اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرامین میں سال کے بارہ مہینوں میں سے چار مہینوں ”محرم، رجب، ذی قعدہ اور ذی الحجہ ” کو حُرمت یعنی ادب اور احترام کا مہینہ قرار دیا ہے اور ادب و احترام کے خاطر ان مہینوں میں جنگ و جدال ، قتل و غارت گری کو ممنوع قرار دیا اور ان میں عبادت کے ثواب اور نافرمانی کے گناہ کو بہت بڑھا دیا ہے۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
خص الله من شهور العام أربعة أشهر، فجعلهن حرماً، وعظم حرماتهن، وجعل الذنب فيهن والعمل الصالح والأجر أعظم.
اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر چار مہینوں کو قابل احترام قرار دیا ہے اور ان کی عظمت و احترام کو بڑا عظیم قرار دیا ہے ان میں گناہ کرنے کے عذاب کواور نیک عمل کے ثواب کو بہت بڑھا دیا ہے۔1
ماہ رجب حرمت والے مہینوں میں شامل ہونے کی وجہ سے قابل احترام اور متبرک ہے لیکن بطورِ خاص ماہ رجب کی فضیلت میں کوئی بھی روایت ثابت نہیں ۔ مگر بے حد افسوس کی بات ہے کہ دین اسلام کے بعض نام نہاد ٹھکیداروں نے اسلام کے پاک صاف دین کو بدعات سے بھر دیا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی اسلامی مہینہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں خود ساختہ عبادات اور بدعات رائج نہ کی ہوں ۔ چنانچہ انہی مہینوں میں سے ماہ رجب بھی وہ مظلوم مہینہ ہے کہ جس میں بدعات کی کثرت پائی جاتی ہے ۔ درج ذیل سطور میں ماہ رجب میں پائی جانے والی چند بدعات کی نشاندہی اور ان کے بارے میں علماء کرام کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَمْ يَرِدْ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَجَبٍ، وَلَا فِي صِيَامِهِ، وَلَا فِي صِيَامِ شَيْءٍ مِنْهُ معَيّنٌ ، وَلَا فِي قِيَامِ لَيْلَةٍ مَخْصُوصَةٍ فِيهِ، حَدِيثٌ صَحِيحٌ يَصْلُحُ لِلْحُجَّةِ ۔
ترجمہ :ایسی کوئی بھی صحیح اور قابل حجت حدیث وارد نہیں جو ماہ رجب میں مطلقاً روزے رکھنے یا رجب کے کسی معین دن کا روزہ رکھنے یا اس کی کسی رات کے قیام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہو۔2
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لم يرد فی رجب علی الخصوص سنة صحيحة ولا سنة ضعيفة ضعفا خفيفا بل جميع ما روی فيه علی الخصوص اما موضوع مکذوب أو ضعيف شديد الضعف‘‘ط
ترجمہ :خاص طور پر ماہ رجب کے متعلق کوئی صحیح، حسن یا کم درجے کی ضعیف سنت وارد نہیں بلکہ اس سلسلے میں وارد تمام روایات یا تو من گھڑت اور جھوٹی ہیں یا شدید ضعیف ہیں ۔3 ‘‘
امام عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يصح في فضل رجب حديث .
ترجمہ : رجب کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔4
ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم يرد في فضل رجب حديثٌ صحيح، ولا يمتاز شهر رجب عن جمادى الآخرة الذي قبله إلا بأنه من الأشهر الحرم فقط، وإلا ليس فيه صيام مشروع، ولا صلاة مشروعة، ولا عمرة مشروعة ولا شيء، هو كغيره من الشهور
ترجمہ :ماہِ رجب کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے اور ماہِ رجب کی ماہ جمادی الثانی سے انفرادیت صرف اتنی ہے کہ یہ مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے، وگرنہ اس میں خصوصی روزے رکھنا، مخصوص نماز کی ادائیگی کرنا، یا کسی خصوصیت کیساتھ عمرہ وغیرہ کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ یہ مہینہ دیگر مہینوں جیسا ہی ہے5“
البتہ اگر کوئی شخص رجب کی خاص فضیلت کا اعتقاد رکھے بغیر روزہ رکھے تو حصولِ خیر کا ذریعہ ہو گا کیونکہ روزہ خود ایک نیک عمل ہے اور پھر ماہِ رجب حرمت کا مہینہ ہے تو یہ دونوں مل کر عام دنوں سے زائد حصولِ اجر کا باعث بن جائیں گے ۔
صلاۃ الرغائب
یہ نماز ماہ رجب المرجب کی پہلی جمعرات کا روزہ رکھنے کے بعد جمعہ کی شب مغرب اور عشاء کی نمازوں کے درمیان ادا کی جاتی ہے ۔ اس میں بارہ رکعتیں ہوتی ہیں۔ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔
صلاۃ الرغائب کا خود ساختہ طریقہ
اس نماز کی کیفیت ایک موضوع حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَمَا مِنْ أَحَدٍ يَصُومُ يَوْمَ الْخَمِيسِ أَوَّلَ خَمِيسٍ فِي رَجَبٍ ، ثُمَّ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ الْعِشَاءِ وَالْعَتْمَةِ ، يَعْنِي لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ ، ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً ، يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ مَرَّةً ، وَإِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ ، وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ مَرَّةً ، يَفْصِلُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ بِتَسْلِيمَةٍ ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْ صَلاتِهِ صَلَّى عَلَيَّ سَبْعِينَ مَرَّةً ، ثُمَّ يَقُولُ : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلَى آلِهِ ، ثُمَّ يَسْجُدُ فَيَقُولُ فِي سُجُودِهِ : سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلائِكَةِ وَالرُّوحِ سَبْعِينَ مَرَّةً ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُ : رَبِّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الأَعْظَمُ سَبْعِينَ مَرَّةً ، ثُمَّ يَسْجُدُ الثَّانِيَةَ فَيَقُولُ مثل مَا قَالَ فِي السَّجْدَةِ الأُولَى ، ثُمَّ يَسْأَلُ اللَّهَ تَعَالَى حَاجَتَهُ ، فَإِنَّهَا تُقْضَى
(السلسلة الضعيفة للألباني :4400)
ترجمہ :جو کوئی ماہ ِ رجب کی پہلی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شام مغرب و عشاء کے مابین 12رکعت نماز پڑھے ، ہر رکعت میں سورہ الفاتحہ ایک مرتبہ ، (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر ) 3 مرتبہ اور (قل ھو اللہ احد) 12 مرتبہ پڑهے۔ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرے۔ پھر جب نماز سے فارغ ہو جائے تو مجھ پر 70مرتبہ درود بھیجے اور یہ دعا پڑھے (اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلَى آلِهِ) پھر سجدہ میں جا کر70 مرتبہ (سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلَائِكةِ وَ الرُّوْحِ) پڑھے پھر سجدے سے سر اُٹھا کر70 مرتبہ (رَبِّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْ وَتَجَاوَزْ عَمَّا تَعْلَمُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الأَعْظَمُ) پڑھے اور پھر دوسرے سجدے میں بھی پہلے کی طرح یہی دعا پڑھے ۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت مانگے تو وہ پوری ہو جائے گی۔
صلاۃ الرغائب کی خود ساختہ فضیلت:
اس نماز کی فضیلت ایک موضوع حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ عَبْدٍ وَلا أَمَةٍ صَلَّى هَذهِ الصَّلاةَ إِلا غَفَرَ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ جَمِيعَ ذُنُوبِهِ وَإِنْ كَانَتْ مثل زَبَدِ الْبَحْرِ وَعَدَدِ وَرَقِ الأَشْجَارِ ، وَشَفَعَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي سَبْعِ مِائَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ، فَإِذَا كَانَ فِي أَوَّلِ لَيْلَةٍ فِي قَبْرِهِ جَاءَهُ ثَوَابُ هَذهِ الصَّلاةِ ، فَيُجِيبُهُ بِوَجْهٍ طَلْقٍ وَلِسَانٍ ذَلْقٍ ، فَيَقُولُ لَهُ : حَبِيبِي أَبْشِرْ فَقَدْ نَجَوْتَ مِنْ كُلِّ شِدَّةٍ ، فَيَقُولُ : مَنْ أَنْتَ فَوَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ وَجْهًا أَحْسَنَ مِنْ وَجْهِكَ ، وَلا سَمِعْتُ كَلامًا أَحْلَى مِنْ كَلامِكَ ، وَلا شَمَمْتُ رَائِحَةً أَطْيَبَ مِنْ رَائِحَتِكَ ، فَيَقُولُ لَهُ : يَا حَبِيبِي أَنَا ثَوَابُ الصَّلاةِ الَّتِي صَلَّيْتَهَا فِي لَيْلَةِ كَذَا فِي شَهْرِ كَذَا ، جِئْتُ اللَّيْلَةَ لأَقْضِيَ حَقَّكَ ، وَأُونِسَ وَحْدَتَكَ ، وَأَرْفَعَ عَنْكَ وَحْشَتَكَ ، فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ أَظْلَلْتُ فِي عَرْصَةِ الْقِيَامَةِ عَلَى رَأْسِكَ ، وَأَبْشِرْ فَلَنْ تَعْدِمَ الْخَيْرَ مِنْ مَوْلاكَ أَبْدًا “
(السلسلة الضعيفة للألباني :4400)
ترجمہ : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کوئی بھی بندہ یا بندی یہ نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا چاہے وہ سمندر کی جھاگ اور درختوں کے پتوں جتنے ہوں۔ قیامت کے دن ستر رشتہ داروں کے لیے شفاعت کر سکے گا۔ صاحب قبر کہے گا تم کون ہو؟ اللہ کی قسم میں نے تم سے زیادہ حسین، خوش گفتار اور خوشبودار نہیں دیکھا ہے تو یہ ثواب اس کو کہے گا کہ میں تو اس نماز کا ثواب ہوں جو کہ تو نے رجب کی فلاں رات پڑھی تھی، میں آج تیرا حق لوں گا، قبر میں تیری تنہائی دور کروں گا، تمہاری وحشت کو ختم کر دوں گا، میں قیامت کے دن تمہارے سر پر سایہ بن جاؤں گا اور تم کبھی بھی خیر سے محروم نہیں ہو گے۔
صلاۃ الرغائب کی قباحتیں
1۔ بدعت
یہ ایک بدعت نماز ہے، کیونکہ اس نماز کی بنیاد ہی موضوع حدیث پر ہے جیسا کہ اس حدیث کے متصل بعد امام ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ اس کی سند کے تمام رواۃ مجہول ہیں، میں نے علم رجال کی تمام کتب چھان ماری ہیں لیکن مجھے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ امام الشوکانی اس روایت کو الفوائد المجموعۃ میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایت ہے۔ اہل علم نے اس روایت کے موضوع ہونے پر اتفاق کیا ہے۔ امام مقدسی اور دوسرے محدثین نے بھی اس روایت کو باطل اور موضوع قرار دیا ہے۔
2۔ صحابہ کرام اور تابعین سے غیر ثابت عمل
اگر اس نماز کی اہمیت اتنی زیادہ تھی تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کرام رحمہم اللہ نے اس کا اہتمام کیوں نہ کیا ؟ یقینا وہ مقدس ہستیاں خیر کے کاموں میں سبقت لے جانے والی تھیں۔ پس عبادت کے وہ کام جو اصحاب رسول نے سر انجام نہیں دیے تو باقی امت کے لیے وہ کام عبادت نہیں بلکہ بدعت ہیں۔
3۔ اطمینان اور سکون کے منافی
نماز میں اطمینان اور سکون انتہائی ضروری ہے مگر صلاۃ الرغائب میں یہ چیز ممکن نہیں ہے کیونکہ نماز پڑھنے والا اذکار کی کثرت تعداد کو شمار کرتے وقت بہت زیادہ حرکت کا مرتکب ہو گا جو کہ اطمینان کے منافی ہے۔
4۔ عدم خشوع و خضوع
نماز میں خشیت و تواضع بھی لازمی امر ہے مگر اس بدعتی نماز میں یہ چیز ناپید اور مفقود ہو جاتی ہے۔
5۔ اضافی سجدے
اس نماز میں ہر دو رکعت کے بعد علیحدہ دو سجدے کیے جاتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ میں نماز کے علاوہ ان سجدوں کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے۔
6۔حدیث رسول کی مخالفت
اس نماز سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث کی مخالفت ہوتی ہے جس میں آپ ﷺ نے جمعہ کی رات کو خصوصی قیام سے منع کیا ہے۔6
صلاۃ الرغائب کے موجد کون ہیں ؟
خود ساختہ نماز کی ایجاد اور ابتدا کے بارے میں امام أبو بكر محمد بن الوليد بن خلف الطرطوشي کہتے ہیں :
لم يكن عندنا ببيت المقدس قط صلاة الرغائب هذه التي تصلى في رجب وشعبان ، وأول ما حدثت عندنا في سنة ثمان وأربعين وأربعمئة ، قدم علينا في بيت المقدس رجل من نابلس ، يعرف بابن أبي الحمراء ، وكان حسن التلاوة ، فقام فصلى في المسجد الأقصى ليلة النصف من شعبان… ، وما كنا رأيناها ولا سمعنا بها قبل ذلك”
ترجمہ : “ہمارے یہاں بیت المقدس میں صلاۃ الرغائب کا وجود نہیں تھا جو رجب وشعبان میں پڑھی جاتی ہے، یہ نماز ہمارے یہاں 448 ھ میں اس طرح ایجاد کی گئی کہ ابن ابی الحمراء نام کا ایک شخص نابلس سے بیت المقدس آیا، وہ نہایت اچھا قرآن پڑھتا تھا، اس نے مسجد اقصی میں شعبان کی پندرہویں رات کو نماز پڑھی ،علامہ موصوف نے آگے فرمایا: “اور جہاں تک رجب کی نماز ہے تو یہ ہمارے یہاں بیت المقدس میں 448 ھ کے بعد ہی شروع کی گئی، اس سے پہلے ہم نے اسے نہ کسی کو پڑھتے دیکھا نہ ہی کسی سے سنا تھا۔
علامہ موصوف نے آگے فرمایا: “اور جہاں تک رجب کی نماز ہے تو یہ ہمارے یہاں بیت المقدس میں 480 ھ کے بعد ہی شروع کی گئی، اس سے پہلے ہم نے اسے نہ کسی کو پڑھتے دیکھا نہ ہی کسی سے سنا تھا۔7
صلاۃ الرغائب کے بابت ائمہ کرام کے اقوال
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أما صلاۃ الرغائب فلا أصل لها، بل ھی محدثة، فلا تُستَحب لا جماعة ولا فرادی۔
ترجمہ : اس نماز کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ تو بدعت ہے جس کو نہ تو باجماعت ادا کرنا درست ہے اور نہ ہی اکیلے ادا کرنا ۔8
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں :
فأما إنشاء صلاة بعدد مقدر وقراءة مقدرة في وقت معين تصلى جماعة راتبة كهذه الصلوات المسئول عنها : كصلاة الرغائب في أول جمعة من رجب ، والألفية في أول رجب ، ونصف شعبان . وليلة سبع وعشرين من شهر رجب ، وأمثال ذلك فهذا غير مشروع باتفاق أئمة الإسلام , كما نص على ذلك العلماء المعتبرون ولا ينشئ مثل هذا إلا جاهل مبتدع , وفتح مثل هذا الباب يوجب تغيير شرائع الإسلام , وأخذ نصيب من حال الذين شرعوا من الدين ما لم يأذن به الله
ترجمہ : كسى مقرر ركعات اور مقدر قرآت كے ساتھ معين وقت ميں باجماعت نماز ادا كرنا جيسا كہ وہ نمازيں جن كا سوال كيا گيا ہے مثلا: رجب كے پہلے جمعہ والے دن صلاۃ رغائب، اور رجب كے شروع ميں الفيہ اور نصف شعبان اور رجب كى ستائيسويں رات كو نماز ادا كرنا، اور اس طرح كى دوسرى نمازيں مسلمان آئمہ كرام كے متفقہ فيصلہ كے مطابق مشروع نہيں ہيں، جيسا كہ معتبر علماء كرام نے بيان بھى كيا ہے اور اس طرح كى نماز تو بدعتى اور جاہل كے علاوہ كوئى اور ادا نہيں كرتا اور اس طرح كا دروازہ كھولنا شريعت اسلاميہ ميں تغير و تبدل كرنے كا باعث بنتا اور ايسے لوگوں كى حالت كو اپنانے كا باعث ہے جنہوں نے دين ميں ايسى اشياء مشروع كر لیں جن كا حكم اللہ تعالى نے نہيں ديا۔9“
ايک اور مقام پر شيخ الاسلام فرماتے ہیں:
هذه الصلاة لم يصلها رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أحد من الصحابة , ولا التابعين ، ولا أئمة المسلمين ، ولا رغب فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا أحد من السلف ، ولا الأئمة ولا ذكروا لهذه الليلة فضيلة تخصها . والحديث المروي في ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم كذب موضوع باتفاق أهل المعرفة بذلك ، ولهذا قال المحققون : إنها مكروهة غير مستحبة “
ترجمہ : يہ نماز نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ادا كى ہے اور نہ كسى صحابى نے اور نہ ہى تابعين اور مسلمانوں كے كسى امام نے بھى ايسا نہيں كيا اور اس كى نہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ترغيب دلائى، نہ ہى سلف میں سے کسی نے اور نہ ہی آئمہ كرام نے اور نہ ہی انہوں نے اس رات كی كوئى فضيلت ذكر كى ہے جو اس رات كے ساتھ مخصوص ہو. اس سلسلے ميں جو حديث مروى ہے وہ محدثين كے ہاں بالاتفاق من گھڑت اور جھوٹ ہے، اسى ليے محققين كا كہنا ہے كہ: يہ مكروہ اور ناجائز ہے، اس كى ادائيگى مستحب نہيں۔10“
امام ابو الفرج بن الجوزی رحمہ الله فرماتے ہیں:
صلاة الرغائب موضوعة على رسول الله صلى الله عليه وسلم وكذب عليه . قال : وقد ذكروا على بدعيتهما وكراهيتهما عدة وجوه منها : أن الصحابة والتابعين ومن بعدهم من الأئمة المجتهدين لم ينقل عنهم هاتان الصلاتان ، فلو كانتا مشروعتين لما فاتتا السلف ، وإنما حدثتا بعد الأربعمائة
ترجمہ : صلاۃ الرغائب نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں يہ من گھڑت ہے اور ان كے ذمہ جھوٹ لگايا گيا ہے۔علماء نے اس كا بدعت ہونا اور اس كى كراہت كى كئى ايک وجوہات بيان كی ہيں جن میں سے (ایک وجہ یہ ہے) کہ يہ دونوں نمازيں صحابہ كرام اور ان كے بعد تابعين اور آئمہ كرام سے منقول نہيں ہيں۔ لہذا اگر يہ مشروع ہوتيں تو سلف حضرات ان كو ضرور ادا كرتے، بلكہ اس كا بيان تو ہميں چار سو سال بعد ملتا ہے۔11
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هي بدعة قبيحة منكرة أشد إنكار ، مشتملة على منكرات ، فيتعين تركها والإعراض عنها ، وإنكارها على فاعلها
ترجمہ : یہ نماز نہایت قبیح و منکر بدعت ہے اور کئی منکرات کو شامل ہے، لہذا اس کو ترک کرنا، اس سے اعراض کرنا اور اسکے پڑھنے والے پر نکیر کرنا ثابت ہوجاتا ہے ۔12
امام ابن النحاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهي بدعة ، الحديث الوارد فيها موضوع باتفاق المحدثين
ترجمہ : یہ ایک بدعت نماز ہے اور اس نماز کے بارے میں وارد شدہ حدیث محدثین کے ہاں متفقہ طور پر من گھڑت ہے۔13
علامہ ابن رجب حنبلی ؒ نے اس نماز کے بارے میں لکھا ہے کہ:
جمہور علماء کے نزدیک یہ نماز بدعت ہے اور متقدمین تو اس نماز کو جانتے نہ تھے، کیونکہ یہ چار صدیوں کے بعد ظاہر ہوئی ۔14
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكذلك أحادیث صلاۃ الرغائب لیلة أول جمعة من رجب کلہا کذب مختلق علی رسول اللہ ﷺ۔
ترجمہ : رجب کے پہلے جمعہ میں پڑھی جانے والی نماز(الرغائب) کے بارے میں وارد شدہ تمام احادیث نبی ﷺ پر محض افتراء ہیں۔15‘‘
امام نووى رحمہ اللہ تعالى رقمطراز ہيں:
” الصلاة المعروفة بصلاة الرغائب ، وهي ثنتا عشرة ركعة تصلى بين المغرب والعشاء ليلة أول جمعة في رجب ، وصلاة ليلة نصف شعبان مائة ركعة وهاتان الصلاتان بدعتان ومنكران قبيحتان ولا يغتر بذكرهما في كتاب قوت القلوب ، وإحياء علوم الدين ، ولا بالحديث المذكور فيهما فإن كل ذلك باطل ، ولا يغتر ببعض من اشتبه عليه حكمهما من الأئمة فصنف ورقات في استحبابهما فإنه غالط في ذلك
ترجمہ : صلاۃ الرغائب كے نام سے موسوم نماز جو كہ رجب كے پہلے جمعہ كے دن مغرب اور عشاء كے درميان بارہ ركعت ادا كى جاتى ہے اور شعبان كے نصف يعنى پندرہ تاريخ كو پڑھى جانے والى نماز يہ دونوں قبيح قسم كى بدعات ہيں اور ” قوت القلوب” اور ” احياء علوم الدين” نامى كتابوں ميں اسے بيان كيے جانے سے كسى كو دھوكہ نہيں كھانا چاہيے اور نہ ہى كسى حديث ميں ذكر ہونے سے كيونكہ يہ سب باطل ہے اور نہ ہى ان سے دھوكہ كھايا جائے جن پر اس كا حكم مشتبہ ہے اور انہوں نے اس كى استحباب ميں كچھ اوراق بھى لكھ ڈالے كيونكہ وہ اس ميں غلطى كھا گئے ہيں۔16
امام نووى رحمہ اللہ شرح مسلم ميں لکھتے ہيں:
” قاتل الله واضعها ومخترعها ، فإنها بدعة منكرة من البدع التي هي ضلالة وجهالة وفيها منكرات ظاهرة .
ترجمہ : اللہ تعالى اس كے گھڑنے اور ايجاد كرنے والے كو تباہ و برباد كرے، كيونكہ يہ منكرات اور ان بدعات ميں سے جو گمراہى اور جہالت ہيں، اور اس ميں كئى ايک ظاہر منكرات پائى جاتى ہيں۔17
اور ابن عابدين رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومن هنا يعلم كراهة الاجتماع على صلاة الرغائب التي تفعل في رجب في أولى جمعة منه وأنها بدعة
ترجمہ : يہاں سے ماہ رجب كے پہلے جمعہ كو صلاۃ الرغائب كے نام سے ادا كى جانے والى نماز كى كراہت معلوم ہوتى ہے اور يہ معلوم ہوتا ہے كہ يہ نماز بدعت ہے۔18
ابن الحاج المالكى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” ومن البدع التي أحدثوها في هذا الشهر الكريم (يعني شهر رجب) : أن أول ليلة جمعة منه يصلون في تلك الليلة في الجوامع , والمساجد صلاة الرغائب , ويجتمعون في بعض جوامع الأمصار ومساجدها ويفعلون هذه البدعة ويظهرونها في مساجد الجماعات بإمام وجماعة كأنها صلاة مشروعة . . . . وأما مذهب مالك رحمه الله تعالى : فإن صلاة الرغائب مكروه فعلها ، لأنه لم يكن من فعل من مضى , والخير كله في الاتباع لهم رضي الله عنهم
ترجمہ : اس ماہ مبارك ( يعنى ماہ رجب ) ميں ايجاد كردہ بدعات ميں يہ بھى ہے كہ اس ماہ كے پہلے جمعہ كى رات كو مسجدوں ميں صلاۃ الرغائب كے نام سے نماز ادا كرتے ہيں اور شھر كى بعض جامع مسجد اور دوسرى مساجد ميں جمع ہو كر اس بدعت كا ارتكاب كرتے ہيں اور اسے مساجد ميں امام كے ساتھ باجماعت ظاہر كرتے ہيں(ادا کرتے ہیں) گويا كہ يہ مشروع نماز ہو.. اس ميں امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہ ہے كہ صلاۃ الرغائب ادا كرنى مكروہ ہے، كيونكہ یہ امت کے گذشتہ لوگوں(سلف) كا فعل نہيں اور خير و بھلائى انہى كى اتباع و پيروى ميں ہے، رضى اللہ تعالى عنہم19.
رجب کے مخصوص دنوں کا روزہ رکھنا ۔
جو لوگ يہ اعتقاد ركھتے ہوئے ماہ رجب کے مخصوص ایام میں روزہ ركھتے ہيں كہ ان ايام ميں روزہ ركھنا افضل ہے، شريعت ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى۔ البتہ پیر، جمعرات اور ایام بیض کے روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن رجب کے چند مخصوص ایام کو یہ مانتے ہوئے روزہ رکھنا کہ اس کے فضائل ہیں ، سنت نبوی سے ثابت نہیں ہے ۔
لکھوی روزہ
اس مہینے میں لکھوی کے نام سے بھی ایک روزہ رکھا جاتا ہے جس کی بابت عقیدہ ہے کہ اس سے ایک لاکھ روزوں کا ثواب ملتا ہے۔
ہزاری روزہ
27 رجب کو روزہ رکھا جاتا ہے اور اسے ہزاری روزہ کا نام دیا جاتا ہے، یعنی 27رجب کا روزہ ایک ہزار روزوں کے برابر ہے ۔ یہ روزہ بھی خود ساختہ ہے کتاب و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں۔
مریم روزہ
یہ روزہ 15رجب کو رکھا جاتا ہے اور اسے مریم روزہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ روزہ بھی بے اصل اور سراسر بدعت ہے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
لوگوں نے جو رجب کی 15تاریخ کو تعظیم کرنا اور اس میں روزہ رکھنا اور خاص نمازیں پڑھنا مشروع کر رکھا ہے اور اس دن کا نام یوم الاستفتاح اور اس روزہ کا نام مریم روزہ رکھا ہوا ہے، یہ سب کسی حدیث سے ثابت نہیں۔20
شیخ لاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأما صوم رجب بخصوصه، فأحاديثه كلها ضعيفة، بل موضوعة، لا يعتمد أهل العلم على شيء منها، وليست من الضعيف الذي يُروى في الفضائل، بل عامتها من الموضوعات المكذوبات”
ترجمہ :بطورِ خاص رجب کے روزے رکھنے کے متعلق تمام احادیث ضعیف بلکہ موضوع (من گھڑت) ہیں ۔ اہل علم ان میں سے کسی پر بھی اعتماد نہیں کرتے۔ يہ وہ ضعيف احادیث نہيں جو فضائل ميں بيان كى جاتى ہيں، بلكہ ان ميں سے عام احاديث من گھڑت اور جھوٹ پر مبنی ہيں۔21
شیخ لاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
وفي المسند وغيره حديث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه أمر بصوم الأشهر الحرم: وهي رجب وذو القعدة وذو الحجة والمحرم. فهذا في صوم الأربعة جميعا لا من يخصص رجبا
اور مسند وغيرہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جو حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حرمت والے مہينوں كے روزے ركھنے كا حكم ديا ہے، جوکہ رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، اور محرم ہیں تو يہ تمام حرمت والے مہينوں ميں ہيں نہ كہ خاص كر رجب ميں۔22
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” كل حديث في ذكر صيام رجب وصلاة بعض الليالي فيه فهو كذب مفترى۔
ترجمہ :رجب کے روزے اور اس کی کچھ راتوں میں قیام کے متعلق جتنی بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں وہ تمام جھوٹ اور بہتان ہیں ۔23 ‘‘
علی بن ابراہیم العطار کہتے ہیں:
ان ما روی فی فضل صیام رجب ، فکله موضوع و ضعیف ، لا أصل له
ترجمہ : رجب کے روزوں کے بارے میں جو کچھ مروی ہے وہ سب ضعیف و موضوع (من گھڑت) ہے ۔24
سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وصيام رجب ليس له فضل زائد على غيره من الشهور، إلا أنه من الأشهر الحرم، ولم يرد في السنة الصحيحة أن للصيام فضيلة بخصوصه، وأن ما جاء في ذلك مما لا ينتهض للاحتجاج به
ترجمہ : رجب میں روزے رکھنا دوسرے مہینوں میں روزے رکھنے سے افضل نہیں ، صرف اتنا ہے كہ ماہ رجب بھى حرمت والے مہينوں ميں شامل ہے اور خاص كر رجب كے مہينے ميں روزے كى فضيلت ميں كوئى صحيح حديث نہيں ہے اور اس سلسلے ميں جو كچھ بيان كيا جاتا ہے وہ قابل حجت نہيں ہے۔25“
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و أما الأحاديث الواردة في فضل رجب، أو في فضل صيامه، أو صيام شيء منه صريحة: فهي على قسمين: ضعيفة ، وموضوعة.
ترجمہ : جہاں تک ماہ رجب یا اس کا روزہ رکھنے یا ماہ رجب کے چند ایام کے روزے رکھنے کی فضیلت میں وارد شدہ احادیث کا تعلق ہے ، وہ دو قسم کی ہیں: ایک ضعیف ہیں اور ایک من گھڑت۔26
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“وأما الصيام فلم يصح في فضل صوم رجب بخصوصه شيء عن النبي -صلى الله عليه وسلم- ولا عن أصحابه”
ترجمہ : جہاں تک ماہ رجب میں روزوں کا تعلق ہے تو خاص کر اس کے روزوں کی فضیلت کے سلسلے میں نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ثابت ہے اور نہ آپ کے صحابہ کرام سے۔27
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ فرماتے ہیں::
صيام اليوم السابع العشرين من رجب وقيام ليلته وتخصيص ذلك بدعة، وكل بدعة ضلالة.”
ترجمہ : ستائيس رجب كا روزہ ركھنا اور ستائيس رجب كى رات قيام كرنا اور اس كى تخصيص كرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہى ہے۔28“
امام عبداللہ انصاری کے بارے میں آتا ہے :
كَانَ عَبْد اللَّهِ الأَنْصَارِيّ لَا يَصُوم رَجَب وَينْهى عَن ذَلِك يَقُول: مَا صَحَّ فِي فضل رَجَب وَفِي صِيَامه عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم شئ
ترجمہ : امام عبداللہ انصاری رجب کے روزے نہیں رکھتے تھے اور اس سے روکتے تھے اور فرمایا کرتے تھے : رجب کی فضیلت اور اس کے روزوں کے حوالے سے کوئی صحیح روایت مروی نہیں ۔29
خلاصہ کلام
اہل علم کے درج بالا اقوال سے معلوم ہوا کہ ماہ رجب کی کوئی بھی خاص فضیلت ثابت نہیں اور جن روایات میں اس کی کوئی بھی فضیلت مروی ہے وہ تمام کذب و افترا ہیں ۔
ماہ رجب کے مسنون روزے
ماہ رجب کے خصوصی روزوں کی فضیلت میں کچھ وارد نہ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ماہ رجب میں کوئی نفل روزہ نہیں ہے بلکہ جن روزوں کے بارے میں عام نصوص وارد ہوئے ہیں جیسے پیر اور جمعرات کے روزے، نیز ہر ماہ کے تین روزے اور صوم داود یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن ترک کرنا تو یہ سب جائز ہیں ۔
ایک ضروری وضاحت :
مذکورہ تمام دلائل سے واضح ہوگیا کہ رجب کے روزوں کی فضیلت اور رجب کی دیگر مخصوص عبادات کسی صحیح حدیث یا اثر سے ثابت نہیں ہیں، البتہ یہاں کچھ باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
1۔ اگر ایک شخص کی مسلسل روزے رکھنے کی کوئی ترتیب بنی ہوئی ہے اور اسی ترتیب میں رجب کا مہینہ بھی آرہا ہے تو اس جہت سے یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ روزے مسلسل نہ ہوں کیونکہ رسولِ اکرم ﷺ نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا:
لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ
(صحیح ابن ماجة: 1394، وصحیح مسلم :1159)
ترجمہ : جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوا“
یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے اس سے زیادہ کی شرعاً اجازت نہیں۔ اگر کسی نے مسلسل نفلی روزے رکھنے ہوں تو وہ سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرح رکھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
أحبُّ الصِّيامِ إلى اللہِ عزَّ وجلَّ صيامُ داودَ علَيهِ السَّلامُ ، كانَ يَصومُ يومًا ويُفطِرُ يومًا ، وأحبُّ الصَّلاةِ إلى اللہِ عزَّ وجلَّ صلاةُ داودَ علَيهِ السَّلامُ ، كانَ يَنامُ نصفَ اللَّيلِ ، ويقومُ ثلُثَهُ ، ويَنامُ سُدُسَهُ
(صحيح النسائي: 2343 وصحيح مسلم: 1159)
”اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزے کا سب سے پسندیدہ طریقہ داؤد علیہ السلام کا طریقہ تھا۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بغیر روزے کے رہتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نزدیک نماز کا سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ داؤد علیہ السلام کی نماز کا طریقہ تھا ۔ آپ آدھی رات تک سوتے اور ایک تہائی حصے میں عبادت کیا کرتے تھے پھر بقیہ چھٹے حصے میں بھی سوتے تھے۔
2۔ کفارے اور قضاء کی صورت میں مسلسل روزے رکھے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ واجبی روزے ہیں نہ کہ نفلی۔
3۔ رسول اللہ ﷺ کی سنّتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر اسلامی مہینہ کی 13،14،15تاریخ کے روزے اور ہر پیر و جمعرات کے روزے عام مہینوں کی طرح ماہِ رجب میں بھی رکھے جاسکتے ہیں ، لیکن ان کا ماہِ رجب سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ، آپﷺ عموماً پورے سال میں اس ترتیب سے روزے رکھتے تھے۔
ماہ رجب میں روزہ کن صورتوں میں حرام ہے؟
علامہ طرطوشی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے تو ماہ رجب میں روزہ ممنوع ہے :
إذا خصه المسلمون في كل عام حسب العوام ومن لا معرفة له بالشريعة ، مع ظهور صيامه أنه فرض كرمضان.
اعتقاد أن صومه سنّة ثابتة خصه الرسول بالصوم كالسنن الراتبة
اعتقاد أن الصوم فيه مخصوص بفضل ثواب على صيام سائر الشهور ، وأنه جارٍ مجرى عاشوراء ، وفضل آخر الليل على أوله في الصلاة ، فيكون من باب الفضائل لا من باب السنن والفرائض ، ولو كان كذلك لبينه النبي ﷺ أو فعله ولو مرة في العمر ، ولما لم يفعل: بطل كونه مخصوصاً بالفضيلة.
1۔ جب مسلمان ماہ رجب کو ہر سال عوام اور شریعت سے نا واقف لوگوں کی رغبت کے مطابق خاص موسم بنالے اور اس کے روزے مثل رمضان فرض ہونا سمجھا جانے لگے۔
2۔ لوگوں کا یہ اعتقاد بن جائے کہ رجب کا روزہ ایک ثابت سنت ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن راتبہ کی طرح روزے کے ساتھ خاص کیا ہے۔
3۔ یہ اعتقاد بنالیا جائے کہ رجب کے روزے کو دیگر مہینوں کے روزوں کے مقابلہ میں خاص فضیلت حاصل ہے اور یہ بھی عاشوراء کے روزے اور آخری رات کی تہجد کی فضیلت کے ہم درجہ ہے، لہذا یہ فضائل کے باب سے ہے نہ کہ سنن و فرائض کے باب سے ۔ اگر یہ بات ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور بیان کرتے یا زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور عمل کرتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو ماہ رجب کا کسی مخصوص فضیلت کے ساتھ خاص ہونا باطل ٹھہرا ۔30
جمعہ کے دن کو روزے کے لئے خاص کرنا
ماہ رجب میں جمعہ کے دن چند مخصوص ایام کے بارے میں یہ مانتے ہوئے روزہ رکھا جاتا ہے کہ اس کے فضائل ہیں حالانکہ یہ سنت نبوی سے ثابت نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی رات کو نماز پڑھنے یا جمعہ کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَخْتَصُّوا لَيْلَةَ الجُمُعَةِ بقِيَامٍ مِن بَيْنِ اللَّيَالِي، وَلَا تَخُصُّوا يَومَ الجُمُعَةِ بصِيَامٍ مِن بَيْنِ الأيَّامِ، إِلَّا أَنْ يَكونَ في صَوْمٍ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ.
(صحيح مسلم: 1144)
ترجمہ : جمعہ کی رات کو قیام کے لیے خاص نہ کرو اور نہ اس کے دن کو روزے کے لیے خاص کرو، ہاں اگر کوئی آدمی (اپنی ترتیب کے مطابق) روزے رکھ رہا ہے (اور اسے جمعہ کے دن روزہ رکھنا پڑ گیا ہے تو) وہ روزہ رکھ لے۔“
ماہ رجب میں عمرہ کرنا
عمرہ کرنا سال کے تمام دنوں میں جائز ہے لیکن ماہ رجب کو عمرے کے لیے مخصوص کرنا اور اسے دوسرے دنوں سے زیادہ اجر و ثواب کا حامل اور افضل سمجھنا حرام اور بدعت ہے ۔ کیونکہ اس عمل پر کوئی دلیل کتاب و سنت اور سیرت صحابہ سے نہیں ملتی۔ بلکہ صحیحین میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول مروی ہے کہ’’رسول اللہ ﷺ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا تھا۔31‘‘
عمرہ کرنے کا بہترین وقت
عمرہ کرنے کا بہترین وقت ماہ رمضان ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عُمرةٌ في رمضانَ تعدِلُ حَجَّةً
(صحيح ابن ماجه: 2441)
ترجمہ : رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہے۔
رمضان کے بعد عمرہ کرنے کا بہترین وقت ذوالقعدہ کا مہینہ ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اپنے تمام عمرے ذوالقعدہ میں ادا کیے ۔ ہمارے لیے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ ہی اسوہ حسنہ ہے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(الأحزاب: 21 )
ترجمہ :حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔
علامہ ابن العطار رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومما بلغني عن أهل مكة (زادها الله تشريفاً) اعتيادهم كثرة الاعتمار في رجب ، وهذا مما لا أعلم له أصلاً”
ترجمہ : مجھے اہل مکہ کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ کثرت سے ماہ رجب میں عمرہ ادا کرتے ہیں، جس کی میرے علم میں کوئی اصل و بنیاد نہیں ہے۔32
بعض ممالک میں لوگ رجب کو زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مہینہ قرار دیتے تھے، ابن رجب نے اس کے بارے میں کہا:
“سنت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
ماہ رجب میں زکوۃ ادا کرنا
جب مال نصاب پر ایک سال مکمل ہوجائے ، اگر ماہ رجب میں سال پورا ہوجاتا ہے تو زکوۃ ادا کرنا منع نہیں ہے،لیکن بعض ممالک میں لوگ خصوصیت کے ساتھ ماہ رجب میں زکوۃ نکالتے ہیں۔ماہ رجب کو زکوۃ کے لیے مخصوص کرنا اور اسے دوسرے دنوں سے زیادہ اجر و ثواب کا حامل اور افضل سمجھنا حرام اور بدعت ہے ۔کیونکہ اس عمل پر کوئی دلیل کتاب و سنت اور سیرت صحابہ سے نہیں پائی جاتی۔
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولا أصل لذلك في السُنة، ولا عُرف عن أحد من السلف… وبكل حال: فإنما تجب الزكاة إذا تم الحول على النصاب، فكل أحدٍ له حول يخصه بحسب وقت ملكه للنصاب، فإذا تم حوله وجب عليه إخراج زكاته في أي شهر كان»
ترجمہ : “سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے اور نہ ہی کسی سلف سے یہ معروف ہے، بہرحال زکوۃ واجب ہوتی ہے جب مال نصاب پر ایک سال مکمل ہوجائے، لہذا ہر شخص کا اس کے مالک نصاب ہونے کے دن سے سال پورا ہوتا ہے ، اس لئے جب اس کا سال پورا ہو جائے تو زکوۃ ادا کرنا واجب ہے، خواہ مہینہ کوئی بھی ہو”33
علامہ ابن عطار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وما يفعله الناس في هذه الأزمان من إخراج زكاة أموالهم في رجب دون غيره من الأزمان لا أصل له ، بل حكم الشرع أنه يجب إخراج زكاة الأموال عند حولان حولها بشرطه سواء كان رجباً أو غيره“
ترجمہ :”اس دور میں لوگ جو ماہ رجب میں اپنی زکوۃ نکالتے ہیں دوسرے مہینوں کو چھوڑ کر تو اس کی کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ شارع کا یہ حکم ہے کہ سال پورا ہونے پر مال کی زکوۃ نکالنا واجب ہے خواہ رجب کا مہینہ ہو یا کوئی دوسرا ۔34
ماہ رجب میں جانور ذبح کرنا
ماہ رجب میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مطلقا جانور ذبح کرنا دیگر مہینوں کی طرح منع نہیں ہے، لیکن اہل جاہلیت اس ماہ میں ایک “عتیرہ” نام کا ذبیحہ ذبح کرتے تھے۔ ، چنانچہ علماء کی اکثریت اس بات کی طرف گئی ہے کہ اسلام نے اسے باطل قرار دے دیا ہے ،کیونکہ بخاری و مسلم کی حدیث ہے ، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا فَرَعَ ولا عَتِيرَةَ والفَرَعُ: أوَّلُ النِّتاجِ، كانُوا يَذْبَحُونَهُ لِطَواغِيتِهِمْ، والعَتِيرَةُ في رَجَبٍ.
(صحيح البخاري : 5473)
ترجمہ :”فرع” اور “عتيرة” (اسلام میں) نہیں ہیں۔ “فرع” سب سے پہلا بچہ جو ان کے ہاں (اونٹنی سے) پیدا ہوتا تھا اسکو کہتے تھے. اسے وہ اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے اور “عتيرة” وہ قربانی جسے وہ رجب میں کرتے تھے (اور اس کی کھال درخت پر ڈال دیتے)۔
كیا ماہ رجب میں کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا ہے؟
علامہ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد روي أنه كان في شهر رجب حوادث عظيمة ، ولم يصح شيء من ذلك ، فروي أن النبي ولد في أول ليلة منه ، وأنه بعث في السابع والعشرين منه ، وقيل في الخامس والعشرين ، ولا يصح شيء من ذلك “
ترجمہ : “ماہ رجب کے بابت یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ماہ رجب میں بڑے حادثات واقع ہوئے ہیں، حالانکہ ان میں سے ایک بھی درست نہیں ہے، مثلا نبی کریم ﷺ رجب کی پہلی رات کو پیدا ہوئے اور آپ ﷺ ستائیس رجب کو مبعوث ہوئے ، ایک روایت کے مطابق پچیس رجب کو آپ ﷺ مبعوث ہوئے، حالانکہ ان میں سے کچھ بھی صحیح طور سے ثابت نہیں۔35 “
ماہِ رجب میں اعتکاف
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“أما تخصيص رجب وشعبان جميعًا بالصوم أو الاعتكاف، فلم يرد فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء ولا عن أصحابه، ولا أئمة المسلمين.
ترجمہ :”رجب یا شعبان کو روزے کے لئے یا اعتکاف کے لئے خاص کرنے کے سلسلے میں نہ اللہ کے نبیﷺ سے, نہ آپ کے صحابہ سے اور نہ ہی ائمہ اسلام سے کچھ ثابت ہے.36“
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم يصم- صلى الله عليه وسلم- الثلاثة الأشهر سردا ( أي رجب وشعبان ورمضان ) كما يفعله بعض الناس ولا صام رجباً قط ولا استحب صيامه، بل روي عنه النهي عن صيامه ذكره ابن ماجه.
ترجمہ :آپﷺ نے مسلسل تین مہینوں:رجب ، شعبان اور رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے جیسا کہ بعض لوگوں کاطریقہ ہے۔ نہ ہی آپ نے رجب کا روزہ رکھا، نہ ہی اس کے روزے کو پسندفرمایاہے۔ بلکہ آپ سے رجب کے روزے کی ممانعت کے سلسلے میں حدیث وارد ہے جسے ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے۔37‘‘
ماہ رجب اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل
جاہلیت میں جس انداز سے رجب کی تعظیم کی جاتی تھی اس کے پیشِ نظر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اس دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا، خرشہ بن الحر بیان کرتے ہیں کہ
وقد ثبت أن عمر رضي الله عنه، كان يضرب أكف الرجال في صوم رجب حتى يضعوها في الطعام، ويقول: وما رجب؟ إن رجبًا كان يعظمه أهل الجاهلية، فلما كان الإسلام ترك.
(مصنف ابن أبي شيبۃ: 2/345 وصححه الألباني في إرواء الغليل: ٩٥٧)
ترجمہ :میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ رجب کا روزہ رکھنے پر لوگوں کی ہتھیلیوں پر مارتے تھے یہاں تک وہ اپنا ہاتھ کھانے میں ڈال دیتے تھے، (یعنی اپنے سامنے لوگوں سے روزہ افطار کروادیتے تھے) اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے :کہ کھاؤ ۔ رجب کیا ہے؟ رجب تو ایک مہینہ ہے جس کی جاہلیت میں تعظیم کی جاتی تھی، پھر جب اسلام آیا تو اس کی جاہلیت والی عظمت کوترک کردیا گیا۔
ماہ رجب میں صدقہ وخیرات کرنا
صدقہ کسی بھی دن اور مہینے میں جائز ہے،لیکن رجب کے مہینے میں یہ مانتے ہوئے صدقہ کرنا کہ اس کی خاص فضیلت ہے، سنت نبوی سے ثابت نہیں ہے ۔ ماہ رجب یا اس کے کسی دن کی خاص فضیلت کا عقیدہ رکھنا ایک غلط عقیدہ ہے۔
رجب کی 27 کو جشن معراج منانا
27رجب کو جشن معراج کے نام سے مختلف عبادتیں انجام دی جاتی ہیں ۔ستائیسویں کے دن کا روزہ رکھنا ، رات کو قیام کرنا ، نمازشب معراج پڑھنا،محفلیں منعقد کرنا، اسی رات کو معراج کی رات سمجھ کر واقعہ اسراء و معراج پڑھنا ، یہ سب بے بنیاد ہیں کیونکہ اسراء اور معراج کی اصل رات کسی تاریخ یا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، بلکہ کسی ضعیف حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے. اس دن اور رات کو خصوصی عبادات بجا لانا مکمل بدعت اور گمراہی ہے ۔
معراج کا واقعہ بعثت کے پانچویں سال پیش آیا جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں 18 مرتبہ وہ رات آئی لیکن کسی ضعیف بلکہ موضوع حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اس رات کے منانے کا اہتمام فرمایا ہو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام موجود رہے لیکن کسی کے بارے میں منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس رات کو کوئی خاص اہمیت دی ہو۔
رجب کی روٹی
ماہ رجب میں کچھ لوگ جمعہ کے دن میٹھی روٹیاں بناتے ہیں اور ان پر اکتالیس مرتبہ سورۃ الملک پڑھواتے ہیں،اس کو میت کی جانب سے صدقہ و خیرات کا نام دیا جاتا ہے ، اس رسم کو ثواب اور متبرک سمجھ کر کرنا جہالت ہے۔ سورۃ الملک پڑھنا بذات خود ثواب کا کام ہے، لیکن کسی خاص دن میں اس کا اس طرح اہتمام ثابت نہیں ہے۔
22 رجب کے کونڈے
بر صغیر پاک و ہندکے مسلمانوں میں 22رجب کو ایک رسم منائی جاتی ہے جس میں مخصوص کھانے یا مٹھایاں تیار کرکے ان پر مخصوص آیات اور دعا پڑھ کر خاندان ، دوستوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہیں اور مختلف گھڑی ہوئی داستانوں اور واقعات کو بنیاد بنا کر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی پیدائش کا دِن ہے، لہذا اُن کی پیدائش کی خوشی میں یہ جشن کیا جاتا ہے ،اور اِسے“ رجب کے کونڈے، یا امام جعفر کے کونڈے ‘‘ کا نام دِیا جاتا ہے۔ یہ ایک بدعت ہے جس کی اسلام میں کوئی بنیاد نہیں ۔
قبروں کی زیارت کرنا
بہت سے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اس مہینے میں قبروں کی زیارت کرنا مُردوں کے لئے نیکی اور عمل کا باعث بنتا ہے ، یہ بے بنیاد بات ہے ، اس مہینے میں قبروں کی زیارت کرنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نبی ﷺ سے ثابت نہیں ۔
روضہ رسول ﷺ کی زیارت
مسجد نبوی ﷺمیں نماز ادا کرنے کے لیے سفر کرنا اور پھر قبر رسول ﷺ کی زیارت کرنا کسی بھی مہینے اور کسی بھی دن میں جائز ہے۔لیکن ماہِ رجب کو مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے مختص کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
بدعت کی پہچان
جو چیز کتاب و سنت اور صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے، علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
وَأَمَّا أَهْلُ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ فَيَقُولُونَ فِي كُلِّ فِعْلٍ وَقَوْلٍ لَمْ يَثْبُتْ عَنِ الصَّحَابَةِ: هُوَ بِدْعَةٌ؛ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ خَيْرًا لسبقونا إليه، لأنهم لَمْ يَتْرُكُوا خَصْلَةً مِنْ خِصَالِ الْخَيْرِ إِلَّا وَقَدْ بَادَرُوا إِلَيْهَا.
اہل سنت وجماعت اس بات کے قائل ہیں کہ جو قول و فعل صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اس لیے کہ اگر وہ نیکی کا کام ہوتا تو وہ اس کی طرف سبقت کرتے، اور خیر و بھلائی کا کوئی کام ایسا نہیں ہے جس کی طرف انہوں نے سبقت نہ کی ہو۔38
ماہ رجب میں عبادات کی مقدار بڑھانے کا حکم
شيخ ابن عثيمين رحمہ الله کا فتوی:
ماہ رجب میں عبادات کی مقدار بڑھاناجائز نہیں ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ چونکہ یہ حرمت کا مہینہ ہے. لہذا میں اپنی نمازوں، اذکار اور روزوں یا دیگر اعمال میں اضافہ کروں گا۔کیونکہ یہ مہینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں متعدد بار آیا ، آپ ﷺ نے اس مہینے میں کسی عمل کی مقدار نہیں بڑھائی ہے ۔جب نبی ﷺ نے اس مہینے میں کسی دوسرے مہینے سے زیادہ کسی عمل کی مقدار نہیں بڑھائی ہے تو ہمیں بھی یہ حق نہیں ہے کہ ہم اس ماہ میں اعمال کی مقدار دوسرے مہینوں کے مقابلے میں بڑھائیں کیونکہ ہم نبیﷺ کی سنت کے پیروکار ہیں، کسی بدعت کے پیروکار نہیں۔39
خلاصۂ کلام
درج بالا قرآن وحدیث اور ائمہ کرام کے اقوال سے معلوم ہوا کہ ماہ رجب فقط ایک حرمت والا مہینہ ہے اور اس کے احترام کا تقاضا ہے کہ اس میں خصوصی طور پرظلم سے اور گنا ہوں سے بچنے کی کوشش کریں ۔ اس سے بڑھ کر اس مہینے کی کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں اور اس سلسلے میں جو کچھ بھی بیان کیا جاتا ہے وہ محض جھوٹ اور بہتان پر مبنی ہے ۔ لہٰذا اس مہینے کو کسی بھی نیک عمل اور عبادت کے لئے خاص کرنا بدعت ہے، خواہ وہ صلوۃ الرغائب ہو، شب معراج کی محافل و مجالس ہوں، کونڈوں کی رسم ہو یا کسی مخصوص دن کا روزہ ہو، سب ناجائز اور غیر شرعی امور ہیں ۔ اس لئے ان سے خود بھی بچنا چاہئے اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور صرف ایسے اعمال ہی اختیار کرنے چاہئیں جو سنت نبوی سے ثابت ہوں کیونکہ کامیابی صرف سنت کی اتباع میں ہی ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس عظیم الشان مہینے کی برکتوں سے خوب مالا مال فرمائے اور اس ماہ مبارک میں بدعات و خرافات سے بچائے اور اس حرمت و عظمت والے مہینے کی قدر کرنے اور اس میں خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
- ( تفسیر طبری ، سورة التوبة، الآية :36)
- (تبيينُ العجب بما ورد في شهر رجب، ص:11)
- (السیل الجرار:2/143)
- ( فيض القدير :4/18)
- لقاء الباب المفتوح (174/ 26)
- (صحيح مسلم: 1144)
- ( الحوادث والبدع ، ص103)
- (مجموع الفتاوى 13/ 132)
- ( الفتاوى الكبرى ( 2 / 239 ).
- (الفتاوى الكبرى” (2/262) .
- الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 262 )
- (فتاوى الإمام النووي ، ص: 57).
- (تنبيه الغافلين ، ص: 496).
- ( لطائف المعارف ص: 228)
- (المنار المنیف،ص:95)
- (المجموع :3/548)
- [شرح مسلم 8/ 20]
- (حاشيۃ ابن عابدين ( 2 / 26 ).
- (المدخل:1/294)
- ( ما ثبت بالسنہ بحوالہ: ماہ رجب اور معراج: ص 11)
- (مجموع الفتاوى (25/ 290)
- (مجموع الفتاوى ( 25 / 290 ).
- (المنار المنیف :84)
- (الفوائد المجموعۃ :392)
- ( فقه السنة: 1/383)
- ( تبيين العجب فيما ورد في فضل رجب، ص6 )
- ( لطائف المعارف ص(131).
- (مجموع فتاوى ابن عثيمين” (20/440).
- (الموضوعات لابن الجوزی :کتاب الصیام ،2/208)
- (البدع والحوادث ، ص:110 ،111، وتبيين العجب، لابن حجر ، ص: 37،38)
- (بخاری و مسلم)
- (فتاوى الشيخ محمد بن إبراهيم ، 6/131)
- (لطائف المعارف،ص:289)
- (المساجلة بین العز بن عبد السلام وابن الصلاح، ص55)
- (لطائف المعارف ، ص:233)
- (مجموع الفتاوی:25/ 290)
- (زاد المعاد(2/61)
- (تفسير ابن كثير: 7/ 278، 279)
- (اللقاء الشهري، رقم: 40 )