تعریف :
کرپٹو کرنسی میں لفظ “کرپٹو“ کا معنی: ایسی ٹیکنالوجی کہ جس میں ایک خاص کمپیوٹر کوڈ کی شکل میں(Encryption and Decryption) کے ذریعے پیغام کو مطلوبہ شخص تک پہنچایا جاتا ہے اور یہ
پیغام صرف مطلوبہ شخص ہی پڑھ سکتا ہے۔1
بنیادی طور پر یہ مکمل سسٹم (Decentralized System) ہوتا ہے جو کسی ایک مرکزی سرور(Central Server) سے connect نہیں ہوتا۔ اس کو P-to-P یا Peer to Peer نیٹ ورک بھی کہا جاتا ہے کہ جس میں ہر کمپیوٹر اپنے نیٹ ورک میں موجود ہر دوسرے کمپیوٹر سے بغیر کسی مرکزی سرور(Central Server) کے آپس میں کنیکیٹ connect ہوتے ہیں۔2
![](https://islamfort.com/wp-content/uploads/2024/05/pk.png)
جیسا کہ تصویر میں وضاحت ہورہی ہے۔
اسی نیٹ ورک کی ایک قسم کو کمپیوٹر سائنس کی زبان میں بلاک چین (Block Chain) ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے جس میں کرپٹو کرنسی بنائی جاتی ہے۔جس کی وضاحت ان شاء اللہ اگلے سطور میں ہوگی۔
کرپٹو کرنسی :
بنیادی طور پر یہ ایک اثاثہ (Assest) ہے جس کا حسی(Physically) کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ اسکا وجود کمپیوٹر نیٹ ورک کی حد تک ہی رہتا ہے۔ یہ کرپٹو گرافی کی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے جس کی وضاحت اختصاراً اوپر ہم نے ذکر کر دی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اس بات کی یقین دہانی کراتی ہے کہ رقم کی منتقلی(Transaction) انتہائی محفوظ طریقے سے بغیر کسی مرکزی نیٹ ورک (Centralized Network)کے، دھوکے اور جعل سازی سے محفوظ رکھتے ہوئے عمل میں لائی جائے گی۔
کرپٹو کرنسی کی تاریخ
کرپٹو کرنسیاں کچھ عرصہ قبل ہی اس نام سے مشہور ہوئی ہیں جبکہ اس سے قبل یہ “ورچوئل کرنسی” کے نام سے پہچانی جاتی تھیں۔ کرپٹو کرنسی کی تاریخ کو بنیادی طور پر دو (02) ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔3
01 ) پہلا دور: ابتدائی دور میں ” ورچوئل کرنسیاں ” اسی سوچ کی بنیاد پر قائم کی گئیں جس بنیاد پر موجودہ حکومتی کرنسیاں ہوتی تھیں ۔ یعنی کہ یہ کرنسیاں کسی ادارے یا حکومت کی پشت پناہی میں وجود میں لائی جاتی تھیں اور ان حکومتوں/ اداروں کی یہ ذمے داری ہوتی تھی کہ وہی ان کرنسیوں کا مکمل نظام سنبھالیں۔ یعنی یہی حکومتیں/ ادارے ان کرنسیوں کو جاری کریں، ان کے لین دین کا نظام محفوظ بنائیں اور جعل سازی اور دیگر دھوکہ دہی پر مبنی عوامل سے ان کرنسیوں کو محفوظ رکھیں۔ اس فکر پر 1980 عیسوی کے بعد کئی کرنسیاں وجود میں لائی گئیں۔ ذیل میں اس دور کی چند کرنسیاں یہ ہیں:
(1) ای گولڈ(E-Gold) (2) لنڈن گولڈ(London Gold) (3) ڈی-جی کیش(Digi Cash)
یہ کرنسیاں اداروں کی طرف سے بنائی جاتی تھیں۔ وہی ان کا نظام سنبھالتے تھے لیکن ان میں چند خرابیاں تھیں۔ مثلاً : اداروں کا دیوالیہ ہو جانا یا صارفین کی رقم لے کر ادراے کا غائب ہو جانا یا مخصوص ممالک کی طرف سے قانونی مسائل کا ہونا۔ ان مسائل کے باعث یہ کرنسیاں زیادہ نہ چل سکیں۔
اس دور میں ورچوئل کرنسی کی اس فکر کو دیکھتے ہوئے چند اداروں کی طرف سے حکومتی کرنسیوں کے لین دین کو ڈیجیٹلائیز(Digitalize) کیا گیا جس کو ہم اپنے دور میں بطورِ مثال: ایزی پیسہ(Easy Paisa)، جیز کیش(Jazz Cash)، یا مختلف بینکوں کی آنلائن بینکنگ (Online Banking) کی ایپس(Apps) کو دیکھ سکتے ہیں۔
02)دوسرا دور: پہلے دور میں ورچوئل کرنسیوں کی اُس وقت کی صورتحال میں ناکامیوں کی وجہ سے یہ فکر پروان چڑھی کہ ایسی کرنسیوں کو وجود میں لایا جائے جو ڈی سینٹرلائیزڈ سسٹم (Decentralized System) پر قائم کی جائیں کہ جس کے تمام معاملات آن لائن ہوں۔ اس کی بنیاد میں کوئی حکومت یا کوئی اداراہ یا کوئی معین فرد نہ ہو۔ بنیادی طور پر اس سوچ کی وجہ یہ تھی کہ دنیا سے ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے اور کرنسیوں پر سے حکومتوں کی بالا دستی کو ختم کیا جائے۔ اس سوچ کے لیے بلاک چین(Block-Chain) ٹیکنالوجی کا استعمال عمل میں لایا گیا۔
پہلی کرنسی جواس سوچ پر عمل کرتے ہوئے 2009 عیسوی میں وجود میں لائی گئی وہ ” بٹ کوائن(Bit-Coin) ” ہے۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ ہم آگے بیان کریں گے۔ یہی سلسلہ آگے چلا اور اسی فکر پر کئی کرنسیاں وجود میں لائی گئیں۔
کرپٹو کرنسی کی اقسام :
تا وقتِ کتابت دنیا میں کم و بیش 23،000 کی تعداد میں مختلف کرپٹو کرنسیاں اپنا وجود رکھتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کوائنز(Coins) ہیں اور چند ٹوکن(Token) ہیں۔4
کوائینز(Coins):
یہ خود ایک مستقل بلاک چین پر مائیننگ (Mining) کے عمل کے ذریعے وجود میں لائے جاتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر ڈی-سینٹرلائیزڈ(De-Centralized) ،دھوکہ /جعل سازی سے محفوظ اور ایک مقررہ مقدار تک ہی بنائے جا سکتے ہیں۔
ٹوکنز(Tokens):
یہ پہلے سے قائم شدہ بلاک چین کہ جس پر کوئی کوائن بن چکا ہو اس پر قائم ہوتے ہیں۔
چند مشہور کرنسیوں(کوائنز) کا ذکر ذیل میں اختصاراً کیا جاتا ہے۔
1۔بٹ کوائن(Bit-Coin) 2۔لائیٹ کوائن(Lite-Coin) 3۔ ایتھیریم(Ethereum) 4۔فینٹم(Fantom)
5۔ ڈوج کوائین(DogeCoin) 6۔ بائینینس کوائن(Binance Coin) 7۔ڈیش کوائن(Dash Coin)
8۔ آئیکین کوائن (ICON Coin) 9۔ریف کوائن(Reef Coin) 10۔پولی گون(Polygon)
کرپٹو کرنسی کے وجود کا طریقہ کار :
کرپٹو کرنسی جدید ٹیکنالوجی “کرپٹو گرافی” کے ذریعے وجود میں آتی ہے۔ اسی کی مناسبت سے اس کو کرپٹو کرنسی کہا جاتا ہے جسکی مختصر وضاحت ابتداء میں ذکر کردی گئی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی بنیاد بلاک چین (Block-Chain) ٹیکنالوجی پر ہوتی ہے جس کی مختصر وضاحت ذیل میں ذکر کی جاتی ہے۔
بلاک چین ٹیکنالوجی کی تعریف :
بلاک چین (Block – Chain) کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں۔ ان تمام تعریفات کا خلاصہ چند سطور کی صورت میں ذکر کیا جاتا ہے:5
“یہ مختلف کمپیوٹرز میں تقسیم ایک ڈیجیٹل کھاتے(Distributed Ledger) کو کہتے ہیں جس میں ڈیٹا (Data)مختلف بلاکس(Blocks) کی صورت میں اس کے نیٹ ورک میں موجود تمام کمپیوٹرز میں ریکارڈ اور محفوظ ہو رہا ہوتا ہے اور جعل سازی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ نیز تمام بلاکس آپس میں کنیکٹ ہوتے ہیں۔”
![](https://islamfort.com/wp-content/uploads/2024/05/theek.png)
جیسا کہ تصویر میں وضاحت ہے
بلاک چین ٹیکنالوجی کا طریقہ کار :
چونکہ اس سسٹم کا بنیادی استعمال لین دین کے معاملات کے لیے ہوتا ہے اس وجہ سے اس عمل کو ٹرانزیکشن(Transaction) کا نام دیا گیا۔ بنیادی طور پر ہر بلاک (Block) چند چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے:
۱) ڈیٹا بھیجنے والے کی پرائیوٹ کی(Private Key) ۔یہ ڈیٹا بھیجنے والے کے بطورِ دستخط استعمال کی جاتی ہے۔
۲)ڈیٹا وصول کرنے والے کی پبلک کی(Public Key) ، بطورِ مثال بینک کا اکاؤنٹ نمبر۔
۳)ٹرانزیکشن (Transaction) کی تفصیل(وقت، تعداد، دیگر معلومات)۔
چونکہ اس ٹیکنالوجی کا زیادہ تر استعمال رقوم کی ترسیل کے لیے ہوتا ہے تو ہم طریقہ کار کی وضاحت کے لیے رقم کی ٹرانزیکشن کا طریقہ ہی بیان کریں گے۔
جب کوئی صارف کسی بھی شخص کو رقم ٹرانسفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دونوں صارفین کے پاس ایسے کمپیوٹر ہوں کہ جو اس ٹیکنالوجی کو سمجھ سکتے ہوں۔ جس صارف کو رقم ٹرانسفر کرنی ہو وہ سب سے پہلے جس صارف کے پاس رقم ٹرانسفر کرنی ہو وہ اپنی پبلک کی(Public Key) داخل کرے گا پھر رقم کی تفصیلات (مثلاً تعداد وغیرہ) داخل کرے گا پھر اپنی پرائیوٹ کی(Private Key)داخل کرے گا۔ تصدیق کے مرحلے سے گزر کر جس صارف تک یہ رقم ٹرانسفر ہونی ہوگی اس کے پاس چلی جائے گی جس کو وہ شخص اپنی پرائیوٹ کی(Private Key)درج کرکے اپنے اکاؤنٹ میں حاصل کر لے گا۔ یہ سارا عمل نیٹ ورک میں ایک نئے بلاک کی صورت میں تشکیل پا جائے گا اور نیٹ ورک میں موجود تمام سسٹم میں وہ ریکارڈ محفوظ اور اپڈیٹ ہو جائے گا۔
تصدیق کے مرحلے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آتی ہے کہ آن لائن خرید و فروخت میں اس بات کا احتمال رہتا ہے کہ خریدار بیچنے والے کو پہلے رقم بھیج دے اور پھر اپنی رقم کی ادائیگی کو واپس اپنے اکاؤنٹ میں ریورس کر لے یا پھر جو رقم صارف کسی اور کو بھیج رہا ہے وہ اس کے پاس حقیقت میں تھی بھی یا نہیں یا اس نے جعلی رقم بنا کر کسی اور کو بھیج دی۔ اس کو ڈبل سپینڈنگ(Double-Spending) کہتے ہیں۔
عموماً ٹرانزیکشن میں یہ کام بینک وغیرہ کا ہوتا ہے کہ وہ ٹرانزیکشن کو دھوکہ دہی اور جعل سازی سے محفوظ رکھیں لیکن کرپٹو کرنسی میں کوئی ادارہ شامل نہیں ہوتا تو اس احتمال کو دور کرنے کے لیے تصدیق کے عمل کی ضرورت پیش آئی۔ اس عمل کے لیے مختلف کرپٹو کرنسی میں مختلف طریقے استعمال ہوتے ہیں۔ بٹ کوائن میں “مائیننگ” کا عمل ہوتا ہے جس کو “پروف آف ورک” کہا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت ہم ان شاء اللہ آگے کریں گے۔ کچھ کرنسیاں اس تصدیق کے لیے “سٹیکنگ” کا عمل استعمال کرتی ہیں جس کو “پروف آف سٹیک” سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ مائیننگ کی بنسبت سستا اور آسان عمل ہوتا ہے۔
سٹیکنگ کا طریقہ کار:
اس میں اگر کوئی صارف یہ چاہتا ہے دو لوگوں کے درمیان ہونے والی ٹرازیکشن کی تصدیق کرے تو اس کے لیے اس کو پہلے کچھ کوائنز لاک کرنے ہوتے ہیں تاکہ اس کا احتمال ختم ہوجائے کہ یہ صارف جعلی تصدیق نہ کردے، جب یہ صارف تصدیق کا عمل مکمل کر چکا ہو تو نئے کوائنز کی تشکیل ہوجاتی ہے اور وہ کوائنز اس صارف کے اکاؤنٹ میں آجاتے ہیں، اور اس عمل کے نتیجے میں ایک نیا بلاک نیٹ ورک میں بن جاتا ہے۔6
بٹ کوائن :
جیسا کہ ہم نے پیچھے ذکر کیا کہ ورچوئل کرنسیوں کا دوسرا دور اس فکر کے ساتھ پروان چڑھا کہ کوئی ایسی کرنسی وجود میں لائی جائے جو ڈی سینٹرلائیزڈ سسٹم (Decentralized System)پر قائم ہو۔ اسکے تمام معاملات آن لائن ہوں۔ اس کی بنیاد میں کوئی حکومت یا کوئی اداراہ یا کوئی معین فرد نہ ہو۔ بنیادی طور پر اس سوچ کی وجہ یہ تھی کہ دنیا سے ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے اور کرنسیوں پر سے حکومتوں کی بالا دستی کو ختم کیا جائے۔
پہلی کرنسی جواس سوچ پر عمل کرتے ہوئے 2009عیسوی میں وجود میں لائی گئی وہ “بٹ کوائن(Bit-Coin)” ہے۔ اس کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس کا موجد “ستوشی ناکا موٹو” ہے۔ 2009عیسوی میں ایک مقالہ منظرِ عام پر آیا جس میں یہ وضاحت کی گئی کہ ایک ایسا سسٹم ہو جو مکمل طور پر ڈی سینٹرلائیزڈ ہو اور اس میں وہ تمام خوبیاں جو ہم نے اوپر بیان کیں وہ ہونی چاہیے۔ اس خواب کو ستوشی ناکا موٹو نے عملی جامہ پہنایا اور “بٹ کوائن پیر ٹو پیر پیمنٹ سسٹم” (Bit-coin A Peer To Peer Payment System) کے نام سے ایک کرنسی کا اجراء کیا اور اس کا کوڈ اوپن سورس (Open Source)رکھا جس کو ہر کوئی پڑھ سکتا ہے۔ یہ “ستوشی ناکا موٹو” کون تھا؟ کس جگہ سے اس کا تعلق تھا؟ اس کی تفصیلات کسی کو بھی معلوم نہیں۔ آیا یہ ایک شخص تھا یا کوئی گروپ تھا۔ کسی کو اس کی تفصیلات کا کوئی علم نہیں۔ 2010 عیسوی میں اس نے یہ پروگرام دیگر ڈیویلپرز کے حوالے کیا اور خود غائب ہو گیا۔
بٹ کوائن میں ٹرانزیکشن کا طریقہ کار ہم ایک مثال سے سمجھتے ہیں:
’’حسن کے پا س ایک بٹ کوائن ہے جس کی وہ ٹرانزیکشن کرنا چاہتا ہے، اس ٹرانزیکشن کا کوڈ 01001 ہے۔ زید کے پاس پرائیوٹ کی(Private Key)بطور مثال Hass123an ہے جس کا علم صرف اسی کو ہے جس کا استعمال وہ رقم کی ترسیل کے لیے بطورِ دستخط استعمال کرے گا۔ اس بٹ کوائن کی تفصیلات بطورِ نقل (کاپی) نیٹ ورک میں موجود تمام کمپیوٹرز میں موجود ہیں جن کو نوڈز کہتے ہیں۔ حسن اس بٹ کوائن کو زید کو بھیجنا چاہتا ہے۔ زید کی ایک پبلک کی(Public Key) بطور مثال 15719092 ہے جس کو سمجھنے کے لیے اکاؤنٹ نمبر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح زید کی ایک پرائیوٹ کی(Private Key)بھی ہے جس کو وہ رقم وصول کرنے کے لیے بطورِ دستخط استعمال کرے گا جس کا علم قانوناً صرف اس کو ہی ہے۔
حسن نے یہ ارادہ کیا کہ میں یہ بٹ کوائن زید کو بھیجتا ہوں۔ تو اس کے لیے اس نے بٹ کوائن کی مقدار، زید کی پبلک کی(Public Key)، اور اپنی پرائیوٹ کی(Private Key) درج کی جو کہ ایک بلاک کی صورت اختیار کر گئی۔ بعد از تصدیق یہ بٹ کوائن حسن کے اکاؤنٹ سے نکل کر زید کے اکاؤنٹ میں آ جائے گی۔ اس عمل کی نقل نیٹ ورک میں موجود ہر کمپیوٹر میں موجود ہے نیز اب اس ٹرانزیکشن کا کوڈ بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ بطورِ مثال اب کوڈ 10110 ہے تاکہ ایک کوڈ کی متعدد ٹرانزیکشن جمع نہ ہونے پائیں۔‘‘
یہ بطورِ مثال بٹ کوائن کی ٹرانزیکشن کا طریقہ کار اختصاراً ذکر کیا گیا۔ اس میں ایک احتمال باقی ہے وہ یہ: کیا حسن واقعتاً اس بٹ کوائن کا مالک تھا بھی یا اس نے جعل سازی کے تحت یہ کوائن فرضی طور پر بنا رکھا تھا؟
عام زندگی میں اس سوال کا جواب کوئی ادارہ یا بینک وغیرہ دیتے ہیں جس کے تحت وہ یہ ذمے داری لیتے ہیں کہ معاملہ ہر قسم کی جعل سازی سے پاک ہے لیکن بٹ کوائن چونکہ ایک ڈی سینٹرلائیزڈ ٹیکنالوجی پر قائم ہوتا ہے تو اس میں کوئی ادارہ یا بینک یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس احتمال کو دور کرنے کے لیے تصدیق کا عمل بنایا گیا جس میں یہ احتمال دور کیا جاتا ہے کہ واقعتاً حسن اس بٹ کوائن کا ملک تھا اور وہ اس میں کوئی دھوکہ دہی کا معاملہ نہیں کر رہا۔ ہم نے ذکر کیا کہ مختلف کرنسیوں میں یہ تصدیق کا عمل مختلف طریقوں سے ہوتاہے۔ کچھ کرنسیوں میں “سٹیکنگ” کا عمل ہوتا ہے جبکہ بٹ کوائن میں یہ تصدیق کا عمل “مائیننگ ” کے ذریعے ہوتا ہے۔
مائیننگ:
اس عمل میں “مائینر” (مائیننگ کا عمل کرنے والا شخص) کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس ٹرانزیکشن کو اوپر ذکر کردہ احتمال سے پاک بنائے۔7
چونکہ بٹ کوائن کا نظام بلاک چین ٹیکنالوجی پر قائم ہے اور اس میں تمام ریکارڈ نیٹ ورک میں موجود تمام کمپیوٹرز/ نوڈز میں ہوتا ہے۔ مائینر کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ ٹرانزیکشن جس کا ایک مخصوص کوڈ ہوتا ہے وہ اس کو چیک کرتا ہے کہ یہ بٹ کوائن حسن کے پاس کیسے آیا اور وہ اس ٹرانزیکشن سے قبل اس کو کسی اور جگہ پر خرچ تو نہیں کر چکا۔ جب مائینر مطمئن ہو جاتا ہے تو وہ اس ٹرانزیکشن کی تصدیق کر دیتا ہے اور بٹ کوائن حسن کی ملکیت سے نکل کر زید کی ملکیت میں آ جاتا ہے۔ اس عمل کو ’’مائینگ‘‘ کہتے ہیں۔ اس کو “پروف آف ورک” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عمل انتہائی محنت طلب اور بے انتہا مہنگا ہوتا ہے۔
اب سوال یہ آتا ہے کہ جو شخص اتنی محنت اور سرمایہ خرچ کر کے اس تصدیق کےعمل کو سر انجام دیتا ہے اس میں اس کا کیا فائدہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مائینر کے اس عمل کی وجہ سے نئے بٹ کوائینز وجود میں آتے ہیں جو اس مائینر کو ملتے ہیں۔ تا وقتِ کتابت ان نئے ملنے والے بٹ کوائینز کی تعداد 6.25 ہے۔ اسی جواب میں اس بات کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ نئے بٹ کوائنز کا وجود کیسے ہوتا ہے۔ لیکن یہ بٹ کوائن ایک مخصوص تعداد تک ہی وجود میں آئیں گے جو کہ 21 ملین ہے اس کے بعد یہ مزید نئے وجود میں نہیں آئیں گے جس سے افراطِ زر(Currency) کا اشکال بھی دور ہو جاتا ہے۔ پھر جب کوئی شخص ٹرانزیکشن کی تصدیق کرے گا تو اس پر فیس رکھی جائے گی جس کی ادائیگی کی ذمے داری بٹ کوائن بھیجنے والے کی ہوگی۔
کرپٹو کرنسی زر (Currency) یا مبیع (Asset) ؟
کرپٹو کرنسی کیسے وجود میں آتی ہے؟ نیز دیگر تکینکی اشیاء کی وضاحت کے بعد اس کا شرعی حکم جاننا ضروری ہے لیکن اس سے قبل یہ ضروری ہے کہ یہ طے کیا جائے کہ اس کی حیثیت زر(Currency) کی ہے یا مبیع(Assest) کی؟ اس فصل میں ہم زر(Currency) اور مبیع (Assest) کے تعلق سے اختصاراً کچھ گفتگو کریں گے۔ ان شاء اللہ
زر (Currency) ماہرینِ معاشیات کی نظر میں
ماہرینِ اقتصاد نے زر(Currency) کی مختلف تعریفات ذکر کی ہیں جن کا خلاصہ ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:
’’ہر وہ چیز جس کو آلہِ تبادلہ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہو۔ نیز وہ قیمتوں کا پیمانہ ہو اور اس کے ذریعے قدر کو محفوظ رکھا جا سکے اور اسکو قبولیتِ عامہ حاصل ہو۔‘‘8
اس کو معاشیات کی اصطلاح میں زر(Currency) کہتے ہیں۔
ذکر کردہ تعریف سے زر(Currency) کی تین خصوصیات ہمیں واضح ہوتی ہیں:
1)آلہِ تبادلہ کے طور پر استعمال ہو سکتی ہو:
کسی بھی چیز کا زر(Currency) ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو بطور آلہِ تبادلہ استعمال کیا جا سکتا ہو۔
ابتدائی زمانے میں لوگ ’’بارٹر سسٹم‘‘ کے تحت خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ اس میں یہ طریقہ کار ہوتا تھا کہ اگر کسی شخص کو آٹا چاہیے اور اس کے پاس جَو (barley) ہوتی تو وہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈتا جس کے پاس آٹا ہو اور اس کو جَو (barley) چاہیے ہوتی تو یہ دونوں آپس میں دونوں اشیاء کا تبادلہ کر لیتے۔اس سلسلے میں یہ دشواری تھی کہ اگر کسی کو آٹے کی حاجت ہے اور اسکو کوئی ایسا شخص نہ ملتا جس کے پاس آٹا تو ہوتا لیکن اس کو جَو (barley) کی حاجت نہ ہوتی تو یہ معاملہ منعقد نہیں ہو پاتا تھا۔ اسی وجہ سے لوگوں نے خرید و فروخت کے لیے کچھ متبادل راستے نکالے کہ جو آلہِ تبادلہ کے طور پر استعمال ہو سکتے ہوں اور ہر کسی کو اس کی ضرورت ہو۔ اسی سلسلے نے آگے چل کر درہم و دینار کی صورت اختیار کی اور موجودہ دور میں کرنسی نوٹ آلہ، تبادلہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
اسی وجہ سے زر(Currency) کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ آلہِ تبادلہ کے طور پر استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
2) قیمتوں کا پیمانہ ہو: کسی بھی چیز کا زر(Currency) بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اشیاء کی قیمتوں کا پیمانہ ہو۔ اس کا تعین کسی دوسرے زر(Currency) سے کیا جاتا ہے۔
مثلاً: سونا زر(Currency) حقیقی ہے اور قیمتوں کا پیمانہ ہے۔ اس کی قیمت کا تعین کسی دوسرے زر(Currency) سے کیا جائے گا۔ دینار کی قیمت مثلاً 12 درہم ہے۔
3) قدر محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو: یعنی اس کی اپنی ایک ذاتی قدر ہو جو کہ ہر وقت یکساں رہے۔ اس میں کمی یا زیادتی نہ ہو کیونکہ اگر زر(Currency) میں بھی کمی یا زیادتی ہوگی تو وہ بھی اثاثہ بن جائے گا۔
موجودہ دور میں زر(Currency) کی قدر میں کمی و زیادتی واقع ہوتی ہے لیکن یہ دیگر اشیاء کی بنسبت ہوتی ہے۔ ان کی ذاتی قدر برقرار رہتی ہے۔
زر (Currency) شریعت کی نظر میں :
شرعی اعتبار سے زر(Currency) کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں:
1)زر(Currency) حقیقی 2) زر(Currency) عرفی/اصطلاحی
زر(Currency) حقیقی:
زر(Currency) حقیقی شریعت کی اصطلاح میں اس زر(Currency) کو کہتے ہیں جس کی ذاتی قدر ہو، لوگوں کے تعامل سے وقتی طور پر پیدا نہ ہوئی ہو. اگر اس میں لوگوں کا تعامل بطور زر(Currency) ختم بھی ہو جائے تو بطورِ مبیع(Assest) اس کی حیثیت برقرار رہتی ہے۔ علماء کرام نے صرف سونے اور چاندی کو زر(Currency) حقیقی شمار کیا ہے۔
زر(Currency) عرفی/اصطلاحی:
زر(Currency) عرفی شریعت کی اصطلاح میں اس زر(Currency) کو کہتے ہیں جس کی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہ ہو بلکہ لوگوں کے تعامل سے اس کی قیمت قائم ہوئی ہو یا کسی حکومت یا ادارے کی طرف سے اسکو بطورِ زر(Currency) رائج کیا گیا ہو۔ مثلاً : اس وقت دنیا میں موجود تمام کرنسی نوٹ۔
زر(Currency) کی صفات
تاریخِ اسلامی کے ابتدائی ادوار میں ہمیں بطور زر(Currency) صرف سونے اور چاندی کا استعمال ہی نظر آتا ہے لیکن شریعتِ اسلامیہ نے یہ پابندی ذکر نہیں کی کہ سونا اور چاندی کے علاوہ دیگر اشیاء کو زر(Currency) نہیں بنایا جا سکتا بلکہ اس معاملے میں وسعت رکھی گئی ہے اور جس چیز کےاندر شرعی اصولوں اور ضوابط کی روشنی میں زر(Currency) بننے کی صلاحیت موجود ہو اس کو بطورِ زر(Currency) معاشرے میں رائج کیا جا سکتا ہے اور اس پر وہی احکامات لاگو کیے جائیں گے جو سونے اور چاندی میں زر(Currency) ہونے کی وجہ سے لاگو کیے جاتے ہیں۔ شرعی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں زر(Currency) کی تین خصوصیات ملتی ہیں کہ جس چیز میں یہ تین خصوصیات شامل ہوں اس کو زر(Currency) بنایا جا سکتا ہے اور معاشرے میں بطورِ زر(Currency) رائج کیا جا سکتا ہے۔
شرعی طور پر زر(Currency) کی صفات:
زر(Currency) کی شرعی صفات مندرجہ ذیل ہیں:
1)زر(Currency) کو قبولیت عامہ حاصل ہو: کسی بھی چیز کا شرعاً زر(Currency)ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اسکو کسی بھی معاشرے کا ایک بڑا طبقہ بطورِ زر(Currency) قبول کرتا ہو یا کسی حکومت یا صاحبِ اقتدار ادارے نے اسکو بطورِ زر(Currency) معاشرے میں نافذ کیا ہو۔
2)قیمتوں کا پیمانہ ہو ۳) قدر محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہو
ان دو شروط کی وضاحت گزشتہ مبحث میں کر دی گئی ہے۔
کرپٹو کرنسی بطورِ زر :
ہم نے اوپر زر(Currency) کی خصوصیات معاشی و شرعی لحاظ سے ذکر کر دی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا کرپٹو کرنسی میں زر(Currency) بننے کی اہلیت موجود ہے؟ تو اس کا جواب اختصاراً یہی ہے کہ بلکل کرپٹو کرنسی میں زر(Currency) بننے کی اہلیت موجود ہے۔ یہ ان تمام صفات کو قبول کرتی ہے جو زر(Currency) میں پائی جائیں جن کا ہم نے تفصیلی ذکر کر دیا ہے۔
1)کرپٹو کرنسی کا بطور آلہِ تبادلہ استعمال موجود ہے۔
2) کرپٹو کرنسی کے ذریعے قیمتوں کا پیمانہ کیا جا سکتا ہے۔
3) کرپٹو کرنسی میں قدر کو محفوظ کرنے کی اہلیت موجود ہے۔
4) کرپٹو کرنسی کو جاننے والے حضرات میں اسکو قبولیتِ عامہ حاصل ہے۔
یہ ثابت ہوا کہ کر پٹو کرنسی میں زر(Currency) بننے کی مکمل صفات پائی جاتی ہیں۔ البتہ چونکہ اس کی اپنی کوئی ذاتی قدر نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کے تعامل سے اس میں قدر پیدا ہوتی ہے تو اس کو زر(Currency) حقیقی نہیں کہہ سکتے بلکہ اس کا شمار زر(Currency) عرفی/اصطلاحی میں کیا جائے گا۔ اس کا شرعی حکم ان شاء اللہ ہم آخر میں تفصیلاً ذکر کریں گے۔
کرپٹو کرنسی بطورِ مبیع (Asset)
عربی زبان میں ہر وہ چیز جس کو خریدا جائے اس کومبیع(Assest) کہا جاتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے معاملات کے اندر یہ آسانی رکھی ہے کہ ہر چیز جائز اور حلال ہے سوائے اس چیز کے جو شرعی دلائل کی وجہ سے حرام ہو۔ دورانِ بحث یہ ذکر کیا گیا کہ زر(Currency) عرفی کی قدر چونکہ لوگوں کے تعامل کی وجہ سے ہوتی ہے اور اگر لوگوں کا تعامل اس چیز سے بطور زر(Currency) ختم ہو جائے تو اس کی حیثیت بطورِ مبیع(Assest) کی ہو جاتی ہے۔
یہی معاملہ کرپٹو کرنسی کا ہے۔ اس کو ہم نے زر(Currency) اس وجہ سے شمار کیا ہے کیونکہ اس میں جہاں دیگر زر(Currency) کی خصوصیات و صفات پائی جاتی ہیں اور اس میں قدر لوگوں کے تعامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر زر(Currency) کی حیثیت سے لوگوں کا تعامل اس سے ختم ہو جائے تو اس کومبیع(Assest) شمار کیا جائے گا۔ شریعت نے خرید و فروخت کے معاملے میں مبیع(Assest) کے تعلق سے چند شرائط لاگو کی ہیں۔ اگر مبیع(Assest) وہ شرائط پائی جائیں تو اس کی خرید و فروخت جائز ہوتی ہے۔ ہم ان شروط کو اختصاراً ذکر کرتے ہیں:
۱)مبیع(Assest) مال منتفع ہونا چاہیئے: کسی بھی چیز کی خرید و فروخت کے لیے ضروری ہے کہ مال ہو اور مباحۃ النفع ہو۔9
مال” عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی: ’’ کوئی ایسی چیز جس کی طرف لوگوں کی طبیعت مائل ہو‘‘
منتفع : یعنی جس چیز سے فائدہ حاصل کرنا شرعاً اور عقلاً جائز ہو۔
اگر کوئی ایسی چیز ہے جس کی طرف لوگوں کی طبیعت مائل ہو اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہو تو اس کی خرید و فروخت کی جا سکتی ہے۔
یہاں یہ اشکال آتا ہے کہ کرپٹو کرنسی زر(Currency) عرفی ہے اور زر(Currency) عرفی لوگوں کی طبیعت اور ان کے عرف کی وجہ سے زر(Currency) بنتا ہے تو جب لوگوں کا تعامل ہی اس سے ختم ہو گیا تو وہ مال کیسے بن سکتی ہے؟
اس اشکال کا جواب ایسے ممکن ہے کہ اگر ہم تاریخ کے اوراق میں نظر دوڑائیں تو ہمیں متروکہ کرنسی نوٹ کی مثال ملتی ہے کہ لوگوں کے تعامل کی وجہ سے اس کو زر(Currency) عرفی کا درجہ حاصل ہوا تھا لیکن جب لوگوں کا تعامل اس سے ختم ہوا تو وہ مبیع(Assest) بن گئے اور ان کا استعمال یا تو لوگ تحقیق وغیرہ کے مقصد کے لیے ان کو استعمال کرتے ہیں یا پھر آثارِ قدیمہ جمع کرنے کا شوق جن حضرات کو ہوتا ہے وہ ان کو اپنے پاس رکھتے ہیں۔
اگر کسی کرنسی پر سے لوگوں کا بطور زر(Currency) تعامل ختم ہو جائے تو اگر کسی مقصد کے لیے ان کو بطورمبیع(Assest) خریدا جائے تو ان کی خرید و فروخت ہو سکتی ہے نیز اس خرید و فروخت میں کرنسی والے احکامات لوگو نہیں ہوں گے۔(تفصیل ان شاء اللہ آخر میں)
2)مبیع(Assest) معدوم نہ ہو: خرید و فروخت کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز کو خریدا جارہا ہے وہ اصلاً موجود ہو۔ یہ بات پیچھے گزر(Currency) چکی ہے کہ کرپٹو کرنسی اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہے۔10
3)مبیع بیچنے والے کی ملکیت و قبضے میں ہو: بیچنے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس چیز کو وہ بیچ رہا ہے وہ اس کی ملکیت و قبضے میں ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو شریعت نے اس کو وہ چیز بیچنے سے منع فرمایا ہے۔11
4)مبیع(Assest) مقدور التسلیم ہو: بیع کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ بیچنے والا سامان کو خریدار کے حوالے کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔12
5)مبیع(Assest) معلوم ہو: سامان کے لیے ضروری ہے کہ اس کی مقدار اور جنس معلوم ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو خرید و فروخت کے معاملے میں جہالت پائی جائے گی جس سے شریعتِ مطہرہ نے روکا ہے۔13
حاصل کلام: کرپٹو کرنسی کی حیثیت بطور زر(Currency) اگر ختم ہو جائے تو یہ بطور مبیع(Assest) ان کی خرید و فروخت ہو سکتی ہے۔
کرپٹو کرنسی کا شرعی حکم :
تنبیہِ بلیغ : ہمارے معاشرے میں ایک عمومی مزاج رائج ہے کہ جب کبھی بھی ترقی کرتی ہوئی دنیا کے ساتھ کوئی نئی چیز وجود میں آتی ہے تو عوام الناس اسکا شرعی حکم جاننے کے لیے علماءِ کرام کی طرف رجوع کرتی ہے جو کہ بلا شبہ ایک قابل، تعریف امر ہے لیکن ساتھ ایک افسوس ناک امر یہ ہوتا ہے کہ اگر علماء اس پر محققین کی آراء کی روشنی میں اس پر حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں توعلماء کو دقیانوس اور ترقی سے دور شخصیات جیسے القابات نوازے جاتے ہیں اور اگر علماء محققین کی آراء کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے حلال ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں تو لوگ اس میں سرمایہ کاری بغیر سوچے سمجھے شروع کر دیتے ہیں اور اگر اس میں نقصان ہو جائے توعلماء کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے۔
یہ رویہ قطعاًغیر مناسب رویہ ہے حالانکہ نبی ﷺ نے بیان فرمایا:
إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ14
یعنی: جب فیصلہ کرنے والا کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کرے اور فیصلہ صحیح ہو تو اسے دو ثواب ملتے ہیں اور جب کسی فیصلے میں اجتہاد کرے اور غلطی کر جائے تو اسے ایک ثواب (اپنی محنت) ملتا ہے۔
غور فرمائیں کہ نبی ﷺ نے دونوں صورتوں میں علماء کے لیے ثواب اور نیکی کی بشارت دی ہے نہ کہ یہ فرمایا کہ اگر وہ غلط ہوں تو ان کو ہدفِ تنقید بنایا جائے۔ اس تمہید کے بعد یہ بات عرض ہے کہ کرپٹو کرنسی پر جو بھی حکم آگے آنے والے سطور میں ذکر کیا جائے گا اس کا قطعاً یہ معنیٰ نہیں ہوگا کہ قارئیین فقط اس تحریر کی بنیاد پر کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری شروع کردیں بلکہ جن احباب کو اسکی باقاعدہ معلومات ہوں اور تجربہ ہو، معاشی صورتحال اور اس ٹیکنالوجی کو سمجھنے کی طاقت ہو تو وہ ذاتی دلچسپی کی بنیاد پر اس میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
گزشتہ تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی زر(Currency)عرفی ہے۔ اگر لوگوں کا تعامل اس پر سے بطور زر(Currency) کے ختم ہو جائے تو اس کی صورت مبیع(Assest) کی بن جائے گی۔ چونکہ اس وقت اس کی حیثیت زر(Currency) کی ہے تو اس پر زر(Currency) کے احکامات نافذ العل ہوں گے۔ زر(Currency) کی آپس میں خرید و فروخت کو شریعت کی اصطلاح میں “بیع الصرف” کہا جاتا ہے۔ بیع الصرف کے صحیح ہونے کی دو شروط ہیں جن کو ہم اجمالاً ذکر کرتے ہیں:
1) دو ایک جیسی کرنسیوں کے آپس کے لین دین میں یہ شرط ہے کہ ان کی تعداد بلکل برابر ہو۔ کمی بیشی جائز نہیں ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ جس مجلس میں معاہدہ ہو رہا ہے اسی مجلس میں دونوں کرنسیوں پر قبضہ حاصل کیا جائے۔ کرپٹو کرنسی میں بطورِ مثال اگر کسی نے بٹ کوائن کو بٹ کوائن کے بدلے خریدنا ہے تو دونوں کی مقدار بلکل برابر ہونی چاہیے۔ کمی بیشی جائز نہیں ہے۔ ایک بٹ کوائن کے بدلے ایک بٹ کوائن کا تبادلہ ہی ہو سکتا ہے۔
2)اگر کرنسی کی جنس الگ ہے تو کمی بیشی جائز ہے لیکن جس مجلس میں لین دین کا معاملہ ہو رہا ہے اسی مجلس میں دونوں طرفین کا کرنسی پر قبض حاصل کرنا ضروری ہے۔ ادھار جائز نہیں ہے۔ مثلاً : اگر زید نے عمر سے ایک بٹ کوائن کے بدلے دولائٹ کوائن کا معاہدہ کرنا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جس مجلس میں یہ معاہدہ ہو رہا ہے اسی میں عمر کے پاس بٹ کوائن ٹرانسفر ہو جانے چاہیے اور زید کے پاس دو لائٹ کوائن ٹرانسفر ہو جانے چاہیے۔
کرپٹو کرنسی سے متعلق دیگر احکامات:
ہم نے عرض کیا کہ چونکہ کرپٹو کرنسی ایک زر ہے تو اس پر شرعی طور پر زر کے احکامات لاگو ہوں گے۔ زر کی آپس میں خرید و فروخت کے تعلق سے جو شروط اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں وہ ہم نے اجمالاً ذکر کر دیں۔ دیگر احکامات جو زر کے تعلق سے شریعت کے ہمیں ملتے ہیں ان کا بھی اجمالی ذکر ضرروی ہے۔ ان احکامات کو ہم کرپٹو کرنسی پر لاگو کرتے ہوئے سمجھتے ہیں:
1)اگر کرپٹو کرنسی میں کسی کو قرض دیا جائے تو اس پر سود لینا جائز نہیں ہے۔
2)اگر کسی شخص کے پاس اتنی مقدار میں کوئی بھی ایک یا متعدد کرپٹو کرنسیاں موجود ہیں جن کی قیمت 52 تولہ چاندی کے برابر ہوں تو سال گزرنے پر اس کرپٹو کرنسی کے مالک پر زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہوگی۔
موجودہ دور میں کرپٹو کرنسی میں ہونے والی ٹریڈنگ کی اقسام:
کرپٹو کرنسی میں متعدد اقسام کی ٹریڈنگ کی جاتی ہے۔ ہم نے یہ ذکر کیا کہ کرپٹو کرنسی کیونکہ زر ہے۔ اصل میں اس کا لین دین حلال ہے لیکن موجودہ دور میں کرپٹو کرنسی میں ٹریڈنگ کی کچھ ایسی صورتیں ہیں جو جائز نہیں ہیں۔ بنیادی طور پر کرپٹو کرنسی میں تین طریقوں سے ٹریڈنگ کی جاتی ہے1)سپاٹ ٹریڈنگ (2) مارجن ٹریڈنگ (3) فیوچر ٹریڈنگ۔
ہم بالترتیب ان اقسام کی کچھ تفصیل اور شرعی تعلیمات کی روشنی میں اس کا حکم ذکر کرتے ہیں:
1)سپاٹ ٹریڈنگ:
سپاٹ ٹریڈنگ میں صارف کرنسی کو خریدتا ہے اور اس کے اکاؤنٹ میں وہ رقم ظاہر ہونے لگتی ہے اور جب صارف چاہے اس رقم کو بیچ سکتا ہے۔ کرنسی کی خرید و فروخت کے لیے یہ لازمی ہے کہ مجلس العقد میں اس پر قبضہ حاصل کیا جائے۔ چناچہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے دینار کی درہم سے یا سونے کی چاندی سے بیع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: زید بن ارقم سے پوچھو، وہ زیادہ جاننے والے ہیں، چنانچہ میں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: براء سے پوچھو، وہ زیادہ جاننے والے ہیں، پھر دونوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے سونے کے عوض چاندی کی ادھار بیع سے منع فرمایا۔15
چونکہ اس میں کرنسی صارف کی ملکیت اور قبضے میں مجلس العقد میں ہی آ جاتی ہے اس وجہ سے اس ٹریڈنگ میں لین دین کرنا جائز ہے۔
2)فیوچر ٹریڈنگ:
اس میں صارف مستقبل کی کسی معین تاریخ میں کسی چیز کی خرید و فروخت کا معاہدہ کرتا ہے . مثلاً محمد نے زید سے فروری کی دس تاریخ کو کہا کہ میں آپ سے 10 بٹ کوائن خرید رہا ہوں اور مارچ کی دس تاریخ کو آپ کو واپس بیچ دوں گا۔ مارچ کی دس تاریخ کو دونوں ملیں گے اور جو قیمت دس فروری کو طے ہوئی تھی اگر قیمت اس سے زیادہ ہوئی تو اضافی رقم زید محمد کو دے گا اور اگر قیمت کم ہوگی تو زید اس میں جو فرق ہوگا وہ منہا کر کے محمد سے بٹ کوائن لے کر بقیہ رقم محمد کو دے گا۔
یہ واضح طور پر جُوا ہے چانچہ جُوئے کی تعریف یہ ہے کہ دو فریقین کسی معاہدے پر مقررہ وقت کے ساتھ ایک رقم لگائیں اور وقت آنے پر کسی ایک کا نقصان اور دوسرے کا فائدہ ہو جائے اس سے شریعتِ مطہرہ نے منع فرمایا ہے چناچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ16
ترجمہ: اے ایمان والو! یہ شراب اور یہ جُوا اور یہ آستانے اور پانسے سب گندے شیطانی کام ہیں لہٰذا ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پا سکو۔
دوسری جو شرعی قباحت اس میں موجود ہے وہ یہ کہ اس میں صارف کو Leverage ملتا ہے جو کہ سود کی واضح صورت ہے کہ صارف کو قرضہ دیا جاتا ہے اور پھر اس پر منافع حاصل کیا جاتا ہے اور یہی سود ہے۔ چناچہ حدیثِ نبوی ﷺ ہے:
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدَهُ وَكَاتِبَهُ17
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے ، کھلانے ، اس کے گواہ اور لکھنے والے ( سب ) پر لعنت فرمائی ہے۔
3) مارجن ٹریڈنگ:
اس میں صارف کو اگر 20 بٹ کوائن خریدنے ہیں لیکن اس کے پاس رقم صف دو بٹ کوائن خریدنے کی ہے تو یہ بروکر (Broker) سے رابطہ کرے گا اور وہ اسکو لیوریج (Leverage) دے گا جس سے وہ 20 بٹ کوائن کی خریداری کر سکے گا. لیوریج (Leverage) سود کی واضح صورت ہے کہ صارف کو قرضہ دیا جاتا ہے اور پھر اس پر منافع حاصل کیا جاتا ہے اور یہی سود ہے. چناچہ حدیثِ نبوی ﷺ ہے:
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَشَاهِدَهُ وَكَاتِبَهُ18
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے ، کھلانے ، اس کے گواہ اور لکھنے والے ( سب ) پر لعنت فرمائی ہے۔
حاصل کلام:
کرپٹو کرنسی زر(Currency) ہے۔ اسکا استعمال لین دین میں کیا جاتا ہے۔ اپنی اصل میں یہ جائز ہے کیونکہ اس میں زر کی تمام صفات پائی جاتی ہیں۔ اس میں متعدد اقسام کی ٹریڈنگ ہوتی ہے جن میں سے صرف سپاٹ ٹریڈنگ (Spot Trading)جائز ہے۔ نیز یہ ٹریڈنگ اس وقت کرنا درست ہوگا جب کسی حکومت یا قانون کے تحت اس کو غیر قانونی نہ سمجھا جاتا ہو۔ اگر کسی حکومت یا قانون میں اسکو غیر قانونی شمار کیا جاتا ہے تو اس ملک یا جگہ پر اس کی ٹریڈنگ درست نہیں ہوگی۔
ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
ونسال اللہ التوفیق والنجاح فی الدارین
- https://www.techtarget.com/searchsecurity/definition/cryptography
- https://www.educative.io/answers/what-are-centralized-decentralized-and-distributed-systems
- https://en.wikipedia.org/wiki/Digital_currency#:~:text=Origins%20of%20digital%20currencies%20date,another%20at%20a%201%25%20fee.
- https://coinmarketcap.com/academy/article/coin-vs-token:-what-is-the-difference
- https://www.investopedia.com/terms/b/blockchain.asp
- https://www.forbes.com/advisor/in/investing/cryptocurrency/what-is-staking-in-crypto/#:~:text=Staking%20is%20when%20you%20lock,proof%20of%20stake%20consensus%20mechanism.
- https://www.britannica.com/money/what-is-crypto-mining
- مجلۃ البحوث الاسلامیۃ،ص 200
- زاد المستقنع للامام ابو النجا موسى بن احمد بن موسى الحجاوي،ص:100،ت العسكري
- زاد المستقنع للامام ابو النجا موسى بن احمد بن موسى الحجاوي،ص:100،ت العسكري
- زاد المستقنع للامام ابو النجا موسى بن احمد بن موسى الحجاوي،ص:100،ت العسكري
- زاد المستقنع للامام ابو النجا موسى بن احمد بن موسى الحجاوي،ص:101،ت العسكري
- زاد المستقنع للامام ابو النجا موسى بن احمد بن موسى الحجاوي،ص:101،ت العسكري
- (سنن نسائی : 5381)
- (صحیح مسلم : بَابُ النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الْوَرِقِ بِالذَّهَبِ دَيْنًا، رقم الحدیث: 4075)
- (سورۃ المائدۃ : 90)
- (سنن ابی داؤد : 3333)
- (سنن ابی داؤد : 3333)