امام مہدی حقیقت کیاہے؟فسانہ کیاہے؟

امام مہدی کےظہورکے بارے میں اہل السنۃ والجماعۃ کا چودہ سوسالہ یہ نظریہ ہے کہ آپ آخری دور میں مکہ مکرمہ میں ظہور پذیر ہوں گےمسلمانوں کی قیادت کریں گے،امت مسلمہ میں خلافت قائم کریں گے۔اللہ کی زمین پر عدل وانصاف پرمبنی حقیقی شریعت نافذکریں گے۔جس کے نتیجے میں امن  و آشتی اورسکون سے انسانیت کوواسطہ پڑےگا۔الغرض خلافت راشدہ کی بھولی بسری یادیں تازہ ہوجائیں گی۔

 البتہ یہ ذہن نشین رہے کہ حقیقی امام مہدی کی آمد سے پہلے بہت سے لوگ مہدی ہونےکادعوی کریں گے ،زیرنظرمضمون میں ایسے جھوٹے اوردنیا پرست لوگوں کاپردہ چاک کیاجائے گا۔اوران شاءاللہ صحیح احادیث کی روشنی میں بے دین طبقوں کی فریب کاریوں ،حکومت ودولت کے طلب گار علمائے سوء کی دھوکے بازیوں کی بھی وضاحت کی جائےگی، نیزساتھ حقیقی امام مہدی کے بارے میں اہل السنۃ کا کیا نظریہ اسے ہے؟ اسے بھی تفصیلاً تحریر کیا جائے گا۔

 سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہﷺنےفرمایا:

لاتذھب الدنیاحتی یملک العر ب رجل  من أهل بيتى يواطئ اسمه اسمى واسم أبيه اسم أبى  يملأ الأرض قسطا وعدلا كما ملئت ظلما وجورا

’’دنیاکااختتام نہیں ہوگا حتی کہ عرب کاامیرایک شخص ہوگا جومیرے  اہل بیت سے ہوگا اس کانام میرے نام جیسا اور اس کے والد کانام میرے والدجیسا ہوگا وہ زمین کوعدل وانصاف سے بھردے گا جیساکہ ان سے پہلے ظلم وزیادتی سے بھری ہوگی ۔[2]

 اس حدیث سےاور آئندہ چند احادیث سے معلوم ہوجائےگا کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں عقائد ونظریات بڑے ہی نازک ہیں اورعلمی اخلاص سے ہی ان کاکوئی نتیجہ نکالاجاسکتاہے۔امت میں سادہ لوح نوجوانوں کو کس طرح گمراہ کیاگیا اورآئندہ فتنے سے مزید کتنے افراد خطرناک غلطیوں اوردھوکے کاشکارہوسکتے ہیں اس کااندازہ اس واقعے سے لگایاجاسکتاہے۔

اہل تکفیر کی کارستانیاں:

یہ 22نومبر1979ء کی نمازفجرکاوقت تھا،بیت اللہ میں طواف کرنےوالے نمازکی ادائیگی کے منتظرتھےعمرہ کرنےاورزیارت کرنے والے بارگاہ الہٰی میں دعاؤں مناجات میں مصروف تھے۔اس وقت کے امام محمدبن عبداللہ السبیل رحمہ اللہ آگے آئے نمازفجر کی امامت کرائی۔ سلام کے بعد اچانک کچھ لوگ آگے آئے اورامام کعبہ امام السبیل کے ہاتھوں سے مائک چھین لیا۔ایک شخص جو چہرے مہرے سے متقی پرہیزگار اورعالم فاضل معلوم ہوتا تھا آگے آیا اورتقریر شروع کردی۔’’لوگوجیساکہ آپ دیکھ رہے ہیں قیامت کی نشانیاں پوری ہوچکی ہیں ۔زنا عام ہے گانے ہرگھرمیں پھیل چکے ہیں ۔ ناانصافی اور ظلم وزیادتی پرمبنی طرزحکومت نے زندگی اجیرن کررکھی ہے ،اب لوگ کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں۔‘‘ اتنے میں ایک شخص جو اس فتنہ پرور گروہ کا لیڈرتھا۔اس کانام جہیمان العتیبی معلوم ہوا۔اس نے اعلان کیاکہ’’ یہ عالم دین جو وعظ ونصیحت کررہےتھے ،یہ امام مہدی ہی۔ ان کانام محمدبن عبداللہ ہے یہ مدینہ سے مکہ آئے ہیں اورحجراسود اورمقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہیں ۔رسول اللہﷺ کی بیان کردہ تمام پیش گوئیاں سچ ہوچکی ہیں ،لہٰذا میں تو امام مہدی کے ہاتھ پر بیعت کررہاہوں ،تم سب بھی بیعت کرو۔۔‘‘۔

 قارئین کرام !اس واقعے پرجس قدر حیرانی آپ کوہورہی ہوگی اس سے کہیں زیادہ ششدر وہاں کے نمازی حضرات تھے جو ہکابکا ہوکر ساری کارروائی دیکھ رہے تھے۔جہیمان العتیبی نے بڑاکاری وار کیاتھا ۔ ایسے عالم کوتلاش کرکے لایاتھا جو واقعتا ً(محمدبن عبداللہ)نام کاتھا ۔مگر چونکہ جہیمان خارجی ذہنیت رکھنےوالا فتنہ پرورتھا اس نے نہ صرف سادہ لوح متقی اورتہجدگزار نوجوانوں کو اس فتنے میں ڈالابلکہ بیت اللہ اورحرم پاک کے درودیوار کو لہو لہان کردیا۔۔۔؎

لٹیروں نے جنگل میں شمع جلائی ہے

مسافر سمجھے کہ منزل یہی ہے

اندھیری رات کو منزل مقصود سمجھنے والوں نے ظلم کی انتہا اس وقت کی جب مسجدحرام کے دروازوں کواندر سے بند کردیاگیا۔تاریخ اسلام میں پہلی بار طواف رک گیا، اذانیں بندہوگئیں اور باجماعت نماز کی ادائیگی اسلحے کے زور پربند کردی گئی،بعدازاں تفتیش سے معلوم ہواکہ نماز فجر میں جنازوں کی شکل میں ڈھیروں جدید اسلحہ اندرلایاگیا تھا۔مناروں پر اسنائپرتعینات کردیے گئے۔باہر سے کوئی شخص یاحکومتی اہلکار قریب آتا توفائرنگ کرکے حرم کے صحن کو رنگین کردیاجاتا تھا۔سعودی حکومت عوام علماء کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ آخر اندر کیاہورہاہے۔یہ کون لوگ ہیں جو کعبہ پر قابض ہوچکے ہیں ۔آخر مطالبات سامنے آئےکہ امام مہدی ظہور پذیر ہوچکے ہیں لہٰذا وہی حکومت کے صحیح حق دار ہیں ۔شاہی فیملی کوپھانسی دی جائے حکومت ختم کی جائے اور امام مہدی کی زیرحکومت اسلامی خلافت قائم کی جائے۔نہیں تو کعبہ پر کنٹرول حاصل ہو ہی چکاہے۔ ہم کسی کواندرنہ آنےدیں گے۔ امام مہدی  بیت اللہ میں پناہ گزیں ہیں۔ جولشکران کو گرفتار کرنے آئےگا وہ زمین میں غرق ہوجائےگا وغیرہ وغیرہ۔

بالآخر جب حکومت کاپیمانہ صبرلبریز ہوا تو علما ئےکرام سے باقاعدہ فتوی لے کر فوجی ایکشن شروع کیاگیا۔ اس تصادم میں 300 افراد ہلاک ہوئے جس میں حکومتی اہلکار بھی تھے اورتکفیری نوجوان بھی۔ بعدازاں حرم کے تہہ خانوں میں مورچہ زن افراد کو باہر نکالنے میں بڑی مشکل پیش آرہی تھی کہ کوئی بھی زینوں سے اترکرنیچے جاتاتو اس کو فائرنگ کرکے گرایاجاتاتھا۔۔ پھر تہہ خانے کوپانی سے بھر کر اس میں کرنٹ چھوڑاگیا تو زخمی حالت میں 70 افراد باہر آئے جن میں ان کا لیڈر جہیمان بھی تھا ۔ان افراد کو پھانسی دے دی گئی۔۔ نام نہاد امام مہدی کی لاش مل گئی تھی۔یہ ساری کارروائی 9دن میں پوری ہوئی۔ مسلمان حکومتیں اور عوام الناس اس ہولناک واقعے سے لرز کر رہ گئے تھے۔ اس وقت سوشل میڈیا بھی نہ تھا اور موبائل فون بھی نہیں ،امام کعبہ امام ابن سبیل نمازیوں کے بھیس میں باہر آئے تو حکومت کو تکفیریوں کے دعوؤں اور کارروائیوں سے آگاہ کیا۔ امام کعبہ کے بیان کی روشنی میں فوجی ایکشن عمل میں لایاگیا۔آج بھی یوٹیوب پر ویڈیوز موجودہیں اور 1979ء کے اخبارات سے اس واقعے کی بعض تفصیلات مل سکتی ہیں۔

 اس طویل بیانیے کا مقصد صرف اورصرف موجودہ دور کے پر خلوص نوجوانوں کو دھوکے سے بچاناہے۔اور واضح کرناہے کہ مطلب پرست علما سوء اور دہشت گردوں کے سرپرست کس طرح قرآنی آیات اوراحادیث کواپنے مطلب کے لیے استعمال کرتے ہیں تکفیریوں کی کارروائیوں سے فائدے کی بجائے الٹا نقصانِ عظیم ہوتاہے۔امت کے پرخلوص جان نچھاور کرنے والے افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں اوران کے بعد مسلم عوام کوفتنوں کے داغ صاف کرنے میں صدیاں بیت جاتی ہیں ۔بھلا کعبہ پر قبضہ کرنے اور طواف کو روک دینےسے بڑا جرم کیا ہوسکتاہے؟!۔ حرم میں ناحق خون بہانے سے کون سی خلافت قائم ہوسکتی ہے؟ آج داعش اور تکفیری افراد کا بڑا نشانہ حرمین شریفین کی حکومت و علما کیوں ہیں؟ آج بھی ان کا نشانہ صرف اور صرف مسلم ممالک اور ان کی بے گناہ عوام کیوں بنتے ہیں؟ !!

بھلا مساجد اور اسکولوں کے بچوں کا کیا قصور ہے کہ عالمی سیاست کا انتقام ان سے لیاجائے۔

 واقعی سچ فرمایاتھا  سرکار دوعالمﷺنے کہ:

 یقتلون اھل الاسلام ویدعون اھل الاوثان

یہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔[3]

نیز آپﷺنے فرمایا:

لایزالون یخرجون حتیٰ یخرج آخرھم مع المسیح الدجال

یہ مسلسل نکلتے رہیں گے حتی کہ ان کے آخری ساتھی دجال کے ساتھ نکلیں گے۔[4]

(3) ایک اور روایت میں آپﷺکا فرمان ہے:

 یطعنون علی امرائھم ویشھدون علیھم بالضلالة

یہ لوگ حکومتِ وقت یا امراء کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے ان پر ضلالت وگمراہی کا فتویٰ لگائیں گے۔[5]

اللہ رب العزت ہم سب کو فتنوں سے محفوظ رکھے آمین

آمدم برسر مطلب:

اب ہم اپنے موضوع کی طرف واپس لوٹتے ہیں ۔احادیث میں قیامت کی دس بڑی بڑی نشانیوں کو بیان کیاگیاہے ۔اور (کتاب الفتن) کے موضوع پرتمام محدثین نے بے شمار چھوٹی چھوٹی علامات کو بھی بیان فرمایاہے کہ مساجد میں زیبائش اور رنگ وروغن ہوگا۔لوگ اونچی اونچی عمارتوں کوبنائیں گے۔ گانے اور آلات ساز عام ہوں گے جہالت کا دور دورہ ہوگا یہ علاماتِ صغریٰ کہلاتی ہیں۔ یہ علامات قرب قیامت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہیں گی۔ ان کی روک تھام ممکن نہیں ۔ایسا نہیں کہ اگر لوگ اونچی عمارتیں نہ بنائیں تو قیامت نہ آئے گی۔ بلکہ یہ دورانِ سفر آنے والے سنگ ِ میل ہیں جوہر صورت آکر رہتے ہیں ۔ان چھوٹی اور بڑی علامات کے درمیان تعلق امام مہدی رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ظہورِمہدی کے سات سال بعد نزولِ عیسیٰ علیہ السلام اور آمدِ دجال کا سلسلہ شروع ہوگا اور یہ قیامت کی بڑی علامات ہیں۔

مہدی نام ونسب:

واضح رہے کہ سنن ابی داؤد کی روایت کے مطابق محمد بن عبداللہ ہوگا مہدی(ہدایت یافتہ) لقب ہوگا جیساکہ ابتدائی خلفائے راشدین کو بھی مہدیین یعنی ہدایت یافتہ کہا گیاہے۔فرمان رسول کریمﷺہے:

علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین

’’میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو‘‘[6]

عون المعبود شرح سنن ابوداؤد میں ہے کہ :’’امام مہدی اولاد سیدناحسن رضی اللہ عنہ سے ہوں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے دوبیٹے تھے سیدناحسن اورحسین رضوان اللہ علیھم اجمعین۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حق دار ہونے کے باوجود حکمت ودانائی سے کام لیتے ہوئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور مسلمانوں کے درمیان ہورہی جنگ کا خاتمہ فرمایاتھا۔ شایداسی قربانی کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ ان کی اولاد سے آخری دور میں ایک عظیم خلیفہ پیدا فرمائے گا۔اس بات کی گواہی اس حدیث سے بھی مل جاتی ہے کہ:

 عن ام سلمة قالت سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: ’’المھدی من عترتی من ولد فاطمة‘‘

’’مہدی میرے خاندان سے ہوگااورفاطمہ کی اولاد سے ہوگا۔‘‘

سیدناابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺنے فرمایا:مہدی میری اولاد سے ہوں گے۔روشن پیشانی اوراونچی ناک والے۔وہ روئے زمین کو عدل وانصاف سے بھردیں گے جس طرح ظلم وستم سے بھری ہوئی تھی ،وہ سات برس تک زمین پر برسراقتدر رہیں گے‘‘[8]

ان احادیث کا بغور جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ (1) امام مہدی قریشی النسل ہوں گے۔(2)بنوہاشم سے اور اولادِحسن رضی اللہ عنہ سے ہوں گے۔(3)جس دن پیداہوں گے ان کانام محمد ہوگا،والد کانام عبداللہ ہوگا(4)پہلے کوئی اور نام ہوبعدمیں بڑاہوکر نام بدل لے تو اس کے جھوٹاہونے کے لیے یہی بات کافی ہوگی۔ملعون ِ زمانہ قادیانی ایساہی مہدی ہونے کا دعویدارنکلا۔

ہندوستانی مہدی کی داستان:

اس کانام غلام احمد تھا۔قادیان میں اپنے آباء واجداد کی ریاست ودولت سے ہاتھ دھوبیٹھا تھا۔انگریز کی محبت ،دولت کاحصول ،جاہ پرستی نے اس ملعون سے بے شمار خرافات کروائیں۔اس جھوٹے بدکردار ملعون نے مسلمانوں کی حالت ِزارکا ناجائز فائدہ اٹھایا۔1857ء کے بعد انگریز سرکار نے بہت تباہی پھیلائی ۔خاص طور پر مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایاگیا۔صادق پور، بنگال، یوپی بہار میں درختوں پر لٹکتی علمائے حق کی لاشیں مسلمانوں کی تباہی کی منہ بولتی داستانیں بن گئی تھیں۔ بے دین اورجاہل عوام کو ہزاروں کی تعداد میں جبراً عیسائی بنایاگیا۔آج بھی پاکستان وہندوستان میں جو چرچ آبادہیں اور عیسائی آبادیاں ہیں یہ اس دور کی یادہیں۔حق بولنے والے جہادکی بات کرنے والے علماء یاتو شہید کردیے گئے یا کالاپانی میں جلاوطن کردیے گئے۔

ایسے حالات میں لوگ واقعی کسی مجدد کسی مہدی یا نجات دھندہ کی تلاش میں مارے مارے پھررہےتھے۔غلام احمدملعون بڑاکایاں نکلا پہلے عیسائی مبلغوں سے اسلام کی حقانیت پر مناظرے کرتارہا۔پھر موقع دیکھ کر مہدی ہونے کا پرچار کرنے لگا۔جھوٹی نبوت کا دعویدار بعدمیں بنا اور ملکہ برطانیہ کی سرپرستی  میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ پرستی کی بھی داستانیں چھوڑگیا۔آج بھی قادیانی امت کا سب سے بڑا سرپرست یاتو برطانیہ ہے یا اسرائیل ۔ الغرض اس ملعون نے جب خرافات پھیلانی شروع کیں تو مذہبی حوالہ مطلوب تھا۔ایسے  لوگوں کے نزدیک نظریہ مہدویت بڑی کارآمد چیز تھا۔لیکن مسئلہ یہ تھاہاشمی اورقریشی کیسے بناجائے۔اوردیگر قادیانی حوالہ جات کے مطابق اس نے یہ الہام گھڑلیا’’ہمارے آباء واجداد کے شجرہ نسب کے مطابق میں مغل ہوں ،لیکن اللہ نے الہام میں مجھے قریشی کہاہے، لہٰذا شجرے جھوٹے ہیں اوراللہ کاالہام سچاہے‘‘۔

یوں نام بدلا نسب نامہ بدلا اورمہدی ہونےکاپرچار کرنے لگا۔پاک وہند میں گوہر شاہی فتنے کی بھی کچھ ایسی ہی حقیقت ہے۔جھوٹوں کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔بے پیندے لوٹے کی طرح ہر وقت حالت بدلتے رہتے ہیں۔

قادیانی تلبیس کو بیان کرنے کامقصد یہ ہے کہ آج تک بلکہ قیامت تک آنےوالے دجال اور کذاب لوگ چند روایات کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور رہیں گے ۔ان شاءاللہ علمائے حق ان کا پول کھولتے رہیں گے اوراحادیث رسول اللہ ﷺ کا  صحیح مطلب جومنہج سلف صالحین کے عین مطابق ہو بیان کرتے رہیں گے۔

سنن ابی داؤدکی روایت کے مطابق

عن ام سلمة قالت سمعت رسول اللہ ﷺ یقول: یکون اختلاف عن موت خلیفة فيخرج رجل من أهل المدينة هاربا إلى مكة فيأتيه ناس من أهل مكة فيخرجونه وهو كاره فيبايعونه بين الركن والمقام ويبعث إليه بعث من الشام فيخسف بهم بالبيداء

’’ایک خلیفہ کی وفات پر اختلاف ہوگا۔خاندان بنی ہاشم کاایک شخص مدینہ سے مکہ چلا جائےگا۔لوگ اس کو گھر سے باہر نکال لائیں گے اور حجر اسوداور مقام ابراہیم کے درمیان اس کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔(اس کی بیعت ِ خلافت) کی خبر سن کر شام سے ایک لشکران سے مقابلہ کےلیے روانہ ہوگا چنانچہ یہ لشکر جب بیداء میں پہنچےگا تودھنسادیاجائےگا۔‘‘[9][10]

واضح رہے کہ امام مہدی کے متعلق بیان کردہ کچھ احادیث میں ضعف بھی ہے لیکن کوئی روایت موضوع درجہ کی نہیں ہے۔مسندابویعلیٰ کی اس روایت کو محقق حسین سلیم اسد نے حسن درجہ کی قراردی ہے۔لیکن اگر ضعیف روایات کودرج ذیل صحیح مسلم کی اس حدیث کے ساتھ ملاکر پڑھیں تو حقیقت بالکل واضح ہوجائےگی۔

 عن عبداللہ بن الزبیر ان عائشة قالت: ’’عبث رسول اللہ ﷺ فی منامه فقلنا یارسول اللہ ﷺ صنعت شیئا فی منامک لم تکن تفعله فقال العجب إن ناسا من أمتي يؤمون بالبيت برجل من قريش قد لجأ بالبيت حتى إذا كانوا بالبيداء خسف بھم فقلنا يا رسول الله إن الطريق قد يجمع الناس قال نعم فيهم المستبصر والمجبور وابن السبيل يھلكون مھلكا واحدا ويصدرون مصادر شتى يبعثھم الله على نياتھم

سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا’’ایک رات رسول کریمﷺخواب میں پریشان ہوکر اٹھے۔ ہم نےعرض کی اےاللہ کے رسولﷺ! آج آپ نیند میں پریشان ہوئے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔آپﷺنےفرمایا: بڑےتعجب کی بات ہے میری امت کے کچھ لوگ بیت اللہ کا ارادہ کرکےآئیں گے۔قریش کاایک آدمی بیت اللہ میں پناہ پکڑےگاحتی کہ جب (ان کوگرفتار کرنے والا) لشکر بیداء مقام پر پہنچےگا تو ان کو زمین نگل لے گی۔ہم نے عرض کی اے اللہ کے رسولﷺراستےپرتولوگ جمع ہوتے ہیں فرمایا: (ہاں ان میں کچھ جان بوجھ کر لشکر میں آئیں گے کچھ مجبور ہوں گے کچھ مسافرلیکن سب کو ایک ساتھ ہلاک کردیاجائےگا ۔سب لوگ (روزقیامت) الگ الگ حالت میں اٹھیں گے ۔ان کی نیت کے مطابق اللہ تعالیٰ ان کواٹھائے گا[11]۔

امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے ضمن میں بڑی خوبصورت بات بیان فرمائی کہ اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ مسلمانوں کو اہل ظلم سے دور رہنا چاہیے باغیوں سرکشوں کی مجالس سے شدت کے ساتھ اجتناب کریں تاکہ عذاب ِالہٰی کےخطرے سے محفوظ رہ سکیں۔

قارئین!آپ امام مہدی سے متعلق جان چکے ہیں اور حقیقت ِ مہدی سے آشکارہوچکے ہوں گے کہ (1) امام مہدی مدینہ سے مکہ آئیں گے (2) ان کی آمد سے پہلے فتنے اورقتل وغارت گری کا دور دورہ ہوگا (3)خلیفہ یاحاکم وقت کی موت کے بعداختلافات ہوں گے اور مسلح افراد آپس میں جنگ کریں گے(4)لازماً محمدبن عبداللہ نامی شخص کوئی معروف اثرورسوخ والاشخص ہوگا ورنہ وہ کیوں مدینہ سے مکہ آئے گا اور لوگ صرف اسی کو کیوں زبردستی امامِ وقت یاخلیفہ بنائیں گے۔(5) پہلے سے لوگ اسے مہدی کے لقب سے جانتے نہ ہوں گے ۔بعدازاں جب عدل وانصاف والی خلافت قائم ہوگی تب عقدہ کھلےگا کہ جس کاانتظار تھا وہ آپ ہی ہیں۔(6)اس وقت کے ظالم جابر حکمران قطعاً امام مہدی کے حق میں نہ ہوں گے ۔ان کو گرفتار کرنے کے لیے لشکر بھیجیں گے صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق  یہ لشکرعذاب ِ الہٰی کا شکار ہوگا تو ساری دنیا کے نزدیک حقیقت ِ مہدی واضح ہوجائے گی۔اس کے بعد کیاہوگا ؟ اس کے لیے سب سے اہم روایت یہ ہے:

عن ابی ھریرۃ مرفوعا: تخرج من خراسان رايات سود لا يردها شىء حتى تنصب بإيلياء

سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے :   ’’ جب کالے جھنڈے مشرق سے نکلیں گے تو کوئی چیز ان کوروک نہیں سکے گی ۔حتی کہ وہ ایلیاء(بیت المقدس) میں نصب کریں گے‘‘[12]

اسی طرح فرمان نبویﷺہے:

اذارائیتم الرایات السود قد جاءت من قبل خراسان فائتوھا فان فیھا خلیفۃ اللہ المھدی

’’جب تم دیکھو کہ کالے جھےنڈے آگئے ہیں خراسان سے توتم اس میں ضرور شامل ہوجانا کیونکہ ان میں اللہ کے خلیفہ مہدی ہوں گے۔‘‘[13]

سنن ابوداؤکے مطابق

یملک سبع سنین

’’امام مہدی کی خلافت مسلسل سات سال جاری رہے گی‘‘۔[14]

یہ سال سب سے بہترین امن وسکون اورعدل وانصاف والے ہوں گے۔بیت المقدس فتح ہوگا۔ساری دنیا پر خلافت قائم ہوگی۔ ان روایات کی استنادی حیثیت کمزور ہے لیکن علما ئےاہل سنت کا چودہ سوسالہ عقیدہ یہی رہاہے کہ مہدی آخری زمانے میں تشریف لائیں گے ۔کفار سے جہاد کرکے روئے زمین پر خلافت اسلامیہ قائم کریں گے جونبوت کے طریقہ پر ہوگی۔دراصل مہدویت کوئی دعوے کرنے جماعت بنانے کی چیز نہیں بلکہ کچھ کرکے دکھانے کانام ہے۔ جب خلافت قائم ہوگی انصاف ہوگا،اسلامی حکومت کے فوائد دنیاکو نظر آئیں گےتو مہدی رضی اللہ عنہ خودبخود تسلیم کرلیے جائیں گے۔

مشہور مفسرومحدث امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں لکھاہے کہ ’’یعنی امام مہدی کاظہور غلبہ مشرق سے ہوگا ۔یہ عقیدہ غلط ہے کہ سامراء کی غار سے نکلیں گے جیساکہ جاہل روافض گمان کیے بیٹھے ہیں۔یہ آخری زمانے میں ان کے نکلنے کاانتظار کررہے ہیں ۔یہ ان کی مایوسی کاثبوت ہے۔اہل مشرق ان کی تائید کریں گے ۔ان کی خلافت قائم کریں گے ۔اہل مشرق کے جھنڈے بھی کالے ہوں گے ۔کیونکہ نبی کریمﷺکاجھنڈابھی کالاتھا۔ جس کو ’’العقاب‘‘ کہاجاتاتھا۔خلاصہ یہ کہ مہدی کا اصلی خروج یاغلبہ مشرق سے ہوگا اوران کی بیعت بیت اللہ میں لی جائے گی۔جیساکہ احادیث اس بات پر گواہ ہیں[15]۔

امام ابن کثیررحمہ اللہ نے بڑے واضح انداز میں امام مہدی کے بارے میں غلط فکری اور کج فہمی کاتوڑ بھی فرمایاہے کہ روافض اپنے آخری مزعومہ امام محمدبن حسن عسکری کو(مہدی آخرالزماں) کے نام سے پکارتے ہیں ۔بھلا گزشتہ گیارہ صدیوں سے سامراء کی غار میں کوئی کیونکر زندہ رہ سکتاہے ۔اور ہر سال محرم کے مہینے میں لاکھوں لوگوں کا سامراء کی غار کے قریب جمع ہوکر (ادرکنی امام الدھر) پکارنا انتہائی ہذیانی کیفیت کا واضح ثبوت ہے۔

آخری دورمیں جب امام مہدی سات برس خلافت قائم کرچکے ہوں گے اوربلادشام میں قسطنطنیہ کی جنگ میں شریک ہوں گے اس کا احوال صحیح مسلم میں اس طرح بیان کیاگیاہے:

عن ابی ھریرۃ ان النبی ﷺ قال:’’سمعتم بمدینة جانب منھا فی البر وجانب منھافی البحر ؟ قالوا نعم يا رسول الله قال لا تقوم الساعة حتى يغزوها سبعون ألفا من بني إسحاق فإذا جاؤها نزلوا فلم يقاتلوا بسلاح ولم يرموا بسهم قالوا لا إله إلا الله والله أكبر فيسقط أحد جانبيھا ثم يقولوا الثانية لا إله إلا الله والله أكبر فيسقط جانبها الآخر ثم يقولوا الثالثة لا إله إلا الله والله أكبر فيفرج لهم فيدخلوها فيغنموا فبينما هم يقتسمون المغانم إذ جاءهم الصريخ فقال إن الدجال قد خرج فيتركون كل شيء ويرجعون

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول کریمﷺنےفرمایا:’’کیاتم نےکسی شہر کےبارےمیں سناہےجس کی ایک طرف سمندر اور دوسری طرف خشکی ہے۔عرض کی گئی جی ہاں۔آپﷺنےفرمایا:’’قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ستر ہزار آدمی اس شہر کے لوگوں سے جنگ نہیں کرلیتے ۔چنانچہ وہ لوگ (سترہزار) جنگ کے لیے شہر میں آئیں گے تو اس شہر کے باہر پڑاؤ ڈالیں گے ۔یہ لوگ شہر والوں سے ہتھیاریوں کے ذریعے جنگ نہیں کریں گے۔اور نہ ان کی طرف تیر پھینکیں گے بلکہ (لاالہ الااللہ واللہ اکبر) کانعرہ بلند کریں گے تو شہر کے دونوں اطراف کی دیوار میں سے ایک طرف کی دیوار گر جائےگی۔پھر مسلمان  دوسری بار (لاالہ الااللہ واللہ اکبر) کا نعرہ بلند کریں گے تو شہر کی دوسری جانب والی دیوار بھی گرپڑے گی۔ اس کے بعد وہ لوگ تیسری بار نعرہ بلند کریں گے تو اس لشکر کے لیے شہر میں داخل ہونے کا راستہ کشادہ ہوجائے گا۔یہ لشکر شہرمیں داخل ہوکر مال ِ غنیمت جمع کریں گے اوراس مال ِ غنیمت کو آپس میں تقسیم کررہے ہوں گے کہ اچانک یہ آواز آئے گی کہ دجال نکل آیاہے ۔چنانچہ سب کچھ چھوڑ کردجال سے لڑنے کے لیے واپس لوٹ آئیں گے۔[16]

امام مہدی کی زیر قیادت لشکردجال کے خلاف جہاد کررہاہوگا ۔آپ جانتے ہوں گے کہ دجال سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں مارا جائے گا لیکن آخری جنگ ِ عظیم میں جہاد کرنے والے مسلمانوں کےلیڈر امام مہدی ہوں گے اوریہودیوں منافقوں کا سر براہ مسیح دجال ہوگا اس مرحلے کا ذکر صحیح مسلم میں اس طرح ہے :

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ : ’’واللہ لینزلن ابن مریم حکماً عدلاً فلیکسرن الصلیب ولیقتلن الخنزير ولضعن الجزية ولتتركن القلاص فلا يسعى عليها ولتذهبن الشحناء والتباغض والتحاسد وليدعون ( وليدعون ) إلى المال فلا يقبله أحد ‘‘

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مطابق فرمان نبویﷺہےکہ اللہ کی قسم!   عیسی بن مریم ضرور بہ ضرور نازل ہوں گے۔ عدل کرنےوالےحاکم ہوں گےآپ صلیب کوتوڑیں گےخنزیرکوقتل کریں گے،جزیہ ختم کریں گے (دولت عام ہوگی کہ) اونٹنی کو چھوڑ دیاجائےگا اس پر کوئی سوار نہ ہوگا۔لوگوں کے درمیان دشمنی بغض حسد ختم ہوگا۔ لوگوں کومال کی طرف بلایاجائےگا لیکن کوئی قبول نہ کرے گا۔[17]

اسی طرح صحیح مسلم کی دوسری روایت کے مطابق:

 کیف انتم اذ نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم

رسول اللہﷺنےفرمایا تمہاراسوقت کیاحال ہوگاجب عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے۔اورتمہاراامام تم میں سےہوگا۔[18]

صحیح مسلم کی اس حدیث پرتمام شارحین محدثین یہی فرماتےآتے ہیں کہ ’’ تمہارا امام تم میں موجودہو ہوگا‘‘ سے مراد صرف اورصرف امام محمدبن عبداللہ المہدی ہوں گے۔ دمشق کی مسجد میں فجر کی اذان ہوچکی ہوگی امام مہدی نماز پڑھانے کے لیے تیارہوں گے کہ میناروں پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے۔۔۔امام مہدی ان کو نماز کی امامت کے لیے درخواست کریں گے لیکن سیدنا عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے کہ آپ امامت کریں ،پھراس کے بعد کی صحیح روایت میں امام مہدی کاذکر نہیں ہے کہ ان کا کیابنا،کیونکہ اس کے بعد سیدنا عیسیٰ علیہ السلام دجال کو(لد) مقام پر قتل کریں گے۔

صحیح مسلم کے مطابق

عن جابر قال قال رسول اللہ ﷺ’’ لاتزال طائفة من امتی یقاتلون علی الحق ظاہرین الی یوم القیامة قال فینزل عیسیٰ ابن مریم فیقول امیرھم تعال صل بنا فیقول لا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمة الکل ھذہ الامة

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول کریمﷺنے فرمایا:’’ تم میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق کے ساتھ جہاد کرتی رہے گی ۔ قیامت  تک وہ غالب رہیں گے ۔پھر عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو مسلمانوں کاامیر (مہدی) کہےگا آ یے ہمارے لیے نماز کی امامت کریں عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے نہیں تم میں سے بعض بعض کا امیرہے یہ اللہ تعالیٰ کی اس امت کے لیے عزت افزائی ہے۔

واقعی امت محمدیہ کی عزت جہاد میں ہے ۔جہاد قیامت تک جاری رہےگا اس امت کا آخری گروہ امام مہدی پھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ہمراہ دجال کے خلاف جہاد کرےگا۔ ان احادیث سے معلوم ہواکہ پھر امام مہدی کاکام ختم ہوگا۔گویا آپ آخری جنگ ِ عظیم اورنزول عیسیٰ کے لیے راہ ہموار کریں گے۔ اس کے بعد آپ وفات پاجائیں گے ۔ دنیامیں قیامت کی بڑی علامات تیزی سے نمودار ہونے لگیں گی۔ ان تمام احادیث سے معلوم ہواکہ امام مہدی رضی اللہ عنہ کے لیے کوئی ٹائم فریم مقررنہیں ہے ان کاوقت سوسال بعدبھی ہوسکتاہے اور ہزار سال بعد بھی۔امام مہدی اپنے مہدی ہونے کادعویٰ نہیں کرےگا بلکہ کچھ کردکھانے کےبعد وہ مسلمانوں کے نزدیک مہدی کہلائےگا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو امام مہدی کاساتھی بننے کی توفیق عطافرمائے۔دشمنان اسلام ہر دور میں فتنوں کی راہ ہموار کرتے اور گمراہ کن اماموں،حکمرانوں اور علمائے سوء کے ذریعے ہر وقت عوام الناس کو راہ ِ خدا سے بھٹکاتے رہتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ حق کی توفیق عطافرمائے، حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطافرمائےآمین۔


[2] سنن ترمذی،کتاب الفتن،باب ماجاء فی المھدی ،رقم الحدیث:2394،سنن ابوداؤد،کتاب المھدی 4282

[3] صحیح بخاری،کتاب التوحید،باب قول اللہ تعرج الملائکۃ الخ،رقم الحدیث: 7432

[4] سنن نسائی،کتاب تحریم الدم،باب من شھر سیفہ ثم وضعہ فی الناس،رقم الحدیث:4114

[5] ہیثمی مجمع الزوائد 6/228۔

[6] سنن ابن ماجہ،باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين،رقم الحدیث :42

[7] سنن ابوداؤد،کتاب المھدی،باب1،رقم الحدیث:4284،قال الالبانی صحیح۔

[8] سنن ابی داؤد،کتاب المھدی،باب:1رقم الحدیث:4285،قال الالبانی:حسن

[9] سنن ابی داؤدکتاب المھدی،باب:1،رقم الحدیث:4286

[10] یہ روایت مسندابویعلیٰ6940۔ابن حبان 6757۔معجم الکبیر931۔ابوداؤد کی حدیث نمبر9286 پرہے

[11] صحیح مسلم باب کتاب الفتن واشراط الساعۃ

[12] مسنداحمد8775۔ سنن ترمذی،کتاب الفتن،رقم الحدیث:2269 قال:الالبانی ضعیف الاسناد۔

[13] مسنداحمد،رقم الحدیث: 22387، 5/,277کنزالعمال 14/264

[14] سنن ابی داؤدکتاب المھدی،رقم الحدیث:4285

[15] النھایۃ فی الفتن والملاحم 1/55

[16] صحیح مسلم،کتاب الفتن واشراط الساعۃ،باب لاتقوم الساعۃ حتی یمر الرجل الخ،رقم الحدیث:2920

[17] صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب نزول عیسی بن مریم حاکماالخ،رقم الحدیث:243

[18] صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب نزول عیسی بن مریم حاکماالخ،رقم الحدیث:244

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ خلیق الرحمٰن قدرحفظہ اللہ

جامعہ دارالحدیث رحمانیہ سولجر بازار کراچی سے تعلیم مکمل کی اور تاحال وہیں تدریسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ کراچی کے معروف علماء میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔