پہلا خطبہ
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ، اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، نیز نفسانی و بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، اور اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں سیدنا محمد -ﷺ-اللہ بندے اور اس کے رسول ہیں ، آپ نے پیغام رسالت پہنچا دیا، امانت ادا کر دی اور امت کی مکمل خیر خواہی فرمائی، نیز راہِ حق میں کما حقہ جہاد کیا یہاں تک کہ آپ اس جہاں سے رخصت ہوگئے، اللہ تعالی آپ پر آپ کی آل، صحابہ کرام اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر روزِ قیامت تک ڈھیروں سلامتی اور رحمتیں نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
سب سے سچا کلام قرآن مجید ہے، سب سے افضل ترین طرزِ زندگی جناب محمد ﷺ کا ہے، بد ترین امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
آل عمران – 102
اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں ہی آئے۔
اللہ کے بندوں!
امت اسلامیہ آج جن فتنوں ، آزمائشوں، مصیبتوں اور مسائل سے گزر رہی ہے، دشمن مسلمانوں پر مسلط ہیں؛ یہ در حقیقت واضح فتح اور کامیابی کیلیے امتحان اور چھان پرکھ کا پیش خیمہ ہے، یہ اللہ کے حکم سے غلبے اور فتح کا پہلا زینہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ
آل عمران – 179
جس حال میں تم ہو اسی پر اللہ ایمان والوں کو نہ چھوڑے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک الگ الگ نہ کر دے۔
اسی طرح فرمایا:
أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ
البقرة – 214
کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یوں ہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے! حالانکہ تمہیں ابھی وہ مصائب پیش ہی نہیں آئے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں کو پیش آئے تھے۔ ان پر اس قدر سختیاں اور مصیبتیں آئیں جنہوں نے ان کو ہلا کے رکھ دیا۔ حتی کہ خود رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ سن لو ! اللہ کی مدد قریب ہے۔
مسلم اقوام!
زمانہ قدیم میں ایک شخص کو پکڑ کر لایا جاتا اور اسے زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا، پھر آرا لا کر اس کے سر پہ رکھ کے اسے دو حصوں میں چیر دیا جاتا تھا؛ لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے دین سے نہ پھرتا، لوہے کی کنگھیوں سے اس کا گوشت ہڈیوں سے جدا کر دیا جاتا تھا، لیکن اس طرح وحشیانہ اور اذیت ناک سزائیں بھی اسے اس کے دین سے موڑنے میں کامیاب نہ ہوتیں۔
اللہ کی قسم! اللہ تعالی اس دین کو غالب کر کے چھوڑے گا۔
وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
الحج – 40
اور اللہ تعالی ضرور بہ ضرور ان کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کریں، بیشک اللہ انتہائی طاقتور اور غالب ہے۔
اللہ کے بندوں!
ابتدا میں جن لوگوں نے اعلانیہ اسلام قبول کیا تھا ان کی تعداد صرف سات تھی: رسول اللہ ﷺ ، ابو بکر ، عمار، عمار کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال اور مقداد رضی اللہ عنہم جمیعاً ۔ ان میں سے اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺ کو ان کے چچا ابو طالب کی پشت پناہی عطا فرمائی، جبکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ان کے قبیلے نے دفاع کیا، لیکن بقیہ لوگوں کو مشرکوں نے پکڑ کر سخت اور شدید ترین عذاب سے دو چار رکھا، ان میں سے بلال رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہر ایک کی زبان سے ایسے کلمات جاری ہوئے جو مشرکین چاہتے تھے ، لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے غیر مناسب کلمات نہ کہنے کی وجہ سے راہِ الہی میں بڑی تکلیفیں اٹھائیں، بلال رضی اللہ عنہ پر مشرکوں نے ظلم کی کوئی کسر نہ چھوڑی، مشرکین نے انہیں خوب سزائیں اور تکلیفیں دیں کہ شاید بلال اپنے دین کو چھوڑ دے، لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے ان کی سزاؤں سے بھی بڑھ کر پامردی اور چٹان جیسی ثابت قدمی کا ثبوت دیا، اس پر کافروں نے آپ کو مزید سزاؤں سے دو چار کیا، بلال رضی اللہ عنہ کا آقا امیہ بن خلف آپ کو مکے کی دوپہر کے وقت جھلساتی دھوپ میں گھر سے نکالتا اور مکہ کے سنگ ریزوں پر کمر کے بل لٹا کر بلال رضی اللہ عنہ کے سینے پر بھاری پتھر رکھنے کا حکم دے دیتا اور کہتا: “توں موت تک اسی طرح سزا جھیلتا رہے گا، یا توں محمد پہ ایمان سے انکار کر دے” امیہ یہ بھی کہتا تھا کہ: “او ذلیل غلام! تیری وجہ سے ہم پر کیا نحوست آن پڑی ہے! اگر توں نے ہمارے معبودوں کا اچھے لفظوں میں تذکرہ نہ کیا تو میں تمہیں دیگر غلاموں کیلیے نشان عبرت بنا دوں گا” امیہ کی ان دھمکیوں پہ بلال رضی اللہ عنہ بڑی جرأت اور پامردی سے کہتے ہیں: “میر ا رب اللہ ہے، وہ ایک ہے، وہ ایک ہے۔ اگر میرے علم میں تمہارے لیے اس سے بھی ناگوار کوئی جملہ ہوتا تو میں وہ بھی کہہ دیتا”۔
جب جان سوزی اور اذیت ناکی اپنی انتہا کو پہنچی تو آسانی بھی آ گئی، چنانچہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں خرید کر رضائے الہی کیلیے آزاد کر دیا، آپ کے اسی عمل کے متعلق اللہ تعالی کا یہ فرمان نازل ہوا:
وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى (17) الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى (18) وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى (19) إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلَى (20) وَلَسَوْفَ يَرْضَى
اللیل – 17/21
اور جو بڑا پرہیز گار ہوگا اسے جہنم سے دور رکھا جائے گا [17]جس نے پاک ہونے کیلیے اپنا مال دیا [18] اس پر کسی کا کوئی احسان نہ تھا جس کا وہ بدلہ چکاتا [19]وہ صرف اپنے بلند و بالا پروردگار کی رضا کیلیے دیتا ہے[20] اور یقیناً عنقریب وہ اس سے راضی ہو جائے گا۔
اس کے بعد دن گزرتے گئے اور رسول اللہ ﷺ مسلمانوں سمیت مدینہ ہجرت کر جاتے ہیں اور بلال رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کر کے مدینہ پہنچ جاتے ہیں تو سیدنا بلال اسلام کے مؤذن قرار پائے۔
پھر بلال رضی اللہ عنہ کچھ عرصے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ معرکہ بدر میں شرکت کیلیے نکل پڑتے ہیں، دوسری جانب مشرکین اپنے سرغنّوں کے ہمراہ مسلمانوں سے لڑنے کیلیے مکہ سے نکلتے ہیں ان میں امیہ بن خلف اور ابو جہل بھی شامل ہوتا ہے، مشرکین بڑے گھمنڈ اور غرور سے پیش قدمی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا لشکر ایک ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ہے، ان کے ساتھ ناچ گانے والیاں دف کی تال پر مسلمانوں کی ہجو کر رہی ہوتی ہیں اور سب جنگجو کہہ رہے ہوتے ہیں: “اللہ کی قسم! ہم بدر میں تین دن قیام کے بغیر واپس نہیں جائیں گے، ہم وہاں ٹھہر کر اونٹ نحر کریں گے، کھانے کھائیں گے، شراب نوشی کریں گے، ناچنے والیاں ہمارا دل بہلائیں گی، سارے عرب میں ہمارا چرچا ہو گا، وہ ہمارے اس عظیم لشکر کی باتیں کریں گے اور ہمیشہ ہم سے ڈر کر رہیں گے ، ان پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی”۔
دوسری جانب مسلمان تین سو دس سے کچھ اوپر ہوتے ہیں، ان میں گھڑ سوار صرف مقداد ہیں، اب میدانِ معرکہ سجا ہوا ہے اور اللہ کے فیصلے ہونے والے ہیں کہ وہ اس دھرتی پہ کمزور سمجھے جانے والوں پر اللہ اپنا کرم فرمائے اور انہیں قیادت دے کر دھرتی کا والی وارث بنا دے۔
اور اسی دوران بلال کو بھی اپنا ظالم آقا امیہ بن خلف نظر آ جاتا ہے کہ جس نے بلال کو مکہ میں خوب اذیتیں دی تھیں، تو بلال بھی صفیں چیرتے ہوئے اور شیر کی طرح دھاڑتے ہوئے پکارتے ہیں: “کفر کا سرغنّہ امیہ بن خلف! اگر وہ بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا۔ کفر کا سرغنّہ امیہ بن خلف! اگر وہ بچ گیا تو میں نہیں بچوں گا” تو اللہ تعالی نے امیہ کو بلال رضی اللہ عنہ کے قابو میں دے دیا، اور بلال نے امیہ پہ چڑھ کر اسے قصۂ پارینہ اور ماضی کی داستان بنا دیا۔ تو اسی کے بارے میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
هَنِيْئًا زَادَكَ الرَّحْمَنُ عِزًّا
فَقَدْ أَدْرَكْتَ ثَأْرَكَ يَا بِلَالُ
اے بلال تمہیں مبارک ہو، رحمن تمہاری عزت میں اضافہ فرمائے، تم نے اپنا بدلہ لے لیا ہے۔
مَا تَنْقِمُ الْحَرْبُ الْعَوَانُ مِنِّيْ
بَازِلُ عَامَيْنِ حَدِيْثٌ سِنِّي
تجربہ کار جنگجو مجھ سے اسی لیے کڑھتے ہیں کہ میں انتہائی طاقتور کڑیل اور جوان ہوں۔
لِمِثْلِ هَذَا وَلَدَتْنِيْ أُمِّيْ
اسی کیلیے مجھے میری ماں نے جنم دیا تھا۔
تو اللہ تعالی نے اسے بھی مدینے کے دو چھوٹے چھوٹے لڑکوں کے ہاتھوں ذلیل کروایا ، یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔ اس پر ابو جہل حسرت سے کہنے لگا: “کاش مجھے کاشت کاروں کے علاوہ کسی اور نے قتل کیا ہوتا، تو یہ زیادہ اچھا تھا اس سے میری شان میں تو کمی نہ آتی!! اور کوئی مجھے طعنہ نہ دے پاتا!!”۔
پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر ابو جہل کی گردن پہ پاؤں رکھ کر کہتے ہیں: “اللہ نے تجھے ذلیل کروا ہی دیا، اللہ کے دشمن!” اس پر ابو جہل اپنی آخری ہچکی سے پہلے ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر جملہ کستے ہوئے کہتا ہے: “بکریوں کے چھیڑو! توں نے بہت گراں قدر جگہ پہ پاؤں رکھ لیا ہے!”۔
پھر جب مکہ فتح ہو گیا اور بلال رضی اللہ عنہ کعبہ کی چھت پہ چڑھ کر کلمہ توحید کی صدا بلند کرتے ہیں تو قریب ہی وہ جگہ بھی تھی جہاں بلال کو انہی کلمات کی وجہ سے جھلساتی دھوپ میں سزائیں دی جاتی تھیں ، پھر سب کے سامنے بہ بانگ دہل بلال یہ صدا لگاتے ہیں:
“الله أكبر الله أكبر. أشهد أن لا إله إلا الله. أشهد أن محمدا رسول الله.”
بلال کے یہ بول سن کر بلال کے دشمنوں کا غصہ جوبن پہ آ جاتا ہے اور کچھ تو یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں: “اللہ نے میرے باپ پہ کرم فرمایا کہ بلال کے منہ سے یہ الفاظ سننے سے پہلے ہی وہ مر گیا “۔
کسی نے یہ بھی کہا: “کاش یہ وقت مجھے نہ دیکھنا پڑتا اور میں اس سے پہلے ہی مر گیا ہوتا!!”۔
مسلم اقوام!
بلال رضی اللہ عنہ کو اتنا بلند مقام و مرتبہ اسلام میں بہت سی تکلیفوں ،آزمائشوں ، صبر اور جد و جہد کے بعد ہی کہیں جا کر ملا۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
آل عمران – 200
اے ایمان والو! صبر کرو، ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرو اور مورچوں میں ڈٹے رہو، اور اللہ سے ڈرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
اللہ تعالی میرے اور آپ کیلیے قرآن مجید کو بابرکت بنائے، مجھے اور آپ کو قرآنی آیات اور حکمت بھری نصیحتوں سے مستفید فرمائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور عظمت و جلال والے اللہ سے اپنے اور سب مسلمانوں کیلیے گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں، اس لیے آپ بھی اسی سے بخشش طلب کرو، بیشک وہ بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں ، وہ ہی حق کو غالب اور عالی شان بنانے والا ہے، وہ باطل کو رسوا کر کے دھتکارنے والا ہے، اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تا کہ اس دین کو دیگر تمام ادیان پہ غالب کر دے، چاہے مشرکین کو ناگوار ہی کیوں نہ لگے۔ یا اللہ !محمد -ﷺ-پر اور آل محمد پر اسی طرح رحمتیں نازل فرما جیسے توں نے ابراہیم پر اور آل ابراہیم پہ رحمتیں نازل فرمائیں، بیشک تو ہی حمد کے لائق اور بزرگی والا ہے۔
اللہ کے بندوں!
اللہ تعالی مہلت تو دیتا ہے لیکن غفلت نہیں برتتا، اللہ تعالی ظالم کو مہلت دئیے جاتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو اسے خلاصی کا موقع نہیں دیتا:
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ
آل عمران – 178
کافر لوگ ہرگز یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں، یہ ان کے حق میں بہتر ہے، ہم تو صرف اس لیے ڈھیل دیتے ہیں کہ جتنے زیادہ سے زیادہ گناہ کر سکتے ہیں کر لیں اور ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا۔
چنانچہ مکہ میں مسلمانوں کو ابتدائے اسلام میں جو بھی تکالیف اور آزمائشیں آئیں یہ سب ایک نئی نسل تیار کرنے کیلیے تھیں؛ تا کہ اللہ تعالی بعد میں انہی کو زمام کار تھمائے اور انہیں فاتح بنائے، نیز اچھے اور برے لوگوں میں فرق کر دیا جائے۔
اور یہ مختصر سا دورانیہ تھا کہ جس کے بعد اللہ تعالی نے مظلوم و مقہور لوگوں پر احسان فرمایا جنہیں زمین پر کمزور سمجھ لیا گیا تھا للہ تعالی نے انہیں حکمران بنا دیا اور انہیں زمین کا وارث بنا کر زمین کا کنٹرول انہی کو دے دیا۔
تو شرک و کفر کے سر غنّے اور گرو گھنٹال انہی مسلمانوں کے ہاتھوں ذبح ہونے لگے، بلکہ مسلمانوں میں سے بھی غلاموں کے ہاتھوں قتل ہوئے، جیسے کہ بلال اور امیہ کا واقعہ ہے اور اسی طرح ابن مسعود اور ابو جہل ، اس طرح مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے ہوئے اور انہوں نے اپنے بدلے بھی چکا دئیے؛ اور یہ حقیقت ہے کہ:
وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ
الحج – 40
اللہ تعالی ضرور بہ ضرور ان کی مدد کرتا ہے جو اللہ کی مدد کریں، بیشک اللہ انتہائی طاقتور اور غالب ہے۔
اللہ کے بندوں!
اللہ تعالی کے ہاں فضیلت اور مقام کا معیار عمل ہے، نسب یا عہدہ، یا مال و جاہ معیار نہیں ہے، لوگ بالکل اسی طرح برابر ہیں جیسے کنگھی کے دندانے برابر ہوتے ہیں، تم سب کے سب آدم سے پیدا ہوئے ہو اور آدم مٹی سے پیدا ہوا ہے، کسی بھی عربی کو عجمی پہ تقوی کے بنا کوئی فضیلت نہیں۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
الحجرات – 13
لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے ہی پیدا کیا ہے، اور ہم نے تمہیں اقوام اور قبائل میں تعارف کیلیے بنایا، بیشک اللہ کے ہاں تم میں سے معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔
لَعَمْرُكَ مَا الْإِنْسَانُ إِلَّا بِدِيْنِهِ
فَلَا تَتْرُكِ التَّقْوَى اِتَّكَالًا عَلَى النَّسَبِ
تجھے عمر دینے والے کی قسم! انسان دین کے بنا کچھ نہیں، اس لیے نسب پر تکیہ کر کے تقوی کا دامن مت چھوڑو ۔
فَقَدْ رَفَعَ الْإِسْلَامُ سَلْمَانَ فَارِسٍ
وَقَدْ وَقَعَ الشِّرْكُ النَّسِيْبُ أَبَا لَهَبٍ
کیونکہ اسلام نے سلمان فارسی کو [تقوی کی بنا پر ہی] بلند فرمایا، اور شرک نے بلند نسب والے ابو لہب کو گرا دیا ۔
کتنے ہی ایسے غیر معروف متقی لوگ ہیں جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا انہیں دروازوں سے دھتکار دیا جاتا ہے، حالانکہ اللہ تعالی اور اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا، اگر وہ اللہ تعالی پر قسم ڈال دے تو اللہ تعالی اس کی قسم پوری فرما دے۔
ایک بار سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کو نا مناسب الفاظ میں بلاتے ہوئے کہا: “کالی کے بیٹے!” تو رسول اللہ ﷺ کو یہ سن کر غصہ آ گیا اور فرمایا: (ابو ذر! تم نے اسے اس کی ماں کا طعنہ دیا!! تم میں جاہلیت پائی جاتی ہے)۔
نیز رسول اللہ ﷺ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو جنت کی خوش خبری بھی دی اور فرمایا: (بلال! مجھے اپنے اس عمل کے بارے میں تو بتلاؤ جس کی بدولت تمہیں [حصولِ جنت کی ]بہت زیادہ امید ہو؛ کیونکہ میں نے تمہارے جوتوں کی آواز جنت میں سنی ہے)۔
مسلم اقوام!
مشرکین کو اس وقت بہت تکلیف ہوئی جب انہوں نے کعبہ کی چھت سے بلال رضی اللہ عنہ کی آواز میں اذان سنی، ایک طرف بلال کی آواز مشرکوں کو ناگوار گزرتی تھی تو دوسری جانب مسلمانوں کے دلوں کو بھی موہ لیتی تھی، مسلمان بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سننے کے مشتاق رہتے تھے، چنانچہ جب بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے رخصت ہو جانے کے بعد اذان دیتے تو اپنے جذبات بے قابو کر بیٹھتے ، اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیتے، آپ پر غشی طاری ہو جاتی اور لوگوں کو بھی جذباتی کر دیتے تھے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی یاد میں پورا مدینہ ہی گونج اٹھتا تھا۔
ایک بار نبی ﷺ کی وفات کے بعد سحری کے وقت بلال نے اذان دینے کیلیے اسی مسجد نبوی کی چھت پر چڑھے اور جب انہوں نے
” الله أكبر الله أكبر”
ہی کہا تو پورا مدینہ لوگوں کی آواز سے گونج اٹھا، پھر جب آپ نے اذان میں:
“أشهد أن لا إله إلا الله”
کہا تو پورے شہر سے آواز میں مزید گونج پیدا ہوئی ، پھر جب آپ نے کہا:
“أشهد أن محمدا رسول الله “
تو لوگ گھروں سے نکل کھڑے ہوئے۔ اس دن سے زیادہ کسی بھی دن میں مرد و زن کو روتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
اسی طرح جب عمر رضی اللہ عنہ شام تشریف لائے اور بیت المقدس فتح ہو گیا، تو آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم دیا، اس پر بلال کہنے لگے: “امیر المؤمنین! میں نے ارادہ کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کیلیے اذان نہیں دوں گا، لیکن چونکہ آپ نے مجھے حکم دیا ہے تو صرف اس ایک نماز کیلیے اذان دوں گا، پھر جب بلال نے اذان دی اور صحابہ کرام نے بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سنی تو پھوٹ پھوٹ کر رو دئیے”۔
کیونکہ بلال نے انہیں ان کے حبیب اور ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک یاد دلوا دی تھی، اسی یاد نے ان کے ایمان میں ہیجان پیدا کر دیا تھا ۔ چونکہ آپ ﷺ ہی ان صحابہ کرام کی نجات کا باعث بنے تھے اس لیے آپ سے محبت بھی دلی تھی، ان کا قلبی لگاؤ آپ ﷺ سے تھا، ان کے جذبات آپ کے تذکرے کے اسیر تھے، آپ کی محبت سودائے قلب میں شامل ہو کر دلوں پر براجمان تھی۔
نَبِيُّ صِدْقٍ هَدَتْ أَنْوَارُ غُرَّتِهِ
بَعْدَ الْعَمَى لِلْهُدَى مَنْ كَانَ عِمِّيْتاً
سچے نبی کی پیشانی کی روشنی نے بھٹکے ہوئے لوگوں کو گمراہی کے بعد راہ ہدایت دکھائی۔
وَأَصْبَحَتْ سُبُلُ الدِّيْنِ الْحَنِيْفِ بِهِ
عَوَامِرًا بَعْدَ أَنْ كَانَتْ أَمَارِيْتَا
آپ کی وجہ سے دین حنیف کے راستے چٹیل اور ویران ہونے کے بعد آباد ہو گئے ۔
أَحْيَا بِهِ اللهُ قَوْمًا قَامَ سَعْدُهُمُوْ
كَمَا أَمَاتَ بِهَ قَوْمًا طَوَاغِيْتاً
آپ کے ذریعے اللہ تعالی نے اقوام کو خوشحال فرمایا جیسے کہ آپ کے ذریعے طاغوتی اقوام کا خاتمہ فرمایا ۔
اتنی گہری محبت پر انہیں ملامت نہیں کی جا سکتی؛ کیونکہ یہاں تو کھجور کا درخت بھی آپ کی محبت میں سسکیاں لے کر رو پڑا تھا، آپ ﷺ سے محبت اور اظہار مودت کیلیے احد جیسا پہاڑ بھی اپنے جذبات کی ترجمانی کیلیے جھوم اٹھا تھا، یا اللہ! ہمیں بھی آپ ﷺ کی اتنی محبت عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بھی آپ ﷺ کی اتنی محبت عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بھی آپ کا اطاعت گزار بنا، اور ہمیں آپ ہی کے گروہ میں زندہ کر کے اٹھانا، اور ہمیں آپ کی شفاعت نصیب فرمانا۔
مسلم اقوام!
صبر آسودگی کی کنجی ہے، جنت کو ناگوار چیزوں سے گھیر دیا گیا ہے، جبکہ جہنم کو شہوتوں سے گھیر دیا گیا ہے۔
اللہ تعالی اپنے دین کی ضرورت مدد فرمائے گا جیسے اللہ تعالی نے مکہ میں کمزور لوگوں کی مدد فرمائی تھی، جس طرح اللہ تعالی نے فتح مکہ سے پہلے اور بعد میں اپنے اولیا کی مدد فرمائی، اور پھر
وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (4) بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ [5] وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
الروم – 4/6
اس دن مومن خوش ہو جائیں گے [4] اللہ کی مدد سے، اللہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہی سب پر غالب، نہایت رحم والا ہے[5] یہ اللہ کا وعدہ ہے ، اور اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں فرماتا، لیکن بہت سے لوگ جانتے ہی نہیں ہیں۔
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ یا اللہ! اپنے موحد بندوں کی مدد فرما۔ یا اللہ! اس ملک کو اور تمام مسلم ممالک کو پر امن اور مستحکم بنا۔
یا اللہ! ہمارے ملک کو فتنوں سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! ہمارے ملک کو فتنوں سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! اس ملک کو مکاروں کی مکاری اور فسادیوں کے شر سے محفوظ فرما، دشمنوں اور حاسدین کے شر سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو خصوصی توفیق سے نواز، ان کی خصوصی مدد فرما، یا اللہ! ان کے ذریعے اپنے دین کو غالب فرما، یا اللہ! انہیں سنت نبوی کی خدمت پہ بہترین جزا عطا فرما، یا اللہ! ان کے اس کارنامے کو اپنی رضا کیلیے خالص بنا، یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ان کے اس عمل کو جنتوں کے حصول کا باعث بنا، یا ارحم الراحمین! یا اللہ! ولی عہد کو ایسے کام کرنے کی توفیق دے جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بہتری ہو، جس میں ملک و قوم کا فائدہ ہو، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہماری سرحدوں کو محفوظ بنا، ہمارے فوجیوں کی مدد فرما، یا اللہ! بیمار فوجیوں کو شفا یاب فرما، فوت شدگان کو شہدا میں قبول فرما، یا اللہ! ان کی خصوصی حفاظت فرما، ان کا خصوصی خیال فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! تو ہی معبود بر حق ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ یا اللہ! تو ہی معبود بر حق ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔ یا اللہ! تو ہی غنی ہے ہم تو فقیر ہیں، یا اللہ! تو ہی غنی ہے ہم تو فقیر ہیں، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما اور ہمیں مایوس ہونے والوں میں سے مت بنا۔
یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ایسی بارش ہو جو برکت والی، بے ضرر، زر خیز، موسلا دھار، بڑے بڑے قطروں والی، بھر پور ، ساری زمین پر ہونے والی مفید اور نقصانات سے مبرّا بارش عطا فرما۔
یا اللہ! بارش کے ذریعے دھرتی کو لہلہا دے، شہروں اور دیہاتوں سب کیلیے اس بارش کو مفید بنا دے، یا اللہ! شہروں اور دیہاتوں سب کیلیے بارش کو مفید بنا دے۔
یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے ہمیں رحمت والی بارش عطا فرما، مکانات منہدم کرنے والی، غرق آب کرنے والی اور آزمائشوں میں ڈالنے والی بارش نہ ہو۔
یا اللہ! ہم تجھ سے مغفرت طلب کرتے ہیں ، یا اللہ! ہم تجھ سے مغفرت طلب کرتے ہیں ؛ کیونکہ تو ہی گناہ بخشنے والا ہے، ہم پر آسمان سے موسلا دھار بارش نازل فرما، ہم پر اپنی رحمت کے صدقے آسمان سے موسلا دھار بارش نازل فرما، یا ارحم الراحمین!
اللہ کے بندوں!
اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔
اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین : ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور دیگر تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ! اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!