محترم جناب محمد طاہر نقّاش کا شمار جماعت کے نامی گرامی صحافیوں میں ہوتاہے ۔ عرصہ دراز سے دعوت وجہاد کے قافلے سے وابستہ ہیں ۔ اور اپنی زندگی کو اسی میدان کیلئے وقف کردیا ہے ۔ آپ کے کالم ہفت روزہ ’’غزوہ ‘‘ میں تسلسل سے چھپتے رہے ہیں ۔ سلگتے معاشرتی مسائل کو خوبصورت تربیتی واصلاحی پیرائے میں تحریر کرنےکے ملکہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نوازا اور قبول عام بھی دیاہے ۔ اللهم زد فزد۔ حال ہی میں ان کے کالموں کا مجموعہ ’’ قلم کے آنسو ‘‘دو جلدوں میں شائع ہوا ہے ۔ البیان کی یہ خصوصی اشاعت چونکہ اسلامی ثقافت ومعاشرت سے متعلق تھی اس لئے میں نے اپنے ا شاگرد رشید جناب حافظ مقصود احمد کے توسط سے موصوف سے دو کالموں کو بغرض افادہ عام ( پردے میں رہنے دو ۔ اور عشقیہ تحریریں پاؤں کی زنجیریں ) البیان کی اشاعت خصوصی میں شامل کرنے کی خواہش ظاہر کی آپ نے بخوشی اس پر رضامندی ظاہر کردی ۔ فجزاه الله عنا وعن المسلمین خیر الجزاء ۔ إنه ولی التوفیق ۔
(خالد حسین گورایہ مدیر سہ ماہی البیان کراچی )
ہر انسان کو اپنے ننھیال اور دودھیال سے جبلی طور پر محبت ہوتی ہے۔ ایسے ہی مجھے بھی چک نمبر143گ ب(تحصیل سمندری) سے اور اس کے باسیوں سے بہت محبت ہے، کیونکہ یہ میرا ننھیال ہے۔ بچپن میں سمندری شہر سے اس گاؤں کےــ‘ سائیکل پر ہفتہ میں دوچکر تو لازمی لگتے تھے۔ کبھی کبھی ڈاٹسن ڈالے پر بھی جا نا پڑتا تھا۔ میں تھوڑی دیرگاؤں میں ٹھہر تا اور نانی جان سے مل کر واپس سمندری آ جا تا۔ ایک دفعہ ایسے ہی ڈالے میں بیٹھا‘ واپس آ رہا تھا‘ راستہ میں ایک بے پردہ خاتون سوار ہوئیں۔ ابھی مزید تھوڑا سا سفر کیا تھا کہ ایک لڑکا بھی سواریوں کے ساتھ گاڑی کے پیچھے لٹک گیا۔ ہر سواری کو اپنے سٹاپ نہ گزرجانے کا خوف تھا اور وہ کنڈیکٹر کو اپنا سٹاپ یاد دلا رہے تھے کہ کہیں بھول کر گزار نہ دینا اورہمیں پھر پیچھے کی طرف اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے پیدل سفر کرنا پڑے۔ وہ لڑ کا مسلسل ٹکٹکی باندھ کر اس خاتون کو بٹر بٹر اور ٹکر ٹکر دیکھے جا ربا تھا‘ جو ایک لائن میں اپنی سیٹ پر برقعہ پہنےبر اجمان تھی۔
عورت حیران ہو کر دیکھ رہی تھی اور شرمندہ ہو کر چھوئی موئی بنتی چلی جا رہی تھی کہ بد معاش د یدے پھاڑپھارُ کر مجھے کیوں دیکھ رہا ہے۔ لڑ کا تھا کہ اس کے کبھی کبھار غیرت اورحیرت سے اس دیکھنے کو بھی کچھ اور مطلب و معانی پہنا رہا تھا۔ وہ اس کے دیکھنے پر ہلکا سامسکرا دیتا اور کبھی کبھار محبت بھرے نغمے اور اشعار اپنی ہی ترنگ میں آہستہ آہستہ گنگنانے لگتا۔ باقی سوار یاں یہ سب تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں مگر مسلسل خاموش تھیں۔ کچھ لوگ آپس میں دبے دبے لفظوں میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ یہ لڑکا تو اس خاتون کے پیچھے ہاتھ دھو کر ہی پڑ گیا ہے۔ جب ایک سیٹ خالی ہوئی تو لڑ کا فورا ًکو اندر لپکا اور سیٹ پربیٹھ کر اپنے سامنے گھور نے لگا۔ کنڈیکٹر نے یہ منظر دیکھ کر اس سے پوچھا: جو ان کہاں جاؤگے‘ کون سے سٹاپ پر اتاروں تجھے؟ نو جوان نے بغیر عورت کے چہرے سے نظریں ہٹائےکہا جب میر اسٹاپ آ جائے گا تو تجھے بتا دوں گا۔ اب وہ اللہ کی بندی خاتون شر مند گی پریشانی اور پشیمانی کی بنا پر پسینے میں بھیگی چلی جا رہی تھی۔یہ مکر وہ کھیل و تماشا چلتا رہا حتیٰ کہ گو جر ہ موڑکا سٹاپ آیا اور وہ عورت تیزی سے اٹھی تا کہ اپنے سٹاپ پر اتر جائے۔ یہ صورتحال دیکھ کر یہ نوجوان بھی اس کے پیچھے نیچے اتر گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟اس لئےکہ خالق کائنات نے عورت کوعورت بننے کا حکم دیا ہے، عورت کا معنی ہی ایسی چیز ہے جو تمام اطراف سے مکمل طور پرڈھانپی گئی ہو اور چھپائی گئی ہو۔ جب چھپائی جا نے والی چیز کو ظاہر کر دیا جائے اور وہ ظاہرکرنے والی بذات خود عورت ہی ہوتو پھر نتیجے تو ایسے ہی نکلیں گے۔اسلام نے عورت کو پردہ کا حکم دیا ہے ۔ اسے حکم دیا ہے کہ وہ اپنی زینت کو چھپا کررکھے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چہرہ عورت کے زینت والے مقامات میں سے سب سے زیادہ اہم ہے۔
اس لئےہربہن کو چاہئے تو یہ کہ وہ چہرے کو سب سے پہلے چھپائے۔وقت کے گزر نے اور جدید ترقی یافتہ دور کی آمد نے شرعی پر دے کے بھی جدید اور نت نئےاسلوب اور ڈھنگ متعارف کروائے ہیں۔
ایک گمراہ عورت کا پلکنگ کرکے، بھنویں بنا کر،کاجل و سرمہ لگا کر ، پھر ابروپر مختلف شیڈز لگا کر، آنکھوں میں ڈیلوں پر سرخ ڈور ے بنا کر‘ تھریڈنگ کے لوازمات اپنا کر، یہ سارے آنکھوں کی تزئین و آرائش اور حسن و جمال کو چار چاند لگا نے والے جتن کر کے گھرسے باہر نکلنا ۔۔۔۔۔اور پھر چاروں طرف آنکھیں گھما گھما کر ۔۔۔۔۔۔
مٹکامٹکا کر د یکھنا ۔۔۔۔ مستی اورخر مستی میں ہنس ہنس کر غیر محرموں دکاندارو ں وغیرہ سےباتیں کرنا۔۔۔۔۔ اور پھر فتنوں کےآتش فشاں پھٹا کر واپس آ نا اور یہ دعویٰ کرنا کہ’’۔۔۔۔۔ میں تو مکمل پردہ میں ہوں‘‘ کیا ایسی عورت کو مندرجہ بالالوازمات یا اس سے کچھ کم کو اپنا نے والی عورت کو ہم’’ پردہ دار‘‘کہہ سکتے ہیں ؟ یہ نادان فتنے کی جڑ ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ بننے سنورنے کے اتنے مرحلے طے کرنے کے بعد ہی کیوںبازار جاتی ہیں ـ؟ عورت تو ایسے تباہ کن لوازم کے بغیر بھی مکمل فتنہ ہے۔ ایسی عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زانیہ کہا ہے۔ آپ نے تین دفعہ فرمایا :جو عورت( و و سروں تک پہنچنے والی ) خوشبو لگا کر بازار سے یا چوک سے گزرتی ہے وہ زانیہ ہے،زانیہ ہے، زانیہ ہے۔ لفظ ’’عورت‘‘کے معنی پر کبھی غور کیا ہے آپ نے ؟ اس کا معنی ہے ایسی خاتون جس کے جسم کا کوئی بھی حصہ کوئی غیر محرم مرد نہ دیکھ سکے‘حتیٰ کہ اس کےناخن بھی، وہاں کا بھی پردہ کرے چہ جائیکہ وہ پورا چہرہ ہی ننگا لئے پھرے یا کچھ جاذب نظر اور پر کشش حصہ بنا سنوار کر اس کی نمائش کرتی پھرے اور فتنے کے دروازے کھولتی پھرے۔ نگاہوں کےفتنے سے کون واقف نہیں ؟نگاہوں کے تصادم سے ہی تو بہنوں کی بد نامی ہوتی ہے۔ نا کامی ہو تی ہے۔ بے باک اور عریاں نگاہوں سے شیطان تیر کا کام لیتا ہے۔ برق شرربار کا کام لیتاہے، خنجرپیکار کا کام لیتا ہے۔ نظر کا تیر جب کمان سے نکلتا ہے تو جگر کے پار ہو جاتا ہے، آدمی کو شیطان ورغلاتا ہے اور وہ اللہ کی نافرمانی کر کے کفر کے ارتکاب تک پہنچ جاتا ہے۔اصل اورشرعی پر دے کے تقاضوں کو پورا کر نے والے یا ان کے قریب ترین لبا س پہننےسے آج کل نفرت کی جانے لگی ہے۔ جدید دور کے تقاضے بھی جدید ہی سمجھے جانے لگےہیں۔ ٹوپی برقعہ یا دیگر تسلی بخش حجاب کے لوازمات کو اپنا نے وا لوں کو بنیاد پرست، رجعت پسند،جاہل اور پسماندہ ذہنوں اورعملوں کے مالک سمجھا جاتا ہے اور انہیں حقیر جا نا جا تا ہے۔سر پر علامتی دوپٹہ رکھ کر چہرہ اس لئےننگا رکھا جا تا ہے کہ بقول بعض الناس اس میں خاتون محترم با وقار،مہذب، سلیقہ شعاریافتہ اور’’ اچھی‘‘ نظر آتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ توانا،صحت مند ا ور جو ان نظر آتی ہے۔ میں نے ایک دفعہ اپنی ایک عزیزہ کو کہا کہ آپ ٹوپی برقعہ اوڑھ کر گھر سے باہر جا یا کریں۔ یہ آپ کیلئےزیادہ بہتر اور ساتر ہو گا۔ وہ تڑاخ سے بولی: میں کوئی بوڑھی ہو گئی ہوں جو قبر نما ٹوپی برقعہ پہن کر کار ٹون بن جاؤں۔ میں نے فوراً کہا: ہاں !۔۔۔۔۔ تو یہی وہ جو ان خوبصورت اور کڑی چڑی نظر آنے کی شیطانی خواہش ہے جس نے تمہیں غیر محفوظ کر دیا ہے۔ تمہاری عزت و ناموس کے تحفظ کو مشکوک بنا دیا ہے۔
میرے کلاس فیلو اور دوست ابراہیم ظہیرآف چیچہ وطنی بتاتے ہیں کہ میر ی بھانجیاںکراچی میں ٹوپی برقعہ پہن کر سکول جاتی ہیں۔ کبھی ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیںآیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید بوڑھی عورتیں چلی جا رہی ہیں اور توجہ نہیں دیتے۔ یہی تو ہم چاہتے ہیں کہ وہ بحفاظت سکول جائیں اور واپس آئیں۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کوئی انہیں جوان ہوتے ہوئے بھی بوڑھی سمجھتا ہے‘ بلکہ اس میں ہی بہتری ہے۔ پردے کے اس انداز سے وہ کسی بد بخت کی شرارت سے تو محفوظ ہو گئیں۔ لیکن آج کل ہماری بچیوں پر تو یہ خبط سوارہے کو وہ جو ان اور بھر پور نظر آئیں۔ اس شیطانی خواہش کی با رہا ان کو بھاری قیمت چکانی پڑ تی ہے۔
ایک معزز و محترم بہن نے ایک دفعہ فون پر پو چھا کہ جب ہم بازار سے گزرتےمیں تو راستے میں کھڑے اوباش لوگ ہمیں اس انداز سے دیدے پھاڑ کر دیکھتے ہیں جیسے ابھی کچا کھا جائیں گے۔ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ میں نے کہا: بہن! مجھے اس بات کا قطعاً علم نہیںکہ وہ یہ مذموم حرکت کیوں کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کی اپنی بیٹیاں یا بہنیں نہ ہوں۔۔۔۔۔ البتہ میرا ایک اندازہ ہے کہ آپ ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اور قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سراپا فتنہ بن کر اللہ کے عذاب کو دعوت دیتی ہوئی باہرنکلتی ہوں گی ؟ میری بات کاٹ کر بہن کہنے لگی: یہ عذاب اور فتنے والی بات کیا ہوئی ؟ میں نے وضاحت کی کہ ضرور آپ’’ ڈا کو پردہ‘‘ کر تی ہوں گی‘ الو کی طرح آنکھیں گھماتے ہاتھ نچا تے باہرنکلتی ہوں گی‘ نہ ہاتھوں پر دستانے اور نہ پنڈلیاں ڈھکی و چھپی ہوئی ہوں گی۔ جن کے دل میں غلاظت کے جراثیم ہیں‘ شیطان ان لوگوں کو اس دین کی باغی اور فتنہ پرور خواتین کے پیچھے لگا دیتا ہے۔ آپ آج ہی قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کر تے ہوئے ہاتھوں‘ پاؤں اور آنکھوں کا مکمل پردہ کریں‘ نگاہیں نیچی کر کے کھلا و کشادہ اور سادہ برقعہ و لباس پہن کر عفت و عصمت کی متوالی‘ شرم و حیا ء کی رکھوا لی بن کرنکلیں۔ اللہ آپ کی ذات میں وہ تقدس رکھ دے گا کہ وہی لوگ آپ کو دیکھ کر ادب و احترام سےنظریں جھکا لیں گے اور لوگوں کو راستے سے ہٹائیں گے کہ بہن کو گزر نے دو۔ آپ تجربہ کریں اور اگر پھر ناکامی ہو تو مجھے اطلاع دیں ۔ الحمدللہ ! آج تک اس معززبہن کی شکایت دوبارہ نہیں آئی ۔
ایسا پردہ یعنی ڈاکو پردہ جیسا رویہ اختیار کرنا نا دان دیندار لوگوں کی مجبوری ہے۔ وہ بھولے بھالے نا دان ہیں‘نہیں سمجھتے کہ یہ پردہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے پردہ کے تقاضے پورےنہیں کرتا۔ وہ جدید ماڈرن فیشن ایبل بھی رہنا چاہتے ہیں اور اپنے اوپر کسی قسم کا بے راہ روی و دین سے دوری وغیرہ کا الزام بھی نہیں آنے دینا چاہئے لہٰذایا وہ اپنینا قص سمجھ کے مطابق درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے آنکھوں کی بدکاری وزناکاری کے مرتکب اس پردے کو اختیار کر لیتے ہیں کہ اس فیشن ایبل ماڈرن پردے سے ہم دونوں طرف چل جائیں گے اور قابل قبول ہوں گے۔ حالانکہ یہ دورخی پالیسی آدمی کو کسی گھاٹ کی نہیں رہنے دیتی۔ ہر مومن مسلمان یک رنگ ہو تا ہے دورنگ نہیں‘اسی لیے شاعر نے کہا ہے:
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم ہو جا یا سنگ ہو جا
اور اس پردے کے متعلق دوسرے شاعر نے کھل کر یہ بات کہہ دی ہے کہ:
عجب پردہ ہے کہ چلمن میں چھپے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
ماڈرن د یندار و ں کے ماڈرن پر د ے کی ایک جھلک ان کے خوشنما‘ دیدہ زیب‘ خوبصورت لباسوں سے بھی نظر آتی ہے ۔ طرح طرح کے ڈیزائن ‘ بیل بوٹے ‘نقش نگار‘ مختلف تصایراور اللہ جانے کیا کیا پرکشش انداز اپناتے ہیں وہ اپنے لباسوں پر‘ کہ دیکھنے وا لے کھنچتے چلے آتے ہیں۔ حالانکہ ایک مومنہ بہن کے کپڑے اتنے شفاف بھڑ کیلے ڈیزائن دار نہیں ہو نے چاہئیں کہ جو دوسروں کے لیے کشش اور توجہ کا باعث بن سکیں‘ بلکہ ایسے سادہ ہوں کہ’’ ر وشن خیال خواتین و حضرات‘‘ دیکھتے ہی کہہ اٹھیں کہ کوئی دیہاتن‘ مولوی یا دور سے آئی ہوئی خاتون جا رہی ہے۔ لیکن کیا کریں اپنی بچیوں کی تربیت میں رہ جانے والےنقص کی بنا پر جب ہم ان سے اس طرح کی تربیت کے تقاضوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ بڑی خوبصورتی سے یہ کہہ کر اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کا مذاق اڑاتی ہوئی نظرآتی ہیں کہ باباجان ‘ ابا جان‘ بھائی جان و غیرہ! وہ آپ کا دور اور تھا‘ یہ دور اور ہے۔ یہ ترقی‘ تعلیم‘ جدید تہذیب اور روشنی اور روشن خیالی کا دور ہے‘ گھٹن اندھیرے‘ پرانی فکریں اور قدریں دم توڑ چکی ہیں۔ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور آپ ہیں کہ پرانی رسموں کو ابھی تک سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ پردہ آدمی کی فکر و نظر میں ہونا چاہیے‘ اس کے باطن میں دل و دماغ میں ہو نا چاہیے‘ ظاہر کی کوئی حیثیت نہیں۔
وہ بوڑھے و الدین کا اس مسئلہ میں اس طرح مذاق اڑاتی ہیں کہ جس طرح وہ پرانے زمانوں کے غیر تہذیب یافتہ‘ جاہل‘ اجڈ بدھو لوگ کوئی احمقانہ و بےوقوفانہ باتیں کر رہے ہوں۔ اب وہ صرف یہ نہیں کہ پاؤںننگےرکھتی ہیں بلکہ شلوار ٹخنوں سے اتنی اونچی رکھتی ہیں کہ جیسے ابھیدر یائے راوی پار کر نا ہو اور باز و آدھے سے زیادہ ننگےرکھتی ہیں۔ گریبان کشادہ اور کھلا رکھتی ہیں۔ او پر سے اس کو ایک لاکٹ سے مزین کر کے سراپا فتنہ بن جاتی ہیں۔ یوں ان کی زینت ظاہر ہوتی ہے‘ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اس کے عذاب کا کوڑا برستا ہوا کسی نہ کسی ناخوشگوار واقعہ کی صورت میں سامنے آ جاتا ہے۔
دو ماہ قبل میں نے مکہ مکرمہ سعودیہ میں کچھ معزز و محترم بہنوں کو سڑک پر جاتے دیکھا۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے برقعےوغیرہ تقریباً 5یا6 انچ تک زمین پر گھسٹتے چلے جا رہے ہیں اور گندے ہو رہے ہیں۔ میں نے چونکہ پاکستان کا ماحول دیکھا تھا لہٰذادیکھ کر سوچنے لگا کہ ٹھیک ہے‘ مان لیا کہ انہوں نے آنکھوں کا‘ہاتھوں اور پاؤں بلکہ پورے جسم کا بھر پور پرد ہ کر رکھا ہے‘ ان کا ناخن بھی نظر نہیں آ رہا لیکن یہ کوئی مہذب بات تو نہیں کہ اب ان کے برقعے زمین پر مٹی کوڑے وغیرہ میں گھسٹتے جا رہے ہیں۔ شاید یہ جاہل‘ بدُّویا گنوار عورتیں ہیں!!۔۔۔۔۔ میں ایسی باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک میرے دماغ میں ایک جھما کا ہوا‘ میرے دماغ کے پردہ سکرین پر منظر ابھرا کہ چودہ سو سال قبل صحابیات کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لباس میں پردے کا حکم دیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صحابیات طیبات نے اس انداز سے پردہ کرنا شروع کر دیا کہ ان کی چادریں اور اوڑھنیاں زمین پر گھسٹنے لگیں۔ وہ محبوب کائنات سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اورپوچھنےلگیں:آقا! ہم جب بازار میں ضرورت کے تحت نکلتی ہیںتو جس چادر سے ہم نے اپنے پاؤں کو چھپا یا ہو تا ہے وہ گندگی میں زمین پرگھسٹ کر گندی و نا پاک ہو جاتی ہے‘ ہمیں اجازت دیں کہ ہم ان چادروں کو چھوٹا کر لیں یا اوپر اٹھالیں‘ تا کہ وہ زمین پرگھسٹ کر گندا نہ ہو سکیں۔ تو رسول اللہ نے ان کی یہ شکایت سن کر ان کو سختی سے منع کر دیا اور فرمایا کہ میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا‘ اگر ایک گندی جگہ سے کپڑار گڑ کھا کر گزرتا ہے تو دوسری صاف جگہ پر رگڑ نے سے وہ گندگی صاف ہو جائے گی۔لہٰذاتم انہی کپڑوں‘ چادر و ں اور اوڑھنیوں میں نماز پڑھو‘ میں ان کو چھوٹا کر نے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
جب میرے دل و دماغ میں یہ منظر گھوما تو مجھے بہت شرمندگی ہوئی اور میں نے ان پاکباز معزز و محترم بہنوں کے متعلق غلط خیال دل میں لا نے پر اللہ سے معافی مانگی کیونکہ یہ تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک سر زمین کی رہنے والی پاکیزہ دخترا ن اسلام ہیں۔۔۔۔۔ یہ تو صحابیات طیبات کے پاکیزہ و معطراسوہ کو عملی طور پر اپنی زندگی میں اپنا رہی تھیں‘ کہ کوئی ان کے پاؤں ایڑی یاٹخنے کو بھی نہ دیکھ سکے ان کا یوں کپڑا گھسیٹ کر مکہ کے بازاروں میں چلنا تو ان پاکباز صحابیات کی یادوں کو تازہ کرتا ہے جنہوں نے براہ ِراست آقائے دو جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی حاصل کی تھی واللہ!یہ جاہل بد و اور گنوار عورتیں نہیں بلکہ مو منا ت ‘طیبات‘ محسنات و عابدات اور وہ روشن خیال‘ مہذب پاکیزہ اور معطر و مطہر سیرت کی علمبردار ہیں ۔۔۔۔کہ عالم اسلام تو ان پر فخر کرتا ہے۔میری نادان بہن! کبھی تو نے سوچا ہے کہ پردے کا حکم تجھے کس نے دیا ہے؟ اگر علم نہیں تو سن لے‘ پردے کا حکم تجھے تیرے خالق و مالک رب کائنات نے دیا ہے۔ تو اس کے احکام کی خلاف ورزی کر کے کیا ثابت کر رہی ہے۔ یاد رکھ! اگر تو ڈاکوؤں کے سے روا جی پردے سے جان چھڑا کر اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہو گی تو اسی میں تیری عزت تیری کامیابی و کامرانی ہے۔ تجھے پاکیزہ ماحول میں مکمل پردہ میں جب تیرے بیٹے‘ تیرے بھائی‘ تیرے عزیز اور تیرا خاوند دیکھے گا تو سب تیری عزت کریں گے‘ تجھ پر فخر کریں گے‘ تیسری سیرت کو عملی طور پر اپنائیں گے‘ لوگ دوسروں کے سامنے تیرے پردے کی مثال دیا کریں گے‘ زمانہ میں دنیا تیری پاکیزگی کی قسمیں اٹھائے گی‘ تیری بچیاں بڑے فخر سے تیری پیروی کریں گی۔۔۔۔ دنیا ہی اللہ کو راضی کرنے کی کوشش میں جنت بن جائے گی‘ آخرت میں کامیابی نصیب ہو گی۔ جنت کی حوریں تجھ پر فخر کریں گی اور تیری سرداری میں جنتوں میں چند ساعتیں گزارنا اپنے لیے سعادت تصور کریں گی‘ اللہ کی رضا کاسرٹیفکیٹ جو سارے جہانوں کی سب سے بڑی دولت ہے‘ تجھے مل جائے گا اور اگر تو اللہ تعالیٰ سے جنگ کرے گی‘ اس کے احکامات کو پس پشت ڈالے گی‘ فیشن کی دلدادہ بن کر فتنے بر پا کرے گی‘ جدید تہذیب کے تیزاب میں گر کر دوسروں کو بھی برباد کرے گی ۔۔۔۔معاشرے میں لچرغلط بیہودہ فحش افکار اور تبصروں کا باعث بنے گی ۔۔۔۔بد نظری کے زنا کا باعث بنے گی۔۔۔۔۔ لوگوں کے نیک اعمال سلب ہونے اور برائی میں مبتلا ہونے کا سبب بنے گی۔۔۔۔ تو پھر کان کھول کر سن لے! بد نامیاں‘ الزام تراشیاں‘ بہتان‘ ذلتیں‘ رسوائیاں‘ دشنام طرازیاں‘ تیرا مقدر اور نصیب ٹھہریں گی‘ بیہودہ آوازے تجھ پر کسے جائیں گے‘ ہر کوئی تیری طرف دیکھ کر احترام سے آنکھیں نیچےکر نے کی بجائے تجھے کھا جانے کو دوڑے گا ۔۔۔۔فتنے‘ فساد برپا ہوں گے۔۔۔۔۔ بد کار یاں جنم لیں گی۔۔۔۔ فحاشی کی بھٹی بھڑ کے گی۔۔۔۔ تو پتہ ہے پھر کیا ہو گا۔۔۔ ؟۔۔۔۔
ہاں تو ایسے لوگوں کے لیے جو امت مسلمہ یعنی اللہ کے مومن بندوں اور بندیوں میں ( نظربازی وغیرہ کے ذریعہ سے ) فحاشی پھیلنے کا سبب بنتی ہیں۔۔۔۔ مالک کائنات‘ خالق کائنا ت‘ رازق کائنا ت‘ آ سمانو ں اور زمینوں کے مالک نے ان کے لیے دھکتی ہوئی۔۔۔۔شعلے مارتی ہوئی۔۔۔۔ بھڑ کتی ہوئی۔۔۔۔ سلگتی ہوئی۔۔۔۔ چیر کر دلوں تک پہنچ جانے والی۔۔۔۔ آگ کا درد ناک اور اذیت ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اب انصاف کا ترازو تیرےہاتھ میں ہے۔۔۔۔ فیصلہ تو نے کرنا ہے ۔۔۔کہ کیا تو حوروں کی معزز و محترم سردار اورجنتوں کی وارث بننا چاہتی ہے یا کہ اللہ کے احکام کی باغی۔۔۔ اللہ کی دشمن۔۔۔۔ بھڑکتی جہنم کی خریدار۔۔۔۔ فیصلہ اپنے عمل کے ذریعے اب تو نے کرنا ہے۔ خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لے:
ابھی تو سانسوں کی آمدورفت جاری ہے
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
وآخر دعوانا أن الحمدلله رب العالمين