دلوں کی دیکھ بھال

Dillon-kay-dekh-bhaal

پہلا خطبہ :

 تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں اور رحمت و سلامتی نازل ہو اللہ کے رسول ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل واصحاب اور آپ ﷺ کے محبین پر۔

حمد و صلاۃ کے بعد :

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

الانفال – 3

 ” سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب اللہ کی آیات انہیں سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں“۔

یہ اُن دلوں کی نمایاں صفت اور بلند مقام و مر تبہ کا بیان ہے جن کی نشانی قرآن کریم نے یہ بیان کی ہے کہ وہ خوفِ الہی سے لرزتے اور کانپتے ہیں۔ یہ وہ دل ہیں جن کے نہاں خانوں میں ایمان سرایت کر چکا ہے اور جن کے گوشے گوشے پر خشیت الہی طاری ہے، چنانچہ وہ دل عظمت و جلال اور مقبولیت کے اعلی مقام پر فائز ہیں اور پروردگار نے ان کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ حسن انجام کا ذکر کرتے ہوئے ان کا خوب تزکیہ فرمایا ہے۔

وعظ و نصیحت اور قرآن مجید کی آیات سن کر ایک مومن یقینا خوف الہی محسوس کرتا ہے ، اس کا دل روشن ہو جاتا ہے ، اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کی روح آسمانِ جوار الہی میں منڈلانی لگتی ہے، خوفِ الہی سے لبریز یہی وہ دل ہیں جو ایمانی حلاوت کا ذائقہ چکھتے ہیں، اطاعت الہی کی لذت سے لطف اندوز ہوتے ہیں، فتنوں اور شکوک و شبہات کے آگے بندھ باندھتے ہیں، اور روحانی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں، اور عقلمند لوگ ہی بلند و بالا مقام و مرتبے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، اللہ ان کے خوف کے ساتھ ساتھ تعظیم الہی سے دلوں کا ا نپنا اور لرزنا یہ مومنوں کی خاص خوبیوں میں سے ہے۔

زبان کو مسلسل ذکر الہی میں مصروف رکھنا دلوں میں خوفِ الہی پیدا کرنے کے اسباب میں سے ہے، اسی میں دلوں کی طہارت و پاکی، جسموں کی اصلاح، نفوس کا تزکیہ اور سر گوشیوں کی حلاوت مضمر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ ‎﴿٣٤﴾‏ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ

الحج – 34/35

اور عاجزی کرنے والوں کو خوش خبری سناد یجئے۔ وہ لوگ کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ، ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔

 جب انہیں وعظ و نصیحت کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کیا، جب انہیں ڈرایا گیا تو وہ ڈر گئے، اسی لیے ان کے دل خوفِ الہی سے لرزنے والے بن گئے۔

اذکار میں سے سب سے عظیم ذکر اللہ کی کتاب قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیات کو خو بصورت لب و لہجے میں گنگنا کر پڑھنا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

 اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللهِ

الزمر – 23

 ” اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ، جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے  ہیں۔ جن سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔“

جو شخص پوری توجہ سے کتاب اللہ کو پڑھے گا، اپنے سینے کو اس کے لیے کشادہ کرے گا اور اسی کے مطابق زندگی بسر کرے گا، اس کا دل نرم پڑ جائے گا، اس میں خوف الہی پیدا ہو جائے گا اور اس کا یہ عمل اللہ تعالی کی خشیت اور اس سے شرم وحیا کا سبب ہو گا اور ایمان میں اضافے کا بھی باعث بنے گا۔

اگر ہم نے دل کو ایسی چیزوں سے بھر رکھا ہے جو دل کے درمیان اور نصیحت الہی سے فیض یابی کے درمیان مانع ہوں، تو دل کی حیات و بقا اور اس کی خشیت ورقت کی ہم کیسے طمع کر سکتے ہیں؟ ارشاد باری تعالی ہے:

وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ

التوبة – 124

اور جب بھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں اس نے تم میں سے کس کو ایمان میں زیادہ کیا؟ پس جو لوگ ایمان لائے، سو ان کو تو اس نے ایمان میں زیادہ کر دیا اور وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔

 اگر آپ اپنا دل قرآن کے پاس نہیں پائیں، تو کہاں پائیں گے ؟ اگر آپ وعظ و نصیحت اور قرآن کا اثر اپنے دل میں محسوس نہ کریں تو اس کا سبب تلاش کر کے اس بیماری کا علاج کیجیے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ

العنکبوت – 43

 اور یہ مثالیں ہیں جو ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور انھیں صرف جاننے والے ہی سمجھتے ہیں۔

شعائر اللہ کی تعظیم و توقیر کرنا دلوں میں خوفِ الہی پیدا کرنے کے اسباب میں سے ہے، ان کی تعظیم در حقیقت حکم الہی کی تعظیم ہے، کیوں کہ ہر وہ چیزعظیم ہے جس کی اللہ تعالی اور اس کے رسول نے عظمت و بڑائی بیان کی ہے، اور اس کی تعظیم و توقیر کر نادلوں کی سالمیت و درستی کی علامت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ

الحج – 32

یہ اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقینا یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔

 جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتا ہے اللہ تعالی اسے تقوی کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے، کیوں کہ یہ تعظیم دل میں موجود اللہ تعالی کے ڈر اور خوف ہی سے صادر ہوتی ہے۔ خوف الہی پیدا کرنے کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ دل کو اس علم کا مرکز بنایا جائے جو علم اسمائے حسنی اور صفات علیا کے ذریعے انسان کو معرفتِ الہی تک پہنچاتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ

الحج – 54

اور تاکہ وہ لوگ جنھیں علم دیا گیا ہے ، جان لیں کہ بیشک وہی تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو وہ اس پر ایمان لے آئیں، پس ان کے دل اس کے لیے عاجز ہو جائیں۔

چونکہ نبی اکرم ﷺاپنے پروردگار کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے ، اسی لیے سب سے زیادہ اللہ تعالی سے ڈرنے والے بھی تھے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ

فاطر – 28

اللہ سے تو اس کے بندوں میں سے صرف جاننے والے ہی ڈرتے ہیں۔

دل میں خوف الہی پیدا ہونے کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی تو بہ کرنے میں بالکل غفلت نہ برتے، مسلسل استغفار کرتارہے اور اللہ کی طرف لوٹنے میں جلدی کرے۔ کیوں کہ دلوں کو پاکیزگی بخشنے والے ان امور کے بغیر دل میں کبھی خوف الہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ بھلا بیمار دل میں خوف الہی کیسے پیدا ہو سکتا ہے ؟ اور غافل دل میں خشیت الہی کیسے پیدا ہو سکتی ہے ؟ ارشادِ باری تعالی ہے:

إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا

التحریم – 4

 ”اگر تم دونوں اللہ کی جناب میں تو بہ کرو تو بہتر ) ورنہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں “۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ

الاعراف – 201

 ” بے شک جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں جب انہیں کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں پھر اچانک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ “

نیکی و بھلائی کے کام کرنے، بخشش و خیرات کرنے کو معمول بنالینے اور طرح طرح کے احسانات کرنے سے بھی انسان کا دل نرم ہوتا ہے اور اس میں رفت و خشیت الہی پیدا ہوتی ہے۔ ایک آدمی نے جب رسول اکرم صلی علیم سے اپنی قساوت قلبی کی شکایت کی، تو آپ سلام نے فرمایا: “اگر تم اپنے دل کو نرم کرنا چاہتے ہو تو مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر و۔“۔

اسی طرح موت کو بکثرت یاد کرنا، ہمہ وقت اس کے لیے تیار رہنا بھی انسان کو آخرت کی یاد دلاتا ہے، اسے دنیا سے کنارہ کشی و بے رغبتی سکھلاتا ہے، مردہ دل میں زندگی کی روح پھونکتا ہے اور اسے خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّ في ذلِكَ لَذِكْرِي لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ

ق – 37

” بے شک اس میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو یا وہ متوجہ ہو کر بات کی طرف) کان ہی لگا دیتا ہو۔“

 جو شخص مسلسل اپنے دل کی پاسبانی و نگرانی کرتا ہے اور اللہ کے ساتھ راستی کا معاملہ کرتا ہے اللہ تعالی اسے جنت کی طرف جانے والے راستوں کی راہنمائی کر دیتا ہے اور اسے صراط مستقیم پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَالَّذِینَ جاهَدُوا فينا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا

العنکبوت – 29

” اور جنہوں نے ہمارے لیے کوشش کی ہم انہیں ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے۔ “

اہل بصیرت اپنے دلوں کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں، کیوں کہ بندوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتے ہیں، اور وہ ان کو جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔ ارشاد نبوی ہے: ” (عربی میں دل کو) قلب اس لیے کہتے ہیں کہ یہ الٹ پلٹ ہو تا رہتا ہے ، دل کی مثال درخت کے تنے کے ساتھ لٹکے ہوئے پر کی مانند ہے، جس کو ہو اسیدھا اور الٹا کرتی رہتی ہے“۔ [احمد ]۔

سب سے زیادہ معرفت الہی رکھنے والے پیارے رسول ﷺبھی دل کے پھرنے سے خوف کھاتے ، چنانچہ آپﷺ ہمیشہ اپنے دل کی ثابت قدمی کی دعا فرماتے اور کہتے : ” اے دلوں کے پھیرنے والے، میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ “۔ بھلا بتا ہیئے دوسروں کی کیا حالت ہو سکتی ہے؟

جب اللہ تعالی اپنے بندے کو اس بات کی توفیق دیتا ہے کہ وہ اپنے دل میں خوف الہی اور تقوی کو پیدا کرلے تو عنقریب وہ اس کا پھل حاصل کرلے گا اور بڑے اطمینان وسلامتی کے ساتھ اسے توڑے گا۔ اور دنیا و آخرت میں بہترین اور خوشگوار زندگی در اصل دل میں خوف الہی کے ثمرات میں سے ہے۔ ایسے لوگ بروز قیامت کہیں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ ۖ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُوم

الطور – 27

 کہیں گے ہم تو اس سے پہلے اپنے گھروں میں ڈرا کرتے تھے۔ پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں لو کے عذاب سے بچالیا۔

دل میں خوفِ الہی کے ثمرات میں رب سے سرگوشی کی لذت اور اس سے مانوسیت کے سوا اگر کوئی دوسری چیز نہ بھی ہو، تو یہی سب سے بڑی خوشی اور سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ

الزمر – 9

 ( کیا کافر بہتر ہے ) یا وہ جو رات کے اوقات میں سجدہ اور قیام کی حالت میں عبادت کر رہا ہو ، آخرت سے ڈر رہا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید کر رہا ہو، کہہ دو کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں، سمجھتے وہی ہیں جو عقل والے ہیں۔ “

جب انہوں نے اپنی راحت و سکون کی لذت کو رب کی خاطر قربان کیا تو اللہ نے انہیں اپنی اطاعت و فرمانبر داری کی مٹھاس اور اپنے ساتھ سرگوشی کی لذت سے سر فراز کر دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ

السجدۃ – 16

 “اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیے میں سے کچھ خرچ بھی کرتے ہیں“۔

دل کی خشیت کے ثمرات و فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ وہ انسان کو خیر و بھلائی کی طرف سبقت کرنے اور اللہ کی پکار پر لبیک کہنے پر ابھارتی ہے۔ چنانچہ جب حضرت زکریا علیہ السلام نے اپنے پروردگار کو پکارا:

رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ

الانبیاء – 89

 اے میرے پروردگار! مجھے تنہانہ چھوڑنا اور بہترین وارث تو تو ہی ہے۔

 تو اللہ تعالی نے فرمایا:

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَى وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ

الانبیاء – 90

سو ان کی بھی ہم نے دعا قبول کی اور انھیں بیچی عطا کیا اور ان کی بیوی کو اولاد کے قابل بنا دیا یہ سب لوگ بھلائی کے کاموں کے طرف لپکتے تھے اور ہمیں شوق اور خوف سے پکارتے تھے اور یہ سب ہمارے آگے جھک جانے والے تھے “ ۔

دل میں جس قدر خوف اور خشیت الہی ہو گی اسی قدر فتنوں اور شہوتوں سے حفاظت ہو گی اور اسی قدر اللہ تعالی اس کے اندر ایمان کی محبت ڈال دے گا اور ایمان سے اس کے دل کو مزین کر دے گا۔ اسی طرح ایسے دل والا انسان کبھی فساد و بگاڑ پید ا کرنے والوں کی راہ پر بھی نہیں چلے گا، بلکہ وہ مامون و محفوظ ہو گا، معاشرے کے امن و امان میں اپنا کردار ادا کرے گا، کیوں کہ کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ یہی وہ صفت ہے جس سے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹا متصف تھا، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

لَئِنْ بَسَطتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطِ يَدِي إِلَيْكَ لأَقْتُلَكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ

المائدۃ – 28

گو تو میرے قتل کے لئے دست درازی کرے لیکن میں تیرے قتل کی طرف ہر گز اپنا ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا، میں تو اللہ تعالیٰ پر وردگارِ عالم سے خوف کھاتا ہوں۔

دوسرا خطبہ:

 دل کا خوف وڈر مخلوقات پر رحم و کرم کرنے اور دوسروں کی شدت و سختی کے باوجود لطف و نرمی کا معاملہ کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور یہ انسان کو رحمت الہی کا مستحق بھی بناتا ہے۔ رسول اللہ صلی علیم نے فرمایا: “رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے۔ نیز فرمایا: ”تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم رحم کرے گا“۔

جو دل کے خوف و خشیت اور دلی بیماریوں سے نجات جیسی عظیم صفت سے متصف ہونے کا خواہاں ہے اس پر واجب ہے کہ وہ اللہ سے خوب محبت کرے اور خوف ور جاکے درمیان زندگی گزارے، اللہ کے پاس جو انعامات ہیں ان کی امید رکھے اور اللہ سے ڈر تار ہے کہ کہیں اس کے اعمال رد نہ کر دیے جائیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ

الانبیاء – 90

” یہ سب لوگ بھلائی کے کاموں کے طرف لپکتے تھے اور ہمیں شوق اور خوف سے پکارتے تھے اور یہ سب ہمارے آگے جھک جانے والے تھے۔ “

اے اللہ ! ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں اور ایسے قول و فعل کی توفیق کا سوال کرتے ہیں جو ہمیں جنت سے قریب کر دے۔ ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کر دے۔

اے اللہ! ہم تجھ سے ہر بھلائی کا سوال کرتے ہیں خواہ وہ جلد ملنے والی ہے یا دیر سے، اسے ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ ہر اس برائی سے تیری پناہ مانگتے ہیں ، جو جلدی آنے والی ہے یا دیر سے ، اسے ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے ، اے اللہ ! ہم تجھ سے خیر و بھلائی کی ابتد او انتہا، اس کی جامع چیزوں، اس کے اول و آخر اور ظاہر وباطن کا سوال کرتے ہیں اور جنت میں بلند درجات کا سوال کرتے ہیں۔

اے ہمارے رب! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر ، ہماری تائید و نصرت فرما، ہمیں عزت دے، ہمیں ذلیل نہ کر، ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف تدبیر نہ کرنا۔ ہماری رہنمائی فرما اور ہدایت کو ہمارے لیے آسان کر دے۔ اور جو ہمارے خلاف بغاوت کرے اس کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

اے اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہمارے گناہوں کو دھو دے، ہماری دلیل کو مضبوط بنا، ہماری زبان کو درستی عطا کر اور ہمارے دلوں سے حقد و حسد نکال دے۔

 اے اللہ! تو بہت زیادہ بخشنے والا ہے اور معافی کو پسند کرنے والا ہے، لہذا ہمیں معاف فرما۔

 اے اللہ! ہم تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے، تیری ناگہانی گرفت سے اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے پناہ مانگتے ہیں۔

 اے اللہ! ہم عاجز آجانے اور سستی و کاہلی کا شکار ہو جانے سے، بزدلی و بخیلی سے ، سخت بڑھاپے سے ، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے ظلم سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

 اے ہمیشہ سے زندہ رہنے والی ذات! اے ہر چیز کو قائم رکھنے والی ذات! ہم تجھ سے تیری ہی رحمت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتے ہیں، ہمارے سارے معاملات سنوار دے، اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی ہمیں اپنے نفس کے سپرد نہ کر۔

 اے اللہ ہمارے امام خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ امور کی توفیق عطا فرما اور ان کے ولی عہد کو ہر خیر کی عطا فرما۔

اے اللہ ! تو ہمیں دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے ہمیں بچالے۔

خطبة الجمعة مسجدالنبویﷺ : فضیلة الشیخ عبدالباری الثبیتی حفظه اللہ
12 رجب 1444 ھ بمطابق 03 فروری 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

  فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ

مسجد نبوی کے ائمہ و خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ صلاح بن محمد البدیر کا ہے جو متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور امام مسجد نبوی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ جج بھی ہیں۔