اللہ تعالیٰ کی محبت اور اسے حاصل کرنے والے اسباب

پہلا خطبہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی محبت کو سب سے معزز محصول  اور عظیم نعمت قرار دیا ہے،  میں اسی کی تعریف کرتا ہوں، اور کھانے پینے کی نعمت پر اسی کا شکر ادا کرتا ہوں۔  اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور وہ تمام نقائص و عیوب سے پاک ہے، اس نے انسان کو ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا ہے۔ جو پیٹھ اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔

اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جنہوں نے ہدایت ، نور اور نفس کو عیوب کے پاکیزہ کرنے کی دعوت دی۔اللہ ان پر اور ان کی آل پر اور تمام صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے۔

حمد و ثنا کے بعد:

میں آپ سب کو مجھ سمیت اللہ کا تقوی  اختیار کرنےکی نصیحت کرتا ہوں۔یہی کامیابی اور نجات کا راستہ ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

آل عمران – 102

اے ایمان والو! اللہ سے  ڈرو جیسااس سے ڈرنے کاحق ہے، دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔

اللہ سے محبت کرنا ایمان کا تقاضا ہے، اور اس وقت تک توحید مکمل نہیں ہوسکتی جب تک بندہ اپنے رب سے مکمل محبت نہ کرے، اور نہ تو محبت کی اس سے زیادہ واضح تحدید کی جاسکتی ہے اور  نہ ہی اس سےبہتر تعریف ہوسکتی ہے، اوراللہ کے سوا  کوئی بھی  ایسی ذات ( چیز) نہیں جس سے مکمل طور پر  محبت کی جائے  اوراسی کے لئے ہی  الوہیت ، عبودیت، خشوع و خضوع اور مکمل محبت  لائق  و زیبا ہے۔

اللہ تعالی کی محبت  کی شان جیسی کوئی شان نہیں،کیونکہ خالق و موجد سے زیادہ دلوں کو کوئی چیز محبوب نہیں، وہ تو الٰہ ہے، معبود ِ برحق ہے، ولی ہے ، مولٰی ہے، رب ہے ، تدبیر کرنے والا ہے، رزق دینے والا ہے، موت و حیات کا مالک ہے؛ اور اسی کی محبت دلوں کی نعمت ہے، روح کی حیات ہے، نفس کا سرور ہے، دلوں کی غذا ہے، عقلوں کا نور ہے، اور آنکھوں کی ٹھندک ہے، اور اندرونی  عمارت ہے۔اور مخلص دل،پاکیزہ روح اورعقل سلیم کے مطابق اللہ کی محبت، اُس سے اُنسیت اور اس کی ملاقات کے شوق سے  زیادہ  خوبصورت، پاکیزہ ، رازدار اوربہتر نعمت اورکوئی نہیں۔

یحیٰی بن معاذ فرماتے ہیں:

“عفوُه يستغرِقُ الذنوبَ؛ فكيف رِضوانُه؟ ورِضوانُه يستغرِقُ الآمال؛ فكيف حُبُّه؟ وحبُّه يُدهِشُ العقول؛ فكيف ودُّه؟ وودُّه يُنسِي ما دُونَه؛ فكيف لُطفُه؟”

جب اس کی معافی تمام گناہوں  کو ڈھانپ لیتی ہے تو اس کی رضا کا کیا عالم ہوگا؟ اور جب اس کی رضا امیدوں کو سمیٹ لیتی ہے تو اس کی محبت کیسی ہوگی؟ اور جب اس کی محبت کا یہ عالم ہو کہ وہ عقلوں کو حیران کردے تو اس کی مودّت کیسی ہوگی؟ اور اس کی مودت تو سب کچھ بھلادے گی تو اس کا لطف کیسا ہوگا؟

اور  انسان جتنی زیادہ اللہ سے محبت کرتا ہے اتنی ہی زیادہ ایمان کی لذت اور مٹھاس حاصل ہوتی ہے، اور جس کا دل اللہ کی محبت سے بھرجائے اللہ اسے دوسروں کی محبت ، ڈر اور ان پر توکل کرنے سے اس بندے کو بے نیاز کردیتا ہے۔اور صرف اللہ تعالی کی محبت ہی ایک ایسی چیز ہےجو  دلوں  کو بے نیاز کردیتی ہے ، حاجتوں کو پورا کرتی ہے، اور بھوک کو ختم کردیتی ہے۔

اور اگر  اللہ تعالی کی محبت کے بغیر اسے وہ سب کچھ مل بھی جائے جس سے اسے لذت حاصل ہو تب بھی اسےامن  و  اطمینان اور سکون نہیں مل سکے گا، اور آنکھوں  کا نور، کانوں کی سماعت، ناک کا سونگھنا، زبان کا بولنا ان تمام نعمتوں کے ختم ہوجانے سے اتنی تکلیف نہیں ہوگی جتنی تکلیف  دل سے اللہ کی محبت نکل جانے سے ہوگی بلکہ اگر دل اپنے  حقیقی خالق و مالک اور معبود کی محبت سے خالی ہوجائے اور روح مردہ ہوجائے تو  وہ جسم کی خرابی سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہے۔

حقیقی محبت یہ ہے کہ آپ خود کو مکمل طور پر اس ذات کے حوالے کردیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں یہاں تک کہ آپ کے پاس کچھ نہ رہے،اور اللہ کی سچی و حقیقی  محبت وہ ہے جو دیگر تمام محبتوں پر غالب  اور مقدم رہے، اور بندے کی تمام تر محبّتیں اُسی (اللہ کی) محبت کے تابع و تحت ہونی چاہئیں ،اسی میں بندے کی سعادت اور کامیابی ہے۔

محبت کی مقدار میں محبِّین(محبّت کرنے والوں) کےمختلف  درجات ہیں، اسی لئے اللہ تعالی نے مؤمنوں کی محبت کو شدید کہا ہے اور فرمایا ہے:

وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ

البقرۃ – 165

اور ایمان والےتو اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔

((أَشَدُّ)): یہ لفظ ان کی محبت کے مختلف درجات ہونے کی دلیل ہے؛ کیونکہ اس کا معنی ہے:  زیادہ  سے زیادہ محبت۔

اپنے نفس، روح اور مال و دولت کی محبتوں کو اللہ تعالیٰ  کی محبت پر قربان کردینا، پھر ظاہری و باطنی طور پر اس کی موافقت کرنا، پھر اللہ کی محبت میں ہونے والی کوتاہیوں کو جاننا، سمجھنا،الغرض: آپ مکمل طور پر اپنے محبوب (رب) کے فرماں بردار بن جائیں،اور اپنے  نفس کو اُسی کی رضا کی خاطر وقف کردیں، اور اس کے ساتھ ساتھ(مسنون طریقے کے مطابق) محبوب(اللہ) کی یاد میں ہی دل لگائیں،اور ہمیشہ اپنی زبان سے اُسی اللہ کا ذکر کریں۔ پیارے ﷺاس  کے حصول کے لئے یہ دعا کیا کرتے تھے:

«أَسأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَن يُحِبُّكَ، وَحَبَّ عَمَلٍ يُقرِّبُ إلٰى حُبِّكَ».

میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں، اور اس شخص کی محبت جس سے تو محبت کرتا ہے، اور اس عمل کی محبت جس کی بدولت تیری محبت حاصل ہوتی ہے۔

اگر محبت بہت زیادہ شدید  ،عظیم اور بلندہوجائے تووہ   ’’ولہ‘‘ یعنی شدّتِ غم اختیار کرلیتی ہے، اور وہی انتہاء درجہ کی محبت ہے، اور  اللہ تبارک و تعالی  کی محبت کے لئے ’’تألُّه‘‘  کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس کا مطلب ہے :اللہ کی شدید محبت، اور اس کی محبّت جو اللہ  تعالی کی طرف سے نازل ہوئی ہے(قرآن کریم، شریعتِ مطہّرہ)۔

اور بندوں کے لئے غذا سے زیادہ ’’تألُّه‘‘ (اللہ تعالیٰ ، اس کی کتاب اور اس کے دین کی شدید محبت)کی ضرورت ہےکیونکہ غذا کے نہ ہونے سے جسم کو نقصان  ہوتا ہے اور’’تألُّه‘‘(اللہ تعالیٰ ، اس کی کتاب اور اس کے دین کی شدید محبت)کے نہ ہونے سے نفس (روح)کو نقصان  ہوجاتا ہےاور وہ برباد و ہلاک ہوجاتا ہے۔

مؤمن جب اپنے رب کو پہچان لیتا ہے تو اُس سے محبت کرتا ہے، اور جب اُس سے محبت کرتا ہے تو اُسی کی طرف آتا ہے، اور جب اُسے اللہ کی طرف آنے کی مٹھاس حاصل ہو جاتی ہے تووہ دنیا کی طرف شہوت کی نظر سے نہیں دیکھتا،اور آخرت کی طرف  سُستی و غفلت کی نظر سے نہیں دیکھتا۔

اللہ کی محبت بندے کو واجب  اور مستحب (پسندیدہ) کام کرنے اور حرام اور مکروہ (ناپسند) کام چھوڑنے کی ترغیب دلاتی ہے۔اور دل کو ایمان کی لذت اور مٹھاس سے بھر دیتی ہے۔

ذاقَ طعمَ الإيمان من رضِيَ بالله ربًّا، وبالسلام دينًا، وبمُحمَّدٍ رسولاً

جو اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمدﷺ کے رسول ہونے پر  راضی ہوگیا اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔

اللہ کی محبت دل سے ہر اس چیز کو نکال دیتی ہے جس سے اللہ کو نفرت ہوتی ہے، اور جسم کے اعضاء بھی اللہ کی محبت کی بدولت فرماں بردار ہوجاتے ہیں، جس وجہ سے دل مطمئن ہوجاتا ہے، حدیث قدسی  ہے:

فإذا أحبَبتُه كنتُ سمعَه الذي يسمعُ به، وبصرَه الذي يُبصِرُ به، ويدَه التي يبطِشُ بها، ورِجلَه التي يمشِي بها

اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی وہ سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی وہ بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا وہ ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا وہ پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔

محبت کرنے والا محبت میں  ایسی مٹھاس حاصل  کرلیتا ہے جو  تمام پریشانیوں کو بھُلا دیتی ہے، اور اس کی مٹھاس کا اندازہ صرف اسے ہی ہوتا ہے جس نے اسے چکھا ہو۔

اللہ کی نافرمانی اور مخالفت سے روکنے والے اسباب میں  سب سے قوی سبب اللہ کی محبت ہے؛ کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی ہر بات مانتا ہے۔ اور محبت کی پکڑ، ہولڈ(Hold) دل پر جتنا زیادہ مضبوط ہوگی  اتناہی زیادہ بندہ فرماں بردار ہوگا اور نافرمانی سے بچے گا۔اور نافرمانی اور مخالفت تو محبت اور اس کا کنٹرول کمزور ہونے کی وجہ سے ہی ہوتی ہے۔

اور سچی محبت کرنے والے کے لئے محبوب کی طرف سےایک نگراں ہے جو اس کے دل اور بقیہ اعضاء کی حفاظت کرتا ہے،جبکہ خالی محبت کا یہ پھل ہرگز نہیں ملتا جب تک کہ اس میں محبوب کی تعظیم اور عزت نہ ہو،  اور جب اس میں یہ احترام اور تعظیم آجائے تو اس کے نتیجے میں حیاء اور اطاعت قائم ہوجاتی ہے، ورنہ محض محبت سے صرف انسیت، خوشی، یاددیہانی اور شوق ہی ملتا ہے(شرم و حیا اور اطاعت نصیب نہیں ہوتی)، اسی لئے اس کا اثر اور  نتیجہ  نظر نہیں آتا، اور بندہ اپنے دل میں جب جھانکتا ہے تو اسےاللہ کی محبت تو کچھ نظر آتی ہے مگر وہ محبت اسے گناہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتی۔

اس کا سبب یہ ہے کہ وہ عزت و تعظیم سے خالی ہے، اور اللہ کی عزت و تعظیم کے ساتھ محبت  کرنا ہی ایک ایسی نعمت ہے جس کے سوا  کوئی اور چیز دل کو آباد نہیں کرسکتی۔اور یہ اللہ کی سب سے بڑی  اور افضل ترین نعمت ہے،اور یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے۔

اور جب محبت خضوع و خشوع سے خالی ہوجائے تویہ محض ایک ایسا دعوی  ہوتا ہے جس کی کوئی قیمت نہیں، اور یہی حال ان لوگوں کا ہوتا ہے جو اللہ کی محبت کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن اللہ کا حکم نہیں مانتے اور نہ ہی سنتِ نبوی پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے اقوال، اعمال اور عبادات میں اسے اپناتے ہیں۔

اور جو شخص بھی اللہ کے رسول ﷺ کی اتباع نہیں کرتا  وہ نہ تو اللہ سے محبت کرتا ہے اور نہ ہی اس کا دعوی کرنے کا اسے کوئی حق ہے۔اسی لئے اللہ تعالی نے یہود و نصاری کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:

وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ

المائدة – 18

یہود و نصاریٰ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔

تو محض دعوی تو ہر ایک کرلیتا ہے، اللہ تعالی نے ان کے دعوے کو باطل قرار دیتے  ہوئے حقیقت کو واضح کیا اور فرمایا:

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

آل عمران – 31

کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو۔ خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا۔ اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

*اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامات یہ ہیں:

*اللہ کے اطاعت گزار بندوں سے محبت کرنا،

*اس کے ولیوں سے دوستی کرنا (قرآن کریم کی روشنی میں اللہ کا ولی وہ ہے جو کما حقہ ایمان لائے ، اُس کے تقاضوں کو پورا کرے ، اور اللہ کا تقویٰ حاصل کرے اورمشرک ، بدعتی اوراس کےرسولﷺاور اُس کے دین و شریعت کا نافرمان نہ ہو ۔) ،

* اس کے نافرمان لوگوں سے دشمنی رکھنااور اُن سے جہاد کرنا،

*اور اس (اللہ کے دین) کا دفاع کرنے والوں کی مدد کرنا۔

اور جب بندے کے دل میں اللہ کی محبت قوی ہوجاتی ہے تو ان  اعمال میں بھی  پختگی آجاتی ہے۔

ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان اسباب کو جان لیں جن کی بدولت اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے۔

۱ـ پہلا سبب:

اللہ کی بے شمار اور لا تعداد نعمتوں کو جاننا۔

وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا

النحل – 18

اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔

وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ

القصص – 77

جیسے کہ اللہ تعالٰی نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر۔

۲ـ دوسرا سبب:

اللہ کے پیارے نام، صفات اور افعال کو پہچاننا؛ اور  جو اللہ کو پہچان لے تو اسے اس سے محبت ہوجاتی ہے، او رجسے اللہ سے محبت ہوجائےوہ اس کی اطاعت بھی کرتا ہے، اور جو اللہ کی اطاعت کرتا ہے اللہ اسے عزت دیتا ہے اور جسے اللہ عزت دے تو اُسے اپنے رحمت میں جگہ دیتا ہے، اور جسے اللہ کی رحمت نصیب ہوگئی  تواس سے بڑا خوش نصیب کوئی نہیں۔

۳ـ تیسرا اور اہم سبب:

آسمانوں اور زمینوں کی خلقت میں غور و فکر کرنااور اللہ کی ان مخلوقات پر غور کرنا جو اس کی عظمت، قدرت، جلال، کمال، بڑائی،نرمی، رحمت اور  شفقت کی دلیل ہیں۔ اور اللہ کے پیارے پیارے نام اور اس کی صفات وغیرہ  کو پہچاننا۔ اور جب اللہ کی معرفت بندے کے دل میں قوی ہوجاتی ہے تو اس کی محبت بی بڑھ جاتی ہر اور اطاعت بھی۔

۴ـ چوتھا سبب:

سچائی اور اخلاص کو برقرار رکھتے ہوئے خواہشات کی مخالفت کرنا، کیونکہ یہ  بندے پر اللہ کے فضل اور محبت  کا ذریعہ ہے۔

۵ـ پانچواں سبب:

کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا، اور محبت کرنے والا اپنے محبوب کا ہی کثرت سے ذکر کیا کرتا ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:

أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

الرعد – 28

جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو قرآن مجید سے برکتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور اس کی آیات اور حکمت بھری نصیحتوں کو ہمارے لئے نفع بخش بنائے، میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور اللہ رب العزت سے سب کے لئے مغفرت مانگتا ہوں، بیشک وہ بہت زیادہ بخشنے والا اور نہایت مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے نیک دعوت کے ذریعہ اپنے بندوں کی مدد کی، میں اسی کی تعریف کرتا ہوں اور مکمل کرم نوازی پر  اسی کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں،وہ تمام مخلوقات کا رب ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔جن کی تائید معجزات کے ذریعہ کی گئی، اللہ ان پر اور ان کی آل پر اور ان کے تمام صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے۔

حمد و ثنا کے بعد:

میں مجھ سمیت  آپ سب کو اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

الاحزاب – 70/71

اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو۔ تاکہ اللہ تعالٰی تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناہ معاف فرما دے،اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔

اسلامی بھائیوں!

محبت کی چار اقسام ہیں، ان میں فرق  کو پہچاننا اور فرق رکھنا بہت ضروری ہے:

۱ـ پہلی قسم:

” اللہ سے  محبت کرنا ” ۔

عذاب سے بچنے اور ثواب حاصل کرنے کے لئے  محض اللہ کی  زبانی و دلی محبت کافی نہیں، وگرنہ اللہ سے محبت تو مشرکین، صلیب کی پوجا کرنے والے، اور یہود وغیرہ بھی کیا کرتے تھے۔(یعنی زبانی و دلی محبت کے ساتھ ساتھ اُس محبت کے عملی تقاضوں کو پورا کرنا بھی لازمی ہے۔)

دوسری قسم:

“ہر اس چیز سے محبت کرنا جس سے اللہ محبت کرتا ہے”۔

اسی  محبت کی بدولت انسان اسلام میں داخل ہوتا ہے  یا اس سے  باہر ہو جاتا ہے، (یعنی جو ہر اُس چیز سے محبت کرے جس سے اللہ محبّت کرتا ہے تو وہ اسلام کے اندر ہے اور جو ہر اُس چیز سے محبت نہ رکھے جس سے اللہ محبّت کرتا ہے تو وہ دینِ اسلام سے باہر ہوگا، یا معنی یہ ہے کہ :اللہ تعالیٰ کو دینِ اسلام سے محبت ہے اسی لئے اُس نے دینِ اسلام کو اپنے بندوں کے لئے بطورِ دین کے منتخب فرمایا ، سو جو  اللہ سے محبت کرتا ہے وہ دینِ اسلام اور اُس کے احکامات سے عملی محبّت کرتاہےاورجو اللہ سے محبت نہیں کرتا وہی دینِ اسلام سے بھی محبّت نہیں کرتا)،

اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب ترین انسان  وہ ہے جس کی یہ محبت سب سے زیادہ شدید اور سب سے بڑھ کر اور قوی ہے۔

تیسری قسم:

الحبُّ في الله ولله، وهي من لوازِم محبَّة ما يُحبُّ، ولا تستقيمُ محبَّةُ ما يُحبُّ إلا فيه ولَه.

“اللہ ہی کے لئے (کسی سے ) محبت اور اللہ کی چاہت کے مطابق محبت”۔

یہ اللہ کی محبوب چیزوں سے  محبت کرنے  کا تقاضہ ہے ۔ اور اللہ کی پسندیدہ چیزوں کی محبت اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک اللہ کی چاہت کے مطابق اللہ ہی کے لئے محبت نہ ہو۔

چوتھی قسم:

“اللہ کے (علاوہ کسی دوسرے کے )ساتھ ( بھی ایسی)محبت کرنا(جو اللہ کے لئے نہ ہو)”۔

یہ شرکیہ محبت ہے، اور جو شخص بھی اللہ کے لئے نہیں بلکہ  اللہ کے ساتھ  کسی دوسری چیز سے بھی محبت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ کے علاوہ اسے  (بھی عبادت میں) شریک بنالیا ہے۔ اور یہی مشرکین کی محبت ہے۔

(اللہ کے لئے کسی دوسرے سے محبّت کرنے میں اور ایسی محبت میں جو کسی دوسرے سے ہو مگر اللہ کے لئے نہ ہو اس میں واضح فرق ہے اور شیخ کی مراد یہاں دوسری محبت ہے جو کسی  سے ہو مگر اللہ کے لئے نہ ہو۔حم)

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ

البقرة – 165

 بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے، اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔

اللہ کے بندوں! یاد رکھئے!

ہدایت کے رسول ﷺ پر درود بھیجیں،  اللہ نے اس کا حکم  قرآن مجید میں دیا ہے اور فرمایا ہے :

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

یا اللہ! محمدﷺ اور ان کی ازواج مطہرات اور ان کی اولاد پر رحمتیں نازل فرما جس طرح تونےابراہیم علیہ السلام کی آل پر رحمتیں نازل فرمائیں۔

یا اللہ! محمدﷺ اور ان کی ازواج مطہرات اور ان کی اولاد پر برکتیں نازل فرما جس طرح تونےابراہیم علیہ السلام کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو بہت تعریفوں والا اور بزرگی والا ہے۔

ا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ اور شرک اور مشرکوں کو رسوا کردے۔ اور یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

یا اللہ! اس ملک سمیت تمام مسلم ممالک  کو امن و سکون کا گہوارہ بنا دے۔

یا اللہ! شام میں  ہمارے بھائیوں کے ساتھ  جو کچھ ہورہا ہے تو اسے جانتا ہے اور اس پریشانی کو ختم کرنے پر بھی قادر ہے۔ یااللہ! ان کی مصیبت اور آزمائش کو دور فرمادے۔ یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! ان کی صفوں میں اتحاد پیدا فرما۔ یااللہ! ان کا حامی و ناصر اور معاون ہوجا۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! ان کی صفوں میں اتحاد پیدا فرما، ان کے نشانوں کو درست فرما اور اپنے اور انکے دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرما۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! ان کے دشمنوں کو ہلاک کردے۔ یا اللہ! شام میں سرکشی کرنے والے اور اس کے معاونین کو نیست و نابود کردے۔ یااللہ! اے طاقتور اور غالب! ان کے اتحاد کو پارا پارا کردے، ان کی اجتماعیت کوتباہ کردے، اور  انہیں گردشوں میں مبتلا فرمادے۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! کتاب کو نازل کرنے والے!  بادلوں کو چلانے والے!  لشکروں کو شکست دینے والے!  ان کی مدد فرما اور ان کے دشمنوں کو شکست دے۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! شام میں ان کے دشمنوں کو شکست دیدے، اور ہمارے شامی بھائیوں کی مدد فرما،بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے۔

یااللہ! یقینا ہمارے شامی بھائی بے لباس ہیں انہیں لباس مہیا فرما، وہ بھوک میں ہیں انہیں کھانا عطا فرما، وہ جوتیوں کے محتاج ہیں انہیں  جوتیاں عطا فرما، وہ مظلوم ہیں تو ان کا بدلہ لے لے، یااللہ! وہ مظلوم ہیں تو ان کا بدلہ لے لے۔ یااللہ! وہ مظلوم ہیں تو ان کا بدلہ لے لے۔ یااللہ! اے طاقتور!  اے غالب!  اے جبار! وہ مظلوم ہیں تو ان کا بدلہ لے لے، بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہماری دعا کو قبول فرما۔ یا اللہ! ہماری دعا کو قبول فرما۔ یا اللہ! ہماری دعا کو قبول فرما۔

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت کی دعا کرتے ہیں اور ہر اس قول و فعل کی دع کرتے ہیں جو جنت میں جانے کا ذریعہ ہو، اور تیری پناہ مانگتے ہیں آگ  سے اور ہر اس قول و عمل سے جو آگ میں جانے کا سبب ہو۔

یا اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جو ہمارے معاملات میں  عصمت (گناہوں سے بچنے) کا باعث ہے۔اور ہماری دنیا کو بھی سنوار دے جو ہمارے لئے ذریعہء معاش ہے۔اور ہماری آخرت بھی بہتر فرما جس میں ہمارا انجام ہے۔اور ہماری  زندگی کو نیکیوں میں اضافے کا سبب بنادے۔ اور موت کو ہر برائی سے راحت کا ذریعہ بنادے۔

یا اللہ! ہماری  معاونت فرما اور ہمارے دشمنوں کی معاونت  نہ فرمانا۔ یا اللہ! ہماری  مدد  فرما اور ہمارے دشمنوں کی مدد نہ فرمانا۔ اور  اپنی تدبیرہمارے حق میں فرمانا ہمارے خلاف نہ کرنا، اور ہمیں سیدھا راستہ دکھادے اور ہدایت کو ہمارے لئے آسان فرمادے، اور ہم پر زیادتی کرنے والوں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔

یا اللہ ہمیں اپنا ذکر کرنے والا بنادے، اپنا شکرگزار بنادے، اپنے سامنے عاجزی کرنے والا بنادےٍ، اپنے سامنے گڑگڑانے والا اور اپنی طرف  لوٹ کو آنے والا بنادے۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! ہماری توبہ قبول فرمالے، ہماری دعا قبول فرمالے، ہمارے دلوں سےحسد کو نکال دے۔ یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! تمام غمزدہ مسلمانوں کے غم کو دور فرمادے، پریشان حال لوگوں کی پریشانی دور فرمادے،  قرض داروں کا قرض ادا کروادے، ہمارے اور تمام مسمانوں کے بیماروں کو شفا عطا فرمادے اور ہمارے اور تمام مسلمانوں کے فوت شدگان کی مغفرت فرمادے۔

یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! ہماری توبہ قبول فرمالے، ہماری دعا قبول فرمالے، ہمارے دلوں سےحسد کو نکال دے۔ یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! تمام غمزدہ مسلمانوں کے غم کو دور فرمادے، پریشان حال لوگوں کی پریشانی دور فرمادے،  قرض داروں کا قرض ادا کروادے، ہمارے اور تمام مسمانوں کے بیماروں کو شفا عطا فرمادے اور ہمارے اور تمام مسلمانوں کے فوت شدگان کی مغفرت فرمادے۔

اللهم وفِّق إمامنا لما تُحبُّ وترضى، وخُذ بناصيتِه للبرِّ والتقوى، اللهم وفِّق جميعَ وُلاة أمور المُسلمين للعمل بكتابِك، وتحكيم شرعِك يا رب العالمين.

یا اللہ! ہمارے امیر کو ہر اس کام کی توفیق عطا فرما جس سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے، اور ان کی پیشانی سے پکڑ کر نیکی اور تقوی کے  کاموں میں لگادے۔ یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! تمام مسلمانوں کے حکمرانوں کو اپنی کتاب (قرآن مجید) پر عمل کرنے اور اپنی شریعت نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

الحشر – 10

اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف ہمارے دل میں کہیں (اور دشمنی) نہ ڈال ، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

الاعراف – 23

دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

البقرة – 201

اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90

اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

اور آپ سب اللہ کا ذکر کریں وہ بھی آپ کا ذکر کرے گا، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کریں وہ مزید عطا فرمائےگا، اور اللہ کا ذکر بہت بڑی بات ہے، اور اللہ جانتا ہے جو آپ سب کرتے ہیں۔

***

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ 

مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔