سندھ اسمبلی کے فیصلے! خلافِ شریعت و آئین

سندھ اسمبلی نے 28 اپریل 2014 کے اجلاس میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس کے مطابق 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے ، خبر کے مطابق نابالغ لڑکی سے نکاح کرنے والا مرد، نکاح پڑھنے والا مولوی اور لڑکی کے والدین تین سال کے لیے جیل میں ڈالے جائیں گے ۔[1]

آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل نمبر: 227 میں کیا لکھا ہوا ہے:

All existing laws shall be brought in conformity with the injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah, in this part referred to as the injunctions of Islam and no law should be enacted which is repugnant to such injunctions.

’’تمام موجودہ قوانین، اسلامی احکامات کے مطابق یقینی بنائے جائیں گے جس طرح قرآن و سنت میں بیان کیے گئے ہیں اور آئین کے اس حصہ میں ان کا تذکرہ ’’اسلامی احکامات‘‘ کے نام سے کیا جائے گا اور کوئی بھی ایسا قانون نہیں بنایا جائے گا جوقرآن و سنت کے خلاف ہو‘‘

آئین کے پندرھویں ترمیمی بل 1998ء میں لکھا ہوا ہے:

2-B Supremacy of Quran and Sunnah, (i) The Holy Quran and Sunnah of the Holy Prophet Muhammad Salla Allah o alai wa sallam shall be the supreme law of Pakistan.


قرآن و سنت کی بالادستی اور فوقیت

قرآن کریم اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  پاکستان کے اعلیٰ ترین قوانین ہیں۔

  سندھ اسمبلی نے اس قانون کو پاس کرکے کیا ملکِ عزیز کے اعلیٰ ترین قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے؟ کیا اس طرح کی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہے؟   

قرآن و سنت ، صحابہ کرام کے عمل اور اجماع سے چھوٹی عمر کی لڑکی کا نکاح ثابت ہے اور اس کو غلط قرار دینا مغربی افکار  کے اثرات کا نتیجہ ہے۔


نا بالغ لڑکیوں کا نکاح قرآن کریم کی روشنی میں

(1) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾

[ الطلاق : 04 ]

’’تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہو گئی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔‘‘

اس آیت کے الفاظ

﴿وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾

 بڑے اہم ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ جن عورتوں کو

ان کی کم سنی کی وجہ سے ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو عدت تین مہینے ہے ۔ یہاں پر مطلقہ عورتوں کی عدت کا ذکر ہو رہا ہے اور طلاق نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے ۔

معلوم ہوا کہ قرآن ہی سے نابالغ لڑکی کا نکاح ثابت ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ اس آیت کاشانِ نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جب سورۃ البقرۃ میں عورتوں کی عدت کے بارے میں آیات نازل ہوئیں (آیت نمبر:234) تو مدینہ کے بعض لوگوں نے کہا کہ عورتوں کی عدت کے سلسلے میں کچھ ایسی بھی صورتیں ہیں کہ جن کا تذکرہ قرآن نے نہیں کیا ، جیسے چھوٹی عمر کی لڑکیاں، بڑی عمر کی عورتیں جنہیں حیض آنا بند ہو گیا ہو اور حاملہ خواتین۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔[2]

امام شوکانی لکھتے ہیں:

’’اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن میں جن عورتوں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ’’جن کو حیض آنا شروع نہیں ہوا ہے‘‘ سے مراد وہ کم سن لڑکی ہے جو ابھی نابالغ ہو۔‘‘

علامہ ابن بطال مالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

قال المھلب: اجمع العلماء علی انہ یجوز للاب تزویج ابنته الصغیرۃ التی لا یوطا

شرح صحیح البخاری: لابن بطال : 7/ 247،مزید دیکھیے: فتح الباری: 10/239

’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ والد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی کم سن (چھوٹی) لڑکی کا نکاح کرے جو ابھی ہم بستری کے قابل بھی نہ ہو۔‘‘

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت کے متعلق علماء کی تفسیر اس طرح ہے:

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’الجامع الصحیح‘‘میں باب قائم کیا ہے:

باب انکاح الرجل ولدہ الصغار لقوله تعالیٰ: وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ : فجعل عدتھا ثلاثة اشھر قبل البلوغ

بخاري:كتاب النكاح،باب انكاح الرجل ولده صغار

’’اس بات کا بیان کہ اپنے چھوٹے بچوں کا نکاح کیا جا سکتا ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ہے : ’’وہ عورتیں جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہیں ہوا ہے‘‘ایسی لڑکیوں کی عدت جو ابھی نابالغ ہوں تین ماہ ہے‘‘

امام المفسرین ابن جریر رحمہ اللہ آیت

﴿وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾

کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

و کذالک عدد اللائی لم یحضن من الجواری لصغرھن اذا طلقھن ازواجھن بعد الدخول

تفسیر الطبری: 10/856

’’اس طرح ان عورتوں کی عدت بھی تین ماہ ہے جن کو ابھی حیض نہیں آیا ہے جس طرح وہ کم سن لڑکیاں جن کو ہم بستر ہونے کے بعد ان کے خاوندوں نے طلاق دی ہو۔‘‘

ابو بکر الجصاص حنفی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:

فحکم بصحۃ طلاق الصغیرۃ لم تحض والطلاق لا یقع الا فی نکاح صحیح ، فتضمنت الآیۃ جواز تزویج الصغیرۃ

احکام القرآن: 2/54

اللہ تعالیٰ نے 

﴿وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾

میں چھوٹی، نابالغ لڑکی کو ، جسے حیض نہ آیا ہو ، دی گئی طلاق کو صحیح قرار دیا ہے اور (سب جانتے ہیں) طلاق، صحیح نکاح کے بعد ہی ہوتی ہے اس لیے یہ آیت چھوٹی نابالغ لڑکی کے نکاح کو جائز قرار دے رہی ہے۔ ‘‘

علامہ ماوردی شافعی (وفات: 450 ھ) لکھتے ہیں:

لان عدة من لا تحیض بصغر او ایاس ثلاثة اشھر ، کما قال اللہ تعالیٰ :﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾

’’اس لیے کہ جن عورتوں کو ان کی کم سنی کی وجہ سے حیض آنا شروع نہ ہوا ہو یا اس کی عمر بڑی ہوچکی ہو تو ایسی عورتوں کی عدت تین مہینے ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔‘‘[3]

جبکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ طلاق اسی ہی کو دی جاتی ہے جس کا نکاح ہو چکا ہو کیونکہ طلاق بعد کا عمل ہے جبکہ نکاح اس سے پہلے کا۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

فان کانت المطلقة لا تحیض لصغر او کبر او خلقة ولم تکن حاملا، و کان و قد وطئھا فعدتھا ثلاثة اشھر من حین بلوغ الطلاق الیھا او الی اھلھا ان کانت صغیرة لقول اللہ تعالیٰ:﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾

المحلیٰ: 10/45

’’اگر مطلقہ عورت کو اس کی کم سنی کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو یا اس کی بڑی عمر کی وجہ سے یا کسی پیدائشی نقص کی وجہ سے اور وہ حاملہ بھی نہ ہو اور اس کا خاوند اس کے ساتھ ہمبستر بھی ہوا ہے تو اس صورت میں اس کی عدت تین ماہ ہے جب سے اس کو طلاق دی گئی یا اس کے ورثاء تک (اس کی) طلاق پہنچی پھر چاہے وہ نابالغ لڑکی ہی کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾

 علامہ سرخسی حنفی رحمہ اللہ (وفات: 483ھ) لکھتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے چھوٹی لڑکی کی عدت کو واضح طور بیان فرمایا ہے اور عدت کا سبب شرعی نکاح ہوتا ہے (کیونکہ نکاح کے بعد ہی عدت ہوا کرتی ہے جیسے خاوند فوت ہو جائے یا طلاق دے دے) اور یہ بات چھوٹی لڑکی کے نکاح کی دلیل ہے‘‘۔

ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ  (وفات: 620ھ) لکھتے ہیں:

قد د ل علی جواز تزویج الصغیرة قول اللّٰہ تعالیٰ : ﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾ فجعل الّٰئِ لم یحضن عدة ثلاثة اشھر ولا تکون عدة  ثلاثة اشھر الا من طلاق فی نکاح او فسخ فدل ذالک علی تزوج و تطلق

المغنی: 9/398

ترجمہـ:’’چھوٹی لڑکی کے نکاح کے جائز ہونے پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے کہ ’’تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہو گئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا ابھی شروع ہی نہ ہوا ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ایسی عورتوں کی عدت تین مہینے مقرر کی ہے جن کو حیض نہ آیا ہو اور تین مہینے عدت صرف طلاق ہونے یا نکاح فسق ہونے کی صورت میں ہوتی ہے۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چھوٹی لڑکی کا نکاح بھی ہو سکتا ہے اور اس کو طلاق بھی دی جا سکتی ہے‘‘۔

علامہ نفراوی مالکی رحمہ اللہ  (وفات:1126ھ) لکھتے ہیں:

ان کانت مطلقة ممن لم تحض لصغر ولکن مطیقة للوطء او کانت کبیرۃ لکن قد یئست من المحیض بان جاوزت السبعین، فثلاثة اشھر عدتھا فی حق الحرة و مثلھا الامة علی المشھور لقوله تعالیٰ: ﴿وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ﴾  ای : عدتھن کذالک

فواکہ الدوانی: 2/92

’’اگر مطلقہ عورت ان عورتوں میں سے ہے جن کو کم سنی کی وجہ سے حیض نہیں آیا ہے پر وہ ہم بستر ہونے کی طاقت رکھتی ہے یا بڑی عمر کی ہے اور حیض سے ناامید ہو گئی ہو کیونکہ اس کی عمر ستر برس سے بھی بڑھ گئی ہے تو پھر ایسی صورت میں اس کی عدت تین مہینے ہے پھر چاہے عورت آزاد ہو یا لونڈی ، مشہور مذہب بھی یہی ہے دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے…‘‘

مشہور شیعہ عالم محمد بن حسن الطوسی (وفات:460ھ) اپنی مشہور تفسیر ’’التبیان فی تفسیر القرآن‘‘ میں سورۃ الطلاق کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

واللائی لم یحضن:وقال قتادة : اللائی یئسن الکبار واللائی لم یحضن الصغار

التبیان: 10/34

’’وہ عورتیں جو ناامید ہو چکی ہیں وہ بڑی عمر کی بوڑھی عورتیں ہیں اور جن عورتوں کو حیض نہیں آیا ہے وہ چھوٹی کم سن لڑکیاں ہیں‘‘

معلوم ہوا کہ شیعہ عالم کے نزدیک بھی چھوٹی لڑکی (کم سن) کا نکاح جائز ہے۔


دوسری دلیل 

﴿إِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ﴾

[ النساء : 03 ]

ترجمہ: ’’اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے توان عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو‘‘

سورۃ النساء میں ہی دوسری جگہ پر ہے:

﴿وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ﴾

[ النساء : 127 ]

ترجمہ: ’’وہ آپ سے عورتوں کے بارے حکم دریافت کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجیئےکہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق مہر تم نہیں دیتے اور ان کو اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو ‘‘

مذکورہ بالا دونوں آیات یتیم لڑکی کے نکاح کے جواز پر دلالت کرتی ہیں جو ابھی بالغ نہیں ہوئی ہو۔ دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے۔

عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ اے ام المؤمنین !

﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تُقْسِطُواْ فِي الْيَتَامَى﴾

سے

﴿ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ﴾

 تک کیا بیان ہوا ہے؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ اے بھانجے! اس آیت میں اس یتیم لڑکی کا ذکر ہے جو اپنے ولی کے زیرِ پرورش ہو اور ولی لڑکی کی خوبصورتی اور مال کی وجہ سے اس کی طرف رغبت رکھتا ہو اور اس کا حق مہر کم کرکے نکاح کرنا چاہتا ہو تو ایسے لوگوں کو ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے سوائے اس بات کے کہ وہ لڑکیوں کے حق مہر کے معاملہ میں انصاف سے کام لیں اور اگر انصاف نہ کر سکیں تو ان یتیم لڑکیوں کو چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: لوگوں نے بعد میں جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے مسئلہ کے بارے میں سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اس آیت میں یہ حکم صادر فرمایا کہ جب یتیم لڑکیا ں مال ودولت اور حسن و جمال والی ہوتی ہیں تو مہر میں کمی کرکے ان سےنکاح کرنا پسند کرتے ہیں اور اگر لڑکی مال ودولت والی نہیں ہے تو اس کو چھوڑ کر دوسری عورتوں سے نکاح کرتے ہیں ، یہ کیسی بات ہوئی؟ ان کو چاہیے کہ جب مال و دولت اور حسن و جمال کے نہ ہونے پران لڑکیوں کو چھوڑ دیتے ہیں اسی طرح اس وقت بھی ان کو چھوڑ دیں جب وہ مالدار اور خوبصورت ہوں ، البتہ اگر انصاف کریں اور پورا حق مہر ادا کریں تو پھر نکاح کرسکتے ہیں۔[4]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

فیه دلالة علی تزویج الولی غیر الاب التی دون البلوغ بکرا کانت او ثیبا، لان حقیقة الیتیمة من کانت دون البلوغ ولا اب لھا ۔ وقد اذن فی تزویجھا بشرط ان لا یبخس من صداقھا فیحتاج من منع ذالک الی دلیل قوی

فتح الباری: 10/348

’’اس حدیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اگر لڑکی کا ولی والد کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ نابالغ لڑکی کا نکاح کروا سکتا ہے چاہے لڑکی کنواری ہو یا ثیبہ (جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو یا مطلقہ ہو، مطلب کہ وہ اب کنواری نہ ہو)کیونکہ حقیقتاً یتیم وہی لڑکی ہے جو نابالغ ہو اور اس کا والد بھی نہ ہو، ایسی لڑکی سے شادی کی، اس صورت میں اجازت دی گئی ہے کہ حق مہر میں سے کچھ بھی کم نہ کیا جائے ، جو بھی اس شادی سے منع کرتا ہے اسے اس سے بھی زیادہ مضبوط دلیل پیش کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

فیه جواز تزویج الیتامی قبل البلوغ لانھن بعد البلوغ لا یقال لھن یتیمات الا ان یکون اطلق استصحابا لحالھن

فتح الباری: 9/112

’’اس میں یتیم لڑکی کے بالغ ہونے سے پہلے نکاح کا جواز ہے کیونکہ بلوغت کے بعد اسے یتیم نہیں کہا جاتا مگر ان کی پہلی حالت کے پیش ِنظر بالغ ہوجانے کے بعد بھی یتیم کا اطلاق ہوسکتا ہے‘‘ ۔


 تیسری دلیل :

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

[ النور : 32 ]

ترجمہ:’’تم میں سے جو مرد وعورت بے نکاح کے ہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنی نیک بخت غلام لونڈیوں کا بھی، اگر وہ مفلس بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے امیر بنا دے گا اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔‘‘

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:

“ھذا امر بالتزویج و قد ذھب طائفة من العلماء الی وجوبه علی کل من قدر علیه واحتجوا بظاھر قوله  صلی اللہ علیه وسلم : یا معشر الشباب من استطاع منکم الباءة فلیتزوج فانه اغض للبصر و احصن للفرج  ومن لم یستطع فعلیه بالصوم فانه له وجاء۔ (بخاری:5066، مسلم:1400)۔۔۔۔۔ الایامی: جمع اَیّم و یقال ذالک للمرأة التی لا زوج لھا ولرجل الذی لا زوجة له، و سواء کان قد تزوج ثم فارق او لم یتزوج و احد منھما، حکاه الجوھری عن اھل اللغة

تفسیر ابن کثیر: 4/544-543

’’اس آیت میں نکاح کا حکم ہے ۔ علماء کی ایک جماعت اس بات کی طرف گئی ہے کہ جس کے پاس استطاعت ہے اس پر نکاح واجب ہے ، انہوں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے : اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جس کو طاقت ہے وہ شادی کرے کیونکہ شادی کرنے سے نظریں جھکی رہتی ہیں اور شرم گاہ محفوظ رہتی ہے اور جس کو نکاح کی طاقت نہیں ہے وہ روزے رکھے اس سے اس کی نفسانی خواہشات کم ہو جائیں گی ۔۔۔۔ الایامی :اَیّـمکی جمع ہے ۔اَیّـم اس عورت کو کہا جاتا ہے جس کا خاوند نہ ہو اور اس مرد کو کہا جاتا ہے جس کی بیوی نہ ہو ، اب چاہے شادی کے بعد ایک دوسرے سے الگ ہو گئے ہوں یا شادی ہی نہ کی ہو ۔ علامہ جوہری نے انہیں اہل لغت کے حوالہ سے بیان کیا ہے‘‘۔

علامہ کاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

و الأ یّـم اسم لانثیٰ من بنات آدم علیه الصلاۃ و السلام ، کبیرة کانت او صغیرة لا زوج لھا

بدائع الصنائع: 3/363

’’اَیّم ، نام ہے آدم علیہ السلام کی بنات میں سے، چاہے بڑی ہو یا چھوٹی پر اس کا خاوند نہ ہو۔‘‘

قاضی عیاض رحمہ اللہ (وفات: 544ھ) ایم کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اہل لغت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’اَیّم‘‘کا اطلاق ہر ا س عورت پر ہوگا جس کا خاوند نہ ہو پھر چاہے چھوٹی ہو یا بڑی ، چاہے بیوہ ہو یا کنواری یا مطلقہ ۔[5]

علامہ ابن العربی(وفات: 543ھ) اَیّم کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’جس کا خاوند نہ ہو چاہے کنواری ہو یا بیوہ (مطلقہ) بالغ ہو یا نابالغ‘‘[6]

معلوم ہوا کہ مرد یا عورت چھوٹے ہوں یا بڑے، کنوارے ہوں یا بیوہ (مطلقہ) بالغ ہوں یا نابالغ ، مذکورہ بالا حدیث ان کے نکاح کے درست ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

علامہ ماوردی شافعی کہتے ہیں:

واستدلواعلی جواز تزویجھا قبل البلوغ بعموم قولہ تعالیٰ: وانکحوا الأیّامی منکم

الحاوی الکبیر: 9/66

’’علماء نے ،اللہ تعالیٰ کے فرمان: وانکحوا لایامیٰ منکم سے استدلال کیا ہے کہ بلوغت سے قبل بھی شادی ہوسکتی ہے‘‘۔

سعودی عرب کی کمیٹی برائے افتاء کا فتویٰ ہے کہ :’’ دراصل بچیوں کے نکاح کی مشروعیت مطلقاً ہے ، چھوٹی ہو یا بڑی‘‘ جیسے اللہ کا فرمان ہے:”

وانکحوا الایامیٰ منکم

فتاویٰ اللجنة الدائمة :18/27


نا بالغ لڑکی کے نکاح کا ثبوت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے

احادیث سے بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ مرد یا عورت اگرچہ 18 سال سے کم عمر بھی ہوں تو بھی ان کا نکاح ہو سکتا ہے ۔

پہلی حدیث :

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے نکاح کیا تو اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی اور وہ نو سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ رہیں۔‘‘ [7]

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’والد اپنی کم سن کنواری لڑکی کا نکاح کروا سکتا ہے اور اس بات کی دلیل ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کروانا ہے جب وہ ابھی محض چھ سال کی تھیں۔‘‘

یہ واقعہ اس قدر مشہور ہے کہ ہم اس واقعہ کی سند سے بھی بے نیاز ہیں اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ یہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا خاصہ تھا ( کہ آپ چھ سالہ لڑکی سے بھی نکاح کر سکتے تھے) تو ایسی دعویٰ کی طرف نگاہ تک اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ﴾

[ الاحزاب : 21 ]

ترجمہ:’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ( موجود) ہےہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے‘‘

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو بھی عمل کیا ہم پر بھی لاز م ہے کہ ہم اس کی پیروی کریں مگر سوائے اس صورت کے کہ جس کے بارے میں کوئی نص موجو د ہو کہ یہ کام رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے خاص ہے۔  [8]

علامہ ابن الھمام حنفی رحمہ اللہ  (وفات: 861ھ) لکھتے ہیں:

وتزویج ابی بکر لعائشة  رضی اللہ عنہا  و ھی بنت ست نص قریب من المتواتر

فتح القدیر: 3/265

ترجمہ:’’سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ سال کی عمر میں کروانا ایک نص ہے ، جومتواتر کے قریب ہے۔ ‘‘

ابن بطال مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اجمع العلماء علی انه یجوز للآباء تزویج الصغار من بناتھم ، وان کن فی المھد

شرح صحیح البخاری: 7/173-172

’’علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ والدین کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی چھوٹی کم سن لڑکیوں کا نکاح کروا سکتے ہیں اگرچہ وہ جھولے میں ہوں۔‘‘

علامہ ابن بطال آگے لکھتے ہیں:

مگر خاوندوں کے لیے اپنی بیویوں سے اس وقت تک ہم بستر ہونا جائز نہیں ہے جب تک وہ اس لائق ہو جائیں اور مردوں کا بوجھ برداشت کر سکیں اور اس حوالہ سے عورتوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں یعنی ان کی بناوٹ اور طاقت کے لحاظ سے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے نکاح کیا تو وہ اس وقت چھ سال کی تھیں اور جب صحبت اختیار کی تو وہ نو سال کی تھیں۔[9]

علامہ ابن مالکی (وفات: 827 ھ) زیر بحث حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

الحدیث اصل فی تزویج الاب ابنتہ وان لم تطق المسیس و لم یختلف فيه

اکمال العلم: 4/36

’’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ والد اپنی بیٹی کا اس عمر میں نکاح کرا سکتا ہے جب وہ ہمبستر ہونے کےبھی لائق نہ ہو اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمل دین ہے اور اس پر طعن کرنا خود اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات اقدس پر طعن ہے ۔

( نعوذ باللہ من ذالک)


دوسری حدیث :

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بیٹیوں میں سے بڑی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا سے ابو العاص بن ربیع نے نکاح کیا، جبکہ رقیہ رضی اللہ عنہا سے ابو لہب کے بیٹے عتبہ نے شادی کی اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے ابولہب کے بیٹے عتیبہ نے شادی کی ۔ یہ تمام شادیاں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت سے پہلے ہوئیں۔ نبوت ملنے کے بعد ابولہب نے اپنے دونوں بیٹوں کو کہا کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی دونوں بیٹیوں رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنھما کو طلاق دے دیں۔ واضح رہے کہ ابھی دونوں بیٹے اپنی بیویوں سے ہم بستر نہیں ہوئے تھےکہ طلاق ہوگئی۔ رقیہ رضی اللہ عنہا سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا اور اپنی بیوی کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئے۔ تاریخ اور سیرت کی کتب سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب خدیجہ  رضی اللہ عنہا  سے نکاح کیا اس وقت آپ کی عمر 25 سال تھی اور جب آپ پر پہلی وحی کا نزول ہوا تو آپ کی عمر 40 سال تھی۔ اس لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ نبوت کے وقت زینب، رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہن کی عمریں 14 سال سے کم تھیں۔

امام حاکم، ابن عبدالبر، محب طبری، حسین دیار البکری کے مطابق زینب  رضی اللہ عنہا  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو 30 سال کی عمر میں پیدا ہوئیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کے وقت زینب  رضی اللہ عنہا  کی عمر 10 سال کی تھی۔ جبکہ رقیہ رضی اللہ عنہا 7 سال کی ، ام کلثوم رضی اللہ عنہا 6سال کی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا 5 سال کی تھیں۔ بعثت سے پہلے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تین بیٹیوں کی شادی ہو چکی تھی اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں چھوٹی عمر میں ہی کرا دی تھیں۔


تیسری حدیث:

فاطمہ بنت قیس  رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ اسے اس کے خاوند ابو عمرو بن حفص نے طلاق بائن دی۔ وہ خود موجود نہ تھے بلکہ اپنے وکیل کو بھیجا اور کچھ جَو بھی بھیجے۔ فاطمہ بنت قیس اس بات پرغصہ ہوئیں جب وکیل نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ ہمارے ذمہ تمہارے لیے کچھ نہیں۔تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں آئیں اور پوری بات کا خلاصہ بیان کیا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہا کہ اس کے ذمہ تمہارے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو ایام عدت ،ام شریک کے گھر گذارنے کا حکم دیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر فرمایا: وہ ایسی خاتون ہے جہاں پر اصحاب موجود رہتے ہیں ، تم ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر عدت کے دن گذارو ، وہ نابین ہے اور تم وہاں اپنے کپڑے بھی اتار سکتی ہو( کیونکہ وہ نابین ہے) اور جب عدت کے دن ختم ہوں تو مجھے بتانا۔ فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کے عدت ختم ہونے پر میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بتایا اور کہا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابو جہم کی طرف سے نکاح کا پیغام آیا ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جہاں تک ابو جہم کا تعلق ہے تو وہ اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتا ( یعنی بیویوں کی مار پٹائی زیادہ کرتا ہے) اور معاویہ مفلس ہے۔ تم اسامہ بن زید سے شادی کرو ، میں نے اس بات کو ناپسند کیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر کہا کہ اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔ پھر میں نے ان سے نکاح کر لیا اور اللہ نے اس قدر خیر و برکت کی کہ دوسری عورتیں مجھ پر رشک کرنے لگیں۔[10]

علامہ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب فاطمہ بنت قیس کا نکاح اسامہ بن زید سے کرایا تو وہ اس وقت 15 سال کے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں انہیں اولاد بھی ہوئی ۔ جس طرح حافظ ابو الفضل عراقی نے شرح الاحکام میں یقین سے کہا ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  فوت ہوئے ، اس وقت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ 19 سال کے تھے۔[11]

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ(وفات: 463ھ) لکھتے ہیں: ضحاک بن قیس ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات سے 6 سال قبل پیدا ہوا ئے، وہ فاطمہ بنت قیس کے بھائی تھے اور بہن بھائی سے عمر میں دس سال بڑی تھیں۔ [12]

اس حساب سے اگر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے وقت ضحاک بن قیس کی عمر 6 سال تھی تو پھر فاطمہ بنت قیس کی عمر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے وقت 16 سال ہی ہوگی اور اسامہ بن زید کی عمر 19 سال۔ اس لیے جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فاطمہ بنت قیس کی شادی اسامہ بن زید سے کرائی تھی

 تو فاطمہ کی عمر 12 سال تھی۔ تو پھر آپ خود اندازہ لگائیں کہ اپنے پہلے خاوند سے شادی کے وقت فاطمہ کی کیا عمر ہوگی؟؟!! یقیناً وہ اس وقت 12 سال سے بھی چھوٹی تھیں۔

معلوم ہوا کہ 18 سال سے کم عمر میں نکاح صرف رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے خاص نہ تھا۔


صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف کا عمل

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف کا عمل اس امر کی تائید کرتا ہے کہ 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی ہو سکتی ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ (وفات:204ھ) فرماتے ہیں:

زوج غیر واحد من اصحاب النبی  صلی اللہ علیه وسلم  ابنته صغیرة

الأم: 9/118

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کئی صحابہ کرام نے اپنی چھوٹی بیٹیوں کی شادیاں کروائیں۔

عروہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ  اپنے والد زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ(زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ) قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کرنے گئے ۔ قدامہ بن مظعون بیمار تھے اور ان کے پاس ہی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کو بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری سنائی گئی۔ قدامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: زبیر! اس لڑکی کی مجھ سے شادی کرادو۔ سیدنازبیر  رضی اللہ عنہ  نے کہا : تم چھوٹی لڑکی کا کیا کروگے؟ جبکہ تم بیمار بھی ہو! قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں، اگر زندہ رہا تو زبیر کی بیٹی میری بیوی ہوگی اور اگر فوت ہو گیا تو مجھے یہ بات پسند ہے کہ وہ میری وارث بنے۔ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے، قدامہ بن مظعون  رضی اللہ عنہ   سے اپنی بیٹی کی شادی کرا دی۔[13]

علامہ ابن الھمام حنفی کہتے ہیں:

’’قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ نے، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے اس دن شادی کی جس دن وہ پیدا ہوئی تھی، حالانکہ صحابہ کرام اس بات کو جانتے تھے (پر کسی نے بھی اعتراض نہ کیا)۔ صحابہ کرام کا فہم اس بات کی نص ہے کہ سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کا چھوٹی عمر میں نکاح کوئی خصوصیت نہیں رکھتا۔‘‘ [14]

عکرمہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی چھوٹی بیٹی کا نکاح سیدنا عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  سے کرا دیا ، اس وقت وہ بچی دوسری بچیوں کے ساتھ کھیلتی تھی۔[15]طبقات ابن سعد: 8/463 میں ہے کہ ام کلثوم اس وقت نابالغ تھیں۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’السنن الکبریٰ‘‘میں سلف سے منقول بعض آثار نقل کیے ہیں جس میں یہ ذکر ہے کہ 9 یا 10 سال کی لڑکی حاملہ ہو گئی۔[16]

معلوم ہوا کہ ان کا نکاح پہلے ہی ہو چکا تھا۔

مشہور حنفی عالم “سرخسی” ابو مطیع البلخی (وفات: 197ھ) (راوی الفقہ الاکبر) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کی ایک بیٹی تھیں جو 19 سال میں دادی بن گئیں، یہاں تک کہ ان کویہ کہنا پڑا کہ : اس لڑکی نے ہمیں رسوا کر دیا ہے۔[17]

امام عبدالرزاق رحمہ اللہ (وفات: 211ھ) تین بڑے تابعین حسن بصری، زہری اور قتادہ رحمھم اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ والد کی طرف سے اپنی چھوٹی لڑکی کے کرائے گئے نکاح کو جائز سمجھتے تھے۔ [18]

الحمدللہ ! صحابہ کرام، تابعین اور سلف کے اقوال سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ نابالغ بچوں کے نکاح کو جائز سمجھتے تھے۔


18 سال سے کم عمر میں شادی ا ور علماء کی رائے

18 سال سے کم عمر میں لڑکے یا لڑکی کی شادی ہو سکتی ہے اور اس پر ’’اجماع صحابہ‘‘ ہے ، اس لیے کہ کسی بھی صحابی سے اس بارے میں اختلاف منقول نہیں ہے۔ اس اجماع کا مختلف علماء کرام نے ذکر کیا ہے ۔ حوالاجات پیش خدمت ہیں:

1۔ علامہ کاسانی حنفی (وفات: 587ھ) لکھتے ہیں:

الجواز فی البکر ثیب بفعل النبی  صلی اللہ علیه وسلم  و اجماع الصحابة

بدائع الصنائع: 3/376

چھوٹی کنواری لڑکی سے نکاح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے عمل اور اجماع صحابہ سے ثابت ہے۔

2۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ:

جب چھوٹی لڑکی بالغ ہو جائے تو کوئی اس سے شادی نہ کرے مگر اس کی رضامندی سے ، کیونکہ اب وہ اس عمر کو پہنچ چکی ہے جب وہ شرعی احکامات کی مکلف ہے پر اگر وہ ابھی چھوٹی ہے تو اس کی رضامندی کے بغیر اس سے شادی کی جا سکتی ہے کیونکہ اس کی اجازت اور رضامندی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ [19]

3۔ امام شافعی رحمہ اللہ:

والد کی طرف سے چھوٹے بچوں کے نکاح کرانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ بات چھوٹی بچیوں کے حق میں جائز ہے۔[20]

 4۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ:

امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ کیا والد اپنی چھوٹی لڑکی کا نکاح کراسکتا ہے ؟ امام صاحب نے فرمایا : اس معاملہ میں لوگوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔[21]

5۔ امام مروزی (وفات: 294ھ):

اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ والد کے لیے اپنے چھوٹے لڑکے اور چھوٹی لڑکی کا نکاح کرا نا جائز ہے ۔[22]امام مروزی مزید لکھتے ہیں: اس نکاح کو عمر، علی، ابن عمر، زبیر، قدامۃ بن مظعون اور عمار رضی اللہ عنہم نے جائز قرار دیا ہے۔ 

6۔ ابن المنذر (وفات: 318ھ):

اس بات پر اجماع ہے کہ اگر والد اپنی چھوٹی کنواری لڑکی کا نکاح”کُفؤ”سے کرے تو ایسا نکاح جائز ہے۔  [23]

7۔ المھلب مالکی (وفات: 435ھ):

علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ والد کے لیے  جائز ہے کہ وہ اپنی چھوٹی لڑکی کا نکاح کرے جو ابھی ہمبستری کے لائق بھی نہ ہو، دلیل قرآن کی آیت ہے۔ ” وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ   ۭ”[24]

8۔ ابن بطال مالکی (وفات: 449ھ):

علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ والد اپنی چھوٹی بچیوں کا نکاح کرا سکتا ہے اگرچہ وہ ابھی جھولے میں ہوں۔ [25]

9۔ ابو ولید باجی (وفات: 494ھ):

جہاں تک چھوٹی کم سن لڑکی کا تعلق ہے تو اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ والد اس کو نکاح کے لیے مجبور بھی کر سکتا ہے اور اس بچی کا نکاح کرانا بھی اس کے لیے جائز ہے۔ [26]

10۔ ابن عبدالبر (وفات: 463ھ):

علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ والد اپنی چھوٹی لڑکی کا نکاح اس سے مشورہ کیے بغیر کرا سکتا ہے جیسے سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نےسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کرادی۔ [27]

11۔ امام بغوی (وفات: 516ھ):

علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ والد اور دادا کے لیے جائز ہے کہ وہ چھوٹی لڑکی کی شادی کرا دیں ، جس طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شادی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی۔[28]

12۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ (وفات: 544ھ):

اس مسئلہ میں علماء کے درمیان کوئی بھی اختلاف نہیں ہے کہ والد اپنی چھوٹی لڑکی کا نکاح کرا سکتا ہے جو ابھی ہمبستری کے لائق بھی نہ ہو۔[29]

13۔ ابن ھبیرہ (وفات: 560ھ):

اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ والد اپنی چھوٹی لڑکی کے نکاح کا اختیار رکھتا ہے۔[30]

14۔ ابن رشد (وفات: 595ھ):

اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ والد اپنی نابالغ لڑکی پر نکاح کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے۔[31]

15۔ الموفق ابن قدامہ (وفات: 620ھ):

اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ والد اپنی چھوٹی کنواری لڑکی کے نکاح کا اختیار رکھتا ہے کیونکہ ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  سے کرایا تھا

 جب وہ 6 سال کی تھیں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اجازت بھی طلب نہیں کی۔[32]

16۔ امام قرطبی (وفات: 656ھ ):

یہ حدیث (یعنی عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی والی حدیث) اجماع کی دلیل ہے کہ والد اپنی چھوٹی کنواری لڑکی کو شادی کے لیے مجبور کر سکتا ہے۔ [33]

17۔ امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی  (وفات: 671ھ):

اگر لڑکی چھوٹی ہو تو اس کی رضامندی کے بغیر بھی شادی ہو سکتی ہے کیونکہ اس کی اجازت اور رضامندی کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے۔[34]

18۔ امام نووی (وفات: 676ھ) سیدہ عائشہ |رضی اللہ عنہا کےنکاح کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یہ حدیث اس معاملہ میں صریح ہے کہ والد اپنی چھوٹی لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر بھی کر سکتا ہے کیونکہ چھوٹی بچی کی اجازت کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ۔ہمارے نزدیک دادا کی حیثیت بھی والد کی طرح ہے۔

آگے امام نووی لکھتے ہیں:

مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ والد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی چھوٹی کنواری لڑکی کا نکاح کرائے، جیسا اس حدیث میں بیان ہوا ہے۔[35]

19۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (وفات: 29-728):

عورت کی شادی اس کی مرضی کے بغیر نہ کی جائے جیسا کہ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا حکم ہے اگر وہ رشتہ پسند نہیں کرتی تو مجبور نہیں کیا جائے گاہاں اگرچہ والد اپنی چھوٹی کنواری لڑکی کا نکاح کراتا ہے تو اس سے اجازت نہیں لی جائے گی۔[36]

20۔ امام طیبی  (وفات: 743ھ):

مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ والد کے لیے چھوٹی لڑکی کا نکاح کرانا جائز ہے۔ [37]


نابالغ لڑکی کا نکاح اور شیعہ علماء

مشہور شیعہ عالم سیستانی اپنی کتاب “توضیح المسائل” میں لکھتے ہیں:

’’باپ اور دادا اپنے بالغ لڑکے یا لڑکی (پوتے یا پوتی) یا دیوانے فرزند کا جو دیوانگی کی حالت میں بالغ ہوا ہو نکاح کر سکتے ہیں‘‘۔[38]

شیعہ کتب ، الاصول من الکافی، تہذیب الاحکام اور وسائل الشیعۃ میں تو لڑکی سے ہمبستری کی عمر 9 سال مقرر کی گئی ہے۔  یہ روایت ملاحظہ کریں:

عن ابی عبداللہ قال: قال:’’اذا تزوج الرجل الجاریة و ھی صغیرۃ فلا یدخل بھا حتیٰ یاتی لھا تسع سنین۔

الاصول من الکافی:5/398، وسائل الشیعة: 7/242

امام جعفر صادق فرماتے ہیں:

جب کوئی آدمی کسی چھوٹی لڑکی سے نکاح کرے تو اس کے ساتھ ہمبستر نہ ہو یہاں تک کہ وہ 9 سال کی ہو جائے۔

معلوم ہوا کہ نکاح 9 سال سے پہلے بھی کیا جا سکتا ہے اور ہمبستری 9 سال کے بعد۔ مزید ملاحظہ کریں: تھذیب الاحکام: 7/451، من لا یحضرہ الفقیہ: 3/261، الخصال: ص:391، بحار الانوار: 100/172، تحریر الوسیلۃ: 2/380

اہل تشیع کے آٹھویں امام علی رضا رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ایک چھوٹی لڑکی کا اس کے والد نے نکاح کرایا اور وہ فوت ہو گیا جبکہ لڑکی ابھی چھوٹی ہے اور بعد میں بڑی ہوئی اور اس کا خاوند اس کے ساتھ ہمبستر بھی نہیں ہوا ۔ کیا بڑا ہونے کے بعد اس کے والد کا کرایا گیا نکاح درست ہے یا معاملہ لڑکی کےحوالہ کیا جائے گا؟ جواب فرمایا کہ اس کے والد کا کرایا گیا نکاح جائز ہے۔ [39]

دور حاضر کے مشہور شیعہ عالم حسن الصفار (پیدائش: 1958) اپنی ویب سائٹ پر لکھتے ہیں:

لیس للزواج سن معین فی الشریعة الاسلامیة ، فیصح اجراء عقد الزواج حتی للرضیع او الرضیعة

دیکھیے:www.saffar.org

’’شریعت اسلامی میں شادی کے لیے کوئی عمر معین نہیں ہے یہاں تک کہ شیر خوار لڑکے یا لڑکی کی شادی بھی صحیح ہے۔‘‘


دورِ حاضر کے علماء کی رائے

دور حاضر کے علماء میں سے شیخ عبدالعزیز بن بازرحمہ اللہ، شیخ احمد محمد شاکررحمہ اللہ، شیخ صالح بن فوزان حفظہ اللہ، شیخ عبدالرحمٰن بن ناصر البراک حفظہ اللہ، شیخ عبدالمحسن بن حمد البدر حفظہ اللہ، الشیخ الدکتور عمر بن سلیمان الاشقر بھی 18 سال سے کم عمر لڑکے اور لڑکی کے نکاح کے قائل ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں: حکم تفتین منع تزویج الفتیات ص: 57

سعودی عرب کی مستقل کمیٹی برائے فتاویٰ نے اپنے ایک فتوی میں چھوٹی عمر کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے ۔ کمیٹی سے ایک سائل نے سوال کیا کہ میری عمر 12 سال ہے اور کیا میرے لیے نکاح کرنا جائز ہے؟  جواب تھا کہ تمہارے لیے 12 سال کی عمر میں نکاح کرنا جائز ہے اور ہمیں منع کرنے والی کوئی دلیل معلوم نہیں۔[40]


چھوٹی عمر (کم سنی)  میں نکاح سے روکنے کے نقصانات

جو لوگ سمجھتے ہیں کہ کم سنی میں نکاح کے نقصانات ہیں انہیں مندرجہ ذیل حقائق کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔

1۔ ایک آدمی دیکھ رہا ہے کہ اس کا بیٹا یا بیٹی اخلاقی اعتبار سے تباہی کی طرف گامزن ہیں اور وہ بالغ بھی

 ہوگئے ہیں ، یہاں تک کہ بلوغت کے آثار بھی ظاہر ہو چکے ہیں ، جس طرح مرد کا محتلم ہونا اور عورت کو حیض آنا ، غیر ضروری بالوں کا اگنا لیکن ان کی عمریں ابھی 18 سال نہیں ہیں اس لیے ان کی شادی نہیں کرائی جا سکتی کیونکہ یہ ملک کا قانون ہے۔ ایسی صورت میں وہ بچوں کو تباہی کی طرف جاتے دیکھتا رہتا ہے اور شادی نہیں کرا سکتا۔

2۔ ایک آدمی بیمار ہے اور زیادہ دن زندہ رہنے کی امید بھی نظر نہیں آتی۔ اس کی 15سال کی لڑکی ہے لیکن کوئی بھی وارث نہیں ہے جو بچی کی دیکھ بھال اور پرورش کر سکے اور اگر کوئی وارث ہے بھی صحیح تو اس سے کوئی خیر کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اب یہ والد کسی دیندار اور شریف آدمی سے اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے تاکہ سکون اور اطمینان سے دنیا سے رخصت ہو سکے لیکن ملک کے قانون کے پیش نظر وہ ایسا نہیں کر سکتا ۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ والد کے فوت ہونے کے بعد بچی لاوارث ہو جائے گی یا ظالموں کا شکار ہو کر در در کی ٹھوکریں کھاتی پھرے گی۔

3۔ ایک بیوہ عورت ہے اور اس کی ایک بیٹی ہے جو اس کی وارث بھی ہے، عورت کے لیے اپنا پیٹ پالنا اور عزت و ناموس کی حفاظت کرنا بڑا مسئلہ ہے اور دوسر ی طرف لڑکی بھی 16 سال کی ہے اور بالغ بھی، لیکن ملک کے قانون کے مطابق وہ 18 سال سے پہلے شادی نہیں کرا سکتی۔ ایسی صورت میں قوی امکان ہے کہ وہ عورت اور اس کی بیٹی کسی بدمعاش کے ستم کا نشانہ بن جائیں۔

4۔ یہ قدرتی اور فطری بات ہے کہ بلوغت کے بعد مرد و عورت کی جنسی خواہشات بڑھ جاتی ہیں ، ایسی صورت میں ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے 18 سال سے پہلے شادی کر دینا بہتر عمل ہے یا بےحیائی کو برداشت کرنا؟ خصوصی طور پر دور حاضر میں، جو میڈیا کا دور ہے ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے بے حیائی پھیلانے والے پروگرامز نے تو قوم کے اخلاق کا جنازہ نکال دیا ہے ، فحش پروگرامز اور برہنہ تصاویر سے جذبات کو ابھارا جا تا ہے ۔ کیا ایسی صورت میں یہ بہتر نہیں ہے کہ والد لڑکی کے بالغ ہوتے ہی اس کی شادی کا سوچے۔

مذکورہ بالا صورتیں محض فرضی نہیں ہیں بلکہ حقائق ہیں جن سے شاید ہم بے خبر ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جدید تہذیب 18 سال سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی کی تو مخالف ہے لیکن بلوغت سے بھی پہلے جنسی تعلیمات کی حمایتی!!!

نتیجہ کیا نکلے گا؟ یورپ اور امریکا کے حالات ہمارے سامنے ہیں، جہاں پر کنواری ماؤں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ان میں بھی ان لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے جو 18 سال سے کم عمر ہیں۔


حرفِ آخر

مذکورہ بالا مباحث سے ثابت ہوا کہ کم سنی کا نکاح قرآن، حدیث، عملِ صحابہ اور اجماع سے ثابت ہے۔  نکاح کا جواز ثابت ہے اور اس کا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ ہر صورت میں چھوٹی عمر میں نکاح کرانا ہے۔ صرف اجازت ہے اور تاکیدی حکم نہیں ہے۔ لیکن ایسے نکاح کو حرام اور ناجائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جو چیز قرآن ، حدیث اور عملِ صحابہ سے ثابت ہو وہ ناجائز کیوں کر ہو سکتی ہے؟

موجودہ حالات کے پیشِ نظر کوشش کی جائے کہ اولاد کے بالغ ہونے کے بعد ان کی رائے اور مشورے سے ان کا نکاح کر دیا جائے تاکہ بعد میں رونما ہونے والے فتنوں اور فساد سے بچا جا سکے۔

اگر کسی لڑکی کے والد نے بچپن میں ہی اس کا نکاح کر دیا تھا اوربالغ ہونے کے بعد وہ لڑکی اس رشتہ سے مطمئن نہیں ہے اور وہ اس رشتہ کو قائم رکھنا نہیں چاہتی تو ایسی حالت میں شریعت نے اس لڑکی کو حق دیا ہے کہ وہ اپنا نکاح فسخ کرا دے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک کنواری لڑکی آئی اور کہا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کرا دیا ہے لیکن وہ اس مرد کو ناپسند کرتی ہے ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس عورت کو اختیار دے دیا (کہ اگر وہ نکاح  فسخ کرانا چاہے تو کر سکتی ہے)[41]

معلوم ہوا کہ اگر والدین نے لڑکے یا لڑکی کا نکاح ان کے بچپن میں کرا دیا ہو جب وہ ناسمجھ تھے اور بالغ ہونے کے بعد شریعت نے انہیں اختیار دیا ہے کہ اگر راضی ہوں تو وہ بچپن والا نکاح کافی ہے نئے سرے سے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر ناخوش ہوں تو لڑکا، لڑکی کو طلاق دے گا اور اگر لڑکی راضی نہیں تو عدالت کے ذریعہ وہ نکاح منسوخ کرا سکتی ہے۔[42]

واضح رہے کہ شرعی نقطہ نگاہ سے بچپن کا نکاح درست ہے لیکن رخصتی کا موزون وقت بلوغت ہی ہے ۔ مانتے ہیں کہ اسلام نے بچپن کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے لیکن اس کی ہمت افزائی نہیں کی ہے

لیکن اس کا ہرگز بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ بچپن کے نکاح کو حرام اور ناجائز قرار دے دیا جائے۔ جو لوگ شریعت کے جائز امور کو ناجائز کہتے ہیں وہ شریعت سازی کے مرتکب ہیں ، اللہ اور اس کے پیارے پیغمبر کی سنت کے مخالف ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾

[ النور : 63 ]

’’جو لوگ حکم رسول کی نافرمانی کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردناک عذاب (نہ) پہنچے۔‘‘

﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴾

[ البقرۃ : 85 ]

’’کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تم میں سے جو بھی ایسا کرے اس کی سزا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے دن سخت عذابوں کی مار اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں‘‘

﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا﴾

[ الاحزاب : 36 ]

’’کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا (یاد رکھو) اللہ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہی میں پڑے گا‘‘

﴿ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَىٰ شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ﴾

[ الجاثيه : 18 ]

’’پھر ہم نے آپ کو دین کی راہ پر قائم کر دیا سو آپ اسی پر لگے رہیں اور نادانوں کی خواہشوں کی پیروی میں نہ پڑیں‘‘

﴿وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ﴾

[ البقرۃ : 120 ]

’’آپ سے یہود و نصاریٰ ہر گز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہبن جائیں آپ کہہ دیجیے اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار‘‘

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ (149) بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ﴾

[ آل عمران : 149 – 150 ]

’’اے ایمان والو! اگر تم کافروں کی باتیں مانو گے تو وہ تمہیں تمہاری ایڑیوں کے بل پلٹا دیں گے پھر تم نامراد ہو جاؤ گے۔ بلکہ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہترین مددگار ہے‘‘


دوسری شادی کےلیے پہلی بیوی سے اجازت طلب کرنے کا معاملہ

روزنامہ کاوش کے یکم اپریل کے ایڈیشن میں سندھ اسمبلی کے حوالہ سے ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ اسمبلی نے اسلامی نظریاتی کاؤنسل کی سفارشات کو رد کر دیا ہے اور کاؤنسل کو بند کرنے کا بل پاس کیا ہے ، اسلامی نظریاتی کاؤنسل نے یہ سفارش پیش کی تھی کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

شرعی نقطہ نگاہ سے اگر مرد انصاف کر سکے تو ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے۔ اور انصاف نہ کر سکنے کی صورت میں اس کے لیے ایک ہی بیوی کافی ہے۔ (النساء: 3)

اگر وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو قرآن و حدیث نے اسے کہیں بھی اس بات کا پابند نہیں بنایا کہ وہ پہلی بیوی سے دوسری شادی کی اجازت طلب کرے۔ اس امر کا لازم قرار دینا قرآن و حدیث سے انحراف ہے۔ ہاں البتہ اگر خوشگوار زندگی بِتانے کے لیے، فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے ، خاوند دوسری شادی کے لیے اپنی پہلی بیوی کو اعتماد میں لے اور اس سے اس سلسلہ میں مشورہ کرے ،تو ایسا کرناحالات کے پیشِ نظر بہتر ہے۔[43] شریعت کے ہر قانون میں حکمت ہے کیونکہ شریعت ساز کائنات کا خالق و مالک ہے۔ اگر پہلی بیوی کی اجازت کو لازم قرار دیا جائے تو اس کے نتائج بڑے ناخوشگوار اور ناپسندیدہ نکلیں گے ۔ پہلی بیوی کسی بھی صورت میں اس بات کو پسند نہیں کرے گی کہ کوئی دوسری عورت اس کی سلطنت میں شریک ہو۔ اور نتیجتاً خاوند جس پر دوسری شادی کا بھوت سوار ہے یا تو پہلی بیوی کو طلاق دے گا یا اسے مارنے کی کوشش کرے گا اور دونوں صورتوں میں پہلی بیوی کی زندگی تباہ و برباد ہو جائے گی۔ اس کے مقابلے میں اگر عورت دل پر پتھر رکھ کر اپنے خاوند کو دوسری شادی کی اجازت دے دے تو اس طرح وہ اپنے خاوند کی نظروں میں اور بھی معتبر ہو جائے گی اور ممکن ہے کہ مستقبل میں وہ خاوند نزدیک اس کی دوسری بیوی کے مقابلہ میں زیادہ محبوب بن جائے۔

بہرحال ایسی بات کو لازم قرار دینا جسے شریعت نے لازم نہیں کیا ، شریعت سازی ہے ۔ ہمارے حکمران اور منتخب نمائندے اس بات کو یاد رکھیں کہ یہ زندگی عارضی ہے اور ایسا نہ ہو کہ قرآن و حدیث کے خلاف قانون سازی کرنے کی پاداش میں انہیں روزِقیامت مجرم بنا کر کھڑا کیا جائے ۔ یہود و نصاریٰ کو راضی کرنے کے بجائے اپنے خالق و مالک کو راضی کیا جائے جو ہر بات پر قادر ہے۔ ہم پہلے سے ہی فتنہ و فساد کا شکار ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری پریشانیاں اور مصیبتیں مزید بڑھ جائیں۔

وما علینا الا البلاغ

     


[1] روزانہ کاوش اور دیگر اخباریں۔ 29اپریل 2014

[2] فتح القدیر: 5/324، تفسیر ابن ابی حاتم: 7/691، تفسیر ابن کثیر: 6/242 و اسنادہ منقطع

[3] الحاوی الکبیر: 11/193

[4] بخاری:كتاب النكاح ،باب تزويج اليتيمة

[5] اکمال العلم: 4/564

[6] عارضۃ الاحوذی: 5/25

[7] بخاری:كتاب النكاح،باب من بنى بامرأة و هي  بنت تسع سنين

[8] المحلیٰ: 9/40

[9] شرح صحیح البخاری: 7/173-172

[10] مسلم:كتاب الطلاق، باب  المطلقة  ثلاثا لا نفقة لها

[11] اسعاف المبطا برجال المؤطا للسیوطی: ص: 14

[12] المتفق و المتفرق: 2/1227

[13] کتاب الحجة علی اھل المدینة : 3/504-502، سنن سعید بن منصور: 1/174، مصنف ابن ابی شیبة: 4/17

[14] فتح القدیر: 3/265

[15] کتاب الحجة علی اھل المدینة : 3/504-502، سنن سعید بن منصور: 1/174، مصنف ابن ابی شیبة: 4/17

[16] السنن الکبری: 8/16-15

[17] المبسوط: 3/149

[18] مصنف عبدالرزاق: 6/164

[19] احکام القرآن: 3/506

[20]  اختلاف الحدیث : ص: 517

[21] مسائل الامام احمد بن حنبل رواية ابنه صالح: 3/129

[22] اختلاف العلماء: ص: 125

[23] الاجماع: ص: 103

[24] شرح ابن بطال:7/247

[25] شرح صحیح البخاری: 7/173-172

[26]  المنطقیٰ شرح مؤطا مالک : 5/21

[27] کتاب الحجة علی اھل المدینة : 3/504-502، سنن سعید بن منصور: 1/174، مصنف ابن ابی شیبة: 4/17

[28] شرح السنة: 9/37

[29] اکمال العلم: 4/572

[30] الافصاح عن معانی الصحاح فی الفقه علی المذاهب الاربعة: 2/90

[31] بداية المجتهد: 2/14

[32] کتاب الحجة علی اھل المدینة : 3/504-502، سنن سعید بن منصور: 1/174، مصنف ابن ابی شیبة: 4/17

[33] المفهم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم : 4/120

[34] الجامع لأحکام القرآن: 13/180

[35] شرح مسلم:9/206

[36] مجموع الفتاویٰ: 32/40-39

[37] شرح الطیبی: 7/2280

[38] ص: 356

[39] عیون الاخبار: 1/21، بحار الانوار: 100/173

[40] فتاویٰ اللجنة الدائمة: 18/25

[41] ابوداؤد: 2096، ابن ماجه: 1875

[42] مجموعه مقالات و فتاویٰ علامة شمس الحق عظیم آبادی: ص: 205-198

[43] ملاحظہ کریں: فتاویٰ اسلاميه: 3/230، فتاویٰ اصحاب الحدیث: 3/328

مصنف/ مقرر کے بارے میں

IslamFort