پہلا خطبہ:
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں صلوٰۃ و سلام نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہی ایسے اختیار کرو جیسے تقوی اختیار کرنے کا حق ہے، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو اچھی طرح (قولاً و عملاً) تھام لو۔
معاشرے کے امن و امان اور سلامتی کی بنیادی شرط
مسلمانوں!
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام اور اولاد آدم کو اپنی اطاعت کے تحت زمین آباد کرنے کے لئے (زمین کا) خلیفہ بنایا، ان پر فضل و رحم کرتے ہوئے ہر چیز ان کے لئے مسخر بھی کی تا کہ وہ ان سے رضائے الہی کے حصول کے لئے معاونت حاصل کریں، فرمانِ باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا
البقرة – 29
وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ہر چیز پیدا کی۔
یاد رکھو! خوشحال زندگی اللہ کی عبادت، اور نبی مکرّم ﷺ کی سنت کی پیروی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، بلکہ توحید ِباری تعالیٰ کسی بھی معاشرے کے امن و امان اور سلامتی کے لئے بنیادی شرط ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ
الانعام – 82
جو لوگ ایمان لائے، اور اپنے ایمان کیساتھ ظلم (شرک) کی ملاوٹ نہ کی تو انہی لوگوں کے لئے امن ہوگا، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے۔
امن کا ضامن ایمان اور (ایمان و امن) کا باہمی گہرا تعلق
ایمان ہی امن کا ضامن ہے، اور (امن و ایمان) دونوں ہی زندگی کے ہر لمحے کی بنیادی ضرورت ہیں، انہی کی وجہ سے زندگی خوشحال اور وافر رزق میسر آتا ہے ، معاشرے کے ہر فرد کا دوسرے سے تعلق بنتا ہے، سب ایک بات پر متفق اور ایک دوسرے سے مانوس ہوتے ہیں، شعائر پر اطمینان کیساتھ عمل کیا جاتا ہے، صاف چشموں سے علم حاصل کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مکمل کنٹرول، اور حکومت اس کے بغیر ملتی ہی نہیں ، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا
انور – 55
’’ تم میں سے جو مؤمن ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ایسے ہی خلافت عطا کرے گا جیسے تم سے پہلے کے لوگوں کو عطا کی تھی اور ان کے اُس دین کو مضبوط کرے گا جسے اُس (اللہ) نے ان کے لئے پسند کیا ہے،اورانہیں بد امنی کے بعد امن مہیا فرمائے گا، پھر وہ صرف میری ہی عبادت کریں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گے‘‘۔
فقدانِ توحید کا نقصان
لیکن جب عقیدہ توحید مفقود (غیرموجود) ہو تو امن کی جگہ بد امنی پھیل جاتی ہے،معیشت تباہ ہوجاتی ہے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوجاتے ہیں، خاندان بکھر جاتے ہیں،لوگوں کی اخلاقیات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھوک افلاس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ معاشرہ بد امنی سے کوسوں دور ہوتا ہے۔
اللہ کی حفاظت و نصرت کن لوگوں کو نصیب ہوتی ہے؟
جو کوئی حدود اللہ کی عملی پاسداری کرے،اسلامی احکامات بجا لائے،اور شریعت میں منع کردہ کاموں سے بچے، تو اللہ تعالی اس کی دنیاوی حفاظت فرماتے ہوئے اس کے جسم، مال، اور اہل عیال کو اپنی حدظ و امان نصیب فرما دیتا ہے، اور (دنیا کے ساتھ ساتھ اس کی) دینی حفاظت فرماتے ہوئے اسے گمراہ کن نظریات و افکار،شبہات اور حرام امور سے محفوظ رہنے کی توفیق عطاء فرمادیتا ہے، نبی علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے:’’تم اللہ کو یاد رکھو، وہ تمہیں تحفظ فراہم کرےگا‘‘ (ترمذی)
خوشحالی کی انتہا تک رسائی امن وایمان سے ہی ممکن ہے،چنانچہ مواشرے کے امن کی حفاظت کرنا اور دوسروں کو بھی حفاظت کی تلقین کرنا اس کا حق ہے۔
نعمتِ امن کا شکر صرف ایک اللہ کی عبادت سے ممکن ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
[مکہ کے لوگوں کو چاہیے کہ] وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔ جس نے انہیں بھوک میں کھلایا، اور خوف میں امن عطا کیا۔فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ
قریش – 3/4
ظالموں کی تباہی و بربادی کب اور کیسے؟
زمین پر (امن کے ساتھ) آباد کاری (ایک اللہ ہی کی)عبادت سے ہی ممکن ہے، جبکہ اللہ کیساتھ شرک کرنا،اور لوگوں پر ظلم و زیادتی کرنا زمین پر سب سے بڑا فساد ہے، یعنی معصوم جانوں کا قتل کرنا، کسی کی آبرو ریزی کرنا ، پر امن لوگوں کو دہشت زدہ کرنا ، اور عہد و پیمان توڑنا اسی فساد میں شامل ہے۔
اللہ تعالی نے ظالموں کی کامیابی اور قیادت کی نفی کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
یوسف – 23
ظالم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔
شروع سے لیکر اب تک ظالموں کی تباہی و بربادی سنت الہی ہے،فرمانِ باری تعالی ہے:
وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ
الانبیاء – 11
کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جن کے رہنے والے ظالم تھے تو انھیں ہم نے پیس کر رکھ دیا اور ان کے بعد دوسرے لوگ پیدا کردیئے۔
تاہم اگر کسی ظالم کی ہلاکت میں بظاہراً تاخیر ہو تو یہ حکمت الہی کی وجہ سے ہے، آپﷺکا فرمان ہے:(بیشک اللہ تعالی ظالم کو مہلت دیتا ہے، لیکن جب اسے پکڑتا ہے تو بالکل اچانک پکڑتا ہے)۔
پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ
ھود – 102
اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی والوں کو پکڑتا ہے تو ایسے ہی پکڑتا ہے، بیشک اس کی پکڑ بڑی درد ناک اور سخت ہوتی ہے۔
(بخاری)
مظلوم کی مدد انسان اور خصوصاً اہلِ اسلام کی بنیادی ذمہ داری ہے
اللہ تعالی نے ظالم کے ہاتھ روکنے اور طغیانی سے باز رکھنے کا حکم دیا، تا کہ مظلوموں کو تحفظ ملے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ
البقرۃ – 193
ان کے ساتھ قتال (جنگ و جہاد) کرو، جب تک کہ فتنہ ختم نہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے،اور اگر وہ بازآجائیں توصرف ظالموں پرہی دست درازی کرسکتے ہو۔
مزید مظلوم لوگوں کی مدد کرنے کا حکم دیا، چنانچہ آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (اپنی بھائی کی مدد کرو،چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم) (بخاری) (ظالم کی مدد اسے ظلم سے روکنا ہے اور مظلوم کی مدد اس کا ساتھ دینا اور اُسے ظلم و زیادتی سے بچانا ہے)۔
مظلوم کی مدد دین میں بھائی چارے کا بنیادی حق ہے، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (مؤمنین کی باہمی محبت، پیار، رحمت و شفقت کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، اگر اس کا ایک عضو بھی بیمار ہو تو مکمل جسم بے خوابی اور بخار کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے) متفق علیہ
مظلوم لوگوں کی مدد کرنا جرأت مندی اور عظمت کی علامت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مظلوموں کی مدد کرنے کا حکم بھی دیا، اور فرمایا: (مظلوم آدمی کی مدد کرو) (احمد)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “اللہ کی اطاعت کرنا،مظلوم کی مدد کرنا،اللہ کے لئے بھائی چارہ قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے کا حلیف (معاون و مددگار) بننا شریعتِ اسلامیہ میں انتہائی پسندیدہ عمل ہے،اور اس کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے”۔
یہی وجہ ہے کہ یہ صفت آپ ﷺمیں بعثت سے پہلے بھی پائی جاتی تھی،چنانچہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : “اللہ کی قسم! اللہ تعالی آپ کو کبھی رسوا نہیں کرےگا، آپ ﷺتو صلہ رحمی کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، اور مہمان نوازی کے ساتھ آفات میں لوگوں کی مکمل مدد بھی کرتے ہیں”۔ (متفق علیہ)
عرب کی تاریخ کا سب سے بڑا معاہدہ
بلکہ (رسول اللہ ﷺ کے دور میں) قریش قبیلے کے ذیلی خاندانوں نے زمانہ جاہلیت میں معاہدہ “حلف الفضول” کے تحت ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا (اس طور پر) اعلان کیا تھا، کہ مظلوم لوگوں کی مدد کے لئے ظالم کے خلاف سب متحد ہونگے ، اور جب تک مظلوم کا حق ادا نہیں ہو جاتا ظالم کے خلاف کھڑے رہیں گے۔
امام ابن کثیررحمہ اللہ اس معاہدے کے بارے میں کہتے ہیں:” یہ معاہدہ عرب کی تاریخ میں رونما ہونے والا سب سے عظیم ترین معاہدہ تھا”۔
(کیونکہ) اس طرح باطل ختم ہوگا،اور زمین پر فساد میں کمی آئے گی۔
یمن میں کاروائی کیوں؟
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اس ملک (مملکتِ سعودی عرب) کی قیادت نے یمن میں مظلوموں کی پکار پر لبیک کہا، تو ’’فیصلہ کن طوفان‘‘ پوری قوت کے ساتھ ظالموں کے خلاف چل پڑا، جس کے لئے قائد اورعوام شانہ بشانہ کھڑے ہوگئے، فتح کی کرنیں چمک اٹھیں، اور دانشوروں کے ساتھ مظلوم لوگ بھی اس پرخوش ہوئے۔
کامل ترین فتح اللہ وحدہ کے سامنے التجائیں کرتے ہوئے گڑگڑانے سے ہی ملے گی، امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:” دنیاوی تکالیف و پریشانیوں کے (رضائے الٰہی سے ) خاتمہ کے لئے عقیدہ توحید کا کوئی ثانی و مقابل نہیں”۔
فتح و نصرت کے اسباب
اطاعتِ الہی:
اللہ کی اطاعت سے فتح جلدی نصیب ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ
محمد – 7
اگر تم اللہ (کے دین) کی (اطاعت ، حفاظت و تبلیغ کے ذریعہ) مدد کرو، تو وہ تمہاری مدد کرےگا۔
دعاء:
اور فتح کی چابی دعا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ
الانفال – 9
(یاد کرو) جب تم اپنے رب سے مدد طلب کر رہے تھے، تو اس نے تمہاری دعا فوراً قبول کی۔
مدد کے لئے صرف اللہ کو پکارنا:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ” ہرمُکلَّف (اسلامی احکامات کے پابند) کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ علی الاطلاق اللہ کے سوا مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے، کسی بھی قسم کی مدد ملے تو وہ اللہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے”۔ (لہٰذا صرف اللہ ہی سے مدد طلب کی جائے)۔
حالتِ جنگ میں اسوہِ نبیِ رحمت ﷺ
انبیائے کرام اللہ کے سامنے سب سے زیادہ گڑگڑانے والے ہوتے ہیں، ہمارے پیارے نبیﷺنے غزوہ بدر کے دن اللہ تعالی سے انتہائی الحاح کیساتھ دعا فرمائی، حتی کہ آپ کی چادر بھی گرگئی،اور پھرغزوہ خندق کے موقع پرآپ ﷺ کی دعا کے یہ الفاظ تھے:
اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، سَرِيعَ الْحِسَابِ، اهْزِمِ الأَحْزَابَ، اللَّهُمَّ اهزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ
یا اللہ! قرآن نازل کرنے والے، جلدی سے حساب لینے والے، تمام (دشمن) افواج کو شکست دے، یا اللہ! انہیں ہزیمت و شکست سے دوچار کر، اور ان کے قدموں کو اکھاڑ دے] (متفق علیہ)
مؤمنین کی دعا بھی قرآن میں بیان ہوئی:
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
آل عمران – 147
ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ بخش دے، اور کسی کام میں زیادتی ہو گئی ہو تو وہ بھی معاف فرما، اور ہمیں ثابت قدم بنا، اور ہماری کافروں کے خلاف مدد فرما۔
ثابت قدم رہیں، اللہ پر بھروسہ کریں، نماز قائم کریں، تکبر سے دور رہیں اوراللہ سے خیر کی امید رکھیں۔
ثابت قدمی اور تقوی کے سامنے ہر تکلیف ہیچ ہے:
وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا
آل عمران – 120
اگر تم ثابت قدم رہو، اور تقوی اختیار کرو، تو ان (دشمنوں) کی مکاریاں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔
دورانِ جنگ کثرت کے ساتھ ذکر الہی کرنا کامیابی کی کرن ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
الانفال – 45
اے ایمان والو! جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بکثرت یاد کرو ؛ تاکہ تم کامیاب رہو۔
مصیبت میں نمازقائم کرنا بھی اللہ کی مدد کا باعث ہے، اللہ جل شانہ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
البقرۃ – 153
اے ایمان والو! صبر اور ایمان کے ذریعے مدد طلب کرو، بیشک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
(جائز) اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ تعالی پر توکّل و بھروسہ کرنا ، ایمان و طاقت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
الطلاق – 3
جو بھی اللہ تعالی پر توکل کرے تو وہی اسے کافی ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:” اللہ پر توکل کے ذریعے انسان مخلوق کی طرف سے ملنے والے ناقابل برداشت ظلم و ستم بھی روک سکتا ہے”۔
“حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ”
مصیبت کے وقت پڑھا جاتا ہے، چنانچہ انہی کلمات کو دونوں خلیلوں نے بھی کہا تو اللہ تعالی نے انہیں فتح عطا فرمائی۔
اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھنا کامل توحید اور فتح کی نوید ہے، حدیث قدسی میں ہے: (میں اپنے بندے کیساتھ اس کے گمان کے مطابق پیش آتا ہوں) متفق علیہ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : “جو شخص بھی اللہ تعالی کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہے، تو اللہ تعالی اسے حسن ظن کے مطابق ہی عطا فرماتا ہے”۔
وعدہ الہی فتح و خوشخبری کی صورت میں پورا ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ
غافر – 51
بیشک ہم اپنے رسولوں اور مومنوں کو دنیاوی زندگی میں فتح یاب فرمائیں گے، اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔
ایک مسلمان اپنے دل کو ہمیشہ اللہ کے ساتھ لگا کر رکھتا ہے، چنانچہ خود پسندی، اور اپنی طاقت پر فخر نہیں کرتا، فرمان باری تعالی ہے:
وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ
التوبة – 25
حنین کا دن [یاد کرو] جب تم اپنی کثیر تعداد پر خود پسندی میں مبتلا ہوگئے، تو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا، بلکہ کشادہ زمین بھی تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم پیٹھ پھیر کر چلے گئے۔
افواہیں اور مسلمان
ایک مؤمن کو عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے ہربات کو تصدیق کے بعد ہی قبول کرنا چاہیے، اور دشمنوں کی طرف سے پھیلائی گئی افواہوں پرکان بھی نہیں دھرنا چاہییں، کیونکہ “سنی سنائی باتیں کرنا بہت بری بات ہے” آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: (کسی شخص کے جھوٹے ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کر دے) مسلم
تحفظِ حرمین شریفین
ایسا شخص مبارکباد کا مستحق ہے جس نے اپنی جان حرمین شریفین کی حفاظت اورمظلوم لوگوں کی مدد میں قربان کردی، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے: (جنت میں سو درجے ہیں، اللہ تعالی نے یہ درجات مجاہدین فی سبیل اللہ کے لئے تیار کیے ہیں،ہر دو درجات کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان و زمین کے درمیان ہے) بخاری
نیت میں خلوص پیدا کریں
اس عظیم عبادت کو ادا کرنے والے افراد کے لئے نیت خالص کرنا انتہائی ضروری ہے، آپﷺسے دریافت کیا گیا: “ایک شخص اپنی دلیری کے لئے، دوسرا قبائلی تعصب کے لئے، اور تیسرا ریا کاری کے لئے قتال کرتا ہے، ان میں سے”فی سبیل اللہ” کون ہے؟ “تو آپﷺنے فرمایا: (جو کلمۃ اللہ کی بلندی کے لئے لڑے ، وہی مجاہد فی سبیل اللہ ہے) متفق علیہ
دیارِ حرمین کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے
سرحدوں پر پہرا دینے والوں کو اجرعظیم کا وعدہ دیا گیا ہے،آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان ہے: (اللہ کی راہ میں ایک دن کا پہرا دنیا اور جو کچھ اس پر ہے ،ان سب سے افضل ہے) مسلم
جس شخص کی بھی ان میں شرکت کرنے کی سچی نیت ہو تو انہیں عمل کیے بغیربھی اس کا اجر ملے گا، آپ علیہ الصلاۃ و السلام کا فرمان ہے: ’’بیشک مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم جتنا بھی چلے اور وادیوں سے گزرے ہو، وہ تمہارے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں، وہ بیماری کی وجہ سے (تمہارے ساتھ) نہیں آسکے‘‘۔ مسلم
اہلِ یمن کے لیے تعلیمات
یمن کے تمام اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ اپنی اسلامی تابناک تاریخ مسخ نہ ہونے دیں، اور نبی ﷺنے ان کے لئے جو تعریفی کلمات ارشاد فرمائے تھے ان کی لاج رکھیں، آپ ﷺنے فرمایا: (تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں، ان کے دل انتہائی نرم ہیں، ایمان یمنی ہے، اور حکمت بھی یمنی ہے) متفق علیہ (یعنی کتاب و سنت کے نھج پر قائم عقیدہ توحید اور سنتِ نبوی ﷺ کے حامل یمن کے اہلِ حق کا ایمان ہی اصل ایمان اور انہی کی حکمت اصل حکمت ہے)۔
(لہٰذا) اہل یمن کے لئے ضروری ہے کہ حق بات، اور دین کے لئے اپنا ایک ٹھوس مؤقف بنائیں، تفرقہ و اختلاف سے دور رہیں، ایک حکمران کے تحت سب جمع ہو جائیں ، اور باغیوں کو چاہیے کہ وہ حکمِ الہی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں۔
اس تفصیل کے بعد: مسلمانوں!
فتح کا اصل مأخذ اور سنتِ الٰہیقوت کا اصل ماخذ و مصدر اللہ کی ذات ہے، وہ اپنے فیصلوں پرمکمل کنٹرول رکھتا ہے، سنتِ الہی بھی یہی ہے کہ حق و اہل حق کی مدد کرتا ہے، باطل و اہل باطل کو ملیامیٹ کر تا ہے، اللہ تعالی نے اپنے اولیاء کے لئے فتح لکھ دی ہے، جبکہ اس کے دشمنوں کو صرف شکست ہی ملے گی۔
فتح کے بعد
فتح کے بعد مسرت و شادمانی شکرِ الہی اور حمد و تسبیح کے بغیرمکمل نہیں ہوسکتی، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (1) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا (2) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
النصر – 1/3
جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچے۔ لوگوں کواللہ کے دین میں جوق درجوق داخل ہوتا دیکھ لیں۔ تو اپنے اپنے رب کی پاکی اور حمد بیان کریں، اور اسی سے بخشش مانگیں، بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔
فتح کی وجوہات
فتح کی وجوہات(مادی وسائل و)اسباب کو قرار دینے سے بالکل گریز کریں،کیونکہ فتح صرف اللہ کی طرف سے ملتی ہے۔
مسلمان کو اپنے مظلوم بھائیوں کی تکالیف دور ہوتے ، اور کلمۃ اللہ کو بلند ہوتے دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ
المنافقون – 1
عزت صرف اللہ کے لئے، رسول اللہ کے لئے،اورمؤمنوں کے لئے ہے، لیکن منافق اس بات کا ادراک نہیں رکھتے۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانوں!
پوری دنیا میں مملکتِ سعودی عرب کا مقام و مرتبہ۔
اللہ تعالی نے اس ملک کو مسلمانوں کے قبلہ یعنی بیت اللہ اور مسجد رسول اللہ علیہ الصلاۃ و السلام کے ذریعے بہت شرف بخشا ہے،اس حکومت کی بنیاد کتاب و سنت ہے،اس کا مشن دین کی حفاظت،دینی نشرواشاعت ،قیامِ عدل، اورامت مسلمہ کے مسائل کو پوری دنیا کے سامنے رکھ کران کا بھر پوردفاع کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو مسلمانوں کی قیادت ملی، اللہ تعالی نے اپنی خصوصی مدد کے ذریعے اس ملک کی حفاظت فرمائی، اور اس کی مدد بھی کی، یہی وجہ ہے کہ یہاں پر امن و ایمان ہمیشہ قائم دائم رہا، بلکہ مسلمان چاہیے کسی بھی خطے میں رہتے ہوں، ان کے دل اسی ملک کے کے لئے دھڑکتے ہیں، حتی کہ دشمن بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آتے ہیں، اور یہ اللہ تعالی کا اس ملک پر بہت بڑا احسان ہے، ہم اسی لیے صرف اللہ کی حمد و ثنا ہر دم کرتے ہیں۔
یہ بات جان لو کہ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پرصلوٰۃ و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ اوراس کے فرشتے نبی پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر صلوٰۃ وسلام بھیجا کرو۔
اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد
یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین : ابو بکر، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الأکرمین!
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یااللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے، اور اس کے سارے اعمال اپنی رضا کے لئے چن لے، اور تمام مسلم حکمرانوں کو نفاذ شریعت اور قرآن کو بالا دستی دینے کی توفیق دے۔
یا اللہ! ہماری افواج کی مدد فرما، اور انہیں جلد از جلد فتح و کامیابی عطا فرما۔
یا اللہ! زمین و آسمان کی تمام چیزیں اپنی قوت، طاقت، اور قدرت کے ذریعے ہماری افواج کے لئے مسخر فرما دے، یا قوی! یا عزیز!
یا اللہ! تیرے اور انکے دشمنوں کے لئے ہلاکت و تباہی لکھ دے، یا اللہ! ان کے قدموں تلے سے زمین نکال دے، اور ان کے دلوں میں رعب و دبدبہ ڈال دے، یا ذالجلال وا لاکرام!
یا اللہ! تو ہی معبودِ حقیقی ہے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو ہی غنی ہے، ہم فقیر ہیں، ہمیں بارش عطا فرما، اور ہمیں مایوس نہ فرما۔
یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما۔ ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر بہت ظلم ڈھائے، اگر تو ہمیں معاف نہ کرے ، اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔
اللہ کے بندوں!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل – 90
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔
تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔