مکہ مکرمہ میں توحید کی قندیل روشن ہوئی تو تقریباً سترہ لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا شمار بھی ان قلیل لوگوں میں ہوتا تھا۔ فصاحت و بلاغت بدرجہ اتم موجود تھی۔ علم الانساب میں بھی کمال درجہ کی مہارت رکھتے تھے۔ آپ کی تقریر اور تحریر کی برجستگی عربی ادب میں اہم مقام کی حامل ہے۔ ان کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ راشد، محمدِ مصطفی ﷺ کے سسر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اسلام کے بعد مرادِ رسول کے لقب سے متصف ہونے والی اس عظیم شخصیت کی کنیت ابو حفص، نام عمر بن خطاب اور لقب فاروق تھا۔ اور وہ قریش کی مشہور شاخ بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے۔ آج کی اس تحریر میں اپنی کم مائیگی کے احساس کے ساتھ تاریخِ اسلام کی اسی عظیم شخصیت کی حیات اور خدمات کے حوالے سے مختصراً عرض کروں گی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ عام الفیل کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ اور 6 نبوی کو اسلام کی دولت سے سرفراز ہوئے۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیمُ المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی۔
اللهم اعز الاسلام باحب هذين الرجلين اليک بابی جهل او بعمر ابن الخطاب1
’’اے اللہ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما‘‘۔
اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ مرادِ رسول ﷺ کہلائے۔ ایمان کی لازوال دولت اس صاحبِ بصیرت کا مقدر ٹھہری اور ابو جہل جیسا سرکش اس سے محروم رہا۔ آپ ﷺ کی دعا بارگاہِ الہٰی میں شرفِ قبولیت سے نوازی گئی اوراسلام کا سب سے بڑا دشمن عمر بن خطاب اسلام قبول کر کے اسلام کا بڑا خیر خواہ اور پاسبان بن گیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ (Ten blessed companions) میں شامل ہیں۔ یعنی آپ ان دس خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل ہیں جن کے بارے میں حضور سرورِ کائنات ﷺ نے جنت کی بشارت عطا فرمائی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم پر ایک شخص داخل ہوگا وہ جنتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس ایک اور جنتی آنے والا ہے پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔2
ان عظیم صفات کی حامل شخصیت کے قبولِ اسلام کے حوالے سے سیرت ابن ہشام ، الرحیق المختوم، تاریخ الخلفاء از علامہ السیوطی رحمہ اللہ دیکھیں تو ہمیں کئی واقعات اور روایات ملتی ہیں۔ میں ان میں سے دو کا ذکر کروں گی۔
“ظلم و طغیان کے سیاہ بادلوں کی اس گھمبیر فضا میں ایک اور برق تاباں کا جلوہ نمودار ہوا جس کی چمک پہلے سے زیادہ خیرہ کن تھی یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنی مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ 6 سن نبوی کا ہے۔ وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے صرف تین دن بعد مسلمان ہوئے تھے۔ اور ہوا یہ تھا کہ ایک دفعہ انہیں گھر سے باہر رات گزارنی پڑی۔ وہ حرم میں تشریف لائے اورخانہ کعبہ کے پردے میں گھس گئے۔ اس وقت نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور سورۃ الحاقّہ کی تلاوت فرما رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قران کی تلاوت سننے لگے اور اس کی عمدگی پر حیران رہ گئے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اپنے دل میں کہا: “خدا کی قسم یہ تو شاعر ہے جیسا کہ قریش کہتے ہیں”۔
لیکن اتنے میں آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ {٤٠} وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ
الحاقة – 40/41
یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے۔ یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے اپنے جی میں کہا: ” یہ تو کاہن ہے”۔
لیکن اتنے میں آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ
الحاقة – 42/43
یہ کسی کاہن کا قول بھی نہیں تم لوگ کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔ یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے اس وقت میرے دل میں ایمان جاگزیں ہو گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام کی حقانیت واضح ہوئی لیکن ابھی انکے اندر جاہلی جذبات، عصبیت اور آباء و اجداد کے دین کی عظمت کا احساس اتنا مضبوط تھا کہ نہاں خانہ دل کے اندر مچلنے والی حقیقت کو جھٹلاتے رہے۔ اس لئے وہ اس شعور کی پرواہ کئے بغیر اپنے اسلام دشمن عمل میں سرگرداں رہے۔ ان کی طبعیت کی سختی اور رسول ﷺ سے فرطِ عداوت کا یہ حال تھا کہ ایک روز خود جناب محمّد ﷺ کا کام تمام کرنے کی نیت سے تلوار لیکر نکل پڑے لیکن ابھی راستے ہی میں تھے کہ نُعیم بن عبداللہ الخام عدوی سے یا بنی زہرہ یا بنی مخزوم کے کسی آدمی سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے تیور دیکھ کر پوچھا: عمر! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا: محمّد ﷺ کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔ اس نے کہا: محمّد ﷺ کو قتل کرکے بنو ہاشم اور بنو زہرہ سے کیسے بچ سکو گے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
معلوم ہوتا ہے تم بھی اپنا سابقہ دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہو؟ اس نے کہا عمر! ایک عجیب بات نہ بتا دوں؟ تمہارے بہن بہنوئی بھی تمہارے باپ دادا کا دین چھوڑ کر بے دین ہو چکے ہیں۔ آپ سیدھے بہن کے گھر پہنچے، سختی سے پیش آئے ، مار پیٹ کی لیکن بعد ازاں دل میں نرمی پیدا ہوئی۔ کتابِ حمید سے سورہ طہ کی آیات مبارکہ سنیں اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی خواہش کی۔ آپ ﷺ ان دنوں ارقم بن ابی ارقم (رضی اللہ عنہ) کے گھر میں تھے۔ آپ وہاں پہنچے تو سارے سمٹ کر یکجا ہوگئے۔حضرت حمزہ (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا: عمر ہیں۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہا: بس! عمر ہے دروازہ کھول دو۔ اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو ہم اسے خیر عطا کریں گے اور اگر کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اس کا کام تمام کر دیں گے۔ ادھر رسول اللہ ﷺ اندر تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺ پر وحی نازل ہو رہی تھی۔ وحی نازل ہو چکی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے۔ ملاقات ہوئی۔ آپ ﷺ نے ان کے کپڑے اور تلوار کا پرتلا سمیٹ کر پکڑا اور سختی سے جھٹکتے ہوئے فرمایا:
اے عمر! کیا تم اس وقت تک باز نہ آؤ گے جب تک اللہ تعالیٰ تم پر بھی ویسی ہی ذلت و رسوائی اور عبرتناک سزا نازل نہ فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہو چکی ہے؟ یا اللہ ! یہ عمر بن خطاب ہے۔ یا اللہ ! اسلام کو عمر بن خطاب کے ذریعے قوت و عظمت عطا فرما۔ آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حلقہ بگوشِ اسلام ہوتے ہوئے کہا:
“اَشھَدُ اَن لاَّ اِلٰه الاَ اللہ وَ اَشھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ”
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یقینا “آپ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں”۔
یہ سن کر گھر کے اندر موجود تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے اس زور سے تکبیر کہی کہ مسجدِ حرام والوں کو سنائی پڑی۔ آپ کے قبولِ اسلام کے بعد اہلِ ایمان کے حوصلے بڑھ گئے۔ پھر آسمان عالمِ نے دیکھا کہ حق کی سر بلندی کے لیے ہمہ تن مصروف رہے۔ اللہ نے حق آپ کی زبان پر جاری کر دیا۔ روح القدس ان کی زبان پر کلام کرتا تھا۔علامہ السیوطی رحمہ اللہ نے حضرت مجاہد (رحمہ اللہ) کے حوالے سے لکھا ہے کہ ہم آپس میں ذکر کیا کرتے تھے کہ شیاطین آپ کے دورِ خلافت میں قید رہے اور آپ کے بعد آزاد ہو کر پھیل گئے۔ اور انھوں نے حضرت عمر کی رائے اور موافقاتِ قرآن کے حوالے سے تاریخُ الخلفاء میں بیس موافقات کا ذکر کیا ہے لیکن میں ان میں سے چارمخصوص فضیلتوں کا ذکر کروں گی۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حضرت عمر کی فضیلت لوگوں پر ان چار باتوں میں معلوم ہوتی ہے۔
- جنگِ بدر کے قیدیوں کے متعلق قتل کا حکم اور آیت ” لو لا کتاب من اللہ سبق ” اسی کے موافق نازل ہوئی۔
- آپ نے ازواجِ مطھرات( رضی اللہ عنھن) کے پردہ کے متعلق فرمایا تو حضرت زینب (رضی اللہ عنھا ) نے فرمایا:-اے عمر ! تم ہم پر حکم چلاتے ہو اور وحی ہمارے گھر میں اترتی ہے۔ چنانچہ پردہ کے متعلق آیت ” فاذا سألتموھن متاعا ” نازل ہوئی۔
- نبی ﷺ کا دعا کرنا کہ اے الله! عمر کو مسلمان کرکے اسلام کو قوی کر۔
- آپ کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر سب سے پہلے بیعت کرنا۔
المختصر یہ کہ حدیثِ رسول کے مطابق حق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر جاری کر دیا گیا اور جامع ترمذی کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا”۔
ذاتِ نبی پاک پر سو جان سے شیدا عمر
ایمان میں، ایقان میں، احسان میں یکتا عمر۔
روحِ صفا، موجِ سخا، جانِ وفا، وقفِ رضا۔
اِک ہستیٔ زیبا عمر، اِک پیکرِ دانا عمر۔
بادِ بہاری کی طرح گزرا عراق و شام سے۔
ابرِ کرم بن کر اٹھا، اسیران پر برسا عمر۔
ما بعد ختم المرسلیں، کوئی نبی آنا نہیں۔
یہ سلسلہ چلتا اگر تو اک نبی ہوتا عمر۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ آپ حق کے لیے ہمیشہ شمشیرِ بے نیام رہتے۔ آپ کے اسلام کے ساتھ اسی گہرے لگاؤ کی وجہ سے جب ایک منافق نے آپ سے یہودی کے خلاف حمایت طلب کی تو آپ نے اس منافق کی گردن اڑا دی۔ منافقین نے ان کے خلاف شور کیا تو رب العالمین نے ” فلا و ربک لا یومنون ۔۔۔۔ ” والی آیت کا نزول فرمایا۔ سفر و حضر میں سادگی اختیار کرتے، صوف کا لباس پہنتے تھے۔ حالانکہ آپ خلیفہ تھے پھٹا ہوا کپڑا جس پر چمڑے کا پیوند لگا ہوتا زیبِ تن فرماتے اور اسی حالت میں درہ لیے ہوئے بازاروں میں پھرتے اور اہلِ بازار کو ادب سکھاتے اور تنبیہہ کرتے۔ اگر آپ کے سامنے ترکش کی پرانی رسی یا کھجور کی گٹھلی آ جاتی تو آپ اسے اٹھا لیتے اور لوگوں کے گھروں میں پھینک دیتے تاکہ لوگ ان سے دوبارہ نفع حاصل کرلیں۔ آپ کی یہ سادہ زندگی ان لوگوں کی زبانوں کو لگام دینے کے لیے کافی ہے جو اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے خلافت چھینی تھی۔ حضرت عبداللہ بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ کے ساتھ سفرِ حج کیا۔ آپ دورانِ سفر اپنے لیے کوئی خیمہ کھڑا نہ کرتے بلکہ یونہی کسی درخت پر کپڑے کا سائبان کھڑا کر لیتے اور اس کے سائے میں بیٹھ جاتے۔3
خوفِ خدا سے لرزہ بر اندام رہتے ، غریبوں اور بے سہارا لوگوں کا خیال رکھتے۔ بیت المال سے لوگوں کی مدد خود اپنے ہاتھوں سے کرتے اور اپنے بارے میں فرماتے کہ:
عمر کے لیے سوائے دو کپڑے جاڑے کے، دو گرمیوں کے، عمرے کا خرچ اور اہل وعیال کا کھانا سوائے ان چیزوں کے اللہ تعالیٰ کے مال سے کوئی حلال نہیں۔ اور یہ بھی ایک معمولی درجہ کے قریشی فرد کے بقدر جو نہ امیر ہو نہ فقیر اس کے بعد میری بھی وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے۔4
خلیفہ بننے کے بعد انھوں نے اپنے گورنروں پر بھی یہ شرائط عائد کر رکھیں تھیں:
- ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوں
- عمدہ کھانا نہ کھائیں۔
- باریک کپڑا نہ پہنیں۔
- ضرورت مندوں کے لیے اپنا دروازہ بند نہ رکھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے 13 ہجری میں اپنی وفات سے قبل خلیفہ منتخب کیا۔ آپ نے تختِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد بہت ساری فتوحات کیں۔ دمشق، بصرہ اور حمص فتح ہوئے۔ کوفہ کا شہر آپ کے دور میں حضرت سعد بن ابی وقاص نے آباد کیا۔ حضرت عمر نے تنخواہیں مقرر کیں، جاگیریں عطا کیں، 16 ہجری میں اہواز اور مدائن فتح ہوئے اسی سال واقعہ جلولا پیش آیا۔ یزد گردبن کسری نے ہزیمت اٹھائی، تکریت فتح ہوا، حضرت عمر تشریف لے گئے تو بیت المقدس فتح ہوا، جابیہ کے مقام پر بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کی گئیں اور آپ نے اپنا مشہور خطبہ دیا اور اسی سال ہجری کیلنڈر کا اجراء کیا۔ آپ نے اپنے دورِ حکومت میں مسجدِ نبوی کی توسیع فرمائی، حجاز میں قحط پڑا تو آپ نے نمازِ استسقاء ادا فرمائی۔
علامہ السیوطی نے ابنِ سعد کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آپ جس وقت نمازِ استسقاء کے لیے تشریف لے کر گئے تو آپ نبی کریم ﷺ کی چادر مبارک اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور اونچا کر کے دعا فرمائی:
“اے اللہ !! ہم عاجز بندے آپ کے رسول ﷺکے چچا کو وسیلہ بنا کر عرض کرتے ہیں کہ خشک سالی اور قحط کو اٹھا لے۔ آپ یہ دعا ککے واپس بھی نہیں آئے تھے کہ بارش شروع ہوئی اور کئی دن تک جاری رہی۔
17 ہجری میں اہواز فتح ہوا، اٹھارہ ہجری میں نیشاپور، حلوان فتح ہوئے اور طاعون کا مرض پھیلا جو طاعونِ عمواس کے نام سے مشہور ہوا۔ حران، جزیرہ ،موصل قیساریہ اور اسکندریہ فتح ہوئے۔ خیبر اور نجران کے یہودیوں کو جلا وطن کیا گیا۔ 22 ہجری میں آذربائجان ، حمدان اور طرابلس فتح ہوئے، 23 ہجری میں کرمان، سجستان اور اس کے ارد گرد کے پہاڑی علاقے فتح ہوئے۔ اور اسی سال سفر حج سے واپسی پر آپ کی شہادت ہوئی۔
مستدرک حاکم میں سعید بن مسیب رح کا قول ہے کہ میدان منی سے ابطح واپسی پر اونٹ بٹھایا اور چت لیٹ کر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور دعا کی:
مولا کریم میں بوڑھا ہو گیا ہوں، قوتوں میں ضعف آ گیا۔ رغبت منتشر ہو گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں ناکارہ ہو جاؤں اور عقل میں فتور آ جائے تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔ چنانچہ ابھی ذی الحجہ ختم بھی نہ ہونے پایا تھا کہ آپ شہید ہوگئے۔5
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر حضور نبی مکرم ﷺ نے خود دی۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز نبی اکرم ﷺ کوہِ احد پر تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آ گیا۔ آپ ﷺ نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا:
اثبت احد، فما عليک الا نبی او صديق او شهيدان6
اے احد! ٹھہر جا۔ تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔
26 ذوالحجہ 23ھ کو آپ رضی اللہ عنہ پر ایک مجوسی ابو لولو فیروز جو کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا مسجد نبوی کے محراب میں آپ پر قاتلانہ حملہ کیا۔ آپ شدید زخمی ہوگئے۔ چار دن تک آپ موت و حیات کی کشمکش میں رہے۔ آپ نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ میری شہادت کسی مسلمان کے ہاتھوں نہیں ہوئی۔ آپ نے اپنے قرض کا حساب لگایا، اس کے حوالے سے وصیت فرمائی، خلافت کے حوالے سے عشرہ مبشرہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی اور پھر اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے بارے میں مہاجرین و انصار سے اچھا سلوک کرنے اور اپنی رعایا سے بہتر سلوک وغیرہ جیسی وصیتیں فرمائیں۔ آخر وقت پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے کہو عمر آپ کو سلام کہتا ہے۔ سلام کرنے کے بعد عرض کرنا کہ عمر بن خطاب آپ سے اجازت مانگتا ہے کہ اسے اپنے دونوں دوستوں کے پاس قبر کی جگہ مل جائے۔ جب حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہما) ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنھا) کے پاس پہنچے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سلام پہنچایا اور ان کی خواہش پیش کی۔ حضرت ام المؤمنین (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا:
میں نے وہ جگہ اپنی قبر کے لئے رکھی ہوئی تھی مگر آج میں عمر کو اپنے آپ پر ترجیح دیتی ہوں کہ انہیں اس جگہ پر دفن کیا جائے”۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس پہنچے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ بن عمر آ گئے۔ حضرت سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے بٹھا دو۔ آپ رضی اللہ عنہ کو بٹھا دیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہو کیا جواب لے کر آئے ہو؟ انہوں نے کہا: آپ کی خواہش کے مطابق جواب ملا ہے۔ یہ سن کر کہا: الحمدللہ! اللہ کا شکر ہے کہ میری خواہش پوری ہوگئی ہے۔
یکم محرم الحرام 24ھجری کو جان، جانِ آفرین کے سپرد کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جب جنازہ تیار ہوگیا تو حضرت عبداللہ بن عمر( رضی اللہ عنھما) نے ام المؤمنین کو سلام کہا اور کہا دفن کی اجازت دیجیے۔ انھوں نے اجازت دی تو ہم نے ان کو دونوں دوستوں کے پہلو میں سپرد خاک کیا۔ شہادت کے بعد آپ(رضی اللہ عنہ) کو یہ اعزاز بهی حاصل ہوگیا کہ ام المومنین عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنھا) کے مبارک حجرے میں اپنے مبارک ساتھی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں سپردِ خاک کر دئیے گئے یوں سفر و حضر کے ساتھی، زندگی کے ساتھی تا قیامت قبر کے بھی ساتھی بن گئے۔ (رضی اللہ عنھما)
آپ رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا زمانہِ خلافت دس سال پانچ ماہ اکیس دن بنتا ہے۔
وما توفیقی الا باللہ۔