سے ہمارا معاشرہ گذر رہا ہے، علوم دینیہ سے بے رغبتی عام ہوگئی ہے، لوگوں کو دین اور علم دین سے کوئی رغبت نہیں رہی اور عام لوگ جاہلوں کو ہی اپنا سردار اورراہ نما بناچکے ہیں،ان ہی سے مشورے کرتے ہیں، حد تو یہ ہوگئی کہ اب ان ہی سے مسائل بھی پوچھ رہے ہیں، جس کے نتیجہ میں آج مسلمان عقائد و احکام میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں،عبادات و معاملات کی ادائیگی سے غافل ہیں،معاشرت و معیشت کے اسلامی اصول سے بالکلیہ ناواقف ہیں،حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد… دونوں کی ادائیگی پر کوئی توجہ باقی نہیں ہے، ذہنوں میں صبح وشام،رات ودن حرام اور حلال کی تمیز کے بغیر صرف دولت جمع کرنے کی فکر سوار ہے۔ امت کا متمول طبقہ مغربی تہذیب کا دلدادہ بنا ہوا ہے اور مشنری اسکولز میں بھاری فیس ادا کرکے اپنے بچوں کو ایسے لوگوں کے حوالے کر رہا ہے، جن کا اصل مشن مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے دور اور مغربی تہذیب سے قریب کرنا ہے ۔

امت مسلمہ کی ذمہ داری

 ایسے حالات میں امت مسلمہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کی پرورش شریعت اسلامی کے مطابق کرے، ان آستین کے سانپوں سے نئی نسل کو بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ عناصر مسلم بچوں کو دینی تعلیم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ نئی نسل کو مرتد بناکر، ان کو ایمان سے محروم کرکے یا صرف نام کا مسلمان بناکر دوزخ کا ایندھن بنانا ان تحریکوں کا اصل مقصد ہے اور پھر اس قسم کے مسلمانوں کو ’’سیکولر مسلمان‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں ہم مسلمانوں کو چوکنا رہنا چاہئے اور یہ بات ذہن میں بسا لینا چاہئے کہ ہم نئی نسل کو دینی تعلیم سے دُور رکھ کر ان کے دین و ایمان کو مستحکم نہیں کرسکتے۔ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ دل دہلانے والے واقعات آئے دن ہم سب کو پڑھنے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جرائم کا ارتکاب، والدین کا قتل اور ان پر جان لیوا حملے دین سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک علم دین کی صحیح قدردانی کی توفیق عطا فرمائے اور مادیت کے اس خطرناک دور میں علم دین کی شمع کو ہر تاریک گھر میں پہنچائے۔آمین!

  1. (الفقيه والمتفقه: ج 1 / ص: 168، للخطيب البغدادي)
  2. جامع بیان العلم و فضلہ (1/52 رقم 31)
  3. (الفقیہ والمتفقہ (1/171 رقم 162 ) و جامع بیان العلم :1/56 رقم 38 بسندصحیح)
  4. (الفقیہ والمتفقہ (1/173 ،  بسند صحیح)
  5. (ارشاد الساري، ج1 ص:170)
  6. (صحيح ابن ماجه: 203، وسلسلة الاحادیث الصحیحة: 280)
  7. (المستدركی علی الصحیحین للحاكم ، كتاب العلم ، فصل في توقیر العالم، بسند صحیح )
  8. (تفسیر ابن کثیر: سورۃ النساء،آیت :59 )
  9. (تخریج المسند لأحمد شاکر :2/248 ، بإسناد صحیح )

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ