آزادی اظہارِ رائے کی حقیقت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

گستاخان یورپ گاہے گاہے کائنات کی سب سے عظیم ہستی کی شان اقدس میں گستاخی کی جسارت کرکے دنیا میں سب سے زیادہ بسنے والے مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں اور پھر اس کو آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر جاری رکھنے پر اصرار بھی کرتے ہیں حالانکہ رائے کی آزادی اور کسی کی دل آزاری میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔

دنیا کے کسی معاشرے میں رائے کے اظہار کی ایسی آزادی نہیں کہ جس کی چاہا عزت خاک میں ملادی اور جس کے چاہا دل کے پرخچے اڑا دیئے۔  ہر معاشرے نےاپنے اپنے حالات کے مطابق اظہار رائے کی حدود مقرر کی ہیں حقائق تک کو بیان کرنے کے لئے بھی حدود وقیود پائی جاتی ہیں مثلاً یورپ وامریکہ میں بھی جہاں فحاشی وعریانی عروج پر ہے بچوں میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والی فحش نگاری،مذہبی ونسلی منافرت پھیلانے والی تحاریر وتقاریر پر پابندی ہے۔ آسٹریا، بیلجیئم، چیک ری پبلکن، فرانس، جرمنی، اسرائیل، ایتھوپیا، پولینڈ، رومانیہ، چیکو سلواکیہ، سوئزرلینڈ وغیہ میں عالمی جنگوں کی تباہی کے انکار کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک میں ہولوکاسٹ کے انکار بلکہ اس کے بارے میں یہ تک کہنے کی اجازت نہیں کے اس میں ہلاک شدہ یہودیوں کی تعداد مبالغہ آمیز ہے۔

 ١٩٨٤ء میں ایک اسکول ٹیچر جیمز کنگ نے ہولوکاسٹ کے بارے میں چند الفاظ کہے تھے اس کو نوکری سے برخاست کرکے سزاد دی گئی، کینیڈا کے ارنسٹ رنڈل کو ہولوکاسٹ کے بارے میں تضحیکی انداز اپنانے پر پندرہ ماہ کی قید  کی سزا ہوئی اور کینڈا ہی کے کن میک وے کو انٹرنیٹ پر مضمون لکھنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ آسڑیا کے ایک لکھاری ڈیوڈ ڈارونگ نے لکھا کہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کی ہلاکت مبالغہ آمیز ہے اس کو سترہ سال بعد (فروری ٢٠٠٦ء میں) گرفتار کرکے تین سال کی سزا دی گئی۔

 ایران کے صدر احمد نژاد نے ہولوکاسٹ کے بارے میں تقریر کی تو پورے یورپ نے شدید احتجاج کیا تھا ۔یورپ کے بعض ممالک میں ہولوکاسٹ کے انکار پر ٢٠ سال تک کی سزا مقرر ہے ۔ایرانی صدر احمدی نژاد کی تقریر پر یہودی تنظیم کے صدر کا بیان شائع ہوا تھا کے ہولوکاسٹ کے انکار کا مطلب ٦٠لاکھ یہودیوں کو دوبارہ قتل کرنے کے مترادف ہے۔

 اظہار رائے کی آزادی کی بات کرنے والے یورپ وامریکہ کی اپنی حالت یہ ہے کے وہاں بھی کوئی کھل کر ان کے دستور، اقتدار اعلٰی یا پالیسیوں پر بات نہیں کرسکتا صرف یورپ وامریکہ کیا؟۔ پوری دنیا میں ہتک عزت، توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں دنیا کے ہر ملک میں وہاں کے دستور یا اقتدار اعلٰی سے بغاوت یاباغیانہ اظہار رائے کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے اور مجرموں کے لئے موت تک کی سزا موجود ہے۔ اسی طرح مقدس ہستیوں، مقدس مقامات، اور مقدس اشیاء، کو توہین پر سزا کا قانون بھی اکثر (بلکہ تمام) ممالک میں موجود ہے۔

 انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق اکثر ممالک میں بلاس فمی لاء BLAS APHEMY LAW ایک لفظ موجود ہے ۔خصوصا آسمانی صحائف اور آسمانی ادیان سے تعلق رکھنے والی اقوام میں انبیاء ورسل کی توہین قابل سزا جرم ہے۔ قدیم ایران میں تین قسم کے جرم تھے:

 ١۔ اللہ کے خلاف۔

 ٢۔ بادشاہ کے خلاف۔

 ٣۔انسانوں کے ایک دوسرے کے خلاف۔

 ہندومت میں ستیارتھ پرکاش (چمپوتی ٧١-٧١) صفحہ ٢٩٧ کے مطابق ناسٹک (مذہب بیزار) کے لئے خشک لکڑی کی طرح جلا کر اس کی جڑ ختم کردینے کا حکم ہے۔ چین جہاں آج کل کوئی دینی ومذہبی حکومت نہیں وہاں بھی مہاتما بدھ کی مجسمے کی توہین، فوجداری جرم ہے۔ ٢٩ مارچ ١٩٩٠ء کو چین کے صوبے سی چوان میں وانگ ہونگ نامی شخص کو جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مہاتما بدھ کے مجسمے کا سرکاٹا تھا سزائے موت سنائی گئی تھی ۔

افغانستان میں طالبان نے بدھ کے مجسمے کو گرایا تو یورپ وامریکہ نے کتنا شرو مچایا تھا؟۔ اسی طرح یہودیوں کے ہاں خدا رسول، یوم سبت اور ہیکل کی توہین جرم تھی اور ہے۔ حضرت عٰسی علیہ السلام پر سردار کاہن نے اسی طرح کا الزام لگا کر پھانسی کی سزا کا مطالبہ کیا تھا تفصیل (کتاب مقدس احبار بات ٢٤ فقرہ ١٦) اور متی کی انجیل باب ١٦ فقرہ ٢٥-٦٣) میں دیکھی جاسکتی ہے رسولوں کے اعمال کے مطابق مسیحی مبلغ متقنس اور حضرت عٰیسی علیہ السلام کے حواری پولس پر یلغار انہی الزامات کے بہانے کی گئی تھی۔

 رومن ایمپائر میں جب شہنشاہ جثینین (قسطنین) عیسائی ہوا تو قانون میں انبیاء بنی اسرائیل کی جگہ حضرت عیٰسی علیہ السلام کو توہیں جرم قرار پایا ۔روس میں بھی یہ قانون جاری رہا ۔انقلاب کے بعد مقدس انبیاء کی جگہ ا سٹالن نے لے لی۔ لینن کے ساتھی ٹرانسسکی کا المناک انجام اس کی مثال ہے جو بھاگ کر امریکہ چلا گیا تھا مگر وہاں بھی جان نہ بچ پائی۔ برطانیہ کا کامن لاء توہین مسیح بائبل کی اہانت فیمی لاء کے زمرے میں قابل سزا جرم قرار دیتا ہے ۔

انسائیکوپیڈیا آف ریلیجئن جلد ٢ صفحہ ٢٤٢، بائبل آف میتھیو یعنی متی کی انجیل ٢٨-١٢ کے حوالے سے اور بائبل، کتاب استثناء بات ١٧ کے مطابق انبیاء اور ان کے ساتھیوں کی توہین کرنے والے کی سزا موت ہے چنانچہ مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کو جان سے مارا جاتا ہے ۔مثلا ١٥٣ء میں برطانیہ (الزبتھ دور) میں پانچ افراد کو۔ ١٥٥٣ء میں روم کے بروٹونامی شخص کو حضرت عیٰسی علیہ السلام کی توہین کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ برطانیہ میں ١٨٢١ء سے ١٨٣٤ء تک ٧٣ افراد کو ماردیا گیا ۔یہ سزا امریکہ میں بھی دی جاتی رہی۔

 ١٩٦٨ء کے بعد امریکہ میں کوئی مقدمہ دائر نہیں ہوا کے مذہبی اور عدالتی امور الگ الگ کردیئے گئے تھے۔ پھر بھی چند سال قبل ڈیوڈ نامی شخص کو اس کے ٣٠٠ لوگوں کے ساتھ اس لئے جلادیا گیا کے اس نے دعوٰی کیا تھا حضرت عٰیسی علیہ السلام کی روح اس میں حلول کرگئی ہے۔ برطانیہ کے ڈینس لی مون نے (جوکہ گےنیوز کا ایڈیٹر تھا) ایک مزاحیہ نظم لکھی پھر معافی بھی مانگی اور وضاحت کی کہ محض تفریح طبع کی خاطر ایسا کیا پھر بھی جیوری نے اس کو سزا سنادی وہ اپیل لے کر ہاوس آف لارڈز میں گیا مگر سزا بحال رہی۔

 ٢٧ جنوری ٢٠٠٣ء میں ٹیلی گراف میں اسرائیل  کےوزیراعظم کا کارٹون شائع ہوا کہ وہ فلسطینی بچوں کی کھوپڑیاں کھا رہا ہے یہودیوں کے احتجاج پر معذرت کی گئی۔ اٹلی کے وزیر اعظم نے حضرت عٰیسی علیہ السلام کی مشابہہ حکومت کی بات کی پھر اس پر معذرت کی ۔محمد علی (کلے) نے ویت نام جنگ کے متعلق امریکی پالیسی پر بیان دیا اس کا عالمی چیمپیئن کا ٹائٹل چھین لیا گیا۔ الجزیرہ ٹی وی نے چھ امریکی فوجیوں کی لاشیں دکھائیں، احتجاج کیا گیا بلکہ اس کے آفس پر بمباری کرکے تباہ کردیا گیا اور عملے کے لوگوں کو شہید کردیا گیا۔ اسرائیل کے لبنان پر حملے کے بعد کونڈالیزارائس نے گریٹر اسرائیل کی بات کی اس پر ایک فلسطینی اخبار نے کارٹون بناکر کونڈا کا مذاق اڑایا تو امریکی محمکہ خارجہ نے شدید احتجاج کیا۔ مثالیں بے شمار ہیں۔

 ١٥ اپریل ٢٠٠٨ء کو فرانس کی پارلیمنٹ نے خواتین کو وزن  کم کرنے پر ابھارنے والے اشتہارات شائع کرنے کے کو جرم قرار دیا اور اس کی خلاف ورزی پر ٢ سال قید اور ٣٠ ہزار یورو جرمانے کی سزا قرار دی اور اگر کوئی خاتون مرگئی تو اشتہاری کمپنی یامیگزین واخبار کے ایڈیٹر کو ٣ سال قید اور ٤٥ یورو کی سزا کا امکان ۔ فرانس کے وزیر صحت نے اس موقع پر کہا کے نوجوان لڑکیوں کو وزن گھٹانے کے لئے کم خوارکی پر مائل کرنا، اظہار رائے کی آزادی نہیں بلکہ ایسے پیغام موت کے پیغامات ہیں۔

ہر ملک میں اظہار رائے کے لئے حدود متعین ہیں اس لئے گستاخانِ  یورپ کو خباثتوں اور مسلمانوں کی دل آزاری کے اقدامات پر اس بہانے کو استعمال کرنا ایک طرح کی واضح دہشت گردی ہے ۔خود ڈنمارک کے اسی اخبار (سلنڈر پوسٹن) کے جس نے خاکے اڑانے کی جسارت وسازش کی تھی ٢٠٠٤ء میں اس کے کارٹونسٹ کرسٹوفرزیلر نے حضرت عٰیسی علیہ السلام کے خاکے بنانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کے اس سے عیسائیوں کے جذبات مجروح ہوں گے یعنی یورپ وامریکہ کے گستاخ جان بوجھ کر مسلمانوں کو آزار پہچناتے ہیں۔  مذہبی عقیدتیں نازک اور حساس ہوتی ہیں ان کا تعلق دماغ سے زیادہ دل کے ساتھ ہوتا ہے۔

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبریل نے

 جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول

 دل کے ہاتھوں مجبور عقیدت مندکبھی اپنی مقتدا اور مقدس ہستیوں پر حرف زنی وحرف گیری قبول نہیں کرسکتے یہی وجہ ہے کے سورہ انعام میں ہے:  معبودان باطلہ کو بھی گالی نہ دو کے کہیں ان کے ماننے والے سچے اللہ کو بےعلمی سے گالی نہ دے دیں۔ دنیا میں جہاں بھی مذہب اپنے زندہ شعور کے ساتھ موجود ہے وہاں اس مذہب کے بانیان ومقتداء کی توہین پر کڑی سے کڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ البتہ اگر کسی جگہ عیاشی ہی کو بطور مذہب اپنا لیا جائے تو سوچ کے دھارے بدل جائیں گے اور وہاں کے مردہ ضمیر آزادی رائے کے نام پر سب کچھ سہہ جاتے اور قبول کرلیتے ہیں ۔قرآن پاک ہمیں بتاتا ہے کے نمرود کے دور میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نےاپنے باپ آذر سے بتوں کے بارے میں جب کہا:  اے میرے باپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہو جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی آپ کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں ۔(مریم)

 پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان بتوں کو توڑ ڈالا تو بت پرستوں نے مشورہ کیا کے کیا سزا دی جائے ؟تو وہ لوگ پکار اُٹھے اور کہنے لگے : اسے جلادو۔ (انبیاء)

 گویا اگر مذہبی عقیدتیں باقی ہوں تو جھوٹے مذہب بھی اپنی مقتدر ہستیوں کی توہیں پر سنگسار کرنے اور جلانے پر تُلے نظر آتے ہیں۔

 تیسری صدی عیسویں میں ایران میں بہرام اول کے دور میں مانی کو مذہبی عقائد کی توہین کرنے کے جرم میں قتل کردیا گیا تھا۔ اس کی کھال اتار کر اور اس میں بھس بھرکر جندلی شاہ پور کے دروازے پر لٹکادیا گیا ،بلکہ مانی کے بارہ ہزار پیروکار بھی قتل کردیئے گئے۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پینے پر کیوں مجبور کیا گیا تھا؟ انہی مذہبی عقائد کی خلاف ورزی پر عیسائی ادوار میں گلیلیو کو سزائے موت کا حکم کیوں ہوا؟۔ جادوگرنیوں کے نام پر ہزاروں عورتوں کو کیوں جلایا گیا؟۔

محض اسی باعث ہندوؤں کے ہاں ویدوں کی نندنا یعنی بے قدری کرنے والا ناستک ویدوں کے علم کا مخالف ہو اس بدذات کو جڑ بنیاد کے ساتھ ناس (تباہ) کردیا جائے ۔بائبل کتاب خروج میں ہے “تم سب کو ماننا وہ تمہارے لئے مقدس ہے جو کوئی اس کی بے حرمتی کرے گا وہ ضرور مارا جائے گا” (اعمال بات ٢١، فقرہ ٢٧-٣٦) ۔ بائبل کی کتاب استثناء میں ہے” اگر کوئی گستاخی سے پیش آئے اور کاہن کی بات اور قاضی کا کہا نہ مانے وہ شخص مارڈالا جائے”۔

 اٹھارویں صدی تک برطانیہ وغیرہ میں توہینِ مسیح کی سزا موت ہی رہی ہے ۔چند مثالیں جو ہمارے سامنے آئی ہیں :  ١٥٥٣ء (الزبتھ دور) میں ٧ افراد کو موت کی سزا دی گئی۔ ١٥٥٩ء میں ہنگری میں ڈیوڈ نامی پادری کو سزائے موت ملی۔ ١٦٠٠ء میں روم میں بروٹو نام کے شخص کو مار ڈالا گیا۔ ١٨٣٣ء تک تھوڑے عرصے میں برطانیہ ٧٢ افراد اس جرم کی سزا میں مارے گئے۔ اب اگرچہ برطانیہ میں کام لاء ہے پھر بھی اس کی رو سے جو توہین مسیح یا کتاب مقدس کی سچائی کا انکار کرے وہ بلاس قیمی کا مرتکب ہوگا اور اس کی سزا تخت وتاج برطانیہ یا حکومت کے خلاف بغاوت کے جرم کے مطابق عمر قید تک ہوسکتی ہے۔

 لندن کے اخبار دی ٹائمز کے مطابق برطانوی عدالت نے ٢٧ اگست ١٩٨٨ کو گے نیور کے ایڈیٹر ڈینز لیمور (جس نے ١٩٨٧ء کو ایک نظم میں حضرت عیٰسی علیہ السلام کے بارے میں تضحیکی الفاظ کہے تھے) کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے کہا خلوص اور احترام کا ماحول ہی بلاس فیمی کے منافی نہیں دیکھنا پڑتا ہے کے اس طرح کے الفاظ و اقدامات سے عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے جذبات مشتعل ہوتے ہیں؟۔ اس بارے میں واضح قانون موجود ہے۔ ہر وہ پبلیکیشن، بلاس فیمی متصور ہوگی جو خدا، یسوع مسیح یا بائب کے بارے میں دشنام طرازی، توہیں آمیز اور مضحکہ خیر مواد پر مشتمل ہو۔

قانون آپ کو یہ اجازت دے سکتا ہے کے عیسائی ملک پر حملہ کریں تختہ الٹ دیں یاعیسائی مذہب کا انکار کردیں لیکن مذہب کے بارے میں نازیبا اور غیر معتدل الفاظ واقدام کی اجازت ہر گز نہیں۔ گستاخانہ کلمات اور بے ادبی کی سزا اور حوصلہ شکنی کے لئے دنیا کے کئی ممالک میں قوانین ہیں مثلا:

 ١۔ آسڑیا (آرٹیکل ١٨٨،١٨٩کریمنل کوڈ)۔

 ٢۔ فن لینڈ (سیکشن ١٠ چیپٹر ١٧ پینل کوڈ)۔

 ٣۔ جرمنی (آرٹیکل ١٤٧ کریمنل کوڈ)۔

 ٤۔ ہالینڈ (آرٹیکل ١٤٧ کریمنل کوڈ)۔

 ٥۔اسپین (آرٹیکل ٥٢٥ کریمنل کوڈ)۔

 ٦۔ آئرلینڈ (آئرلینڈ کے دستور کے آرٹیکل i,٤٠،٦،١ کے مطابق کفریہ مواد کی اشاعت ایک جرم ہے منافرت ایکٹ ١٩٨٩ء کے امتناع میں ایک گروہ یا جماعت کے لئے مذہب کے خلاف نفرت بھڑکانا بھی شامل ہے۔

 ٧۔ کینڈا (سیکشن ٢٩٦ کینڈیں کریمنل کوڈ) کہ عیسائی مذہب کی تنقیص وتضحیک ایک جرم ہے۔

 ٨۔ نیوزی لینڈ (سیکشن ١٢٣ نیوزی لینڈ کرائمز ایکٹ ١٩٦١) مثال کے طور پر عیسائی دنیا میں گرجوں کی تقدیس کو قانون کا درجہ حاصل ہے۔

 بعض یوری ممالک کے دساتیر میں ان کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ڈنمارک کے دستور کی سیکشن ٤ (سٹیٹ چرچ) کی مثال موجود ہے جس میں کہا گیا ہے اوریجیلیکل لوتھرن (پروٹسٹنٹ) چرچ ڈنمارک کا ریاستی قائم کردہ چرچ ہوگا اور اس کی مد و اعانت ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔

 آزدی تقریر وتحریر ایک بنیادی حق تو ہے مگر یہ مطلق حق نہیں۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری کوفی عنان نے ڈنمارک ناروے کے گستاخون کی طرف سے خاکوں کی اشاعت پر کہا تھا :میں بھی آزادی تقریر وتحریر کا احترام کرتا ہوں مگر یہ آزادی مطلق نہیں ہوتی۔ سابق برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرا نے کہا تھا: آزادی رائے کا ہم سب احترام کرتے ہیں لیکن بےعزتی اور اشتعال انگیزی کی کوئی چھوٹ نہیں دی جاسکتی ۔میرے خیال میں ان خاکوں کی باردگر اشاعت زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے بیان جاری ہوا تھا :یہ خاکے واقعی توہین آمیز اور مسلمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا موجب ہیں۔

 ان تمام بیانات کے باوجود گستاخانِ یورپ وامریکہ مسلمانوں کے دل کا خون کررہے ہیں اور مسلسل دل آزاری کرتے چلے جارہے ہیں کیوں؟۔

 انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا کے مطابق اپنے خیالات، معلومات اور آراء کا گورنمنٹ کی پابندیوں سے آزاد ہوکر اظہار کرسکنا آزادی اظہار رائے کہلائے گا۔ کینیڈین سپریم کورٹ نے آزادی رائے کے بارے میں اہم مقاصد بیان کئے کہ:

 ١۔ جمہوریت کے فروغ کے لئے۔

 ٢۔ ریاستی یا گروہی زیادتیوں کی روک تھام کے لئے۔

 ٣۔ حقیقت کی تلاش کے لئے ہرفرد آواز اُٹھا سکتا ہے۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹانیکا آزادی رائے کی تعریف کے ساتھ ساتھ ہر اس گفتگو یا رائے پر پابندی کی بات کرتا ہے جو واضح حقیقی خطرے کی موجب ہو یعنی:

١۔ کسی پر بہتان لگایا گیا ہو۔

 ٢۔ فحاشی کی موجب ہو۔

 ٣۔ کسی پر دباؤ ڈال کر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔

 اس طرح اقوام متحدہ کے اعلامیہ برائے سیاسی وسماجی حقوق جو جنزل اسمبلی نے ١٩٦٦ء میں منظور کیا تھا کا آرٹیکل ٢٠ تشدد کے فروغ نسلی تعصب مذہبی منافرت اور کسی بھی قسم کے امتیازی رویئے پر مبنی تقریر وتحریر پر پابندی کی بات کرتا ہے۔ اظہار رائے کی بے مہار او کھلی آزادی، نسلی گروہی لسانی وعلاقائی عصبیتوں کے فروغ اور باہمی فساد کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے ذریعے کسی کے عقائد اور مذہب کی تضحیک کے ذریعے قتل وغارت گری کی راہ بھی کھل سکتی ہے ۔اسی لئے تقریبا ً ہر جمہوری ملک میں اسے قانونی طور پر روکا گیا ہے اور قابل تعزیر جرم گردانا گیا ہے۔

خود ڈنمارک (جہاں سب سے پہلے خاکوں کی بدطینتی سامنے آئی تھی) کا قانون بھی خاموش نہیں۔ وہاں بھی ناموس مذہب کا قانون بالاس فیمی لا عرصے سے موجود ہے اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ ١٤٠ کے مطابق جو لوگ کسی مذہبی برادری کی عبادت اور مسلمہ عقائد کاکھلا مذاق اڑائیں یا ان کی توہین کریں ان کو جرمانے اور قید کی سزا دی جائے گی۔ یورپ و امریکہ کو اپنی تہذیب وتمدن پر بہت ناز ہے ایک طرف تو وہ پرندوں اور جانوروں کے تحفظ اور آڑام کی خیال کرتے نظر آتے ہیں لیکن جب اسلام اورمسلمانوں کا معاملہ آجائے تو ان کے بعض شہریوں کی سوئی ہوئی حیوانیت کیوں جاگ اُٹھتی ہے؟۔

 پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کے ذریعے صرف مسلمانوں کے کلیجےپر ہاتھ ڈالنا، مضطرب کرنا اور زندگی تلخ تر بناناہی ان کا مقصد کیوں بن جاتا ہے؟۔

 والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ!

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort