باہمی رحمدلی کی فضیلت

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، سب نعمتیں اور رحمتیں اسی کی ہیں، اسے ہر چیز کا مکمل طور پر علم ہے، اس کی رحمت اور حلم ہر چیز سے وسیع ہے، ہر مخلوق اس کے فیصلوں کے ماتحت ہے، وہ ہر مخلوق کے ماضی اور مستقبل سے مکمل طور پر واقف ہے، لیکن وہ اللہ کے بارے میں مکمل طور پر واقف نہیں  ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک۔  اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے رحم کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے۔ اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے رسول ،خاتم الانبیاء اور سراپا رحمت ہیں، آپ نے اللہ کی جانب حکمت کے ساتھ دعوت دی، آپ افضل ترین نبی ہیں اور آپ کو سب سے افضل امت کی جانب بھیجا گیا، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے ۔

مسلمانوں!

تقوی الہی اپناؤ یہ بہترین نصیحت ہے، آج اس پر عمل کا وقت ہے، اور اسی پر کامیابی کی امید قائم ہے:

وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا

المزمل – 20

 اور تم جو بھی بھلائی اپنے لیے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے ہاں پا لو گے، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور عظیم اجر کا باعث بھی۔

مسلمانوں!

بابرکت افراد صلہ رحمی، نیکی اور رحمدلی کے ساتھ نرمی والا برتاؤ کرتے ہیں۔ درگزر اور معافی سے کام لیتے ہیں، دوسروں کو بھی شفقت کا درس دیتے ہیں۔ پیار محبت کا درس بہت بڑی نیکی اور عظیم عبادت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (17) أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ

البلد – 17/18

 پھر ان لوگوں میں شامل ہو گیا جو ایمان لائے اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہے اور رحمدلی کی نصیحت کرتے رہے ۔ یہی لوگ ہیں دائیں ہاتھ والے۔

 وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ

 کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو لوگوں کے ساتھ نرمی، تلطف، رحمدلی، رفق اور خدا ترسی کا درس دیتے ہیں۔ غریب، مساکین، چھوٹے بچوں، یتیموں مریضوں، اور آفت زدہ افراد پر مہربانی کی تلقین کرتے ہیں، انہیں لا علم لوگوں اور گناہ گاروں کے متعلق خدشات لاحق رہتے ہیں کہ وہ اپنی کارستانیوں کی وجہ سے اللہ کو ناراض کر بیٹھیں گے؛ تو وہ انہیں وعظ و نصیحت کرتے ہیں، انہیں اللہ تعالی کے احکامات کی یاد دہانی کرواتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہوئے برائیوں سے رکنے کی تلقین بھی کرتے ہیں، انہی اقدامات کی بدولت انسانیت قائم ہے، اگر آپس میں رحمدلی کا معاملہ نہ کریں تو سب کے سب تباہ ہو جائیں۔

اللہ تعالی سے محبت کرنے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ان کے پانچ اوصاف ذکر کیے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے:

أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

المائدۃ – 54

وہ مومنوں کے لئے انتہائی نرم پہلو رکھتے ہیں۔

اس آیت میں مراد یہ ہے کہ: وہ مومنوں کے لیے اپنی پلکیں بچھا دیتے ہیں، ان کے ساتھ نرم خوئی، رحمدلی، شفقت، انس اور پیار کا برتاؤ کرتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو فرمایا:

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

الشعراء – 215

 اور مومنوں میں سے جو لوگ بھی آپ کے پیرو ہیں ان کے ساتھ تواضع سے پیش آئیے۔

 پھر اللہ تعالی نے آپ کے صحابہ کرام کی بھی یہی خوبی بیان فرمائی:

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ

الفتح – 29

 محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ہمراہ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں نہایت رحم دل ہیں۔

صحابہ کرام آپس میں نہایت مشفق اور خیال رکھنے والے تھے، ان کے دل آپس میں بالکل نرم تھے، در حقیقت مومن ہمیشہ بھلا کرتا ہے، اپنے مومن بھائی سے ملتے ہوئے مسکراہٹ اور بشاشت اس کے چہرے پر کندہ رہتی ہے۔ اللہ تعالی نے ہمارے نبی اور سیدنا محمد ﷺ کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:

بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

التوبة – 128

آپ مومنوں کے ساتھ نہایت نرمی اور مہربانی کرنے والے ہیں۔

فَآمِنُوْا بِنَبِيٍّ لَا أَبَا لَكُمْ

ذِيْ خَاتَمٍ صَاغَهُ الرَّحْمَنُ مَخْتُوْمِ

جس نبی کی مہر نبوت کو رحمن نے ڈھالا ہے تم اس پر ایمان لے آؤ کامیاب ہو جاؤ گے۔

رَأْفٌ رَحِيْمٌ بِأَهْلِ الْبِرِّ يَرْحَمُهُمْ

مُقَرَّبٍ عِنْدَ ذِي الْكُرْسِيِّ مَرْحُوْمِ

وہ نہایت مشفق، مہربان ،نیکو کاروں پر رحم کرنے والا ہے، اللہ کا مقرب اور رحم کیا ہوا ہے۔

مَا زَالَ بِالْمَعْرُوْفِ فِيْنَا آمِرًا

يَهْدِيْ الْأَنَامَ بِنُوْرِهِ الْمُتَشَعْشِعِ

وہ ہمیشہ سے ہمیں نیکی کا حکم کرتا رہا، لوگوں کی اپنے پھیل جانے والے نور سے رہنمائی کرتا رہا۔

صَلَّى عَلَيْهِ اللهُ جَلَّ جَلَالُهُ

مَا لَاحَ نُوْرٌ فِي الْبُرُوْقِ اللُّمَعِ

اللہ جل جلالہ ان پر رحمتیں اس وقت تک نازل فرمائے جب تک چمکتی بجلی میں روشنی روشن رہے۔

آپ ﷺ توبہ اور باہمی رحمدلی کی تعلیمات لے کر آئے، اور آپ ﷺ نے فرمایا: (میں توبہ اور رحمدلی  کی تعلیم دینے والا نبی ہوں) آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا : (رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے، تم اہل زمین پر رحم کرو، عرش پر موجود ذات تم پر رحم کرے گی) ایک اور حدیث میں فرمایا: (اللہ اس پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا) یہ بھی آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، اور بڑوں کا احترام نہ کرے تو وہ ہم میں سے نہیں) ایک حدیث میں یہ فرمایا: (رحمدلی بد بخت سے ہی چھینی جاتی ہے۔)

اسی طرح سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: “نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا کہ میرا لخت جگرقریب المرگ ہے آپ ہمارے پاس تشریف لائیں، تو بچہ رسول اللہ ﷺ کو دیا گیا اس وقت اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا۔ یہ کیفیت دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھیں بہنے لگیں ، تو سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کی آنکھیں کیوں چھلک گئیں؟” آپ نے فرمایا:” (یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہے۔ اور اللہ تعالی رحم کرنے والے بندوں ہی پر رحم کرتا ہے۔) بخاری

رسول اللہ ﷺ کو اپنی قوم کی طرف سے انتہا درجے کی اذیت، اور تکذیب کا سامنا کرنا پڑا تھا، جیسے کہ ایک بار سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے استفسار کیا: ” کیا آپ پر اُحد کے دن سے سخت دن بھی کبھی آیا ہے؟” آپ نے فرمایا: (میں نے تمہاری قوم کی طرف سے سخت تکالیف کا سامنا کیا ہے، میں نے لوگوں کی طرف سے سخت ترین تکلیف عقبہ کے دن اٹھائی تھی۔ جب میں خود ابن عبد یا لیل بن عبد کلال کے پاس گیا اور اسلام کی دعوت دی تو اس نے میری توقع کے مطابق جواب نہ دیا۔ میں رنجیدہ منہ چلتا ہوا وہاں سے لوٹا۔ مجھے ہوش نہیں تھا کہ کدھر جا رہا ہوں؟ جب قرن ثعالب پہنچا تو ذرا ہوش آیا۔ میں نے اوپر سر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل کے ایک ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کر دیا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس میں جبریل موجود ہے۔ انہوں نے مجھے آواز دی کہ: “آپ کی قوم نے آپ کو جو جواب دیا ہے اسے اللہ تعالی نے سن لیا ہے اور آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے۔ آپ اسے کافروں کے متعلق جو چاہیں حکم دیں!” پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا۔ پھر اس نے کہا: “اے محمد ﷺ !مجھے آپ کے رب نے آپ کی طرف بھیجا ہے، آپ جو چاہیں مجھے حکم کریں، تو آپ کیا چاہتے ہیں؟ اگر آپ چاہیں تو دونوں اخشب پہاڑیوں میں انہیں پیس دوں؟ ” تو اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: (نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے۔) متفق علیہ

اس حدیث کی شرح میں ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی اپنی قوم پر رحمدلی کا بیان ہے، کہ آپ نے کس قدر صبر اور حلم سے کام لیا! در حقیقت یہ اللہ تعالی کے فرمان:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ

آل عمران – 159

 اللہ کی رحمت کی بدولت ہی آپ ان کے لئے نرم ہوئے۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ

الانبیاء – 107

اور ہم نے آپ کو جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔

 کی عملی صورت ہے۔”

تو یہ ہے ہمارے نبی جناب محمد ﷺ کا اخلاق، آپ کی سیرت اور دعوت، یہ ہے آپ کی رحمت اور شفقت، اور یہی اہل ایمان کا اخلاق ہوتا ہے، اس لیے رحم دل لوگوں کے لئے خوشخبری ہے۔

میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں، اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو، بیشک وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے ہے، وہ برد بار اور کرم کرنے والا ہے، میں اللہ تعالی کی شایان شان حمد بیان کرتا ہوں، گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اس کا کوئی شریک ، ہمسر اور مد مقابل نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی اُن پر، ان کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں ، سلامتی، اور برکتیں نازل فرمائے۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! تقوی الہی اختیار کرو، اور اللہ تعالی کو اپنا نگہبان جانو، اسی کی اطاعت کرو، اور نافرمانی مت کرو۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ

التوبة – 119

اے ایمان والو! تقوی الہی اختیار کرو، اور ہمیشہ سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔

پیارے بھائی!

اپنے آپ پر ترس کھائیں اور دوسروں پر بھی رحمت بنیں، اپنی خوبیوں پر قبضہ جما کر مت بیٹھیں بلکہ جاہل پر اپنے علم کے ذریعے، محتاج پر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے، فقیر پر اپنے مال کے ذریعے، بڑوں پر احترام کے ذریعے، چھوٹوں پر شفقت کے ذریعے، گناہگاروں پر دعوت کے ذریعے، اور جانوروں پر ترس کے ذریعے رحم کریں؛ کیونکہ اللہ تعالی کی رحمت کے قریب ترین وہی ہو گا جو اللہ کی مخلوق پر رحم کرے گا، لہذا جس شخص کی خلق اللہ پر شفقت اور عباد اللہ پر رحمت زیادہ ہو گی اللہ تعالی اس پر خصوصی رحمت فرمائے گا، اسے عزت والے گھر یعنی جنت میں داخلہ دے گا، اسے عذاب قبر سے بچائے گا، حساب کتاب کی سختیوں سے محفوظ رکھے گا اور اپنا سایہ بھی نصیب کرے گا۔

أُخَيّ! عِندي مِنَ الأيّامِ تجْرِبة

فِيمَا أظُنُّ وعِلْمٌ بارِعٌ شافِ

میرے بھیا! میرے مطابق میرے پاس طویل تجربہ، اور کافی شافی علم ہے۔

لَا تَمْشِ فِي النَّاسِ إِلاَّ رَحْمَة ً لَهُمُ

وَلَا تُعَامِلْهُمُ إِلَّا بِإِنْصَافِ

لوگوں کے ساتھ چلو تو رحمت بن کر، معاملات کرو تو سراپا انصاف بن کر۔

واقطعْ قُوَى كُلّ حِقْدٍ أنْتَ مضمِرُهُ

إنْ زَلَّ ذُوْ زَلّة ٍ، أَوْ إِنْ هَفَا هَافِ

آپ نے جس قدر بھی کینہ چھپایا ہوا ہے اسے ختم کر دو چاہے کوئی غلط کار یا سیاہ کار تمہارے ساتھ کس قدر ہی بد سلوکی کرے۔

وَارْغَبْ بِنَفْسِكَ عَمَّا لَا صَلَاحَ لَهُ

وَأوْسِعِ النَّاسَ مِنْ بِرٍّ، وَإِلْطَافِ

بے فائدہ چیز سے اپنے آپ کو دور رکھو، اور لوگوں کے ساتھ کھل کر نیکی اور بھلائی والا معاملہ کرو۔

وَلَاَ تُكَشِّفْ مُسِيْئاً عَنْ إِسَاءَتِهِ

وَصِلْ حِبَالَ أَخِيْكَ القَاطِعِ، الْجَافِيْ

کسی غلط شخص کی غلطی کو مت عیاں کرو، اور قطع تعلقی کرنے والے اپنے سنگ دل بھائی سے صلہ رحمی کرو۔

فَتَسْتَحِقَّ مِنَ الدُّنْيَا سَلَامَتَهَا

وَتَسْتَقِلَّ بِعِرْضٍ وَافِرٍ، وَافِ

تو تم دنیا میں سلامتی کے حق دار بن جاؤ گے، اور تم ڈھیروں فوائد سمیٹ لو گے۔

مَا أَحْسَنَ الشُّغْلَ فِيْ تَدْبِيْرِ مَنْفَعَة

أَهْلُ الْفَرَاغِ ذُوُوْ خَوْضٍ وَإِرْجَافِ

فارغ رہنے والے اور فضول باتوں میں وقت ضائع کرنے والے وقت سے مستفید ہونے کی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔

احمد الہادی، شفیع الوری ، نبی ﷺ پر بار بار درود و سلام بھیجو، (جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)۔

یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود و سلام نازل فرما، یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین، تمام صحابہ کرام، اہل بیت اور تابعین و تبع تابعین سے راضی ہو جا، اور ان کے کیساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا کریم! یا وہاب!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! شرک اور مشرکوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! دین دشمن قوتوں کو نیست و نابود فرما، اور تمام مسلم ممالک کو مستحکم، مضبوط اور امن و امان کا گہوارہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، ان کی پیشانی سے پکڑ کر نیکی اور تقوی کے کاموں کے لیے رہنمائی فرما، یا اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو صرف وہی کام کرنے کی توفیق عطا فرما جن سے اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ اور فائدہ ہو، یا رب العالمین!

یا اللہ! سرحدوں پر مامور ہماری افواج اور مجاہدین کو غلبہ عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! سیکورٹی فورس کے جوانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! سیکورٹی فورس کے جوانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں بہترین صلہ اور بدلہ عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! تمام مسلمان بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام پریشان مسلمانوں کی پریشانیاں ختم فرما، تمام مسلمان فوت شدگان پر رحم فرما، قیدیوں کو رہا فرما، اور ہم پر جارحیت کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔

یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا کریم! یا رحیم! یا عظیم!

 ترجمہ: شفقت الرحمن مغل

مصنف/ مقرر کے بارے میں

  فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ

مسجد نبوی کے ائمہ و خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ صلاح بن محمد البدیر کا ہے جو متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور امام مسجد نبوی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ جج بھی ہیں۔