بدعات و رسوماتِ ماہِ شوال

مؤمنوں کے لیے نیکیوں کا موسم رب العزت کی طرف سے  ایک خاص انعام ہوتا ہے اور ماہِ شوال رب العزت کی طرف سے عطا کردہ موسموں میں سے ایک موسم ہے جس میں اللہ کے نیک بندے رب کی فرض عبادات کے ساتھ ساتھ نوافل بجا لا کر اپنے نامہِ اعمال کو نیکیوں سے بھر دیتے ہیں  اور توبہ   و استغفارکے ذریعے اپنے گناہوں اور نافرمانی کے داغ دھبوں کو مٹا دیتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے نیکیوں کے ان موسموں میں بعض لوگوں نے زمانہِ جاہلیت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے كئی بدعات، خرافات اور توہمات کو دین میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے جن کا قرآن و سنت سے دور کا بھی واسطہ  نہیں ہے۔ جبکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس پر واجب ہے کہ ماہِ شوال ہو یا کوئی اور مہینہ سال کے تمام مہینوں میں وہ عمل اختیار کرے جو شریعت اور سنت سے ثابت ہے کیونکہ  کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ  بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے ان مہینوں کو کسی بھی قسم کی عبادت یا قربِ الہی کے لیے خاص کرے ۔ درج ذیل سطور میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ماہِ شوال میں دین کے نام پر اختیار کیے جانے والے بعض عقائد، عبادات اور توہمات کی نشاندہی کرانا مقصود ہے ۔

ماہِ شوال اور دورِ جاہلیت کا نظریہ

دورِ جاہلیت میں لوگ ماہِ شوال کو منحوس سمجھتے اور اس میں شادی بیاہ کے قائل نہ تھے۔ ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ جو جوڑا شوال میں شادی کرتا ہے ان میں باہمی اختلاف، دشمنی اور نفرت پھوٹ پڑتی ہے اور وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

شوال میں نکاح منحوس سمجھنے کی وجوہات

پہلی وجہ : 

ابنِ منظور رحمہ اللہ كہتے ہيں:

وكانت العرب تطير من عقد المناكح فيه، وتقول: إن المنكوحة تمتنع من ناكحها كما تمتنع طروقة الجمل إذا لقحت وشالت بذنبها، فأبطل النبي صلى الله عليه وسلم طيرتهم۔1

ترجمہ : اہلِ عرب ماہِ شوال ميں عقدِ نكاح اور رخصتی کو باعثِ نحوست سمجھتے تھے۔ ان كا كہنا تھا كہ منكوحہ عورت بالكل اسى طرح خاوند سے دور اور رک جاتى ہے جس طرح اونٹنى اونٹ سے دور رہتى اور اپنى دم اٹھاتی  ہے۔ چنانچہ نبى كريم ﷺ نے ان كى اس بد شگونى كو باطل قرار دیا ۔

عبد الله بن عبد العزيز التويجری  رحمہ اللہ کہتے ہیں

فالسبب الذي جعل العرب في الجاهلية يتشاءمون من الزواج في شهر شوال: هو اعتقادهم أن المرأة تمتنع من زوجها كامتناع الناقة التي شولت بذنبها بعد اللقاح من الجمل2

زمانہِ جاہلیت میں عربوں کا شوال کے مہینے میں نکاح کو منحوس سمجھنے کی وجہ يہ تھی کہ ان کا یہ  اعتقاد تھا كہ  شوال کے مہینے میں عورت اپنے خاوند كو اپنے قريب آنے سے روک دیتی تھی جس طرح اونٹنى اونٹ كو اپنی دُم اٹھا کر قريب آنے سے روک ديتى ہے۔

دوسری وجہ

ابو عبداللہ محمد بن سعد البصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں

وقال أبو عاصم: إنما كره الناس أن يدخلوا النساء في شوال لطاعون وقع في شوال في الزمن الأول3

ترجمہ : بقول ابو عاصم لوگ شوال کے مہینے میں نکاح  کو اس لیے ناپسند کرتےتھے کہ زمانہِ جہالیت میں ایک مرتبہ شوال کے مہینے میں طاعون پھیل گیا تھا جس میں بہت سی دلہنیں مر گئی تھیں۔

امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

كانوا يتطيرون بذلك لما في اسم شوال من الإشالة والرفع4

زمانہِ جاہلیت میں عربوں کا شوال کے مہینے میں نکاح کو منحوس سمجھنے کی وجہ يہ تھی کہ لفط شوال  کے معنی میں بلند کر لینے اور اٹھا لینے کا معنی پایا جاتا ہے۔

شوال میں شادی سنتِ رسولﷺ

شوال میں شادی رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ۔ چنانچہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ:

تَزَوَّجَنِي رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ في شَوَّالٍ، وَبَنَى بي في شَوَّالٍ، فأيُّ نِسَاءِ رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ كانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي؟ قالَ: وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا في شَوَّالٍ

(صحيح مسلم: 1423، وصحيح ابن ماجه: 1632)

ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شوال میں شادی کی اور شوال کے مہینے میں ہی آپ نے میرے ساتھ شبِ زفاف منائی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کون سی بیوی آپ کے ہاں مجھ سے زیادہ خوش نصیب تھی؟ (عروہ کہتے ہیں) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پسند کرتی تھیں کہ اپنی (رشتہ دار اور زیرِ کفالت) عورتوں کی رخصتی  ماہِ شوال میں کریں ۔  

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کا رد

اہلِ عرب شوال کے مہینے میں نکاح یا رخصتی کرا کر دلہن گھر لانے کو باعثِ نحوست سمجھتے اور  بد شگونی لیتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس نظریے کا رد کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ یہ ایک باطل نظریہ ہے کیونکہ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو میں تمام ازواجِ مطہرات میں سب سے زیادہ خوش نصیب میں کیوں کر ہوتی؟

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

فيه استحباب التزويج والتزوج والدخول في شوال، وقد نصَّ أصحابنا على استحبابه، واستدلوا بهذا الحديث . وقصدت عائشة بهذا الكلام رد ما كانت الجاهلية عليه، وما يتخيله بعض العوام اليوم من كراهة التزوج والتزويج والدخول في شوال، وهذا باطل لا أصل له، وهو من آثار الجاهلية5

یہ حدیث بتاتی ہے کہ شوال میں کسی کی شادی کرانا، شادی کرنا اور صحبت کرنا مستحب ہے ہمارے اصحاب نے اس کے مستحب ہونے ہونے کو وضاحت سے بیان کیا ہے اور انہوں نے بھی اسی حدیث سے استدلال کیا ہے ۔ اس کلام سے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقصد اس وہم کا رد کرنا تھا جو کہ ان دنوں کچھ لوگ خیال کرتے تھے کہ شوال میں شادی کرنا، کسی کی شادی کروانا اور صحبت کرنا مکروہ ہے۔ یہ باطل خیال ہے جس کی کوئی اصل نہیں ہے اور یہ جاہلیت کے آثار میں سے ہے ۔

امام ابنِ كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

وفي دخوله صلى الله عليه وسلم بعائشة رضي الله عنها في شوال ردّ لما يتوهمه بعض الناس من كراهية الدخول بين العيدين خشية المفارقة بين الزوجين، وهذا ليس بشيء7

رسول اللہ ﷺ نے غزوہِ بدر کے بعد سن دو ہجری میں امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی اور ماہِ شوال میں ہی ان کے ساتھ شبِ زفاف منائی۔

امام واقدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

قد تزوج بأم المؤمنين السيدة أم سلمة رضي الله عنها في شهر شوال؛ قال عمر بن أبي سلمة: واعتدت أمي حتى خلت أربعة أشهر وعشرا، ثم تزوجها رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، ودخل بها في ليال بقين من شوال؛ فكانت أمي تقول: “ما بأس في النكاح في شوال والدخول فيه”؛ قد تزوجني رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في شوال، وأعرس بي في شوال8

کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہِ شوال میں امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ چنانچہ عمرِ بن ابی سلمہ کہتے ہیں کہ : میری والدہ نے عدت گزارنا شروع کیا یہاں تک کہ چار مہینے دس دن گزر گئے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان سے شادی کی اور شوال کے چند دن ابھی باقی تھے کہ آپ ﷺ نے ان سے صحبت کی ۔ میری والدہ کہتی تھیں : شوال میں شادی اور صحبت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے شوال میں نکاح کیا اور شوال میں میرے ساتھ شبِ زفاف منائی  ۔

امام ابنِ القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :

وتزوَّجها رسول الله صلى الله عليه وسلم في شوال سنة أربع9

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سن چار ہجری شوال کے مہینے میں نکاح کیا۔

شوال میں نکاح کے متعلق فقہاء کے اقوال

حدیثِ عائشہ کی روشنی میں مالکی، شافعی اور اکثر حنبلی فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شوال کے مہینے میں نکاح کرنا مستحب ہے۔

امام نفراوي مالکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

ويستحب كون الخطبة والعقد يوم الجمعة بعد صلاة العصر؛ لقربه من الليل، كما يستحب كونها في شوال10

(الفواكه الدواني :2/ 11)

جس طرح شوال میں نکاح کرنا مستحب ہے ، اسی طرح رات کے قریب ہونے کے باعث منگنی اور عقدِ نکاح بھی جمعہ کے دن عصر کی نماز بعد کرنا مستحب ہے ۔

امام ابن حجرِ هيتمي شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

يندب التزوج في شوال والدخول فيه؛ للخبر الصحيح فيهما عن عائشة رضي الله عنها مع قولها ردا على من كره ذلك11

شوال میں نکاح اور رخصتی کرنا دونوں مندوب عمل ہیں کیونکہ  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دونوں کے بارے میں صحیح حدیث موجود ہے۔ نیز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول بھی موجود ہے جو شوال کے مہینے میں نکاح کو ناپسند کرنے والوں کے رد میں کہا گیا ہے ۔

امام المرداوي الحنبلي رحمہ اللہ کہتے ہیں:

أنه يستحب أن يتزوج في شوال12

 ماہِ شوال میں شادی کرنا مستحب ہے۔

امام ابنِ عابدین حنفی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:

عیدین کے درمیان صحبت کرنا اور نکاح کرنا جائز ہے اور بعض نے رخصتی کرنا مکروہ کہا ہے لیکن مختار قول کے مطابق مکروہ نہیں ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شوال کے مہینے میں شادی کی اور شوال میں ہی خلوت کی۔13

خلاصہِ کلام

معلوم ہوا کہ شوال کے مہینے میں نکاح اور رخصتی کی کوئی ممانعت نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں :

1۔ شوال کے مہینے میں نکاح اور رخصتی کرنا دونوں سنت رسول ﷺ ہیں اور مستحب عمل ہیں۔

2۔ شوال کا مہینہ ماہِ رمضان کا پڑوسی اور عید الفطر کا مہینہ ہے جو اسلام کا ایک عظیم الشان تہوار ہے اور مسلمانوں کے لیے بڑی مسرت اور خوشی کا دن ہے لہذا اس میں نکاح اور رخصتی کرنا بہتر ہے ۔

3۔ شوال کے مہینے میں صدقہ الفطر ، نمازِ عید الفطر ، خطبہِ عید الفطر اور چھ نفل روزوں کے اعمال پائے جاتے ہیں ، جس سے اس ماہ کی فضیلت واضح ہو جاتی ہے ۔

4۔ شوال کا مہینہ حج کے با برکت مہینوں میں پہلا مہینہ ہے جو اس ماہ کی ایک بڑی فضیلت ہے ۔

5۔ شوال کے مہینے میں نبی کریم ﷺ کا ام المؤمنین سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا سے نکاح اور رخصتی اس ماہ کی مزید فضیلت ثابت کرتی ہے ۔

6۔ شوال کے مہینے میں نبی کریم ﷺ کا ام المؤمنین سیدہ امِ سلمہ  رضی اللہ عنہا سے نکاح اور رخصتی بھی اس ماہ کی ایک بڑی فضیلت ہے۔

7۔ جس مہینے میں خود نبی کریم ﷺ نے نکاح کیا ہو اور پھر  رخصتی بھی اسی ماہ میں ہوئی ہو اور اس سے زیادہ مبارک مہینہ اور کونسا ہوگا ؟

8۔ جس مہینے  میں لوگ نکاح کو منحوس سمجھیں اس میں نکاح کرنا افضل ہے تاکہ عوام کے ذہن سے غلط عقیدہ نکل جائے۔

9۔  شریعت کی نظر میں  کوئی بھی اسلامی مہینہ منحوس نہیں ہے لہذا بغیر کسی شک و شبہ  اور خوف کے ان مہینوں میں نکاح کرنا چاہیے۔

10۔ ماہِ شوال میں نکاح اور رخصتی کو منحوس سمجھنا ایک غلط عقیدہ اور  باطل نظریہ ہے۔ چنانچہ  اسی غلط نظریے کی تردید کرنے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ماہِ شوال میں نکاح کو پسند فرماتی تھی۔

ماہِ شوال اور بد شگونی و نحوست کا نظریہ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

فالتشاؤم من الزواج في شهر شوال أمرُ باطلُ، لأن التشاؤم عموماً من الطيرة التي نهى النبي صلى الله عليه وسلم عنها بقوله: لا عدوى ولا طيرة14

ترجمہ : شوال ميں شادى كى بد شگونى لینے کا معاملہ باطل ہے كيونكہ بد شگونى اُس بد فالى ميں شامل ہے جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لا عَدْوى، ولا طِيَرةَ، ولا هامَةَ، ولا صَفَرَ

 (صحيح البخاري: 5717)

چھوت لگنے، بد شگونی، اُلو کی نحوست اور ماہِ صفر کی نحوست جیسی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

اور آپ ﷺ كا يہ بھى فرمان ہے:

الطِّيَرةُ شِركٌ

(سنن الترمذي :1663، وقال: حديث حسن صحيح)

بد فالى اور بد شگونى شرک ہیں۔

ماہِ شوال میں نکاح کو منحوس سمجھنا باطل کیوں ہے؟

1۔ شوال کے مہینے میں نکاح کو منحوس سمجھنا باطل نظریہ ہے کیونکہ نکاح ایک اہم عبادت ہے۔ نسلِ انسانی کی بقا کے لیے اللہ رب العزت نے نکاح کا حکم دیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانی اور انبیاء  اور رسولوں کی سنت  ہے کیونکہ انبیاء اور رسولوں کی بھی بیویاں اور اولادیں تھیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً

  (الرعد: 38)

ترجمہ : آپ سے پہلے ہم نے بہت سے رسول بھیجے اور انھیں ہم نے بیوی بچوں والا  ہی بنایا تھا۔

تفسیر التحریر والتنویر میں ہے کہ اکثر رسولوں کی بیویاں تھیں اور ان میں سے اکثر کی اولادیں تھیں۔ جیسے نوح ، ابراہیم، لوط، موسیٰ، داؤد اور سلیمان علیہم السلام  وغیرہ۔15

صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی 100 بیویاں تھیں۔16

بد نظری سے حفاظت

نکاح کے ذریعے آدمی بد نظری سے بچ جاتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت ہو جاتی ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  

مَنِ اسْتَطَاعَ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فإنَّه أغَضُّ لِلْبَصَرِ، وأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، ومَن لَمْ يَسْتَطِعْ فَعليه بالصَّوْمِ، فإنَّه له وِجَاءٌ

(صحيح البخاري: 1905)

اگر کوئی صاحبِ طاقت ہو تو اسے نکاح کر لینا چاہیے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو بد فعلی سے محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔

يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، ‏‏‏‏‏‏مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ

( صحيح البخاري: 5066)

”اے نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو (برائی سے) محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور اگر کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے“۔ 

کثرتِ اولاد کی ترغیب

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ اولاد کی ترغیب دی ہے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تزوَّجوا الوَدودَ الولودَ فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأُممَ

(صحيح أبي داود: 2050 )

خوب بچہ جننے کی صلاحیت رکھنے والی خواتین سے شادی کرو۔ اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کے ذریعے تمام امتوں پر (روزِ  قیامت) فخر کروں گا۔

مقامِ غور

غور و فکر کرنے کی بات ہے کہ جب نکاح اتنی اہم عبادت ہے تو اس سے کیسے منع کیا جا سکتا ہے؟ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس ماہ میں نکاح کیا اور اسی ماہ میں رخصتی فرما کر جاہلیت کے باطل خیال و نظریے کا رد کیا۔ اسی وجہ سے علمائے کرام نے شوال کے مہینے میں نکاح کو مستحب قرار دیا تاکہ ایک باطل اور غلط عقیدے کی تردید ہو۔17

عيد الأبرار منانا

ماہِ شوال کی بدعات میں سے عيد الابرار یعنی نيكوں كى عيد بھی ہے جو آٹھ شوال كو منائى جاتى ہے ۔ ماہِ رمضان كے روزے ركھنے اور عيد الفطر كے چھ روزے مكمل كرنے كے بعد آٹھ شوال كو عيد مناتے ہيں جسے عيد الابرار كا نام دے ركھا ہے۔

شيخ الاسلام ابنِ تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

وأما اتخاذ موسم غير المواسم الشرعية كبعض ليالي شهر ربيع الأول التي يقال : إنها ليلة المولد ، أو بعض ليالي رجب ، أو ثامن عشر ذي الحجة ، أو أول جمعة من رجب ،أو ثامن من شوال الذي يسميه الجهَّال عيد الأبرار : فإنها من البدع التي لم يستحبها السلف , ولم يفعلوها18

ترجمہ : شرعى تہواروں كے علاوہ دوسرے تہوار اور موسم بنانا مثلا : ربيع الاول كى راتيں جنہیں ميلاد كى راتيں كہا جاتا ہے يا پھر رجب كى كوئى رات يا اٹھارہ ذو الحجہ كى رات يا رجب كا پہلا جمعہ يا آٹھ شوال جسے جاہل قسم كے لوگ عيد الابرار كا نام ديتے ہيں يہ سب بدعت ہے، سلف اسے مستحب نہيں سمجھتے تھے اور نہ ہى انہوں نے ايسا کیا ہے  ”

شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ دوسرى جگہ فرماتے ہیں :

وأما ثامن شوال : فليس عيداً لا للأبرار ولا للفجار ، ولا يجوز لأحد أن يعتقده عيداً، ولا يحدث فيه شيئاً من شعائر الأعياد19

ترجمہ: آٹھ شوال كو نہ تو نيک اور ابرار لوگوں كى عيد ہے اور نہ ہى فاسق و فاجر قسم كے لوگوں كى، اور نہ كسى كے ليے اس روز عيد كا اعتقاد ركھنا جائز ہے، اور نہ ہى اس روز عيد كے شعائر اور علامامت ميں سے كوئى عمل كرنا جائز ہے “

مسجد میں عید الابرار کا انعقاد

ويكون الاحتفال بهذا العيد في أحد المساجد المشهورة فيختلط النساء بالرجال ويتصافحون ويتلفظون عند المصافحة بالألفاظ الجاهلية , ثم يذهبون بعد ذلك إلى صنع بعض الأطعمة الخاصة بهذه المناسبة20

ترجمہ : يہ تہوار كسى ايک مشہور مسجد ميں ہوتا ہے جہاں مرد و عورت كا اختلاط ہوتا ہے، مرد عورتوں سے مصافحہ كرتے اور زبان سے جاہليت كے الفاظ نكالتے ہيں پھر اس مناسبت سے تيار كردہ كھانا تناول كرنے جاتے ہيں “

معلوم ہوا کہ یہ ایک غیر شرعی عمل ہے جس سے بچنے کی از حد ضرورت ہے ۔ کیونکہ شوال کے چھ روزوں کا رکھنا واقعی ثابت شدہ امر ہے پر اس سے فراغت کے بعد عید کے نام پر خوشیاں منانا ، مسرتوں کا زبردستی ماحول قائم کرنا شریعت میں زیادتی ہے ۔

شوال کے روزوں کو لازما مکمل کرنا

بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جس نے چھ روزے رکھنا شروع  کیے اس پر واجب ہے کہ وہ ان روزوں کو مکمل کرے یہاں تک کہ چھ روزے پورے ہو جائیں اور ان کے پاس ان روزوں کو توڑنے کا کوئی عذر نہیں ہے۔ یہ عقیدہ درست نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 الصَّائمُ المتطوِّعُ أمينُ نفسِهِ إن شاءَ صامَ وإن شاءَ أفطرَ

(صححه الألباني في صحيح الترمذي: 732)

”نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا امین ہے، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے“

امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :

والعمل عليه عند بعض أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، أن الصائم المتطوع إذا أفطر فلا قضاء عليه إلا أن يحب أن يقضيه، وهو قول سفيان الثوري، وأحمد، وإسحاق، والشافعي21

ترجمہ : اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا اگر روزہ توڑ دے تو اس پر کوئی قضاء لازم نہیں الا یہ کہ وہ قضاء کرنا چاہے۔ یہی سفیان ثوری، احمد، اسحاق بن راہویہ اور شافعی رحمھم اللہ کا قول ہے ۔

جمہور کا مسلک

یہی جمہور کا قول ہے۔ ان کی دلیل ام ہانی کی روایت ہے جس میں ہے «فإن شئت فأقضى وإن شئت فلا تقضى» نیز ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت ہے جس میں ہے «أفطر فصم مكانه إن شئت» یہ دونوں روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نفل روزہ توڑ دینے پر قضاء لازم نہیں۔22

شوال  کی 2 تاریخ کو لازما روزہ رکھنا

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ 2  شوال کا روزہ رکھنا ضروری ہے اس کے بعد آدمی وقفہ کرکے رکھے۔ یہ شرط لغو ہے۔ 2  شوال کا روزہ رکھنا شوال کے روزوں کے لیے شرط نہیں ہے۔ آدمی شوال کی کسی بھی تاریخ سے روزہ شروع کر سکتا ہے۔

ہر سال شوال کے روزے رکھنا

بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے اگر کسی نے ایک سال شوال کے روزے رکھ لیے تو اس کو ہر سال شوال کے روزے رکھنے ہوں گے۔ یقینا اعمال صالحہ پر مداومت افضل ہے۔ جس عمل پر مداومت کی جائے وہ انقطاع کے ساتھ کیے جانے والے عمل سے افضل ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے:

أَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ أدْومُها و إن قَلَّ

 (صحیح  البخاری :6465،ومسلم :783 )

اللہ کو سب سے زیادہ محبوب عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے گرچہ وہ کم ہی ہو۔

لیکن اس کا  مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ایک مرتبہ نفل عمل ادا کرنے سے وہ ہر مرتبہ اور ہر سال واجب ہو جاتا ہے کیونکہ جو عمل نفل ہے وہ نفل ہی رہےگا واجب نہیں ہوسکتا۔ آدمی کی مرضی ہے کہ جس سال چاہے روزے رکھے اور جب چاہے چھوڑ دے۔ اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ تاہم ہمیشگی برتنا اس کے لیے افضل ہے۔

دو عیدوں کے مابین شادی کو منحوس سمجھنا

بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جس نے دو عیدوں (عید الفطر اور عید الاضحیٰ) کے درمیان نکاح کیا، میاں بیوی میں سے کوئی ایک فوت ہو جائے گا یا وہ ایک دوسرے سے  الگ ہو جائیں گے ۔ یہ ایک ایسی منگھڑت بات ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ایسا عقیدہ  رکھنا علمِ غیب کے دعویٰ کے مترادف ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے اور یہ  تقدیر اور قضا پر ایمان  میں خرابی  ہے اور  ایسی بد شگونی ہے جو ممنوع ہے ۔

عید کے دن فوتگی والے گھر جانا

بعض علاقوں میں جب کسی گھر میں فوتگی ہوتی ہے تو اس کی وفات کے بعد عزیز و اقارب پہلی عید و بقرہ عید پرمیت کے گھر پہنچنا فرض سمجھتے ہیں اور وہا ں جا کر تعزیت کرتے ہیں چاہے انتقال ہوئے مہینوں گزر چکے ہوں۔

اس رسم کی خرابیاں

پہلی بات یہ ہے کہ شریعتِ اسلامی میں تعزیت تین دن کے اندر اندر ایک مرتبہ کرنا سنت ہے لہذا جب ایک مرتبہ تعزیت کی جا چکی ہے تو عید کے دن دوبارہ تعزیت کرنا سنت کے خلاف ہے۔ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ نیز عید کا دن خوشی کا دن ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے مہمان نوازی کا دن ہے اس دن غم تازہ کر کے عید کی خوشی کو غم میں تبدیل کرنا انتہائی مکروہ اور خلافِ شریعت رسم ہے۔

پہلی عید پر سوگ منانا

بعض علاقوں میں کسی کے انتقال کے بعد پہلی عید کے موقع  پر فوتگی والے گھر میں سوگ منایا جاتا ہے اور اس گھر کے افراد عید کے دن خوشی منانے، اچھے کپڑے پہننے کو برا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک  خود ساختہ رسم ہے کیونکہ شریعت میں صرف تین دن تک سوگ کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ باللہِ واليَومِ الآخِرِ، أَنْ تُحِدَّ علَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إلَّا علَى زَوْجٍ، فإنَّهَا تُحِدُّ عليه أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وعَشْرًا

(صحيح البخاري: 1280)

 کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو حلال نہیں کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند پر کہ اس پر چار ماہ اور دس دن تک سوگ کر ے گی۔

حضرت زینب بنتِ ابی سلمہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

لَمَّا جَاءَ نَعْيُ أَبِي سُفْيَانَ مِنَ الشَّأْمِ، دَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بصُفْرَةٍ في اليَومِ الثَّالِثِ، فَمَسَحَتْ عَارِضَيْهَا، وذِرَاعَيْهَا، وقالَتْ: إنِّي كُنْتُ عن هذا لَغَنِيَّةً، لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يقولُ: لا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ باللَّهِ واليَومِ الآخِرِ، أَنْ تُحِدَّ علَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إلَّا علَى زَوْجٍ، فإنَّهَا تُحِدُّ عليه أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وعَشْرًا

(صحيح البخاري: 1280)

ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر جب شام سے آئی تو امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا (ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی) نے تیسرے دن ”صفرہ“ (خوشبو) منگوا کر اپنے دونوں رخساروں اور بازوؤں پر ملا اور فرمایا کہ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ کوئی بھی عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ شوہر کے سوا کسی کا سوگ تین دن سے زیادہ منائے اور شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن کرے۔ تو مجھے اس وقت اس خوشبو کے استعمال کی ضرورت نہیں تھی۔

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ پہلی عید کے موقع پر مرحوم کے پسماندگان کا سوگ منانا ایک خود ساختہ رسم ہے جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے لہذا س سے اجتناب کرنا چاہیے۔

بدعتی عمل

 عید کی رات قبروں کی زیارت بدعت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے عید کی رات یا عید کے دن بطور خاص قبروں کی زیارت کی ہو بلکہ آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے:

وإياكم ومحدثاتِ الأمورِ فإنَّ كلَّ محدثةٍ بدعةٌ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ

(صحيح أبي داود: 4607،)

ترجمہ : اپنے آپ کو دین میں نئی نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچاؤِ کیونکہ دین میں ایجاد کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے کا سبب بنے گی۔

معلوم ہوا کہ قبروں کی زیارت کرنا فی نفسہ اچھا کام ہے بشرطیکہ آدمی آخرت کی یاد ، ایصالِ ثواب، مرحومین کے لیے دعائے مغفرت اور حصولِ عبرت کے لیے قبرستان جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت بھی دی ہے اور آپ ﷺ خود بھی  قبروں کی زیارت کے لیے متعدد مرتبہ قبرستان تشریف لے گئے ہیں مگر جو چیز رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجہ میں اسے رکھنا چاہیے لہذا اس کے لیے خاص دن اور خاص موقع کی تعیین کرنا بدعت ہے۔

امام مالک بنِ انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

من أحدث في هذه الأمة اليوم شيئا لم يكن عليه سلفها فقد زعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خان الرسالة لأن الله تعالى يقول: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (سورۃ المائدۃ :3) ، فما لم يكن يومئذ دينا لا يكون اليوم دينا۔23

ترجمہ: جس نے آج امت کے اندر کوئی ایسی چیز جاری کی جس پر اسلافِ امت کا عمل نہیں تھا تو گویا اس نے یہ دعویٰ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابلاغِ رسالت میں خیانت کی ہے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ” آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے بحیثیتِ دین اسلام کو پسند کیا ہے”۔ لہٰذا جو چیز اس دن دین نہ تھی وہ آج دین نہیں ہو سکتی ۔“

علامہ محمد بنِ صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

تخصيص يوم العيد بذلك بدعة؛ فإن الرسول عليه الصلاة والسلام لم يكن يخصص المقابر بالزيارة يوم العيد، ولا يمكن للمرء أن يخصص وقتاً من الأوقات لعبادة من العبادات إلا بدليل من الشرع؛ لأن العبادة تتوقف على الشرع في سببها، وفي جنسها، وفي قدرها، وفي هيئتها، وفي زمانها، وفي مكانها، لابد أن يكون الشرع قد جاء في كل هذه الأشياء فإذا خصصنا عبادة من العبادات بزمن معين بدون دليل كان ذلك من البدع، فتخصيص يوم العيد بزيارة المقبرة بدعة ليست واردة من الرسول عليه الصلاة والسلام ولا عن أصحابه رضي الله عنهم۔24

ترجمہ :  صرف عید کے دن قبرستان جانے کے لیے مختص کرنا بدعت ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے عید کے دن زیارت کے لیے قبرستان مختص نہیں کیے تھے۔ کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ وقت اور عبادت کے لیے شریعت سے دلائل کے بغیر مختص کرے۔ چونکہ عبادت کا دار و مدار اس کے سبب، جنس، مقدار، شکل، وقت اور مقام کے اعتبار سے شرعی دلیل پر منحصرہے۔ اس لیے ان تمام چیزوں میں دلیل ضروری ہے لہٰذا اگر ہم عبادت میں سے کسی ایک کو بغیر ثبوت کے مخصوص وقت پر مختص کریں تو وہ بدعت ہوگی ۔ لہذا عید کے دن کو قبرستان کی زیارت کے لیے مخصوص کرنا بدعت ہے جو رسول اللہ ﷺ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول نہیں ہے۔

علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (737ھ) فرماتے ہیں:

ومن عادته النميمة أنه لا يأمر بترك سنة حتى يعوض لهم عنها شيئا يخيل إليهم أنه قربة ، عوض لهم عن سرعة الأوبة زيارة القبور قبل أن يرجعوا إلى أهليهم يوم العيد وزين لهم ذلك وأراهم أن زيارة الأقارب من الموتى في ذلك اليوم من باب البر وزيادة الود لهم وأنه من قوة التفجع عليهم ، إذ فقدهم في مثل هذا العيد ، وفي زيارة القبور في غير هذا اليوم من البدع والمحرمات ما تقدم ذكره في زيارة القبور ، فكيف به في هذا اليوم الذي فيه النساء يلبسن ويتحلين ابتداء ، ويتجملن فيه بغاية الزينة مع عدم الخروج فكيف بهن في الخروج في هذا اليوم فتراهن يوم العيد على القبور متكذفات قد خلعن جلبات الحياء عنهن ، فبدل لهم موضع السنة محرما ومكروها۔25

ترجمہ : شیطان کے  ہتھکنڈوں میں سے ایک  یہ ہے کہ وہ ترک سنت کا نہیں کہتا بلکہ کسی اور کام پر لگا کر خیال ڈالتا ہے کہ یہ ثواب کا کام ہے ۔ شیطان نے لوگوں کے ساتھ یہ چال چلی کہ وہ عید کے دن گھر واپس لوٹنے سے پہلے قبروں کی زیارت کریں۔ اس عمل کو مختلف تخیلات سے مزین کر دیا اور انہیں ذہنی دلائل مہیا کیے کہ اس دن اپنے اعزا و ا قارب کی قبروں کی زیارت نیکی اور ان سے محبت کا اظہار ہے اور عید کے دن ان رشتہ داروں  کی عدم موجودگی ان کے لیے کتنا افسوس والا ہوتا ہے ۔ لوگوں نے عام دنوں میں بھی قبروں کی زیارت کے سے حوالے سے بدعات و خرافات کا بازار گرم کر دیا ہے تو عید کے دن کیا حال ہو گا جس دن عورتیں خوش گوار ملبوسات اور زیورات زیبِ تن کیے ہوتی ہیں اور زینت کی حدیں پار کیے ہوتی ہیں حالانکہ اس وقت تو یہ عید کے لیے نہیں نکلی ہوتیں اور جب یہ قبروں کی زیارت کے لیے نکلیں گی تو دیکھ لینا یہ قبروں پر اپنا پردہ و حیا تار تار کر دیں گی۔ یوں شیطان نے انہیں سنت کے بدلے حرام کام کا مرتکب بنا دیا ۔“

خلاصہ

معلوم ہوا کہ عید کے دن قبرستان کی زیارت کرنا ، قبرستان جانے کو ضروری سمجھنا ، اس کا اہتمام کرنا ، لوگوں کو زیارت قبرستان کی ترغیب دینا ، خود ساختہ فضائل بیان کرنا، لوگوں کا اجتماعی شکل میں قبرستان جانا بدعت اور  نا جائز ہے اور اس سے بچنا از حد ضروری ہے ۔

اس رسم کے نا جائز ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں۔

عید کے دن قبرستان جانے کی کوئی مخصوص فضیلت یا ترغیب معتبر روایات سے ثابت نہیں۔

عید کے دن قبرستان جانے کا مروّجہ اہتمام نبی کریم ﷺ، اور صحابہ کرام اور تابعین عظام سے ثابت نہیں۔

عید کے دن قبرستان جانا عيد كی خوشى و سرورکے مقاصد اور شعار كے خلاف ہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور سلفِ صالحین رحمہم اللہ كے طريقے كے بھى مخالف ہے۔

4۔عید کے دن قبرستان جانا اس نہى ميں شامل ہے جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبروں كو ميلہ گاہ بنانے سے منع فرمايا ہے كيونكہ كسى معين وقت اور معروف موسم ميں قبرستان جانا قبروں كو ميلہ گاہ بنانے كے معنی ميں شامل ہوتا ہے۔26

عید کے دن قبرستان جا کر دعا کرنا اور قبر پر پھول نچھاور کرنا وغیرہ قبیح بدعت اور فعلِ بد ہے ۔ خیر القرون کے مسلمان اس سے نا واقف تھے ۔ وہ سب سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے اور محبتِ رسول کے تقاضوں کو پورا کرنے والے تھے ۔ دین کا وسیع علم ہونے کے باوجود انہوں نے ایسا نہیں کیا ، تو یہ دین کیسے بن گیا ؟

6۔ ایسا نیک عمل جس کے لیے شریعت اسلامیہ نے کوئی وقت یا دن مقرر نہیں کیا ہے اس کے لیے کسی بھی دن یا وقت کو خاص کر لینا بھی بدعت ہے۔ لہذا عید کے ایام کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا یا محرم الحرام کے پہلے دس دنوں کو خاص کرنا دونوں ہی بدعت ہیں ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ  ہمیں اس ماہِ مبارک میں ہونے والی بدعات و خرافات سے بچائے، اس مہینے کی برکتوں سے خوب مالا مال فرمائے اور اس میں سنت کے مطابق  خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا ۔

  1. (لسان العرب: 11/277 ، مادة شوال)
  2. (كتاب البدع الحولية عبد الله بن عبد العزيز التويجري، ص: 348)
  3. (طبقات ابن سعد: (60/8)  البدايه و النهايه : 3  صفحه : 283)
  4. (شرح صحيح مسلم للنووي:9/209)
  5. (شرح صحيح مسلم للنووي:9/209)
  6. ترجمہ : جناب رسول اللہ ﷺ كا شوال ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا کو بیاہ لانا ان لوگوں كے وہم اور اعتقاد كا رد ہے جو دونوں عيدوں كے درميان عورت سے رخصتى ناپسند كرتے ہيں كہ كہيں ان ميں جدائى ہى نہ ہو جائے حالانكہ ایسی کوئی بات نہيں ہے۔

    ام امؤمنین امِ سلمہ  رضی اللہ عنہا کی شادی

    نبی کریم ﷺ کا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح بھی شوال کے مہینے میں ہوا تھا۔ حضرت ابوبکر بنِ عبدالرحمٰن  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

    أن النبيَّ صلى الله عليه وسلم تزوج أمُّ سلمةَ في شوالٍ ، وجمعها إليه في شوالٍ

    (صحیح ابن ماجہ : 386، مسند أحمد : 1991)

    نبی اکرم ﷺ نے ام المؤمنین امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے شوال میں نکاح کیا اور شوال میں انہیں (رخصتی کرا کے) گھر لائے ۔

    شیخ البانی رحمہ اللہ اس حدیث پر تفصیلی تحقیق کے بعد لکھتے ہیں:  

    فالحدیث صحیح ینقل إلی الکتاب الآخر

    یہ حدیث صحیح ہے اور اس کو الضعیفہ (4350) سے الصحیحہ كی طرف منتقل کیا جاتا ہے ۔

    امام ابنِ عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں :

    تزوج رَسُول اللهِ صلى الله عليه وسلم أم سلمة سنة اثنتين من الهجرة بعد وقعة بدر، عقد عليها فِي شوال، وابتنى بها فِي شوال6 (الاستيعاب في معرفة الأصحاب :4/1921)

  7. (مغازي الواقدي لأبي عبد الله محمد الواقدي:1/ 344)
  8. (زاد المعاد :1/ 93 – 106) [
  9. (الفواكه الدواني :2/ 11)
  10. (تحفة المحتاج في شرح المنهاج:7/ 216)
  11. (الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف:8/38)
  12. (حاشية على الدر المختار :2/ 262)
  13. (شرح صحيح مسلم النووي :14/218,219)
  14. (التحرير و التنوير : 13 / 162)
  15. (صحیح البخاري :2819)
  16. (شرح النووي علی صحيح مسلم: 209/9)
  17. (مجموع الفتاوى لشيخ الإسلام ابن تيمية :25/298)
  18. (الاختيارات الفقهية، ص:199)
  19. (السنن والمبتدعات للشقيري، ص:166)
  20. (سنن الترمذي: 732)
  21. (سنن الترمذي: 732)
  22. (الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم: 58/6 ، وسنده حسن)
  23. (مجموع الفتاوى:17/ 328)
  24. (المدخل: 286/1)
  25. (احكام الجنائز و بدعھا للالبانى صفحہ: 219 – 258 )

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ