آخرت کی تیاری

آخرت کی تیاری

خطبہ اول:

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ ہم اس کی حمد کرتے ہیں، اس سے مدد و مغفرت چاہتے ہیں، ہم اس کی بارگاہ میں اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال سے پناہ لیتے ہیں۔ اللہ جسے ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت دے والا نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد(ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔

اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دی۔ اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بچو بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

اے ایمان والوں! اللہ سے ڈرو اور سیدھی اور سچی بات کیا کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے، تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابع داری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔

اما بعد:

سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے، سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بری چیز دین میں نئی چیز کی ایجاد ہے اور دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراھی ہے۔

میں آپ کو اور خود کو تقوی کی وصیت کرتا ہوں۔ تقوی انسان کو بلندی کے شرف، زمین کی صفائی اور کردار کی پاکیزگی کی طرف لے جاتا ہے۔ اکثر اصلاحی اور شرعی آیات کا اختتام تقوی پر ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ(تقوی) وہ مضبوط رابطہ ہے جو حواس کو اللہ کی اطاعت کی طرف کھینچتا ہے، اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے روکنے والی طاقت ور ڈھال ہے اور بندے کو اس کے خالق سے جوڑنے کا مضبوط ذریعہ ہے۔

لوگو! بے شک دنیا اپنے اختتام کی خبر دے چکی ہے، یہ رخصت ہونے کو ہے۔ اس میں سے کچھ باقی نہیں بچا سوائے اس قطرے کے مانند جسے کوئی برتن سے بمشکل نکال رہا ہو۔ یہ دنیا آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے جہاں مؤمن کو خوشی اور غمی، پریشانی اور خوشحالی، تندرستی اور بیماری، مالداری اور تنگدستی، شکوک و شبہات اور خواہشات کے ذریعے آزمایا جاتا ہے اور اس موت کے ذریعے بھی جو ہر زندہ چیز کا انجام ہے۔ اللہ نے لوگوں کو بڑے اجر کی بشارت دی ہے جو دنیا کی مصیبتوں اور پریشانیوں پر صبر کرتے ہیں۔

اللہ تعالی کا ارشار ہے :

وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ1

’’اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے‘‘۔

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ2

’’جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘۔

اللہ کے بندو! تم سب کو دنیا سے اس آخرت کی طرف منتقل ہونا ہے جو کبھی  بھی فنا نہیں ہوگی۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ والدین،اولاد، بھائیوں، پیاروں اور پڑوسیوں کو چھوڑ کر آخرت کے سفر کی طرف روانہ ہو رہے ہیں موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے ہم کو دو چار ہونا ہوگا۔

اللہ نے اسے (موت کو) چھوٹے بڑے امیر و غریب سب پر لکھ دیا ہے۔ موت کو نہ کوئی جاہ و منصب، نہ مال و دولت، نہ مددگار، نہ رکاوٹ اور نہ ہی مضبوط قلعہ روک سکتے ہیں۔ اگر کسی کے لیے دائمی بقا ہوتی تو اللہ کے پاکیزہ انبیاء اور معزز رسولوں کے لیے ہوتی اور اس کے سب سے زیادہ حقدار اللہ کے برگزیدہ، اولین و آخرین کے سردار ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے جنہوں نے لوگوں کو اللہ کے سیدھے راستے کی ہدایت دی۔

 موت ایک حتمی امر ہے جس سے کوئی بچ نہیں سکتا اور نہ ہی بھاگ سکتا ہے اگرچہ عمری کتنی ہی لمبی ہو جائیں وہ مضبوط سے مضبوط قلعوں اور پہاڑوں کے گہرے غاروں میں بھی ہم تک پہنچ جائے گی ۔تم جہاں کہیں ہو گے موت تمہیں آہی پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو۔

 اور اللہ کا فرمان ہے:

قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلَاقِيكُمْ ۖ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ3

’’کہہ دیجئے! کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی پھر تم سب چھپے کھلے کے جاننے والے (اللہ) کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں تمہارے کئے ہوئے تمام کام بتلا دے گا‘‘۔

اس لیے ہر عقلمند کو چاہیے کہ وہ اس زندگی کے بعد کے انجام پر غور کرے۔ اسے سوچنا چاہیے کہ وہ کس حال میں مرے گا؟ کس حال میں اس کی روح قبض کی جائے گی؟ فرشتوں کی کون سی جماعت اس کا استقبال کرے گی؟ اس کی ضیافت اور اس کے داخل ہونے کی جگہ کیسے ہوگی؟ کیا وہ قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کی صورت میں پائے گا؟ جہاں اسے مانوس ساتھی ملے گا یا وہ جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا پائے گا؟ جہاں اسے خوفناک ساتھی ملے گا۔ آدمی اس حال کا تصور کرے جس سے اس کو لازما گزرنا ہے۔ اسے موت کی شدت اور روح نکلنے کی کیفیت کو یاد رکھنا چاہیے جب اس کے اعضاء اکڑ جائیں گے، زبان گم ہو جائے گی، نگاہ پتھرا جائے گی، اس کے اہل و عیال اس کے ارد گرد رو رہے ہوں گے، گھر میں بچے واویلا کر رہے ہوں گے مال خزانوں میں پوشیدہ پڑا ہوگا لیکن اس وقت وہ اپنے دل کی پوشیدہ خزانے یعنی ایمان و عمل کے سوا کچھ بھی ساتھ نہ لے جا سکے گا۔

جس دن مال اور اولاد نفع نہیں دیکھی لیکن فائدے والا وہی ہوگا جو اللہ تعالی کے سامنے بے عیب ہو کر جائے۔ تم اپنی موجودہ چیزوں میں سے بہترین چیز یعنی نیک عمل، سچی بات اور اچھے اخلاق لے کر کوچ کرو۔ اس خوفناک مستقبل کے لیے تیار ہو جاؤ، اس راستے کے لیے سامان جمع کرو جس پر چلنا ضروری ہے اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو جاؤ۔ اللہ کی خوشنودی کے راستوں کی طرف جلدی کرو قبل اس کے کہ وہاں پہنچنا مشکل ہو جائے، اپنی آخرت کو اس طرح حق دو کہ وہ ہمیشگی کا گھر اور ٹھکانہ ہے اور اپنی دنیا کو اس طرح حق دو کہ وہ آخرت کے لیے ساز و سامان اور گزرگاہ ہے۔ اور تنہائی کے گھر، مٹی اور کیڑوں کے گھر، وحشت اور تنگی کے گھر کو یاد کرو اور لذتوں کو ختم کرنے والی اور لوگوں سے جدا کرنے والی موت سے غافل نہ رہو۔ دلوں کے پلٹنے والے اللہ کی پناہ لو، اس سے ثابت قدمی کی دعا کرو۔ ہم میں سے ہر ایک کی کوشش ہونی چاہیے کہ اللہ عزوجل کی اطاعت پر ہی اس کی موت ہو اور جان لو کہ حسن خاتمہ اسی کا ہوتا ہے جس کا باطن اچھا ہو کیونکہ موت کے وقت اسے اچھا نہیں بنایا جا سکتا۔

اے اللہ! ہمارے بہترین اعمال کو ہمارا آخری عمل بنا، ہمارے بہترین دن وہ ہوں جن میں ہم تیری رضامندی کے ساتھ تجھ سے ملیں تیرے انعام یافتہ بندوں کے ساتھ، تیری جنت اور تیرے قرب میں۔ اے اکرم الاکرمین۔

اللہ مجھے اور آپ کو قرانِ عظیم اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے نفع بخشے اور مجھ کو اور آپ کو اپنے دردناک عذاب سے بچائے اور میرے اور آپ کے اور تمام مسلمانوں کے گناہ بخش دے۔ بے شک وہ غفور و رحیم ہے۔

خطبہ ثانی:

تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ وہ احسان کرنے والا، ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ جبکہ زمین پر جو کچھ ہے وہ فنا ہو جائے گا اور صرف تمہارے رب کا جلال و عزت والا چہرہ ہی باقی رہے گا۔

میں اس کی حمد و ثنا کرتا ہوں، اس کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد(ﷺ) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو خیر خواہ، امانت دار اور اپنی امت پر نہایت شفیق و مہربان ہیں ۔ اے اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد(ﷺ) پر، ان کے آل و اصحاب پر بے شمار درود و سلام نازل فرما ۔

اما بعد:

 اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو، اس سے سچی توبہ کرو، دنیا کو اپنا سب سے بڑا ہدف اور اپنے علم کا مقصد نہ بناؤ۔ چوکنّا نہ رہو۔ اپنے فوت شدہ بچوں اور عزیز و اقارب اور دوستوں پر صبر کر کے ثواب کی امید رکھو، یقین رکھو کہ وہ اپنے اعمال کے انجام کو پہنچ چکے ہیں، اب وہ ارحم الراحمین کی رحمت میں ہیں، وہ اللہ کے ہاں اس شخص کے لیے ذخیرہ بن چکے ہیں جس نے ان کی وفات پر ثواب کی امید رکھی اور تقدیر کی تلقین پر صبر کیا۔ اللہ تم پر رحم کرے۔ اسلامی طریقے سے تعزیت کرو، جاہلیت کے طریقے سے نہیں! نیک اعمال میں جلدی کرو تاکہ تمہیں اللہ کا فضل و قبولیت نصیب ہو۔

 بیماری سے پہلے تندرستی کو ، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، مصروفیت سے پہلے فراغت کو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت جانو۔ کثرتِ ذکر اور شکر اور کثرتِ صدقہ کے ذریعے اپنے رب کے ساتھ تعلق مضبوط کرو تمہیں رزق ملے گا، مدد نصیب ہوگی، تمہاری حالت سور جائے گی۔

عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، گناہ سرزد ہونے کے بعد نیک عمل کرے اور موت کے بعد کی تیاری کر لے۔ جبکہ نادان وہ ہے جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگا رہے، اللہ سے صرف آرزوئیں باندھتا رہے۔

درود و سلام بھیجو خوشخبری دینے والے، ڈرانے والے، روشن چراغ پر جس کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ اے اللہ! درود و سلام ، برکت اور انعام نازل فرما اپنے بندے اور رسول، ہمارے نبی محمد(ﷺ) پر۔ جو روشن چہرے اور تابناک پیشانی والے ہیں۔

اللہ! چاروں ہدایت یافتہ اور راہنما خلفائے راشدین ابوبکر ، عمر، عثمان، علی سے راضی ہو جا۔ اپنے نبی کی تمام بقیہ صحابہ سے، آپ کی ازواج مطہرات امھات المومنین سے، آپ کے پاکیزہ اور نیک اہل بیت سے اور ان لوگوں سے جو تا قیامت ان کی اچھی طرح پیروی کریں۔

اے اللہ! ہم سے بھی اپنے فضل و کرم سے راضی ہو جا۔

اے رحم الراحمین! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ اسلام اور مسلمانوں کی ہر جگہ مد فرما۔

اے اللہ! فلسطین سمیت دنیا بھر کے تمام مظلوم مسلمانوں کو نجات دے ۔ یہودی غاصبوں پر اپنی گرفت سخت کر دے۔ انہیں گن گن کر ہلاک کر۔ ان میں سے کسی ایک کو باقی نہ چھوڑ ۔

اے اللہ! ہمارے وطنوں میں امن و امان قائم و دائم رکھ۔ ہمارے سربراہوں اور حکمرانوں کی حفاظت فرما۔ ہمارے سربراہ خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود  کی حق، راستگی اور تائید کے ذریعے مدد فرما۔ ان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ کے ذریعے ان کو مضبوط کر اور انہیں تقویت دے ۔

اے اللہ! ان دونوں کے لیے صالح اور خیر خواہ مشیر کار عطا فرما جو ان کی بھلائی کی طرف رہنمائی کرے اور اس پر ان کی مدد کرے۔

اے اللہ! تمام مسلمان حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل کرنے، تیری شریعت کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما ۔

اے اللہ! تمام زندہ اور فوت شدہ مسلم اور مومن مرد و خواتین کی مغفرت فرما۔

 اے اللہ! ہمارے اور مسلمانوں کے مُردوں پر رحم فرما جنہوں نے تیری وحدانیت اور تیرے نبی کی رسالت کی گواہی دی اور اسی حال میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔

اے اللہ! جب ہم ان کی طرح مٹی تلے پتھروں کے نیچے اپنے اعمال کے ساتھ تنہا ہو جائیں گے تو ہم پر بھی اپنی رحمت نازل فرما۔

اے اللہ ! پریشان حالوں کی پریشانیاں دور فرما، مسلمان مریضوں کو شفا عطا فرما، قرضداروں کے قرض ادا فرما۔

اے اللہ! ہماری سرحدوں پر مامور ہمارے فوجی نوجوانوں کو نصرت و کامیابی عطا فرما، ان کے شہداء پر رحم فرما، ان کے زخمیوں کو شفا دے، ان کے قیدیوں کو رہائی نصیب فرما۔ ہماری زمین مملکت سعودی عرب اور تمام مسلم ممالک کو ہر شر اور برائی سے حفاظت میں رکھ ۔

اے رب العالمین! اے اللہ! بے شک تُو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تُو بے نیاز ہے، ہم محتاج ہیں۔ ہم پر بارش نازل فرما۔ ہمیں نا امیدوں میں شامل نہ کر۔ اے اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔

اللہ کے بندو! بے شک اللہ تمہیں عدل و انصاف، احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ اللہ عزوجل کو یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا اور اس کی نعمتوں اور نوازشوں کا شکریہ ادا کرو۔

خطبہ جمعہ: مسجد الحرام                                                                  

20شوال 1446ھجری بمطابق 18 اپریل 2025 عیسوی

فضیلۃ الشیخ: عبد اللہ الجہنی حفظہ اللہ

_____________________________________________________________________________________________________________

  1. (سورۃ البقرۃ: 155)
  2. (سورۃ البقرۃ: 156)
  3. (سورۃ الجمعہ: 08)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ بن عواد الجھنی حفظہ اللہ