عربوں کی مستقل باشندگی سے لیکر یہودیوں کی آبادکاری تک
بیت المقدس (یروشلم) شہر کی تاریخ پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے اور یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اس میں آباد ہونے والی قبیلوں اور قوموں نے اسے مختلف نام دیئے ہیں ۔چنانچہ سب سے پہلے یبوسی قبیلہ جو ایک عرب کنعانی قبیلہ تھا سنہ 2500 قبل مسیح یہاں آباد ہوا۔ انہوں نے اس شہر کا نام “یبوس” رکھ دیا ۔ سنہ1049 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کے دور میں “شہر داؤد “کے نام سے جانا جاتا تھا، تیسری صدی قبل مسیح میں اس کی طرف ہجرت کرنے والے کنعانی اسے “اورسالیم” کہتے تھے جس کا مطلب امن کا شہر یا دیوتا سالیم کا شہر ہے۔ لفظ “یروشلم” اسی نام سے ماخوذ ہے جس کا تلفظ عبرانی زبان میں “یروشالیم” ہے اور اس کا مطلب بھی مقدس گھر ہے۔ اورسنہ 559 قبل مسیح میں بابلیوں کے دور حکومت میں بیت المقدس کا نام “أورسالم “رکھا گیا ، اور جب سنہ 332 قبل مسیح میں سکندر اعظم وہاں پہنچا تو انہوں نے اس شہر کا نام “یروشلم” رکھ دیا ۔ یونانی دور میں “ایلیاء “کے نام سے جانا جاتا تھا جس کا مطلب ہے خدا کا گھر۔ جب مسلمانوں نے اسے فتح کرلیا تو اسے” القدس اور بیت المقدس” کے نام سے یاد کیا گیا ، عثمانی دور میں اسے “القدس الشریف” کہا جاتا تھا۔ تورات میں اس شہر کا ذکر 680 مرتبہ آیا ہے۔
بیت المقدس میں کنعانیوں کا اہم کارنامہ
بیت المقدس میں کنعانیوں کی طرف سے انجام دیئے جانے والے سب سے اہم کارناموں میں سے ایک سرنگ کی تعمیر تھی جو کہ نہر جیحون سے بیت المقدس شہر تک پانی کی رسائی کو یقینی بناتی ہے، دریائے جیحون وادی قدرون میں واقع ہے، امام نووی رحمہ اللہ اور مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دریائے جیجون وہی ہے جسے آج کل دریائے آمو کہا جاتا ہے اور یہ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان حد ہے۔ یہ بلخ، ترمذ اور آمل و درغان سے گزرتا ہوا بحیرۂ خوارزم میں جا گرتا ہے۔ اور نہر سیحون کو آج کل “سیردریا” کہا جاتا ہے۔
جبکہ وادی قدرون جسے عربی میں وادي الجوز اور انگریزی میں ( Kidron Valley) کہاجاتا ہے ،اسرائیل کے قدیم شہر یروشلم کے مشرق میں واقع ایک وادی کا نام ہے جو کوہ زیتون اور کوہ حرم کو آپس میں جدا کرتی ہے۔ بیس میل طویل اور چار ہزار فٹ گہری یہ وادی صحرائے یہودا سے مغربی کنارے کی سمت بحیرہ مردار تک جاتی ہے۔ اس کے اوپری ڈھلان پر واقع ایک آبادی اسی کے نام سے موسوم ہے۔ اور جسے آج نہر سلوان کے نام سے جانا جاتا ہے۔
بیت المقدس کے اصل باشندےکون ہیں ؟
یبوسی قبیلہ جو ایک عرب کنعانی قبیلہ تھا سنہ 2500 قبل مسیح یہاں آباد ہوا۔چنانچہ انہوں نے اس شہر کا نام یبوس رکھ دیا ۔یہ قبیلہ داؤد علیہ السلام کی فتح بیت المقدس سے قبل یہاں آباد تھا۔ کتاب سلاطین بھی یہ کہتی ہے کہ” اس واقعہ سے قبل یروشلم کا نام یبوس (Jebus) تھا”۔ کتاب مقدس کے مطابق داؤد علیہ السلام نے یہ شہر 1003 قبل مسیح میں فتح کیا 1
بیت المقدس فرعونی دور میں (16 – 14 قبل مسیح)
بیت المقدس کا شہر16ویں صدی قبل مسیح مصری فرعون کے تابع تھا۔بادشاہ اخناتون کے دور میں بیت المقدس پر “خبیرو “نامی ایک بدوی قبیلے نے حملہ کیا ، مصری حکمران عبدی خیبہ انہیں شکست دینے میں ناکام رہا، اس لیے یہ شہر ان کے قبضے میں رہا یہاں تک کہ بادشاہ سیٹی اول کے دور( 1317 – 1301 ) قبلِ مسیح میں یہ دوبارہ مصری اثر و رسوخ میں واپس آ گیا۔”خبیرو” خانہ بدوش بدو قبائل کو کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب”راہ گزر ، “آوارہ” اور “دیہاتی” ہے ۔ یہ نام ان قبائل کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا جو قدیم زمانے میں” بلاد رافدین” یعنی عراق ، ترکی ، شام، کنعان اور مصر کی سرحدوں پر وقتاً فوقتاً حملے کیا کرتے تھے ، جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں افراتفری اور بے چینی پھیل جاتی تھی۔
بیت المقدس یہودی دور میں (977 – 586 قبل مسیح)
یہودیوں نے بیت المقدس پر اپنی پوری تاریخ میں جو کہ پانچ ہزار سال سے زیادہ پر محیط ہے، صرف 73 سال حکومت کی ہے ۔ داؤد علیہ السلام سنہ 977 قبل مسیح یا سنہ 1000 قبل مسیح میں اس شہر پر کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوئے انہوں نے اس کا نام شہر داؤد رکھا ،داؤد علیہ السلام نے اس میں ایک محل اور کئی قلعے بنائے اور ان کی حکومت 40 سال تک جاری رہی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام حاکم بنے جنہوں نے بیت المقدس پر 33 سال حکومت کی۔
سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رحبعام کے دور میں ریاست تقسیم ہو گئی، اور اس شہر کو “اروشلیم” کہا جانے لگا، یہ نام کنعانی عربی نام شالیم یا سالیم سے ماخوذ ہے، جس کے بارے میں تورات نے اشارہ کیا ہے کہ وہ ایک عرب یبوسی حکمران تھا جو ابراہیم علیہ السلام کا دوست تھا2
بیت المقدس بابلی دور میں (586 – 537 قبل مسیح)
بابل کے بادشاہ بخت نصر دوم نے سنہ 586 قبل مسیح میں آخری یہودی بادشاہ یوشیا کے بیٹے صدقیا کو شکست دینے کے بعد بیت المقدس شہر پر قبضہ کرلیا، اس نے وہاں کے باقی یہودیوں کو قیدی کے طور پر بابل منتقل کر دیا، جس میں خود بادشاہ صدقیا بھی شامل تھا۔
بیت المقدس فارسی دور حکومت میں (537 – 333 قبل مسیح)
پھر سنہ 538 قبل مسیح میں فارس کے بادشاہ کوروش اعظم جو سائرس اعظم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس نے بابل فتح کرکے بابل میں قید تمام یہودیوں کو بیت المقدس واپس جانے کی اجازت دے دی ، تاکہ وہ واپس جا کر ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرے۔
بیت المقدس یونانی دور حکومت میں (333 – 63 قبل مسیح)
سکندر اعظم نے سنہ 333 قبل مسیح میں بیت المقدس سمیت فلسطین پر قبضہ کر لیا۔اس کی وفات کے بعد اس کے جانشین مقدونی اور بطلیموس اس شہر پر حکومت کرتے رہے۔ اسی سال بطلیموس نے اس پر قبضہ کر لیا اور سنہ 323 قبل مسیح میں بیت المقدس کو فلسطین کے ساتھ اپنی مصری سلطنت میں شامل کر لیا۔ پھر سنہ 198 قبل مسیح میں یہ شہر سیلیوکس نیکیٹر( Seleucus Nicator )کے کنٹرول کے بعد شام میں سلطنتِ سیلیوسیڈز (Seleucids) کے ماتحت آگیا جوکہ عراق، ایران، افغانستان، شام تک پھیلا ہوا تھا۔ سلوقی سلطنت (Seleucid Empire) مغربی ایشیا میں ایک یونانی ریاست تھی جس کی بنیاد مقدونیہ کے جنرل سیلیوکس نیکیٹر (Seleucus I Nicator) نے رکھی تھی ۔ جو 312 قبل مسیح سے 63 قبل مسیح ہیلینسٹک(Hellenistic) کے دور میں قائم ہوئی ۔
بیت المقدس رومن حکمرانی کے تحت (63 ق.م – 636م)
رومی فوج کے کمانڈر پومپیجی(Pompeji ) نے سنہ 63 قبل مسیح میں بیت المقدس پر قبضہ کر کے اسے رومی سلطنت میں شامل کر لیا۔ بیت المقدس پر رومی حکمرانی جو کہ سنہ 636 عیسوی تک جاری رہی اس میں بہت سے واقعات رونما ہوئے۔سنہ 66 سے 70 عیسوی تک کے عرصے میں بیت المقدس میں یہودیوں نے فسادات اور سول نافرمانی کی جسے رومی حکمران ٹائٹس نے طاقت کے بل بوتے پر دبا دیا، اس نے شہر کو بھی جلا دیا اور بہت سے یہودیوں کو گرفتار کر لیا،جس کے نتیجے میں بیت المقدس میں حالات معمول پر آ گئے لیکن یہودیوں نے دوبارہ بغاوت شروع کردی اور دو مرتبہ سنہ 115 اور 132 عیسوی میں نافرمانی کا اعلان کیا اور وہ حقیقت میں اس شہر پر قابض ہو گئے لیکن رومی بادشاہ ہیڈرین نے ان کے ساتھ پرتشدد سلوک کیا اور اس کے نتیجے میں بیت المقدس دوسری بار تباہ ہو گیا۔ اس نے وہاں رہنے والے یہودیوں کو وہاں سے نکال دیا، صرف عیسائیوں کو چھوڑ دیا، پھر اس نے شہر کا نام بدل کر “ایلیا” رکھنے کا حکم دیا اور یہ شرط عائد کی کہ وہاں کوئی یہودی نہ رہے۔
بیت المقدس میں کلیسائے قیامت کی تعمیر
رومی شہنشاہ قسطنطین اول نے رومی سلطنت کا دار الحکومت روم سے بزنطیہ منتقل کیا، اور عیسائیت کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیا۔یہ بیت المقدس کے عیسائیوں کے لیے ایک اہم سنگ میل تھا، جب سنہ 326 عیسوی میں کلیسائے قیامت تعمیر کیا گیا تھا۔
بیت المقدس میں فارسیوں کی واپسی
رومی سلطنت 395ء میں دو متحارب حصوں میں تقسیم ہو گئی جس نے فارسیوں کو بیت المقدس پر حملہ کرنے کی ترغیب دی اور وہ 614ء سے 628ء تک اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہے، پھر رومیوں نے اسے دوبارہ حاصل کر لیا اور 636ء میں اسلامی فتح تک یہ ان کے ہاتھ میں رہی۔
بیت المقدس میں واقعہ اسراء و معراج (621ء / 10ھ)
تقریباً 621ء میں بیت المقدس نے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل کیا ، آپ ﷺ کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا اور پھر مسجد اقصی سے آسمانوں پر لے جایا گیا ۔
بیت المقدس پہلے اسلامی دور حکومت میں (636 تا 1072 عیسوی)
جب سنہ15 ہجری 636 یا 638 عیسوی میں جب حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اسلامی فوج نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس شہر میں داخل ہوئے ۔ کیونکہ عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس نے یہ شرط رکھی تھی کہ بیت المقدس کی چابیاں لینے کیلئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود بیت المقدس تشریف لائیں،چنانچہ کنیسۃ القیامہ میں عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس اور عمائدین روم نے یروشلم آمد پر امیر المومنین کا استقبال کیا اور بغیر کسی مزاحمت کے شہر بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کردیں ،جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس پہنچے تو اُنہوں نے بیت المقدس کے باشندوں
سے ایک معاہدہ کیا، جو عہدِ عمریہ کہلاتا ہے3
یہ معاہدہ عمریہ بیت المقدس میں جبل زیتون کی قریبی مسجد عمرؓ کے باہر آج بھی کنندہ ہے، یہ وہ دستاویز ہے جس نے ٹیکس کے عوض انہیں مذہبی آزادی دی تھی۔ اسی موقع پر شہر کا نام ایلیاء سے بدل کر بیت المقدس کر دیا گیا اور دستاویز میں یہ شرط رکھی گئی کہ وہاں کوئی یہودی نہیں رہے گا۔
بیت المقدس میں اسلامی ثقافت کا فروغ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب بیت المقدس فتح ہوا تو اس شہر میں اپنا اسلامی ثقافت اور شعار کو فروغ حاصل ہوا ، اور امویوں (661 – 750 ء) اور عباسیوں (750 – 878 ء) نے اس شہر کی تعمیر و ترقی میں نمایاں دلچسپی لی، چنانچہ اس شہر نے مختلف شعبوں میں علمی نشاۃ ثانیہ کا مشاہدہ کیا۔ اس دور میں سب سے اہم اسلامی یادگاروں میں سے ایک مسجد کا گنبد ہے جسے عبد الملک بن مروان نے 682سنہء سے 691ء کے عرصے میں تعمیر کیا تھا۔مسجد اقصیٰ کو سنہ 709ء میں دوبارہ تعمیر کیا گیا ۔اس کے بعد عباسیوں، فاطمیوں اور قرامطیوں کے درمیان شروع ہونے والے فوجی تنازعات کی وجہ سے اس شہر میں عدم استحکام پیدا ہوا ، اور بیت المقدس سلجوقی حکومت کے زیر نگین ہوگیا
بیت المقدس صلیبی جنگوں کے دوران
سلجوقوں اور فاطمیوں کے درمیان اور خود سلجوقیوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش کے نتیجے میں پانچ صدیوں کی اسلامی حکومت کے 1099ء میں یروشلم صلیبیوں کے ہاتھوں ختم ہوگیا ۔ یروشلم میں داخل ہوتے ہی صلیبیوں نے تقریباً 70,000 مسلمانوں کو قتل کیا اور اسلامی مقدسات کو پامال کیا۔ اس تاریخ کے بعد یروشلم میں ایک لاطینی سلطنت قائم ہوئی، جس پر ایک کیتھولک بادشاہ کی حکومت تھی جس نے آرتھوڈوکس عیسائیوں پر کیتھولک رسومات مسلط کیں، جس سے آرتھوڈوکس عیسائیوں میں کیتھولک کے خلاف غصہ اور نفرت بھڑک اٹھی۔
بیت المقدس دوسرے اسلامی دور حکومت میں
صلاح الدین ایوبی 1187 عیسوی میں جنگ حطین کے بعد یروشلم کو صلیبیوں سے چھڑانے میں کامیاب ہوے، انہوں نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا، گنبد چٹان سے صلیب کو ہٹایا اور شہر کی تعمیر اور مضبوطی پر توجہ دی۔
بیت المقدس پر صلیبیوں کا دوبارہ قبضہ
لیکن صلیبیوں نے سسلی کے بادشاہ فریڈرک کے دور میں صلاح الدین کی موت کے بعد شہر پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور یہ 11 سال تک صلیبیوں کے ہاتھ میں رہا یہاں تک کہ آخر کار اسے بادشاہ نجم الدین ایوب نے سنہ 1244ء میں مکمل بحال کر دیا۔ ۔
بیت المقدس مملوکوں کے دور حکومت میں
یہ شہر 1243/1244 عیسوی میں منگولوں کے حملے کا نشانہ بنا، لیکن مملوکوں نے انہیں سیف الدین قطز اور الظاہر بیبرس کی قیادت میں 1259ء میں عین جالوت کی جنگ میں شکست دی، اور بیت المقدس سمیت فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ ایوبی ریاست کے بعد 1517 عیسوی تک مصر اور شام پر حکمرانی کرنے والے مملوکوں سے الحاق کیا گیا۔
بیت المقدس سلطنیت عثمانیہ کے دور میں
سنہ 1615-1616 عیسوی میں ہوئی جنگ” مرج دابق” کے بعد عثمانی فوجیں سلطان سلیم اول کی قیادت میں فلسطین میں داخل ہوئیں اور یروشلم سلطنت عثمانیہ کا ایک شہر بن گیا۔ سلطان سلیمان نے شہر کی دیواروں اور چٹان کے گنبد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ 1831 سے 1840 عیسوی کے عرصے میں فلسطین محمد علی پاشا کی قائم کردہ مصری ریاست کا حصہ بن گیا اور پھر دوبارہ عثمانی حکومت میں چلا گیا۔سنہ 1880 میں سلطنت عثمانیہ نے بیت المقدس میونسپلٹی قائم کی، اور شہر کی پرانی دیوار کو 1898 میں ہٹا دیا گیا تاکہ جرمن قیصر ولیم دوم اور اس کے ساتھیوں کے یروشلم کے دورے کے دوران داخلے کی سہولت فراہم کی جا سکے۔یہ شہر پہلی جنگ عظیم تک عثمانی حکومت کے تحت رہا، جس میں عثمانی ترکوں کو شکست ہوئی اور انہیں فلسطین سے نکال دیا گیا۔
بیت المقدس پر برطانوی قبضہ (1917-1948)
8 اور 9 دسمبرسنہ 1917 کو برطانوی کمانڈر جنرل ایڈمنڈ ہنرى ایلنبی (Field Marshall Edmund Henry Allenby) کے اعلان کے بعد بیت المقدس برطانوی فوج کے قبضے میں چلا گیا۔ لیگ آف نیشنز نے برطانیہ کو فلسطین پر مینڈیٹ دیا اور بیت المقدس برطانوی مینڈیٹ (1920-1948) کے تحت فلسطین کا دار الحکومت بنا ۔اس کے بعد سے یہ شہر ایک نئے دور میں داخل ہوا،جس کی نمایاں نشانی سنہ 1917 میں اعلان بالفور کے بعد یہودی تارکینِ وطن کی تعداد میں اضافہ تھا۔
جنرل ایڈمنڈ ایلنبی کون ہیں ؟
یہ ایک برطانوی کمانڈر تھا جس نے جنوبی افریقہ میں بوئر جنگ اور پہلی جنگ عظیم میں حصہ لیا۔ پہلی جنگ عظیم جسے انگریزی میں فرسٹ ورلڈ وار کہا جاتا ہے، 28 جولائی 1914 کو شروع ہوئی اور 11 نومبر 1918 کو ختم ہوئی ۔ جنرل ایڈمنڈ ایلنبی وہی برطانوی کمانڈر ہے جس نے سنہ (1917 – 1919) کے دوران فلسطین کے خلاف برطانوی مہم کی قیادت کرتے ہوئے یروشلم اور شام پر قبضہ کیا اور ترکوں کو شکست دی۔ یہ وہی برطانوی جنرل ہے جس نے گیارہ دسمبر 1917 کے دن بیت المقدس میں داخل ہوتے ہوئے یہ الفاظ ادا کیے ”صلیبی جنگیں اب مکمل ہو گئی ہیں“۔
بیت المقدس انٹرنیشنل زون
دوسری جنگ عظیم کے بعد بیت المقدس کا مسئلہ اقوام متحدہ میں بھیجا گیا اور اقوام متحدہ نے 29 نومبر 1947 کو بیت المقدس کو بین الاقوامی زون بنانے کا فیصلہ جاری کیا۔
برطانوی تسلط کا خاتمہ
1948 میں برطانیہ نے فلسطین میں تسلط کے خاتمے اور اپنی افواج کے انخلا کا اعلان کیا۔اور صیہونی غنڈوں نے سیاسی اور فوجی انخلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ اور 3دسمبر سنہ 1948 کو اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون (David Ben-Gurion) نے اعلان کیا کہ مغربی بیت المقدس نوزائیدہ اسرائیلی ریاست کا دار الحکومت ہے۔ ڈیوڈ بین گوریون اسرائیل کا بنیادی بانی اور پہلا وزیر اعظم تھا۔ جبکہ مشرقی یروشلم جون 1967 میں عربوں کی شکست تک اردن کی خودمختاری کے تابع تھا، جس کے نتیجے میں تمام بیت المقدس کو اسرائیلی حکومت کے قبضے میں شامل کر لیا گیا۔
مصادر ومراجع
1۔ بلادنا فلسطين، مصطفى مراد دباغ ۔
2۔ القدس.. قصة مدينة، المنظمة العربية للتربية و الثقافة و العلوم، تونس، ط1، ص 24 ۔
3۔ الموسوعة الفلسطينية، ص 813.
4۔ التغيرات الجغرافية و الديمغرافية، مركز دراسات المستقبل، جامعة أسيوط، 1996، ص: 833.
5۔ التكوين التاريخي لفلسطين، التقرير الأسبوعي “قضايا دولية”، العدد 261، 2/1/1995.
6۔ موقع منظمة التحرير الفلسطينية على الإنترنت.
7۔ الموسوعة الفلسطينية، المجلد الثالث، القدس.