اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہم سب کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کے لئے کچھ ایسے موسموں اور ایام کا انتخاب کیا ہے جن میں عبادت باقی ایام کی بہ نسبت زیادہ افضل ہوتی ہے جیسا کہ رمضان المبارک ، یومِ عرفہ ، شبِ قدر اور اسی طرح عشرہ ذو الحجہ ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے نیکیوں کے یہ موسم اس لیے منتخب فرمائے ہیں تاکہ اس کے بندے نیکیوں کے اس موسموں میں کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرکے اجرِ عظیم کے مستحق بن جائیں۔ ان مبارک عشروں میں سے ایک عشرہ ذو الحجہ ہے جو نہایت بابرکت اور فضیلتوں والا عشرہ ہے۔
فضیلت کے اسباب
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی فضیلت کے کئی اسباب ہیں مثلاً: یہ حج و قربانی کے دن ہیں جو صرف انہی دنوں میں ادا کیے جا سکتے ہیں دیگر دنوں میں ادا نہیں کیے جا سکتے۔ ان دنوں میں کلمۂ شہادت کا کثرت سے اقرار ہوتا ہے گویا اس عشرے میں ایمان کی خوب تجدید ہوتی ہے، ان دنوں میں صدقہ و زکاۃ کی ادائیگی کا موقع بھی ہے، ان دنوں میں روزے کی عبادت بھی ہے، ان دنوں میں نمازِ پنجگانہ اور دیگر نفل نمازیں بھی ہیں۔ یہ ایام ذکر و اذکار، دعا و مناجات اور تلبیہ پکارنے کے بھی ایام ہیں۔ گویا ان ایام میں ہر قسم کی عبادات جمع ہو جاتی ہیں اور تمام قسم کی عبادت کا ان دنوں میں اکٹھا ہو جانا یہ وہ شرف و اعزاز ہے جو ان دس دنوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس اعزاز میں اس کا کوئی اور شریک نہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والذي يظهر أن السبب في امتياز عشر ذي الحجة لمكان اجتماع أمهات العبادة فيه، وهي الصلاة والصيام والصدقة والحج، ولا يتأتى ذلك في غيره1
” عشرہ ذی الحجہ کی امتیازی حیثیت کا سبب غالبا یہ ہے کہ دیگر ایّام کے مقابلے میں بڑی بڑی عبادتیں مثلا: نماز، روزہ، زکاۃ اور حج ان ایام میں اکٹھی ہو جاتی ہیں”۔
حجِّ اکبر
ذو الحجہ كا مہینہ اس لیے فضیلتوں اور بركتوں والا ہے کیونکہ اس مہینے میں حج کا مقدس فریضہ ادا کیا جاتا ہے۔ جس کا آغاز 8 ذو الحجہ سے شرع ہوتا ہے۔ وہ لوگ جنہیں اللہ کے گھر کی حاضری نصیب ہوتی ہے کئی کئی سالوں سے اپنے خون پسینے کی کمائی ہوئی جمع پونجی لے کر اس مہینے کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔
حج کی فضیلت
رسول كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن حَجَّ لِلهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، ولَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَومِ ولَدَتْهُ أُمُّهُ.
صحیح البخاری – 1521
کہ جو شخص رضاءِ الٰہی کے لیے اس طرح حج کرتا ہے کہ اس میں کسی قسم کی فحش اور برائی کی بات نہ کرے اور کسی قسم کی معصیت اور گناہ میں مبتلا نہ ہو تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹے گا جس طرح ماں کے پیٹ سے گناہوں سے پاک دنیا میں آیا تھا۔
عشرہ ذو الحجہ میں یومِ عرفہ ہے
عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کے اسباب میں سے سب بڑا سبب یہ ہے کہ ان ایام میں یومِ عرفہ آتا ہے اور عرفہ کا دن حج کا عظیم ترین دن ہے۔ یہ دن گناہوں کی بخشش اور آگ سے نجات کا دن ہے اور اگرعشرہ ذو الحجہ میں سوائے یومِ عرفہ کے کوئی اور دن نہ ہوتا تواس عشرے کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہوتا۔
یوم ِعرفہ كی فضیلت
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ بیان كرتی هیں كہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟
صحیح مسلم – 328
اللہ تبارک و تعالیٰ کسی بھی دن میں اپنے بندوں کو اس قدر جہنم سے آزاد نہیں کرتا جس قدر یومِ عرفہ میں آزاد کرتا ہے۔ اس دن بندوں سے قریب ہو کر فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے: میرے یہ بندے کیا چاہتے ہیں؟
یہی دن در حقیقت حج کا اصل دن ہے جس میں سب سے بڑے رکن وقوفِ عرفات کی ادائیگی ہوتی ہے۔ اس کے مقام و مرتبہ کی وضاحت کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
الحجُّ عرفةُ2
حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے۔
عشرہ ذو الحجہ میں یومُ النحر ہے
ذو الحجہ کے دس دن اس لیے مقدس اور بابرکت ہیں کہ ان ایام میں دس ذو الحجه کا دن آتا ہے جو مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے اور دنیا کے تمام مسلمان اس میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ یہ دن بھی سال کے سب سے زیادہ فضیلت والے دنوں میں شمار ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّ أعظمَ الأيَّامِ عندَ اللهِ تبارَكَ وتعالَى يومُ النَّحرِ ثمَّ يومُ القُرِّ
(صحيح أبي داود : 1765)
” اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑھ کر عظمت والا دن دس ذوالحجہ کا دن ہے اور اس کے بعد 11 ذو الحجہ کا دن ہے ۔ “
يومِ عرفہ، یومُ النحر اور ایامِ تشریق عید كے دن ہیں
حضرت عقبہ بن عامر الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إنَّ يومَ عرفةَ ويومَ النَّحرِ وأيَّامَ التَّشريقِ عيدُنا أَهْلَ الإسلامِ ، وَهيَ أيَّامُ أَكْلٍ وشربٍ3
کہ بلا شبہ عرفہ کا دن، یوم النحر اور ایامِ تشریق ہم اہِلِ اسلام کی عید کا دن ہے اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں ۔
ذو الحجہ کے ابتدائی دنوں کے فضائل :
ذو الحجہ کے ابتدائی دس دن سال بھر کے دنوں میں سے سب سے زیادہ بابرکت اور فضیلت والے ایام ہیں۔ ان ایام میں نیکیاں کرنے کے متعدد مواقع ہیں۔ ان کی فضیلت میں قرآن و سنت میں بہت سے دلائل موجود ہیں۔ اس عشرے کی چند فضیلتیں پیشِ خدمت ہے۔
عشرہ ذو الحجہ کی قسم
چنانچہ اللہ پاک نے اپنے کلام مجید میں ارشاد فرمایا:
وَالْفَجْرِ، وَلَيَالٍ عَشْرٍ
الفجر – 1/2
قسم ہے فجر کی ! اور دس راتوں کی !۔
جمہور اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ اس سے مراد عشرہ ذو الحجہ ہے بلکہ ابن جریر رحمہ اللہ نے اس بات پر اجماع نقل کیا اور کہا ہے کہ: “اس سے مراد عشرہ ذو الحجہ کی دس راتیں مراد ہیں کیونکہ تمام معتمد مفسرین کا اس پر اجماع ہے”۔4
اور ابنِ کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“دس راتوں سے مراد عشرہ ذو الحجہ ہے جیسے کہ ابنِ عباس، ابنِ زبیر، مجاہد اور متعدد سلَف اور خلَف علمائے کرام سے منقول ہے” اور کسی بھی چیز کی قسم اٹھانا اس کی اہمیت، فضیلت اور اس کے عظیم فوائد کی دلیل ہے۔5
جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ محبوب
عشرہ ذو الحجہ کے اعمال جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ اللہ کے ہاں محبوب ہیں ۔ حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ يَعْنِي الْعَشْرَ ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ ؟ قَالَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ6
اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان دس دنوں کے مقابلے میں دوسرے ایام کا عمل زیادہ پسندیده نہیں هے۔ لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! دوسرے دنوں میں اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی پسندیدہ نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اتنا پسند نہیں مگر جو شخص اپنی جان اور مال لے کر نکلے اور پھر لوٹ کر نہ آئے ۔ (یعنی شہید ہو گیا تو اس کا یہ عمل اللہ کے ہاں زیادہ محبوب ہے)۔
دنیا کے افضل ترین دن
عشرہ ذو الحجہ کے دس دن دنیا کے افضل ترین دن ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أفضل أیام الدنیا أیام العشر7
ذو الحجہ کے دس دن دنیا کے سب سے افضل دنوں میں سے ہیں۔
دینِ اسلام کی تکمیل
اسی عشرے میں عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ نے اہلِ اسلام پر اپنی نعمت کو پورا فرماتے ہوئے دینِ اسلام کو مکمل کر دیا تھا۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :
جَاءَ رَجُلٌ مِنَ اليَهُودِ إلى عُمَرَ، فَقالَ: يا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ آيَةٌ في كِتَابِكُمْ تَقْرَؤُونَهَا، لو عَلَيْنَا نَزَلَتْ، مَعْشَرَ اليَهُودِ، لَاتَّخَذْنَا ذلكَ اليومَ عِيدًا، قالَ: وَأَيُّ آيَةٍ؟ قالَ: {الْيَومَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ، وَأَتْمَمْتُ علَيْكُم نِعْمَتِي، وَرَضِيتُ لَكُمُ الإسْلَامَ دِينًا}، فَقالَ عُمَرُ: إنِّي لأَعْلَمُ اليومَ الذي نَزَلَتْ فِيهِ، وَالْمَكانَ الذي نَزَلَتْ فِيهِ، نَزَلَتْ علَى رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ بعَرَفَاتٍ في يَومِ جُمُعَةٍ8
یہودیوں میں سے ایک شخص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: امیر المومنین! آپ کی کتاب میں ایک ایسی آیت ہے آپ اسے پڑھتے ہیں۔ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن کو عید قرار دیتے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کون سی آیت ہے؟ اس نے کہا: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں وہ دن بھی جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی وہ جگہ بھی جہاں یہ نازل ہوئی۔ یہ آیت مقامِ عرفات پرجمعہ کے دن رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی تھی۔
عشرہ ذی الحجہ میں مستحب اعمال
کثرت سے تسبیحات، تحمیدات اور تکبیرات کہنا
اس عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی پاکی، بڑائی اور حمد و ثناء بکثرت کرنی چاہئے۔ اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ
الحج – 28
اور مقررہ دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں۔ یہاں ایامِ معلومات سے مراد ماہِ ذو الحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔
سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
مَا مِنْ أَیَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللہِ وَلَا أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنَ الْعَمَلِ فِیْہِنَّ مِنْ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ، فَأَکْثِرُوْا فِیْہِنَّ مِنَ التَّہْلِیْلِ وَالتَّکْبِیْرِ وَالتَّحْمِیْدِ9
ذو الحجہ کے دس دنوں سے بڑھ کر كوئی دن ایسے نہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان دنوں كی بہ نسبت زیادہ عظمت والے ہوں اور ان میں کیے گئے نیک عمل اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہو۔ پس ان ایام میں بہت زیادہ لا الہ الا الله ، الله اكبر اور الحمد لله پڑھا کرو۔
پورا عشرہ تکبیر کہنا
پورا عشرہ ذی الحجہ تکبیرات کہنا صحابہ کرام کا مبارک عمل تھا۔ صحيح بخاری میں معلق روایت ہے:
وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُكَبِّرَانِ وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا10
عبداللہ بن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں تکبیرات کہتے ہوئے بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ مل کر تکبیرات کہتے۔
تکبیرات کے الفاظ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تکبیرات کے یہ الفاظ منقول ہیں:
اَللهُ أَكْبَرُ ، اَللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، وَلِلهِ الْحَمْدُ11
اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔
بال اور ناخن نہ کاٹیں
کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اور ذو الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ قربانی کرنے تک اپنے ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ :
إذا رَأَيْتُمْ هِلالَ ذِي الحِجَّةِ، وأَرادَ أحَدُكُمْ أنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عن شَعْرِهِ وأَظْفارِهِ
(صحيح مسلم: 1977)
امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو ( نہ کاٹے ) اپنے حال پر رہنے دے ۔
قربانی کے بدلے ناخن اور بال کاٹنا
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى، أَفَأُضَحِّي بِهَا قَالَ: لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ12
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دسویں ذی الحجہ کو مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے۔ ایک شخص کہنے لگا: بتائیے اگر میں مادہ اونٹنی یا بکری کے سوا کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! بلکہ تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو اور زیرِ ناف کے بال لے لو۔ اللہ عزوجل کے نزدیک (ثواب میں) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے۔
نمازوں کی پابندی
عشرہ ذو الحجہ کے مستحب اعمال میں سے فرض نمازوں كا شدت سے با جماعت اہتمام کرنا، مسجدوں میں جلدی پہنچنا ، سنتوں کو پابندی سے ادا کرنا اور نوافل وغیرہ کثرت سے پڑھنا ہے۔ کیونكہ اللہ تعالیٰ کی قربت کا سب سے افضل طریقہ نماز ہی ہے۔ حدیث قدسی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الله تبارك وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
وما تَقَرَّبَ إلَيَّ عَبْدِي بشَيءٍ أحَبَّ إلَيَّ ممَّا افْتَرَضْتُ عليه، وما يَزالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إلَيَّ بالنَّوافِلِ حتَّى أُحِبَّهُ،
صحیح البخاری – 6502
اور میرا بندہ جن چیزوں سے مجھ سے قریب ہوتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض قراردی ہیں۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔
روزے رکھیں
عشرہ ذو الحجہ کے مستحب اعمال میں سے ایک عمل ابتدائی نو دن كے روزے رکھنا ہے۔ امہات المؤمنین میں سے ایک کا بیان ہے کہ:
كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللہِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ تِسْعَ ذِي الْحِجَّةِ، وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ وَالْخَمِيسَ.
( صحیح أبی داؤد: 2437)
رسول اللہ ﷺ ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، دسویں محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اور نفلی روزے کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
مَن صامَ يَوْمًا في سَبيلِ اللہِ ، بَعَّدَ اللہُ وجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا.
صحیح البخاری – 2840
جو شخص خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ایک دن کا روزہ رکھ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس ایک روزے کی برکت سے اس کے چہرے کو ستر برس مدّت کی مسافت تک آگ سے دور کر دیتا ہے۔
نفلی روزے کا اجر اتنا زیادہ ہے کہ اس کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ، قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِلَّا الصَّوْمَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ
صحیح مسلم – 1151
ابنِ آدم کا ہر عمل بڑھایا جاتا ہے۔ نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سوائے روزے کے ( کیونکہ ) وہ (خالصتاً) میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔
یومِ عرفہ کا روزہ
عشرہ ذو الحجہ کے مستحب اعمال میں سے ایک عمل نو ذو الحجه یعنی یوم عرفه كا روزه رکھنا ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
صِيَامُ يَومِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ علَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتي بَعْدَهُ
صحیح مسلم – 1162
عرفہ کے دن کے دن روزہ رکھنے سے مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ گزشتہ اور آئندہ دو سالوں کے گناہ معاف فرمادے گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: بلاشبہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟
صحیح مسلم – 1162
“کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو۔ وہ (اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟”۔
عرفہ کی دعا بہترین دعا ہے
عرفہ کے دن دعا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ دعاؤں میں بھی سب سے بہترین دعا عرفہ کی دعا کو قرار دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
خيرُ الدُّعاءِ دعاءُ يومِ عرفةَ، وخيرُ ما قلتُ أَنا والنَّبيُّونَ من قبلي: لا إلَهَ إلَّا اللہُ وحدَهُ لا شريكَ لَهُ، لَهُ الملكُ ولَهُ الحمدُ وَهوَ على كلِّ شَيءٍ قديرٌ13
سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیاء نے کی ہے وہ ہے: لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر۔”
ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ یومِ عرفہ کی دعا اکثر و بیشتر قابل قبول ہوتی ہے۔ اس لئے جو لوگ حج پر نہ بھی گئے ہوں انہیں بھی چاہیے کہ اس عظیم دن میں دعا کا اہتمام کریں۔
ضروری بات
یومِ عرفہ کا روزہ صرف ان حضرات کے لیے مشروع ہے جو حج میں شامل نہیں ہیں۔ حجاج کرام کے لیے اس دن روزہ نہ رکھنا ہی سُنّتِ رسول ﷺ ہے۔14
جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی والدہ امِ فضل لُبابَہ بنتِ حارث رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
أَنَّهُمْ شَكُّوا فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ فَبَعَثَتْ إِلَيْهِ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ فَشَرِبَهُ
(صحيح البخاري: 5604)
لوگوں نے عرفہ کے دن نبی کریم ﷺ کے روزے کے متعلق شبہ کیا تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں دودھ کا ایک کٹورہ پیش کیا گیا اور آپ ﷺ نے اسے نوش فرمایا۔
عرفہ کا روزہ ہر ملک اپنی رؤیت کے مطابق 9 تاریخ کو رکھیں گے
بعض علماء کا خیال ہے کہ یومِ عرفہ کا روزہ اسی دن رکھا جائے گا جس دن حاجی لوگ میدانِ عرفات میں جمع ہونگے خواہ اپنے علاقے میں اس دن نو تاریخ ہو یا نہ ہو۔ جبکہ یہ موقف کئی ایک وجوہات کی بنا پر انتہائی کمزور موقف ہے۔
- اس موقف کے قائل تمام علماء رمضان کے روزوں، دیگر نفلی روزوں اور یومِ عاشور اور عیدین وغیرہ کی تعیین میں تو قمری تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یومِ عرفہ سے دھوکا کھا کر اس کو سعودی تاریخ سے جوڑنے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
- اگر اس موقف کو تسلیم کر لیا جائے تو تمام اسلامی دنیا سعودی یومِ عرفہ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتی کیونکہ مشرقی ممالک میں سحری سعودی وقت سے دو یا تین گھنٹے قبل شروع ہوتی ہے اور افطاری بھی ان سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے تو مشرقی لوگ سعودی تاریخ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور بعض مغربی ممالک میں قمری تاریخ سعودی تاریخ سے آگے ہے۔چنانچہ مکہ مکرمہ میں جب یومِ عرفہ ہوتا ہے تو وہاں عید الاضحی منائی جا رہی ہوتی ہے تو اس غیر منصفانہ تقسیم سے تو مغربی ممالک کے مسلمان یومِ عرفہ کے روزہ کی فضیلت سے محروم رہیں گے۔
- روئے زمین پر ایسے خطے موجود ہیں کہ سعودیہ کے لحاظ سے یومِ عرفہ کے وقت وہاں رات ہوتی ہے ان کے لئے روزہ رکھنے کا کیا اصول ہوگا؟ اگر انہیں عرفہ کے وقت روزہ رکھنے کا پابند کیا جائے تو کیا وہ رات کا روزہ رکھیں گے۔
لہذا راجح مؤقف کے مطابق عرفہ کا روزہ اپنی روئیت کے مطابق قمری تاریخ کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے رکھنا چاہیے خواہ اس وقت سعودیہ میں یومِ عرفہ ہو یا نہ ہو۔15
حَجِّ بیت اللہ
عشرہ ذو الحجہ کے مستحب اعمال میں سے سب سے اہم عمل حج كی ادائیگی ہے۔ سبحان اللہ! کیسا عظیم عشرہ ہے کہ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ایسا ہے جو خاص اسی عشرے سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنہما بیان كرتے ہیں كہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
تَابِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ فَإِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوْبٌ کَمَا یَنْفِی الکِیْرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ ، وَالذَّھَبِ ، وَالْفِضَّةِ
صحیح النسائی – 2630
حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو کیونکہ یہ فقر اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔ “
نبی کریم ﷺ نے مزید فرمایا :
العُمْرَةُ إلى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِما بيْنَهُمَا، والحَجُّ المَبْرُورُ ليسَ له جَزَاءٌ إلَّا الجَنَّةُ16
عمرہ سے لے کر عمرہ تک کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حجِ مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔ “
عید پڑھنا
اسی عشرہ مبارکہ کے آخری دن یعنی دس ذی الحجہ کو عید کی نماز ادا کرنا ایک اہم شرعی فریضہ ہے۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ
( سنن ابی داؤد 2789 )
دسویں ذی الحجہ کو مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے۔
قربانی کرنا
عشرہ ذو الحجہ کے مستحب اعمال میں سے ایك عمل قربانی ہے۔ اس کی بڑی فضیلتیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ قربانی كا عمل عشرہ ذی الحجہ کے آخری دن یعنی دس ذی الحجہ کو ہے اور عشره ذو الحجہ میں ادا كیے جانے والے اعمال كا اجر و ثواب دوسرےعام دنوں میں كیے جانے اعمال سے زیاده ثواب رکھتے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
ما العَمَلُ في أيّامٍ أفْضَلَ منها في هذه، قالوا: ولا الجِهادُ؟ قالَ: ولا الجِهادُ، إلّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخاطِرُ بنَفْسِه ومالِه، فلَمْ يَرْجِعْ بشَيءٍ
صحیح البخاری – 969
کسی اور دن میں عبادت ان دس دنوں میں عبادت کرنے سے افضل نہیں ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ جہاد بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جہاد بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا)۔
لہٰذا عشرہِ ذو الحجہ کے اعمال میں اہم ترین عمل اللہ ہی کے لیے ’’قربانی ‘‘کرنا یعنی جانور اللہ کی راہ میں ذبح کرنا ہے۔
سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
مَن كان له سَعَةٌ ولم يُضَحِّ ، فلا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانا
صحیح الجامع – 6490
جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔
صدقہ و خیرات
یعنی اپنے والدین ، بیوی، بچوں کے ساتھ ساتھ قریبی رشتہ دار، پڑوسی ، محلہ دار اور تمام مسلمانوں میں مستحقین، یتیم و بیواؤں ، فقراء و مساکین اور اللہ کے راستے میں خوش دلی کے ساتھ، اللہ کی رضاء اور اپنی واجبی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خرچ کرنا ۔ نبی کریم ﷺ کے بارے آتا ہے کہ :
خَرَجَ رَسولُ اللہِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في أضْحًى أوْ فِطْرٍ إلى المُصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَوَعَظَ النَّاسَ، وأَمَرَهُمْ بالصَّدَقَةِ، فَقَالَ: أيُّها النَّاسُ، تَصَدَّقُوا، فَمَرَّ علَى النِّسَاءِ، فَقَالَ: يا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ؛ فإنِّي رَأَيْتُكُنَّ أكْثَرَ أهْلِ النَّارِ.
صحیح البخاری – 1462
سیدنا ابو سعيد خدرى رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ عيد الفطر يا عيد الاضحى كے دن نبى كريم ﷺ عيدگاہ كى طرف نكلے اور پھر وہاں لوگوں كو وعظ و نصيحت فرمائى اور انہيں صدقہ و خيرات كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا: لوگوں! صدقہ كيا كرو۔ پھر عورتوں كے پاس سے گزرے تو فرمايا: اے عورتوں كى جماعت! صدقہ كيا كرو كيونكہ ميں نے ديكھا ہے كہ تمہارى تعداد آگ ميں سب سے زيادہ ہے۔
برائیوں سے دوری:
ذو الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں جس طرح ہرنیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے ایسے ہی گناہوں کا ارتکاب بھی سنگین اور شدید رخ اختیار کر لیتا ہے۔ اس لئے کہ یہ شریعت کا ایک عام قاعدہ ہے کہ فضیلت والے اوقات یا مقامات میں جس طرح نیکیوں کو عظمت حاصل ہو جاتی ہے ایسے ہی گناہوں کا ارتکاب خطرناک ہو جاتا ہے۔
لہذا ایک مسلمان کو ایسے تمام گناہوں اور نافرمانیوں سے بچنا چاہئے جو اﷲ تعالی کے غضب یا لعنت کا باعث ہوں۔ مثلاً: سود خوری، رشوت خوری، زناکاری، چوری، ناحق کسی کا قتل ، یتیموں کا مال کھانا، کسی کی جان اور مال یا عزت و آبرو پر کسی قسم کا ظلم کرنا، معاملات میں فریب اور دھوکا دہی کا ارتکاب، امانتوں میں خیانت، والدین کی نافرمانی، رشتے توڑنا، بغض و کینہ رکھنا، ﷲ کے حق کے بغیر تعلقات توڑنا اور بات چیت بند رکھنا، سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی، شراب پینا یا کسی اور نشہ آور چیز کا استعمال کرنا، غیبت و چغلی، جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا، ناحق دعوے کرنا اور جھوٹی قسمیں کھانا، داڑھی مونڈانا یا کتروانا، مونچھوں کو پست کے بجائے لمبی رکھنا، کبر و غرور میں مبتلا ہونا، کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا، گانے سننا اور آلاتِ موسیقی اپنے پاس رکھنا، گندی اور عریاں فلمیں اور مجرمانہ سیریل دیکھنا، تاش اور پتے کھیلنا، عورتوں کا بے پردگی اور کافر عورتوں سے مشابہت اختیار کرنا۔ اور ان کے علاوہ وہ تمام کام جن سے ﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان مقدس ایام میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔
- فتح الباری – 136/3
- (ترمذی: 889، والنسائي: 3044، وصححہ الألبانی)
- (صحيح النسائي: 3004، صحيح أبي داود: 2419)
- تفسير ابن جرير : (7/514)
- تفسیر ابن کثیر (4/535)
- صحیح البخاری – 969 / صحیح أبی داؤد – 2438
- (صحیح الجامع : 1133) (صحيح الترغيب : 1150)
- صحیح مسلم – 3017 / صحیح البخاری – 7268
- (صححه أحمد شاكر في المسند، 5446 ، وشعیب أرناؤوط : 6154)
- (رواه البخاري معلَّقًا : 969، وصحَّحه الألباني في إرواء الغليل :651)
- (مصنف ابن أبی شیبة : 2/165-168 و إرواء الغلیل : 3/125 )
- ( صححه أحمد شاكر في تخريج المسند: 10/81 ، وشعيب الأرناؤوط في تخريج المسند: 6575 )
- (صحيح الترمذي : 3585 ، صحيح الترغيب : 1536)
- (صحيح البخاري :1661 ، صحيح مسلم : 1123)
- (فتاویٰ اصحاب الحديث للشيخ عبد الستار الحماد 221/1، 220 ۔ احکام و مسائل للشيخ عبد المنان النورفوري 419/2، 418 )
- صحیح البخاری : 1773 ، صحیح مسلم : 1349