دنیا میں انسان کی ایک سعادت مندی یہ ہے کہ اس کی مانگی ہوئی دعائیں رب کی بارگاہ میں قبول کی جائیں یا لوگ اس سے اس درجہ محبت کریں کہ اس کے لیےپسِ پردہ دعائیں مانگیں۔چنانچہ ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ جب وہ کسی عالم سے درس یا لیکچر کے بعد ملاقات کرتے ہیں تو ان سے اپنے لیے صحت وعافیت ،نیک اعمال کی توفیق اور دنیا وآخرت میں کامیابی کیلئےدعا کی درخواست کرتے ہیں ۔جبکہ بعض احباب اپنے نیک بھائیوں سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی دعاؤں میں انہیں یادرکھیں ۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی شخص کی اپنے بھائی کے لیے پسِ پردہ میں کی گئی دعا قبول ہوتی ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ۔
دَعْوَةُ المَرْءِ المُسْلِمِ لأَخِيهِ بظَهْرِ الغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّما دَعَا لأَخِيهِ بخَيْرٍ، قالَ المَلَكُ المُوَكَّلُ بهِ: آمِينَ وَلَكَ بمِثْلٍ.
( صحيح مسلم : 2733)
“مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب ہوتی ہے، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے: آمین، اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو۔”
جب آپ کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ فلاں بزرگ، فلاں عالم،فلاں مفتی یا آپ کے والدین میں سے کسی نے آدھی رات کو آپ کی صحت وعافیت، کامیابی وکامرانی اور توفیقاتِ خیرکیلئے دعا کی ہے تو بلا شبہ آپ کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہتی لیکن اگر آپ کو بتایا جائے کہ چند اعمال ایسے ہیں جن کو اپنانے سے فرشتے بھی آپ کے لیے دعائیں کریں گے..!! جی ہاں فرشتے بھی آپ کے لیے دعا کریں گے۔تو یقینا آپ بیحد مسرت اور اطمنان محسوس کریں گے۔کسی شخص کیلئے اس سے بڑھ کر نیک بختی اور سعادت مندی اور کیا ہو سکتی ہےکہ اللہ کے فرشتے اس کے لیے دعائے خیر کرے۔ اوریہ تو آپ جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ مؤثر، سود مندا ور قبولیت کے سب سے زیادہ قریب فرشتوں کی دعائیں ہیں ۔جس بندے کے حق میں ایک فرشتہ بھی دعا کرے تو اس دعا کے قبول ہونے میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں ہے ۔
قرآن وحدیث سے یہ ثابت ہے کہ فرشتے مؤمنین کے لئے یا کچھ مخصوص اعمالِ صالحہ کرنے والوں کے لئے رحمت ومغفرت کی دعا کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا
(سورۃ أحزاب: 43)
اللہ وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تمہارے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کرروشنی کی طرف لے جائے اوراللہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔
دوسرے مقام پر عرش الہی کو اٹھائے ہوئے فرشتوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ
(سورۃ غافر:7)
جو فرشتے عرش اٹھائے ہوئے ہیں، اور جو فرشتے اس کے گرد جمع ہیں، یہ سب اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں، اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور ایمان والوں کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں، (کہتے ہیں) اے ہمارے پروردگار! تو نے اپنی رحمت اور علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے لہٰذا انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔
ان آیتوں سےیہ واضح ہو گیا کہ فرشتے مومنین کے لئے رحمت ومغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ رمضان کے مبارک مہینہ کی ہر گھڑی اورہر لمحہ دعا ؤں کی قبولیت کاہے، اس ماہ مبارک میں اگر ہم وہ اعمال اختیار کریں جن کے مسلسل انجام دینےپر قرآن وحدیث میں فرشتوں کی دعا کی خوشخبری دی گئی ہے تو ہم بھی فرشتوں کی دعاؤں کا حقدار بن سکتے ہیں ۔
پہلی صف میں کھڑے ہونے والے
فرشتوں کی دعاؤں کا مستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہے جو نماز کے لیے پہلی صف میں کھڑے ہوں ، چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّ اللَّهَ وملائِكتَهُ يصلُّونَ على الصَّفِّ الأوَّلِ
(صحيح ابن ماجه: 823 )
بیشک اللہ تعالیٰ پہلی صف والوں پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے، اور اس کے فرشتے پہلی صف والوں کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں ۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كانَ يستغفِرُ للصَّفِّ المقدَّمِ ثلاثًا وللثَّاني مرَّةً
(صحيح ابن ماجه: 822)
کہ رسول اللہ ﷺ پہلی صف والوں کے لیے تین بار اور دوسری صف والوں کے لیے ایک بار استغفار کی دعا فرماتے تھے ۔
نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھے رہنے والے
فرشتوں کی دعاؤں کا مستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہے جو نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھے رہتا ہے،حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَا يَزَالُ العَبْدُ في صَلَاةٍ ما كانَ في مُصَلَّاهُ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ، وَتَقُولُ المَلَائِكَةُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ له، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، حتَّى يَنْصَرِفَ، أَوْ يُحْدِثَ. قُلتُ: ما يُحْدِثَ؟ قالَ: يَفْسُو، أَوْ يَضْرِطُ.
(صحيح مسلم: 649)
کہ بندہ مسلسل نماز ہی میں ہوتا ہے جب تک وہ نماز کی جگہ پر نماز کے انتظار میں رہتا ہے اور فرشتے کہتے رہتے ہیں: اے اللہ! اسے معاف فرما!اے اللہ!اس پررحم فرما! یہاں تک کہ وہ چلا جاتا ہے یا بے وضو ہو جاتا ہے۔‘‘(ابو رافع کہتے ہیں) میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: یحدث کا مطلب کیا ہے؟ انھوں نے کہا: آواز کے بغیر یا آواز کے ساتھ ہوا خارج کر دے۔
صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
صَلاةُ أحَدِكُمْ في جَماعَةٍ، تَزِيدُ علَى صَلاتِهِ في سُوقِهِ وبَيْتِهِ بِضْعًا وعِشْرِينَ دَرَجَةً؛ وذلكَ بأنَّهُ إذا تَوَضَّأَ فأحْسَنَ الوُضُوءَ، ثُمَّ أتَى المَسْجِدَ لا يُرِيدُ إلَّا الصَّلاةَ، لا يَنْهَزُهُ إلَّا الصَّلاةُ -لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إلَّا رُفِعَ بها دَرَجَةً، أوْ حُطَّتْ عنْه بها خَطِيئَةٌ، والمَلائِكَةُ تُصَلِّي علَى أحَدِكُمْ ما دامَ في مُصَلَّاهُ الَّذي يُصَلِّي فِيهِ:اللَّهُمَّ صَلِّ عليه، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، ما لَمْ يُحْدِثْ فِيهِ، ما لَمْ يُؤْذِ فِيهِ. وقالَ: أحَدُكُمْ في صَلاةٍ ما كانَتِ الصَّلاةُ تَحْبِسُهُ1
جماعت کے ساتھ کسی کی نماز بازار میں یا اپنے گھر میں نماز پڑھنے سے23 تا 27 درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ کیونکہ جب ایک شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد میں صرف نماز کے ارادہ سے آتا ہے۔ نماز کے سوا اور کوئی چیز اسے لے جانے کا باعث نہیں بنتی تو جو بھی قدم وہ اٹھاتا ہے اس سے ایک درجہ اس کا بلند ہوتا ہے یا اس کی وجہ سے ایک گناہ اس کا معاف ہوتا ہے اور جب تک ایک شخص اپنے مصلے پر بیٹھا رہتا ہے جس پر اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے برابر اس کے لیے رحمت کی یوں دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ ’’ اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ اس پر رحم فرما۔“ یہ اس وقت تک ہوتا رہتا ہے جب تک وہ وضو توڑ کر فرشتوں کو تکلیف نہ پہنچائے جتنی دیر تک بھی آدمی نماز کی وجہ سے رکا رہتا ہے وہ سب نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔
انتظار کی گھڑیاں نماز شمار ہوگی
مسجد میں نماز کے لیے انتظار کی گھڑیاں نماز شمار ہوگی چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا يزالُ أحدُكُم في صلاةٍ ما دامَ ينتَظِرُها ، ولا تَزالُ الملائِكَةُ تصلِّي علَى أحدِكُم ما دامَ في المسجدِ ، اللَّهمَّ اغفِر لَهُ ، اللَّهمَّ ارحمهُ ، ما لم يُحدِثْ
(صحيح الترمذي: 330)
”آدمی برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ اس کا انتظار کرتا ہے اور فرشتے اس کے لیے برابر دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مسجد میں رہتا ہے، کہتے ہیں ’’ اے اللہ! اسے بخش دے“ اے اللہ! اس پر رحم فرما ۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَمَنْ يَنْتَظِرُ الصَّلاةَ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلائِكَةُ وَصَلاتُهُمْ عَلَيْهِ: اللهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللهُمَّ ارْحَمْهُ”۔2
جو شخص نماز کے انتظار میں ہوتا ہے تو فرشتے اس کے لئے بھی دعائیں کرتے رہتے ہیں اور فرشتوں کی دعا یہ ہوتی ہے: اے اللہ! اس کی مغفرت فرما, اے اللہ اس پر رحم فرما‘‘۔
ان احادیث سے مسجد میں بیٹھ کر نماز کے انتظار کرنے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے،نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد میں حدث کرنا فرشتوں کے استغفار سے محرومی کا باعث ہے۔نماز کے بعد بیٹھنے کی کئی صورتیں ہیں ، مثلا انسان سنتوں کے بعد فرضوں کا انتظار کر رہا ہو، یا فرضوں کے بعد سنتوں کے لئے بیٹھا ہو، یا دوسری نماز کا انتظار کر رہا ہو۔ یا ذکر اذکار میں مشغول ہو۔ ان شاء اللہ اس فضیلت سے محروم نہیں ہو گا۔ لہذا مسلمان کو چاہیئے کہ لا یعنی اور بےفائدہ مجالس و مشاغل کو چھوڑ کر مسجد کی مجلس اختیار کرے۔
مسلمان بھائی کیلئے غائبانہ دعا کرنے والے
فرشتوں کی دعاؤں کا مستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہے جواپنے مسلمان بھائی کیلئے غائبانہ دعا کرتے ہیں ، ام درداء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
دَعْوَةُ المَرْءِ المُسْلِمِ لأَخِيهِ بظَهْرِ الغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّما دَعَا لأَخِيهِ بخَيْرٍ، قالَ المَلَكُ المُوَكَّلُ بهِ: آمِينَ وَلَكَ بمِثْلٍ.
( صحيح مسلم: 2733)
“مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب ہوتی ہے، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے: آمین، اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو۔”
رات کو وضو کر کے سونے والے
فرشتوں کی دعاؤں کا مستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہے جو رات کوو ضوکرکے سوتے ہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ باتَ طَاهِرًا باتَ في شِعَارِهِ مَلَكٌ،لا يَسْتَيْقِظُ ساعَةً مِنَ الليلِ إلَّا قال المَلَكُ : اللهمَّ اغفرْ لِعَبْدِكَ فلانًا ، فإنَّهُ باتَ طَاهِرًا
(السلسلة الصحيحة : 2539)
”جو آدمی باوضورات گزارتا ہے، ایک فرشتہ اس کے پہلومیں رات گزارتا ہے، جب بھی وہ بندہ رات کی کسی گھڑی میں بیدار ہوتا ہے تو وہ فرشتہ کہتا ہے: اے اللہ! اپنے فلاں بندے کو بخش دے، کیونکہ اس نے باوضو حالت میں رات گزاری ہے۔“
ایک اور حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
طَهِّرُوا هذِهِ الأجسادَ طهَّرَكم اللهُ ، فإِنَّهُ ليس عبدٌ يبيتُ طاهرًا إلَّا باتَ معَهُ ملَكٌ في شعارِهِ ، لَا ينقَلِبُ ساعَةً مِنَ الليلِ إلَّا قال : اللَّهمَّ اغفِرْ لعبدِكَ ، فإِنَّه باتَ طاهِرًا3
ان جسموں کو پاک کرو اللہ تمہیں پاکیزگی عطا فرمائے ۔ جو بندہ بھی طہارت کی حالت میں سوئےیقیناً ایک فرشتہ اس کے ساتھ رات بسر کرتا ہے ۔جب بھی وہ شخص رات کے کسی وقت کروٹ بدلتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے : ” اے اللہ !اپنے بندے کو معاف فرما ، یقیناً وہ باوضو سویا تھا ”
باوضو ہو کرمسنون ازکار پڑھ کر سونے کی بہت برکات ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر انسان رات کو کسی وقت لیٹے لیٹے بھی دعا کرلے تو ان شاء اللہ مقبول ہوتی ہے۔ اور اگر اُٹھ کر نماز پڑھنے میں مشغول ہو تو بڑی سعادت کی بات ہے۔سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ما من مسلمٍ يَبِيتُ على ذِكْرٍ طاهرًا فيَتعارَّ من الليلِ فيسألُ اللهَ خيرًا من الدنيا والآخرةِ إلا أعطاه إياه
(صحيح أبي داود: 5042)
” جو شخص باوضو ہو کر اﷲ کا ذکر کرتے ہوئے سو جائے اور پھر رات کو کسی وقت اس کی آنکھ کھلے ( اور بستر پر اپنا پہلو وغیرہ بدلے ) اور اللہ سے دنیا و آخرت کی خیر میں سے جس چیز کا بھی سوال کرے گا، اللہ اسے ضرور عطا فرمائے گا۔
سیدنا ابو امامہ باھلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
مَن أوَى إلى فراشِهِ طاهرًا ،لَم ينقَلِبْ ساعةً منَ اللَّيلِ يسألُ اللَّهَ شيئًا مِن خيرِ الدُّنيا والآخرةِ إلَّا أعطاهُ اللَّهُ إيَّاهُ4
’’جس نے باوضو ہو کر اپنے بستر پر جگہ پکڑی اور وہ رات کی جس گھڑی میں بھی پہلو بدلے گا (جب بھی بیدار ہوگا) اور اللہ سے دنیا و آخرت کی خیر میں سے جس چیز کا بھی سوال کرے گا، اللہ اسے ضرور عطا فرمائے گا۔
اسی لیے نبی ﷺ نے نیند سے پہلے وضوء کرنے اور دعا پڑھ کر سونے کی فضیلت بیان کی ۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ:
إِذَا أتَيْتَ مَضْجَعَكَ، فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ علَى شِقِّكَ الأيْمَنِ، ثُمَّ قُلْ: اللَّهُمَّ أسْلَمْتُ وجْهِي إلَيْكَ، وفَوَّضْتُ أمْرِي إلَيْكَ، وأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إلَيْكَ، رَغْبَةً ورَهْبَةً إلَيْكَ، لا مَلْجَأَ ولَا مَنْجَا مِنْكَ إلَّا إلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بكِتَابِكَ الذي أنْزَلْتَ، وبِنَبِيِّكَ الذي أرْسَلْتَ، فإنْ مُتَّ مِن لَيْلَتِكَ، فأنْتَ علَى الفِطْرَةِ، واجْعَلْهُنَّ آخِرَ ما تَتَكَلَّمُ بهِ5
“جب تم اپنی خواب گاہ میں آؤ تو نماز کی طرح وضو کرو، پھر اپنے داہنی جانب پر لیٹ جاؤ اس کے بعد یہ دعا پڑھو
اللَّهُمَّ أسْلَمْتُ وجْهِي إلَيْكَ، وفَوَّضْتُ أمْرِي إلَيْكَ، وأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إلَيْكَ، رَغْبَةً ورَهْبَةً إلَيْكَ، لا مَلْجَأَ ولَا مَنْجَا مِنْكَ إلَّا إلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بكِتَابِكَ الذي أنْزَلْتَ، وبِنَبِيِّكَ الذي أرْسَلْتَ
اے اللہ ! میں نے تجھ سے امیدوار اور خائف ہو کر اپنا منہ تیری طرف جھکا دیا اور (اپنا) ہر کام تیرے سپرد کردیا اور میں نے تجھے اپنا پشت و پناہ بنالیا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ تجھ سے (یعنی تیرے غضب سے) تیرے پاس کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ اے اللہ میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل فرمائی ہے اور تیرے اس نبی پر (بھی) جسے تو نے (ہدایت خلق کے لئے) بھیجا ہے۔پس اگر تو اسی رات میں مرا تو ایمان پر مرے گا اور اس دعا کو اپنا آخری کلام بنالے”۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص سونے سے پہلے وضوء کرے اور مذکورہ دعا پڑھ کر سو جائے اوراگر وہ مرجاتا ہے تو اس کی موت فطرت پر یعنی اسلام پر ہوگی۔
اگلی صفوں میں نماز ادا کرنے والے۔
فرشتوں کی دعاؤں کا مستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہے جو نماز کے لیےاگلی صفوں میں کھڑا ہوتا ہے،حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں:
كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ يتخلَّلُ الصُّفوفَ من ناحيةٍ إلى ناحيةٍ يمسحُ مناكبنا وصدورَنا ويقولُ لا تختَلِفوا فتختلِفَ قلوبُكُم . وَكانَ يقولُ إنَّ اللَّهَ وملائِكتَهُ يصلُّونَ على الصُّفوفِ المتقدِّمةِ6
کہ رسول اللہ ﷺ (تکبیر تحریمہ کہنے سے پهلے) ایک سرے سے دوسرے سرے تک صفوں کے درمیان چلا کرتے تھے۔ ہمارے کندھوں اور سینوں کو ہاتھوں سے پکڑ پکڑ کر سیدھا کرتے اور فرماتے تھے: آگے پیچھے کھڑے نہ ہو ورنہ تمھارے دل ایک دوسرے سے مختلف ہو جائیں گے (ان میں پھوٹ پڑ جائے گی)۔ اور فرماتے تھے: تحقیق اللہ تعالیٰ اگلی صفوں کے لیے خصوصی رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور اس کے فرشتے ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔
صفوں میں دائیں طرف کھڑے ہونے والے۔
فرشتوں کی دعاؤں کا مستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہے جو صفوں میں دائیں طرف کھڑےہوں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ اللهَ وملائكتَه يُصلُّونَ على مَيامينِ الصُّفوفِ7
صفوں کے دائیں جانب پر اللہ تعالیٰ اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور اس کے فرشتے دعائے خیر کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ ہر اس کام میں دایئں طرف کو ترجیح دیتے تھےجو طبعاً شرعاً مستحسن ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ارشاد ہے۔رسول اللہ ﷺ اپنے تمام کاموں میں (جیسے)وضو کرنے، کنگھی کرنے اور جوتے پہننے میں دایئں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔8
صفوں کو ملانے اور جوڑنے والے۔
فرشتوں کی دعاؤں کا مستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہے جو صفوں كو جوڑے اور ملائے۔ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
إنَّ اللَّهَ وملائِكتَهُ يصلِّونَ على الَّذينَ يصلونَ الصُّفوفَ ومن سدَّ فرجةً رفعَهُ اللَّهُ بِها درجةً
( صحيح ابن ماجه: 821)
”بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں پہ اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے دعا کرتے ہیں جو صفوں كو ملاتے هیں، اور جو شخص صف میں خالی جگہ بھر دے تو اللہ تعالیٰ اس کے سبب اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا“۔
نماز فجر اور عصر با جماعت ادا کرنے والے۔
فرشتوں کی دعاؤں کامستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہےجو فجر اور عصر کی نماز با جماعت ادا کرتا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
مَنْ صلى الفجرَ ثم جلس في مُصلَّاه صلتْ عليه الملائكةُ وصلاتُهم عليه : اللهم اغفرْ له اللهم ارحمْه ۔9
کہ جس نے فجر کی نماز پڑھی پھر وہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھا رہا تو فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں , اور فرشتوں کی دعا یہ ہوتی ہے: اے اللہ! اس کی مغفرت فرما،اے اللہ اس پر رحم فرما۔
ایک اور مقام پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
تجتمِعُ ملائكةُ اللَّيلِ و ملائكةُ النَّهارِ ، في صلاةِ الفَجرِ ، و صلاةِ العَصرِ ، فيجتَمِعونَ في صَلاةِ الفجرِ ، فتصعَدُ ملائكةُ اللَّيلِ ، وتَثبتُ مَلائكةُ النَّهارِ ، ويجتمِعونَ في صلاةِ العَصرِ ، فتصعَدُ ملائكةُ النَّهارِ ، وتثبُتُ ملائكةُ اللَّيلِ ، فيَسألهُم ربُّهم : كيفَ تَركتُم عِبادِي ؟ فيقولونَ : أتَينَاهم وهُم يُصلُّونَ ، وتركنَاهُم وهم يُصلُّونَ ، فاغفِرْ لهم يومَ الدِّينِ
(صحيح الترغيب: 463)
“رات اور دن کے فرشتے فجر اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں, چنانچہ جب فجر میں جمع ہوتے ہیں تو رات کے فرشتے چڑھ جاتے ہیں, اور دن کے فرشتے باقی رہتے ہیں, اور جب عصر میں جمع ہوتے ہیں تو دن کے فرشتے چڑھ جاتے ہیں، اور رات کے فرشتے باقی رہتے ہیں ، چنانچہ ان کا رب ان سے پوچھتا ہے (حالانکہ وسب کچھ جانتا ہے) میرے بندوں کو تم نے کس حالت میں چھوڑا؟ تو وہ کہتے ہیں: ہم ان کے پاس سے آئے اس حال میں کہ و نماز پڑھ رہے تھے اور نماز ہی کی حالت میں ہم انہیں چھوڑ کر آئے ہیں, لہذا قیامت کے دن ان کی مغفرت فرما دینا”۔
روزہ کی نیت سے سحری کرنے والے
فرشتوں کی دعاؤں کامستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہےجو روزہ رکھنے کی نیت سے سحری کرتا ہے ،حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ و مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ على المُتَسَحِّرِينَ
(السلسلة الصحيحة: 1654)
’’ بیشک اللہ تعالیٰ ان لوگوں پہ اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے دعا کرتے ہیں جو سحری کرتے ہیں‘‘۔
نبی ﷺ پر دُرود بھیجنے والے۔
فرشتوں کی دعاؤں کامستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہےجو نبی ﷺ پر دُرود بھیجتا رہتا ہے۔حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ما مِن مُسلِمٍ يصلِّي عليَّ إلَّا صلَّت عليهِ الملائِكةُ ما صلَّى علَيَّ فليُقلَّ العَبدُ من ذلِكَ أو ليُكثِرْ10
”جب کوئی مسلمان مجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، اب بندہ چاہے تو مجھ پر کم درود بھیجے یا زیادہ بھیجے“۔
لوگوں کو نیکی وبھلائی کی تعلیم دینے والے۔
فرشتوں کی دعاؤں کامستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہےجو لوگوں کو نیکی وبھلائی کی تعلیم دیتا ہے ۔حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
ذُكِرَ لرَسولِ اللهِ صلَّى اللهُ علَيه وسلَّم رجُلانِ؛ أحدهما عابدٌ، والآخَرُ عالِمٌ، فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ علَيه وسلَّم: فضلُ العالمِ على العابدِ كفضلي على أدناكم ثمَّ قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ : إنَّ اللَّهَ وملائِكتَهُ وأَهلَ السَّماواتِ والأرضِ حتَّى النَّملةَ في جُحرِها وحتَّى الحوتَ ليصلُّونَ على معلِّمِ النَّاسِ الخيرَ11
رسول اللہ ﷺ کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و برکت کی دعائیں کرتی ہیں۔
راہِ خیر میں خرچ کرنے والے۔
فرشتوں کی دعاؤں کامستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہےجوراہِ خیر میں خرچ کرتا ہے،سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
ما مِن يَومٍ يُصْبِحُ العِبادُ فِيهِ، إلَّا مَلَكانِ يَنْزِلانِ، فيَقولُ أحَدُهُما: اللَّهُمَّ أعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ويقولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا12
”ہر دن جس میں بندے صبح کرتے ہیں، دو فرشتے اترتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا متبادل عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے (مال) کو ضائع فرما دے۔“
وہ روزہ دارجس کے پاس کوئی روزہ افطار کرے۔
فرشتوں کی دعاؤں کامستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ روزہ دار ہے جس کے پاس لوگ کھانا کھائیں ۔حضرت ام عمارہ بنت کعب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
أتانا رسولُ الله صلى الله عليه وسلم، فقربنا إليه طعاما، فكان بعض من عنده صائما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:الصائمُ إذا أُكِلَ عندَه الطعامُ ، صلَّتْ عليه الملائكةُ13
کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، تو ہم نے آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا پیش کیا، آپ کے ساتھیوں میں سے کچھ لوگ روزے سے تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”روزہ دار کے سامنے جب کھانا کھایا جائے (اور وہ صبر کرے) تو فرشتے اس کے لیے دعا کرتے ہیں“
اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی کسی کے پاس افطار کرے تو یہ دعا پڑھے :
أفطرَ عندَكُمُ الصَّائمونَ ، وأكَلَ طعامَكُمُ الأبرارُ ، وصلَّت عليكمُ الملائِكَةُ14
روزہ داروں نے تمہارے ہاں روزہ افطار کیا۔نیک لوگوں نے تمہارا کھانا کھایا اور فرشتوں نے تمہیں دعائیں دیں۔
بیماروں کی عیادت کرنے والے
فرشتوں کی دعاؤں کامستحق بننے والے خوش نصیب لوگوں میں ایک وہ شخص ہےجوبیماروں کی عیادت کرتا ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان كرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا، آپ فرما رہے تھے:
إذا عاد الرجلُ أَخاهُ المسلِمَ مَشَى في خِرافَةِ الجنةِ حتى يَجلِسَ، فإذا جلَس غمرَتْه الرحمةُ، فإن كان غُدوَةً صلَى عليه سبعونَ ألفَ مَلَكٍ حتى يُمسِيَ، وإن كان مَساءً صلَّى عليه سبعونَ ألفَ مَلَكٍ حتى يُصبِحَ
(السلسلة الصحيحة: 1367)
جب آدمی اپنے مسلمان بھائی كی عیادت کرنے کے لئے آتا ہے تو وہ جنت كے باغیچے میں چلتا رہتا ہے حتی كہ آكر بیٹھ جائے، جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے ۔ اگر صبح كے وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے شام ہونے تك اس كے لئے دعا كرتے رہتے ہیں اور اگر شام كے وقت میں ہو تو صبح تك ستر ہزار فرشتے اس كے لئے دعا كرتے رہتے ہیں۔
مسند احمد كے اندر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن عادَ مريضًا بَكَرًا شيَّعَهُ سَبعونَ ألفَ ملَكٍ ، كلُّهم يستَغفرُ لَهُ حتَّى يُمْسيَ ، وَكانَ لَهُ خَريفٌ في الجنَّةِ ، وإن عادَهُ مساءً شيَّعَهُ سبعونَ ألفَ ملَكٍ كلُّهم يَستغفرُ لَهُ ، حتَّى يُصْبِحَ وَكانَ لَهُ خريفٌ في الجنَّةِ15
جوشخص صبح کے وقت مریض کی عیادت کے لئے نکلے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں، سب کے سب اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ شام ہو جائے، اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوتا ہے، جوشخص شام کے وقت مریض کی عیادت کے لئے نکلے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں، وہ اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے،اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوتا ہے۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی الله عنه کا اپنا فرمان ہے :
ما من رجلٍ يعودُ مريضًا ممسيًا إلا خرج معه سبعون ألفِ ملكٍ يستغفرون له حتى يصبحَ وكان له خريفُ في الجنةِ ومن أتاه مُصْبِحًا خرج معه سبعون ألفِ ملكٍ يستغفرون له حتى يمسيَ وكان له خريفُ في الجنةِ
(صحيح الترغيب: 3476)
جو شخص شام کے وقت کسی مریض کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے بھی نکلتے ہیں جو اس کے لیے صبح تک بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور جنت میں اسے ایک باغ بھی حاصل ہو گا ‘ اور جو کوئی صبح کے وقت عیادت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں جو اس کے لیے شام تک بخشش مانگتے رہتے ہیں اور جنت میں اسے ایک باغ بھی حاصل ہو گا ۔
اللہ تعالی رمضان المبارک کے اندر ہم سب کومذکورہ اعمال کو اپنانے اور ان پر ہمیشہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم سب فرشتوں کی دعاؤں کے مستحق بن جائیں ۔ آمین
- (صحيح البخاري: 2119، وصحيح مسلم : 649)
- (حسّنه أحمد شاکر في تخريج المسند: 2/306 )
- (صحيح الجامع.: 3936 وصحیح الترغیب: 599 )
- (حسّنه الألباني في الكلم الطيب: 43)
- (صحيح البخاري: 247 ومسلم:2710)
- (صحيح النسائي: 810)
- (حسّن إسنادہ شعيب الأرنؤوط في تخريج شرح السنة : 819 )
- (صحیح البخاري: 168، وصحیح مسلم: 268)
- (رواہ أحمد وحسّنہ أحمد شاکرفی تخريج المسند: 2/306)۔
- (صحيح ابن ماجه: 748 و صحيح الجامع: 5744)
- (صحيح الترمذي: 2685 وصحيح الجامع: 4213)
- (صحيح البخاري: 1442 ، ومسلم :1010)
- ( ابن ماجہ : 1748 ، وقال ا لشيخ زبير على زئي: إسناده حسن)
- (صحيح أبي داود: 3854، وصحيح الجامع : 1137)
- (تخريج المسند، لأحمد شاكر : 2/206 بإسناد صحيح)