تمہید
سوالات کے جوابات سے قبل کچھ تمہیدی گذارشات پیش خدمت ہیں :
(1)انسان فطرتی طور پر ایک دوسرے کا محتاج اور معاون ہے لیکن شرعی طور پر ایک مسلمان اس امر کا پابند ہے کہ وہ نیکی اور تقوی کی بنیاد پر دوسروں سے تعاون کرے اور ظلم اور زیادتی کے معاملات میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
’’تم نیکی اور پرہیز گاری کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور سرکشی کے معاملات میں باہمی تعاون سے گریز کرو ‘‘[المائدہ :4]
(2) اگر کوئی مباح امر اور مستحب کام کسی منکر و معصیت کا ذریعہ بن جائے تو سد الذرائع کے طور پر وہ مباح اور مستحب کام بھی نہیں کرنا چاہئے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’پھر ہم نے آدم سے کہا کہ: تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں آباد ہوجاؤ اور جہاں سے چاہو (اسکے پھل) جی بھر کے کھاؤ۔ البتہ اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمارہوگے‘‘
اس امتناعی حکم میں ا س درخت کا تناول کرنا تھا لیکن اس کے قریب جانے سے منع کیا تاکہ قریب جانا
حکم امتناعی کا سبب نہ بن جائے اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جو چیز معصیت کے قریب کرنے والی اور اس کا سبب ہو اس کا ارتکاب مکروہ اور نا پسندیدہ حرکت ہے۔
ان تمہیدی گذارشات کے بعد ارسال کردہ سوالات کے ترتیب وار جوابات پیش خدمت ہیں:
سوال نمبر 1 : کیا کسی بھی اسلامی بینک میں کسی قسم کی کسی بھی نوعیت کی ملازمت اختیار کی جاسکتی ہے ؟اگر ملازمت اس شرط پر ہو کہ ملازم بینک کے دیگر شرعی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا اور اس سے کوئی بھی کسی قسم کا ناجائز پرافٹ حاصل نہیں کرے گا۔( شبیر عثمانی )
جواب : ہمارے رجحان کے مطابق کوئی بینک بھی سودی معاملات سے محفوظ نہیں ہے خواہ اپنے نام کے ساتھ ’’اسلامی ‘‘ ہونے کا لیبل ہی کیوں نہ لگالے کیونکہ پاکستان میں جتنے بینک ہیں وہ حکومتی بینک (اسٹیٹ بینک ) کے ماتحت ہوتے ہیں اور حکومتی بینک سے انہیں روزانہ کاروبار اور لین دین کرنا پڑتا ہے اسے بھاری رقوم ہی پرکشش اور بھاری شرح سود پر دی جاتی ہیں۔
پھر حکومتی بینک کا تعلق عالمی (ورلڈ) بینک کے ساتھ ہوتا ہے ،تمام حکومتی بینک،ورلڈ بینک کے ما تحت اور اسکے ممبر ہوتے ہیں اور اسے بھاری سرمایہ بھاری شرح سود پر فراہم کرتے ہیں ،اسی طرح ورلڈ بینک سے جو سود ملتا ہے وہ حصہ رسدی کے طور پر پاکستان کے تمام اسلامی و غیر اسلامی بینکوں کو پہنچ جاتا ہے۔ بینک کے معاملات کی یہ مختصر وضاحت ہے اس وضاحت کے بعد ہمار ے رجحان کے مطابق کسی بھی اسلامی بینک میں کسی بھی نوعیت کی ملازمت کرنا ناجائز ہے۔ خواہ ملازمت کے وقت یہ شرط ہی کیوں نہ طے کرے کہ وہ بینک کے دیگر غیر شرعی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا اور نہ اس سے کوئی ناجائز پرافٹ حاصل کرے گا۔ ایک مسلمان اس امر کا پابند ہے کہ وہ دنیا میں چند روز گذارنے کے لئے ایسی حلال صاف ستھری اور پاکیزہ کمائی استعمال کرے جس پر کسی قسم کی حرام کاری کا دھبہ نہ لگا ہو۔شریعت نے ہمیں ایسی مشتبہ قسم کی چیزوں کے ارد گرد گھومنے سے بھی منع فرمایا ہے جو بالآخرایک مسلمان کو حرام اور ناجائز کمائی میں گرادینے کا ذریعہ ہوں حدیث میں ہے کہ تم ایسی چیز کو اختیار کرو جس کےمتعلق کسی قسم کا داغ د ھبہ نہ ہو اور جو چیز تمہیں شکوک و شبہات میں ڈال دے اسے چھوڑ دو ۔[1]
سوال نمبر 2: کیا اسٹیٹ بینک میں کام کرنا ایسے ہی حرام ہے جیسے دیگر کمرشل بینک میں حرام ہے ؟
( کفیل اسلم )
جواب : اصولی طور پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ بینک عام صارفین سے کم شرح سود پر رقوم لے کر دوسرے سرمایہ کاروں کو بھاری شرح سود پر منتقل کرتا ہے ، پھر سرمایہ کاروں سے ملنے والے سود کا کچھ حصہ عام صارفین کے کھاتے میں جمع کردیتا ہے ، اسی طرح تمام بینک اس امر کے پابند ہوتے ہیں کہ وہ سرمایہ کاروں سے پس انداز رقوم حکومتی (اسٹیٹ ) بینک کو ایک خاص شرح سود پر منتقل کریں پھر اسٹیٹ بینک سے ملنے والا سود تقسیم کیا جاتا ہے اسٹیٹ بینک بھی سودی کاروبار کرتا ہے اور وہ عالمی بینک کو بھاری شرح سود پر رقوم دیتا ہے اور سود کی لپیٹ میں درج ذیل قسم کے لوگ آتے ہیں۔
٭سود دینے والا…٭سود لینے والا …٭سود لکھنے والا…٭اس پر گواہ بننے والا۔
یہ لوگ تو بلا واسطہ سود کی لپیٹ میں آتے ہیں ، چنانچہ حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے ، سود دینے والے ، لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے نیز فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔ [2]
بینک میں کام کرنے والے کچھ بالواسطہ طور پر اس لعنت زدگی کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ مثلاً بینک کو سہولیات فراہم کرنے والے چوکیدار ،پہرے دار اور ا س کے متعلق دیگر خدمات سر انجام دینے والے حضرات ، اس بناپر ہمارا رجحان یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک بھی سودی کاروبار سے محفوظ نہیں ہے اگرچہ اس کا سودی لین دین پبلک کے ساتھ نہیں ہوتا تاہم عالمی بینک اور دیگر کمرشل بینک اس کے ساتھ سودی کاروبار ضرور کرتے ہیں۔ اس بنا پر اسٹیٹ بینک میں بھی ملازمت یا کوئی بھی خدمت سر انجام دینے سے اجتناب کیا جائے زندگی کی گاڑی کو چلانے کیلئے کوئی اور ذریعہ تلاش کر لیا جائے۔
سوال نمبر 3 :میرے دوست کے والد بینک میں ملازم ہیں جبکہ میرا دوست ایک کمپنی میں ملازم ہے وہ دونوں باپ بیٹا اپنی سیلری جمع کرکے گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں ، ایسے حالات میں میرے دوست کیلئے شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا وہ اپنی آمدنی والد کی آمدنی سے الگ کرلے یا اسی طرح گھر کا نظام چلاتا رہے۔( محمد ارسلان اکرم )
جواب :ہمارے رجحان کے مطابق بینک کی ملازمت شرعی طور پر جائز نہیں ہے کیونکہ بینک میں سودی کاروبار ہوتا ہے اور سودی کاروبار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ لڑنے کے مترادف ہے نیز اس قسم کے رزق حرام کے بہت سے نقصانات ہیں ، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رزق حرام استعمال کرنے والے کی نیکیاں قبول نہیں کرتا ، اگر رزق حلال میں حرام کی آمیزش ہوجائے تو اس سے بھی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں ، جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص دس درہم کا کپڑا خریدتا ہے اور اس میں ایک درہم حرام کی کمائی کا شامل کرلیتا ہے اور باقی نو درہم حلال کے ہیں تو اللہ رب العزت اس کے ایک بار کپڑا پہننے سے چالیس دن اس کی کوئی نیکی قبول نہیں کرے گا۔[3]
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حلال رزق میں حرام کی آمیزش کس قدر خطرناک امر ہے۔پھر غلبہ بھی حلال کو ہے لیکن جس کا تمام سرمایہ حرام کا ہو اور اس کی معیشت کی بنیاد ہی رزق حرام ہو، اس کا کیا انجام ہوگا ؟ غور کیجئے۔
صورت مسئولہ میں ہم آپکے دوست کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے والد گرامی کو اچھے انداز سے رزق حرام کی سنگینی کے متعلق آگاہ کریں ، اگر وہ شادی شدہ نہیں ہیں تو والدین کے ساتھ ہی رہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ رزق حرام سے بچنے کی کوئی سبیل پیدا فرمائے ، اور اللہ تعالیٰ ضرور کوئی راستہ پیدا فرمائے گا۔
سوال نمبر4 : ایک شخص بینک میں کاروبار نہیں کرتا لیکن ATM مشین کےٹیکنیکل پرابلم دور کرتا ہے جس کی اسے اجرت ملتی ہے ، اس کام کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ نیز اس کی کمائی کا شرعی حکم بیان کریں ؟
(محمدافضل صاحب )
جواب : بینک اپنے صارفین کو سہولیات فراہم کرتا ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ایک کارڈ کے ذریعے ATM مشین سے ایک خاص مقررہ حد تک بوقت ضرورت رقم حاصل کر سکتا ہے، اس مشین سے رقم حاصل کرنے کا اگرچہ سودی کاروبار سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے تاہم بینک کا ایک حصہ ہے ، اس بنا پر ہمارا رجحان یہ ہے کہ اس مشین کی خرابی دور کرنے میں چنداں حرج نہیں اور اس کی مزدوری لینا بھی جائز ہے لیکن اسے یہ مزدوری سودی کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم سے ہی ادا کی جائے گی جو حلال اور پاکیزہ نہیں ہے اس لئے تقوی کا تقاضہ یہ ہے کہ اس طرح کا ہنر پیشہ کے بجائے انسان کوئی دوسرا ہنرسیکھ لے اور اسے اپنا ذریعہ بنالے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لئے رنج وغم سے نجات کے لئے کوئی صورت پیدا کردے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوگا۔‘‘(الطلاق :2 ،3) بہرحال ایسے کام پر اجرت لینے کی گنجائش ضرور ہے اگرچہ بہتر ہے کہ ا س سے احتراز کیا جائے۔ واللہ اعلم
سوال نمبر5 : کیا کسی بھی بینک یا اسلامی بینک کو کرایہ پر جگہ مہیا کی جاسکتی ہے ؟نیز اس کرایہ کی مد میں جو آمدنی ہوگی اسے استعمال میں لانا شرعاً کیسا ہے ؟( عبد الرحمٰن )
جواب : سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لوگوں پر ایسا وقت آنے والا ہے کہ وہ اس میں سود کھائیں گے۔ عرض کیا گیا ، آیا سب کے سب لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوجائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو نہیں کھائے گا اسے بھی سود کی گرد و غبار پہنچ جائےگی۔‘‘[4]
اس حدیث کے پیش نظر دور حاضر میں کوئی بھی اس وبائی مرض سے محفوظ نہیں ہے ، کسی نہ کسی حوالہ سے پرہیز گار کو بھی اس کی گرد و غبار سے ضرور واسطہ پڑ جاتا ہے ، ہمارے نزدیک صورت مسئولہ میں بھی اس قسم کا معاملہ ہے کیونکہ کرایہ وغیرہ کی رقم اس سودی کاروبار کی پیداوار ہوتی ہے جس پر بینک کے معاملات کی بنیاد کھڑی ہے ، چونکہ بینک سودی کاروبار کرتے ہیں اس بنا پر بینکوں کو سودی کاروبار کیلئے جگہ فراہم کرنا کہ وہ خود اس پر عمارت تعمیر کرلیں یا انہیں عمارت بنا کر کرایہ پر دینا شرعاًجائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا ان کے حرام کاروبار میں براہ راست معاونت کرنا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے سے معاونت نہ کرو۔ (المائدہ :2)
اس آیت کریمہ کی روشنی میں اگر کوئی نیکی اور تقوی کا کام کرتا ہے تو اس کا دل و جان سے ساتھ دینا چاہئے اور کوئی مسلمان گناہ کا کام کرتا ہے تو اس سے کسی قسم کا تعاون نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے رجحان کے مطابق عمارت تعمیر کرکے سودی کاروبار کرنے والے کو کرایہ پر دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ وہ عمارت کسی بدکاری کا اڈا چلانے یا شراب کشید کرنے یا جوا کھیلنے والے کو کرایہ پر دینا ہے کہ ایسا کرنا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے جبکہ اہل ایمان کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ چیز تناول کریں فرمانِ الٰہی ہے :’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں عطا کی ہیں انہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ (البقرہ :172) لہٰذا ایک مسلمان کو اس قسم کے کرایہ سے اجتناب کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 6 :اسٹیٹ بینک کے ملازمین کرنسی کے نئے نوٹ تبدیل کرنے کے زائد پیسے لیتے ہیں ، کیا شرعی طور پر ایسا کرنا جائز ہے ؟( محمد کفیل)
جواب :ایک ہی ملک کے کرنسی نوٹوں کا تبادلہ مساوات اور برابری کے ساتھ کرنا جائز ہے کیونکہ نئے اور پرانے نوٹوں کی حیثیت و مالیت ایک ہی ہوتی ہے ، اس کے برعکس اگر نئے نوٹوں کا لحاظ رکھتے ہوئے کمی بیشی کے ساتھ کیا جائے تو ایسا کرنا ناجائز اور صریح سود ہے مثلاً 110 روپے کے عوض 100 روپےکے نئے نوٹ لینا ، شرعاً ایسا کرنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ہی جنس کے تبادلے میں کمی بیشی کرنا ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک ہی قسم کی کھجوروں کو دوسری قسم کی کھجوروں کے ساتھ اضافہ سے تبادلہ کرنا ممنوع ہے۔[5]
چنانچہ جہاں مقدار کا اعتبار ہوتا ہے وہاں دیگر اوصاف (نئے اور پرانے ہونے ) کا اعتبار نہیں کیا جاتا لہذا ایک روپیہ کا سکہ یا نوٹ خواہ وہ کتنا ہی نیا اور چمکدار ہو اس کی قیمت بھی ایک روپیہ رہے گی ، اسی طرح وہ سکہ یا نوٹ خواہ کتنا ہی پرانا اور میلا کچیلا ہوجائے اس کی قیمت بھی ایک روپیہ سے کم نہیں ہوگی، حالانکہ دونوں کے اوصاف میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، بازاری اصطلاح میں بس یہ فرق کالعدم ہوچکا ہے اس بنا پر اگر ایک روپیہ کو دو روپیہ کے عوض فروخت کیا جائے تو شرعاً ناجائز ہوگا ، پھر یہ برابری اور مساوات کرنسی نوٹوں کی مقدار اور گنتی کے لحاظ سے نہیں ہوگی ، بلکہ مساوات میں ان نوٹوں کی ظاہری قیمت کا اعتبار کیا جائے گا جو ان پر لکھی ہوتی ہے لہذا سو روپے کے ایک نوٹ کے تبادلہ میں پچاس روپے کے دو نوٹ لئے جا سکتے ہیں کیونکہ ظاہری قیمت کے لحاظ سے پچاس روپے کے دو نوٹوں کی قیمت سو روپے کے ایک نوٹ کے برابر ہے ہاں اگر نوٹ بذات خود بحیثیت مادہ مقصود ہوں تو ان کی ظاہری قیمت مقصود نہیں ہوگی جیسا کہ بعض لوگ مختلف ممالک کے سکے اور کرنسی نوٹ تاریخی یادگار کے طور پر جمع کرتے ہیں ، مثلاً ہمارے ہاں آج کل ایک روپیہ دو روپیہ اور پانچ روپیہ کا نوٹ ختم ہوچکا ہے ، اسی طرح سوراخ والا تانبے کا پیسہ بھی ختم ہوچکا ہے اگر کوئی انہیں نشانی کے طور پر خریدنا چاہے ، اس کا مقصد تبادلہ یا بیع یا ان کے ذریعے کوئی منافع حاصل کرنا نہ ہو تو بظاہر اس قسم کے تبادلہ میں کمی بیشی کی گنجائش نکل سکتی ہے یعنی تانبے کی دھات کا سوراخ والا ایک پیسہ ایک روپیہ سے خریدا جا سکتا ہے لیکن سد باب کے طور پر اس سے بھی گریز کرنا چاہئے اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نئے نوٹوں کے 500 روپے والا بنڈل 550 روپے میں فروخت کرنا یا اسے خریدنا شرعا حرام اور ناجائز ہے کیونکہ اس میں مساوی جنس کے تبادلہ کا مساوی جنس سے اضافہ کے ساتھ کیا جاتا ہے احادیث میں اسے سود سے تعبیر کیا گیا ہے واللہ اعلم
سوال نمبر 7 : کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟(نسیم احمد )
جواب : کاغذی نوٹ پر کئی ادوار گذرے ہیں ، پہلے اس کے پیچھے مکمل طور پر سونا ہوتا تھا ، پھر ایک ایسا وقت آیا کہ ان کے پیچھے مکمل طور پر تو سونا نہیں ہوتا تھا لیکن ایک مخصوص مقدار میں سونا ہوتا تھا ، پھر ان نوٹوں کو ڈالر سے وابستہ کردیاگیا اور ڈالر سونے سے وابستہ تھا ، 1971 میں امریکہ نے بھی سونا دینے سے انکار کردیا ، اب نوٹ کے پیچھے کوئی چیز نہیں ہے ، نوٹ پر لکھی ہوئی عبارت ’’ حامل ہذا کو اتنے روپے عندالطلب ادا کئے جائیں گے ‘‘ محض بے معنی اور بے حقیقت ہے ، اب یہ نوٹ محض آلہ تبادلہ ہیں ، ایسی صورت حال کے پیش نظر اس کاغذی نوٹ کی کیا حیثیت ہے ،معاشیات کی اصطلاح میں اس کی حسب ذیل دو تشریحات ہیں :
(1) زیادہ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ نوٹ کے پیچھے سونااس لئے رکھا جاتا تھا کہ سونا بطور ’’ آلہ تبادلہ ‘‘ متعارف ہوگیا تھا ، ہر جگہ ، ہر ملک میں اس کی بنیاد پر تجارت ہوسکتی تھی ،اگر یہی مقصد کاغذی نوٹ سے سونے کو واسطہ بنا ئے بغیر حاصل ہو جائے اور وہ بطور آلہ تبادلہ کے متعارف ہوجائے تو سونے کو واسطہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے ،اس رائے کے مطابق کرنسی نوٹ ایک خاص قوت خرید سے عبارت ہے یعنی اس نوٹ سے اتنی قیمت کی اشیاء خریدی جاسکتی ہیں ، اب اس نوٹ کے پیچھے سونے کے بجائے غیر متعین متفرق اشیاء کا مجموعہ ہے۔
(2) دوسری تشریح جو فقہی مزاج کے زیادہ قریب ہے وہ یہ کہ نوٹ کو زَر اصطلاحی اور ثمن عرفی قرار دیا گیا ہے ، یعنی اگرچہ اس کاغذ کی ذاتی قدر و نسبت نہیں لیکن اصطلاحی طور پر اسے ایک مخصوص مالیت کا آلہ تبادلہ قرار دے دیا گیا ہے۔
اب زکوٰۃ کے وجوب اور اس کی ادائیگی کے مسئلہ میں ان کاغذی نوٹوں کا حکم بعینہ سونے چاندی کے حکم کی طرح ہے ، اب جو شخص نصاب کے بقدر ان نوٹوں کا مالک بن جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہو جائے گی ،بہرحال اس کی شرعی حیثیت کے تعین پر تحقیق جاری ہے ، ہمارا ذاتی رجحان دوسری تشریح کی طرف ہے۔ واللہ اعلم
سوال نمبر 8 :کرنسی نوٹ کا نصاب سونے سے لگایا جائے یا چاندی سے قرآن و حدیث سے جواب دیں؟( نسیم احمد )
جواب :ہمارے ہاں رائج کرنسی نوٹ زرمبادلہ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ، ان کی زکوۃ کے متعلق دو مختلف نظریات ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے :
(1) کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ کرنسی کے نصاب کیلئے اتنے روپے ہونے چاہئیں ، جن سے ساڑھے سات تولہ سونا خریدا جاسکے ، آج کل سونے کا بھاؤ ساٹھ ہزار روپے تولہ ہے ، اس لئے اگر کسی کے پاس کم از کم چار لاکھ پچاس ہزار روپے ہوں تو اس پر زکوٰۃ لاگو ہوگی ، ان حضرات کا کہنا ہے کہ ہر ملک میں زر مبادلہ کے طور پر سونے کو معیار بنایا جاتا ہے ، یعنی ہر ملک اتنے ہی نوٹ چھاپتا ہے جتنے اس کے پاس سونے کے ذخائر ہوتے ہیں۔
(2) کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نقدی کی زکوٰۃ کیلئے چاندی کو معیار بنایا جائے ، یعنی اتنی نقدی پر زکوٰۃ لاگو ہوگی جس سے ساڑھے باون تولے چاندی خریدی جاسکے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم باون ہزار پانچ سو نقدی پر زکوٰۃ وصول کی جائے کیونکہ ایک ہزار روپے تولہ کے حساب سے اس قدر نقدی سے ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جاسکتی ہے۔
اس سلسلہ میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ سونے اور چاندی کا نصاب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے، اس میں قطعی طور پر رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں البتہ نقدی کا نصاب ، چاندی کے مطابق مقرر کیا جائے ،اس کی درج ذیل وجوہات ہیں :
(1) ہمارے برصغیر میں نوٹوں کے اجراء سے پہلے چاندی کا روپیہ رائج تھا ، لہذا چاندی کو بنیاد بناکر چاندی کی موجودہ قیمت کے حساب سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت نکال لی جائے ، اس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ آج کل سعودی عرب میں کاغذی نوٹوں کو ورقہ کہا جاتا ہے اور یہی لفظ چاندی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
(2) غرباء و مساکین کا فائدہ اس میں ہے کہ چاندی کو معیار بنایا جائے تاکہ تھوڑی مالیت پر زکوٰۃ وصول کرکے ان سے تعاون کیا جائے ، یہ تشخیص ہر مقام پر خود کرنا ہوگی ، کیونکہ چاندی کا بھاؤ بھی بدلتا رہتا ہے۔
ھذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب
[4] مسند احمد :2/494
[3] مسند احمد :2/98
[1] مسند احمد 3/153
[2] صحیح مسلم :کتاب البیوع :4093
[5] بخاری : البیوع :2202