جنسی تعلیم یا فحاشی کا فروغ

نئے سال کی آمد پر قصور میں زینب نامی ایک معصوم گڑیا کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعد ازاں قتل کرکے لاش کو کچرے میں پھینک دیا گیا یہ سراسر انسانیت کی توہین تھی چاہئے تو یہ تھا کہ مجرم کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اس پہ مستزاد یہ کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کے فروغ کا شور اٹھایا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ اگر پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم نہ دی گئی تو ایسے واقعات ہوتے رہیں گے ۔

قصور سمیت ملک بھر میں ہونے والے واقعات کے بغور جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ یہ سارے اغواء، زیادتی اور قتل کے کیسز ہیں یعنی فوجداری واقعات ہیں ان کی روک تھام پولیس اور انتظامیہ کے ذمے ہیں لیکن تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ ان کو ٹھیک کرنے کی بجائے کمال ہوشیاری سے ان کی ذمہ داری والدین اور تعلیمی اداروں پر ڈالی جا رہی ہے ان سارے واقعات کا سیکس ایجوکیشن سے دور کا بھی تعلق نہیں  لیکن مغربی فنڈنگ پر چلنے والی این جی اوز ان سب کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔

اسباب اور وجوہات اور سد باب

ذیل میں ہم انہی باتوں کا جائزہ لیں گے کہ جنسی تعلیم سے کیا مراد لی جا رہی ہے اور پاکستان میں اس کے فروغ کے لئے کیوں اتنی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اسلام اس حوالے سے کیا راہنمائی کرتا ہے ؟

یہاں پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بچوں کی جنسی تعلیم دینا بذات خود معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے اس سے کسی بگاڑ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا وہ سارا کچھ جو بچے ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں  اسے سکول جا کر دہراتے ہیں جس سے دیگر بچے متاثر ہو کر وہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ تعلیمی اداروں میں آئے روز مینہ بازار کا انعقاد ہوتا ہے ثقافتی شوز کے نام پر بچیوں کے ڈانس کرواجا رہے ہیں یہ سب عریانی کے اسباق ہی تو ہیں اسی لئے اوریا مقبول جان نے کہا تھا کہ بچوں میں جنسی تعلیم بے حیائی کے فروغ کا سبب بن سکتی ہے 31دسمبر2013کو اپنے ایک بیان میں آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے جج جسٹس ایل نرسمہا ریڈی نے کہا کہ ہائی سکولز میں جنسی تعلیم دینے سے بچوں کے ذہنوں میں خرابی ہو رہی ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ مشترکہ خاندان سسٹم ختم ہونے سے بچوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا ہے جبکہ اسلام ہرگز ایسا معاشرہ نہیں چاہتا جہاں انسانوں کی خواہشات کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہو بلکہ اسلام دین فطرت ہونے کے ناطے انسانوں کی فطری ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور انہیں جائز طریقے سے پورا کرنے کا مکمل سامان اور راہنمائی فراہم کرتا ہے تاکہ معاشرے بے لگام گھوڑے پر سوار ہوکر اپنا اخلاقی وجود نہ کھو بیٹھے لیکن جیسے جیسے ہمارے معاشرے نے اسلام سے دوری اختیاری کرکے اہل مغرب کی اندھی تقلید شروع کی تو اپنی بنیاد بھی بھول بیٹھے اور روز بروز زوال کا شکار ہوئے اور ہمارے مقامی نام نہاد دانشوروں نے اس زوال کو مزید گہرا کرنے میں اپنا کردار خوب نبھایا ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو مغرب کسی بھی چیز کو پردے میں رکھنے کا قائل نہیں  شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں مختصر لباس استعمال کیا جاتا ہے لیکن حیرت ہوتی ہے پاکستان کے نا م نہاد دانشوروں پر جو کہتے ہیں کہ کم کپڑے پہننا فحاشی نہیں بلکہ کم کپڑے پہننے والوں کی زندگی میں مداخلت کرنا فحاشی ہے ایسا کہنا ہے فرنود عالم کا، اب جبکہ ان کی سوچوں کا معیار ہی ایسا ہے تو ان سے بحث بیل کے آگے بین بجانے والی بات ہے ۔

ایک نظراُدھر بھی

پاکستان میں بچوں کو جنسی تعلیم دینے پر زور وہ لوگ دے رہے ہیں جو خود بچوں کی نازیبا ویڈیوز مہنگے داموں خریدتے ہیں ایسے ہی چلتے چلتے یورپ کا حال سنتے چلیے سابق برطانوی فٹبال کوچ بیری بیٹیل پر بچوں سے زیادتی کے 48مقدمات درج ہیں اور اس پر اسے عدالتی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح سابق فرنط انٹرنیشنل فٹ بالر صتیو میرلیٹ کو کم عمر لڑکے پر جنسی حملے کے الزام میں شامل تفتیش کیا گیا ۔

برطانیہ جہاں تعلیمی اداروں میں سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے اسی ملک کے معتبر ترین نشریاتی ادارے کے نمائندے جمی سوائل کے مرنے کے بعد معلوم ہوا کہ مرنے والے نے اپنے کیرئیر کے دوران 450لوگوں بشمول بچوں سے جنسی زیادی کی اسی طرح بی بی سی(BBC) اردو کی 19اپریل 2017ء کی رپورٹ میں بتایا کہ یورپ اور جنوبی امریکہ کے حکام نے سوشل سائیٹ وٹس ایپ کے ذریعے بچوں کے جنسی استحصال پر مبنی تصاویر کو تقسیم کرنے والے نیٹ ورک کے درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے ۔

بچوں کے جنسی استحصال کی تصاویر اور ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر ڈالنے کے معاملے میں یورپ گلوبل ہب بن رہا ہے ۔

اسی طرح بی بی سی اردو کی 3اپریل 2017ء کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل واچ فاونڈیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا کہ دنیا بھر میں غلط استعمال والے مواد کا 60فیصد اب یورپ میں پایا جاتا ہے جو کہ پہلے کے مقابلے میں 19فیصد زیادہ ہے اور یورپی ممالک میں غیر قانونی مواد ڈالنے کے معاملے میں نیدر لینڈ سرفہرست ہے ۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کے فروغ کا شور بھی یہی یورپ اٹھا رہا ہے جس سے ان کے مقاصد کی صاف سمجھ آرہی ہے لہذا پاکستانی قوم خبردار رہے کہ اہل یورپ ہر گز پاکستانی قوم اور معاشرے کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے ۔

مذکورہ بالا مثالیں ان مغربی ممالک سے لی گئی ہیں جہاں سیکس ایجوکیشن نصاب کا حصہ ہے لیکن لاکھوں واقعات میں سے چند ایک کا ذکر کرکے یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ خود ان ممالک میں بھی بچوں سے زیادتی کے واقعات رکے نہیں اس کے باوجود اس نصاب کو پاکستانی تعلیمی اداروں میں رائج کرنے کا مقصد بچوں کو قبل از وقت بالغ بنانے ، ان کو جنسی بے راہ روی کی طرف لے جانے اور معاشرے میں انارکی پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں ۔

این جی اوز کی چالبازیاں

پاکستان میں موجود این جی اوز(NGO) اور ان کے ہرکارے چند ایسے فرضی سوالات کی مدد سے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں جن سے انہیں پاکستان میں جنسی تعلیم کے فروغ کی حمایت دستیاب ہوتی ہے انہی سوالات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر بچے آپ سے پوچھیں کہ ’’ بچے کہاں سے آتے ہیں ‘‘؟ تو آپ ان کو میاں بیوی کے تعلقات اور اس کے بعد کاسارا پروسیجر مکمل تفصیل سے بتا سکتے ہیں  اسی طرح بچہ اگر پوچھے کہ سپرم اور انڈہ اکٹھے کیسے ہوتے ہیں تو انہیں مکمل تفصیل فراہم کی جائے

کوئی ان سے پوچھے کہ ایک بچہ یہ ہی کیوں پوچھے گا کہ بچے کہاں سے آتے ہیں ؟ اور اسے کیا خبر کہ سپرم اور انڈہ کیا ہوتے ہیں ؟اور اگر وہ پوچھ ہی لے تو اسے چھوٹی عمر میں میاں بیوی کے تعلقات سمجھانے کی کیا ضرورت ہے بھلا ؟وقت سے پہلے بچوں کو بالغ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے

اسی طرح غیر ملکی فنڈنگ پر چلنے والی این جی اوز جس جنسی تعلیم کا پرچار کرتی ہیں اس کا ایک پوائنٹ یہ بھی ہے کہ بچوں کو بتایا جائے کہ سیکس صرف خود لذت حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنے ساتھی کوبھی لذت دینا ہے اب آپ ہی بتائیے کہ یہ بد اخلاقی سے بچانے کی تعلیم ہے یا فحاشی کی ،اسلام اسی تعلیم کے کبھی بھی حق میں نہیں رہا ۔

مغربی ممالک میں رائج جنسی تعلیم

اب آئیے اہل مغرب کے ہاں رائج جنسی تعلیم کے سلیبس پر ایک نظر ڈالتے ہیں

انٹرنیٹ سے پوچھا گیا تو وکی پیڈیا نے سیکس ایجوکیشن کی تعریف کچھ یوں کی

Sexeducation is instruction on issues relating to human sexuality

یہاں پر آگاہی کی بجائے ہدایات کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے دیگر اجزاء یا مکمل پروگرام میں جو چیزیں شامل ہیں وہ یہ ہیں :

Humansexual anatomy

Sexual reproduction

Sexual activity

Age of consent

Reproductive health

Reproductive rights

Safe Sex

Birth control

Sexual abstinence

ان موضوعات کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا بچوں کے اغواء زیادتی اور قتل جیسےبرے واقعات سے کوئی تعلق نہیں تو پھر سیکس ایجوکیشن کے لئے اتنا واویلا کیوں ؟اس سارے سلیبس میں تو جنسی عمل قائم کرنا ، خود لذت لینا، دوسرے کو لذت دینا، اس سارے عمل میں بیماریوں سے بچنا اور محفوظ جنسی ملاپ کے طریقے بیان کئے گئے ہیں اور ان کی تربیت دی گئی ہے ۔

ایک نظر اپنے معاشرے

پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کے لئےتٹرپنے والی این جی اوز سے سوال کیا جانا چاہئیے کہ یہ سب کیا ہے اور بچوں کو اس سب تربیت کا فراہم کیا جانا کیوں ضروری ہے؟ اور کیا یہ سب فطری ہے ؟ ہر گز فطری نہیں یاد رکھئیے اہل مغرب اور سیکس ایجوکیشن کے لیے تٹرپنے والے دراصل فطرت کی نادیدہ قوتوں سے برسرپیکار ہیں اور آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ فطرت سے برسر پیکار ہونے کا مطلب اپنی موت کو دعوت دینا ہے یہی وجہ ہےکہ یورپ اور امریکہ صرف سی وجہ سے اپنا خاندانی نظام تباہ کر چکے ہیں اور اب انڈیا کا سماج دہائی دے رہا ہے کہ ہائی سکولز میں جنسی تعلیم کے نتائج کے طور پر بچے خاندان سے دور ہو رہے ہیں  

پاکستان اس وقت جنسی ادویات کے سمگلروں کے لئے ایک بڑی مارکیٹ بن چکا ہے اور 2015-16کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں اندازاََ 8بلین امریکی ڈالر کی جعلی ادویات فروخت ہو رہی ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ اور اس جیسے ممالک پاکستان میں اپنی انہی ادویات کی فروخت بڑھانے کے لئے جنسی تعلیم پر زور دے رہے ہیں تاکہ جہاں ایک طرف خاندان تباہ ہوں وہیں دوسری طرف ان کی ادویات کی خوب فروخت بڑھے کیونکہ وطن عزیزپاکستان میں جنسی ادویات کا ستعمال نوجوا ن نسل میں ایک نشے کی طرح پھیل چکا ہے اور اسے بیچنے والے اپنے مفاد کی خاطر کبھی بھی ان کے مضر صحت ہونے کا نہیں بتائیں گے ۔

اسلام کا نظریہ جنس

ہم نے مغربی جنسی نظریے کا جائزہ لیا اب آئیے !اسلامی جنسی نظریے کا بھی جائزہ لیتے ہیں ۔

جنسی خواہش ایک فطری اور پاکیزہ جذبہ ہے جنس کے خالق نے جنسی معاملات میں جو راہنمائی کی ہے وہ نہ صرف کافی ہے بلکہ فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور اس راہنمائی کی مُروجہ علوم کے پس منظر میں مزید تشریح کی جا سکتی ہے اور کی جانی بھی چاہئیے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اکثر مسلم ماہرین جنسیات بھی قرآن و حدیث کی ان تعلیمات کو یکسر نظر انداز کرکے مغربی ماہرین جنسیات کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ایک مسلم اکثریت معاشرے میں قرآن و حدیث سے ہٹ کر جنسی تعلیم دینے سے جنسی انارکی، کنفیوژن اور فحاشی تو پھیل سکتی ہے لیکن شادی شدہ لوگوں کی آسودگی اور غیر شدہ لوگوں کی تربیت کا باعث نہیں بن سکتی جبکہ یہی تعلیم ایک غیر مسلم معاشرے میں غیر مسلموں کے لئے مفید قرار پاتی ہے پس اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ جنسی تعلیم کا جو نصاب ایک غیر مسلم معاشرے کے لیے سود مند ہے وہی نصاب مسلم معاشرے کے لیے بہت خطرناک ہے کیونکہ اہل مغرب کسی بھی چیز کو پردے میں رکھنے کے قائل نہیں جبکہ اسلام نے ہر چیز کو اس کی درست جگہ پر رکھا ہے کہ جہاں اسے ہونا چاہئیے تھا

جنس کے خالق نے جنسی ضروریات کے جائز طریقے اور ضابطے بھی فراہم کئے ہیں اور ان سے انحراف کی صورت میں سورہ نور کی شکل میں تنبیہہ بھی کی ہے

ذرا دیکھئے تو اللہ نے کیا الفاظ استعمال کئے

سُورَةٌ أَنزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا وَأَنزَلْنَا فِيهَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لَّعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

سورہ نور 01

کہ یہ احکام ہم نے نازل کئے ہیں اور ہم نے ہی فرض بھی کئے ہیں یعنی یہ سفارشات نہیں کہ جی چاہا تو مان لیا اور جی نہ مانا تو رد کر دیا بلکہ یہ فرض ہیں کہ خالق کے مقرر کردہ جنسی ضابطوں سے انحراف کی شکل میں یہ سزائیں دی جانی فرض ہیں اور آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے جب تک یہ سزائیں نافذ العمل رہیں تب تک اسلامی معاشرے امن و سکون کی مثالیں بنے رہے اور آج کے جدید تہذیبی معاشرے میں مغربی ممالک انہی سزاوں کو ختم کرنے کے در پے ہیں تاکہ مسلم معاشرے انارکی و انتشار کا شکار ہوجائیں ۔

بچوں کو جنسی تعلیم و تربیت کب دی جائے؟

ایک مسلم معاشرے میں بچوں کو جنسی تعلیم اس قدر کھول کر نہیں دی جاتی کہ وہ قبل از وقت بالغ نہ ہوجائےاگر کسی بچے میں درج ذیل نشانیاں پائی جائیں تو اس پر فوری توجہ دی جانے کی ضرورت ہے ۔

بچہ خاموش اور سہما ہوا دکھائی دے ، یا جسم میں درد کی شکایت کرے ،یا بڑوں سے ڈر رہا ہو،یا نظریں نیچی کرکے بات کرے،یا سکول سے چھٹی کے وقت سہم جاتاہو،یا اپنے والدین یا رشہ داروں کے ساتھ کمفرٹیبل محسوس نہ کرے گزشتہ ادوار میں مسلم معاشروں کا سب سے بڑا ٓدمی اپنے فہم کی تشکیل محض عقل پر نہیں کرتا تھابلکہ  وہ اپنے فہم کی تشکیل میں الہامی ہدایت سے پورے طور پر فیض یاب ہوتا تھا اور اپنی عقل کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرتا تھا اور یوں فہم نافع کی تشکیل کے بعد اپنی خواہشات کو اپنی فہم کے تابع رکھتا تھا ۔

مسلم معاشروں کا المیہ ہے کہ انسان کے اندر موجود نفس کو  اس درجے پر موضوع نہیں بنایا جس درجے پر موضوع بنانا ان کی سب سے بڑی ضرورت تھی

نفس کے دوشاخیں (دوڈومینز) ہیں ایک ڈومین ہے طبیعت دوسرا ڈومین ہے شعور۔

طبیعت مزے اور لذت کے اصول کے مطابق چلتی ہے  یعنی طبیعت خواہش کیساتھ ہوتی ہے جبکہ شعور اچھے اور برے صحیح اور غلط نافع یا نقصان دہ کو پرکھتا ہے

جب طبیعت کامیلان شعور پر غالب آجائے تو اخلاق رذیلہ پیدا ہوتے ہیں لیکن جب شعور طبیعت کو اپنی تحویل میں لے تو اعلی اخلاق پیدا ہوتے ہیں

دین کی اصطلاح میں نفس کے غلبے سے مراد ہمارے اندر ہماری طبیعت کا غالب آجانا اور اپنی فطرت سے دور نکل جانا ہے ۔

دین اسلام میں انسانی تربیت کےبڑے مقاصد میں سے ایک بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ تربیت کے نتیجے میں ایک ایسا انسان تیار ہوجائے جو اپنے نفس پر غالب رہے اس سے مغلوب نہ ہو لیکن اس کے لئے طبیعت کا میلان اور نفس کی صورت اور شعور کی تیاری سمجھنا بہت ضروری ہے اور نفسیات جسے ہم مغرب کی اصلاح میں وضاحت کر رہے ہیں اسے اپنے اندازواصلاح میں بیان کرنا ہوگا ۔قصور واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے ایسے واقعات بے شمار پہلے بھی ہو چکے ہیں قصور واقعہ کے نتیجے میں ایک بحث شروع ہوئی ہے جس کی نوعیت اچانک چھا جانے والی ہے اس کے پیچھے علمیت کی شدید کمی ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے ہم رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوئے بغیر اپنے پیراڈائم(دائرہ کار ) میں رہتے ہوئے علمیت کی بنیاد پر اس کا تجزیہ کریں اور حل تلاش کریں ۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort