زیرِ نظر تحریر دراصل عرب کے عالم دین ’’فضل اللہ ممتاز ‘‘ کے تحقیقی مقالہ ’’الأحکام الفقھيۃ المتعلقۃ بحوادث السير‘‘کا ترجمہ وتلخیص ہے ۔ جس میں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق حکومتی قوانین کی پاسداری اور اس حوالے سے جاری کردہ قوانین کاشرعی رو سے تفصیلی جائزہ لیاگیا ہے ۔ ہمارے فاضل دوست حافظ احمد نے اس کے اہم مباحث کو بغرض افادہ قارئین اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ اور جس مقام پر وضاحت واضافے کی ضرورت محسوس کی گئی وہ بھی کیا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس تحریر سے کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔ ادارہ
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین نبینا محمد وعلی آلہ وصحبه أجمعین۔۔۔۔۔۔۔ أما بعد!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بنی نوع انسان پر بے شمار نعمتیں نازل فرمائی ہیں ان نعمتوں میں سے ایک نعمت سواری ہے۔ پرانے وقتوں میں انسان سواری کے لئے جانوروں کا استعمال کرتے تھے لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں انسان نے دیگر شعبوں میں ترقی کی وہاں اس نے سفری صعوبتوں کو کم کرنے کے لئے گاڑی کی ایجاد کی۔
گاڑی کی ایجاد کے بعد انسان کو ایک ایسے نظام کی ضرورت پیش آئی جو ٹریفک کو رواں رکھنے میں مدد فراہم کرے اور نقصان کی صورت میں ضامن کا تعین کرے ۔چنانچہ انسان نے نظام ٹریفک متعارف کروایا۔ ذیل میں ہم ٹریفک کے نظام کی اہمیت و افادیت پر بحث کریں گے نیزہم اس نظام کو شریعت کے اصولوں پر بھی پرکھیں گے کہ کیا مسلمان شرعا اس نظام کا پابندہے یا نہیں !؟اور اگر ہے تو کس حد تک؟
نظامِ ٹریفک وقت کی اہم ضرورت:
دور حاضر میں نقل و حمل کے لئے گاڑی کا استعمال ناگزیر ہے۔ لیکن افسوس کچھ لوگ اس کا غلط استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرےمیں بسنے والے دیگر افراد کی زندگی میں حرج واقع ہوتاہے ۔ اس لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ ایک ایسا نظام بنایا جائے جو ٹریفک کو منظم کرے اور اس حوالے سے ہونے والی کسی بھی قانونی مخالفت پر گرفت کی جاسکے۔ چونکہ گاڑی ایک مشین ہےجو مکمل طور پر چلانے والے کےتابع ہوتی ہے۔اس لئے تمام تر ذمہ داری ڈرائیور پرعائد ہوتی ہے کہ وہ اس مشین کا صحیح استعمال کرے۔ کیونکہ اس کے غلط استعمال میں انسانی جان کے ضیاع کا خدشہ بھی ہے اس لئے بھی ایک ایسے نظام کی ضرورت تھی جو انسانی جان کے ضیاع کے اس خدشہ کو کم سے کم کردے۔یہ چونکہ نظام حکومت کی طرف سے عوام پر نافذ کیا جاتا ہے اس لئے اس نظام کوبناتے وقت مصلحت عامہ کو مدنظر رکھا جاتاہے۔ اور حاکم ِوقت کے واجبات میں سے ایک واجب یہ بھی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی جان ومال کی حفاظت کا خیال رکھے۔
حکومت کے نافذ کردہ نظام میں حاکم کی اطاعت:
حاکم کی اطاعت ہر مسلمان پر واجب ہے۔ حاکم اپنی حکومت چلانے کے لئے کچھ قوانین کا اجراء کرتا ہے ان میں سے ایک نظامِ ٹریفک بھی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
النساء – 95
’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ﷺکی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔
ابن العربی رحمہ اللہ اطاعت کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ’’ اطاعت کا معنی ہے کہ جو حکم دیا جائے اس پر عمل کیا جائے اور مذکورہ آیت کی تفسیر میں اولی الامر سے مراد علماء اور حکام ہیں‘‘۔ [2]
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نظامِ ٹریفک پر عملدرآمد کرنا حاکم کی اطاعت میں سے ہے۔[3]
حاکم نے یہ نظام کسی ایک فرد کی مصلحت کے لئے نہیں بلکہ مفاد عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا ہے۔ اور اس نظام پر عمل کرنے سے جان و مال دونوں محفوظ رہتے ہیں جبکہ ا س کی مخالفت سے نا صرف لوگوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے بلکہ بسا اوقات انسان خود اپنی جان کی ہلاکت کا باعث بھی بنتا ہے جو کہ حرام ہے۔
اس سلسلے میں مجمع الفقہ الاسلامی نے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا ہے کہ’’ ایسےقوانین جو کہ شرعی احکامات سے متصادم نہ ہوں ان پر عمل کرنا واجب ہے۔ اس کی دلیل مصالح مرسلہ ہیں۔ چونکہ یہ قوانین حاکم کی طرف سے نافذ کیے جاتے ہیںاس لئے ان قوانین کے نفاذمیں مصالح عامہ کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔جبکہ ان کی مخالفت کی صورت میں جرمانہ عائد کیا جاتا ہے کیونکہ مخالفت کی وجہ سے دوسرے لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اور یہ حاکم کے واجبات میں سے ہے کہ وہ اپنی رعایا کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے‘‘۔ [4]
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہونے والے حادثات:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نظام ِٹریفک کی خلاف ورزی سے بے شمار دردناک حادثات ہوتے ہیں جن میں لوگوں کی جان اور مال ضائع ہو جاتا ہے۔ ذیل میں ہم ان خلاف ورزیوں کو مختصرا پیش کرتے ہیں۔
حد رفتار سے تجاوز:
کوئی ڈرائیور خود اپنے لئے حد رفتار مقرر کرے یہ ممکن نہیں کیونکہ یہ چیزراستے کی وسعت اور تنگی پر انحصار کرتی ہے بلکہ ہر گاڑی کی حد رفتار مختلف ہوتی ہے۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو حد رفتار حکومت کی طرف سے مقرر کی جائے اس سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اور اسی میں عوام کا فائدہ ہے جبکہ حدرفتار سے تجاوز کی صورت میں انسان اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی خطرے کا باعث بنتا ہے۔ اور پھر ہمارے سامنے نبی ﷺکایہ فرمان بھی ہے کہ :’’ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے‘‘۔[5]
ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ حاکم کی اطاعت کرنا واجب ہے تو رفتار کے معاملہ میں بھی یہی قاعدہ ملحوظِ خاطر رہے گا۔ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’جلد بازی شیطان سے ہے کیونکہ یہ انسان میں طیش پیدا کرتی ہے اور اسکو وقار پر قائم رہنے سے روکتی ہے اور انسان کو ظلم پر اکساتی ہے اور برائی کو جنم دیتی ہے اور خیر سے روکتی ہے۔اور عجلت دو مذموم چیزوں سے پیدا ہوتی ہے، غفلت اور وقت سے پہلے حصول کی خواہش کرنا۔[6]
سرخ اشارےکی پابندی نہ کرنا:
ہر گاڑی چلانےوالا ٹریفک کے اشاروں سے واقف ہوتاہے وہ جانتا ہے کہ سرخ اشارے سے کیا مراد ہے؟ اور سبز سے کیا مراد ہے؟۔ ان اشاروں پر عمل نہ کرنا خطرے سے خالی نہیں اور ا س میں حادثہ ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لئے سرخ اشارے کو کسی بھی حالت میں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے ٹریفک اشاروں کی بابت سوال ہوا تو شیخ رحمہ اللہ نے فرمایا:
ٹریفک سگنلز پر عمل نہ کرنا کسی طرح بھی روا نہیں۔ کیونکہ یہ اشارے حاکم کے قول کی منزلت پر ہیں جیسا کہ حاکم کہے کہ رکو یا کہے کہ چلو اور بحیثیت مسلمان ہم پر حاکم کا ہر( جائز) حکم ماننا فرض ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے کہ : اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالی کی اور فرمانبرداری کرو رسول ﷺکی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔(النساء 59)[7]
اسکے علاوہ کچھ اور اسباب بھی ہیں جن کی طرف محض اشارہ کردینا ہی کافی ہوگا مثلا نیند کا آجانا، گاڑی کو وقتاً فوقتاً چیک نہ کرنا وغیرہ مگر ان کی وجہ سے حادثات کا تناسب بہت کم ہے لیکن اس کے باوجود ان امور پر تنبیہ ہونی چاہیے۔
ٹریفک چالان:
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ حاکم کی اطاعت کرنا فرض ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ حاکم کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی رعایا پر ظلم نہ کرے اور ان کے جان و مال کا تحفظ کرے ۔اسی لیے جب کوئی شخص ٹریفک قوانین کا احترام نہیں کرتا تو اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے کیونکہ اس ایک شخص کی خلاف ورزی کرنے سے دوسرے لوگوں کی جان اور مال خطرے میں پڑ جاتے ہیں اس لئے حاکم کی طرف سے جرمانہ عائد کرنا جائز ہے کیونکہ خلاف ورزی کرنے والا شخص معاشرے میں انتشار کا سبب بنتا ہے تو ایسا شخص سزا کا مستحق ہے اسی لئے سزا کے طور پر اس کو جرمانہ کیا جاتا ہے جو کہ حقیقت میں اس کے لئے رحمت ہے تاکہ وہ شخص آئندہ ایسا کرنے سے باز رہے۔ لیکن سزا میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھنا چاہیے۔
سزا دینے والے کے سامنے مصلحت عامہ ہونی چاہیے نا کہ ظلم اور مال حاصل کرنا۔
سزا جرم کی نوعیت کے مطابق ہونی چاہیے ۔
ٹریفک کانسٹیبل کو چاہیے کہ وہ تمام لوگوں میں برابری کرے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ
النحل – 90
’’ اللہ تعالی عدل اور بھلائی کا حکم دیتا ہے ‘‘۔
سزا کی اقسام :
سزا کی تقسیم دو طرح کی ہوتی ہے: 1جسمانی سزا 2 اور مالی سزا۔
جسمانی سزا:
جسمانی سزا جیسا کہ قید کی سزا، معینہ مدت کے لیے لائسنس ضبط کرنا، یا پھر معینہ مدت کے لیے گاڑی ضبط کرنا وغیرہ لیکن اس میں بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ جس طرح کی مخالفت ہو سزا بھی اتنی ہی ہونی چاہیے۔
مالی سزا:
مالی سزا پر علماء کا اختلاف ہے اکثر اہل علم کے نزدیک مالی سزا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ وسیلہ ہے لوگوں کے مال پر ناحق قبضہ کرنے کا جبکہ بعض علماء کے نزدیک مالی سزا دینا جائز ہے لیکن اس کے لئے کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔ اس مسئلے پر فقھاء کی دونوں رائے کو ہم تفصیلا ذکرکئے دیتے ہیں۔
پہلی رائے :
جمہور فقہاء کا مذہب ہے کہ مالی جرمانہ ناجائز ہے۔ جیسا کہ امام حصکفی حنفی فرماتے ہیں کہ’’ سزا قید، سخت ڈانٹ ڈپٹ، اور زبانی سرزنش کی ہونی چاہیے ناکہ مالی جرمانہ کی صورت میں۔ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ اس پر تعلیقاً فرماتے ہیں کہ: مالی سزا مذہب میں نہیں۔ الفتح میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ حاکم کے لیے مالی سزا دینا جائز ہے۔ ظاھرا یہ روایت ضعیف لگتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک مالی سزا میں ایک معین مدت کے لیے مال لینا ہے نا کہ وہ مال حاکم اپنے لیے یا بیت المال کے لیے لے کیونکہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بغیر سبب شرعی کسی دوسرے مسلمان کے مال پر قبضہ کرے‘‘۔ [8]
احمد الصاوی المالکی فرماتے ہیں کہ: مالی سزا اجماعاً جائز نہیں ہے۔[9]
امام العمرانی الشافعی مالی سزا کے قائل ہیں کہتے ہیں ’’ جرائم کے مرتکب فساق لوگ ہیں، ہاں اگر ان کے پاس مال نہیں ہے تو حاکم کو چاہیے کہ ان کو قید کردے اور اگر ان کے پاس مال ہے تو اس میں سے کتنا لینا چاہیے اس بارہ میں شافعی مذہب میں دو رائے ہیں۔
قدیم مذہب میں:
ان سے زکاۃ اور ان کے مال کا نصف سزا کے طور پرلیا جائے گا۔ دلیل کے طور پر وہ بھز بن حکیم کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی ﷺنے فرمایا:’’ جس نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو ہم لازما اس سے لیں گے اور اسکا نصف مال بھی‘‘۔ [10]
جدید مذہب میں:
ان سے صرف زکاۃ لی جائے گی اور اسکے علاوہ کچھ نہیں لیا جائے گا۔[11]
ابن قدامہ الحنبلی فرماتے ہیں کہ سزا قید، ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ ہونی چاہیے کیونکہ شریعت میں کوئی مالی سزا نہیں۔ [12]
1 نبی ﷺکا فرمان: مال میں سوائے زکوٰۃ کے کوئی اور حق نہیں۔[13]
2مالی سزا ابتدائے اسلام میں جائز تھی پھر اللہ تعالی نے اس کو منسوخ فرما دیا۔
3 مذاہب اربعہ میں سے بعض فقہاء کا مذہب۔ [14]
دوسری رائے: مالی سزا کا دینا جائز ہے
اس مسئلہ میں صحیح رائے یہ ہے کہ مالی سزا کا دینا جائز ہے لیکن ان قواعد وضوابط کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو سابقہ سطور میں بیان کئے گئے ہیں ۔ واللہ اعلم
دلائل ذیل میں ملاحظہ کریں :
نمبر1: مالی عقوبت کی مثالیں سلف سے کثرت سے ملتی ہے۔ جیسا کہ ابن القیم رحمہ اللہ الطرق الحکميۃ میں ذکر کرتے ہیں[15]
اور ابن الاخوۃ معالم القريۃ میں بھی مالی سزا کی مثالیں پیش کرتے ہیں ۔[16]
اسکے علاوہ ابن فرحون المالکی بھی تبصرۃ الحکام میں مالی سزا کی مثال پیش کرتے ہیں۔[17]
نمبر2: جمہور نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ دو وجہ سے ضعیف ہے۔
أ : سند کے اعتبار ا س روایت میں ’’میمون الاعور‘‘ نامی راوی ضعیف ہے، جیسا کہ ابن الحجر نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔[18]
ب : امام عراقی نے ان کی اس روایت کو متن حدیث میں اضطراب کی مثال کے طور پر ذکر کیاہے۔لیکن سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے۔ [19]
نمبر3: جمہور اہل علم نے مالی سزا پر جن تحفظات کا اظہار کیاہے اگر سابق الذکر قواعد وضوابط لاگو کردئے جائیں تو یہ خطرات بھی زائل ہوجائیں گے۔اس لئے امام غزالی فرماتے ہیں کہ’’ حاکم اگرمصلحت دیکھے تو ایسا کرسکتاہے۔ [20]
اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
الاسراء – 70
’’ اور بلاشبہ ہم نے عزت بخشی بنی آدم کو اور ان کو طرح طرح کی سواریوںسے نوازا خشکی میں بھی اور تری میں بھی اور ہم نے ان کو روزی کا سامان مہیاکیا طرح طرح کی پاکیزہ چیزوں سے اور ان کو اپنی بہت سی مخلوق پر طرح طرح کی فضیلت بخشی‘‘۔
مذکورہ بالا آیت کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے بنی آدم کی تکریم کیلئے شریعت میںاحکامات نازل فرمائے جو کہ ا س کی زندگی اور مال کی حفاظت کرتے ہیں کیونکہ یہ وسیلہ ہیں عزت کی زندگی گذارنےکا۔ اور اس کی جان اور مال پر کسی بھی طرح کے ظلم کو جرم قرار دیا اور اسکی سزا مقرر فرمائی آخرت میںجبکہ دنیا میںاس پرہرجانہ اور سزا متعین فرمائی۔ دین اسلام میںکوئی مال اور جان نظرانداز نہیں (یعنی بغیر دیت اور عوض کے کسی کی جان ومال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا)۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا
النساء – 93
’’ اور جو کوئی کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔‘‘
اور فرمایا :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوْا
النساء – 93
’’کسی مومن کو دوسرے مومن کو قتل کرنا زیبا نہیںمگر غلطی سے ہو جائے (تو اور بات ہے ) جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے اس پر ایک مسلمان کی گردن آزاد کرانا لازم اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے ہاں یہ اوربات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کردیں۔ ‘‘
اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا :
ان دماؤکم و اموالکم حرام علیکم کحرمة یومکم ھذا
’’تمہارے خون اور مال تم پر ایسے حرام ہیں جیسا کہ یہ دن ( یعنی حج کا دن)۔ ‘‘[21]
جان اور مال کی حفاظت ان پانچ بنیادی ضروریات میں سے ہے جن کی اسلام نے ہر حال میں حفاظت کی ہے ۔ اورانہیں ہرطرح کے خطرے سے محفوظ کیا ہے۔[22]
اور انسانی نفس کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کے لئے دیت مقرر فرمائی ہے۔ جبکہ مالی نقصانات کے ازالے کے لئے ہرجانہ مقرر فرما کر نفس اور مال کی حفاظت فرمائی۔ پس دوسروںکو جانی اور مالی نقصان پہنچانا حرام ہے اور اس کی حرمت قرآن اور سنت سے ثابت ہے۔
ضمانت اور ضامن کے لئے مقرر کردہ شرعی قواعد:
۱: نقصان کو روکنے اور اسکے ازالے کے لئے قواعد عامہ
۲: نقصان اور ضامن کے تعین لئے خصوصی قواعد
نقصان کو روکنے اور اسکے ازالے کے لیے قواعد عامہ:
قاعدہ نمبر1:لاضرر ولاضرار:( نہ کسی کو ابتداءً نقصان پہنچایا جائے اور نہ بدلے میں )
یہ قاعدہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نقصان کے مقابلہ میں نقصان کرنا جائز نہیں سوائےحدودو قصاص کے۔ اور جس کا نقصان ہوا ہے وہ اگر چاہے تو معاف کردے یا نقصان کا ہرجانہ وصول کرلے۔ پس جس کی گاڑی کو ٹکر لگی ہےاس کے مالک کو چاہیے کہ وہ یا توٹکر مارنے والی گاڑی کے مالک سے نقصان کا ہرجانہ لے ، یا اسے معاف کردے۔ جس گاڑی کو ٹکر لگی ہے اس کےمالک کے لیے یہ جائز نہیں کہ اپنی گاڑی سے دوسرے فریق کی گاڑی کو ٹکر مار کر بدلہ لے کیونکہ شریعت میں جان بوجھ کر نقصان نہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ [23]
قاعدہ نمبر 2: الضرر یزال( نقصان کا ازالہ کیا جائے گا )
حقوقِ خاصہ کےباب میں اس قاعدہ کی تطبیق ایسے کی جا سکتی ہے کہ جس گاڑی والے نے اپنی گاڑی دوسرے کی گاڑی سےٹکرائی ہے وہ اس دوسرے متاثرہ شخص کے نقصان کا ازالہ کرے گا۔
قاعدہ نمبر 3: المرور فی الطریق مباح بشرط السلامۃ فیما یمکن الاحتراز عنہ۔
یہ قاعدہ فقہاء کے نزدیک متفق ہے۔ اور اس قاعدے کے تحت سڑک سے استفادہ حاصل کرنا ہر انسان کا حق ہے چاہے وہ پیدل ہو یا سواری پر ہولیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ دوسروں کے لیے ضرر کا باعث نہ ہو۔ لیکن اگر وہ اس شرط کی مخالفت کرتا ہے تو وہ گنہگار ہوگا اور اسکے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار بھی وہی شخص ہوگا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إياکم والجلوس بالطرقات فقالوا يا رسول اللّٰہ ما لنا من مجالسنا بد نتحدث فيها قال فإذا أبيتم إلا المجلس فأعطوا الطريق حقه . قالوا وما حق الطريق يا رسول اللّٰہ قال غض البصر وکف الأذی ورد السلام والأمر بالمعروف والنهي عن المنکر
راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کرو۔ یہ سن کر بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے لئے راستوں میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں ہے جہاں ہم باتیں کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جب تمہارے پاس مجبوری کی بناء پر بیٹھنے کے علاوہ کوئی دوسری صورت نہیں تو پھر اس کا حق ادا کرو۔ یعنی اگر ایسی صورت ہو کہ راستے میں بیٹھنے سے اجتناب کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہو اور تمہیں ایسی جگہ بیٹھنا پڑے جو راستہ پر واقع ہو تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ راستے کا کیا حق ہے؟آپ ﷺنے فرمایا: نگاہیں نیچی رکھنا ۔(یعنی غیر محرم عورتوںو حرام چیزوں پر نظر نہ ڈالنا )، ایذا رسانی سے باز رہنا ۔(یعنی راستہ تنگ کرنے یا کسی اور طرح سے گزرنے والوں کو ایذاء نہ پہنچانا)، سلام کا جواب دینا اور لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔[24]
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عام سڑک سےفائدہ اٹھاسکتاہے لیکن دوسروں کے لیے ضرراور نقصان کا باعث نہ بنے۔
نقصان اور ضامن کے تعین لئے متعین کردہ چند فقہی قواعد:
قاعدہ نمبر1: المباشر ضامن وان لم یکن متعدیا
یہ قاعدہ فقھاء کے نزدیک متفق علیہ قاعدہ ہے۔مجلۃ الأحکام العدليۃ میں یہ قاعدہ “المباشر ضامن وان لم یتعمد” یعنی نقصان کرنے والا ضامن ہے اگرچہ اس نے وہ نقصان جان بوجھ کر نہ بھی کیاہو ۔ کے الفاظ کے ساتھ مذکور ہے۔ اور یہاںتعمد سے مراد زیادتی لی جائے گی کیونکہ مالی نقصان ہر حالت میں ادا کرنا ہوتا ہے چاہے وہ قصداًہو یا بلا قصد۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قصداً نقصان کی صورت میںکرنے والا گناہ کا مستحق بھی ہوگا۔ اسی لیے چھوٹے بچے اور پاگل ،دیوانے کے ہاتھوں ہونے والے نقصان پر ان پر گناہ نہیں لیکن پھر بھی ان کےسرپرست سے نقصان کا معاوضہ لیا جاتا ہے کیونکہ اسلام کسی بھی نقصان کو نظر انداز نہیں کرتا۔[25]
اسی طرح گاڑی سے ٹکر مارنے والا ہر قسم کے نقصان کا ضامن ہوگا چاہے وہ نقصان قصداً ًہو یا بلا قصد بس فرق صرف اتنا ہے کہ قصد کی صورت میں وہ گناہ گار ہو گا۔ اور بلا قصد والے پر صرف نقصان کا ازالہ ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إن اللہ تجاوز لأمتي الخطأ والنسيان، وما استکرھوا عليه
’’ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے بھول چوک اور زبردستی (کروائے گئے کام) معاف کر دئیےہیں ‘‘۔[26]
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’ اس حدیث میں ناسی( بھول جانے والے) اور مخطی(غلطی کرنے والے) پر گناہ اس لیے نہیں کہ ان کی نیت نقصان پہنچانے کی نہیں تھی‘[27]
ابن غانم البغدادی فرماتے ہیں کہ’’ نقصان کرنے والا ضامن ہوگا چاہے وہ بلا قصد ہی نقصان کا مرتکب کیوں نہ ہوا ہو‘‘۔[28]
نقصان کرنے والے کا ضامن ہونے میں عمد کی شرط ہونا لازم نہیں چاہے اس کا عمل اصلاً ممنوع ہویا وہ حکومت کی طرف سے ممنوع قرار دیا گیا ہو جیسا کہ تیز رفتاری یا سرخ اشارے پر گاڑی نہ روکنا وغیرہ۔
اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ مباشر(یعنی نقصان کرنے والا) ہر حال میں ضامن ہوگا تو یہاں یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ مباشر کا صحیح مفہوم کیا ہے ۔ فقھاء نے مباشر کی تعریف یوں کی ہے کہ: ’’مباشر وہ شخص ہے جو نقصان میں براہ راست ملوث ہو ‘‘۔[29]
اور مباشر میں مکلف ہونے کی شرط نہیں ہے مثلا اگر کوئی نابالغ بچہ گاڑی چلا رہا ہو اور اس سے حادثہ ہو جائے تو ایسی صورت میں تمام تر ذمہ داری اس بچہ پر عائد کی جائے گی۔ جیسا کی زھری اور قتادہ رحمہمااللہ نے فرمایاکہ:
اور مباشر میں مکلف ہونے کی شرط نہیں ہے مثلا اگر کوئی نابالغ بچہ گاڑی چلا رہا ہو اور اس سے حادثہ ہو جائے تو ایسی صورت میں تمام تر ذمہ داری اس بچہ پر عائد کی جائے گی۔ جیسا کی زھری اور قتادہ رحمہم االلہ نے فرمایاکہ:
مضت السنة ان عمد الصبی والمجنون خطأ
’’ سلف میں یہ سنت جاری رہی ہے کہ بچے اور پاگل کا عمداًکام بھی غلطی اور خطا میں شمار ہوگا‘‘۔[30]
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کی حادثہ کی صورت میں جانچ پڑتال بہت احتیاط سے کرنی چاہیے تاکہ طرفین میں سے کسی پر بھی ظلم نہ ہو۔
قاعدہ نمبر2: اذا اجتمع المباشر والمتسبب یضاف الحکم الی المباشر:
یعنی اگر مباشر اور متسبب جمع ہو جائیں تو حکم مباشر پر ہوگا۔ یہاں مباشر اور متسبب کی تعریف کرنا ضروری ہے۔
مباشر: جس سے براہ راست نقصان ہوا ہو۔
متسبب: جس سے بلا واسطہ نقصان ہوا ہو۔
مثال: اگر ایک شخص نے کنواں کھودا اور اس کنویں میں کسی دوسرے شخص نے کسی کا جانور پھینک دیا تو اس صورت میں مباشر وہ ہوگا جس نے جانور پھینکااور جس نے کنواں کھودا وہ شخص متسبب ہوا۔
دوسری مثال: ایک شخص نے چور کو کسی کے مال کہ بارہ میں بتایا اور چور نے وہ مال چوری کرلیا تو ایسی صورت میں ہاتھ صرف چور کا کاٹا جائے گا کیونکہ وہ مباشر ہے جبکہ راہ دکھانے والے کو تعزیرا ًسزا دی جائے گی کیونکہ وہ متسبب ہے۔
آخر میں چند اہم باتوں کو نکات کی صورت میں پیش کرتے ہیں:
(1) ٹریفک نظام کی پابندی ہر حال میں کرنی چاہیے، پابندی نہ کرنے کی صورت میں ایک تو حاکم کی اطاعت نہ کرنے کا گناہ بھی ہے اور دوسرا حادثے کی صورت میں جان و مال کا ضیاع بھی جو کہ شرعاً جائز نہیں۔
(2) حاکم کے لیے جائز ہے کہ وہ مالی سزا بھی لاگو کرسکتاہے اور جسمانی سزا بھی۔
(3) اگر مباشر(براہ راست نقصان کرنے والا) اور متسبب(جو کسی وجہ سے واقعہ کا سبب بنا) جمع ہوجائیں تو حکم مباشر پر ہوگا۔
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه وسلم
________________________________________
[2] احکام القرآن لابن العربی1/451 ، احکام القرآن للجصاص 2/ 264، فتح الباري 13/120
[3] الفقہ الاسلامي و ادلتہ6/؍704 [4] مجله مجمع الفقہ الاسلامي شمارہ نمبر 8 ج 2 ص173اور 273 [5] مام بیھقی نے اسے ’’ شعب الایمان ‘‘ میں روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’’ صحیح الجامع‘‘ 3011 میں اسے صحیح قرار دیاہے ۔ [6] فيض القدیر للمناوی ج 3 ص 277 [7] فتاوی و توجیھات في الاجازۃ والرحلات للشیخ ابن عثیمین ص80 [8] حاشیۃ رد المحتار لابن عابدین علی الدر المختار 4/61، البحر الرائق5/68 [9] بلغۃ السالک 4/268، الدسوقی علی الشرح الکبیر 6/370 [10] ابوداؤد:1575، مسند احمد 4/2 [11] المجموع5/298، البیان للامام العمراني3/137 [12] المغنی لابن قدامۃ :12/526 [13] ابن ماجہ 1789،ابن حجر اور امام نووی وغیرہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، فیض القدیر5:374 [14] فتح القدیر 5/113، تبصرۃ الحکام لابن فرحون المالکی 2/6221، حاشیۃ الشبراملسی علی نھایۃ المحتاج 8/22، کشاف القناع 6/159، المدخل الفقھي العام لمصطفی الزرقاء2/627، التشریع الجنائی الاسلامی لعبد القادر العودۃ 1/705 [15] الطرق الحکمیہ ص316 [16] معالم القریۃ ص 287 [17] تبصرۃ الحکام 2/221 [18] التلخیص الحبیر2/160 [19] تدریب الراوی شرح تقریب 1/266 [20] معالم القریۃ فی احکام الحسبۃ لابن الاخوۃ نقلا عن الغزالی ص 288 [21] بخاری 1654، مسلم2941، ابو داؤد 1905،ابن ماجہ 3074 [22] الموافقات للشاطبی2/10، اصول الفقہ لأبي زھرۃ 367 [23] شرح الزرقانی علی المؤطا 4/40 ،شرح القواعد الفقھیۃ لاحمد الزرقا ص 113 [24] صحیح بخاری:2333، صحیح مسلم:5528 [25] النھایۃ فی غریب الحدیث ،3/136 [26] سنن ابن ماجہ ،2044، البیھقی ، 7/356 [27] جامع العلوم والحکم ص456 [28] مجمع الضمانات لابن غانم 1/345 [29] غمز عیون البصائر للحموی ،شرح الاشباہ والنظائر لابن نجیم1/466، حاشیۃ القلیوبی و عمیرۃ علی شرح المنھاج ،2/28 اور 4/98، المدخل الفقھی العام 2/1044 [30] مصنف عبد الرزاق ،18391