شرک کے مختلف رائج الوقت اسباب

یوں تو نہ معلوم ابلیس کن کن اور کیسے کیسے دیدہ ونادیدہ طریقوں سے شب وروز اس شجرہ خبیثہ ’’ شرک‘‘ کی آبیاری میں مصروف ہے ‘اور نہ معلوم جاہل عوام کے ساتھ ساتھ بظاہر کتنے نیک سیرت درویش ‘پاک طینت بزرگان دین ‘صاحب کشف وکرامت اولیاء عظام‘ ترجمان شریعت علماء کرام ‘ملک وقوم کے سیاسی نجات دہندگان اور خادم اسلام حکمران بھی حضرت ابلیس کے قدم بقدم اس ’’ کارخیر‘‘ میں شرکت فرمارہے ہیں۔

بقول سیدنا عبداﷲبن مبارک رحمہ اﷲ:

فَھَلْ أَفْسَدَ الدِّ یْنَ اِلَّا الْملُوک

وَأَحْبَارُ سُوْء وَ رُھْبَانُھا

 ’’کیا دین بگاڑنے والوں میں بادشاہوں ‘علماء اور درویشوں کے علاوہ کوئی اور بھی ہے؟‘‘۔

  اس لئے ایسے اسباب وعوامل کا ٹھیک ٹھیک شمار کرنا تو مشکل ہے تاہم جو اسباب شرک کی ترویج کا باعث بن رہے ہیں ان میں سے اہم ترین اسباب درج ذیل ہیں۔

(۱) جہالت ۔

(۲) ہمارے صنم کدے (تعلیمی ادارے) ۔

(۳) دین خانقاہی ۔

(۴) فلسفہ وحدت الوجود ‘ وحدت الشہوداور حلول ۔

(۵) برصغیر ہندوپاک کا قدیم ترین مذہب‘ ہندومت ۔

(۶) حکمران طبقہ۔

 ۱۔جہالت

 کتاب وسنت سے لاعلمی وہ سب سے بڑا سبب ہے جو شرک کے پھلنے پھولنے کاباعث بن رہا ہے ‘اسی جہالت کے نتیجے میں انسان آباء واجداد اور رسم ورواج کی اندھی تقلید کا اسیر ہوتا ہے اسی جہالت کے نتیجے میں انسان ضعفِ عقیدہ کا شکار ہوتا ہے اسی جہالت کے نتیجے میں انسان بزرگان دین اور اولیاء کرام سے عقیدت میں غلو کا طرز عمل اختیار کرتا ہے درج ذیل واقعات اسی جہالت کے چند کرشمے ہیں ۔

۱۔دھنی رام روڈ لاہور میں تجاوزات پر جوتیر چل رہا ہے ان کی زد سے بچنے کے لئے میو ہسپتال کے نزدیک ایک میڈیکل اسٹور کے منچلے مالک نے اپنے اسٹور کے بیت الخلاء پر رات کے اندھیرے میں ’’شاہ عزیز اﷲ‘‘کے نام سے ایک فرضی مزار بناڈالا اس مزار پر دن بھر سینکڑوں افراد جمع ہوئے جو مزار کا دیدار کرتے اور دعائیں مانگتے رہے ‘‘۔(نوائے وقت ۱۹جولائی ۱۹۹۰  )

۲۔ ’’ اختلاف امت کا المیہ ‘‘کے مصنف حکیم فیض عالم صدیقی صاحب لکھتے ہیں’’میں آپ کے سامنے ایک واقعہ حلفیہ پیش کرتا ہوں چند روز ہوئے میرے پاس ایک عزیز رشتہ دار آئے جو شدت سے کشتہ پیری ہیں ۔میں نے باتوں باتوں میں کہا کہ فلاں پیر صاحب کے متعلق چار عاقل بالغ گواہ پیش کردوں جنہوں نے انہیں زنا کاارتکاب کرتے ہوئے دیکھا ہو تو پھر ان کے متعلق کیا کہو گے ؟کہنے لگے ’’یہ بھی کوئی فقیری کا راز ہوگا جو ہماری سمجھ میں نہ آتا ہوگا ‘‘پھر ایک پیر صاحب کی شراب خوری اور بھنگ نوشی کا ذکر کیا توکہنے لگے ’’بھائی جان یہ باتیں ہماریسمجھ سے باہر ہیں وہ بہت بڑے ولی ہیں‘‘(۔ اختلاف امت کا المیہ صفحہ ۹۴)

 ۳۔ ضلع گوجرانوالہ کے گاؤں کوٹلی کے ایک پیر صاحب (نہواں والی سرکار)کے چشم دید حالات کی رپورٹ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو ’’صبح آٹھ بجے حضرت صاحب نمودار ہوئے اردگرد (مرد وخواتین )مرید ہولئے کوئی ہاتھ باندھے کھڑا تھا کوئی سرجھکائے کھڑا تھا کوئی پاؤں پکڑ رہا تھا بعض مرید حضرت کے پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے چل رہے تھے جبکہ پیر صاحب نے صرف ایک ڈھیلی ڈھالی لنگوٹی باندھے ہوئے تھے چلتے چلتے نہ جانے حضرت کو کیا خیال آیا کہ اسے بھی لپیٹ کر کندھے پر ڈال  لیا خواتین نے جن کے محرم (بھائی بیٹے یا باپ)ساتھ تھے شرم کے مارے سر جھکالیا لیکن عقیدت کے پردے میں یہ ساری بے عزتی برداشت کی جارہی تھی ‘‘(۔ مجلہ الدعوۃ ‘لاہور مارچ ۱۹۹۲صفحہ ۴)

ہم نے یہ چند واقعات بطور مثال پیش کئے ہیں ورنہ اس کوچہ کے اسرار وروموز سے واقف لوگ خوب جانتے ہیں حقیقت حال اس سے کہیں زیادہ ہے ‘عقل وخرد کی یہ موت ‘فکر ونظر کی یہ مفلسی ‘اخلاق وکردار کی یہ پستی ‘عزت نفس اور غیرت انسانی کی یہ رسوائی ‘ایمان اور عقیدے کی یہ جان کنی کتاب وسنت سے لاعلمی اور جہالت کا نتیجہ نہیں تو اور کیا ہے؟

۲۔ہمارے صنم کدے

 کسی ملک کے تعلیمی ادارے اس قوم کا نظریہ اور عقیدہ بنانے یا بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ہمارے ملک اور قوم کی یہ بدنصیبی ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں دی جانے والی تعلیم ہمارے دین کی بنیاد عقیدہ توحید سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی اس وقت ہمارے سامنے دوسری ‘تیسری ‘چوتھی ‘ پانچویں ‘چھٹی‘ساتویں ‘اورآٹھویں جماعت کی اردو کی کتب موجود ہیں‘جن میں حضرت علی علیہ السلام حضرت فاطمہ علیہاالسلام (یاد رہے کہ علمائے جمہور کے نزدیک انبیاء کرام کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام لکھنا چاہئے اور صحابہ کرام کے ناموں کے ساتھ رضی اﷲ عنہ لکھنا چاہئے متذکرہ بالا مضمون  میں حضرت علی ؓ ،حضرت فاطمہؓ،حضرت حسین ؓ اور حضرت حسین ؓکے ناموں کے ساتھ علیہ السلام لکھا گیا ہے جو کہ صحیح نہیں)۔

حضرت داتا گنج بخش ؒ‘حضرت بابا فرید شکر گنجؒ‘حضرت سخی سرورؒ‘حضرت سلطان باہوؒ‘حضرت پیر بابا کوہستانی ؒ‘ اور حضرت بہاؤالدین زکریا پر مضامین لکھے گئے ہیں ‘ حضرت فاطمہ رضی اﷲعنہا پر لکھے گئے مضمون کے آخر میں جنت البقیع (مدینہ کا قبرستان)کی ایک فرضی تصویر دے کر نیچے یہ فقرہ تحریر کیا گیا ’’جنت البقیع (مدینہ منورہ)جہاں اہل بیت کے مزار ہیں‘‘—جن لوگوں نے جنت البقیع دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ سارے قبرستان میں ’’مزار‘‘تو کیا کسی قبر پر پکی اینٹ بھی نہیں رکھی گئی ’’اہل بیت کے مزار‘‘لکھ کر مزار کو نہ صرف تقدس اور احتام کا درجہ دیا گیا ہے بلکہ اسے سند جواز بھی مہیا کیا گیا ہے ‘ان سارے مضامین کو پڑھنے کے کے بعد دس بارہ سال کے خالی الذہن بچے پر جو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں وہ یہ ہیں ۔

۱۔بزرگوں کے مزار اور مقبرے تعمیر کرنا ‘ان پر عرس اور میلے لگانا ‘ان کی زیارت کرنا نیکی اور ثواب کا کام ہے ۔

۲۔بزرگوں کے عرسوں میں ڈھول تاشے بجانا ‘رنگ دار کپڑے کے جھنڈے اٹھاکر چلنا بزرگوں کی عزت اور احترام کا باعث ہے ۔

۳۔بزرگوں کے مزاروں پر پھول چڑھانا ‘فاتحہ پڑھنا ‘چراغاں کرنا ‘کھانا تقسیم کرنا او روہاں بیٹھ کر عبادت کرنا نیکی اور ثواب کا کام ہے ۔

۴۔مزاروں اور مقبروں کے پاس جاکر دعا کرنا قبولیت دُعا کا باعث ہے۔

۵۔فوت شدہ بزرگوں کے مزاروں سے فیض حاصل ہوتا ہے اور اس ارادے سے وہاں جانا کارِ ثواب ہے۔

اس تعلیم کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے کلیدی عہدوں پر جو لوگ فائز ہوتے ہیں وہ عقیدہ توحید کی اشاعت یا تنفیذ کے مقدس فریضہ کو سرانجام دینا تو درکنار ‘ شرک کی اشاعت اوراس کی ترویج کا باعث بنتے ہیں چند تلخ حقائق ملاحظہ فرمائیں ۔

(۱) صدر ایوب خاں ایک ننگے پیر (بابا لال شاہ)کے مرید تھے جومری کے جنگلات میں رہا کرتا تھا اور اپنے معتقدین کو گالیاں بکتا تھا اور پتھرمارتا تھا اس وقت کی آدھی کابینہ اورہمارے بہت سے جرنیل بھی ا س کے مرید تھے۔(پاکستان میگزین ۲۸فروری ۱۹۹۲ء  )

(۲) ہمارے معاشرے میں ’’جسٹس‘‘ کو جو مقام اور مرتبہ حاصل ہے اس سے ہر آدمی واقف ہے محترم جسٹس محمد الیاس صاحب ‘حضرت سید کبیر الدین المعروف شاہد ولہ (گجرات)کے بارے میں ایک مضمون لکھتے ہوئے رقمطراز ہیں: ’’آپ کا مزار اقدس شہر کے وسط میں ہے۔ اگر دنیا میں نہیں تو برصغیر پاک وہند میں یہ واحد بلند ہستی ہیں جن کے دربار پُر انوار پر انسان کا نذرانہ پیش کیاجاتا ہے ۔وہ اس طرح کہ جن کے ہاں اولاد نہ ہو وہ آپ کے دربار مبارک پر حاضر ہوتے ہیں اور اولاد کے لئے دعا کرتے ہیں ساتھ ہی یہ منت مانتے  ہیں کہ جو پہلی اولاد ہوگی وہ ان کی نذر کی جائے گی۔پھر جو اولین بچہ پیدا ہوتا ہے اسے عرف عام میں ’’شاہدولہ ‘‘کا چوہا کہا جاتا ہے اس بچے کو بطور نذرانہ دربار اقدس میں چھوڑدیا جاتا ہے اور پھر اس کی نگہداشت دربار شریف کے خدام کرتے ہیں۔ بعد میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ عام بچوں کی طرح تندرست ہوتے ہیں ۔روایت ہے کہ اگر کوئی شخص متذکرہ بالا منت مان کر پوری نہ کرے تو پھر اولین بچے کے بعد پیدا ہونے والے بچے بھی پہلے بچے کی طرح ہوتے ہیں‘‘(نوائے وقت ۲۶مارچ ۱۹۹۱ء)

(۳) جناب جسٹس عثمان علی شاہ صاحب مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک انتہائی اعلیٰ اور اہم منصب ’’وفاقی محتسب اعلیٰ‘‘پر فائز ہیں ایک انٹرویومیں انہوں نے یہ انکشاف فرمایا ’’میرے دادا بھی فقیر تھے ان کے متعلق یہ مشہور تھاکہ اگر بارش نہ ہو تو اس مست آدمی کو پکڑ کر دریا میں پھینک دو تو بارش ہوجائے گی انہیں دریا میں پھینکتے ہی بارش ہوجاتی تھی آج بھی ان کے مزار پر لوگ پانی کے گھڑے بھربھر کرڈالتے ہیں‘‘(اردو ڈائجسٹ ستمبر ۱۹۹۱ء)

(۴) حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ   کے عرس شریف میں شامل ہونے والے پاکستانی وفد کے سربراہ سید افتخار الحسن ممبر صوبائی اسمبلی نے اپنی تقریر میں سرہند کو کعبہ کا درجہ دیتے ہوئے دعوی کیا کہ ’’ہم نقشبندیوں کے لئے مجدد الف ثانی رحمہ اللہ  کا روضہ حج کے مقام (بیت اﷲشریف)کا درجہ رکھتا ہے ‘‘ (نوائے وقت ‘۱۱اکتوبر ۱۹۹۱جمعہ میگزین صفحہ ۵)

صدر مملکت ‘کابینہ کے ارکان ‘فوج کے جرنیل ‘عدلیہ کے جج اور اسمبلیوں کے ممبر سبھی حضرات وطن عزیز کے تعلیمی اداروں کے سند یافتہ اور فارغ التحصیل ہیں ان کے عقیدے اور ایمان کا افلاس پکار پکار کر یہ گواہی دے رہا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے درحقیقت علم کدے نہیں صنم کدے ہیں جہاں توحید کی نہیں شرک کی تعلیم دی جاتی ہے اسلام کی نہیں جہالت کی اشاعت ہورہی ہے جہاں سے روشنی نہیں تاریکی پھیلائی جارہی ہے حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اﷲ نے ہمارے تعلیمی اداروں پر کتنا درست تبصرہ فرمایا ہے۔

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا

 کہاں سے آئے صدا  لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ

مذکورہ بالا حقائق سے اس تصور کی بھی مکمل نفی ہوجاتی ہے کہ قبر پرستی اور پیر پرستی کے شرک میں صرف ان پڑھ ‘جاہل اور گنوار قسم کے لوگ مبتلا ہوتے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ اس سے محفوظ ہیں۔

۳۔دین خانقاہی

اسلام کے نام پر دین خانقاہی درحقیقت ایک کھلی بغاوت ہے ۔دین محمدﷺکے خلاف عقائد وافکارمیں بھی اور اعمال وافعال میں بھی ۔امر واقعہ یہ ہے کہ دین اسلام کی جتنی رسوائی خانقاہوں ‘مزاروں ‘درباروں اور آستانوں پر ہورہی ہے شاید غیر مسلموں کے مندروں ‘گرجوں اور گردواروں پر بھی نہ ہوتی ہو۔بزرگوں کی قبروں پر قبے تعمیر کرنا ‘ان کی تزئین وآرائش کرنا ،ان پر چراغاں کرنا ‘پھول چڑھانا ‘انہیں غسل دینا ‘ان پر مجاوری کرنا ‘ان پر نذر ونیاز چڑھانا ‘وہاں کھانا اور شیرینی تقسیم کرنا ‘جانور ذبح کرنا ‘وہاں رکوع وسجود کرنا،ہاتھ باندھ کر باادب کھڑے ہونا ‘ان سے مرادیں مانگنا ‘ان کے نام کی چوٹی رکھنا ‘ان کے نام کے دھاگے باندھنا ‘ان کے نام کی دھائی دینا ‘تکلیف اورمصیبت میں انہیں پکارنا ‘مزاروں کا طواف کرنا ‘طواف کے بعد قربانی کرنااور سر کے بال مونڈوانا ‘مزار کی دیواروں کو بوسہ دینا وہاں سے خاک شفا حاصل کرنا ‘ننگے قدم مزار تک پیدل چل کرجانا اور الٹے پاؤں واپس پلٹنا یہ سارے افعال تو وہ ہیں جو ہر چھوٹے بڑے مزار پر روز مرہ کا معمول ہیں۔

 اور جو مشہور اولیاء کرام کے مزار ہیں ان میں سے ہر مزار کا کوئی نہ کوئی الگ امتیازی وصف ہے۔ مثلاً: بعض خانقاہوں پر بہشتی دروازے تعمیر کئے گئے ہیں جہاں گدی نشین اور سجادہ نشین نذرانے وصول کرتے اورجنت کی ٹکٹیں تقسیم فرماتے ہیں۔ کتنے ہی امراء ‘وزراء‘اراکین اسمبلی ‘سول اور فوج کے اعلیٰ عہدیدار سر کے بل وہاں پہنچتے ہیں اور دولت دنیا کے عوض جنت خریدتے ہیں۔بعض ایسی خانقاہیں بھی ہیں جہاں منا سک حج ادا کئے جاتے ہیں ‘مزار کا طواف کرنے کے بعد قربانی دی جاتی ہے ‘بال کٹوائے جاتے ہیں ‘اور مصنوعی آب زم زم نوش کیا جاتا ہے ۔بعض ایسی خانقاہیں بھی ہیں جہاں نومولود معصوم بچوں کے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں ۔بعض ایسی خانقاہیں بھی ہیں جہاں کنواری دوشیزائیں خدمت کے لئے وقف کی جاتی ہیں ۔بعض ایسی خانقاہیں ہیں جہاں اولاد سے محروم خواتین ’’نوراتا‘‘بسر کرنے جاتی ہیں(ملتان کے علاقہ میں ایسی بہت سی خانقاہیں جہاں بے اولاد خواتین نوراتوں کے لئے جاکر قیام کرتی ہیں اور صاحب مزار کے حضور نذر ونیاز پیش کرتی ہیں ‘مجاوروں کی خدمت اور سیوا کرتی ہیں اور یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ اس طرح صاحب مزار انہیں اولاد سے نواز دے گا ‘عرف عام میں اسے نوراتا کہا جاتا ہے۔)

انہی خانقاہوں میں سے بیشتر بھنگ ‘چرس ‘افیون ‘گانجا اور ہیروئن جیسی منشیات کے کاروبار ی مراکز بنی ہوئی ہیں۔بعض خانقاہوں میں فحاشی بدکاری او ر ہوس پرستی کے اڈے بھی بنے ہوئے ہیں۔بعض خانقاہیں مجرموں اور قاتلوں کی محفوظ پناہ گاہیں تصور کی جاتی ہیں (ویسے تو اخبارات میں آئے دن مزاروں اور خانقاہوں پر پیش آنے والے المناک واقعات لوگوں کی نظروں سے گزرتے ہی رہتے ہیں ہم یہاں مثال کے طور پر صرف ایک خبر کا حوالہ دینا چاہتے ہیں جو روزنامہ ’’خبریں ‘‘مورخہ ۱۵اکتوبر ۱۹۹۲ء میں شائع ہوئی ہے وہ یہ کہ ضلع بہاولپور میں خواجہ حکیم الدین میرائی کے سالانہ عرس پر آنے والی بہاولپوری یونیورسٹی کی دوطالبات کو سجادہ نشین کے بیٹے نے اغوا کرلیا جبکہ ملزم کا باپ سجادہ نشین منشیات فروخت کرتے ہوئے پکڑا گیا۔  (

ان خانقاہوں کے گدی نشینوں اور مجاوروں کے حجروں میں جنم لینے والی حیاء سوز داستانیں سنیں  توکلیجہ منہ کو آتا ہے۔ان خانقاہوں پر منعقد ہونے والے سالانہ عرسوں میں مردوں ‘عورتوں کا کھلے عام اختلاط ‘عشقیہ اور شرکیہ مضامین پر مشتمل قوالیاں (۱) ڈھول ڈھمکے کے ساتھ نوجان ملنگوں اور ملنگنیوں کی دھمالیں کھلے بالوں کےساتھ۔

(۱) قوالی کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ہندوؤں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لئے اولیاء کرام نے قوالی کاسہارا لیا اور یوں برصغیر میں قوالی اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بنی‘نامور قوال نصرت فتح علی خان نے اپنے انٹرویو میں دعوی کیا ہے کہ اسپین ‘فرانس ‘اور دوسرے بہت سے ممالک میں لاتعداد لوگ ہماری قوالی سننے کے بعد مسلمان ہوگئے (نوائے وقت فیملی میگزین ۱۲تا ۱۸مئی ۱۹۹۲) چنانچہ ہم نے چند نامور قوالوں کے کیسٹ حاصل کرکے سنے جن کے بعض حصے بطور نمونہ یہاں نقل کئے جارہے ہیں ‘ان قوالیوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوالیوں کے ذریعہ اولیاء کرام کس قسم کے اسلام کی تبلیغ فرمایا کرتے تھے اور آج اگر لاتعداد لوگ مغربی ممالک میں قوالیاں سن کر واقعی مسلمان ہوئے ہیں تو وہ کس قسم کے مسلمان ہوئے ہیں۔

ابن زہرہ کو بنایا گیا

 اولیاء انبیاء کو بلایا گیا

 مرحبا‘ مرحبا

مرحبا ‘ مرحبا

جاگنے کو مقدر ہے انسان کا

 عرس ہے آج محبوب سبحان کا

 ہر طرف آج رحمت کی برسات ہے

 آج کھلنے پر قفل مہمات ہے

ہر سو جلوہ آرائی ذات ہے

 کوئی بھرنے پہ کشکول حاجات ہے

وحدت‘   وحدت‘  وحدت‘  وحدت‘  وحدت

تیرے خزانہ میں سوائے وحدت کے کیا رکھا ہے ؟ 

 مظہر ذات رب قدیرآپ ہیں ‘دستگیر آپ ہیں

شاہ بغداد پیران پیر آپ ہیں ‘ دستگیر آپ ہیں

 پوری سرکار سب کی تمنا کرو

ہر بھکاری کی داتا جی جھولی بھرو

 کسے شئے دی نئیں داتا کول تھوڑ اے

 پوری کرداں سوالیاں دی لوڑ اے

گل جھوٹ نہیں اﷲدی سونہہ میری

 توں سچے دلوں دیکھ منگ کے

 دل گناہ گار کا نہیں توڑدا  

خالی داتا کدے وی نہیں موڑدا

جھولی بھر دے گا مراداں نال تیری توں

 سچے دلوں دیکھ منگ کے

علی ساڈے دلا وچ

علی ساڈے ساہوا ں وچ

علی ساڈے آسے پاسے

علی اے نگاہواں وچ

علی داں ملنگ میں تے

 علی دا منگ میں تے

 علی دا ملنگ

 ہاڑاں تے طوفانان وچ کنارا مولا علی اے

دکھیاں دے دلاں دا سہارا مولا علی اے

علی داں ملنگ میں تے

علی دا منگ میں تے

علی دا ملنگ

نظر کرم دی کردہ سوہنا

 خالی جھولیاں بھردا سوہنا

جیہڑا وی ایہہ ورد پکاندا

 مرشد بیڑی پار لگاندا

علی مولا علی مولا علی مولا

دم علی علی دم علی علی دم علی علی

 جنہاں جنہاں کرلئی پہچان مولا علی دی

اوہناں تائیں مل گئی امان مولا علی دی

دم علی دم علی دم علی مولا علی مولا علی مولا علی

(۱)  ہفت روزہ الاعتصام لاہور ۱۸مئی ۱۹۹۰ء

ساتھ عورتوں کے رقص ‘طوائفوں کے مجرے ‘ٹھیٹر اور فلموں کے مظاہر عام نظر آتے ہیں ۔دین خانقاہی کی انہی رنگ رلیوں اور عیاشیوں کے باعث گلی گلی ‘محلے محلے ‘گاؤں گاؤں ‘شہر شہر ‘نت نئے مزار تعمیر ہورہے ہیں۔

رحیم یارخان (ضلع پنجاب پاکستان )میں دین خانقاہی کے علمبرداروں نے پیشہ ور ماہرین آثار قدیمہ سے بھی زیادہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے چودہ سو سال بعد رانجھے خاں کی بستی کے قریب بر لب سڑک ایک صحابی رسول ﷺ کی قبر تلاش کرکے اس پر نہ صرف مزار تعمیر کرڈالا بلکہ ’’صحابی رسول خمیر بن ربیع کا روضہ مبارک ‘‘کا بورڈ لگا کر اپنا کاروبار بھی شروع کردیا ہے۔(۱)

گزشتہ چند سالوں سے ایک نئی رسم دیکھنے میں آرہی ہے وہ یہ کہ اپنی خانقاہوں کی رونق بڑھانے کے لئے بزرگوں کے مزارات پر رسول اکرم ﷺکے اسم ِ مبارک سے عرس منعقد کئے جانے لگے ہیں ۔مسلمانوں کی اس حالت زار پر آج علامہ اقبال رحمہ اﷲ کا یہ تبصرہ کس قدر درست ثابت ہورہا ہے ۔

ہونکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے کیا

نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے

دین خانقاہی کی تاریخ میں یہ دلچسپ اور انوکھا واقعہ بھی پایا جاتا ہے کہ ایک بزرگ شیخ حسین لاہوری (سنہ ۱۰۵۲ھ)ایک خوبصورت برہمن لڑکے ’’مادھولال ‘‘پر عاشق ہوگئے ۔پرستاران اولیاء کرا م نے ’’دونوں بزرگوں کا مزار شالی مار باغ لاہور کے دامن میں تعمیر کردیا جہاں ہر سال ۸جمادی الثانی کو دونوں بزرگوں کے مشترک نام ’’مادھولال حسین ‘‘سے بڑی دھوم دھام سے عرس منعقد کرایا جاتا ہےجسے زندہ دلان لاہور عرف عام میں میلہ چراغاں کہتے ہیں ۔’’حضرت مادھولال ‘‘کے دربار پر کندہ کتبہ بھی بڑا انوکھا اور منفرد ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:  ’’مزار پر انوار‘مرکز فیض وبرکات ‘راز حسن کا امین‘معشوق محبوب نازنین‘محبوب الحق ‘حضرت شیخ مادھو قادری لاہوری ‘‘۔

یوں تو یہ مزار اور مقبرے تعمیر ہی عرسوں کے لئے کئے جاتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں نہ معلوم کتنے ایسے عرس منعقد ہوتے ہیں جو کسی گنتی اور شمار یں نہیں آتے ‘لیکن جو عرس ریکارڈ پر موجود ہیں ان پرایک نظر ڈالئے اور اندازہ کیجئے کہ دین خانقاہی کا کاروبار کس قدر وسعت پذیر ہےاور حضرتِ ابلیس نے جاہل عوام کی اکثریت کو کس طرح اپنے شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے ۔تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے اندر ۶۳۴عرس شریف منعقد ہوتے ہیں گویا ایک مہینے میں ۵۳یا دوسرے الفاظ میں روزانہ ۷۶۔۱یعنی پونے دو عرس منعقد ہوتے ہیں جو عرس ریکارڈ پر نہیں یا جن کا اجراء دوران سال ہوتا ہے ان کی تعداد بھی شامل کی جائے تو یقینا یہ تعداد دوعرس یومیہ سے بڑھ جائے گی (۱)ان اعداد وشمار کے مطابق مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر اب ایسا کوئی سورج طلوع نہیں ہوتا جب یہاں عرسوں کے ذریعے شرک وبدعت کا بازار گرم کرکے اﷲتعالیٰ کے غیض وغضب کو دعوت نہ دی جاتی ہو۔(العیاذ باﷲ)

(۱) یہ اعداد وشمار شمع اسلامی قانونی ڈائری ۱۹۹۲ء سے لئے گئے ہیں۔

پاکستان بھر میں منعقد ہونے والے عرسوں کے اعدادو شمار

قمری مہینوں میں عرسوں کی تعداد: ۴۳۹بنتی ہے۔

عیسوی مہینوں میں عرسوں کی تعداد : ۸۸بنتی ہے۔

بکری مہینوں میں عرسوں کی تعداد ۱۰۷بنتی ہے۔

قمری ‘عیسوی اور بکری مہینوں کے حساب سے سال بھر میں منعقد ہونے والے عرسوں کی کل تعداد:  ۶۳۴

ہندوستان کے ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت بوعلی قلند ؒ کا عرس شریف بھی اسی مبارک مہینے (۱۳رمضان)میں پانی پت کے مقام پر منعقد ہوتا ہے۔ دین خانقاہی میں رمضان کے علاوہ باقی فرائض کا کتنا احترام پایا جاتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صوفیاء کے نزدیک تصور شیخ (تصور شیخ یہ ہے کہ دوران نماز اپنے مرشد کا تصور ذہن میں قائم کیا جائے) کے بغیر ادا کی گئی نماز ناقص ہوتی ہے۔حج کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مرشد کی زیارت حج بیت اﷲسے افضل ہے ۔دین اسلام کے فرائض کے مقابلے میں دین خانقاہی کے علمبردار کانقاہوں‘مزاروں ‘درباروں اور آستانوں کو کیا مقام اور مرتبہ دیتے ہیں اس کا اندازہ خانقاہوں میں لکھے گئے کتبوں ‘یا اولیاء کرام کے بارے میں عقیدتمندوں کے لکھے ہوئے اشعار سے لگایا جاسکتا ہے ‘چند مثالیں ملاحظہ ہوں :

       مدینہ  بھی  مطہر  ہے  مقدس ہے  علی پور

        ادھر جائیں تو اچھا ہے ادھر جائیں تو اچھا  ہے

۲      مخدوم   کا  حجرہ  بھی  گلزار   مدینہ   ہے

        یہ   گنج   فریدی   کا   ا نمول   نگینہ  ہے

۳      دل تڑپتا ہے جب  روضے کی زیارت کے لئے

        پاک پتن تیرے حجرے کو میں  چوم  آتا  ہوں

۴      آرزو  ہے کہ موت آئے تیرے  کوچے  میں

        رشک  جنت  تیرے  کلیر  کی  گلی پاتا ہوں

۵      چاچڑ وانگ  مدینہ دسے تے کوٹ مٹھن بیت ا  ﷲ

        ظاہر دے وچ پیر فریدن تے باطن دے وچ ا  ﷲ ترجمہ:چاچڑ (جگہ کا نام )مدینہ کی طرح ہے اور کوٹ مٹھن (جگہ کانام)بیت اﷲشریف کی طرح ہے ‘ہمارا مرشد ‘پیر فرید ظاہر میں تو انسان ہے لیکن باطن میں اﷲہے۔

 بابا فریدگنج شکر کے مزار پر ’’ زبدۃ الانبیاء (یعنی تمام انبیاء کرام کا سردار) کا کتبہ لکھا گیا ہے۔ سید علاؤ الدین احمد صابری کلیری کے حجرہ شریف (پاک پتن )پر یہ عبارت کندہ ہے :’’سلطان الاولیاء قطب عالم ‘غوث الغیاث ‘ہشت دہ ہزار عالمین (ولیوں کا بادشاہ ‘سارے جہان کا قطب‘اٹھارہ ہزار جہانوں کے فریاد رسوں کا سب سے بڑا فریاد رس)۔ حضرت لال حسین لاہور کے مزار پر ’’غوث الاسلام والمسلمین ‘‘(اسلام اور مسلمانوں کا فریاد رس)کا کتبہ لگا ہوا ہے ‘سید علی ہجویری کے مزار پر لگایا گیا کتبہ قرآنی آیات کی طرح عرسوں میں پڑھا اتا ہے ’’گنج بخش ‘فیض عالم ‘مظہر نورِخدا (خزانے عطاکرنے والا ‘ساری دنیا کو فیض پہنچانے والا ‘خدا کے نور کے ظہور کی جگہ)

 غورفرمائیے جس دین میں توحید ‘رسالت‘نماز ‘روزے اور حج کے مقابلے میں پیروں ‘بزرگوں ‘عرسوں ‘مزاروں اور خانقاہوں کو یہ تقدس اور مرتبہ حاصل ہو وہ دین محمدﷺسے بغاوت نہیں تو اور کیا ہے شاعر مشرق علامہ اقبال رحمہ اﷲنے ارمغان حجاز کی ایک طویل نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ میں ابلیس کے خطاب کی جو تفصیل لکھی ہے اس میں ابلیس مسلمانوں کو دین اسلام کا باغی بنانے کے لئے اپنی شوری کے ارکان کو جو ہدایت دیتا ہے ان میں سب سے آخری ہدایت دین خانقاہی پر بڑا جامع تبصرہ ہے۔ملاحظہ فرمائیں ۔

مست رکھو ذکر وفکر صبح گاہ میں اسے پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے

 ہمارے جائزے کے مطابق متذکرہ بالا ۳۶۴خانقاہوں یاآستانوں میں سے بیشترگدیاں ایسی ہیں جو وسیع وعریض جاگیروں کے مالک ہیں صوبائی اسمبلی ‘قومی اسمبلی حتی کہ سینیٹ میں بھی ان کی نمائندگی موجود ہوتی ہے ۔صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں ان کے مقابل کوئی دوسراآدمی کھڑا ہونے کی جراء ت نہیں کرسکتا ۔

کتاب وسنت کے نفاذ کے علمبرداروں اور اسلامی انقلاب کے داعیوں نے اپنے راستے کے اس سنگ گراں کے کے بارے میں بھی کبھی سنجیدگی سے غور کیا ہے ؟

۴۔فلسفہ وحدت الوجود ‘وحدت الشہود اور حلول

 بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسان عبادت اور ریاضت کے ذریعے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اﷲنظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کواﷲکی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہے۔تصوف کی اصطلاح میں اس عقیدےکو وحدت الوجودکہا جاتا ہے۔عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی کرنے کے بعد انسان کی ہستی اﷲکی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے اور وہ دونوں (خدا اور انسان)ایک ہوجاتے ہیں ۔اس عقیدے کو وحدت الشہود یا ’’فنا فی اﷲ‘‘کہا جاتا ہے۔عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدرلطیف اور صاف ہوجاتا ہے کہ اﷲکی ذا ت خد اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہا جاتا ہے ۔

غور کیاجائے تو ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ  میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ کہ ’’انسان اﷲکی ذات کا جزء اور حصہ ہے ‘‘۔یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا۔ ہندو مت کے عقیدہ ’’اوتار‘‘بدھ مت کے عقیدہ ’’نرواں‘‘اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجوداور حلول ہے۔(۱)یہودیوں نے فلسفہ حلول کے تحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲکا بیٹا (جزء) قرار دیا۔مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں ‘اہل تشیع اور اہل تصوف ‘کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے ۔صوفیاء کے سرخیل جناب حسین بن منصور حلاج (ایرانی)نے سب سے پہلے کھلم کھلا یہ دعویٰ کیا کہ خدا اس کے اند رحلول کرگیا ہے اور اَنَا لحقَ (میں اﷲ ہوں )کا نعرہ لگایا ۔ منصور بن حلاج کے دعویٰ خدائی کی تائید اور توصیف کرنے والوں میں علی ہجویری اور شیخ عبدالقادر جیلانی اور سلطان الاولیاء  خواجہ نظام الدین اولیاء جیسے کبار اولیاء کرام شامل ہیں ۔

۱۔  مسلمانوں میں اس کی ابتداء عبداﷲبن سبا نے کی جو یمن کا یہودی تھا ‘عہد نبوی میں یہودیوں کی ذلت ورسوائی کا انتقام لینے کے لئے منافقانہ طور پر عہد فاروقی (یا عہد عثمانی )میں ایمان لایا اپنے مذموم عزائم بروئے کار لانے کے لئے حضرت علی ؓ کو مافوق البشر ہستی باور کرانا شروع کیا بالآخر اپنے معتقدین کاایک ایسا حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا جو حضرت علی ؓ کو خلافت کا اصل حقدار اورباقی خلفاء کو غاصب سمجھنے لگا اس گمراہ کن پروپیگنڈہ کے نتیجہ میں سیدنا عثمان ؓ کی مظلومانہ شہادت واقع ہوئی جمل اور صفین کی خون ریز جنگں ہوئیں اس سارے عرصہ میں عبداﷲبن سبا اور اس کے پیروکار حضرت علیؓ کا ساتھ دیتے رہے اور فتنے پیدا کرنے کے مواقع کی تلاش کرتے رہے ‘حضرت علی ؓ سے محبت اور عقیدت کے نام پر بالآخر اس نے حضرت علیؓ کو اﷲتعالیٰ کا روپ یا اوتار کہنا شروع کردیا اور مشکل کشا ‘حاجت روا ‘عالم الغیب ‘اور حاضر ناظر جیسی خدائی صفات ان سے منسوب کرنا شروع کردیں ‘اس مقصد کے حصو ل کے لئے بعض روایات بھی وضع کی گئیں مثلاً جنگ احد میں جب رسول اکرم زخمی ہوگئے تو جبریل نے آکر کہا (اے محمدﷺ)ناد علیا والی دعا پڑھو یعنی علی کو پکارو ‘جب رسول اکرم ﷺ ے یہ دعا پڑھی تو حضرت علی ؓ فورآ آپ کی مدد کو آئے اور کفار کو قتل کرکے آپ ﷺ کو اور تمام مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچالیا ۔(اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش از پروفیسر یوسف سلیم چشتی صفحہ ۳۴)

ہم یہاں مثال کے طور پر جناب احمد رضا خاں بریلوی کے الفاظ نقل کرنے پر ہی اکتفاکریں گے وہ فرماتے ہیں: ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے اِنِّی اَنَا اﷲُ یعنی میں اﷲ ہوں ‘کیا درخت نے یہ کہا تھا ؟حاشا ‘بلکہ اﷲ نے۔یونہی یہ حضرات (اولیاء کرام)انا الحق کہتے وقت شجر موسیٰ ہوتے ہیں (۱)(احکام شریعت صفحہ۳۹)حضرت بایزید بسطامی نے بھی اسی عقیدے کی بنیاد پر یہ دعوی کیا  سُبْحَانِیْ مَا أَعْظَمُ شَأْنِیْ (میں پاک ہوں میری شان بلند ہے )وحدت الوجود یا حلول کا نظریہ ماننے والے حضرات کو نہ توخود خدائی کا دعویٰ کرنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے‘نہ ہی ان کے پاس کسی دوسرے کے دعوی خدائی کو مسترد کرنے کا کوئی جواز ہوتا ہے (۲)یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کی شاعری میں رسول اکرمﷺاور اپنے پیرومرشد کو اﷲکا روپ یا اوتار کہنے کے عقیدہ کا اظہار بکثرت پایا جاتا ہے ‘چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

(۱)    خدا کہتے ہیں جس کو مصطفی معلوم ہوتا ہے

        جسے کہتے ہیں بندہ خود خدا  معلوم ہوتا ہے

(۲)    بجاتے تھے جو انی عبد ہ کی  بنسر ی  ہر  دم

        خدا کے عرش پر انی أنا اﷲ بن کے لکلیں گے

(۳)   شریعت  کا  ڈر  ہے وگرنہ  یہ کہہ  د وں

        خدا  خود  رسول  خدا  بن  کے  آیا  ہے

۱۔شریعت وطریقت از مولانا عبدالرحمن کیلانی صفحہ ۷۴

۲۔یہاں ایک واقعہ کا تذکرہ یقینا قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا جسے’’ حقیقت الوجود ‘‘کے مصنف عبدالحکیم انصاری نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے جو کہ حسب ذیل ہے:  ’’ہمارے ایک چشتیہ خاندان کے پیر بھائی صوفی جی کے نام سے مشہور تھے۔ ایک دن میرے پاس آئے تو ہم مل کر چائے پینے لگے۔ چائے پیتے پیتے صوفی جی کے چہرے پر ’’کیفیت ‘‘کے اثر نمایاں ہوئے ،چہرہ سرخ ہوگیا آنکھوں میں لال ڈورےابھر آئے پھر کچھ نشے کی سی حالت طاری  ہوئی ۔یکایک صوفی جی نے سراٹھایا اورکہنے لگے:’’بھائی جان میں خدا ہوں‘‘۔اس پر میں نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا ار اس کے دوٹکڑے کرکے صوفی جی سے کہا:’’آپ خدا ہیں تو اسے جوڑ دیجئے ‘‘؟صوفی جی نے دونوں توٹے ہوئے ٹکڑوں کو ملاکر ان پر ’’توجہ ‘‘فرمائی لیکن کیا بننا تھا ساتھ ہی ان کی وہ کیفیت بھی غائب ہوگئی جس کی وجہ سے وہ خدائی کا دعویٰ کررہے تھے۔ (شریعت وطریقت صفحہ ۹۴)۔

(۴)   وہی  جو مستوی  عرش  تھا  خدا ہوکر

        اتر  پڑا  مدینہ  میں مصطفی  ہو  کر

(۵)   بندگی سے آپ کی ہم کو خداواندی ملی

        ہے  خداوند جہاں بندہ رسول ا  ﷲ کا

(۶)    پیر   کامل    صورت    ظلِّ  الٰہ

        یعنی    دید    پیر     دید    کبریا

ترجمہ :کامل پیر گویا ظل الٰہ ہے ‘ایسے پیر کی زیارت خدا کی زیارت ہے ۔

(۷)   جھلّے لوگ جہاں دے بھلے پھر دے سب

 سامنے دیکھ کے پیر نو فیردی پچھدے رب

ترجمہ:وہ لوگ بیوقوف ہیں اور بھٹکے ہوئے ہیں جو پیر کو اپنے سامنے دیکھ کر بھی رب کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔

(۸)   مردان خدا ‘ خدانہ  باشد

        لیکن   زخدا ‘ جدا نہ باشد

ترجمہ :خدا کے بندے خدا تو نہیں ہوتے ‘لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے ۔

(۹)    اپنا    اﷲ     میاں      نے      ہند      میں      نام

        رکھ    لیا      خواجہ     غریب           نواز

(۱۰)   چاچڑ   وانگ   دسے    تے   کوٹ   مٹھن   بیت   اﷲ

        ظاہر  دے   وچ   پیر   فریدن   باطن   دے   وچہ  ا  ﷲ

 جناب احمد رضا خاں بریلوی نے رسول اکرمﷺمیں اﷲتعالیٰ کے حلول کے ساتھ پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی میں رسول اکرمﷺکے حلول کو بھی تسلیم کیا ہے فرماتے ہیں ’’حضور پر نور (یعنی رسول اکرمﷺ)مع اپنی صفات جمال وجلال وافضال کے حضور پر نور سیدنا غوث اعظم پر متجلی ہیں۔ جس طرح ذات احدیت (یعنی اﷲ تعالیٰ)مع جملہ صفات ونعوت وجلالیت آئینہ محمدی میں تجلی فرما ہے۔(۱۔شریعت وطریقت صفحہ ۷۴))

 قدیم وجدید صوفیاء کرام نے فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کو درست ثابت کرنے کے لئے بڑی طول وطویل بحثیں کی ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج کے سائنسی دور میں عقل اسے تسلیم کرنے کے لئے قطعاً تیار نہیں ۔جس طرح عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث ’’ایک میں سے تین اور تین میں سے ایک ‘‘عام آدمی کے لئے ناقابل فہم ہے اسی طرح صوفیاء کا یہ فلسفہ ’’کہ انسان اﷲمیں یا اﷲانسان میں حلول کئے ہوئے ہے‘‘ناقابل فہم ہے۔‘اگر یہ فلسفہ درست ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ انسان ہی درحقیقت اﷲ ہے اور اﷲہی درحقیقت انسان ہے۔اگر امر واقعہ یہ ہی ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ عابد کون ہے اور معبود کون؟ ساجد کون ہے مسجود کون؟خالق کون مخلوق کون؟حاجت مند کون حاجت روا کون ؟مرنے والا کون مارنے والاکون ؟زندہ ہونے والا کون زندہ کرنے والا کون ؟گنہگار کون بخشنے والا کون ؟روز جزاء حساب لینے والا کون ہے دینے والا کون ؟اور پھرجزاء یا سزا کے طور پر جنت یا جہنم میں جانے والے کون ہیں اور بھیجنے والا کون ؟اس فلسفہ کو تسلیم کرلینے کے بعد انسان ‘انسان کا مقصد تخلیق اور آخرت یہ ساری چیزیں کیا ایک معمہ اور چیستاں نہیں بن جاتیں ؟اگر اﷲتعالیٰ کے ہاں واقعی مسلمانوں کا یہ عقدہ قابل قبول ہے تو پھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ ’’ابن اﷲ‘‘کیوں قابل قبول نہیں ؟مشرکین کا یہ عقیدہ کہ انسان اﷲکاجزء ہے کیوں قابل قبول نہیں؟۔

(۲)وحدت الوجود کے قائل بت پرستوں کی بت پرستی کیوں قابل قبول نہیں۔

وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا

الزخرف – 15

اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا جز ٹھہرا دیا۔

 حقیقت یہ ہے کہ کسی انسان کو اﷲکی ذات کا جزء سمجھنا (یا اﷲکی ذات میں مدغم سمجھنا)یا اﷲتعالیٰ کو کسی انسان میں مدغم سمجھنا ایسا کھلا اور عریاں شرک فی الذات ہے جس پر اﷲتعالیٰ کا شدید غضب بھڑک سکتا ہے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲکا بیٹا(جزء )قرار دیا تو اس پر اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں جو تبصرہ فرمایا ہے اس کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

المائدة – 17

یقیناً وه لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، آپ ان سے کہہ دیجیئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والده اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟ آسمانوں و زمین اور دونوں کے درمیان کا کل ملک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، وه جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

سورۃ مریم میں اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں ان لوگوں کو تنبیہہ کی گئی ہے جو بندوں کو اﷲتعالیٰ کا جز قرار دیتے ہیں ارشاد مبارک ہے:

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَـٰنُ وَلَدًا ﴿٨٨﴾ لَّقَدْ جِئْتُمْ شَيْئًا إِدًّا ﴿٨٩﴾ تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا ﴿٩٠﴾ أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدًا

مریم – 88/91

وہ کہتے ہیں رحمان نے کسی کو بیٹا بنایا ہے ۔سخت بیہودہ بات ہے جو تم گھڑ لائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں زمین شق ہوجائے اور پہاڑ گرجائیں ۔ اس بات پر کہ لوگوں نے رحمان کے لئے اولاد ہونے کا دعوی کیا ہے۔

 بندوں کو اﷲکا جزء یا بیٹا قرار دینے پر اﷲتعالیٰ کے اس شدید غصہ اور ناراضگی کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ کسی کو اﷲکاجزء قرار دینے کا زلازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس بندے میں اﷲتعالیٰ کی صفات تسلیم کی جائیں مثلاً یہ کہ وہ حاجت روا اور اختیارات اور قوتوں کا مالک ہے ۔یعنی شرک فی الذات کا لازمی نتیجہ شرک فی الصفات ہے اور جب کسی انسان میں اﷲکی صفات تسلیم کرلی جائیں تو پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی رضاحاصل کی جائے۔جس کے لئے بندہ تمام مراسم عبودیت ‘رکوع وسجود ‘نذرونیاز ‘اطاعت او رفرمانبرداری‘بجالاتا ہے۔ یعنی شرک فی الفات کا لازمی نتیجہ ہے شرک فی العبادت ‘ گویا شرک فی الذات ہی سب سے بڑا دروازہ ہے دوسری انواع شرک کااورجیسے ہی یہ دروازہ کھلتا ہے، ہر نوع کے شرک کا آغاز ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرک فی الذات پر اﷲتعالیٰ کا غیض وغضب اس قدر بھڑکتا ہے کہ ممکن ہے آسمان پھٹ جائے ‘زمین دولخت ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں ۔

 فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کا یہ کھلم کھلا اور عریاں تصادم ہے عقیدہ توحید کے ساتھ جس میں بے شمار مخلوقِ خدا پیری مریدی کے چکر میں آکر پھنسی ہوئی ہے ۔دینِ اسلام کی باقی تعلیمات پر‘وحدت الوجود اور حلول کے کیااثرات ہیں یہ ایک الگ تفصیل طلب موضوع ہے جو ہماری کتاب کے موضوع سے ہٹ کر ہے۔ اس لئے ہم مختصراً چند باتوں کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔

(۱) رسالت

 صوفیاء کے نزدیک ولایت ‘  نبوت اور رسالت دونوں سے افضل ہے۔

(۱) شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں :’’نبوت کا مقام درمیانی درجہ ہے۔ ولی سے نیچے اور رسالت سے اوپر۔

(۲)بایزید بسطامی کا ارشاد ہے :’’میں نے سمندر میں غوطہ لگایا جبکہ انبیاء اس کے ساحل پرہی کھڑے ہیں ‘‘۔نیز فرماتے ہیں: ’’میرا جھنڈا قیامت کے روز محمدﷺکے جھنڈے سے بلند ہوگا‘‘۔

(۳) (حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :’’پیر کا فرمان رسول اﷲکے فرمان کی طرح ہے ‘‘۔

(۴)حافظ شیرازی کا ارشاد ہے: ’’اگر تجھے بزرگ پیر اپنے مصلے کو شرا ب میں رنگین کرنے کا حکم دے تو ضرور ایسا کرکہ سالک (سلوک کی )منزلوں کے آداب سے ناواقف نہیں ہوتا۔

۔اہل تشیع کے نزدیک بھی ولایت علی  (یا امامت علی)نبوت سے افضل ہے یہ ثابت کرنے کے لئے بعض روایات بھی وضع کی گئی ہیں جیسے:

لو لا علی لما خلقت

یعنی اگر علی نہ ہوتے تو اے محمد ؐ میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔( اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش صفحہ ۸۳)

یعنی اگر علی نہ ہوتے تو اے محمد ؐ میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔( اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش صفحہ ۸۳) اس سے قبل جنگ احد میں ناد علی کی روایت آپ پڑھ ہی چکے ہیں۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ اہل تشیع اور اہل تصوف کے بنیادی عقائد بالکل یکساں ہیں۔ دونوں فرقے حلول کو تسلیم کرتے ہیں، دونوں کی عقیدت کا مرکز حضرت علی رضی اﷲ عنہ ہیں ‘دونوں کے نزدیک ولایت نبوت سے افضل ہے۔ اہل تشیع کے ائمہ معصومین کائنات کے ذرہ ذرہ کے مالک ومختار ہیں جبکہ اہل تصوف کے اولیاء کرام مافوق الفطرت قوت اور اختیارات کے مالک سمجھے جاتے ہیں۔ 

(۲۔  شریعت وطریقت صفحہ ۱۱۸،   ۳۔شریعت وطریقت صفحہ ۱۲۰،   ۴۔تصوف کی تین اہم کتابیں صفحہ ۶۹۔  ۵۔شریعت وطریقت صفحہ ۱۵۲)

(ب) قرآن وحدیث

 دین اسلام کی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے لیکن صوفیاء کے نزدیک ان دونوں کا مقام اور مرتبہ کیا ہے اس کا اندازہ ایک مشہور صوفی عفیف الدین تلمسانی کے اس ارشاد سے لگائیے :

’’قرآن میں توحید ہے کہاں ؟وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا ہوا ہے جو شخص اس کی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے پر نہیں پہنچ سکتا ‘‘۔(شریعت وطریقت صفحہ ۱۵۲۔امام ابن تیمیہ از کوکن عمری صفحہ ۳۲۱)

حدیث شریف کے بارے میں جناب بایزید بسطامی کا یہ تبصرہ پڑھ لینا کافی ہوگا:

’’تم (اہل شریعت )نے اپنا علم فوت شدہ لوگوں (یعنی محدثین)سے حاصل کیا ہے اور ہم نے اپنا علم اسی ذات سے حاصل کیا ہے جو ہمیشہ زندہ ہے (یعنی براہ راست اﷲتعالیٰ سے )ہم لوگ کہتے ہیں میرے دل نے اپنے رب سے روایت کیا اور تم کہتے ہو فلاں (راوی)نے مجھ سے روایت کیا (اور اگر سوال کیا جائے کہ )وہ راوی کہاں ہے ؟جواب ملتا ہے مرگیا(اور اگر پوچھا جائے کہ )اس فلاں (راوی)نے فلاں (راوی)سے بیان کیا تو وہ کہاں ہے ؟جواب وہی کہ مرگیا ہے (بحوالہ سابق)

قرآن وحدیث کا یہ استہزاء اور تمسخر اور اس کے ساتھ ہوائے نفس کی اتباع کے لئے

حدثنی قلبی عن ربی 

میرے دل نے میرے رب سے روایت کیا ( فتوحات مکیہ از ابن العربی صفحہ  ۵۷جلد اول)

کاپرفریب جواز کس قدر جسارت ہے اﷲاوراس کے رسولﷺکے مقابلے میں ؟

جس نے

 حَدَّثَنِیْ قَلْبِی عَنْ رَبِّیْ

کہا اس نے درپردہ اس بات کا اقرار کیا وہ رسول اﷲﷺ سے مستغنی ہے‘پس جو شخص ایسا دعوی کرے وہ کافر ہے۔(تلبیس ابلیس صفحہ ۳۷۴)

(ج) عبادت اور ریاضت

 صوفیاء کے ہاں نماز روزہ زکاۃ حج وغیرہ کا جس قدر احترام پایا جاتا ہے اس کا تذکرہ اس سے قبل دین خانقاہی میں گزر چکا ہے۔ یہاں ہم صوفیاء کی عبادت اور ریاضت کے بعض ایسے خود ساختہ طریقوں کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جنہیں صوفیاء کے ہاں بڑی قدرومنزلت سے دیکھا جاتا ہے لیکن کتاب وسنت میں ان کا جواز توکیا شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

۔ پیران پیر (حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی )پندرہ سال تک نماز عشاء کے بعد طلوع صبح سے پہلے ایک قرآن شریف ختم کرتے ۔آپ نے یہ سارے قرآن پاک ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر ختم کئے۔ (غوث الثقلین صفحہ ۸۳)

نیز خود فرماتے ہیں :’’میں پچیس سال تک عراق کے جنگلوں میں  تنہا پھرتا رہا ۔ایک سال تک ساگ گھانس اور پھینکی ہوئی چیزوں پر گزاراکرتا رہا اور پانی مطلقاً نہ پیا پھر ایک سال تک پانی بھی پیتا رہا پھر تیسرے سال صرف پانی پر گزارہ کرتا رہا پھر ایک سال تک نہ کچھ کھایا نہ پیا نہ سویا ‘‘۔

۲۔حضرت بایزید بسطامی تیس سال تک شام کے جنگلوں میں ریاضت ومجاہدہ کرتے رہے ایک سال آپ حج کو گئے تو ہر قدم پر دوگانہ ادا کرتے یہاں تک کہ بارہ سال میں مکہ معظمہ پہنچے۔ (صوفیاء نقشبندی صفحہ ۱۵۵)

۳۔حضرت معین الدین چشتی اجمیری کثیر المجاہدہ تھے ستر برس تک رات بھر نہیں سوئے (تاریخ مشائخ چشت صفحہ ۱۵۵)

۴۔ حضرت فرید الدین گنج شکر نے چالیس روز کنویں میں بیٹھ کر چلہ کشی کی (تاریخ مشائخ چشت صفحہ۱۷۸)

۵۔ حضرت جنید بغدادی کامل تین سال تک عشاء ی نماز پڑھنے کے بعد ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر اﷲ اﷲکرتے رہے(صوفیاء نقشبند صفحہ ۷۹)

۶۔ خواجہ محمد چشتی نے اپنے مکان میں ایک گہر کنواں کھدوارکھا تھا جس میں الٹے لٹک کر عبادت الٰہی میں مصروف رہتے (سیرالاولیاء صفحہ ۴۶)

۷۔حضرت ملا شاہ قادری فرمایا کرتے تھے ’’تمام عمر ہم کو غسلِ جنابت اور احتلام کی حاجت نہیں ہوئی کیونکہ یہ دونوں غسل ‘نکاح اور نیند سے متعلق ہیں ہم نے نہ نکاح کیا ہے نہ سوتے ہیں۔ (حدیقۃ الاولیاء صفحہ ۵۷)

 عبادت اور ریاضت کے یہ تمام طریقے کتاب وسنت سے تو دور ہی ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ جس قدر یہ طریقے کتاب وسنت سے دور ہیں اسی قدر ہندو مذہب کی عبادت اور ریاضت کے طریقوں سے قریب ہیں ‘آئندہ صفحات میں ہندو مذہب کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو اندازہ ہوگا کہ دونوں مذاہب میں کس کس قدر ناقابل یقین حد تک یگانت اور مماثلت پائی جاتی ہے ۔

(د) جزا وسزا

 فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کے مطابق چونکہ انسان خود تو کچھ بھی نہیں بلکہ وہی ذات برحق کائنات کی ہر چیز (بشمول انسان )میں جلوہ گر ہے لہٰذا انسان وہی کرتا ہے جو ذات برحق چاہتی ہے انسان اسی راستے پر چلتا ہے جس پر وہ ذات برحق چلانا چاہتی ہے۔

’’انسان کا اپنا کوئی ارادہ ہے نہ اختیار‘‘اس نظریے نے اہل تصوف کے نزدیک نیکی اور برائی ‘حلال اور حرام اطاعت اور نافرمانی ‘ثواب وعذاب ‘جزا ء وسزا کا تصور ہی ختم کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر صوفیاء حضرات نے اپنی تحریروں میں جنت اور دوزخ کا تمسخر اور مذاق اڑایا ہے ۔

حضرت نظام الدین اولیاء اپنے ملفوظات فوائد الفوائد میں فرماتے ہیں: قیامت کے روز حضرت معروف کرخی کو حکم ہوگا بہشت میں چلو وہ کہیں گے ’’میں نہیں جاتا، میں نے تیری بہشت کے لئے عبادت نہیں کی تھی ‘‘۔چنانچہ فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ انہیں نور کی زنجیروں میں جکڑ کر کھینچتے کھینچتے بہشت میں لے جاؤ(شریعت وطریقت ص ۵۰۰)

 حضرت رابعہ بصری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک روز داہنے ہاتھ میں پانی کا پیالہ اور بائیں ہاتھ میں آگ کا انگارہ لیا اور فرمایا یہ جنت ہے اور یہ جہنم ہے۔اس جنت کو جہنم پر انڈیلتی ہوں تاکہ نہ رہے جنت نہ رہے جہنم اور خالص اﷲکی عبادت کریں۔

(ھ)کرامات

صوفیاء کرام‘وحدت الوجود او رحلول کے قائل ہونے کی وجہ سے خدائی اختیارات رکھتے ہیں‘اس لئے زندوں کو مارسکتے ہیں ‘مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں ‘ہوامیں اڑ سکتے ہیں ‘قسمتیں بدل سکتے ہیں ۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

۔ایک دفعہ پیران پیر عبدالقادر جیلانی نے مرغی کا سالن کھاکر ہڈیاں ایک طرف رکھ دیں ‘ان ہڈیوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:

قُمْ بِاِذْنِ اﷲِ

تو وہ مرغی زندہ ہوگئی ۔(سیرت غوث صفحہ ۱۹۱)

۲۔ایک گوئیے کی قبر پرپیران پیر نے

قُمْ بِاِذْنی

کہا، قبر پھٹی اور مردہ گاتا ہوا نکل آیا۔ (تفریح الخاطر صفحہ ۱۹)

۳۔خواجہ ابواسحاق چشتی جب سفر کا ارادہ فرماتے تو دوسو آدمیوں کے ساتھ آنکھ بند کر فوراً  منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے ‘‘۔ (تاریخ مشائخ چشت از مولانا زکریا صفحہ ۱۹۲)

۴۔’’سید مودود چشتی کی وفات ۹۷سال کی عمر میں ہوئی آپ کی نماز جنازہ اول رجال الغیب (فوت شدہ بزرگ)نے پڑھی پھر عام آدمی نے ‘اس کے بعدجنازہ خود بخود اڑنے لگا اس کرامت سے بے شمار لوگوں نے اسلام قبول کیا ‘‘ ۔(تاریخ مشائخ چشت صفحہ ۱۶۰)

۵۔خواجہ عثمان ہارونی نے وضو کا دوگانہ ادا کیا اور ایک کمسن بچے کو گود میں لے کر آگ میں چلے گئے اور دوگھنٹے اس میں رہے آگ نے دونوں پر کوئی اثر نہ کیا اس پر بہت سے آتش پرست مسلمان ہوگئے ‘‘۔ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ ۱۲۴)

۔ایک عورت خواجہ فریدالدین گنج شکر کے پاس روتی ہوئی آئی اور کہا بادشاہ نے میرے بے گناہ بچے کو تختہ دارپر لٹکوادیا ہے چنانچہ آپ اصحاب سمیت وہاں پہنچے اور کہا :’’الٰہی اگر یہ بے گناہ  ہے تو اسے زندہ کر دے ‘‘۔لڑکا زندہ ہوگیا اور ساتھ چلنے لگا یہ کرامت دیکھ کر (ایک)ہزار ہندو مسلمان ہوگئے ۔ (اسرار الاولیاء صفحہ ۱۱۱۔۱۱۰)

۷۔ایک شخص نے بارگاہ غوثیہ میں لڑکے کی درخواست کی آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی اتفاق سے لڑکی پیدا ہوگئی آپ نے فرمایا اسے گھر لے جاؤ اور قدرت کا کرشمہ دیکھو جب گھر آیا تو اسے لڑکی کے بجائے لڑکا پایا ‘‘(سفینہ الاولیاء صفحہ ۱۷)

۸۔پیران پیر غوث اعظم مدینہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد آرہے تھے۔ راستے میں ایک چور ملا جو لوٹنا چاہتا تھا۔جب چور کو علم ہوا کہ آپ غوث اعظم ہیں تو قدموں پر گرپڑا اور زبان پر ’’یا سیدی عبدالقادر شیئا ﷲ‘‘جاری ہوگیا۔ آپ کو اس کی حالت پر رحم آگیا اس کی اصلاح کے لئے بارگاہ الٰہی میں متوجہ ہوئے تو غیب سے ندا آئی :’’چور کو ہدایت کی رہنمائی کرتے ہوئے قطب بنادو ۔چنانچہ آپ کی اک نگاہ فیض سے وہ قطب کے درجہ پر فائز ہوگیا ۔‘‘ (سیرت غوثیہ صفحہ ۶۴۰)

۹۔میاں اسماعیل لاہور المعروف میاں کلاں نے صبح کی نماز کے بعد سلام پھیرتے وقت جب نگاہ کرم ڈالی تو دائیں طرف کیء مقتدی سب کے سب حافظ قرآن بن گئے اور بائیں طرف کے ناظرہ پڑھنے والے‘‘۔(حدیقہ الاولیاء صفحہ ۱۷۶)

۱۰۔خواجہ علاؤالدین صابر کلیری کوخواجہ فریدالدین گنج شکر نے کلیر بھیجا ایک روزخواجہ صاحب امام کے مصلے پر بیٹھ گئے لوگوں نے منع کیا تو فرمایا: ’’قطب کا رتبہ قاضی سے بڑھ کر ہے‘‘۔لوگوں نے زبردستی مصلی سے اٹھادیا۔ حضرت کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جگہ نہ ملی تو مسجد کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’لوگ سجدہ کرتے ہیں تو بھی سجدہ کر‘‘یہ بات سنتے ہی مسجد مع چھت اور دیوار کے لوگوں پر گرپڑی اور سب لوگ ہلاک ہوگئے ۔(حدیقہ الاولیاء صفحہ ۷۰)

(و)باطنیت

 کتاب وسنت سے براہ راست متصادم عقائدد وافکار پر پردہ ڈالنے کے لئے اہل تصوف نے باطنیت کا سہارا بھی لیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ قرآن وحدیث کے الفاظ کے دو دومعانی ہیں۔ایک ظاہری دوسرے باطنی۔ (یاحقیقی)یہ عقیدہ باطنیت کہلاتا ہے۔اہل تصوف کے نزدیک دونوں معانی کو آپس میں وہی نسبت ہے جو چھلکے کو مغز سے ہوتی ہے ‘یعنی باطنی معنی ظاہری معنی سے افضل اور مقدم ہیں ۔ظاہری معانی سے تو علماء واقف ہیں لیکن باطنی معانی کو صرف  اہل اسرار وروموز ہی جانتے ہیں۔ اس اسرار ورموز کا منبع اولیاء کرام کے مکاشفے ‘مراقبے ‘مشاہدے اور الہام یا پھر بزرگوں کا فیض اور توجہ قرار دیا گیا۔ جس کے ذریعے شریعت مطہرہ کی من مانی تاویلیں کی گئیں۔ مثلاً :قرآن مجید کی آیت

وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتَّی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ

الحجرات – 99

جس  کا ترجمہ یہ ہے کہ اپنے رب کی عبادت اس آخری گھڑی تک کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے. (یعنی موت)

اہل تصوف کے نزدیک یہ علماء (اہل ظاہر)کا ترجمہ ہے اس کا باطنی یاحقیقی ترجمہ یہ ہے کہ ’’صرف اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرو جب تک تمہیں یقین (معرفت )حاصل نہ ہوجائے۔ ’’یقین یا معرفت سے مراد معرفت الٰہی ہے یعنی جب اﷲکی پہچان ہوجائے تو صوفیاء کے نزدیک نماز ‘روزہ ‘ زکوۃ حج اور تلاوت وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔

اسی طرح سورہ بنی اسرائیل کی آیت:

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ

الاسراء – 23

 تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی۔

یہ علماء کا ترجمہ ہے اور اہل اسرار ورموز کا ترجمہ یہ ہے: ’’تم نہ عبادت کروگے مگر وہ اسی (یعنی اﷲ)کی ہوگی جس چیز کی بھی عبادت کروگے‘‘۔جس کا مطلب یہ ہے کہ تم خواہ کسی انسان کو سجدہ کرو یا قبر کو یاکسی مجسمے اور بت کو وہ درحقیقت اﷲہی کی عبادت ہوگی۔

کلمہ توحید لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲ کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ’’اﷲکے سوا کوئی الٰہ نہیں‘‘۔صوفیاء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے: لا موجود الا اﷲ۔ یعنی دنیا میں اﷲکے سوا کوئی چیز موجود نہیں ۔ اِلٰہ کا ترجمہ موجود کرکے اہل تصوف نے کلمہ توحید سے اپنا نظریہ وحدت الوجود تا ثابت کردیا لیکن ساتھ ہی کلمہ توحید کو کلمہ شرک میں بدل ڈالا۔

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ

البقرة – 59

پھر ان ﻇالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی،

باطنیت کے پردے میں کتاب وسنت کے احکامات اور عقائد کی من مانی تاویلوں کے علاوہ اہل تصوف نے کیف ‘جذب ‘مستی ‘استغراق ‘سکر ‘(بے ہوشی)اور صحو(ہوش)جیسی اصطلاحات وضع کرکے جسے چاہا حلال قرار دے دیا اورجسے چاہا حرام ٹھہرادیا ۔ایمان کی تعریف یہ کی گئی کہ یہ دراصل عشق حقیقی  کا (عشق الٰہی )دوسرا نام ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ فلسفہ تراشا گیا کی عشق حقیقی کا حصول عشق مجازی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ عشق مجازی کے لوازمات ‘غنا ‘موسیقی‘رقص وسرور ‘سماع ‘وجد ‘حال وغیرہ اور حسن وعشق کی داستانوں اورجام وسبو کی باتوں سے لبریز شاعری مباح ٹہری ۔

شیخ حسین لاہوری جن کے ایک برہمن لڑکے کے ساتھ عشق کا قصہ سن کر ہم ’’دین خانقاہی‘‘میں بیان کرچکے ہیں کے بارے میں ’’خزینۃ الاصفیاء ‘‘میں لکھا ہے کہ: ’’وہ بہلول دریائی کے خلیفہ تھے چھتیس سال ویرانے میں ریاضت ومجاہدہ کیا رات کو داتا گنج بخش کے مزار پر اعتکاف بیٹھتے ۔آپ نے طریقہ ملامتیہ اختیار کیا چار ابرو کا صفایا ‘ہاتھ میں شراب کا پیالہ ‘سرور ونغمہ ‘چنگ ورباب ‘تمام قیود شرعی سے آزاد جس طرف چاہتے نکل جاتے ‘‘۔(شریعت وطریقت :۲۰۴)

یہ ہے وہ باطنیت کے جس کے خوشنما پردے میں اہل ہوا وہوس دین اسلام کے عقائد ہی نہیں اخلاق اور شرم وحیا کا دامن بھی تارتار کرتے رہے اور پھر بھی بقول مولانا الطاف حسین حالی رحمہ اﷲ  

نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے

نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

قارئین کرام! فلسفہ وحدت الوجود اور حلول کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گمراہی کا یہ مختصر سا تعارف ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کو الحاد اور کفر وشرک کے راستہ پر ڈالنے میں اس باطل فلسفہ کا کتنا بڑا حصہ ہے ؟

ہند و پاک کا قدیم مذہب “ہندو مت”

 پندرہ سو سال قبل مسیح ‘جہاں گرد آرین اقوام وسط ایشیاء سے آکر وادی سندھ کے علاقے ہڑپہ اور موہنجوڈارو میں آباد ہوئیں ۔یہ علاقے اس وقت برصغیر کی تہذیب وتمدن کا سرچشمہ سمجھے جاتے تھے ۔ہندوؤں کی پہلی مقدس کتاب ’’رگ وید ‘‘انہی آرین اقوام کے مفکرین نے لکھی جو ان کی دیوی دیوتاؤں کی عظمت کے گیتوں پر مشتمل ہے ۔یہیں سے ہندو مذہب کی ابتدا ہوئی (مقدمہ ارتھ شاستر از محمد اسماعیل زبح صفحہ ۵۹) جس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو مذہب گزشتہ ساڑھے تین ہزار سال سے برصغیر کی تہذیب وتمدن ‘معاشرت اور مذاہب پر اثر انداز ہوتا چلا آرہا ہے ۔

  ہندو مت کے علاوہ بدھ مت اور جین مت کا شمار بھی قدیم ترین مذاہب میں ہوتا ہے بدھ مت کا بانی گوتم بدھ ۴۸۳ق ۔م ۔میں پیدا ہوا اور ۵۶۳ق۔م۔میں اسی (۸۰)سال کی عمر پاکرفوت ہوا جبکہ جین مت کا بانی مہاویر جین ۵۲۷ق۔م۔میں پیدا ہوا اور بہتر (۷۲)سال کی عمر پاکر ۵۹۹ق۔م۔میں فوت ہوا ‘جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دونوں مذاہب بھی کم ازکم چار پانچ سو سال قبل مسیح سے برصغیر کی تہذیب وتمدن ‘معاشرت اور مذاہب پر اثر انداز ہورہے ہیں ۔

 ہندو مت ‘بدھ مت اور جین مت تینوں مذاہب وحدت الوجود اور حلول کے فلسفہ پر ایمان رکھتے ہیں۔بدھ مت کے پیروکارگوتم بدھ کو اﷲتعالیٰ کا اوتار سمجھ کر اس کے مجسموں اور مورتیوں کی پوجا اور پرستش کرتے ہیں ‘جین مت کے پیروکار مہاویر کے مجسمے کے علاوہ تمام مظاہر قدرت مثلاً :سورج ‘ چاند ‘ستارے ‘حجر ‘شجر ‘دریا‘سمندر‘آگ اور ہوا وغیرہ کی پرستش کرتے ہیں ۔ہندومت کے پیروکار اپنی قوم کی عظیم شخصیات (مرد وعورت)کے مجسموں کے علاوہ مظاہر قدرت کی پرستش بھی کرتے ہیں۔ ہندو کتب میں اس کے علاوہ جن چیزوں کو قابل پرستش کہا گیا ہے ان میں گائے (بشمول گائے کا مکھن ‘دودھ‘گھی‘پیشاب اور گوبر )بیل ‘آگ ‘پیپل کا درخت‘ہاتھی ‘شیر ‘سانپ ‘چوہے‘سور اور بندر بھی شامل ہیں۔ ان کے بت اور مجسمے بھی عبادت کے لئے مندروں میں رکھے جاتے ہیں۔ عورت اور مرد کے اعضاء تناسل بھی قابل پرستش سمجھے جاتے ہیں چنانچہ شیوجی مہاراج کی پوجا اس کے مردانہ عضو تناسل کی پوجا کرکے کی جاتی ہے اور شکستی دیوی کی پوجا اس کے زنانہ عضو تناسل کی پوجا کرکے کی جاتی ہے۔ (گذشتہ دنوں وشوہندو پریشد کے رہنما رام چندر جی نے کھڑاؤں کی پوجا اور پرستش کرنے کی مہم کا باقاعدہ آغاز کیا ‘اخبارات میں جو تصاویر شائع ہوئیں ان میں رام چند جی اعلیٰ قسم کی کھڑاویں پکڑ کر تعظیماً کھڑے نظر آرہے ہیں (ملاحظہ ہو نوائے وقت ۸اکتوبر ۱۹۹۲ء گویا اب مذکورہ بالا اشیاء کے ساتھ کھڑاویں بھی ہندوؤں کی مقدس اشیاء میں شامل ہوگئی ہیں۔)

 برصغیر میں بت پرستی کے قدیم ترین تینوں مذاہب کے مختصر تعارف کے بعد ہم ہندو مذہب کی بعض تعلیمات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ اندازہ کیا جاسکے کہ برصغیر پاک وہند میں شرک کی اشاعت اور ترویج میں ہندومت کے اثرات کس قدر گہرے ہیں۔

(الف) ہندو مذہب میں عبادت اورریاضت کے طریقے

 ہندو مذہب کی تعلیمات کے مطابق نجات حاصل کرنے کے لئے ہندو دور جنگلوں اور غاروں میں رہتے ہیں ۔ اپنے جسم کو ریاضتوں سے طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے ۔گرمی‘سردی‘بارش اور رتیلی زمینوں پر ننگے بدن رہنا اپنی ریاضتوں کا مقدس عمل سمجھتےہیں  جہاں یہ اپنے آپ کو دیوانہ وار تکلیفیں پہنچاکر انگاروں پر لوٹ کر ‘گرم سورج میں ننگے بدن بیٹھ کر ‘کانٹوں کے بستر پر لیٹ کر ‘درختوں کی شاخوں پر گھنٹوں لٹک کر اور اپنے ہاتھ کو بے حرکت بناکر ‘یا سر سے اونچا لے جاکر اتنے طویل عرصے تک رکھتے  ہیں تاکہ وہ بے حس ہوجائیں اور سوکھ کر کانٹا بن جائیں ۔

 ہندو مذہب کی تعلیمات کے مطابق نجات حاصل کرنے کے لئے ہندو دور جنگلوں اور غاروں میں رہتے ہیں ۔ اپنے جسم کو ریاضتوں سے طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے ۔گرمی‘سردی‘بارش اور رتیلی زمینوں پر ننگے بدن رہنا اپنی ریاضتوں کا مقدس عمل سمجھتےہیں  جہاں یہ اپنے آپ کو دیوانہ وار تکلیفیں پہنچاکر انگاروں پر لوٹ کر ‘گرم سورج میں ننگے بدن بیٹھ کر ‘کانٹوں کے بستر پر لیٹ کر ‘درختوں کی شاخوں پر گھنٹوں لٹک کر اور اپنے ہاتھ کو بے حرکت بناکر ‘یا سر سے اونچا لے جاکر اتنے طویل عرصے تک رکھتے  ہیں تاکہ وہ بے حس ہوجائیں اور سوکھ کر کانٹا بن جائیں ۔ان جسمانی آزار کی ریاضتوں کے ساتھ ہندومت میں دماغی اور روحانی مشقتوں کو بھی نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ ہندو تنہا شہر سے باہر غور وفکر میں مصروف رہتے ہیں  اور ان میں سے بہت سے جھونپڑیوں میں اپنے گرو کی رہنمائی میں گروپ بناکر بھی رہتے ہیں۔ان میں سے کچھ گروپ بھیک پر گزارہ کرتے ہوئے سیاحت کرتے ہیں ان میں سے کچھ مادر زاد برہنہ رہتے اورکچھ لنگوٹی باندھ لیتےہیں ۔بھارت کے طول وعرض میں اس قسم کے چٹا دھاری یا ننگ دھڑنگ اور خاکستر میلے سادھوؤں کی ایک بڑی تعداد ‘جنگلوں ‘دریاؤں اور پہاڑوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے ‘اورعام ہندو معاشرے میں ان کی پوجا تک کی جاتی ہے ۔(مقدمہ ارتھ شاستر :۹۹)

 روحانی قوت اور ضبط نفس کے حصول کی خاطر ریاضت کا ایک اہم طریقہ ’’یوگا‘‘کا ایجاد کیا گیا جس پر ہندو مت بدھ مت اور جین مت کے پیروکار سبھی عمل کرتے ہیں۔ اس طریقہ ریاضت میں یوگی اتنی دیر تک سانس روک لیتے ہیں کہ موت کا شبہ ہونے لگتا ہے۔ دل کی حرکت کا اس پر اثر نہیں ہوتا ۔ سردی گرمی ان پر اثر انداز نہیں ہوتی یوگی طویل ترین فاقے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔ ارتھ شاستر کے نامہ نگار اس طرز ریاضت پر تبصرہ کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں کہ: یہ ساری باتیں مغربی علم الاجسام کے ماہرین کے لئے تو حیران کن ہوسکتی ہیں لیکن مسلم صوفیاءکے لئے چنداں حیران کن نہیں ‘کیونکہ اسلامی تصوف کے بہت سے سلسلوں بالخصوص نقشبندی کے سلسلے فنا فی ا ﷲیا فنا فی الشیخ یا ذکر قلب کے اوراد میں حبس دم کے کئی طریقے ہیں جن پر صوفیاء عامل ہوتے ہیں ۔(مقدمہ ارتھ شاستر :۱۲۹)

 یوگا عبادت کا ایک بھیانک نظارہ سادھوؤں اور یوگیوں کا دہکتے ہوئے شعلہ فشاں انگاروں پر ننگے قدم چلنا اور بغیر جلے سالم نکل آنا ‘تیز دھار نوکیلے خنجر سے ایک گال سے دوسرے گال تک اور ناک کے دونوں حصوں تک اور دونوں ہونٹوں کے آرپار خنجر اتار دینا اور اس طرح گھنٹوں کھڑے رہنا ۔تازہ کانٹوں اور نوکیلی کیلوں کے بستر پر لیٹے رہنا یا رات دن دونوں پیروں یا ایک پیر کے سہارے کھڑے رہنا یا ایک ٹانگ اور ایک ہاتھ کو اس طویل عرصہ تک بے مصرف بنادینا کہ وہ سوکھ جائے یا مسلسل الٹے لٹکے رہنا۔ساری عمر ہر موسم اور بارش میں برہنہ رنا ۔تمام عمر سنیاسی یعنی کنوارا رہنا یا اپنے تمام اہل خانہ سے الگ ہوکر بلند پہاڑوں کے غاروں میں گیان دھیان کرنا وغیرہ بھی یوگا عبادت کے مختلف طریقے ہیں ۔اسے ہندو یوگی ہندو دھرم یا دیدانت یعنی تصوف کے مظاہر قرار دیتے ہیں۔(مقدمہ ارتھ شاستر :۱۳۰)

 ہندو مت اور بدھ مت میں جنترمنتر اور جادو کے ذریعہ عباد ت کا طریقہ بھی رائج ہے عبادت کا یہ طریقہ اختیار کرنے والوں کو ’’تانترک‘‘فرقہ کہتے ہیں ۔  یہ لوگ جادوئی منتر جیسے آدم منی ’’پدمنی او ‘‘یوگا کے انداز میں گیان دھیان کو نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ قدیم ویدک لٹریچر بتاتا ہے کہ سادھو اور ان کے بعض طبقات جادو اور سفلی عملیات میں مہارت حاصل کرنے کے عمل دہرایا کرتے تھے اس فرقہ میں تیز بے ہوش کرنے والی شرابوں کا پینا ‘ گوشت اورمچھلی کھانا ‘جنسی افعال کا بڑھ چڑھ کر کرنا ‘غلاظتوں کو غذا بنانا مذہبی رسموں کے نام پر قتل رنا جیسی قبیح اور مکروہ حرکات بھی عبادت سمجھی جاتی ہیں۔(مقدمہ ارتھ شاستر :۱۱۷)

(ب) ہندو بزرگوں کے مافوق الفطرت اختیارات

 جس طرح مسلمانوں کے غوث ‘قطب‘نجیب‘ابدال‘ولی‘فقیر‘اوردرویش وغیرہ مختلف مراتب اور مناصب کے بزرگ سمجھے جاتے ہیں ۔جنہیں مافوق الفطر قوت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں اسی طرح ہندوؤں میں رشی ‘منی ‘مہاتما‘اوتار ‘سادھو‘سنت ‘سنیاسی‘یوگی‘شاستری‘اور چتھر ویدی وغیرہ مختلف مراتب اورمناصب کے بزرگ سمجھے جاتے ہیں جنہیں مافوق الفطرت قوت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں ۔ہندوؤں کی مقدس کتابوں کے مطابق یہ بزرگ ماضی حال اور مستقبل کودیکھ سکتے ہیں۔جنت میں دوڑتے ہوئے جاسکتے ہیں۔دیوتاؤں کے دربار میں ان کا بڑے اعزاز سے استقبال کیاجاتا ہے۔ یہ اتنی زبردست جادوئی طاقت کے مالک ہوتے ہیں کہ اگر چاہیں تو پہاڑوں کو اٹھا کر سمندرمیں پھینک دیں۔ یہ ایک نگاہ سے اپنے دشمنوں کو جلاکر خاکستر کرسکتے ہیں ۔تمام فصلوں کو برباد کرسکتے ہیں۔اگر یہ خوش ہوجائیں تو پورے شہر کو تباہی سے بچا لیتے ہیں۔ دولت میں زبردست اضافہ کرسکتے ہیں۔ قحط سالی سے بچا سکتے ہیں ۔دشمنوں کے حملے روک سکتے ہیں۔(مقدمہ ارتھ شاستر :۹۹-۱۰۰)

منی وہ مقدس انسان ہیں جو کوئی کپڑا نہیں پہنتے۔ہوا کو بطورلباس استعمال کرتے ہیں۔جن کی غذا ان کی خاموشی ہے ۔وہ ہوا میں اڑ سکتے ہیں اور پرندوں سے اوپر جاسکتے ہیں ۔یہ منی تمام انسانوں کے اندر پوشیدہ خیالوں کو جانتے ہیں کیونکہ انہوں نے وہ شراب پی ہوئی ہے جو عام انسانوں کے لئے زہر ہے ۔ (بحوالہ سابق)

شیوجی کے بیٹے لارڈگنیش کے بارے میں ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ وہ کسی بھی مشکل کو آسان کرسکتے ہیں اگر چاہیں تو کسی کے لئے بھی مشکل پیدا کرسکتے ہیں اس لئے بچہ جب پڑھنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو سب سے پہلے اسے گنیش کی کی پوجا کرنا ہی سکھایا جاتا ہے ۔(بحوالہ سابق :۹۸)

(ج) ہندو بزرگوں کی بعض کرامات

 ہندوؤں کی مقدس کتب میں اپنے بزرگوں سے منسوب بہت سی کرامات کا تذکرہ ملتا ہے ہم یہاں دوچار مثالوں پر ہی اکتفاکریں گے ۔

(۱) ہندوؤں کی مذہبی کتاب رامائن میں رام اور راون کا طویل قصہ دیا گیا ہے کہ رام اپنی بیوی سیتا کے ساتھ جنگلات میں زندگی بسر کررہا تھا لنکا کا راجہ راون اس کی بیوی کو اغوا کرکے لے گیا رام نے ہنومان (بندروں کے شہنشاہ)کی مدد سے خونی جنگ کے بعد اپنی بیوی واپس حاصل کرلی لیکن مقدس قوانین کے تحت اسے بعد میں الگ کردیا ۔سیتا یہ غم برداشت نہ کرسکی اور اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے لئے آگ میں کود گئی اگنی دیوتا جو مقدس آگ کے مالک ہیں انہوں نے آگ کو حکم دیا کہ وہ بجھ جائے اور سیتا کو نہ جلائے اس طرح سیتا دہکتی ہوئی آگ سےسالم نکل آئی اور اپنے بے داغ کردار کا ثبوت فراہم کردیا ۔(مقدمہ ارتھ شاستر :۱۰۱-۱۰۲)

(۲)ایک بار بدھ مت کے درویش (بھکشو )نے یہ معجزہ دکھلایا کہ ایک پتھر سے ایک ہی رات میں اس نے ہزاروں شا خوںوالا آم کا درخت پیدا کردیا ۔( ایک طرف بدھ مت کے بھکشو کا یہ معجزہ اور دوسری طرف بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کے بارے میں یہ دلچسپ خبر ملاحظہ ہو ’’حیدرآباد کی خوبصور ت جھیل میں ایک چھوٹے جہاز سے گوتم بدھ کا مجسمہ پھسل کر جھیل میں گرگیا مجسمہ کا وزن ۴۵۰ٹن تھا اور اسے ۹مئی کو بودھ پورنیا کے موقع پر نقاب کشائی کے لئے نصب کیاجانا تھا ‘یہ مجسمہ دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ تھا ‘اس حادثہ میں (گوتم بدھ کو بچاتے بچاتے)دس افراد جھیل میں ڈوب گئے اور چھ افراد زخمی ہوئے ۔نوائے وقت ۱۱مارچ ۱۹۹۰ء)مشرکین کے معبودوں کی اصل حقیقت تو یہی ہے خواہ بدھسٹوں کے ہوں یا ہندوؤں کے یامسلمانوں کے۔  لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاَنَّی تُوْفَکُوْنَ (سورہ فاطر:۳)ترجمہ :اس اﷲتعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا لٰہ نہیں آخر تم کہاں سے دھوکہ کھارہے ہو ۔

(۳)محبت کے دیوتا (کاما)اور اس کی دیوی(رتی)اور ان دیوی دیاتاؤں کے دوست خاص طورسے موسم بہار کے خدا جب باہم کھیلتے تو ’’کاما دیوتا ‘‘اپنے پھولوں کے تیروں سے ’’شیودیوتا‘‘پر بارش کرتے اور شیودیوتا اپنی تیسری آنکھ سے ان تیروں پر نگاہ ڈالتے تو یہ تیر بجھی ہوئی خاک کی شکل میں تباہ ہوجاتے اور وہ ہرقسم کے نقصان سے محفوظ رہتا کیونکہ وہ جسمانی شکل سے آزاد تھا۔(مقدمہ ارتھ شاستر :۹۰)

(۴) ہندوؤں کے ایک دیوتا لارڈ گنیش کے والد شیوجی کے بارے میں روایت ہے کہ: دیوی پاروتی(ہندو ان تینوں شخصیتوں کے بت اور مورتیاں تراش کر پوجتے ہیں۔)(ان کی بیوی کا نام )نے ایک دن تہیہ کیاکہ لارڈ شیو ان کے غسل کے وقت شرارتاً غسل خانہ میں گھس کر انہیں پریشان کرتے ہیں چنانچہ اس کا سدباب کرنے کے لئے ایک انسانی پتلابنایا اور اس میں جان ڈال کر اسے غسل خانے کے دروازے پر پہرے کے لئے بٹھادیا پھر یہ ہوا کہ شیوجی حسب عادت دیوی پاروتی کو چھیڑنے اور ستانے کے لئے غسل خانے کی سمت چلے آئے ۔ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے غسل خانہ کے دروازے پر ایک خوبصورت بچے کو پہرہ دیتے دیکھا شیوجی نے غسل خانے میں گھسنے کی کوشش کی تو اس بچے نے راستہ روک لیا ۔شیوجی کو اس مزاحمت پر اتنا غصہ آیا کہ انہوں نے ترشول (تین نوک کا نیزہ)سے اس کا سر کاٹ کر دھڑ سے الگ کردیا ۔دیوی پاروتی کے لئے یہ قتل شدید صدمے کا موجب بنا ۔تب شیوجی نے ملازمین کو حکم دیا کہ وہ فوری کسی کا سر کاٹ کرلے آئیں ‘ملازمین بھاگ نکلے تو سب سے پہلے ان کا سامنا ہاتھی سے ہوا اور وہ ہاتھی کا سرکاٹ کے لے آئے شیوجی نے بچے کے دھڑ پر ہاتھی کا سر جماکر پھر سے جان ڈال دی اور دیوی پاروتی بچے کی نئی زندگی سے بہت خوش ہوئیں ۔ (روزنامہ سیاست ‘کالم فکر ونظر ‘حیدرآباد الہند ۔مورخہ ۲۰ستمبر ۱۹۹۱ء)

 ہندو مت کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ایک بڑے فرقہ ’’اہل تصوف‘‘کے عقائد اور تعلیمات ہندو مذہب سے کس قدر متاثر ہیں ۔عقیدۃ الوحدت الوجود اور حلول یکساں ۔عبادت اور ریاضت کے طریقے یکساں ۔بزرگوں کے مافوق الفطرت اختیارات یکساں اور بزرگوں کی کرامات کا سلسلہ بھی یکساں۔ اگر کوئی فرق ہے تو وہ ہے صرف ناموں کا ۔تمام معاملات میں ہم آہنگی اور یکسانیت پالینے کے بعد ہمارے لئے ہندوستان کی تاریخ میں ایسی مثالیں باعث تعجب نہیں رہتیں کہ ہندولوگ ‘مسلمان پیروں فقیروں کے مرید کیوں بن گئے اور مسلمان ہندوسادھو اور جوگیو کے گیان دھیان میں کیوں حصہ لینے لگے۔( زبدۃ العارفین قدوۃ السالکین حافظ غلام قادر اپنے زمانے کے قطب الاقطاب اور غوث الاغواث اور محبوب خدا تھے جن کا فیض روحانی ہرخاص وعام کے لئے اب تک جاری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہندو ‘سکھ ‘عیسائی ‘ہر قوم اور فرقے کے لوگ آپ سے فیض روحانی حاصل کرتے تھے ۔آپ کے عرس میں تمام فرقوں کے لوگ شامل ہوتے تھے۔ آپ کے تمام مریدان باصف فیض روحانی سے مالا مال اور پابند شرع شریف ہیں ۔ریاض السالکین صفحہ ۲۷۲بحوالہ شریعت وطریقت صفحہ ۴۷۷دوسری طرف اسماعیلیہ فرقہ کے پیر شمس الدین صاحب کشمیر تشریف لائے تو تقیہ کرکے اپنے آپ کو یہاں کے باشندوں کے رنگ میں رنگ لیا۔ ایک دن جب ہندو دسہرے کی خوشی میں گربا رقص کررہے تھے پیر صاحب بھی اس رقص میں شریک ہوگئے اور ۲۸گربا گیت تصنیف فرمائے اسی طرح ایک دوسرے پیر صدرالدین صاحب (اسماعیلی)نے ہندوستان میں آکر اپنا ہندووانہ نام ’’ساہ دیو‘‘(بڑا درویش)رکھ لیا اور لوگوں کو بتایا کہ وشنو کا دسواں اوتار حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شکل میں ظاہر ہوچکا ہے ‘اس کے پیرو صوفیوں کی زبان میں محمد اور علی کی تعریف کے بھجن گایا کرتے تھے ۔(اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش صفحہ ۳۲-۳۳)

اس اختلاط کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندو پاک کے مسلمانوں کی اکثریت جس اسلام پر آج عمل پیرا ہے اس پر کتاب وسنت کی بجائے ہندو مذہب کے نقوش کہیں زیادہ گہرے اور نمایاں ہیں۔

۶۔حکمران طبقہ

 برصغیر پاک وہند میں شرک وبدعت کے اسباب تلاش کرتے ہوئے یہ بات کہی جاتی ہے کہ چونکہ یہاں اسلام پہلی صدی ہجری کے آخر میں اس وقت پہنچا جب محمد بن قاسم رحمہ اﷲ نے ۹۳ھ میں سندھ فتح کیا۔ اس وقت محمد بن قاسم رحمہ اﷲاور اس کی افواج کے جلد واپس چلے جانے کی وجہ سے اولاً اسلام خالص کتاب وسنت کی شکل میں پہنچا ہی نہیں ۔ثانیاً اسلام کی یہ دعوت بڑے محدود پیمانے پر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانواں کی اکثریت کے افکار واعمال میں مشرکانہ اور ہندوانہ رسم ورواج بڑے واضح اور نمایاں ہیں۔

 تاریخی اعتبار سے یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سرزمین برصغیر عہد فاروقی (۱۵ھ)سے ہی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے ورود مسعود سے بہرہور ہونی شروع ہوگئی تھی عہدِ فاروقی اور عہد عثمانی میں اسلامی ریاست کے زیر نگیں آنے والے ممالک میں شام ‘مصر ‘ عراق‘ یمن ‘ترکستان‘سمرقند‘بخارا‘ترکی‘افریقہ اور ہندوستان میں مالا بار ‘جزائر سراندیپ ‘مالدیپ ‘گجرات اور سندھ کےعلاقے شامل تھے اس عرصہ میں سرزمین ہندمیں تشریف لانے والے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی تعداد ۲۵ ‘تابعین کی تعداد ۳۷اور تبع تابعین کی تعداد ۱۵بتائی جاتی ہے ۔( ملاحظہ ہو ’’اقلیم ہند میں اشاعت اسلام ‘‘از گازی عزیر ۔)

گویا پہلی صدی ہجری کے آغاز میں ہی اسلام برصغیر پاک وہند میں خالص کتاب وسنت کی شکل میں پہنچ گیا تھا اور ہندو مت کے ہزاروں سالہ پرانے اور گہرے اثرات کے باوجود صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین ۔تاریخی اور تبع تابعین رحمہم اﷲکی سعی جمیلہ کے نتیجہ میں مسلسل وسعت پذیر تھا ،جو بات تاریخی حقائق سے ثابت ہے وہ یہ کہ جب کبھی موحد اورمومن افراد برسر اقتدار آئے تو وہ اسلام کی شان وشوکت میں اضافے کا باعث بنے ۔محمد بن قاسم کے سلطان سبکتگین ۔سلطان محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین غوری کا عہد (۹۸۶تا ۱۱۷۵ء )اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس دور میں اسلام برصغیر کی ایک زبردست سیاسی اور سماجی قوت بن گیا تھا اس کے برعکس جب کبھی ملحد اور بے دین قسم کے لوگ سریر آرائے حکومت ہوئے تو وہ اسلام کی پسپائی اور رسوائی کا باعث بنے اس کی ایک واضح مثال عہدِ اکبری ہے جس میں سرکاری طور پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ  أَکْبرُ خَلِیْفَۃ اﷲِمسلمانوں کا کلمہ قرار دیا گیا۔

اکبر کو دربار میں باقاعدہ سجدہ کیاجاتا ‘نبوت ‘وحی ‘حشر نشراور جنت دوزخ کا مذاق اڑایا جاتا ‘نماز ‘روزہ حج اور دیگر اسلامی شعائر پر کھلم کھلا اعتراضات کئے جاتے ۔سود‘جوا اور شراب حلال ٹھہرائے گئے۔ سور کو ایک مقدس جانور قرار دیا گیا۔ ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے گائے کا گوشت حرام قرار دیا گیا ۔دیوالی ‘دسہرہ‘راکھی‘پونم ‘شیوراتری جیسے تہوار ہندوانہ رسوم کے ساتھ سرکاری سطح پر منائے جاتے ہیں۔(تجدید واحیائے دین از سید ابوالاعلیٰ مودودی صفحہ ۸۰)

ہندومذہب کے احیاء اور شرک کے پھیلاؤ کا اصل سبب ایسے ہی بے دین اور اقتدار پرست مسلمان حکمران تھے ۔

تقسیم ہند کے بعد کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت اور بھی واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ شرک وبدعت اور لادینیت کو پھیلانے یا روکنے میں حکمرانوں کا کردار  بڑی اہمیت رکھتا ہے ہمارے نزدیک ہر پاکستانی کو اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنا چائے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیاکی وہ واحد ریاست جو کم وبیش نصف صدی قبل محض کلمہ توحید لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُکی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئی تھی اس میں آج بھی کلمہ توحید کے نفاذ کا دور دور کوئی نشان نظر نہیں آرہا ؟ ۔ اگر اس کا سبب جہالت قرار دیا جائے تو جہالت ختم کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں پر تھی۔ اگر اس کا سبب نظام تعلیم قرار دیا جائے تو دین خانقاہی کے علمبرداروں کو راہ راست پر لانا بھی حکمرانوں کی ذمہ داری تھی۔ لیکن المیہ تو یہ ہے کہ توحید کے نفاذ کے مقدس فریضہ کی بجاآوری تو رہی دور کی بات ہمارے حکمران توخود کتاب وسنت کے نفاذ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے آئے ہیں ۔

سرکاری سطح پر شرعی حدود کو ظالمانہ قرار دینا ‘قصاص ‘دیت اور قانونِ شہادت کو دقیانوسی کہنا ‘اسلامی شعائر کامذاق اڑانا ‘سودی نظام کے تحفظ کے لئے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا ‘عائلی قوانین اور فیملی پلاننگ جیسے غیر اسلامی منصوبے زبردستی مسلط کرنا ‘ثقافتی طائفوں ‘قوالوں ‘مغنیوں اور موسیقاروں کو پذیرائی بخشنا(ایک ضیافت میں وزیر اعظم نے پولیس بینڈ کی دلکش دھنوں سے خوش ہوکر بینڈ ماسٹر کو پچاس ہزار روپیہ انعام دیا۔ الاعتصام ۵جون ۱۹۹۲ء)

سال نو او رجشن آزادی جیسی تقاریب کے بہانے شراب وشباب کی محفلیں منعقد کرنا ہمارے عزت مآب حکمرانوں کا معمول بن چکا ہے۔ دوسری طرف خدمت اسلام کے نام پر حکمران(الا ماشاء اﷲ)جو کارنامے سرانجام دیتے چلے آرہے ہیں ان میں سب سے نمایا اور سرفہرست دین خانقاہی سے عقیدت کا اظہار اور اس کا تحفظ شاید ہمارے حکمرانوں کے نزدیک اسلام کا سب سے امتیازی وصف یہی ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح رحمۃ اﷲ علیہ سے لے کر مرحوم محمدضیاء الحق تک اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمہ اﷲسے لے کر حفیظ جالندھری تک تمام قومی لیڈروں کے خوبصوت سنگ مرمر کے منقش مزار تعمیر کرائے جائیں ان پر مجاور (گارڈ)متعین کیے جائیں قومی دنوں میں ان مزاروں پر حاضری دی جائے ۔پھولوں کی چادریں چڑھائی جائیں ۔ سلامی دی جائے فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کے ذریعے انہیں ثواب پہنچانے کا شغل فرمایا جائے تو یہ دین اسلام کی بہت بڑی خدمت ہے ۔

 یاد رہے بانی پاکستان محمد علی جناح رحمۃ اﷲعلیہ کے مزار کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے باقاعدہ ایک الگ مینجمنٹ بورڈ قائم ہے جس کے ملازمین سرکاری خزانے سے تنخواہ پاتے ہیں گزشتہ برس مزار کے تقدس کے خاطر سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے مزار کے اردگرد ۶  فرلانگ کے علاقہ میں مزار سے بلند کسی بھی عمارت کیتعمیر پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔(روزنامہ جنگ ۱۳اگست ۱۹۹۱ء)( یاد رہے مکہ معظمہ میں بیت اﷲشریف کی عمارت کے اردگرد بیت اﷲشریف سے دوگنی تگنی بلند وبالا عمارتیں موجود ہیں جو مسجد الحرام کے بالکل قریب واقع ہیں اسی طرح مدینہ منورہ میں روضہ رسولﷺکے اردگرد روضہ مبارک سے دوگنی تگنی بلند وبالا عمارتیں موجود ہیں جن میں عام لوگ رہائش پذیر ہیں ۔علماء کرام کے نزدیک ان رہائشی عمارتوں کی وجہ سے نہ تو بیت اﷲشریف کا تقدس مجروح ہوتا ہے نہ روضہ رسولﷺ کا ۔ )

۱۹۷۵ء میں شہنشاہ ایران نے سونے کا دروازہ سید علی ہجویری کے مزارکی نذر کیا جسے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم نے اپنے ہاتھوں سے دربار میں نصب فرمایا ۔۱۹۸۹ء میں وفاقی گورنمنٹ نے جھنگ میں ایک مزار کی تعمیر وتزئین کے لئے ۶۸لاکھ روپیہ کا عطیہ سرکاری خزانے سے ادا کیا (صحیفہ اہل حدیث کراچی ۱۶دسمبر ۱۹۸۹ء )

۱۹۹۱ء میں سید علی ہجویری کے عرس کے افتتاح وزیر اعلیٰ پنجاب نے مزار کو ۴۰من عرق گلاب سے غسل دے کر کیا (روزنامہ جنگ ۲۳جولائی ۱۹۹۱ء )

جبکہ امسال ’’داتا صاحب‘‘کے ۹۴۸ویں عرس کے افتتاح کے لئے جناب وزیر اعظم صاحب بنفس نفیس تشریف لے گئے مزارپر پھولوں کی چادر چڑھائی ‘فاتحہ خوانی کی ‘مزار سے متصل مسجد میں نماز عشاء ادا کی اور دودھ کی سبیل کاافتتاح کیا نیز ملک میں شریعت کے نفاذ کشمیر اور فلسطین کی آزادی افغانستان میں امن واستحکام اور ملک کی یک جہتی ترقی اور خوشحالی کے لئے دعائیں کیں ۔( روزنامہ جنگ ۱۹اگست ۱۹۹۲ء )

گزشتہ دنوں وزیر اعظم صاحب ازبکستان تشریف لے گئے جہاں انہوں نے چالیس لاکھ ڈالر (تقریبا ایک کروڑ روپیہ پاکستانی )امام بخاری رحمہ اﷲ کے مزار کی تعمیر کے لئے بطور عطیہ عنایت فرمائے (مجلہ الدعوۃ اگست ۱۹۹۲ء)

 مذکورہ بالا چند مثالوں کے بین السطور ‘اہل بصیر ت کے سمجھنے کے لئے بہت کچھ موجود ہے ایسی سرزمین جس کے فرمانروا خود ’’خدمتِ اسلام‘‘سر انجام دے رہے ہوں وہاں کے عوام کی اکثریت اگر گلی گلی ‘محلہ محلہ ‘گاؤں گاؤں ‘شب وروز مراکز شرک قائم کرنے میں مصروف عمل ہوں تو اس میں تعجب کی کونسی بات ہے ؟کہاجاتا ہے:

الناس علی دین ملوکھم

یعنی عوام اپنے حکمرانوں کے دین پر چلتے ہیں.

یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے

صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الاﷲ

پس چہ باید کرد؟

جیسا کہ ہم پہلے واضح کرچکے ہیں کہ انسانی معاشرے میں تمام تر شر وفساد کی اصل بنیاد شرک ہی ہے۔ شرک کا زہر جس قدر تیزی سے معاشرے میں سرایت کررہا ہے اسی تیزی سے پوری قوم ہلاکت اور بربادی کی طرف بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اس صورت حال کا تقاضایہ ہے کہ عقیدہ توحید کا شعور رکھنے والے لوگ انفرادی اور اجتماعی ‘ہر سطح پر شرک کے خلاف جہا دکا عز کریں۔ انفرادی سطح پر سب سے پہلے اپنے اپنے گھروں میں اہل وعیال پر توجہ دیں جن کے بارے میں اﷲتعالیٰ کا واضح حکم بھی ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا

التحریم – 6

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ‘اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو (جہنم کی )آگ سے بچاؤ۔

اس کے بعد اپنے عزیزواقارب دوست واحباب پر توجہ دی جائے اور پھر گلی گلی ‘محلہ محلہ اوربستی بستی جاکر عقیدہ توحید کی دعوت پیش کی جائے لوگوں کو شرک کی ہلاکت خیزیوں اورتباہ کاریوں سے آگاہ کیاجائے ۔

 اجتماعی سطح پر ملک میں اگر کوئی گروہ یا جماعت خالص توحید کی بنیاد پر غلبہ اسلام کے لئے جدوجہد کررہی ہو تو اس کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ کوئی فرد یا ادارہ یہ مقدس فریضہ انجام دے رہا ہو تو اس کے ساتھ تعاون کیاجائے ۔کوئی اخبار ‘جریدہ یا رسالہ اس کارِ خیر میں مصروف ہو تو اس کے ساتھ تعاون کیا جائے ۔شرک اپنے سامنے ہوتے دیکھنا اور پھر اسے روکنے یا مٹانے کے لئے جدوجہد نہ کرنا سراسر اﷲتعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ ایک حدیث شریف میں ارشاد مبارک ہے :

’’جب لوگ کوئی خلاف شرع کام ہوتے دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب پر عذاب نازل فرمادے ‘‘۔ (ابن ماجہ ‘ترمذی)

ایک دوسری حدیث میں ارشاد نبویﷺہے:

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے رہو‘اور برائی سےروکتے رہو ورنہ اﷲتعالیٰ تم پر عذاب نازل کردے گا ‘ پھر تم اس سے دعا کروگے تو وہ تمہاری دعا بھی قبول نہیں کرے گا‘‘۔ (ترمذی)

 غور فرمائیے اگر عام گناہوں سے لوگوں کو نہ روکنے پر اﷲتعالیٰ کاعذاب نازل ہوسکتا ہے تو پھر شرک جسے خود اﷲتعالیٰ نے سب سے بڑا گناہ (ظلم )قرار دیا ہے اس کو نہ روکنے پر عذاب کیوں نازل نہ ہوگا؟رسول اکرم ﷺکا ارشاد ہے :

’’جو شخص خلاف شرع کام ہوتا دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے ہاتھ سے روکے ‘اگر اس کی طاقت نہ ہو تو پھر زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو  تو پھر دل  سے ہی برا جانے ‘اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے ‘‘۔ (مسلم شریف)

پس اے اہل ایمان !اپنے آپ کو اﷲتعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ ‘اور ہر حال میں شرک کے خلاف جہاد کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہو ‘جو جان دے سکتا ہے وہ جان سے کرے ‘جو مال سے کرسکتا ہو وہ مال سے کرے ‘جو ہاتھ سے کرسکتا ہو وہ ہاتھ سے کرے ‘جو زبان سے کرسکتا ہوں وہ زبان سے کرے ‘جو قلم سے کرسکتا ہوں وہ قلم سے کرے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

التوبة – 41

نکلو‘خواہ ہلکے ہو یابوجھل اور جہاد کرو اﷲتعالیٰ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ‘یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگرتم جانو۔

 (زیرِ نظر مضمون فضیلۃ الشیخ محمد اقبال کیلانی حفظہ اللہ  کی کتاب: توحید اور دینِ خانقانیت سے ماخوذ ہے۔)

وآخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort