قرآن مجید میں یوں تو ہر حرف اور آیت ہی اپنی جگہ بڑی فضیلت رکھتے ہیں، لیکن آیۃ الکرسی کی شان وعظمت سب سے بلند تر ہے، جیسا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا :
“اے ابو منذر! کیا تم جانتے ہو کتاب اللہ کی کونسی آیت سب سے زیادہ عظمت والی ہے؟ “میں نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ جانتے ہیں۔
آپ ﷺ نے (دوبارہ) فرمایا: “اے ابو منذر! کیا تم جانتے ہو اللہ کی کتاب کی کونسی آیت سب سے زیادہ عظمت والی ہے؟” میں نے عرض کی:
اللَّہُ لَا إِله إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ
(مسلم : 1885)
(یعنی آیة الکرسی ہے) تو آپ علیہ السلام نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اللہ کی قسم !ابو منذر! تمھیں یہ علم مبارک ہو۔”
اس حدیث سے ایک تو قرآنی علم کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اس پر نبی علیہ السلام سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کو مبارکباد دے رہے ہیں، دوسرا اس آیت کی افضلیت عیاں ہو رہی ہے کہ پورے قرآن میں یہی آیت سب سے اعلی ہے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر کیوں اس آیت کی اس قدر اہمیت وفضیلت بیان کی گئی ہے، تو اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ آیت الکرسی ساری ہی اللہ رب العزت کے تذکرے اور توحید کے بیان پر مشتمل ہے۔ اس آیت میں 16 بار اللہ کا (اسم وضمیر دونوں سے) ذکر آیا ہے اور دوسرا اس آیت میں توحیدِ باری تعالی کے 11 دلائل دیے گئے ہیں، اور جس آیت یا سورت میں توحید کا بیان ہوتا ہے وہ خصوصی مقام رکھتی ہے، جیسے سورہ اخلاص کے متعلق فرمایا کہ: یہ سورہ قرآن مجید کے ایک تہائی کے برابر ہے۔ جس کا ایک مطلب اہل علم نے یہ بتایا ہے کہ جو تین بار سورہ اخلاص کی تلاوت کرتا ہے، اسے پورا قرآن پڑھنے کا ثواب ملتا ہے. اس فضیلت کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس میں توحید کا بیان اور اللہ رب العزت کا تعارف ہے، جس کی وجہ سے یہ اتنی اہمیت رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آیۃ الکرسی کی فضیلت
آیت الکرسی کی یہ فضیلت بھی مروی ہے کہ جو شخص رات کو سونے سے قبل اس کی تلاوت کرتا ہے، ساری رات ایک فرشتہ اس کی حفاظت کرتا ہے اور شیطان اس کے قریب نہیں آ سکتا۔ اور جو اسے ہر فرض نماز کے بعد پڑھتا ہے، وہ وفات کے بعد جنت میں داخل ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ یوں ہی شب وروز کے مسلسل تکرار سے انسان کے دل ودماغ میں توحید پوری طرح بیٹھ جاتی اور ہر وقت اس کے اثرات تازہ رہتے ہیں۔
اگر آج مسلمان اللہ رب العزت کے تعارف اور توحید کے لیے سورہ اخلاص اور آیۃ الکرسی خود بھی ذہن نشین رکھیں اور اپنے بچوں کو بھی اچھے سے سمجھا دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں ہر جگہ شرک کے مظاہر نظر آئیں اور مسلمان اپنے ہاتھوں سے مردے دفنا کر ان کو پوجنے اور حاجت روا ماننے لگیں۔
اس بد اعتقادی کی بڑی وجہ اللہ رب العزت کے صحیح تعارف سے محرومی اور اس کے اوصاف سے لا علمی بھی ہے۔ آج سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سیلابی آفات سے مزارات اور مقابر بھی محفوظ نہ رہے اور ان میں مدفون خود کو بھی بچا نہ سکے، مگر افسوس کہ کلمہ گو مسلمان اب تک نہیں سمجھے اور وہ ان مزارات کی مرمت کر کے پھر سے انہی فوت شدگان کو پکارنے اور مدد مانگنے لگے ہیں جبکہ اللہ رب العزت نے دو ٹوک انداز میں ہمیں بتا دیا ہے:
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ
الاعراف – 197
اور جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تمھاری مدد کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی مدد کرتے ہیں۔
ہم نے یہ پہلے ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں اللہ رب العزت کی توحید الوہیت کے گیارہ دلائل دیے گئے ہیں، ذیل میں ان کا مختصر تذکرہ ملاحظہ کیجیے اور سوچیے کہ توحید الہی کے اس قدر واضح تذکرے کے بعد بھی لوگ کس جہالت کا شکار ہیں اور دوسروں سے اپنی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
یہ تفصیل شیخ عبد السلام بھٹوی حفظہ اللہ کی تفسیر القرآن الکریم سے ماخوذ ہے۔
ٓیت الکرسی ایک دعویٰ اور اس کی گیارہ دلیلوں پر مشتمل آیت ہے۔ دعویٰ یہ ہے:﴿اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ﴾ یعنی اللہ وہ ہے جس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔
پہلی دلیل:
اَلْحَيُّ
یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، نہ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔ اس کے سوا جس چیز کی بھی عبادت کی جاتی ہے وہ نہ ہمیشہ سے ہے نہ ہمیشہ رہے گی۔ ہر چیز موت کی آغوش سے نکلی ہے اور اسی کی آغوش میں جانے والی ہے۔
دوسری دلیل:
”الْقَيُّوْمُ
یعنی وہ کسی سہارے کے بغیر خود قائم ہے اور دوسروں کو قائم رکھنے والا، تھامنے والا ہے۔ اتنی وسیع کائنات اور لا تعداد مخلوقات کو اللہ کے سوا کون ہے جو تھامے ہوئے ہے کہ اسے مشکل کشا، داتا یا دستگیر یا جھولی بھرنے والا سمجھا جائے۔
تیسری دلیل:
لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ
یعنی اللہ تعالیٰ کو ذرا برابر اونگھ یا نیند اپنی گرفت میں نہیں لے سکتی۔
چوتھی دلیل:
لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ
یعنی جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے۔ جب مالک وہ ہے تو عبادت بھی اسی کا حق ہے۔
پانچویں دلیل:
مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ
یعنی کون ہے وہ جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے۔
چھٹی دلیل:
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ
یعنی وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ اس کے سوا کسی ہستی میں یہ صفت موجود نہیں۔
ساتویں دلیل:
وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ
یعنی کوئی شخص اللہ کے علم یعنی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتا مگر جتنا وہ چاہے۔
آٹھویں دلیل:
وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ
یعنی اس کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ اس کی کرسی زمین وآسمان سے وسیع ہے۔
نویں دلیل:
وَلَا ئَوْدُهٗ حِفْظُهُمَا
یعنی مخلوق کتنی بھی بڑی ہو خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتی جب کہ اللہ تعالیٰ کے لیے زمین و آسمان کی حفاظت کچھ بوجھ نہیں۔
دسویں اور گیارھویں دلیل:
وَهُوَالْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ
بلندی اور عظمت اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، مخلوق اللہ تعالیٰ کی بلندی اور عظمت کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، اس لیے عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے۔