پہلا خطبہ
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، ہر قسم کا شکر بھی اللہ ہی کے لئے ہے جس کی اطاعت سے بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں، اور اسی کی نافرمانی سے سخت مصیبتیں اور آزمائشیں آتی ہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں،وہ آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ نبیوں کے سردار ،سب مخلوقات سے افضل ،ہمارے نبی اور سردار محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ یاللہ! ان پر اوران کی آل پراور صحابہ کرام پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما۔
حمد و ثناء کے بعد،
اے مسلمانوں!
میں مجھ سمیت آپ سب لوگوں کو اللہ عز وجل کا تقوی حاصل کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔اور یہی بھلائیاں اور برکتیں سمیٹنے کا وسیلہ ہے۔ اور مشکل کے بعد آسانی آتی ہے، اور تنگی کے بعد فراخی۔
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
الطلاق – 4
اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے (ہر) کام میں آسانی کر دے گا۔
اے مسلمانوں!
مسلمانوں کو کئی بڑےفتنوں اور مصیبتوں نے گھیر لیا ہے۔
اللہ کے نبیﷺ نے اس بارے میں فرمایا ہے:
يتقَارَبُ الزمان، ويقِلُّ العمل، ويُلقَى الشُّحُّ، وتظهر الفتن
زمانہ(قیامت کے) قریب ہوجائے گا اور عمل کم ہوجائے گا اور لالچ بڑھ جائے گی اور فتنے پھیل جائیں گے۔
خبردار! سب سے زیادہ خطرناک اور نقصان دہ فتنے جو آج مسلم معاشرے میں دنیاوی خواہشات کی وجہ سے پائے جاتے ہیں وہ یہ ہیں:
آپس کے اختلافات، فرقہ واریت اور حسد و بغض کا انتشار۔
جس وجہ سےممالاک اور باشندوں کو اتنا بڑا نقصان اور شر پہنچا کہ امن و امان ختم ہوگیا اورجان، مال اور عزتیں تباہ ہوگئیں۔
ایسے فتنے برپا ہوئے کہ روحانیت مجروح ہوگئی ، عزتیں پامال ہوگئیں اور مال لُٹ گیا یہاں تک کہ مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ اٹھا لیا، اور ایک دوسرے کی عزت اور مال پر حمل آور ہوئے۔
اور اللہ کا یہ فرمان ان پر صادق آیا:
يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ
الحشر – 2
اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اُجاڑ رہے تھے۔
اور ان پر نبی علیہ السلام کی یہ ممانعت صادق آگئی:
لا ترجِعوا بعدي كُفَّارًا يضرِبُ بعضُكم رقابَ بعضٍ
میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو۔
خبردار! سب سے عظیم ، اور فتنوں کے شر سے بچنےکے اہم ترین اسباب یہ ہیں: ٹھوس اور بنیادی چیزوں کو تھام لینا، پاکیزہ شریعت کے اصول و مبادی کو اپنانا ، اور یہی ایک واحد راستہ ہے جس میں فتنوں کے خطرات سے بچنے کی عظیم گارنٹی ہے،اور شر اور خطرات کو دور کرنے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔
ان بنیادی اصولوں میں یہ بھی شامل ہے کہ ہمیں یقینی طور پر یہ بات جان لینی چاہئے کہ مسلمانوں پر آنے والی ہر برائی اور مصیبت کی جَڑ یہ ہے کہ ہم نے اسلام کے طور طریقوں کو پسِ پشت ڈال دیا، رحمن کی فرماں برداری کو معمولی سمجھا، اور اسلامی احکامات کو نافذ کرنے سے منہ پھیرلیا۔
اللہ رب العزت نے تو اعلان فرمایا ہے:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
النور – 63
سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ : اللہ اور رسول ﷺ کے حکم کی مخالفت کرنے والوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ انہیں آزمائش یا دردناک عذاب آپہنچے گا۔
بیشک اللہ عز وجل کا ڈر اوراسلام پر عمل کرنا اورقرآن کا حکم ماننا ہی نجات کا ذریعہ ہے اور چھٹکارے کی کشتی ہے۔
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
الطلاق – 2/3
اور جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے۔ اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو۔
خالقِ کائنات کی توحید کے تقاضوں پر قائم رہنا اوررب العالمین کی شریعت کو ایمانی و عملی طور پر اپنانا ہی امن و سکون کا سبب ہے۔
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ
الانعام – 82
جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے۔ ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں ۔
نبی علیہ السلام نے امت کو بہت سی وصیتیں کی ہیں، جن میں سے ایک وہ وصیت بھی ہے جو ہر زمانے اورحادثات کے اعتبار سے ہر وقت کی ضرورت ہے:
احفَظ الله يحفَظك
اللہ (کے دین) کی حفاظت کریں اللہ آپ کی حفاظت کرے گا۔
اے مسلم! اللہ (کے دین ) کی حفاظت کریں۔
اے امت مسلمہ! اسلام کی حفاظت کریں، قرآنی احکامات کی حفاظت کریں، سید الانبیاء پیارے نبی ﷺ کی سنت کی حفاظت کریں تو اللہ تعالی کی طرف سے آپ کی مکمل حفاظت، عنایت اور رعایت ہوگی۔
اے مسلمان!
اس وقت امت کے لئے عار کی بات یہ ہے کہ: یہ امت نبی ﷺ کی ہدایات سے بھٹک گئی، اور پوری دنیا مسلمانوں کے پیچھے پڑگئی ہے، اور حالات انتہائی ناگزیر ہوچکے ہیں۔
اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے:
يا أيها الناس! إني تركتُ فيكم ما إن تمسَّكتُم به فلن تضِلُّوا أبدًا: كتابَ الله وسُنَّتي
اسنادہ صحیح
اے لوگوں! میں نے تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑی ہیں، اللہ کی کتاب اور میری سنت۔ اگر تم انہیں تھام لوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔
مسلمانوں اور ان کے قائدین کے درمیان کتنی زیادہ ہی کانفرنس اور اجتماع منقد ہوتے ہیں لیکن جن ہدایات سے امت کی اصلاح یقینی ہے ان کی طرف دیکھنے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں ہوتا۔
لیکن اس کے باوجود بھی آنکھیں ان ہدایات کو دیکھنے سے قاصر ہیں جن کی بدولت امت کو کامیابی نصیب ہوتی ہے۔
اگر ہم سب (حاکم و محکوم) بھلائی ، امن اور اصلاح کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہمیں اس وصیت کو قوت، صدق اور اخلاص کے ساتھ اپنانا ہوگا جو وصیت نبی علیہ السلام نے ہمیں درج ذیل حدیث میں کی ہے:
عليكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن تأمَّر عليكم عبدٌ حبشيٌّ، وستَرَون بعدي اختِلافًا شديدًا؛ فعليكم بسُنَّتي وسُنَّة الخلفاء الراشدين المهديين، عضُّوا عليها بالنواجِذ، وإياكم والأمور المُحدثات؛ فإن كل بدعةٍ ضلالة
آپ سب اللہ کے ڈر، (امیر کی باتوں کو) سننا اور اطاعت کرنا اپنے اوپر لازم کرلیں اگرچہ آپ پر ایک حبشی غلام حکمرانی کر رہا ہو۔اور میرے بعد بہت سخت اختلاف آپ کو نظر آئے گا، تو آپ سب کے لئے یہ ضروری ہے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفا کی سنت کو مضبوطی سے تھام لیں اور اسے اپنی ڈاڑھ سے پکڑلیں،اور نئے کاموں کو ایجاد کرنے سے بچنا کیانکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ یہ حدیث اہل علم کے نزدیک صحیح ہے۔
مسلمانوں کی جماعت!
جن بنیادی اصولوں کی حفاظت ضروری ہے خاص طور پر فتنوں کے دوران وہ یہ ہیں کہ ہم آپس میں اخوت ایمانی کا سلسلہ مستحکم بنائیں، اور ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ اللہ کی محبت ایمان کا سب سے مضبوط کڑا ہے۔ اور کس طرح ہم میں سے اکثر لوگوں کے دل اس دنیا کی محبت میں ڈوب چکے ہیں؟۔
في “صحيح مسلم” أن النبي – صلى الله عليه وسلم – قال: «إن أمتَكم هذه عافِيَتها في أوِّلِها، وسيُصيبُ آخرَها بلاءٌ وأمورٌ تُنكِرونَها، وتجِيءُ فتنٌ فيُرقِّقُ بعضُها بعضًا، وتجِيءُ الفتنةُ فيقول المُؤمنُ: هذه مُهلِكَتي، ثم تنكشِف، ثم تجيءُ الفتنةُ فيقول: هذه هذه، فمن أحبَّ أن يُزحزحَ عن النار ويُدخَل النار فلتأتِه منِيَّتُه وهو يُؤمنُ بالله واليوم الآخر، وليأتِ إلى الناس الذي يُحبُّ أن يُؤتَى إليه
نبی علیہ السلام نے فرمایا: یقینا اس امت کی عافیت ابتدائی لوگوں میں ہے، اور آخری لوگوں کو مصیبتیں آئیں گی اور ایسے معاملات سامنے آئیں گے جو آپ نہیں جانتے ہوں گے(اس سے مراد دین میں نت نئے فتنے ، بدعات اور خرافات ایجاد کی جائیں گی وگرنہ صحابہ کو بہت ہی بڑی بڑی دنیاوی مصیبتیں آئیں)۔ایسے فتنے برپا ہوں گے جو دوسرے فتنوں کو ہلکا کردیں گے، ایک فتنہ آئے گا اور مومن کہے گا کہ اس میں تو میں ہلاک ہی ہوجاؤں گا، پھر وہ فتنہ ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ ایک دوسرا فتنہ آ پہنچے گا تو مومن کہے گا کہ یہی میری ہلاک کا سبب لگ رہا ہے، جو شخص آگ سے بچنا چاہتا ہے اور جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھے، اور لوگوں کو اس حساب سے ملے جس طرح وہ اپنے لئے دوسروں سے توقع رکھتا ہے۔
یہ حدیث نبوت کے واضح دلائل میں سے ایک ہے، کتنے زمانوں سے امت فتنوں سے گزر رہی ہے، ایک فتنہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔اور اللہ کے علاوہ کسی کے پاس بھی برائی سے روکنے کی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی توفیق۔
اسلامی بھائیوں!
ایک بنیادی و عظیم اصول یہ بھی ہے جس کو اپنانا اور اس کا خیال رکھناہر جگہ کے حکام اور عوم کا فرض ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کے کلام قرآن مجیداور احادیث رسول ﷺ پر عمل کرنا، اور امتِ مسلمہ کے حکاّم و عوام ممالک و باشندوں کی اصلاح کے لئے اسلام نے جو حقوق بیان کئے ہیں ان کے مطابق زندگی گزارنا، اور جب تک طرفین (حکام و عوام) ان حقوق کی پاسداری کریں گے امن و سکون قائم رہے گا اورفراخی و استحکام اور ترقی عروج پذیر ہوگی۔ اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ان حقوق میں سستی کرنے کی وجہ سے ہی برائیاں پھیلتی ہیں اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اور ہر ملک کے حاکم کی ذمہ داری ہے کہ اخلاص، سچائی اور اللہ کو نگہبان جان کر اپنی امانت اور ذمہ داری کا حق ادا کرے۔اور جو درج ذیل حکم اللہ تعالی نے داود علیہ السلام کو دیا اسے بھی ہمیشہ یاد رکھے :
يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ
ص – 24
ہر ملک کے حاکم، امیر اور قائدکی ذمہ داری ہے کہ وہ دل و جان سے نبی ﷺ کے اس فرمان کو یاد رکھے جو انہوں نے امارت (حکمرانی) کے بارے میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
إنها أمانة، وإنها يوم القيامة خِزيٌ وندامةٌ، إلا من أخذَها بحقِّها، وأدَّى الذي عليه فيها
رواہ مسلم
بیشک یہ ایک امانت ہے، اور قیامت کے دن رسوائی و ندامت ہے، مگر ( وہ شخص اس رسوائی سے محفوظ رہے گا) جس نے اسے حق کے ذریعہ حاصل کیا اور اپنی ذمہ داری کو صحیح ادا کیا۔ (یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے)۔
کیا آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ اس دنیا میں رہیں گے؟! ہرگز نہیں، یہ زندگی تو فانی ہے چاہے حاکم کی ہو یا محکوم (عوام) کی۔
ہر حاکم کا شعار نبی علیہ السلام کا یہ فرمان ہونا چاہئے:
ما من راعٍ يسترعِيه الله رعيَّةً يموتُ يوم يموتُ وهو غاشٌّ لرعيَّته إلا حرَّم الله عليه رائحةَ الجنةِ
کوئی بھی ذمہ دار شخص جسے اللہ نے کسی کی ذمہ داری دی تھی اگر وہ اپنے ماتحت لوگوں کو دھوکہ دے کر فوت ہوا تو اللہ اس پر جنت کی خوشبو تک حرام کردے گا۔(صحیح مسلم)۔
اے مسلمان حاکم!
آپ کی مرضی ہے کہ آپ نبی ﷺ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق جنت اختیار کرتے ہیں یا جہنم۔
تمام مسلم ممالک میں حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ اپنی عوام کے معاملات دیکھیں، اور اپنے ممالک میں ظلم کی تمام مختلف صورتوں کو ترویج دینے سے پرہیز کریں، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ تو ظلم سے بچتے ہیں لیکن ان کے منتخب وزراء یا ذمہ داران لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور اس کے بارے میں حاکم سے بھی پوچھا جائے گا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إني حرَّمتُ الظلمَ على نفسِي وجعلتُه بينَكم مُحرَّمًا
میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کرلیا ہے اور تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کردیا ہے۔
اور عدل کی بدولت ہی حاکم و محکوم امن سے رہ سکتے ہیں ، اور ظلم کے ذریعہ سب ہی لوگوں کو شر اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، اور فساد برپا ہوجاتا ہے، بغض و عداوت جیسی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں، اور مسلم ممالک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ نورِ نبوت کی سچی پیشین گوئیوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔
حاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے احوال کی خبر گیری کرے، اور کسی ایسے کام میں مشغول نہ ہو جو اسے عوام کی ذمہ داریاں نبھانے اور ان کی حاجات پوری کرنے سے روکے ورنہ اسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کی کمانڈ بھی برباد ہوجائے گی۔اور حکمران و عوام کے درمیان بڑا فساد برپا ہوجائے گا۔
ایک صحیح حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:
من ولاَّه الله شيئًا من أمور المسلمين فاحتجَبَ دون حاجَتهم وخلَّتهم وفقرِهم احتجَبَ الله دونَ حاجته وخلَّته وفقرِه يوم القيامة
اللہ تعالی جسے بھی مسلمانوں کا ذمہ دار ( حاکم وغیرہ) بنائے اور وہ ان کی حاجات، ضروریات اور مجبوریوں کو چھوڑ کر دستِ شفقت نہ رکھے تو اللہ تعالی بھی اس کی حاجات ، ضروریات اور ان پر شفقت و رحمت چھوڑدیتا ہے۔
حاکم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ سے ڈرے، اور خواہشات و نافرمانی کو ایک طرف چھوڑدے۔اور مسلمانوں کے معاملات میں ایسے متقی، پرہیزگار، فرماں رواں اور نیک لوگوں سے تعاون لےجو طاقتور اور امانت دار ہوں اور لوگوں کے لئے بھلائی کے جذبات رکھتے ہوں۔دلوں کو ملاتے ہوں، جدا نہ کرتےہوں، فساد کی بجائے اصلاح کرتے ہوں۔ اور اگر حاکم کے ساتھ برے لوگ مل گئے تو خطرات سر پر منڈلائیں گے اور شر کو تقویت ملے گی۔
اورتاریخ بہت بڑا عبرت کا سبق ہے، اور تاریخی حادثات ڈانٹ کے لئے کافی ہیں، اور جو شخص ان حادثات سے بھی عبرت حاصل نہیں کرتا تو پھر کب اسے عقل آئے گی؟
نبی علیہ السلام نے فرمایا:
من قلَّد عملاً على عصابةٍ وهو يجِدُ في تلك العِصابة من هو أرضَى منه؛ فقد خانَ اللهَ وخانَ رسولَه وخانَ المؤمنين
جس نے کوئی کام جماعت میں کسی ایک کے سپرد کیا حالانکہ اس سے بہتر شخص موجود تھا تو اس نے اللہ اور رسول ﷺ اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی۔ (حاکم اور دیگر کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے)
تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں! اپنے دین پر کسی اور چیز کو ترجیح دینے سے ڈریں، اور دوسروں کی دنیا کی خاطر اس دین کو خراب کرنے سے گریز کریں۔
حاکم کے لئے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ ہر زمانے میں انسانی نفوس پر دنیا کا غلبہ رہا ہے اور معاشرتی برائیوں کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگ دنیا وی مفادات، زیب و زینت اور عہدوں کو ہی اپنا نصب العین بناچکے ہیں۔
اس سلسلے میں جو شخص بھی اس امارت کی آزمائش میں مبتلاء ہوگیا اسے اس دنیا سے متأثر ہوکر اپنی عوام کو چھوڑنے سے گریز کرنا چاہئے۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے:
إن رجالاً يتخوَّضون في مالِ الله بغير حقٍّ، فلهم النارُ يوم القيامة
بیشک کچھ لوگ اللہ کا مال ناحق حاصل کرتے ہیں ان کی جزا قیامت میں آگ ہے۔
اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے عملی طور پر ارشاد فرمایا:
إني واللهِ لا أُعطِي ولا أمنعُ أحدًا، إنما أنا قاسمٌ أضعُ حيثُ أُمِرت
رواہ البخاری
بیشک میں کسی کو نہ ہی (اپنی مرضی سے) دیتا ہوں اور نہ ہی کسی کو (اپنی مرضی سے) منع کرتا ہوں بلکہ میں تو اس طرح تقسیم کرتا ہوں جس طرح مجھے حکم ہوتا ہے۔
اسی لئے ان کی درس گاہ سے ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور دیگر جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیھم تربیت یافتہ ہوکرمنظر عام پر آئے۔
اس بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت کو ہی دیکھ لیں، انہوں نے اپنے نفس پر اتنا کنٹرول کیا ہوا تھا کہ جب ان سے یہ کہا گیا:
يا أمير المؤمنين! لو وسَّعتَ على نفسِك في النفقة من مالِ الله.
امیر المومنین! ہماری خواہش ہے کہ آپ بیت المال میں سے اپنی ذات پر بھی خرچ کیا کریں۔
تو ان کا جواب یہ تھا:
“أتدري ما مثَلي ومثَلَ هؤلاء؟ كمثَل قومٍ كانوا في سفَرٍ فجمعُوا منهم مالاً، وسلَّمَه إلى واحدٍ منهم يُنفِقُ عليهم؛ فهل يحِلُّ لذلك الرجل أن يستأثِرَ عنهم من أموالِهم؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ میری اور ان کی مثال کیا ہے؟ یہ مثال اس طرح ہے کہ کچھ لوگ سفر میں ہوں اور وہ اپنا مال کسی ایک شخص کے پاس جمع کردیں تاکہ وہ ان پر خرچ کرتا رہے، تو کیا یہ جائز ہوگا کہ وہ شخص ان کے مال کو (اپنی مرضی سے) اپنے لئے بھی استعمال کرنا شروع کردے۔
حاکم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان پانچ اہم چیزوں کی حفاظت کے لئے ہر ممکن کوشش کرے: دین، جان، عقل، عزت اور مال۔ اور ان میں سب سے عظیم چیز دین ہے، جس کے لئے حاکم پر فرض ہے کہ وہ اللہ کی کتاب اور رسول ﷺ کی سنت کو نشر کرنے کے لئے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانے کی بھرپور کوششیں کرے، اور اپنے ملک میں نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کے لئے افراد اور مراکز قائم کرے۔ اور ہر حال میں اللہ کی شریعت نافذ کرے۔ اور جو نظام بھی اللہ کی شریعت کے خلاف ہو اسے پسِ پشت ڈال دے۔ اور فاسدین اور مبتدعین پر سختی کرے۔ اور مسلمانوں کے برخلاف کسی کو بھی فساد کرنے کی مہلت نہ دے، چاہے اس فساد کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا
الاعراف – 56
اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ کرو ۔
اللہ کے بندوں!
وعلى الرعيَّة وعلى المُجتمع أن يقومَ بحقُوقِه للراعِي، والتي من أهمِّها: طاعةُ الحاكم في غير معصِيَة الله – جل وعلا -، الحِفاظُ على السمع والطاعة ما لم يُؤمَروا بمعصيةٍ، وأن يبذُلوا المُناصَحَة وفقَ الأصول الشرعيَّة سرًّا لا علَنًا بالرِّفقِ واللِّينِ واللُّطفِ.
عوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حاکم یا ذمہ داران کے حقوق ادا کریں، اور ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر اللہ کی نافرمانی کا کام نہ ہو تو حاکم کی اطاعت کی جائے، اور جب تک کسی گناہ کا آرڈر جاری نہ ہو اس وقت تک حاکم کی بات سننے اور فرماں برداری کرنے پر قائم رہیں، اور علیحدگی میں شریعت کے اصلوں کے مطابق نرمی، مٹھاس اور محبت سے نصیحت کرتے رہیں۔
اور عوام کی یہ بھی ذمہ ہے کہ حاکم کے لئے (نیکیوں کی ) توفیق، بھلائی اور سچائی پر قائم رہنے کی دعائیں کرتے رہیں۔
حکمران کا احترام کرنا اور ان کی عزت و مقام کی حفاظت کرناعوام کے لئے ضروری ہے۔
مسند احمد میں صحیح حدیث ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
من أكرمَ سُلطانَ الله – تبارَك وتعالى – في الدنيا أكرمَه الله يوم القيامة، ومن أهانَ سُلطانَ الله – تبارك وتعالى – في الدنيا أهانَه الله يوم القيامة
جس نے دنیا میں اللہ تبارک و تعالی کے (مقرر کردہ) حاکم کی عزت کی تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو عزت سے نوازیں گے، اور جس نے دنیا میں اللہ تبارک و تعالی کے (مقرر کردہ) حاکم کی توہین کی تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی بھی توہین کریں گے۔
اور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ حاکم کے ظلم و ستم پر صبر کریں۔
صحیح بخاری میں نبی علیہ السلام کا فرمان ہے:
إنكم ستَرَون بعدي أثرَةً وأمورًا تُنكِرونَها». قالوا: فما تأمُرنا يا رسول الله؟ قال: «أدُّوا إليهم حقَّهم، وسلُوا اللهَ حقَّكم
یقینا آپ لوگ میرے بعد خود غرضی اور ایسے معاملات دیکھیں گے جو آپ جانتے تک نہیں ہوں گے،انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا: ان کا حق انہیں دے دو اور اپنا حق اللہ سے مانگو۔
اسی طرح عوام کی ذمہ داری ہے کہ مسلمان حکمران کے خلاف خروج کرنے سے بچیں جب تک کہ وہ واضح کفر نہ دیکھ لیں۔ اور اس سلسلے میں علما کی مقررر کردہ شرائط کو بھی دیکھنا ہوگا نہ کہ عوام اور لا علم لوگوں کی باتوں کو۔
صحیح بخاری و مسلم کی حدیث ہے:
في “الصحيحين” أن عُبادة بن الصامِت – رضي الله عنه – قال: بايَعنا رسولَ الله – صلى الله عليه وسلم – على السمع والطاعة في منشَطنا ومكرَهنا، وعُسرِنا ويُسرِنا، وأثرَةٍ علينا، وألا نُنازِعَ الأمرَ أهلَه، «إلا أن ترَوا كُفرًا بُواحًا عندكم فيه من الله بُرهان
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے اللہ کے رسول ﷺ سے اس بات پر بیعت کی کہ ہم ہر خوشی اور غمی میں، مشکل اور آسانی میں ، یعنی ہر حال میں بات سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے، اور جھگڑا نہیں کریں گے۔جب تک کہ واضح کفر نہ دیکھ لیں جس (کفر) کے بارے میں اللہ کی طرف سے کوئی دلیل بھی ہو۔
اللہ کے بندوں!
ایک بہت ہی بڑا فتنہ یہ ہے کہ مسلمان کفار اور مشرکوں کی مشابہت اختیار کریں، خاص طور پر جو باتیں اسلامی احکامات اور ہدایات کے مخالف ہوں، اسی وجہ سے مسلمانوں کو رسوا کن برائیوں اور بڑے نقصان نے گھیر لیا ہے۔ اسی لئے پیارے پیغمبر ﷺ نے امت کو اس سے ان الفاظ کے ذریعہ ڈرایا ہے:
من تشبَّه بقومٍ فهو منهم
جو کسی قوم کی مشابہت کرے گا وہ انہی میں سےہوگا۔
مسلمانوں!
فتنہ کے دور میں حکمرانوں اور عوام کے لئے جن بنیادی اصولوں کی حفاظت ضروری ہے وہ یہ ہیں : سب کو اس بات کی حرص ہونی چاہئے کہ وہ لوگوں کو جمع کرنے والے کام کریں اور فرقہ واریت سے بچیں، اور محبت کی فضا کو قائم کریں،بغض پھیلانے سے پرہیز کریں۔اور سب لوگ صبر کا مظاہرہ کریں کیونکہ صبر بہت سے ایسے کاموں سے روک دیتا ہے جن کا انجام برا ہوتا ہے۔اور صبرکے فقدان کی وجہ سے فتنوں کے اسباب شعلہ انگیز ہوتے ہیں، اور شر و فساد کو ہوا دینے والی آگ بھڑکتی ہے۔
اور علما کے اقوال کے مطابق فتنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں: حق اور صبر کو چھوڑدینا۔
وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
العصر – 1/3
زمانے کی قسم، بیشک (بالیقین) انسان سراسر نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے (۱) اور نیک عمل کئے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
حاکم اور عوام کو بردباری، صبر و تحمل جیسی صفات اپنانے کے ساتھ ساتھ جلدبازی سے بچنا چاہئے، اور انہی صفات کے ذریعہ ہی معاملات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے، اور صحیح میزان میں تولا جاسکتا ہے۔ جبکہ عجلت اور جلد بازی سے بہت سارے کام بگڑجاتے ہیں۔اسی طرح سب کی ذمہ داری ہے کہ تمام معاملات میں نرمی سے کام لیں۔
ما كان الرِّفقُ في شيءٍ إلا زانَه، ولا نُزِع من شيءٍ إلا شانَه، والرِّفقُ كلُّه خيرٌ
نرمی جس چیز میں بھی ہو اسے سجا دیتی ہے۔ اور اگر کسی چیز میں نرمی نہ ہو تو عیب دار بنادیتی ہے۔ اور نرمی میں تو بھلائی ہی بھلائی ہے۔
اے مسلمانوں!
اس عظیم نظام کی پابندی کریں جس سے آپ کے حالات درست ہوں گے اور ممالک ترقی یافتہ ہوں گے۔
میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور مجھ اور آپ سمیت تمام مسلمانوں کے لئے اللہ سے ہر گناہ کی مغفرت مانگتا ہوں، آپ لوگ بھی اس سے مغفرت مانگیں، بیشک وہ بہت بخشش کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، اور اس کی توفیق اور احسانات پر اسی کا شکر ہے، اور میں اسی کی تعظیم بیان کرتے ہوئے یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جنہوں نے اللہ کی رضا کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ یا اللہ! ان پر اور ان کی آل اور صحابہ پر رحمتیں اور درود نازل فرما۔
حمد و ثنا کے بعد،
اے مسلمانوں!
اللہ کا تقوی عملی طور پر اپنالیں تاکہ دنیا و آخرت میں سعادت حاصل ہوجائے۔
اللہ کے بندوں!
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان جب بھی توحید پر استقامت اختیار کر لیتے ہیں اور صحیح ایمان پر قائم ہوتے ہیں اور ایمان کے تمام حقوق، لوازم اور تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، اور اسلامی احکامات پر عمل کرتے ہیں، اورنبی علیہ السلام کی سیرت کے مطابق زندگی گزارتے ہیں تو اللہ رب العزت ان کے ہر غم کو دور کردیتا ہے اور ہر پریشانی ختم کردیتا ہے اور رزق کے ایسے مواقع فراہم کرتا ہے جو اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتے، اور انہیں برائیوں اور گناہوں سے بھی بچاتا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا
الحج – 38
سن رکھو! یقیناً سچے مومنوں کے دشمنوں کو خود اللہ تعالٰی ہٹا دیتا ہے۔
اللہ کے بندوں!
یقینا نبی مکرم ﷺ پر درود اور سلامتی بھیجنا سب سے افضل عمل ہے۔ یا اللہ! ہمارے پیارے اور محبوب ترین نبی محمدﷺ پر رحمتیں، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔یا اللہ! خلفائے راشدین اور ہدایت یافتہ ائمہ ـ ابو بکر، عمر، عثمان و علی ـ اور آل اور صحابہ سے بھی راضی ہوجا اور ان لوگوں سے بھی جو قیامت تک ان کی پیروی کریں گے۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ یاللہ! مسلمانوں کو شر اور گناہوں سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! مسلمانوں کو فتنون کے شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! انہیں ایک بات پر متفق کردے۔ یا اللہ! ان کی صفوں میں اتحاد پیدا فرما۔ یا اللہ! ان کے غموں کو دور فرمادے۔ یا اللہ ! ان کی مصیبتوں کو ٹال دے۔
یا اللہ! اپنے اور ان کے دشمن کے مقابلے میں ان کی مدد فرما۔ یا اللہ! اپنے اور ان کے دشمن کے مقابلے میں ان کی مدد فرما۔ یا اللہ! اپنے اور ان کے دشمن کے مقابلے میں ان کی مدد فرما۔
یا اللہ ! مسلمانوں میں جو سب سے بہتر ہو اسے حاکم بنانا۔ یا اللہ ! مسلمانوں میں جو سب سے بہتر ہو اسے حاکم بنانا۔ یا اللہ ! مسلمانوں میں جو سب سے بہتر ہو اسے حاکم بنانا۔
یا اللہ! ان کا حاکم اہل ایمان اور متقی کو بنانا۔ یا اللہ! اے سب سے رحم کرنے والے! ان کا حاکم اہل ایمان اور متقی کو بنانا۔
یا اللہ! اے ہمیشہ رہنے والے! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے امن کی حفاظت فرما۔ یا اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے امن کی حفاظت فرما۔
یا اللہ! اے عزت و جلال والی ذات! ہمارے امن و سکون اور فراخی کو قائم و دائم فرما۔
یا اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں مہنگائی سے، وبا سے، زلزلوں اور مصیبتوں سے، اور فتنوں کے شر سے، چاہے وہ (فتنے) ظاہری ہوں یاپوشیدہ۔
یا اللہ! مسلمان مرد و خواتین کی مغفرت فرما۔ یا اللہ! مسلمان مرد و خواتین کی مغفرت فرما۔
یا اللہ! مسلمان مرد و خواتین کی مغفرت فرما، چاہے وہ حیات ہوں یا فوت ہوچکے ہوں۔
یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائیاں عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
یا اللہ! ہمارے امیر کو ہر اس کام کی توفیق دے جس سے تو خوش اور راضی ہوتا ہے۔ یا اللہ! ان کی پیشانی سے پکڑکر انہیں نیکی اور تقوی کے کاموں میں لگادے۔
یا اللہ! نائب امیر کو بھی ہر بھلائی کی توفیق عطا فرما۔ یا اللہ! ان دونوں کے اعمال کو اپنی رضا کا باعث بنادے۔
یا اللہ! تمام مسلمانوں کے حکمرانوں کو اپنی عوام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما۔
یا اللہ! ان فتنوں کے حالات میں مسلمانوں پر رحم فرما۔ یا اللہ! ان فتنوں کے حالات میں مسلمانوں پر رحم فرما۔
یا اللہ! اے تمام جہانوں کے رب! (ان مصیبتوں سے) ان کے نکلنے کا راستہ بنادے۔
یا اللہ! انہیں معاملات میں ہدایت عطا فرما۔ یا اللہ! انہیں معاملات میں ہدایت عطا فرما۔ یا اللہ! انہیں معاملات میں ہدایت عطا فرما۔
یا اللہ! اے ہمیشہ سے زندہ و باقی رہنے والے! اے عزت و جلال والے! شام کے مسلمانوں کی حفاظت فرما۔
یا اللہ! مصر کے مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ یا اللہ! تونس کے مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ یا اللہ! لیبیا کے مسلمانوں کی حفاظت فرما۔
یا اللہ! یمن کے مسلمانوں کی حفاظت فرما۔ یا اللہ! ان کے لئے دینِ اسلام کو نافذ کرنے کی راہیں ہموار کردے۔ یا اللہ! ان کی باتوں میں اتفاق پیدا فرما۔ یا اللہ! ان کی صفوں میں اتحاد پیدا فرما۔ یا اللہ ! یا ذاالجلال والإکرام! ان کی خواہش کو پورا فرمادے۔
اللہ کے بندوں!
اللہ کا کثرت سے ذکر کریں، اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کریں۔