رمضان کیسے گزاریں

پہلا خطبہ:

یقیناً تمام  تعریفیں اللہ  کے لئے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد   اللہ کے بندے اور اس کے رسول  ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود  و سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندوں! کما حقہ اللہ سے ڈرو اور خلوت و جلوت میں اسی کو اپنا نگہبان و نگران سمجھو۔

مسلمانوں!

انسان کے لئےعزت و شرف اسی میں ہے کہ وہ اپنا سب کچھ اللہ تعالی کے احکامات کے تابع کر دے اور صرف اسی کی بندگی کرے، یہی لوگوں کے ما بین درجہ بندی کا معیار ہے، چنانچہ ابدی خوشیوں کے متمنی شخص کے لئےبندگی کی چوکھٹ پر ڈیرے ڈالنا ضروری ہے۔ انسانی زندگی اس کام میں آگے بڑھنےکے لئےوسیع تر میدان ہے۔

کچھ اوقات میں اللہ تعالی کی رحمت بندوں پر برستی ہے ، اور مومن کے سامنے بھی آتی ہے شاید کہ مومن رحمت پا لے اور پھر ہمیشہ کے لئےبد بختی سے بچ جائے، دیکھ  لیجیے کہ  مہینوں کا سردار  مہینہ رمضان آ گیا ہے ہم اس مہینے کے لمحات سے گزر رہے ہیں، یہ نیکیوں اور عبادتوں  میں آگے بڑھنے کا مہینہ ہے، اس ماہ میں کرم نوازیاں اور عنایات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں، اس ماہ اللہ تعالی ڈھیروں اجر سے نوازتا ہے اور خوب عنایتیں فرماتا ہے، چاہت رکھنے والےکے لئےخیر و برکات کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اللہ تعالی نے اس مہینے کو دیگر تمام مہینوں پر فوقیت دی ہے، اسی طرح ہماری امت دیگر تمام امتوں  پر فضیلت دیتے ہوئے پورے مہینے کے روزے عطا کیے، ماہِ رمضان میں کی ہوئی محنت قابل قدر ہوتی ہے، مومن اس ماہ میں نیکیوں سے مزین ہو جاتے ہیں۔

 ماہِ رمضان ہمارے پاس آ چکا ہے اور جلد ہی چلا جائے گا اور پھر ہمارے حق میں یا ہمارے خلاف گواہی دے گا، لوگوں کے بامراد اور  یا نامراد ہونے کے متعلق بھی بتلائے گا۔

رمضان المبارک میں اللہ تعالی نے اپنی عظیم ترین کتاب نازل فرمائی:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ

البقرة – 185

 ماہِ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔

اس ماہ میں جنت کے دروازے چوپٹ کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے اچھی طرح بند کر دیے جاتے ہیں، شیاطین اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، یہ مہینہ رحمت، مغفرت اور رضائے الہی سے بھر پور ہوتا ہے۔

اس ماہ میں لیلۃ القدر ہے، یہ بابرکت رات ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے ، اس رات کی فضیلت کے باعث فرشتے اور جبریل  اس رات میں اترتے ہیں، یہ رات فجر تک سلامتی اور خیر والی ہوتی ہے، اس مہینے میں گناہ اور خطائیں معاف کر دی جاتی ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (پانچوں نمازیں ، جمعہ سے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک  کے درمیانی گناہوں کا کفارہ  ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے) مسلم

(وہ شخص تباہ و برباد ہو جائے جس پر رمضان آ کر چلا  جائے اور اس کی مغفرت نہ ہو) ترمذی

متعدد بار مسلمانوں کو اسی مہینے میں فتوحات ملیں جیسے کہ فتح مکہ اور غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی، اس مہینے میں متعدد عبادات یکجا جمع ہو جاتی ہیں اور نیکیوں کی وجہ سے ایمان بھی زیادہ ہو جاتا ہے، ماہِ رمضان میں اللہ تعالی نے ایسے اعمال مقرر فرمائے ہیں جن کی وجہ سے اعمال کا پلڑا بھی بھاری ہو جاتا ہے، آپ ﷺ کی رمضان میں عادت مبارکہ تھی کہ آپ مختلف قسم کی عبادات کثرت سے بجا لاتے تھے، اس ماہ کے شب و روز میں  دیگر ایام سے بڑھ کر محنت فرماتے، سلف صالحین بھی نبی ﷺ کے اسی طریقے پر گامزن تھے، چنانچہ جس وقت عامر بن عبد القیس  قریب المرگ ہوئے تو پھوٹ کر رو دیے، جس پر کہا گیا: “آپ کیوں رو  رہے ہیں؟” تو انہوں نے جواب دیا: “میں موت سے ڈرتے ہوئے یا دنیا کی چاہت میں نہیں رو رہا، مجھے رونا اس لیے آ رہا ہے کہ اب میں دن کے روزے اور رات کا قیام نہیں کر سکوں گا”۔

افضل ترین عبادات  میں اخلاص ، عقیدہ توحید اور اتباعِ نبی ﷺ شامل ہیں، نماز دین کا ستون  ہے، نماز مومنوںکے لئےروشنی کا باعث ، اور اعمال کی بہتری و قبولیت کا ذریعہ ہے، دینی امور میں نماز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا، رمضان میں فرائض سے غافل رمضان کی حقیقت سے غافل ہے اور رمضان میں سنتوں اور مستحبات کی ادائیگی میں سستی کرنے والا رمضان کی فضیلت سے نابلد ہے۔

ماہِ رمضان کے روزے رکھنا نیک شخصیت کی علامت ہے،  اللہ تعالی نے رمضان کے روزے سب لوگوں پر فرض کیے اور نہیں اسلام کا رکن قرار دیا ، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ

البقرة – 183

 اے ایمان والو! تم پر روزے ایسے ہی فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کیے گئے تھے۔

اللہ تعالی نے صرف رمضان کے روزوں کو اپنے لیے مختص فرمایا اور اس کا ثواب بھی بے حد و حساب مقرر کیا، آپ ﷺ فرماتے ہیں: (ابن آدم کے ہر عمل کا ثواب بڑھا چڑھا کر دیا جاتا ہے؛ چنانچہ ایک نیکی دس  سے لیکر سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے، لیکن اللہ تعالی نے فرمایا: سوائے روزے کے؛ کیونکہ روزہ میرے لیے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔) مسلم

ماہِ رمضان کے روزے اسلام میں بہت بڑا مقام رکھتے ہیں، ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا: مجھے عمل کرنےکے لئےآپ کوئی حکم کریں” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (روزے رکھو؛ کیونکہ روزہ بے نظیر عمل ہے) نسائی

آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: (جو شخص رمضان میں ایمان کی حالت میں ثواب کی امید سے روزے رکھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں) متفق علیہ

یہ بھی آپ ﷺ کا فرمان ہے: (مرد کے اہل و عیال ، مال و دولت، ذاتی اور پڑوسیوں سے متعلق گناہوں کو  روزہ مٹا دیتا ہے) متفق علیہ

روزہ کچھ اعمال میں بطور فدیہ یا کفارہ بھی رکھا گیا ہے، روزے کے ذریعے انسان اپنے آپ کو گناہوں اور آگ سے محفوظ بنا سکتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (روزہ ڈھال ہے) ترمذی

اسی طرح فرمایا: (روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری سے بھی اچھی ہے) متفق علیہ

اگر امت افطاری کا وقت ہوتے ہی فوری روزہ کھول لے اور سحری انتہائی آخری وقت میں  کرے تو یہ امتکے لئےبہتری کا باعث ہے۔

روزہ قیامت کے دن روزے داروںکے لئےشفاعت کرے گا: (روزہ کہے گا: پروردگار! میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور من پسند چیزوں سے روکے رکھا ؛ اس لیے میری اس کے بارے میں شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا: میں نے رات کو اسے سونے نہیں دیا؛ اس لیے میری بھی اس کے بارے میں شفاعت قبول فرما۔ تو اللہ تعالی ان دونوں کی شفاعت قبول فرمائے گا) مسند احمد

اللہ تعالی نے جنت خوش گو لوگوں کے لئےتیار فرمائی ہے، جنت میں ایک دروازے کا نام ریان  ہے وہاں سے صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے، اور انہیں داخل ہونے کے بعد کہا جائے گا:

كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ

الحاقة – 24

 گزشتہ دنوں میں جو تم نے اعمال کیے ہیں ان کے بدلے میں جچتا پچتا کھاؤ اور پیو۔

 مجاہد رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ: “یہ آیت روزے داروں کے بارے میں نازل ہوئی ہے”۔

روزے کی وجہ سے خوشیاں ملتی ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (روزے دار دو مرتبہ خوش ہوتا ہے: روزہ افطار کرے تو خوش ہوتا ہے، اور جس وقت اپنے پروردگار کو ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہو گا) بخاری

روزہ حقیقت میں سراپا خیر و برکت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ

البقرة – 184

 روزے  رکھو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔

روزے کے بہت سے مقاصد اور حکمتیں ہیں: چنانچہ روزے کی وجہ سے خلوت  و جلوت ہر حالت میں انسان پروردگار کو اپنا نگہبان و نگران سمجھتا ہے، اللہ کی جنت اور رضائے الہی پانےکے لئےاسی سے ڈرتا ہے، نیز ناراضی اور جہنم سے تحفظ بھی پاتا ہے، روزے کی وجہ سے اطاعتِ الہی اور تقدیری فیصلوں پر استقامت حاصل ہوتی ہے، نیز ممنوعہ امور اور نا فرمانی سے بچاؤ ملتا ہے، روزے کی وجہ سے اصلاحِ نفس اور تزکیۂ نفس کمال تک پہنچ جاتا ہے، اعضائے جسم اور اخلاقی تہذیب روزے کی وجہ سے حاصل ہونے والے فوری نتائج ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جس دن تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو کوئی بھی بیہودہ بات نہ کرے اور غل غپاڑا مت مچائے؛ پھر بھی اگر کوئی اسے برا بھلا کہے تو اسے کہہ دے: “میں روزے سے ہوں”) متفق علیہ

روزے کی وجہ سے شہوت ٹوٹ کر رہ جاتی ہے، شادی کی استطاعت نہ رکھنے والےکے لئےنبی ﷺ نے روزے ہی تجویز فرمائے: (جو شادی کے اخراجات کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ روزے رکھے، روزے اس کی شہوت توڑ دیں گے) متفق علیہ

روزوں میں جسمانی صحت، قلبی صفائی، اور رحمن کا قرب پوشیدہ ہے، اسی طرح روزہ اعضائے جسم  کو گناہوں سے محفوظ کر کے شیطان کو ناکام بنا دیتا ہے، روزوں کی وجہ سے انسان اللہ تعالی کی نعمتوں کی قدر کرتا ہے اور شکر بجا لاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

البقرة – 185

 اس لیے کہ تم تعداد مکمل کر لو اور اللہ تعالی کی بڑائی ایسے بیان کرو جیسے  اس نے تمھیں سکھایا ہے اور تا کہ تم شکر گزار بنو۔

 روزوں کی وجہ سے انسان یہ سمجھ جاتا ہے کہ اسے اللہ تعالی کی کنتی ضرورت ہے، روزوں میں یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ اسلام آسانی والا دین ہے؛ چنانچہ روزوں میں وصال کرنے سے منع فرمایا، سحری آخری وقت میں کھانے کو مستحب قرار دیا، وقت ہونے پر فوری افطاری کی ترغیب دی۔مسافروں ، مریضوں، حمل والی اور دودھ پلانی والے خواتین کو روزوں میں چھوٹ دی۔

رمضان المبارک میں قیام کرنے کی تاکید ہے، اہل جنت کی صفات میں  یہ شامل ہے کہ:

كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ

الذاریات – 17

 وہ رات کا تھوڑا حصہ ہی سوتے تھے۔

  اسی طرح فرمایا:

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا

السجدة – 16

 ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں۔

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید کے ساتھ قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں) متفق علیہ ، اسی طرح فرمایا: (جو شخص امام کے ساتھ آخر تک قیام کرے تو اسکے لئےپوری رات قیام کرنے کا ثواب لکھا جاتا ہے) ترمذی

پیارے نبی ﷺ  جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو  اپنی کمر کس لیتے اور رات کو عبادت کرتے، رمضان میں لیلۃ القدر بھی ہے  ؛ چنانچہ (جو شخص بھی ایمان کی حالت میں  اور ثواب کی امید کے ساتھ اس رات کا قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں) متفق علیہ

صدقہ نجات کی دلیل ہے، رمضان میں کیا ہوا صدقہ افضل صدقہ ہے ، جس وقت آپ کو بھوک پیاس لگے تو اپنے ان بھائیوں کو یاد کریں جو پورا سال اس کرب میں گزارتے ہیں، اللہ تعالی انتہائی سخی ذات ہے اور سخاوت پسند فرماتا ہے، ہمارے نبی ﷺ سب سے بڑے سخی تھے، لیکن رمضان میں آپ کی سخاوت اس وقت مزید بڑھ جاتی تھی جب آپ جبریل امین کے ساتھ مل کر  قرآن کریم کا دور کرتے؛ آپ تیز اندھیری سے بھی تیزی کے ساتھ صدقہ خیرات کرتے تھے، آپ سے کوئی کچھ بھی مانگتا آپ دے دیتے تھے، اس لیے آپ بھی اپنی حلال روزی میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں اور اللہ تعالی سے اس کے اجر کی امید رکھیں۔

 صدقہ مال و دولت میں برکت اور تزکیۂ نفس کا باعث ہے، قیامت کے دن ہر شخص اپنے کیے ہوئے صدقہ خیرات کے سائے تلے ہو گا، اور عرش الہی کا سایہ پانے والوں  میں وہ بھی شامل ہو گا جو : (صدقہ کرتے ہوئے اتنے خفیہ انداز سے دیتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کو بھی علم نہیں ہوتا کہ بائیں نے کیا خرچ کیا ہے) متفق علیہ

مومن اللہ کی راہ میں دیتے ہوئے کسی بھی چیز کو حقیر نہیں سمجھتا؛ کیونکہ ایک پائی ہزاروں کی مالیت سے زیادہ اہم ہو سکتی ہے، پانی پلانا اور کھانا کھلانا بھی صدقہ ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (روزہ افطار کروانے والے کا ثواب بھی روزے دار کے برابر ہے، اور اس سے روزے دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں آتی) ترمذی

ابن عمر رضی اللہ عنہ جب بھی روزہ رکھتے تو  افطاری مساکین کے ساتھ ہی کرتے تھے، صدقہ خیرات اور روزے بیک وقت رکھنا موجبِ جنت ہے، اللہ کے بندوں پر سخاوت کرنے والے پر اللہ سخاوت فرماتا ہے؛ کیونکہ جیسا کام ویسا دام، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جنت میں ایسے کمرے ہیں جن کا اندرونی حصہ باہر سے اور بیرونی حصہ اندر سے دکھائی دیتا ہے) تو ایک دیہاتی شخص نے کھڑے ہو کر کہا: “اللہ کے رسول ! یہ کسکے لئےہیں؟” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (جو اعلی گفتگو کرے، کھانا کھلائے، پابندی سے روزے رکھے، اور رات کے وقت جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو قیام کرے) ترمذی

(رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے) ماہِ رمضان میں سب سے زیادہ اجر وہ لوگ پاتے ہیں جو ذکر الہی میں زیادہ مشغول رہتے ہیں، سب سے بہترین ذکر تلاوتِ قرآن ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ (29) لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ

فاطر – 29/30

 بیشک جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کریں، نماز قائم کریں، اور ہمارے دیے ہوئے سے خفیہ و اعلانیہ خرچ کریں وہی ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی گھاٹے کی نہیں ہو گی۔تا کہ اللہ ان کا اجر انہیں پورا دے اور اپنے فضل سے زیادہ بھی دے۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص قرآن مجید کا ایک حرف بھی پڑھے تو اسے  ایک نیکی ملے گی پھر اس نیکی کو دس گنا بڑھایا جائے گا) ترمذی، آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: (قرآن کا ماہر شخص معزز  اور نیک کاتب فرشتوں کے ساتھ ہو گا) مسلم رمضان کی ہر رات میں جبریل علیہ السلام ہمارے نبی ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے، جس سال میں آپ کی وفات ہوئی تو اس سال دوہری بار مراجعہ فرمایا۔

جب رمضان شروع ہو جاتا تو زہری رحمہ اللہ کہتے تھے: “یہ مہینہ تلاوت قرآن اور کھانا کھلانے کا ہے”۔

کتاب اللہ کو مکمل توجہ کے ساتھ سمجھنا بہت بڑی کامیابی ہے، قرآنی آیات پر غور و فکر کرنا اور پھر اس پر عمل کرنا  انتہائی عظیم عمل ہے۔

اللہ تعالی کے ہاں دعا سے بڑھ کوئی عبادت مقام نہیں رکھتی، دعا حقیقت میں اللہ اور بندے کے درمیاں براہِ راست ناتا ہے، دعا کرتے ہوئے اللہ اور بندے کے درمیان کوئی واسطہ یا رکاوٹ حائل نہیں ہوتی، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

البقرة – 186

 جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں : تو میں قریب ہی ہو، میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں، اس لیے وہ میری بات مانیں اور مجھ پر بھروسا رکھیں ، تا کہ وہ رہنمائی پائیں۔

روزے دار کی دعا رد نہیں ہوتی، سب سے زیادہ قبول ہونے والی دعائیں رات کے آخری حصے اور فرض نمازوں کے آخر میں کی جانے والی دعائیں ہیں۔

اعتکاف بیٹھنا عبادت اور سنت ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں آخر دم تک اعتکاف بیٹھتے رہے) متفق علیہ

زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: “مسلمانوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف بیٹھنا ہی چھوڑ دیا ہے؛ حالانکہ آپ ﷺ جب سے مدینہ آئے آپ ہر سال اعتکاف بیٹھتے رہے یہاں تک اللہ تعالی نے آپ کی روح قبض فرما لی”۔

اولاد اللہ تعالی کی نعمت اور ہمارے ذمہ امانت ہے ، اللہ تعالی ان کے بارے میں ہم سے ضرور پوچھے گا، اگر اولاد نیک صالح ہوئی تو مرنے کے بعد مفید ثابت ہو گی اس سے اللہ تعالی کے ہاں درجات بلند ہوں گے، اس لیے روزے دار کو اپنے اہل خانہ کا خیال رکھنا چاہیے؛ کہ اچھے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹائے، اگر انہیں کسی بات کا علم نہیں ہے تو سکھائے، کسی کو سستی کا شکار دیکھے تو تنبیہ کر دے، بچپن میں ہی روزے رکھنے اور قیام کرنے کی عادت ڈالے، رضائے الہی کا موجب بننے والے کام کرنے کی ترغیب دلائے، رُبیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ” رسول اللہ ﷺ نے انصاریوں کے محلے عاشورا کے دن پیغام بھیجا کہ : آج جس نے روزہ نہیں رکھا بقیہ دن کھانے پینے سے اجتناب کرے اور جس نے روزہ رکھا ہے وہ اپنا روزہ مکمل کرے، تو اس کے بعد ہم عاشورا کا روزہ خود بھی رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی رکھواتے تھے” متفق علیہ

والدین کے ساتھ نیکی اور صلہ رحمی بلندئ درجات کا باعث ہے، لہذا برکتوں والے لمحات میں نیک اولاد اپنے والدین کے مزید قریب ہو جاتی ہے۔

اچھی بات کی دعوت دینے والے کو قیامت کے دن تک اتنا ہی اجر ملتا رہے گا جتنا اس پر عمل کرنے والے کو ملتا ہے، اگر ایک آدمی بھی راہِ راست پر آ جائے تو یہ سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔

اچھی دوستی معاونت ، قوت  اور استقامت کا باعث ہوتی ہے، کوئی بھی عقل مند اچھے دوستوں سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا؛ [غار میں اچھے ساتھی نے ہی کہا تھا]:

إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا

التوبة – 40

 جب اس نے اپنی ساتھی سے کہا: غم نہ کر! بیشک اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے۔

کسی شخص کے نیک ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ زبان کی حفاظت کرے اور نیک کام کرے، اللہ تعالی جب کسی قوم کے بارے میں برا فیصلہ فرما لے تو انہیں جھگڑوں میں ملوث فرما دیتا ہے اور انہیں کچھ کرنے کی توفیق نہیں دیتا ہے۔

توبہ کا دروازہ کھلا ہے، اللہ تعالی کی طرف سے نوازشیں  ہو رہی ہیں، اب کامیاب وہی ہو گا جو توبہ کے دروازے پر دستک دے اور اللہ کے سامنے گڑگڑائے، اپنے نامہ اعمال میں کثرت کے ساتھ استغفار پانے والےکے لئےخوشخبری ہے۔

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانوں!

نیکیوں میں مومن کو سرور اور مزا آتا ہے، کامیابی و کامرانی بھی اسی میں ہے، دن ہو یا رات تقوی کا دامن مومن کے ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ مسلمان کبھی فارغ نہیں بیٹھتا ؛ کیونکہ موت اس کی تاک میں ہے، اس لیے ذاتی محاسبہ کی روش اپنانے والا کامیاب اور غافل شخص نامراد ہوتا ہے، نتائج سامنے رکھنے پر نجات کے مواقع بڑھ جاتے ہیں ، اور ایسا شخص مبارکبادی کا مستحق ہے جو ہوس پرستی بن دیکھے وعدوں کی وجہ سے ترک کر دے۔

أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ

وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ

آل عمران – 133

اپنے رب کی مغفرت اور اتنی بڑی جنت کی طرف دوڑ کر آؤ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، اسے متقی لوگوںکے لئےتیار کیا گیا ہے۔

 اللہ تعالی میرے اور آپ سبکے لئےقرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو ذکرِ حکیم کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی  بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے بخشش مانگو، بیشک وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کے لئےہیں کہ اس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں کہ اس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اس کی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد  اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، اللہ تعالی ان پر ، ان کی آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانوں!

روزہ رکھ کر قربِ الہی کی جستجو اسی وقت کار آمد ہو گی جب فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے مکمل اجتناب  پایا جائے گا؛ لہذا جب روزہ رکھو تو آپ کے ساتھ آپ کے کان، آنکھیں، زبان اور ہاتھوں کو بھی روزہ رکھوائیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ روزے کا دن بھی عام دنوں جیسا ہی ہو ، اس لیے  ! روزوں کے ثواب میں کمی کا باعث بننے والے امور سے بچو، حرام چیزوں کا ارتکاب مت کرو اور نہ ہی حرام چیزیں سنو، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص جھوٹی بات کرنا یا اس پر عمل نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالی کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے) بخاری

اپنی نگاہوں کو بے لگام رکھنے والے کی حسرت و ندامت بھی بے قابو ہو جاتی ہے، نیک عورت ہمیشہ حیا کی چادر لیکر رکھتی ہے، پردہ ہی اس کی خوبصورتی ہے، وہ ہمیشہ بلا ضرورت اجنبی مردوں  کے سامنے آنے اور بازار میں جانے سے کتراتی ہے۔

یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور  فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

 اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام  بھیجا  کرو۔

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد

 یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے  کرنے والے خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!

یا  اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما،  یا اللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنا دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات درست فرما،  یا اللہ! ان کے خطوں کو امن و امان  عطا فرما، یا قوی! یا عزیز!

یا اللہ! ہمارا قیام و صیام قبول فرما۔

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کو تیری رہنمائی کے مطابق توفیق عطا فرما، اور ان کے سارے اعمال اپنی رضاکے لئےمختص فرما، اور تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب کے نفاذ اور شریعت کو بالا دستی دینے کی توفیق عطا فرما، یا ذو الجلال و الاکرام! یا اللہ! ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے سپاہیوں کی مدد فرما،  یا اللہ! ان کے دلوں کو مضبوط بنا، یا ذو الجلال و الاکرام!

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90

 اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے  منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے [قبول کرو]اور یاد رکھو۔

تم عظیم و جلیل اللہ کو یاد کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ  اور زیادہ دے گا ،یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

آپ یعنی جناب عبد المحسن بن محمد بن عبد الرحمن القاسم القحطانی کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے گریجویشن کیا اور المعہد العالی للقضاء سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مسجد نبوی کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ محکمۃ الکبریٰ مدینہ منورہ میں قاضی (جسٹس ) بھی ہیں ۔