بارش گرتے وقت پڑھیے :
اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا
(صحيح البخاري: 1032)
أم المؤمنين سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب بارش ہوتی دیکھتے تو یہ دعا کرتے : اے اللہ! نفع بخشنے والی بارش برسا۔
بادل گرجتے وقت پڑھیے
سُبْحَانَ الَّذِي يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ
(صحيح الأدب المفرد :556)
پاک ہے وہ ذات جس کی حمد کے ساتھ یہ گرج تسبیح کرتی ہے اور فرشتے اس کے خوف سے تسبیح کرتے ہیں۔
بارش ہونے کے بعد پڑھیے
مُطِرْنَا بفَضْلِ اللہِ ورَحْمَتِهِ
( صحيح البخاري: 846)
ہم اللہ کے فضل اور اسکی رحمت کے ساتھ بارش سے نوازے گئے۔
ضرورت سے زائد بارش ہوجائے تو پڑھیے
اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ
(صحیح بخاری: 1014 ، وصحیح مسلم: 897)
اے اللہ! ہمارے اردگرد بارش برسا اور (اب) ہم پر نہ (برسا)، اے اللہ! ٹیلوں، پہاڑیوں، وادیوں کے درمیان اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر (بارش برسا)
طوفانی ہواؤں کے وقت پڑھیے
اللَّهُمَّ إنِّي أسألُكَ مِن خَيرِها وخَيرِ ما فيها وخَيرِ ما أُرْسِلَت بِهِ وأعوذُ بِكَ مِن شرِّها وشرِّ ما فيها وشرِّ ما أُرْسِلَت بِهِ
(صحيح الترمذي: 3449 )
“اے اللہ! میں تجھ سے اسکی خیر اور بھلائی کا سوال کرتا ہوں۔ اور جو اس میں ہے اسکی اور جو کچھ اسکے ذریعے بھیجا گیا ہے اسکی خیر (کا طلبگار ہوں) اور اسکے شر سے اور جو کچھ اس میں ہے اور جو اس میں بھیجا گیا ہے اسکے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں”
بارش میں نہانا
نبی کریم ﷺ سے بارش میں قصدا بھیگنا اور اپنے جسم سے کپڑے کو ہٹانا صحیح روایات سے ثابت ہے، اور یہ عمل صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم اجمعین سے بھی ثابت ہے، لہذا سنت کی نیت سے ایسا عمل کرنا مستحب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَطَرٌ، قَالَ: فَحَسَرَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَهُ حَتَّى أَصَابَهُ مِنْ الْمَطَرِ، فَقُلْنَا: يَارَسُولَ الله! لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ قَالَ: لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى
(رواه مسلم: 898)
ایک بار ہم رسول اللہ ﷺ کیساتھ تھے تو بارش ہونے لگی، تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے جسم سے کپڑا ہٹایا اور بارش میں گیلا کیا، تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول (ﷺ) ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: (یہ اپنے پروردگار کے پاس سے ابھی آئی ہے۔
بارش کے دوران قبولیتِ دعا کا وقت تلاش کریں
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
اطلبوا إجابةَ الدعاءِ عندَ التقاءِ الجيوشِ ، وإقامةِ الصلاةِ ، ونزولِ المطر
(السلسلة الصحيحة: 1469)
جب (میدان جنگ میں اسلام اور کفر کے) لشکر آپس میں ٹکرا رہے ہوں، نماز کے لیے اقامت کہی جا رہی ہو اور بارش کا نزول ہو رہا ہو تو ان اوقات میں قبولیت دعا کو تلاش کرو۔
بارش کا وقت دعا کی قبولیت کا وقت ہے
چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
ثِنتانِ ما تُرَدّانِ : الدُّعاءُ عند النِّداءِ ، و تحْتَ المَطَرِ
(صحيح الجامع: 3078)
ترجمہ : دو دعائیں رد نہیں ہوتیں۔ اذان کے وقت کی دعا اور بارش کے وقت کی دعا۔
بارش کے وقت دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا
نمازوں کو ان کے مقررہ وقت میں اور باجماعت ادا کرنا ہی افضل اور ضروری ہے لیکن شریعت نے نرمی و آسانی کے لیے یہ سہولت دی ہے کہ کسی عذر کی بنا پر جیسے اگر بارش ہو رہی ہو اور بارش کی وجہ سے مسجد میں جانا مشکل ہو یا بارش سے راستے خراب ہوں یعنی پانی یا بہت زیادہ کیچڑ وغیرہ ہو جہاں سے گزرنے میں بہت دشواری ہو تو مقیم شخص دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھ سکتے ہیں اور بہت ساری صحیح احادیث میں اسکا ذکر بھی ملتا ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں:
جمعَ رسولُ اللہِ صلَّى اللہُ عليهِ وسلَّمَ بينَ الظُّهرِ والعَصرِ ، وبينَ المغربِ والعِشاءِ بالمدينةِ ، من غيرِ خوفٍ ولا مطرٍ ، قالَ: فقيلَ لابنِ عبَّاسٍ : ما أرادَ بذلِكَ ؟ قالَ: أرادَ أن لا يُحْرِجَ أمَّتَهُ
(صحيح الترمذي: 187، وصحيح مسلم: 705)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں بلا کسی خوف اور بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گیا: اس سے آپ کا کیا مقصد تھا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے چاہا کہ اپنی امت کو کسی زحمت میں نہ ڈالیں ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما مزید فرماتے ہیں :
صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا، وسبعا جميعا، الظهر والعصر، والمغرب والعشاء
(صحيح البخاري : 543، 1174، صحيح مسلم : 55/705)
ترجمہ : میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں ظہر و عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشا کی سات رکعات جمع کر کے پڑھیں۔ “
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فهذه الآثار تدل على أن الجمع للمطر من الأمر القديم المعمول به بالمدينة زمن الصحابة والتابعين، مع أنه لم ينقل أن أحدا من الصحابة والتابعين أنكر ذلك، فعلم أنه منقول عندهم بالتواتر جواز ذلك ” انتهى1
ترجمہ : ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنا قدیم معاملہ ہے، جس پر صحابہ و تابعین کرام کے عہد میں مدینہ منورہ میں بھی عمل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی ایک بھی صحابی سے اس پر اعتراض کرنا بھی منقول نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ و تابعین سے بالتواتر اس کا جواز منقول ہے ـ“
محدث العصرعلامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
محدث العصرعلامہ البانی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما کے قول فى غير خوف ولا مطر کی شرح میں فرماتے ہیں :
فإنه يشعر أن الجمع للمطر كان معروفا فى عهدہ صلى الله عليه وسلم، ولو لم يكن كذلك، لما كان ثمة فائدة من نفي المطر كسبب مبرر للجمع، فتامل2
یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا معروف تھا۔ غور فرمائیے ! اگر ایسا نہ ہوتا تو بارش کو جمع کے جواز کے سبب کے طور پر ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔“
خلاصہ یہ کہ جب بھی بارش کی وجہ سے مشقت و ضرر کا خوف ہوگا دو نمازوں ظہر و عصر ، اور مغرب و عشاء کو جمع کرکے پڑھنا جائز ہے۔ واللہ أعلم ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تمام سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔