پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى
الاسراء – 1
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی کی سیر کروائی۔
میں لا تعداد اور بے شمار نعمتوں پر اللہ کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں ، اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ بلند و بالا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ کو معراج کے سفر میں آسمانوں کی بلندیوں پر لے جایا گیا۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ،اور تمام صحابہ کرام سمیت آپ کے تابعداروں پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا
الاسراء – 1
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد الحرام سے مسجد اقصی کی سیر کروا ئی جس کے ارد گرد ہم نے برکت فرمائی، تا کہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں۔
اسرا کا سفر بیان کر کے اللہ تعالی نے اپنی رفعت، عظمت اور شان بیان کی کہ اس جیسی قدرت اور طاقت کا مالک کوئی نہیں جو کسی کو راتوں رات اتنی دور کی سیر کروا دے، اللہ تعالی کی قدرت اس حیرت انگیز سفر اور ہمیشہ یاد رکھے جانے والے معجزے میں واضح ہوئی ، اس نے عقل کو دنگ اور انسانی دماغ چکرا کر رکھ دیا ؛ کیونکہ اُس وقت اتنا تیز سفر انسانی سوچ سے ماورا تھا، اس سفر میں رسول اللہ ﷺ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک کا طویل سفر چند لمحوں میں کروایا گیا، آپ نے اس طویل سفر میں اللہ تعالی کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں، پروردگار کی بادشاہی کا جلال دیکھا اور پھر اسی رات واپس بھی آ گئے۔
اسرا اور معراج کا سفر نبوت کی بہت بڑی نشانی اور عظیم ترین معجزہ تھا، اس سفر میں حکمتیں ، احکام اور بڑے بڑے سبق ہیں۔ اس سفر کو اللہ تعالی نے اپنے خلیل اور چنیدہ نبی ﷺ کے لیے مختص فرمایا، یہ بیت اللہ سے بیت المقدس کی جانب سفر تھا ، بیت المقدس انبیاء کا گہوارہ اور قبلۂ اول ہے؛ بیت المقدس کی جانب سفر اس لیے کیا گیا تا کہ آپ ﷺ کی عظمت اور شان و شوکت عیاں ہو، آپ کے عزائم مضبوط ہونے کے ساتھ آپ مزید ثابت قدم ہو جائیں، یہ سفر اللہ تعالی کی جانب سے جیتا جاگتا معجزہ تھا کہ ایک بشر کو آسمانوں میں لے جایا گیا اور پھر دوبارہ زمین پر لوٹا دیا گیا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ساری کی ساری کائنات اللہ سبحانہ و تعالی کے کنٹرول میں ہے، اللہ کے سوا ہمارا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی اس کے علاوہ ہمارا کوئی پروردگار ہے۔
اسرا کے سفر میں اسلام کی عظمت بھی عیاں ہوتی ہے ، یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسلام کو سابقہ تمام شریعتوں کا خلاصہ بنایا ، چنانچہ دین اسلام تمام سابقہ شریعتوں کے مقابلے میں آخری شریعت ہے، اسرا کے سفر نے انبیائے کرام کے مابین بھائی چارے کے تعلقات کو مضبوط بنایا اور یہ بھی بتلایا کہ سب کا پیغام رسالت ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی بھی آسمان کے پاس پہنچتے تو تمام انبیائے کرام نے آپ کا: (خوش آمدید! پارسا بھائی اور نیک نبی ) کہہ کر استقبال کیا، انہی انبیائے کرام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (تمام انبیائے کرام کا باپ ایک ہے اور ان کی مائیں الگ الگ ہیں، ان کا دین ایک ہی ہے، اور میرا عیسیٰ بن مریم کے ساتھ تعلق سب سے بڑھ کر ہے)
اگر تمام انبیائے کرام بھی ہمارے رسول ﷺ کا عہد پاتے تو ان سب کے لیے آپ ﷺ پر ایمان، آپ کی اتباع اور نصرت و تائید کرنا واجب ہوتا، آپ ﷺ ان کے امام اور پیشوا ہوتے، آپ ﷺ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا : (میں تمہارے پاس روشن اور واضح شریعت لے کر آیا ہوں، اگر موسی زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا)
تمام انبیائے کرام نے جمع ہو کر نبی ﷺ کے پیچھے مسجد اقصی میں نماز ادا کی کیونکہ آپ ﷺ کی شان اور مقام بہت بلند ہے، آپ ﷺ تمام تر انبیائے کرام سے افضل ہیں ،امامت کروانے کا ذکر آپ ﷺ نے اسرا کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے خود فرمایا: (موسی علیہ السلام کھڑے نماز ادا کر رہے تھے آپ کا قد درمیانہ اور جسم ٹھوس تھا نیز آپ شنوءہ قبیلے کے افراد جیسے دکھ رہے تھے، اور اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی کھڑے نماز ادا کر رہے تھے، آپ کی شباہت میں سب سے قریب ترین عروہ بن مسعود ثقفی ہیں، ایسے ہی ابراہیم علیہ السلام بھی کھڑے نماز ادا کر رہے تھے اور آپ سے تمہارے ساتھی -یعنی خود رسول اللہ ﷺ – کی شکل سب سے زیادہ ملتی ہے، تو میں نے نماز کی اقامت کہی اور ان کی امامت کروائی) انبیائے کرام کے اس طریقے اور سلیقے سے تمام داعیانِ حق کو سبق ملتا ہے کہ وہ بھی انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اطاعت، نیکی اور تقوی کے امور پر متحد ہو جائیں، اختلاف اور تفریق پیدا کرنے والے اسباب سے پرہیز کریں۔
جس طرح رسول اللہ ﷺ کو مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک تیز رفتاری کے ساتھ سفر کروایا گیا؛ بالکل اسی طرح پوری دنیا میں اسلام بھی بڑی تیزی کے ساتھ پھیلا، اسی لیے تو دین اسلام آفاقی دین ہے کوئی بھی سرحد یا حد بندی اس کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
چنانچہ ابتدائی ادوار میں اسلام اتنی تیزی سے پھیلا کہ ممکن تھا کہ اسے بھی معجزہ قرار دے دیا جاتا، نیز عصرِ حاضر میں اسلام کی مقبولیت میں اضافہ بھی رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی کی تصدیق ہے جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: (اللہ کی قسم! اللہ تعالی اس دین [کے بارے میں اپنے وعدے ]کو لازمی پورا فرمائے گا، یہاں تک کہ ایک مسافر صنعا سے حضر موت تک سفر کرے گا اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہو گا، نہ ہی اسے اپنی بکریوں کے بارے میں بھیڑئیے کا خوف ہو گا)
اور آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (بیشک اللہ تعالی نے میرے لیے زمین سکیڑ دی تو میں نے زمین کے مشرق و مغرب [کی ہر چیز ]کو دیکھا اور میری امت کی بادشاہت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین میرے لیے سکیڑی گئی تھی)
ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ: (یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات ہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالی مٹی یا اون کے بنے ہوئے گھروں میں بھی اس دین کو داخل کر کے چھوڑے گا؛ چاہے اس کی وجہ سے کسی کو عزت ملے یا ذلت۔اللہ تعالی عزت اسلام اور مسلمانوں کو جبکہ ذلت شرک اور مشرکوں کو دے گا۔) رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان بالکل سچ ثابت ہو چکا ہے؛ کیونکہ اسلام اس دھرتی کے طول و عرض میں سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے بلکہ دشمنوں کی زبانیں اور قلمیں بھی اسی کی گواہی دے رہی ہیں۔
اسلام کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ دین اسلام کے احکام آسانی اور وسعت پر مبنی ہیں، اسلامی احکام مبنی بر عدل ہیں، حتی کہ اسلام تو دشمن کے ساتھ بھی رفق اور نرمی کا برتاؤ کرتا ہے، دین اسلام تباہی، ظلم ، بیخ کنی اور انتقام کا دین نہیں ہے؛ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
الانبیاء – 107
اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں پر رحمت کرتے ہوئے ہی بھیجا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کو آسمانوں کی بلندیوں تک لے جایا گیا ، اور آپ کو یہ رتبہ بلند اس لیے ملا کہ آپ نے اپنی شخصیت میں عبدیت کا اعلی ترین مقام سمو رکھا تھا ، اور اسی عبدیت کے اعلی مقام کی وجہ سے اللہ تعالی نے آپ کی تعریف کے اعلی ترین مقام پر بھی آپ کو عبدیت کے ساتھ ہی ذکر کیا اور فرمایا:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ
الاسراء – 1
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو سیر کروائی۔
اسرا اور معراج کے اس سفر کے دوران آپ کو مسجد الحرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کے ما بین انتہائی مضبوط تعلق اور ناتا پڑھنے کو ملے گا، اور اس تعلق میں امت کے لیے بالکل واضح اشارہ ہے کہ مسجد اقصی کے بارے میں معمولی سی سستی کا شکار نہ ہو؛ کیونکہ مسجد اقصی کے مقام، قدسیت اور برکت کا یہی تقاضا ہے۔
ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ” میں نے پوچھا: اللہ کے رسول کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی؟” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (مسجد الحرام) ” میں نے پھر کہا: اس کے بعد؟” آپ نے فرمایا: (مسجد اقصی) “تو میں نے کہا: ان دونوں کے درمیاں کتنے عرصے کا فاصلہ ہے؟” تو آپ ﷺ نے فرمایا: (40 سال )نیز آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (تین مساجد کے علاوہ رخت سفر نہ باندھا جائے: میری یہ مسجد، مسجد الحرام اور مسجد اقصی) بخاری
مسجد اقصی اپنی تاریخ اور فضائل کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں وحدت کا شعور اجاگر کرتی ہے، مسجد اقصی شرک اور گمراہی سے چھٹکارے کے لیے مسلمانوں کا باہمی اخوّتی تعلق مضبوط بناتی ہے، مسئلہ بیت المقدس ہمیشہ اسلام کے سپوتوں کے سینے میں زندہ رہے گا، لہذا کسی کا انکار کرنا اور جارحین کا تہمت لگانا ہمارے اس نظریے میں کوئی لچک پیدا نہیں کر سکتا۔
اسرا اور معراج کا واقعہ ہمیں بتلاتا کہ ہے کہ حق غالب ہو کر ہی رہے گا چاہے باطل دعوے جس قدر بلند آواز اور کثرت کے ساتھ کئے جائیں، کیونکہ باطل کی ساخت ہی کمزور ہوتی ہے جو جلد ہی تباہ و برباد ہو جائے گا، اس کے در و دیوار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ
الانبیاء – 18
بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں پھر حق باطل کا دماغ کچل دیتا ہے اور وہ نابود ہو جاتا ہے۔
نبی ﷺ بھی جس وقت مکہ میں داخل ہوئے تو بیت اللہ کے ارد گرد 360 بت موجود تھے، تو نبی ﷺ انہیں اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے گراتے جاتے اور فرماتے:
جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
الاسراء – 81
حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل مٹنے ہی والا تھا۔
اسرا کے معجزے سے ہم اللہ تعالی کی مدد اور نصرت کے حوالے سے اہم ترین سبق حاصل کرتے ہیں کہ جو بھی اللہ کے دین اور اللہ تعالی کے احکامات پر کار بند ہو گا اللہ تعالی اس کے ساتھ ہوتا ہے، اور اللہ تعالی کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے اس بندے کی حفاظت فرماتا ہے، اسے کامیابیوں سے نوازتا ہے، اس کی مدد اور نصرت فرماتا نیز غلبہ عطا کرتا ہے۔ اس سبق کی وجہ سے ان جان نثاروں کے زخم مندمل ہوتے ہیں جو اخلاص کے ساتھ دشمن کے سامنے سینہ سپر ہیں اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے والے اور ان کے خلاف گھات لگانے والے یہ بات سمجھ لیں کہ مسلمانوں کی مدد کے لیے اللہ سبحانہ و تعالی کو اسباب کی ضرورت نہیں ہے، اگرچہ مسلمان تنہا ہوں تب بھی اللہ تعالی ان کی مدد فرماتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
البقرة – 249
کتنی ہی چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں، اللہ تعالی ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: ” بیشک دشمن پر تمہاری فتح تعداد اور اسلحے کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ تمہیں دشمنوں پر فتح تمہاری اطاعت اور دشمنوں کی نافرمانی کی وجہ سے ملتی ہے، چنانچہ اگر تم نافرمان بن کر دشمن کے برابر ہو جاؤ تو پھر دشمن اپنی تعداد اور اسلحے کی وجہ سے تم پر غالب آ جائے گا۔”
لہذا اگر بیت المقدس اور مسجد اقصی کا مسلمانوں کے دلوں میں کوئی مقام ہے تو پھر مسلمانوں پر لازمی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے سامنے گڑگڑائیں کہ اللہ تعالی مسجد اقصی کو ہمہ قسم کی بے حرمتی سے محفوظ رکھے، اہل فلسطین کے لیے ثابت قدمی اور فتح کی دعا کریں ، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی سے دعا مانگے تو اللہ تعالی اس کو وہی چیز عطا فرما دیتا ہے جو اس نے مانگی یا پھر اس کا ہونے والا نقصان اس دعا کی وجہ سے ٹال دیتا ہے بشرطیکہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے) اس پر حاضرین میں سے ایک آدمی نے کہا: ” پھر تو ہم دعائیں کثرت سے مانگیں گے!” تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (اللہ تعالی تو اس بھی زیادہ دینے والا ہے)
اللہ کے بندوں!
رسولِ ہُدیٰ پر درود پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ
الاحزاب – 56
یا اللہ! ہمارے نبی ﷺ ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما۔
دوسرا خطبہ:
لا تعداد اور بے پناہ حمد و ثنا اللہ کے لیے ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ہمارا اس کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور چنیدہ رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، تمام صحابہ کرام اور آپ کے پیروکاروں پر رحمتیں نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تاریخ کے اوراق میں ایک الگ ہی واقعہ ہے جو کہ عبرتوں سے بھر پور ہے، وہ اس طرح کہ مشرکین لیلۃ الاسرا کے بعد صبح کے وقت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ بتانے آئے کہ تمہارے دوست کا دعوی ہے کہ انہیں مکہ سے بیت المقدس لے جایا گیا اور پھر رات ہی کو واپس بھی لوٹ آئے۔ مشرکین نے یہ سمجھا کہ ابو بکر بھی آپ ﷺ کی اس بات کو جھٹلا دیں گے؛ لیکن سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک مشہور جملہ اور قاعدہ کلیہ بیان کیا کہ: ” اگر انہوں نے کہا ہے تو یہ سچ ہے”
حالانکہ مشرکین کو خود بھی آپ ﷺ کی سیرت کے بارے میں علم تھا کہ آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں جھوٹ نہیں بولتے، آپ کی بات کی تصدیق کی جاتی ہے کوئی آپ کی بات کو جھوٹا ثابت نہیں کر سکتا۔
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دل میں موجود یہ راسخ تصدیق در حقیقت ایمان کا نتیجہ تھا۔ لیکن جس وقت ایمان ہی متزلزل ہو جائے اور لوگوں کے دلوں میں یقین کمزور ہو جائے، تو کچھ اپنے ہی ایسے لوگ رونما ہو جاتے ہیں جو دین اسلام کے متعلق شک کریں اور مسلمہ اصولوں کو توڑیں، یہ قرآنی نصوص اور سنت رسول اللہ ﷺ کو جھٹلا کر اپنی ناقص عقل کے مطابق کتاب و سنت کا محاکمہ کرتے ہیں۔
لیکن جن مومنوں کے دلوں میں ایمان جا گزین ہو چکا ہو تو وہ امام شافعی رحمہ اللہ کی اس بات کا عملی نمونہ بن جاتے ہیں: “ہم اللہ تعالی پر اور اللہ تعالی کی وحی اسی طرح ایمان لاتے ہیں جیسے اللہ تعالی کی مراد ہے، اسی طرح ہم رسول اللہ ﷺ پر اور آپ کی احادیث پر اسی طرح ایمان لاتے ہیں جیسے آپ ﷺ کی مراد تھی”
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، نیز اپنے رحم ، کرم، اور احسان کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا اللہ! کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! تیرے اور دین دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ اور مستحکم بنا دے۔ یا رب العالمین!
یا اللہ! فلسطین اور مسجد اقصی کی خصوصی حفاظت فرما، یا اللہ! مسجد اقصی اور فلسطین میں برسرپیکار مسلمانوں کی مدد فرما، یا اللہ! ان کی نصرت، تائید اور مدد فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! مسجد اقصی کو ہمہ قسم کی وثنیت اور گندگی سے پاک فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! جو بھی ہمارے بارے میں یا اسلام اور مسلمانوں کے متعلق برے ارادے رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعاء!
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت مانگتے ہیں اور جہنم سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں چاہے کوئی جلدی ملنے والی یا دیر سے، یا اللہ ! ہم تجھ سے معلوم یا نامعلوم ہمہ قسم کی برائی سے پناہ مانگتے ہیں چاہے چاہتے وہ جلد آنے والی ہے یا دیر سے ۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان پر رحم فرما، یا اللہ! ہمیں، ہمارے والدین اور تمام مسلمانوں کو بخش دے ، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے شروع سے لیکر آخر تک، ابتدا سے انتہا تک ، اول تا آخر ہر قسم کی جامع بھلائی مانگتے ہیں، نیز تجھ سے جنتوں میں بلند درجات کے سوالی ہیں۔
یا اللہ1 ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ فرما، یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ فرما، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف نہ ہو، یا اللہ!ہماری رہنمائی فرمائی اور ہمارے لیے راہ ہدایت پر چلنا بھی آسان فرما، یا اللہ! ہم پر زیادتی کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ! ہمیں تیرا ذکر، شکر، تیرے لیے مر مٹنے والا، تیری طرف رجوع کرنے والا اور انابت کرنے والا بنا۔
یا اللہ! ہماری توبہ قبول فرما، ہماری کوتاہیاں معاف فرما، ہماری حجت کو ٹھوس بنا، اور ہمارے سینوں کے میل کچیل نکال باہر فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تیری نعمتوں کے زوال، تیری طرف سے ملنے والی عافیت کے خاتمے، تیری اچانک پکڑ اور تیری ہمہ قسم کی ناراضی سے تیری پناہ چاہتے ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! اس امت کی ایسی رہنمائی فرما کہ جس میں تیرے اطاعت گزار معزز قرار پائیں، تیری نافرمانی کرنے والے راہ راست پر آ جائیں، نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! مسلمانوں کے حالات سنوار دے ، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمارے سارے معاملات سنوار دے، اور ہمیں ایک لمحے کے لیے بھی ہمارے اپنے یا اپنی کسی مخلوق کے سہارے پر مت چھوڑنا۔ یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم پر اپنی برکتوں، رحمتوں اور فضل کے دروازے کھول دے۔ یا رب العالمین!
یا اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند بھی فرماتا ہے ؛ یا اللہ! ہمیں معاف فرما دے۔
یا اللہ! ہم تجھ اپنے اگلے پچھلے، خفیہ اعلانیہ تمام گناہوں سمیت ان گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں جنہیں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے، تو ہی پست و بالا کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو تیرے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں بہترین حاشیہ نشین عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! تمام مسلمان حکمرانوں کو کتاب و سنت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا رب العالمین!
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
الاعراف – 23
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
الحشر – 10
اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
البقرة – 201
ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ ۔
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
النحل -90
اللہ تعالی تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو ۔
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔
ترجمہ: شفقت الرحمن مغل