ہمارے معاشرے میں جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کا توازن بگڑ چکاہے وہاں گھروں سے متعلق بھی بہت سی فرسودہ وپیچیدہ رسومات ہیں جن کی وجہ سے ہم مسلمانوں کو بہت سی شرعی مخالفتوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں بدگمانی ، بے یقینی ، جھوٹ ، فریب ، بد تہذیبی پروان چڑھ رہی ہے ۔ اگر کوئی ملاقات کیلئے آتا ہے تو وہ آنے سے پہلے اپنی آمد سے آگاہ نہیں کرتا ، اور اگر دروازے پر پہنچ جائے تو ثقافت کچھ ایسی ہوچلی ہے کہ دھڑلے سے گھر میں داخل ہوجاتے ہیں ، نہ کلام نہ سلام!کچھ معلوم نہیں گھر میں خواتین کس حالت وہیئت میں اس لمحے موجود ہوں ۔ اسلام دین فطرت ہے اس لئے وہ انسان کی نجی زندگی کو مکمل تحفظ دیتاہے وہ انسان کے فطری تقاضوں سے واقف ہے اس لئے اس نے ایسے ضابطے اور اعلیٰ معاشرتی اقدار وضع کردی ہیں کہ اگر ہم انہیں اپنی زندگی میں لاگو کرلیں تو ہمیں سکون ، راحت ومسرت میسر آجائے۔ اسلام میں گھروں میں رہنے ، ان میں داخل ہونے، اور ان میں انجام پانے والے تمام معاملات کی رہنمائی بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ گھر میں داخلے کی خبر صرف وہی دے جو اجنبی ہو ،لیکن اسلامی تعلیمات یہ کہتی ہیں کہ چاہے کوئی اجنبی ہے یا گھر کا فرد وہ گھر میں بسنے والوں کی نجی زندگی کا مکمل لحاظ کرے۔ ہاں اجنبی شخص کیلئے کچھ زیادہ سخت تعلیمات ہیں اور گھر میں بسنے والوں کیلئے کچھ نہ کچھ نرمی رکھی گئی ہے لیکن آداب سب کو سکھلائے گئے ہیں جن کا مقصد محض یہ ہے کہ تلخیوں ، پیچیدگیوں ، اور رسوائیوں سے بچتے ہو ئے ظاہری وباطنی طور پر پاکدامن معاشرہ تشکیل پائے ۔ زیر نظر مضمون میں گھروں اور دیگر نجی مقامات میں داخل ہونے سے قبل اور بعد میں جو شرعی آداب ہیں انہیں بیان کیا گیا ہے امیدہے قارئین اس سے بھرپور مستفید ہوں گے اور ان آداب کو اپنی زندگیوں میں لاگو کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ان شاء اللہ ( ادارہ )
تمہید
اللہ تعالی کےاشرف المخلوقات پر بے شمارانعامات و احسان ہیں جن میں سے ایک اللہ تعالی نے انسان کو گھر جیسی نعمت کا شرف بخشا جس سے اس کا قلبی و روحانی سکون واطمئنان وابستہ ہے انسان گھر میں اپنی جان و مال اور اپنی عزت و حرمات اور احساسات کو محفوظ سمجھتا ہے یہ گھر انسانوں کے لئے اسی وقت محفوظ، پر سکون وقابل اطمئنان ہو سکتے ہیں جب اس میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو۔ جو کوئی بھی ان میں داخل ہو اس کا گھر والوں کو علم بھی ہو اور وہ وقت بھی ایسا ہو جو ان کے لئے باعث تشویش نہ ہو اور ان کی حالت زار بھی خود گھر والوں کی نظر میں مناسب ہو نہ کہ معیوب و مکروہ ۔ یہ تمام خصلتیں انسان کی فطرت میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ اللہ تعالی نے اپنی شریعت میں اس کا مکمل باظابطہ حکم دیا ہے ۔ عام طور پر انسانوں اورخاص طور پر مسلمانوں کو ان آداب کی تعلیم دے کر اس کی اہمیت و افادیت کو رہتی دنیا تک دوام وقیام بخش دیا ہے۔
اگر ہم اپنے معاشرے کا محاسبہ کریں تو ہمیں اس میں ایسی عادات وتکلفات کا ادراک ہوگا جسے ہم اپناتے تو ہیں لیکن وہ ہمارے لئے سر درد سے کم نہیں ، ان ہی کی وجہ سے ہمارے معاشرےمیں عموما اور خاندانوں میں خصوصا پریشانیاں و ناچاکیاں جنم لیتی ہیں اسلام نے ہمیں جن عادات کی تہذیب کی ہے اس میں گھر سے متعلق آداب بھی شامل ہیں ۔ جس سے عوام الناس نا واقف ہیں اور طرح طرح کی تکلفات و نظریات کی وجہ سے ہم اپنے من گھڑت ماحول میں پھنسے ہوئے ہیں ۔اسلام نے انسانوں کی ثقافت و تمدن کے لئے بے شمار احکامات وارشادات فرمائی ہیں جنہیں اپنانے سے ہمارے قلب و ذہن کا بوجھ بھی ہلکا ہوجاتا ہے اور معاشرہ کئی قسم کے تکلفات سے بھی آزاد ہوجاتا ہے ۔ذرا غور کریں ہم اپنے گھروں میں ہوں یا کسی بھی مقام پر اگر کوئی بغیر اجازت یا بغیر وقت لئے آجائے تو اکثرہماری طبع پر اس کا یہ فعل نہایت گراں گذرتا ہے ،ایسے میں اگر ہمیں کسی کو منع کرنا ہو تو ہم یا توجھوٹ کا سھارا لیتے ہیں یا پھر کوئی ایسا بہانہ تراشتے ہیں جس سے آنے والے کو بھی دھچکا لگتا ہے اور کہنے ولا بھی عجیب کشمکش میں واقع ہوجاتا ہے ۔اور ایک دوسرے کے بارے میں برے تصورات اور بد گمانیاں پیدا ہوجاتی ہیں ۔
اس کے برعکس اگر سچ کہہ دیا جائے کہ ہم کسی عذر کی بناء پر نہیں مل سکتے تو آنے والے سے قطع تعلقی نہ گذیر ہوجاتی ہے کیونکہ آنے والے کو یہ تو احساس ہوتا ہے کہ مجھے اجازت نہ دے کر میری توہین کردی گئی، مگر اس کویہ احساس ہی نہیں کہ گھر والے کے ساتھ کیا مسائل و اعذار ہیں، کیونکہ آنے والے کو معلوم ہی نہیں کہ شریعت نے اسے کیا تعلیم دی ہے اور اسے ناراض ہونےکا کتنااختیار دیا ہے ۔
زیر نظر سطور میں گھریلو آداب سے متعلق اہم ہدایات قارئین کے سامنے رکھی جائیں گی اللہ تعالیٰ اسے سمجھنےکی توفیق عطا فرمائے ’’انه ولی علی ذلک و القادر عليه‘‘ (آمین )
گھر میں داخلے سے پہلےتو اجازت لینا اور گھر والوں کی آمد سے باخبر کر نا ضروری ہے ۔
اللہ تعالی کاا رشاد کریم ہے :
{يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ ۚ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ يْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ مَسْكُوْنَةٍ فِيْهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَكْتُمُوْنَ }
[النور: 27-29]
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے، توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ تو جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے اس میں داخل نہ ہونا۔ اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔البتہ بے آباد گھروں میں داخل ہونے سے تم پر کوئی گناہ نہیں جہاں تمہارے فائدے کی کوئی چیز ہو۔ اور اللہ خوب جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے اہل ایما ن کوگھر میں داخل ہوتے وقت عالی اخلاق و آداب اپنانے کا حکم دیا ہے جس میں اس گھر کی حرمت اور گھر والے کی عزت وعفت کا تحفظ بھی ہے اورگھر والوں کی طرف سے آنے والے کے لئے احترام و اکرام کے پہلو کو بھی اجاگر کیا ہے اور اس طریقہ کے اختیار کرنے میں خیر کثیر کی نوید بھی سنائی ہے۔
شریعت میں اجازت کے حوالے سے لفظ’’استئذان ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ذیل میں اس لفظ کی وضاحت پیش ہے ۔
’’استئذان‘‘ کیا ہے ؟
’’استئذان‘‘ لفظ ’’اذن‘‘سے نکلا ہے جس کے لغت عرب میں مختلف معنی ہیں جن میں’’جاننا اور معلوم کرانا ‘‘[2]’’اس کو معاملہ سمجھادیا یا معلوم کرادیا ‘‘ کے معنی میں مستعمل ہے ۔
ابن عربی کہتے ہیں استئذان کو استئناس(مانوسیت ) سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ معنی میں استعلام (معلوم کرنے )کی طرح ہے۔[3]
قرآن کریم میں لفط اذن اپنے محل و موقع کے اعتبار سے معنی و مفہوم دیتا کہیں اس کا معنی ’’اجازت لینا‘‘ اور کہیں ’’حکم‘‘ کے معنی میں آتا ہے۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ استئذان کی تعریف میں لکھتے ہیں :
“الاستئذان: طلب الإذن بالدخول، لمحل لا يملكه المستأذن “[4]
ترجمہ ’’کسی ایسی جگہ داخل ہونے کے لئے اجاز ت طلب کرنا جہاں انسان بغیر اجازت داخل ہونے کا مجاز نہ ہو‘‘
استئذان کی اقسام
بنیادی طور پر ہم استئذان کو دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔
1 باہر سے آنے والے اجنبی فرد کا اجازت لینا
یہ وہ قسم ہے جس کو استئذان عام کہا جاتا ہے جو کہ باہر سے آنے والے اجنبی لوگوں کا ایک دوسرے سے اجازت طلب کرنے کے لئے ہو تا ہے ۔
اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ یہاں اجازت لینا واجب ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
سورہ النور آیت نمبر 27
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔
اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرما ن ہے :
“إذا استأذن أحدكم ثلاثاً، فلم يؤذن له فليرجع”[5]
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی تین مرتبہ اجازت لے اور سے اجازت نہ ملے تو اسے چاہئے کہ لوٹ جائے ۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حدیث کی رو سے اگر اذن نہ ملنے کی صورت میں لوٹ جانے کا حکم اس لئے ہے کہ (گھر میں داخلے کے لئے ) اجازت لینا واجب ہے ۔
2گھر میں موجود فرد کا کسی کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینا :
یہ وہ قسم خاص ہے جو کہ گھر کے اند ر لی جاتی ہے اس کا بھی حکم چند صورتوں میں واجب کا ہے ۔جس کی دلیل قرآن کریم کی آیت :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ
[النور: 58
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہارے غلاموں اور ان لڑکوں پر جو ابھی حد بلوغ کو نہ پہنچے ہوں، لازم ہے کہ وہ (دن میں) تین اوقات میں اجازت لے کر گھروں میں داخل ہوا کریں۔
آیت کریمہ میں ’’لِيَسْتَأْذِنْكُمُ‘‘ میں ’’ لام‘‘استعمال ہوا ہے جو کہ’’ لام الامر‘‘ ہے اورفعل امر وجوب پر دلالت کرتا ہے ۔
اجازت لینے کی حکمت و علت
اجازت طلب کرنا ایک ایسا بلند ادب ہے جو گھروں کی رازداری (پرائیویسی ) کی حفاظت کرتا ہے اور ایسےمعاملات کی بھی جو کہ عظمت و عفت کے لئے ہیں جنہیں اہل خانہ با پردہ رکھنا چاہتے ہیں استئذان انہی اشیاء و معلومات کی حرمت کو برقرار رکھتا ہے ان میں انسانی جسم سرفہرست ہے اس کے علاوہ بہت سی اشیاء ایسی بھی ہیں جنہیں انسان چھپانا چاہتا ہے جن میں کھانا پینا ، کپڑے وغیرہ اور گھریلو اشیاء بھی شامل ہیں جن پرا چانک نظر پڑے تو ناگواری محسوس ہوتی ہے اور یہ تمام باتیں انسانی ذہن اور نفسیات سے تعلق رکھتی ہیں جن کا اثر انسانی معاشرے اور خاندانی زندگی پر پڑسکتا ہے ،ہم میں سے کتنے ہیں جن کو یہ پسند نہیں کہ کوئی انہیں کمزو ری کی حالت میں روتے ہوئے ،یا غصہ کی حالت میں دیکھ لے ،کتنے لوگوں کو پسند نہیں کہ کوئی انہیں نامناسب لباس میں دیکھے ۔اس طرح آداب استئذان شکوک و شبہات بد زبانیوں اور تہمت واوہام کو روکنے کا مؤثر ذریعہ ہے جو کہ میاں بیوی یا گھر کے دوسرے افراد کی زندگی میں تفریق و بربادی کا باعث بن جاتے ہیں ۔ جو کہ بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہوجاتے ہیں اور کبھی ان کی یتیمی کا باعث بھی بن جاتے ہیں ۔ ان تمام باتوں کا ایک ہی محور ہے اور وہ ہے انسان کی نظر ۔
اسلام نے معاشرے پر پڑنے والے انہی دور رس نتائج کا مکمل احاطہ کیا اور اس میں رہنے والوں کی عقلی اور اخلاقی اقدار کومضبوط ایمانی قوت مہیا کی کہ اگر استئذان کی حکمت سمجھ سے بالا ہو تو صرف اتنا مان لینا کہ یہ خالق کائنات اللہ تعالیٰ کا حکم ہے انہیں حکمت کی تلاش سے مستغنی کردیتا ہے اور اس میں خیر ہی ہے، اسےجھٹلانا معاشرے کے لئے فساد و بربادی ہے ۔
’’استئذان ‘‘ کی علت کا پس منظر یوں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اللہ تعالی کے احکامات قرآن کریم کی صورت میں نازل ہورھے تھے جو کہ قیامت تک کے لئے ہدایت و رشد کا راستہ قرار پائے، ایسے میں ایک دفعہ ایک انصار قبیلہ کی خاتون صحابیہ رضی اللہ عنھا پیارے پیغمبر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور سوال کیا : ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے گھر میں موجود ہوتی ہوں اور میں اس حالت میں ہوتی ہوں کے مجھے یہ بات پسند نہیں ہوتی کہ مجھے کوئی دیکھے نا والد اور نا ہی کوئی بچہ مگر ایسے میں کبھی میرے گھر کا کوئی فرد آجا تا ہے کبھی والد آجاتےہیں اور میں اسی حالت میں ہوتی ہوں تو میں کیا کروں؟[6]اس سے پہلے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ فرماتے کہ اللہ تعالی نے قرآنی آیت کی صورت میں اس سوال کا جواب عنایت فرمادیا اور اس امر کی اہمیت و افادیت کو عظیم قرار دیا ،جبریل امین نے یہ آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی جس میں سوال کا جواب اور مسئلہ کا حل دونوں موجود تھے چنانچہ فرمایا :
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْـرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّـٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓى اَهْلِهَا ۚ ذٰلِكُمْ خَيْـرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (27)ا فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْـهَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّـٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ ۖ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ۖ هُوَ اَزْكـٰى لَكُمْ ۚ وَاللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْـمٌ
سورہ النور آیت 27 تا 28
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔
مندرجہ بالا آیات میں اگر ہم غور و تدبر کریں تو اس میں اجازت لینے کے لئے عام حکم دیا گیا ہے جس میں کسی قسم کی تخصیص نہیں ہے ۔ اور وہ تقاضہ کرتی ہیں کسی مقام یا گھر میں بغیر اجازت داخل نہیں ہونا چاہئے چاہے اس گھر میں کوئی موجود ہو یا نہ ہو اوربلکہ اجازت لے کر داخل ہونا چاہئے البتہ وہ مقامات جو کہ ذاتی ہوں یا عوامی مقامات ہوں جیسے ہوٹل تجارتی محلات وغیرہ ان میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنا لازمی نہیں بلکہ مستحب عمل ہے ۔
جیسا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں ذکر کیا کہ استئذان کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک گھر کے اندر سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری قسم کا تعلق گھر کے باھر سے ہے جو کہ گھر والوں سے طلب کی جاتی ہے یا عزیز و اقارب کی طرف سے یا پھر زائرین کی طر ف سے ، چنانچہ جب بھی کوئی گھر میں داخل ہونا چاہے تو اس کو چاہئے کہ گھر میں داخل ہوتے وقت کوئی ایسا عمل اختیار کرے جس سے اندر موجود افراد کو آنے والے کی آمد کا علم ہوجائےاور وہ حسب ضرورت اس کے لئے تیار رہیں ۔
اجازت لینے کے آداب
1 سب سے پہلے سلام کریں
استئذان میں شریعت نے جن آداب کو ملحوظ خاطر رکھا ان میں اعلیٰ دعا ئیہ کلمات ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘شامل ہیں اور یہ دو مختلف آیات و مقامات پر ذکر ہوئے۔
ایک فرمان باری تعالی ٰ ہے :
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ﴾
سورہ النور آت نمبر 27
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔[النور: 27]
اور دوسرا فرما ن جو کہ اس بھی عام ہےچنانچہ باری تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ﴾
سورہ النور آیت نمبر 61
ترجمہ:البتہ جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں (گھر والوں) کو سلام کہا کرو۔ یہ اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔[النور: 61]
’’السلام علیکم ‘‘ کہنے سے انسان کی نیکیوں میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور اس میں طرفین کے لئے دعا بھی ہےلہٰذا استئذان کے لئے تحیۃ الاسلام ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘کہا جائے جو کہ افضل و مسنون عمل ہے ۔
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے خادم انس بن مالک رضی اللہ عنہ جنہوں نے دس سال محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتوں میں سے ایک وصیت یہ بھی تھی:
’’ اے بچے ! جب بھی اپنے گھر میں داخل ہو تو پہلے سلام کرو اور یہ تمہارے لئے اور گھر والوں کے لئے باعث برکت ہے‘‘۔[7]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ إذا دخَل الرجل بيته، استُحِبَّ له أن يتَنحنَح ثم يسلِّم‘‘
’’ اگر کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ وہ پہلے کھنکھنائے اور پھر سلام کہے ‘‘۔
اور مذکورہ آیت میں ﴿ فَسَلِّمُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ ] سے مراد اپنے گھر والوں کو سلام کہو اور اس آیت کے الفاظ میں اگر تدبر کریں تو اللہ تعالی نے یہاں’’ ﴿ أَنْفُسِكُمْ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جس میں اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر کوئی کسی کے گھر میں داخل ہوگاتواجازت لینے کے لئے سلام کہے گا تو جواباً اسے بھی سلامتی کی دعا نصیب ہوگی اور ساتھ ساتھ وہ کئی قسم کی مکروہات سے بھی محفوظ ہوجائے گا مثلاًجواب یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں وہ کسی ایسی چیز پر نظر ڈالنے سےباز رہے گا جو کہ گھر والوں کے لئے باعث تکلیف ہو یا ان کے ستروعیوب سے آگاہی یا ایسا معاملہ جو کہ دونوں کے لئے اذیت اور تفرق کا باعث بنتاہو ۔تو جس طرح شرعی طریقہ کو اختیار کرتے ہوئے اس نے اپنے آپ کو کئی مکروہات سےسلامت رکھا اور اسی طرح اس نے دوسرے کے گھر کی عفت و عصمت کا بھی احترام قائم رکھا ۔
2 عزیز و اقارب سے بھی اجازت طلب کی جائے
شریعت اسلام نے معاشرے کو جو آداب سکھلائےوہ تمام افراد کے لئے یکساں موزوں ہیں لھذا عزیز و اقارب میں سے اگرکوئی کسی کے گھر میں داخل ہو تو وہ بھی اجازت حاصل کریں چاہے وہ بہن کا گھر ہو، بھائی کا، پھوپھی کا گھر ہو یا خالہ کا ،اس کی کئی حکمتیں ہیں ایک تو آپس کے باہمی تعلقات نیک تمناؤں پر استوار ہوں اور میزبان آنے والے کا استقبال اچھے انداز میں اور باہمی رضامندی سے کرسکیں اور کسی قسم کی عار محسوس نہ کریں اور ایمان اور نیکی سے منور معاشرہ پروان چڑھے جو کہ دوسرےمعاشروں سے ممتاز ہو جس میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے بھلائی ، خیر اور طہارت و عفت رکھی ہے جو معاشرہ میں ایمان و سلامتی کی حرارت کو زندہ رکھتی ہے ۔ قرون مفضلہ میں معلم انسانیت اورہادی و مربی اکبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عظیم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اور اپنی امت کی اسی منہج پر تربیت کی مؤطا امام مالک میں روایت ہے کہ ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اپنی والدہ سے بھی اجازت لوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں۔ جب بھی گھر میں داخل ہوتو اپنی والدہ سے اجازت لو ۔اس نے جواباً کہا :میں گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہوں !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تم اذن لے کر داخل ہوا کرو ، اس نے جواب دیا کہ میں ہی اپنی والدہ کی ہمیشہ خدمت کرتا ہوں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : تم ضرور اجازت لیا کرو کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ تم اپنی والدہ کو مکروہ حالت میں دیکھو؟ تو اس صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراًکہا نہیں!اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اب ضرور اجازت لیا کرو ں گا۔ [8]
عطاء فرماتے ہیں میں نے ابن عباس سے پوچھا:
’’أأستأذن على أختي، فقال: نعم؛ فأعدتُ، فقلتُ: أختان في حجري، وأنا أموّنهما، وأنفق عليهما، أستأذن عليهما، قال: نعم، أتحبّ أن تراهما عريانتين‘‘[9]
ترجمہ: ’’ کیا میں اپنی بہن سے بھی اجازت لے کر داخل ہوا کروں ؟تو انہوں نے کہا : ہاں ۔ میں نے دہرایا کہ : میں اپنی دو بہنوں کے ساتھ رہتا ہو ں اور ان کی سرپرستی اور ان کی دیکھ بھال بھی کرتاہوں تب بھی اجازت لوں ؟ تو جواب ملا کہ : ہاں کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ تم انہیں نامناسب حالت میں دیکھ لو؟؟؟‘‘
معلوم ہو کہ جب بھی گھر میں یا کمرہ میں داخل ہوں تو ضرور بضرور اجازت لینی چاہئے اور اس وقت تک داخل نہ ہوں جب تک اجازت نہ مل جائے یہی دین حنیف ہے اسی میں حفظ النفوس اور حفظ عزت و عفت ہے یہی عالی اخلاق کا مظہر جس پر عائلی زندگی بھلائی تقویٰ اور محبت و مودت پر قائم رہ سکتی ہے۔
3 اجازت کے لئے کیاطریقہ اختیار کیا جائے؟
استئذان کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کسی جگہ جانا ہو تو سب سے پہلے آنے والے کو چاہئے
کہ وہ لطف و آر ام سے دروازے کو کھٹکھٹائے جس سے گھر والوں پر کسی قسم کاازعاج و تشویش نہ ہو۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے دروازے کو ہم اپنے ناخن سے بجاتے اور پھر تین بار اجازت لیتے تھے ‘‘۔ [10]
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
“وهذا محمول منهم على المبالغه في الأدب وهو حسن لمن قرب محله من بابه ، أما من بعد عن الباب بحيث لايبلغه صوت القرع بالظفر فيستحب أن يقرع بما فوق ذلك بحسبه” أهـ[11]
ترجمہ: یہ عمل ان کے عالی ادب و اخلاق کا مظہر ہے جو کہ قریب دروازہ کے لئے بہتر ہے لیکن جہاں دروازہ گھر سے دور ہو وہاں حسب ضرورت زور سے دروازہ بجایا جاسکتا ہے ۔
لہٰذا دروازہ بجانے کے بعد تھوڑا انتظار کیا جائے اور اس بات کا یقین کر لیا جائے کہ گھر والوں نے اگر نہیں سنا تو دوبارہ بجانا چاہئے اوراسی طرح مزید انتظار کرکے تیسری مرتبہ بجایا جائے ۔
4 اجازت یا جواب نہ ملنےپر کیا کیاجائے ؟
اگراجازت لینے اور دروازہ بجانے یا کھٹکھٹانے کے باوجود کوئی جواب نہ ملے تو گھر میں داخل نہیں ہونا چاہئے بلکہ لوٹ جانا چاہئے اور یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
﴿فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِيْهَآ اَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوْهَا حَتّٰى يُؤْذَنَ لَكُمْ ۚ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ ﴾
سورہ النور آیت نمبر 28
ترجمہ: پھر اگر ان میں کسی کو نہ پاؤ تو جب تک تمہیں اجازت نہ دے اس میں داخل نہ ہونا۔ اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آؤ۔ یہ تمہارے لئے زیاد ہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کام تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں اس بات کی طرف نشاندہی کی گئی ہے کہ بالفرض آنے والے کو واپس جانے کا کہاجائے تو واپس لوٹ جانا چاہئے اس میں کسی قسم کا کوئی حرج و اثم نہیں ہے مثلا ًاگرگھر والے اندر موجود ہوں اورخود ہی یہ کہیں کہ آپ واپس لوٹ جائیں تو بغیر کسی غم و غصہ کے واپس لوٹ جانا چاہئے یہی نفوس کے لئے اطیب و ازکیٰ ہے اور اس بات پر اپنے دل کو اطمئنان دلانا چاہئے کہ ہر کسی کو اعذار واسرار لاحق ہوسکتے ہیں اور یہ بات جان لینی چاہئے کہ یہ گھر والوں کا حق ہے جو اللہ تعالیٰ نے برقرار رکھا اور اس کی مذمت نہیں فرمائی اللہ تعالی کا فرمان ہے:﴿ وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ ﴾ [النور: 28]
ترجمہ: اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ جایا کرو۔ یہ تمہارے لئے زیاد ہ پاکیزہ طریقہ ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ[“هُوَ اَزْكٰى لَكُمْ “] سے مراد کہ اس (لوٹ جانے میں ) تمہارے لئے بہتری ہے کہیں تنگ دلی سے اجازت ملے، بہتر ہے کہ خوشی سے تمہیں اجازت دی جائے‘‘۔[12]
علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’ اس آیت میں صراحتاً حق کی تعلیم دی گئی ہےتاکہ کسی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی کوئی اذیت کا پہلو باقی رہے اس طرح ملنے والے کو بھی اطمینان رہے گا اگر حق تسلیم کرنے کا رواج عام ہوجائے تو تمام شکوک شبھات اور دلوں کی قدورتیں دور ہوجائیں ‘‘[13]
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
’’إذَا استأذنَ أحدُكم ثلاثًا فلم يُؤذَن له، فليَرجِع‘‘[14]
ترجمہ:’’ جب تم میں سے کوئی اجازت طلب کرے اور سے اجازت نہ ملے تو تمہیں واپس لوٹ جانا چاہئے‘‘۔
اور جب یقین سے معلوم ہو کہ گھر میں کوئی موجو دہے،مگر جواب نہیں مل رہا تو جواب نہ ملنے پر بھی واپس لوٹ جانا چاہئے۔اس بارے میں صحیح بخاری میں حدیث ہے :
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا۔ تو ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے تین بار اجازت ما نگی مگر اجازت نہیں ملی تو میں واپس لوٹ گیا پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تمہیں اندر آنے سے کس چیز نے روکا؟ میں نے کہا کہ میں نے اجازت مانگی لیکن آپ نے اجازت نہ دی اس لئے میں واپس لوٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص تین بار اجازت مانگے اور اس کو اجازت نہ ملے تو اس کو لوٹ جانا چاہئے۔ جناب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تم کو اس پر گواہ پیش کرنا ہوگا اور ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا تم میں سے کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس فرمان کو سنا ہے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ بخدا تیری گواہی کے لئے قوم کا کمسن شخص کھڑا ہوگا۔ راوی کا بیان ہے کہ میں اس وقت سب سے کمسن تھا میں ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھڑا ہوا اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر دی کہ جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے ۔[15]
ایک روایت میں الفاظ ہیں یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ أَخَفِيَ هَذَا عَلَيَّ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ (يَعْنِي الخُرُوجَ إِلَى تِجَارَة) أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ .[16]
ترجمہ: مجھ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بازار میں خرید و فروخت کی وجہ سے پوشیدہ رہی۔
علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ کہتے ہیں اس حدیث سے واضح ہوا کہ استئذان میں تین حالات ہوسکتےہیں:
اذن [اجازت حاصل ہوجائے] ۔
معذرت کی جائے [منع کردیا جائے]
کوئی جواب نہ ملے ( خاموشی ہو )
آیت کریمہ اور حدیث شریف کی روسے پہلی صورت میں داخل ہونا جائز ہے اور دوسری دونوں صورتوں میں واپس لوٹ جانا چاہئے۔[17]
5 اجازت کتنی بار لینی چاہئے ؟
سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتا ہے کہ استئذان تین بار مشروع ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار سعد بن عبادۃ کے گھر تشریف لے گئے اور کہا :(السلام علیکم) اندر سے جواب نہیں ملا تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: (السلام علیکم) اند ر سے پھر جواب نہ ملا تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا جواب نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس چل دئے ،جب سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اب سلام نہیں پایا تو آپ سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے ہیں تو سعد بن عبادہ نے ان کا پیچھا کیا اور ان کوجاکر پالیا اور سلام کا جواب دیا اور بتایاکہ ہم چاہ رہے تھے کہ آپ کے سلام کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرلیں جب کہ ہم سن رہے تھے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ تشریف لے آئے ۔ایک روایت میں قیس بن سعد فرماتے ہیں کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ہلکی آواز میں جواب دیا تو میں نے سوال کیا کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت نہیں دیں گے تو انھوں نے جواب دیا کہ خاموش ہوجاؤ تاکہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سلام کرتے رہیں۔ [18]
امام ابن شھاب فرماتے ہیں تین بار سلام کرنا اسی حدیث سے اخذ کیا گیا ہے ۔
ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’الاستئذان ثلاث، فان أذن لك وإلا فارجع‘‘[19]
’’ استئذانتین بار ہوتا ہے اگر تمہارے لئے اجازت دی جائے تو داخل ہوجاؤ ورنہ واپس لوٹ جاؤ‘‘
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“الاستئذان ثلاث لا أحب أن يزيد أحد عليها إلا من علم أنه لم يسمع فلا أرى بأساً أن يزيد إذا استيقن أنه لم يسمع”[20]
ترجمہ:تین دفع سے زیادہ اجازت طلب کرنا درست عمل نہیں اور میں اسے پسند نہیں کرتا اگر اذن طلب کرنے والے کو یہ یقین ہوجائے کہ گھر والے نے سنا ہی نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ مزیدطلب کر لے ۔
6اجازت لینے کے لئے تعارف کی اہمیت
آداب استئذان میں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ آنے والے کو اپنا مناسب تعارف کرانا لازم ہے یعنی جس سے اجازت لی جارہی ہے کم ازکم اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اجازت طلب کرنے والا کون ہے؟ کچھ لوگ جواب میں کہتے ہیں [ میں ہوں! ] یہ طریقہ نامناسب ہے اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بہت ناگوار گذرااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کراہت کااظہار کیا اور صحابہ کرام نے بھی محسوس کیا اور اسے ذہن نشین کرلیا پھر لوگوں کو اس کی تعلیم بھی دی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک حدیث ذکر فرمائی: سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
” أتيتُ النبيَّ – صلَّى الله عليه وسلَّم – في دَيْنٍ كان على أبي، فدققت الباب فقال: ((مَن ذا؟))، فقلت: أنا، فقال: ((أنا! أنا!))، كأنَّه كَرِهَهَا”۔ [21]
ترجمہ : سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور دروازہ پر دستک دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے ؟ ’’میں نے کہا: ’’میں ہوں ‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں! میں!) جیسے انہیں ناگوار گذرا ہو ۔
مشروع طریقہ یہ ہے کہ جب پوچھا جائے تو جواب میں کہنا چاہئے کہ میں فلاں ہوں اوراپنا نام بتانا چاہئے ، اگر پھر بھی پہچان نہ ہو تو اپنا مناسب تعارف کرانا چاہئے ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارےاسلاف نے لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاس بات پر کراہت اس لئے ظاہر کی کہ ’’ میں ‘‘ سے کوئی تعارف حاصل نہیں ہوسکتا جب کہ مسئلہ اذن میں تعارف ضروری ہے جو کہ نام سے ہوسکتی ہے کیونکہ نام ہی ایسی معرفت ہے جس سے سوال کی کلفت بھی دور ہوجاتی ہے اور جواب بھی حاصل ہوجاتا ہے جیسا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک بار وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشربہ(پانی پینے کی جگہ) پر تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : : السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَيَدْخُلُ عُمَرُ؟ ترجمہ:’’اے اللہ کے رسول آپ پر سلامتی ہو ، آپ پر سلامتی ہو کیا عمر حاضر ہوسکتا ہے؟؟
اسی طرح صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا ’’السلام علیکم ‘‘میں ابو موسیٰ ہوں ، میں اشعری ہوں۔۔۔الحدیث [22]
امام شعبہ رحمہ اللہ کے پاس ایک صاحب تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا کون ہے ؟ جواب ملا کہ میں ہو؟امام شعبہ رحمہ اللہ نے جواب دیا میرا کوئی دوست نہیں جس کا نام ’’ میں ‘‘ ہو ! پھر آپ باہر تشریف لائے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ’’ میں ‘‘ سے کراہت والی حدیث سنائی ۔[23]
7 اجازت لیتے وقت کہاں کھڑے ہوں ؟
استئذان میں اس بات کا خیال بھی رکھا جائے کے استئذان کے وقت گھر کے دروازے کے سامنے نہ کھڑا ہوا جائے بلکہ دائیں جانب ہونا چاہئے ،اگر میسر نہ ہو تو بائیں جانب کھڑے ہوکر اجازت لینی چاہئے یہ تعلیم بھی معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کو دی امام بیھقی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں :
[ أن سعد بن معاذ رضِي الله عنْه أتى النبي صلَّى الله عليه وسلَّم، فقال له: ((يا سعد، إنما الاستِئذان من النظر، فإذا استأذنت فلا تستقبل الباب][24]ترجمہ :سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ایک بار پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آئے اور اس حال میں اجازت طلب کی کہ وہ دروازے کے سامنے کھڑے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی اور فرمایا : اے سعد! اجازت لینے کا سبب نظر ہی ہے لہٰذا جب بھی اجازت لو دروازے کے سامنے مت کھڑے ہوا کرو۔
امام سہارنپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اگر کوئی اذن طلب کرنےوالا دروازے پر کھڑا ہوجائے گا تو اس کی نظر کا گھر کے اندر جانے کا احتمال موجودہے ،ہوسکتا ہے کہ وہ ایسے مظاھر دیکھ لے جو کہ گھر والے کے لئے تکلیف کا باعث ہوں اور یہی استئذان کی علت ہے کہ نظر نہ پڑنے پائے ‘‘۔
اور یہ عظیم تربیت ِاسلام ہے کہ نظر کی حفاظت کی جائے کیونکہ نظر ان وسائل میں سے ہے جس سے ایسےفتنے جنم لیتے ہیں جو معاشرے میں بگاڑپیدا کرتے ہیں اسی خطرہ کے پیش نظر اگر صاحب بیت کسی جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر کوئی حرج اور جرمانہ نہیں ۔ سیدنا ابوهریرة رضی اللہ عنہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
’’مَنِ اطَّلَعَ فِي بَيْتِ قَوْمٍ مِنْ غَيْرِ إِذْنِھِمْ حَلَّ لَهُمْ أَنْ يَفْقَئُوا عَيْنَهُ”
[25]
ترجمہ: جو شخص کسی کے گھر میں جھانک رہا ہو تو گھر والوں کے لئے حلال ہے کہ وہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں‘‘۔
سیدنا سھل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں جھانک رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کنگھا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنگھی فرما رہے تھے اس شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ فرما یا:’’ اگر میں یہ جان لیتا کہ تم اس طرح جھانک رہے ہو تو میں یہ کنگھا تمہاری آنکھ میں مار دیتا اجازت طلب کرنے کا سبب یہی نظرہے ‘‘۔[26]
ایک اور روایت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اگر کوئی شخص تمہارے گھر میں بغیر اجازت کے جھانک رہا ہو اور تم نے اس کی آنکھ پتھر سے پھوڑدی تو تم پرکوئی حرج (گناہ ) نہیں‘‘ ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ مَلَأَ عَيْنَيْهِ مِنْ قَاعَةِ بَيْتٍ فَقَدْ فَسَقَ‘‘
[27]
ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے فرمایا ’’جس شخص نے اپنی آنکھ کسی گھر کی جھانک تانک سے بھر لی پس وہ فاسق ہوگیا‘‘
اور آیت استئذان کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے [وَاللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ] فرماکر تنبیہ کرادی ان لوگوں کو جو لوگ تجسس میں آکر دوسروں کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور ایسے اوقات غفلت کا انتخاب کرتے ہیں جن میں انہیں کوئی ایسی منظر کشی کرنی ہو جو ان کے لئے حلال نہ ہو اور نہ ہی انہیں زیب دیتا ہو اور وہ کسی گناہ کی ٹوہ میں لگے رہتے ہوں ۔
8 الفاظ استئذان
آداب استئذان سے متعلق ایک اور ادب جس کا شریعت نے لحاظ رکھا اور وہ اجازت لینے کے الفاظ ہیں
عرب میں جاہلیت کے دور میں بھی اجازت لینے کا رواج تھا مگر وہ حسب نسب اور بادشاہ و رعایہ کے نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا چنانچہ جب اسلام نے اپنا نور پھیلانا شروع کیا تو استئذان کے جامع اور مانع آداب امت کو سکھلادئے ۔
استئذان کے طریقے کے لئے قرآن نے جو الفاظ استعما ل کئے وہ ہیں:
[حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ][النور:27]
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ ان کی رضا حاصل نہ کرو اور گھر والوں پر سلام نہ کرلو۔ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے توقع ہے کہ تم اسے یاد رکھو (اور اس پر عمل کرو) گے۔
مفسرین کا اس بات پر اختلاف رہا ہے کہ پہلے سلام کیا جائے یا پھر اجازت طلب کی جائے؟ بعض علماءنے پہلے اجازت طلب کرنا اور پھر سلام کرنا مناسب سمجھا اس کا سبب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
[حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَهْلِهَا ۭ ]اور اکثر نے عکس مناسب قرار دیا اور پہلے سلام اور پھر اجازت لینا راجح قرار دیا اور ایک قاعدہ تقدیم و تاخیر کو بنیاد بنایا اور اس کی تقدیرٹھہرائی :[حَتّٰى تُسَلِّمُوْا عَلٰى أَهْلِهَا وَتَسْتَأْذِنُوْا]
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مصحف میں یہی ترتیب ہے ۔[28]
سیدنا کَلَدَۃبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا نہ میں نے سلام کیا اور نہ اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے واپس جانے کا حکم دیا اور کہا کہ سلام کرو اور پھر کہو کیا میں داخل ہوسکتا ہوں ؟‘‘۔[29]
اورسیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت آتی ہے کہ ایک شخص نے آ پ سے اجازت طلب کی کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو منع فرمادیا تو بعض لوگوں نے اسے سمجھایا کہ پہلے سلام کرو ،اس نے سلام کیا ،تو انہیں اجازت دی گئی ۔
امام ابن سیرین رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اجازت طلب کی، کیا میں داخل ہوسکتا ہو ں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خادم یا خادمہ جس نام کا روضہ تھا کو حکم دیا کہ جاؤ اسے استئذان کا طریقہ سکھا ؤ وہ نہیں جانتا کہ استئذان کا طریقہ کیا ہے ۔اس کوکہو کہ سلام کرے پھر کہے کیا میں داخل ہوسکتاہوں اس شخص نے سن لیا اور ایسے ہی کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آنے کی اجازت دی ۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو سلام سے پہل نہ کرے اسے اجازت نہ دو‘‘۔
صیغہ استئذان کے متعلق روایت ہے :زید بن اسلم نے ایک بارعبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے استئذان کیا اور ’’أألج‘‘(زمانہ جاہلیت میں عرب کا استئذان تھا ): ابن عمر نے انہیں اجازت دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے تم عرب کا استئذان استعمال کرتے ہو ! جب بھی استئذان کرو تو’’ السلام علیکم‘‘ کہا کرو جب تمہیں جواب مل جائے تو پوچھو کہ کیا میں اندر آسکتا ہوں ؟ ‘‘[30]
امام بغوی رحمہ اللہ نے ذکر کیا کہ بعض علماء نے اختیار کیا کہ اگر انسان کی نظر پہلے پڑ جائے تو سلام پہلے کرے ورنہ استئذان پہلے کرے اور پھر سلام کرے ۔[31]
گھر کے اندر اجازت لینے سے متعلق چند اہم گذارشات :
اس کے بعد سورۃ النور میں استئذان خاص کے تعلق سے اللہ تعالی نے تین اوقات میں بغیر اجازت کے داخل ہونے سے منع فرمایا ہے اور وہ اس آیت کریمہ میں ذکر ہیں :
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٨﴾وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٩﴾
سور النور آیت نمبر 58-59
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہارے غلاموں اور ان لڑکوں پر جو ابھی حد بلوغ کو نہ پہنچے ہوں، لازم ہے کہ وہ (دن میں) تین بار اجازت لے کر گھروں میں داخل ہوا کریں۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب تم کپڑے اتارتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد یہ تین اوقات تمہارے لئے پردہ کے وقت ہیں۔ ان اوقات کے علاوہ (دوسرے وقتوں) میں ان کو بلااجازت آنے جانے سے نہ ان پر کچھ گناہ ہے اور نہ تم پر، تمہیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی پڑتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے اپنے ارشادات کی وضاحت کرتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔
مندرجہ بالا آیات استئذان خاص کے احکام سے متعلق نازل ہوئیں اس میں تین اوقات کا ذکر ہے جن میں بغیر اجازت کے داخل ہونا منع قرار دیا ہے :
- فجر کی نماز سے پہلے جب انسان اپنے بسترے سے اٹھتا ہے اور اپنے رات کے لباس کو تبدیل کرکے دن کا لباس پہننا چاہتا ہے ۔
- ظہر کا وقت جب لوگ قیلولہ کرتےہیں ۔
- نماز عشاء کے بعد جب لوگ اپنے لباس کو اتارنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور سونے کی تیاری رکھتے ہیں ۔
مذکورہ بالا آیت میں جن تینوں اوقات کا ذکر ہے یہ اوقات آرام کے ہیں لھذا عوام الناس کو گھروں کے اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے تاکہ نا پسندیدہ منظر کو نہ دیکھ لیں [32]ا ن اوقات کو اللہ تعالی نے ’’عورات ‘‘ ( ستر )کا نام دیا ہے جو کہ عام ہے اس میں بدن کا پردہ بھی شامل ہے اور گھر کی اشیاء کا بھی پردہ شامل ہے ، اس میں خدام خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، اور وہ بچے جو جوان نہ ہوئے ہوں مگر عورتوں کی پوشیدہ معلومات سے واقف ہوں اور سن بلوغت کو نہ پہنچے ہوں شامل ہیں البتہ غیر مذکورہ اوقات میں ان کا آنا جانا مجبوری اور ہر وقت اجازت مانگنا بھی مشکل امر اور بضرورت آتے جاتے ہیں اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
یہاں واضح رہے کہ آیت میں جن خادموں کا بیان ہوا ہے وہ غلام ہیں جو مستقل ایک گھر کے افراد کی حیثیت سے مالک کے ساتھ ہوتے ہیں آج کل کے دور میں جو گھر میں ملازم رکھے جاتے ہیں وہ چاہے کسی حیثیت سے ہی کیوں نہ ہوں ، ڈرائیور ، باورچی ،چوکیدار ان سب کو پردے کا لحاظ کرنا چاہئے اور کسی وقت بھی نا محر م عورت یا گھر کی مالکن سے ملنا اور بے تکلفی اختیار کرنے کی اجازت نہیں اور نہ ہی اس کمرے میں داخلے کی جہاں مستورات رہتی ہوں یہ تین اوقات اس قسم کے ملازموں کے لئے نہیں ہیں ۔
خلاصہ
اسلام میں اجازت کے آداب بہت واسع اور جامع ہیں صرف گھر میں داخل ہونے کے لئے نہیں بلکہ یہ تمام آداب مجالس اور دیگر مقامات کے لئے بھی موزوں و مفید ہیں چنانچہ ان آداب کے ساتھ ساتھ داخل ہوتے وقت مندرجہ ذیل اہم امور جو کہ کتاب و سنت سے ثابت ہیں ان کا کا خیال رکھنا چاہئے :
(1) اجازت لینا ایک عمدہ اخلاق اور عالی ظرف میں سے ہے اس کا اہتمام قرآن و سنت سے ثابت شدہ ہے۔
(2) اجازت لینا مردو خواتین کے لئے یکساں ہے اس میں عزیز و اقارب بھی شامل ہیں ۔
(3) اجازت لینے کے لئے سلام کہنا اور پھراجازت لینا مشروع ہے ۔
(3) اجازت تین دفع سے زیادہ نہیں لینی چاہئے ، اور نہ ملنے پر لوٹ جانا چاہئے ۔
(5) اجازت لیتے وقت اپنا نام بتانا چاہئے اور دروازے کے سامنے کھڑا نہیں ہونا چاہئے ۔
(6) اجازت لینے کے لئے گھر کے مالک اور قائم مقام کی اجازت معتبر ہے ۔
(4) انسان داخل ہوتے وقت اپنی نگاہ نیچے رکھے کیونکہ استئذان کی علت نظر ہی ہے ۔
(5) داخل ہوتے وقت تحیۃ الاسلام ہی اپنائے دیگر الفاظ جیسے صبح بخیر، ھیلو وغیرہ سے مکمل پرہیز کریں کیونکہ اللہ تعالی نے ’’تسلموا ‘‘ کے الفاظ استعمال کئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ’’السلام علیکم‘‘ہی سکھلایاہے۔
(6)جہاں گھر والے بیٹھنے کا کہیں وہیں بیٹھنا چاہئے اس سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے اور اگر مجلس میں آئیں تو جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائیں صحابہ کرام فرماتے ہیں جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو وہیں بیٹھ جاتے جہاں جگہ میسر ہوتی۔
(7) کسی کو اٹھا کر نہیں بیٹھنا چاہئےحدیث میں فرمان ہے ’’ کوئی آدمی کسی کو اٹھا کر خود نہ بیٹھے‘‘
(8)دو آدمیوں کے درمیان بغیر اجازت نہ بیٹھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’کسی آدمی کو جائز نہیں کہ وہ بلا اجازت دو آدمیوں کے درمیان بیٹھ کر ان میں جدائی ڈال دے[33]۔
(9) اپنے لئے لوگوں کا احتراما ً کھڑا ہونے کے عمل سے احتراز کرنا چاہئے :پیارے پیغمبر کا فرمان ہے: جو ’’شخص اس بات سے خوش ہو کہ لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے‘‘[34]
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں شرعی آداب اپنانے کی توفیق عطا فرمائے
فإن أصبت فمن الله وإن أخطأت فمني ومن الشيطان وما توفيقي إلا بالله
و صلى الله تعالى على نبينا محمدوالہ وصحبہ أجمعین