باری تعالیٰ نے انسان پر بے شمار انعامات کئے ہیں۔ انعامات ربانیہ میں سے سرفہرست عقل کی نعمت ہے انسان نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس عظیم نعمت کے ذریعے نوع انسانی کو بے شمار سہولیات فراہم کی ہیں ان میں سے انٹر نیٹ موبائل فون اور دیگر ذرائع ابلاغ سے انسان کو بے شمار فوائد حاصل ہوئے ہیں مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ ان نعمتوں کا غلط استعمال نوع انسانیت کے لیے مہلک نتائج دے رہا ہے۔ اس مضمون میں موبائل فون اور انٹر نیٹ جیسے جدید طریقے ذرائع ابلاغ وترسیل کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
باری تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو استعمال میں لاتے وقت درج ذیل احکامات ذین نشین رہنے چاہئیں:
(1) اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا :
اللہ تعالیٰ نے ہم پر بے شمار نعمتیں نازل فرمائیں ہیں ، مالک ارض وسماء نے خود اعلان فرمایا ہے :
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا
النحل – 18
’’ اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے لگو تو ان کی گنتی نہیں کر سکو گے۔‘‘
انہی نعمتوں میں سے ایک موبائل ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اس نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے مالک نعمت کی تابعداری کریں اور اپنے آپ کو اس کے حکم کے مطابق ڈھال لیں۔
(2)اللہ کی محبت کے حصول کا ذریعہ :
ہم اس نعمت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کا سبب بنائیں اور اس حیرت انگیز ایجاد کے پیچھے کارفرما ان صلاحیتوں پر غور کریں جو اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں ودیعت کر رکھی ہیں ، یہ سوچ ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ ثابت ہوگی۔
(3) نعمت کا اعتراف :
ہم اس بات کا اعتراف بھی اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حضور کریں کہ اس نے ہم کو یہ عظیم نعمت عطا فرمائی اس کے علاوہ کوئی طاقت نہیں جو یہ نعمت عطا کرنے والی ہو۔
(4) اللہ تعالیٰ کی تعریف :
ہمیں چاہیے کہ اس نعمت پر مالک کائنات کی حمدوثنا اور تعریف میں رطب اللسان رہیں۔
(5 ) صحیح استعمال :
ہمیں چاہیے کہ ہم اس نعمت کا صحیح استعمال کریں موبائل کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اورعیاشی کے لیے استعمال نہ کریں۔ اب ہم اصل موضوع کی طرف بڑھتے ہیں۔
یاد رہے کہ معاشرے میں زمانہ قدیم سے ہی ترسیل کا عمل چلا آرہا ہے جو کہ ہر دور میں ترقی کی جانب گامزن ہے آج ترسیل کا عمل ہماری روز مرہ زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے ۔بیسویں صدی کے وسط میں کمپیوٹر کی ایجاد نے روایتی ترسیل کو ترقی دے کرا لیکٹرانک ترسیل میں تبدیل کر دیا ویب یعنی جال نے پوری دنیا کو اپنے دائرے میں لے لیا ۔ 1991میں ہی انٹرنیٹ عوام کے پاس آگیا اور اس کے ساتھ ہی دنیا ایک گلوبل ویلج (Global Village) کی شکل اختیار کر گئی۔
انٹرنیٹ کی فنی تعریف :
انٹرنیٹ دراصل عالمی طور پر پھیلا ہوا کمپیوٹروں کا ایک جال ہے جس میں کروڑوں کمپیوٹر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور جب آپ اپنا کمپیوٹر انٹرنیٹ سے جوڑتے ہیں تو آپ بھی اس جال کا ایک حصہ بن جاتے ہیں اور اب آپ اس جال سے جڑے ہوئے دوسرے کمپیوٹر سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور بھیج سکتے ہیں آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ اس کا کوئی مالک نہیں ہے ہر شخص اس سے جڑ سکتا ہے اور اس میں اپنی مرضی سے ڈیٹا کا اضافہ کر سکتاہے
انٹرنیٹ کے استعمال کنندوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے لیپ ٹاپ اور وائی فائی جیسی ٹیکنالوجی ہے اور اس سے بھی آسان اور سستی ٹیکنالوجی یعنی ٹو جی اور تھری جی ہے جس کے ذریعہ موبائل میں انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا ہے۔
یادرہے کہ انٹرنیٹ موجودہ زمانے کی سب سے اہم ایجاد ہے۔جس کا وجود انسان کی مزیدترقی اور معلومات کی فراہمی کے لیے ناگزیر ہے ۔ ہر شئے کا استعمال کارآمد تب ہی ہو سکتا ہے جب اس کو استعمال کرنے والا اپنی استعداد اور شئے کی افادیت کے اعتبار سے کام میں لائے۔بیمار کو دوا سے شفا تب ہی مل سکتی ہے جب اس کا استعمال صحیح وقت اور ٹھیک مقدار میں ہو۔ چنانچہ اگر انسان کی نیت صحیح ہے او ر اس کو مفید معلومات حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے انٹرنیٹ بہت ہی مفید ہے مگر اس کی نیت صحیح نہ ہو تو غلط اور مخرب اخلاق مواد بھی انٹرنیٹ پر بکثرت موجود ہے ۔اس طرح سے انٹرنیٹ جہاں اچھی معلومات کا ذریعہ ہے وہیں فحش لٹریچر اور جنسی ہوس سے متعلق مواد ،فلم،وویڈیو وغیرہ کا خزانہ بھی ہے ۔ اعاذنا اللہ منہا
انٹرنیٹ کے فوائد:
انٹرنیٹ کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اگرچہ ہم مسلمان اس میدان میں بہت پیچھے ہیں جب کہ کسی زمانے میں ہم لوگ سائنس کے میدان میںیورپ والوں سے آگے تھے ۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہم ایمیل،ای کامرس،ای بزنس،آن لائن تعلیم،فاصلاتی تعلیم،آن لائن ایگزامز، یونیورسٹی، کمپنی کی معلومات ، اشیاء،اخبار و رسائل و جرائد ،فلاحی و زرعی تنظیمیں ،سیاسی پارٹیوں کے بارہ میں معلومات ،بینکنگ اور تمام طرح کے بلوں کی ادائیگی ، طبی و سائنسی معلومات ،شریعت کے احکام و مسائل اور قرآن و حدیث کو سمعی و بصری شکل میں حاصل کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں مشرق وسطی میں تیونس ،مصر ،لیبیا میں حکومتوں کے خلاف جو تحریکیں چلیںاس میں انٹرنیٹ کا اہم کردار رہا ہے۔اس سے سرحدی فاصلے ختم ہو گئے اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ پوری دنیا ایک انسان کی مٹھی میں آگئی ہے۔اگر انٹر نیٹ کا استعمال بہتر مقاصد اور تعمیری کاموں کے لیے ،معلومات میں اضافے کے لیے ، تعلیم و تعلم کے میدان میں ہو تو یہ باہمی تعاون کی بہترین صورت ہے کیونکہ ایسے کاموں کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ
المائدۃ – 2
’’ نیکی اور پر ہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو۔‘‘
انٹرنیٹ کے نقصانات :
انٹرنیٹ کی خاص برائیوں میں فحش گانے ، فلمیں،بے حیائی کے مناظر ،اشتہارات کے نام پر بے پر دگی عریانیت ،بت پرستانہ و مشرکانہ رسوم ،معاشی دھاندلیاں ،رقومات کی دھوکے سے منتقلی، نجی معلومات کی فریب دہی، جلد دولت مند بننے کے چکر میں دھوکہ دہی ، فریب دہی کے نئے نئے طریقے، دھمکی آمیز پیغامات کی ترسیل اور فحش پیغامات و فحش مواد دوسروں کوبھیجناوغیرہ ہے ۔یہ کانوں اور آنکھوں دونوں کی لذت کا سامان مہیا کرتا ہے اس لیے لوگ اس کے دلدادہ ہیں۔مگرایجاد کو شرعی حدود کا پابند ہونا چاہیے کیونکہ کان آنکھ دل سب کی بازپرس ہوگی ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
الاسراء – 36
’’ اور کان آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کی پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔‘‘
اوراسی بے حیائی کی وجہ سے نمازیں بے اثر ہوتی جا رہی ہیں۔جب کہ نماز تو بے حیائی سے روکتی ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے ۔
إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ
العنکبوت – 45
’’یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔‘‘
اس ایجاد کا منفی پہلو یہ ہے اس کے ذریعے اسلام مخالف قوتیں ہماری تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ تہذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔ انٹرنیٹ کوبد قسمتی سے ہم لوگ بنا کسی روک ٹوک کے اپناتے جا رہے ہیں جس کی سخت وعید ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
لقمان – 6
’’اور کوئی انسان ایسا بھی ہے جو اللہ تعالی سے غافل کرنے والی باتیں خریدتا ہے تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے (دوسروں کو) گمراہ کرے اور اس راہ کی ہنسی اڑائے ،ایسے ہی لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے ۔‘‘
آج زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہو رہا ہے۔اگر بے حیائی و فحش فلموں اور ویڈیوز کی بات کی جائے تو اس کو دیکھنا ،سننا اور پسند کرنا بھی حرام ہے ۔قرآن کریم میں بے حیائی کی باتوں کو پھیلانے والوں کے لیے دردناک عذاب کی خبر سنائی گئی ہے ۔ارشادِ ربانی ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
النور – 19
’’جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ،ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا اور اللہ تعالی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘
انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکیوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر کاری ضرب لگتی ہے چنانچہ اس سلسلے میں والدین کو ہمیشہ بیدار رہنا چاہیے کہ بیٹا یا بیٹی انٹرنیٹ پر کیا دیکھ رہے ہیں ۔ایک عجیب بات ہے کہ کمپیوٹر گھروں میں عموما ایک کونے اور آڑ میں رکھا ہوتا ہے ۔ رات رات بھر کمپیوٹرچلتا رہتا ہے اور والدین سمجھتے ہیں کہ پڑھائی ہو رہی ہے جب کہ عموما پڑھائی کے علاوہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے اور نہ والدین کو توفیق ہوتی ہے کہ وقتا فوقتا اس کو چیک کرتے رہیں۔ یامخصوص فحش و غیر اخلاقی ویب سائٹوں کو بند کرا دیں ۔ بہتر ہوگاکہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو اس’ معلوماتی ہائی وے‘ پر تنہا نہ چھوڑیں۔جب معاملہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو ہوش آتا ہے۔
اس وقت جب کہ انٹرنیٹ ایک اہم و بنیادی ضرورت بن چکا ہے ہم کسی کو بھی اس کے استعمال سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی یہ ممکن ہے ۔ کیونکہ ہمارے پاس اس کا کوئی دوسرا بدل نہیں ہے۔معاندین اسلام نے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اسلامی تہذیب و اقدار کو تباہ و برباد کرنے کاعزم کر رکھا ہے۔ ہمارے علمائے کرام ،مذہبی و ملی تنظیموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان ذرائع کو زیادہ سے زیادہ خیر اور نیکی کے کاموںمیں استعمال کرنے کے لیے رہنمائی کریں ۔
تعلیم، تجارت اور سیاست ہر جگہ اس سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ اربابِ حل و عقد کی مسلسل کوششوں سے کمپیوٹر خواندگی میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ نئی نسل اس کرشماتی ٹیکنالوجی کو خوب استعمال کررہی ہے۔ انٹرنیٹ کے فوائد اور اس کی فراہم کردہ سہولتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک مفید ایجاد ہے لیکن غلط استعمال سے ایک مفید ذریعۂ معلومات خرابیوں کا سرچشمہ بھی بنتا جارہا ہے۔ اس سے گوناگوں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اس کے برے اثرات سے بچنے کی تدابیر نہیں کی گئیں تو انسانیت کو زبردست خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلنے والی برائیوں کی فہرست طویل ہے۔ ان میں پورنوگرافی (Pornography) سرفہرست ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرتی ہے۔ جنسی جذبات کی برانگیختگی اور جذبۂ ثبوت کی تسکین کا سامان نوجوان انٹرنیٹ سے حاصل کرتے ہیں۔ ’’فرینڈ شپ کلب‘‘ بھی جنسی خواہشات کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہیں۔ ’’ویب کیمرہ‘‘ کے ذریعے زنا تک کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ’’آن لائن قحبہ گری‘‘ کا پیشہ بھی چلایا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ وغیرہ سے مجازی جنسی عمل (Virtual Sex) کرتے کرتے حقیقی عمل تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً زنا کی کثرت ہوگئی ہے۔ طلب لذت اور تسکین شہوت کے لیے جنسی عمل کا رجحان بڑھتا ہے تو خاندان تباہ ہوجاتے ہیں۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی عبرت ناک مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
یادرکھیں! جنسی بے راہ روی، ذہنی سکون اور قلب کا اطمینان چھین لیتی ہے۔ اس طرح کی برائی میں ملوث افراد ڈپریشن (Depression) کا شکار ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات خودکشی کی نوبت آجاتی ہے۔ شہوت اور نفسانی خواہشات کا ذہن پر جب ہر وقت دباؤ رہنے لگتا ہے تو قوت فکر متاثر ہوتی ہے اور ذہنی استعداد میں کمی واقع ہونے لگتی ہے۔ ذہن پر فحاشی کے مسلسل حملے سے طلبہ احساس محرومی (Frustration) کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چڑچڑے پن کا غلبہ ہوتا ہے جسکی بنا پر وہ اپنے ماں باپ اور اساتذہ کے ساتھ برے سلوک سے پیش آتے ہیں۔
بچوں کا جنسی استحصال:
چائیلڈ پورنوگرافی ایک ایساسنگین جرم ہے جس کی سنگینی کو ہر شخص تسلیم کرتا ہے۔ انٹرنیٹ بچوں کی دسترس میں آجانے کی وجہ سے بچے جنسی جرائم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ بچوں میں انٹرنیٹ کے استعمال کی بڑھتی ہوئی عادت سے بچوں سے جنسی تلذذ حاصل کرنے والے مجرمین کے لیے سازگار مواقع بے حد بڑھ گئے ہیں۔
انٹرنیٹ کے ذریعے فحاشی اور عریانیت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قوانین کافی نہیں ہیں اس کے لیے اخلاقی قدروں کے احترام کے جذبے کو ابھارنا ضروری ہے۔ خواہش نفس کی پیروی کا جذبہ اتنا زبردست ہوتا ہے کہ اسے آسانی سے زیر نہیں کیا جاسکتا۔ ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ کی گذشتہ تباہ کاریوں کو زیربحث لاکر سماج کو اس کی مزید برائیوں سے بچانے کی فکر کی جائے۔
ٹیکنالوجی سے فائدہ ضرور حاصل کیجیے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح اور غلط استعمال کے فوائد اور نقصانات کو بھی پیش نظر رکھیں اور اچھے لوگوں کی صحبت میں رہیے۔
فیس بک :
آج کل سوشل نیٹ ورکنگ کا چلن فروغ پا رہا ہے ۔ جیسے فیس بک، ٹوئیٹر اور گوگل پلس ، یوٹیوب اوریاہووغیرہ ۔جس میں سب سے زیادہ فیس بک کا استعمال ہو رہا ہے۔ فیس بک ایک امریکی نوجوان طالب علم’ مارک زکر برگ‘ اور اس کے ساتھیوں نے ہارڈورڈیونیورسٹی میں اپنے دوستوں کے لیے قائم کیا تھا مگر چند دن ہی میں اس کو پورے برطانیہ میں مقبولیت حاصل ہو گئی اور2005 تک یہ پوری دنیا میں پھیل گیا ۔اس وقت 845 ملین سے زائد افراد اس کو استعمال کرتے ہیں ۔ عموما فیس بک کا استعمال لڑکے لڑکیوں کو نشے کی لت کی طرح لگ جاتا ہے اور اس میں نئی نئی دوستیاں صنفِ مخالف سے ہوتی ہیں اور پھر معاملات پیار،شادی اور زنا تک پہنچ جاتے ہیں ۔فیس بک کی وجہ سے غیر مذہب میں شادی اور طلاق کے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے ۔
فیس بک کی دنیا میں آپ اپنی بات کا اظہار اور ابلاغ ، لکھ کر اور زبانی طور پر chatting دونوں طرح کر سکتے ہیں اور ابلاغ کے ان ذرائع میں لوگوں کیلئے فائدہ و نقصان دونوں کا امکان ہے۔ مگر انکے علاوہ اور بہت سے پہلوؤں سے یہ ویب سائٹ اسی طرح کی دیگر ویب سائٹس سے درج ذیل وجوہات کی بنا پر امتیازی حیثیت رکھتی ہے :
فیس بک استعمال کرنے والوں کی ذاتی معلومات تک رسائی ہونا اور وہ بھی اس طریقے سے کہ معمولی جان پہچان رکھنے والے دو افراد بلکہ اجنبی بھی بغیر باہمی گفتگو کیے اور ایک دوسرے سے ملے بغیر، پوری تفصیل کے ساتھ ایک دوسرے کی ذاتی دلچسپیاں ، ذاتی تصاویر ، تعلیم ، خاندان ، ذریعہ معاش ، معاشی حالت، دوست واحباب، پسند، ناپسند، ماضی اور حال کی سرگرمیوں اور ماحول ، عالمی و مقامی خبروں پر اس کے تبصرے اور آرا عموماً بغیر اس سے دریافت کیے معلوم کر سکتا ہے۔ عالمی سیاست میں بھی فیس بک کا نام کوئی اجنبی نہیں ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں سیاستدان ،کھلاڑی،فنکار اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے اس کا استعمال کرتےہیں۔ بہت سی اہم شخصیات اپنے نظریات کے فروغ، مداحوں سے رابطے کے لیے فیس بک کا سہارا لیے ہوئے ہیں۔
فیس بک کے منفی پہلو :
مصر کے سرکاری ادارے ’’قومی تحقیقی مرکز برائے معاشرتی و سماجی جرائم‘‘کی ایک ٹیم نے فیس بک ویب سائٹ پر اپنے متعدد ہفتوں کے مطالعہ کے بعد ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی ہے جس میں انھوں نے اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کے نتیجے میں معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کے سنگین نتائج کو یکجا کیا ہے۔ بہت سی اہم باتوں کے علاوہ انھوں نے نوٹ کیا کہ’’اس ویب سائٹ کے بہت سے وزیٹرز اپنی پہلی محبت کو پانے اور سابقہ تعلقات کو بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یوں انہوں نے اپنے خاندان سے باہر غیر شرعی اور ناشائستہ تعلقات کو از سرِ نو استوار کر لیا۔ یہ صورتحال ایک مسلمان خاندان کی زندگی اور شادی جیسے مضبوط خاندانی رشتے کیلئے بہت خطرناک ہے۔ ‘‘
2کچھ غیر ملکی جاسوسی ایجنسیوں نے فیس بک کے کچھ ممبرز کو خود ان کے اپنے بارے میں انہی کی مہیا کردہ تفصیلات دیکھ کر ، جس سے ان کی معاشی صورتحال ، سماجی رتبے اور روزمرہ کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا تھا ، ان تفصیلات کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے انھیں مجبور کیا کہ وہ ان کیلئے جاسوسی کی خدمات سر انجام دیں۔
ایک غیر ملکی اخبار نے ایک ایسے یہودی جاسوسی نیٹ ورک کا کھوج لگایا جو خاص طورپر مسلمان اور عرب ممالک کے نوجوانوں کو جاسوسی کے کام کیلئے بھرتی کرتا تھا۔ محیط ویب سائٹ پر ایک فرانسیسی اخبار (25 جمادی الاولی 1431ھ) کے حوالے سے ان یہودی ہتھکنڈوں کی کہانی بیان کی گئی جن کے ذریعے یہودی ، فیس بک ممبرز کو اپنے اداروں کیلئے انھیں ڈرا دھمکا کر ، بلیک میل کر کے یا لالچ دے کر جاسوسی کے کام پر مجبور کرتے ہیں اور بالآخر انھیں اپنا ایجنٹ بنا لیتے ہیں۔
3 لوگوں سے جان پہچان بنانے کیلئے طویل گفتگو کے نتیجے میں قیمتی وقت کا ضیاع
عقلمند مسلمان کو احساس کرنا چاہیے کہ اس کی زندگی کا دورانیہ مختصر ہے اور وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔ آخرِ کار ایک دن اسے اپنے پروردگار سے ملنا ہے جو اس سے پوچھے گا کہ میں نے تمھیں جوانی دی ، تو اس متاعِ عزیز کو کہاں خرچ کیا؟ تمھیں زندگی بخشی ، تو کہاں صرف کی اور کیسے گزاری ؟ سو صاحبِ بصیرت کو سوچنا چاہیے کہ اس امت کی پہلی نسلیں اوراس امت کے علماء اس زندگی اور اس کی قلیل مدت کے بارے میں کیا سوچا کرتے تھے ؟
امام ابنِ عقیل حنبلی رحمہ اللہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: ’’مجھے یہ گوارا نہیں کہ میں اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کروں ، اس لیے جب میں تقریر و تدریس اور علمی بحث و مباحثہ سے فارغ ہوتا ہوں یا جب میں کتاب پڑھنا بند کرتا ہوں تو آرام کے لیے لیٹتے ہی میں نئے خیالات کے لیے غور و خوض اور سوچ و بچار شروع کر دیتا ہوں اورجو علمی نکات میں اپنے درس اور کتابوں کے لیے اکٹھے کرتا ہوں، ان کو اپنی استراحت کے دوران ہی عمیق غور و فکر سے پختہ کر لیتا ہوں۔ اور میں اپنا علم بڑھانے میں بہت ہی زیادہ حریص ہوں۔ اب جبکہ میری عمر80 برس ہے تو میرا علم کی تحصیل کا شوق اس وقت سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے جب میری عمر صرف بیس(20) برس تھی۔‘‘ [2]
’’آدمی کا تمام وقت اس کی دنیاوی زندگی اور ہمیشہ کی زندگی میں محصور ہے۔ اب یہ ہمیشہ کی زندگی اس کے لیے ہمیشہ کی رحمت بنتی ہے یا زحمت ، اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس طرح گزارتا ہے۔ وقت سرعت رفتار سے گزر جاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص اس وقت کو اللہ کی مدد سے اللہ کی رضا کے حصول میں صرف کرے تو اس کا وہ وقت جو اس نے فضول میں گنوادیا تو وہ اس کے کھاتےمیں نہیں لکھا جائے گا۔ اور اگر وہ شخص جانوروں کی طرح اس وقت کو گزارے ، سستی ، کاہلی ، غفلت ، فضول عیاشیوں اور نفس کی بے لگام خواہشات پوری کرنے میں ہی سارا وقت برباد کر دے اور صورتحال یہ ہو کہ اگر اس کے وقت کا قیمتی ترین حصہ علیحدہ کیا جائے تو وہ اس کے سونے اور کاہلی و غفلت کے حصے میں آئے تو پھر ایسی زندگی سے تو موت اس کے لیے بہتر ہے۔ [3]
4مردوں اور عورتوں میںناجائز تعلقات کا قائم ہونا جو بالآخر ایک مستحکم خاندان کی بربادی کی وجہ بنتے ہیں۔مصر کے قومی مرکز کے مطالعے میں کہا گیا ہے کہ :
’’ طلاق کے ہر پانچ میں سے ایک کیس کی بنیادی وجہ یہ سامنے آئی کہ زوجین(شوہر بیوی) میں سے ایک کو اس بات کا پتہ چلا کہ اس کے ساتھی نے انٹرنیٹ اور فیس بک کے ذریعے اپنی پرانی محبت کو ڈھونڈ نکالا ہے اور اب ان کے درمیان دوبارہ عشق و محبت کے تعلقات بحال ہو گئے ہیں‘‘۔
فیس بک کے مثبت پہلو :
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے میں بہت سے فائدے بھی ہیں، جن سے صاحب بصیرت اور عقلمند لوگ مستفید ہوتے ہیں اور جو لوگوں کی سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے کے بے حد خواہشمند ہیں۔ایسے لوگ اپنے نیک مقاصد کیلئے ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کو بہت خوبی اور ذہانت سے استعمال کرتے ہیں جیسے انٹرنیٹ ، موبائل فونز اور سیٹلائٹ چینلز وغیرہ۔ یہ لوگوں کی زندگیوں میں داخل ہو کر ان کو ان کے دین اور ان کے رب کی طرف بلاتے ہیں ، یوں دین کی بخوبی خدمت کرتے ہیں۔ خصوصا اجتماعی طور پر کی گئی ایسی تمام سرگرمیاں قابل تحسین ہیں جو نیک مقاصد کے حصول کے لیے جدید ذرائع کو بطور چینل کے استعمال کرتی ہیں اور اس میں یہ فائدہ بھی ہے کہ اجتماعی سرگرمیوں کی نسبت اس قسم کی انفرادی کوششوں کو جدید ذرائع ابلاغ میں زیادہ مزاحمت درپیش ہوتی ہے۔فیس بک ویب سائٹ کی مفید باتوں میں سے چند یہ ہیں :
1 کبار علماء اور داعیین کے ذا تی ویب پیجز ، جس میں لوگوں کے لیے پندو نصائح کے علاہ ان کو درپیش مسائل کے احسن جوابات دئیے جاتے ہیں۔خصوصا وہ پیجز جو کسی ٹیم ورک کی صورت میں کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ ٹیم ورک کی صورت میں اس ٹیم کی قیادت ، گروپ کے بانی اور ٹیم ممبرز میں مضبوط سماجی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ ٹیم ممبرز متنوع دینی ، سماجی ، ثقافتی ، سیاسی و تعلیمی موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ تصاویر ، آڈیو اور ویڈیو کلپس ، مفید مضامین ، مختصر و لمبی تحریروں اور کتابوں کے لنکس ، اچھی ویب سائٹس کے لنکس ، مختلف موضوعات پر تبصرہ و اظہار خیال ، آپس میں مشورہ ، تعمیری بحث مباحثہ اور گروپ کی صورت میں سوال و جواب کی تیز و آسان سہولیات اس ویب سائٹ کی ایسی خصوصیات ہیں جو اسے نہ صرف تکنیکی طور پر اس طرح کی دیگر ویب سائٹ سے ممتاز کرتی ہیں بلکہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کا جواز بھی عطا کرتی ہیں۔
2 بین الاقوامی اداروں اور کمپنیوں کا اس ویب سائٹ کے استعمال کنندگان کو عالم اسلام میں درپیش واقعات کی خبر رسانی ، مقبوضہ علاقوں کی صورتحال سے آگاہی ، عالم اسلام کی مزاحمتی قوتوں کی اپ ڈیٹس فراہم کرنا ، خصوصا ان خبروں کو جنھیں اسلام دشمن میڈیا خصوصی طور پر نظر انداز کرتا ہے ، جنھیں بہ زور دبا دیا جاتا ہے یا ایسی خبروں کے سورسز یعنی میگزین ، ویب سائٹ ، فورم وغیرہ کو بلاک کر دیا جاتا ہے۔
3 مفید ، کار آمد اور معلوماتی کتابوں ، مضامین اور ویب سائٹس کو دوسرے ویزیٹرز تک پہنچانا۔
4 دوستوں ، رشتے داروں اور خصوصا ان لوگوں سے جو دور دراز مقامات پر ہیںسے بات چیت اور گفتگو کے آسان مواقع فراہم ہونا۔ تعلقات کو قائم و دائم رکھنے اور رشتوں کو مضبوط بنانے میں باہمی ربط بہت اچھا اثر ڈالتے ہیں اور اس کی اسلام میں حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
فیس بک میزان شریعت میں :
فیس بک کا ممبر بننے کے حوالے سے جہاں تک شرعی حکم کا تعلق ہے یہ بات اس شخص کی نیت پر منحصر ہے، جو اس کا رکن بننا چاہ رہا ہے۔ اگر تو وہ کوئی صاحب علم ہے ، یا کسی دعوتی گروپ کا حصہ ہے تو پھر اس بات کی اجازت ہے اور ان فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے جو اس ویب سائیٹ کی طرف سے لوگوں کو دئیے جارہے ہیں ، یہ عمل مفید بھی ہے۔ لیکن اس شخص کے لیے جو اسے تخریبی مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے یا ان افراد کے لیے جن کے بہکنے کی یا کسی تخریبی گروہ کا حصہ بن جانے کی یا دیگر مخرب اخلاق سرگرمیوں میں مشغول ہونے یا فتنوں میں مبتلا نہ ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی ، خصوصا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ؛ تو ایسے افراد کے لیے شرعاً اس کا رکن بننے کی اجازت نہیں ہے۔
وہ شخص جو حقائقِ وقت سے آگاہ ہے ، اور اس صنعتی دور کی پیدا کردہ تعیشات ، منہ زور خواہشات ، حلال حرام کی تفریق کیے بغیر لذتوں کی طلب ، خاندانی و سماجی رشتوں کے کمزور ہوتے بندھن ، اور وہ فتنے جو ہم سے ہر ایک کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں ان سے بخوبی آگاہ ہے ؛ تو ایسی صورتحال میں وہ کسی فقیہ یا مفتی پر اعتراض نہیں کریگا جو کسی ایسی شے سے منع کر رہے ہیں جس میں جزوی یا کلی طور پر نقصان کا اندیشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی شے میں موجود قلیل فائدہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اب مکمل طور پر جائز ہو گئی ہے کیونکہ کسی بھی شخص کے لیے یہ خدشہ ہمیشہ موجود رہےگا کہ وہ اس شے کے قلیل فائدے سے صرفِ نظر کر کے اس کے کثیر نقصان میں مبتلا ہو جائے خصوصا جبکہ غیر شرعی لذتوں اور فتنوں کی طرف شیطان ہمہ وقت انسان کو بھٹکاتا رہتا ہے۔ اگر کسی شے کے اچھے اور مفید طلب پہلو زیادہ ہیں اور برے اور نقصان دہ پہلو کم ہیں تب ہی ہم مکمل وثوق اور اطمینان کے ساتھ اس چیز کے جائز ہونے کا حکم دے سکتے ہیں۔
وہ شخص جو فیس بک اور اس طرح دیگر ویب سائٹس پر اپنے آپ کو غیر شرعی امور کے ارتکاب سے بچا نہیں سکتا اور اپنے نفس پر قابو نہیں پا سکتا ، تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان ویب سائٹس کا حصہ بنے۔ یہ جواز صرف اسی شخص کے لیے مخصوص ہے جو شرعی رہنمائی کے مطابق انھیں استعمال کرے ، اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اپنی خواہشات کو کنٹرول کر سکے اور جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ ان ویب سائٹس کے استعمال سے اپنی ذات کو نفع پہنچائے گا اور دوسرے اس کی ذات سے فائدہ اٹھائیں گے۔
فیس بک استعمال کرنے کے سلسلے میں اصلاحی اقدامات:
ان سب خوبیوں او ر خامیوں کےساتھ اگر کوئی بھی شخص فیس بک استعمال کرنا چاہے یا کر رہا ہو تو ان کو کچھ آداب ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ فیس بک چونکہ اس وقت مقبول ترین سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ہے ، اس لیے ہر کوئی اس ویب سائٹ پر موجود ہوتاہے فیس بک کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے درج ذیل آداب ہیں:
1 پہلے تو لو پھر بولو :
کوئی بھی چیز شیئر یا نشر کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچ لیں کہ کہیں آپ کسی کی دل آزاری کا سبب نہ بنیں،اس لیے کچھ بھی شیئرکرنے سے پہلے ایک دفعہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ لینا ضروری ہے۔ بالخصوص دینی معلومات پر مبنی پوسٹ کی اچھی طرح تصدیق کریں کہ یہ مستند بات ہے اور صحیح شرعی حکم ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان وا فتراء کے زمرے میں آئے گا جس کی ترویج آپ کی وجہ سے ہورہی ہے۔
2ذاتی باتیں پیغامات تک محدود رکھیں :
فیس بک ایک عوامی پلیٹ فارم ہے۔ اگر آپ نے کوئی ذاتی بات لکھ دی تو آپ کو اندازہ نہیں وہ کہاں تک پہنچ سکتی ہے اس لئے ذاتی باتیں پیغامات تک محدود رکھیں ان کو شئیرز کرنے سے گریز کریں۔
3 ذاتی خبریں فون کے ذریعے دیں :
ذاتی خبر چاہے خوشی کی ہو یا غم کی ، اپنے قریبی دوستوں کو بذریعہ فون یا ایس ایم ایس دیں۔ اس کے علاوہ سنی سنائی خبریں جن کے مستند ہونے کی آپ کو خبر نہ ہو فوراً شیئر یا نشر کرنے سے پہلے فون پر تصدیق ضرور حاصل کریں۔
4 تبصروں پر مناسب جواب دیں:
5 ہر پوسٹ پر تبصرہ کرنے سے گریز کریں
6 اپنے لہجے کا خیال رکھیں :
لکھی ہوئی بات کے پڑھنے اور بولی ہوئی بات کے سننے میں بہت فرق ہوتاہے اس لیے اپنے لہجے کا خیال رکھناضروری ہے۔
7 اجنبی لوگوں کو دوستی کے پیغام ہرگز نہ بھیجیں۔
8 ذاتی تشہیر نہ کریں :
انسانی مزاج مختلف ہوتے ہیں ، ہر پڑھنے والا ضروری نہیں کہ آپ کی ہر پوسٹ سے لطف اندوز ہوجائے۔
9 دوسروں کی رائے کا احترام کریں :
انٹرنیٹ کی دنیا میں ہر کوئی آزاد ہے ، ہر انسان اپنی الگ رائے رکھتاہے ، اس لیے فیس بک پر اپنی رائے کا اظہار کرنے میں سب ہی آزاد ہیں۔ دوسروں کی کسی بات سے اگر آپ کو اتفاق نہیں تو اس کو بُرا بھلا کہنے کے بجائے آگے چلیں ، اس میں بہتری ہے اور اگراس کی سوچ اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے تو اسے احسن طریقے سے سمجھائیں۔
10 پرائیویسی سیٹنگ بار بار چیک کریں :
آپ کے علاوہ قریبی دوستوں ، رشتے دار، جان پہچان کے لوگ دفتر کے ساتھی فیس بک پرایڈ ہوتے ہیں۔ اس لیے کچھ بھی شیئر کرنے میں یہ دھیان رکھیں کہ آپ کی پوسٹ کن لوگوں تک پہنچے گی۔
فیس بک ایک خطر ناک دودھاری تلوار ہے ، اسے احتیاط سے استعمال کرنا ہی عقل مندی کا تقاضا ہے۔
رضائے الٰہی کےلئے اجنبی لوگوں کو (Friend) بنانا جبکہ رشتہ داروں کو (Friend) بناتے ہوئے صلۂ رحمی کی نیت کرنا بھی ضروری ہے۔
غیر مسلموں کو حکمت وبصیرت کے ساتھ اسلام کی دعوت دینا۔
دعوت وتبلیغ اور اصلاح معاشرہ کی نیت سے مستند ومحقق دینی پیغامات ٹائم لائن پہ لگانا۔
سب سے پہلے اپنی اور پھر ساری انسانیت کی اصلاح کی کوشش کرنا۔
کارِخیر میں حصہ ڈالنے اور نیکی کی حوصلہ افزائی کے لیے اچھی پوسٹ لائک اور شیئر کرنا۔
فحش، غیر اخلاقی اور فضول چیزوں سے دُور رہنا۔
نامناسب (comment) گالم گلوچ کے ذریعے لوگوں کی دِل آزاری سے بچنا، نیز بد اخلاقی کے جواب میں بھی ہمیشہ عمدہ اخلاق کا مظاہرہ کرنا۔
رسول اللہﷺکی ذات گرامی ، صحابہ کرام ، ازواج مطہرات ، اہل بیت اطہار ، ائمہ کرام اور اکابرین امت کا پُر زور دفاع کرنا۔
اشتعال انگیزی ، فرقہ واریت، لسانیت ، عصبیت اور قوم پرستی کے ناسور سے بچنا۔
آنکھوں، کانوں اور ہاتھوں کے غلط استعمال سے بچنا۔
موبائل کے فوائد ،نقصانات اور شرعی ہدایات وآداب
ٹیلی فون اور موبائل کا استعمال اس قدر عام ہوچکا ہے کہ یہ ہر گھر ، دکان اور دفتر کی زینت بن گیا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ جس کے پاس موبائل کی سہولت یا ٹیلی فون وغیرہ نہ ہو اس کو حسرت وحیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ ٹیلی فون اور موبائل کی ایجاد نے نسل انسانی کو بہت سے فواہد پہنچائے ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
1 والدین کے ساتھ حسن سلوک
آج مادیت پرستی نے بنی نوع انسان کو اعلیٰ اقدار سے یکسر کر محروم کر دیا ہے اور لوگ دنیاوی مسائل میںاس قدر مصروف ہوچکے ہیں کہ والدین کے پاس حاضری اور ان کی خدمت کا موقع خال خال ہی نصیب ہوتا ہے ۔ ٹیلی فون اور موبائل کی موجودگی نے ایک حد تک اس مشکل کو کم کر دیا ہے کہ انسان ہر وقت اور ہرجگہ اپنے والدین کے ساتھ رابطہ کر سکتاہےکیونکہ والدین کی رضا مندی حصول جنت کا ذریعہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ
الاسراء – 23
’’ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘
2 صلہ رحمی :
دین اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے کہ آج قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ہمارے روابط منقطع ہیں اور ہم سالہا سال تک ان کی خبر گیری نہیں کرتے ، فقط شادی یا غمی میں رسمی سی ملاقاتیں باقی رہ گئیں ہیں ، صلہ رحمی جو کہ انسان کی عمر اور رزق میں برکت اوراضافہ کا سبب ہے ،سے ہم کوسوں دور ہیں شاید ہی کوئی خوش نصیب ہو جس کے تعلقات رشتہ داروں کے ساتھ مضبوط ہوں ، موبائل اس بیماری سے نجات کے لیے بہت ہی معاون ثابت ہوا ہے ۔ نبی ﷺ نے فرمایا :
’’الرَّحِمُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ تَقُولُ مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَهُ اللهُ، وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللهُ‘‘
’’قرابت داری(قیامت کے دن) عرش کے ساتھ معلق ہوگی اور کہہ رہی ہوگی جس نے مجھے ملایا اسے اللہ ملائے اور جس نے مجھے توڑا اللہ اسے توڑے۔‘‘[4]
3گھریلو حالات سے آگاہی
معاشرتی زندگی کا تقاضا ہے کہ کوئی بھی انسان ہر وقت اپنے گھر میں موجود نہیں رہ سکتا اسے کسی نہ کسی غرض کی بنا پر گھر سے دور جانا پڑتا ہے جہاں فطری طور پر وہ گھریلو حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے بے چین رہتاہے جس قدر آج انسان کو اپنے گھر میں رابطہ کرنا آسان ہے شاید ایسے پہلے کبھی نہ تھا اگرچہ ڈاک اور تار وغیرہ کا نظام تو صدیوں سے چلا آرہا ہے مگر جدید ٹیکنالوجی نے اس میدان میں کمال سہولت پیدا کر دی ہے ، موبائل کے ذریعے ایک منٹ کے اندر آپ اپنے گھریلو حالات سے باخبر ہو سکتے ہیں ۔
4 دوستوں سے رابطہ
مخلص اور باوفادوست انسان کے لیے نعمت خداوندی سے کم نہیں جو اس کی خیر خواہی کریں اور پورے اخلاص کے ساتھ اس سے ہمدردی کریں ، موبائل اس دوستی کو زنگ آلود ہونے سے بچانے کا ذریعہ ہے ۔
5 تعزیت
موت ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس سے فرار کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ انسان اس دھوکہ میں مبتلا رہتا کہ اگرچہ فلاں آدمی تو دنیا سے چلا گیا ہے تو کیا ہوا ابھی میں تو زندہ ہوں اور میری باری نہیں آئی۔ وہ اس زعم باطل میں اس قدر مگن رہتا ہے کہ بعض دفعہ رشتہ داروں اور جاننے والوں کے ہاں تعزیت کے لیے بھی حاضر نہیں ہوتا ، موبائل نے تعزیت کا عمل بھی آسان کر دیا ہے ۔
6 مریض کی خیر گیری
ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ اگر وہ بیمار ہوجائے تو وہ اس کی تیمارداری کرے خصوصاً جب مریض کے ساتھ قریبی رشتہ داری،دوستی یا جان پہچان ہو اگر کسی مصروفیت کی بنا پر انسان خودتیمارداری کے لیے نہ جاسکتا ہو تو موبائل کے ذریعے اس فرض کو ضرور انجام دے۔
7 مبارکباد
خوشی کے موقع پر اپنے جاننے والوں کو مبارکباد دینا اخلاقی ذمہ داری ہے جیساکہ کوئی حج کرکے آیا ہو،شفایاب ہوا ہو، کوئی عزیز شادی کر رہا ہو، کوئی امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوا، کسی کے ہاں بچہ کی پیدائش ہوئی ہو یا کسی کو کوئی کامیابی ملی ہوتو موبائل کے ذریعے فوراً مبارکباد دی جاسکتی ہے ۔
8 کاروباری رابطے
آج کل اکثر کاروباری معاملات موبائل ہی کے ذریعے طے کیے جاتے ہیں ۔ لین دین کے امور اور تجارتی سرگرمیوں کا بہت زیادہ انحصار موبائل پر ہے ، اس سے جہاں سرمایہ اور وقت بچتا ہے وہاں آنے جانے کی کوفت سے بھی نجات مل جا تی ہے ۔
9 ایمرجنسی میں مدد
شہروں میں اکثر حادثات جنم لیتے ہیں کہیں پر آگ لگ جاتی ہے تو کہیں روڈ ایکسیڈنٹ دیکھنے کو ملتا ہے کہیں کوئی عمارت گر جاتی ہے تو کہیں کوئی بچہ کھلے مین ہول کا لقمہ بن جاتاہے ، ایسے میں فائر بریگیڈ،ریسکیو یا محکمہ شہری دفاع کے دیگر اداروں کو ایمرجنسی اطلاع دینے کا واحد ذریعہ موبائل ہی ہے ۔
موبائل کے نقصانات
موبائل کے فوائد کی طرح نقصانات بھی بے شمار ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ درج ذیل سطورمیں کرتے ہیں ملاحظہ فرمایئے :
(1) دوسروں کے گھروں میں جھانکنا :
موبائل کا ایک زبردست نقصان یہ ہے کہ اس کے ذریعے دوسروں کے گھروں میں جھانکنا،داخل ہونا اور گھر کی خواتین سے راہ رسم بڑھانا اس قدر آسان ہوگیا کہ کسی قسم کی کوئی مشکل باقی نہیں رہی اور غلط قسم کے لوگ دوسروں کی عزتوں پر ڈاکے ڈالنے کے لیے اس کا استعمال کھلے بندوں کر رہے ہیں ۔
(2) نمازوں میں موسیقی :
موبائل کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ عبادت کی روح متاثر ہورہی ہے شاید ہی کسی نماز میں موسیقی ٹونز سننے کو نہ ملتی ہوں ، کبھی کسی کا فون بج اٹھتا ہے اور کبھی کسی کے موبائل سے گانے کی آواز بلند ہوجاتی ہے ، یہ چیز جہاں نمازیوں کے لیے تشویش اور پریشانی کا باعث ہے وہاں مسجد کے تقدس کو پامال کرنے کا بھی سبب ہے۔ اس عمل کا شمار گنا ہ میں ہوتا ہے ۔
(3) اجتماعی زندگی میں کمی :
موبائل کا ایک زبردست نقصان یہ بھی ہے کہ اجتماعی زندگی کمزور ہوتی چلی جارہی ہے ، شادی ، غمی اور ایسے مواقع پر جہاں لوگوں کا اجتماع ہونا چاہیے وہاں ٹیلی فونک رابطوں پر ہی اکتفا کیا جاتاہے۔اگر شریک محفل ہو بھی جائیں تو اکثر حاضرین موبائل میں مصروف رہتے ہیں۔
(4) جرائم میں اضافہ :
موبائل فون کی وجہ سے جرائم میں بے حد اضافہ ہوگیاہے اور جرائم پیشہ افراد موبائل رابطوں کے ذریعے جرائم کی منصوبہ بندی اور وارداتیں بڑی آسانی کے ساتھ کرتے ہیں۔
(5) نام نہاد آزادی :
موبائل کو نام نہاد آزادی کی علامت بنایا جارہا ہے ۔ نوجوان لڑکیوں، لڑکوں اور بچوں کے ہاتھ میں موبائل تھما دیئے گئے ہیں جو کہ ذہنی پختگی نہ ہونے کی وجہ سے بڑی آسانی سے گمراہی کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں ۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق 54 فی صد عورتوں کا کہنا ہے کہ وہ موبائل اس لیے استعمال کرتی ہیں کہ گھر والوں سے بچ کر دوسروں سے رابطہ کر سکیں ۔
(6) بداخلاقی کا رواج :
موبائل فون میں فحش گوئی ، غیر اخلاقی گفتگو اور غلط میسج بھیجنا ہمارے نوجوانوں نے دل پسند مشغلہ بنا رکھا ہے جس سے اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے اور ہمارا معاشرہ مغربی طرزِ حیات میں ڈھلتا جارہاہے۔
(7) فضول خرچی :
موبائل پر گھنٹوں گھنٹوں لا یعنی اور عشقیہ باتیں کی جاتی ہیں ، بیلنس لوڈ کر وایا جاتاہے وہ ختم ہو جاتا ہے، پھر لوڈ کروایا جاتاہے یہ فضول خرچی ہے جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔
(8) تعلیمی حرج :
دوران کلاس Students کے فون آتے ہیں وہ یا تو اجازت لیے بغیر کلاس روم سے باہر چلے جاتے ہیں یا پھر اجازت حاصل کرتے ہیں جس سے تدریس کے عمل میں تعطل آتا ہے اور ویسے بھی Bell بجنے سے پوری کلاس پریشان ہوتی ہے ۔
(9) Data Copy (ذاتی معلومات کی خفیہ منتقلی)
موبائل فون کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اگر آپ کے موبائل میں پرائیویٹ Data ہے ، مثلاً : گھریلو خواتین کی تصویریں ، ویڈیو وغیرہ اور آپ دکان پر Ring tone بھروانے یا کسی اور غرض سے موبائل لے کر جاتے ہیں تو دکاندارآپ کے میموری کارڈ کا Data بڑی چالاکی سے Copy (نقل)کر لیتا ہے اور اسے اپنے دوستوں کے موبائل میں Feed (ڈال)کر دیتا ہے وہ لوگ ان تصاویر کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیں۔
موبائل فون استعمال کرنے کے آداب
موبائل فون عصرحاضر کی ایجادات میں سے ایک گرانقدر اور بیش قیمت نعمت ہے جس کے دستیاب ہونے سے لوگوں کے اندر بہت ساری سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں ، اِس سے وقت اور مال کی بچت ہوتی ہے ۔
حالانکہ یہ اور اس جیسی دوسری نعمتوں کے استعمال کے وقت ایک مسلمان کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے اور ایک حد میں رہتے ہوئے اسکا جائز استعمال کرنا چاہیے اور ناجائز استعمال سے بچنا چاہئے ، کیونکہ کل قیامت کے دن ہم سے ایک ایک نعمت کے بارے میں پوچھا جانے والا ہے فرمان باری تعالیٰ ہے :
ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ
التکاثر – 8
’’ پھرتم سے قیامت کے دن نعمتوں کے بارے میں ضرور سوال کیا جائے گا ‘‘۔
اس لیے ایک انسان کو چاہیے کہ وہ بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کے سارے معاملات میں اللہ کے رسول اللہ ﷺاور آپ کے اصحاب کرام کو اپنااسوہ اور نمونہ بنائے ۔سفیان ثوری رحمہ اللہ نے بہت عمدہ بات کہی ہے :
“اِنِ اسْتَطَعْتَ أنْ لا تُحِکَّ رَأسَکَ اِلا بِأثَرِ فَافْعَلْ”
’’اگر تمہارے لیے ممکن ہو سکے کہ کسی اثر (حدیث یا سلف امت سے منقول روایت)کی بنیاد پر ہی اپناسرکھجلاؤ تو ایسا کر گذرو ‘‘۔[5]
مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان کا ہر عمل چاہے اس کا تعلق دنیاوی امور سے ہی کیوں نہ ہوسنت نبوی کا آئینہ دار ہونا چاہیے تو موبائل فون کے تعلق سے بھی ضرورت پڑتی ہے کہ اُس کے استعمال کے آداب کو ہم جانیں ۔تو لیجئے ذیل میں موبائل فون سے متعلقہ چند آداب پیش خدمت ہیں :
فون کرنے سے پہلے نمبر کی تحقیق کرلینی چاہیے:
فون کرنے سے پہلے نمبرکی تصدیق کر لیناچاہیے کہ واقعی یہ فلاں شخص کا نمبر ہے ، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کسی دوسرے کا نمبر ڈائل ہوجائے اور آپ اُس کے لیے ناگواری کا باعث بن جائیں، (لا ضرر ولا ضرار) کی حدیث پیش نظر رہنی چاہیےاگر کبھی غیر شعوری طور پر ایسا ہوجاتا ہے تو نرم لہجے میں ان سے معذرت کرلی جائے کہ ’’معاف کیجئے گا ، غلطی سے آپ کا نمبر ڈائل ہو گیا ‘‘۔
فون کرتے وقت شرعی الفاظ کا استعمال کیا جائے:
مثلاً جب بات کرنا شروع کریں تو کہیں السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ، اسی طرح فون اٹھانے والا بھی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کے ذریعہ گفتگو کی ابتداء کرے کیونکہ سلام میں پہل کرنا بہتر ہے ۔
بالعموم لوگ فون کرتے یا اٹھاتے ہوئے ’’ہیلو ‘‘ ’’ہیلو‘‘کہتے ہیں‘یہ اسلامی آداب کے منافی ہے ۔ اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ جب ہم کسی سے ملیں تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں، اس کا اطلاق بالمشافہ ملاقات پر بھی ہوگا ، خط وکتابت پربھی ہوگا اور فون پر بھی ہوگا ۔پھر’’ ہیلو‘‘ کہنے کی وجہ سے جہاں ایک طرف غیرمسلموں کی مشابہت لاز م آتی ہے، وہیں ایک آدمی بے پناہ اجروثواب سے محروم بھی ہو جاتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے الادب المفرد میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ ایک آدمی اللہ کے رسول ﷺکے پا س سے گذرا تو اس نے کہا : السلا م علیکم ۔آپ ﷺنے فرمایا : اِسے دس نیکیاں ملیں ، دوسرا آدمی گذرا تو کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔آپ ﷺنے فرمایا : اِسے بیس نیکیاں ملیں، تیسرا آدمی گذرا تو اس نے کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ ﷺنے فرمایا : اِسے تیس نیکیاں ملیں ۔[6]
اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم فون پر اسلامی طریقہ کو اپنائیں اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں توہم صرف فون کرنے پرتیس نیکیوں کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔
سلام کرنے کے بعد اپنا تعارف کرایاجائے :
مثلاً یوں کہے کہ’’ میں فلاں بول رہا ہوں‘‘الا یہ کہ جس سے اس قدر شناسائی ہو کہ آواز فوراً پہچان میں آجاتی ہو ،ایسی جگہ تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ۔ کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات کرتے وقت پوچھنے لگتے ہیں کہ’’ آپ نے مجھے پہچانا ؟‘‘ اِس سے آدمی حرج میں پڑجاتا ہے پھراِس انداز میں پوچھنابھی تو اسلامی اد ب کے خلاف ہے ، نام بتانے میں آخر حرج کیا ہے؟ ۔
صحیحین کی روایت ہے سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :
“أتیتُ النبیَّ ﷺ فی دَینٍ کان علٰی أبی فدققتُ البابَ فقال: من ذا ؟ فقلتُ: أنا ، فقال : أنا أنا کأنه کرھها “
’’میں اللہ کے رسول ﷺکے پاس ایک قرض کے سلسلے میں مدد کے لیے آیا جسے میرے والد نے لیا تھا اور آپ کو آواز دی تو آپ نے فرمایا : کون؟ میں نے کہا: ’’ أنا ‘‘ یعنی میں ہو ں ۔ اللہ کے رسول ﷺباہر تشریف لائے تو یہ کہہ رہے تھے ’’میں، میں‘‘ گویاکہ آپﷺنے اس طرح کے جواب پر ناپسندیدگی کااظہار فرمایا ‘‘۔[7]
کیونکہ ’’میں ‘‘ کہنے سے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔
آج بھی کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دروازے پر دستک دیں گے اور آپ اُن سے پوچھیں کہ’’کون‘‘ ؟ تو کہیں گے ’’میں‘‘بھئی ! ’’میں‘‘ کہنے سے کیا سمجھ میں آئے گا ، لہٰذا فون کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنا نام بتائے تاکہ جس سے بات کررہا ہے وہ مشکل کا شکار نہ ہو اور فوراً پہچان لے۔
جسے فون کر رہے ہوں اس کے حالات کا خیال رکھیں:
ممکن ہے جس کو آپ نے فون کیا ہے وہ آدمی اپنے ذاتی کام میں مشغول ہویا ایسی جگہ پر ہو جہاں فون اٹھانا اُس کے لیے مناسب نہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر جواب نہ ملا ، یا جواب میں جلد بازی پائی گئی یا گرم جوشی سے جواب نہ مل سکا توفون کرنے والے کو چاہیے کہ اس کے بارہ میں حسن ظن رکھے ۔ اُسی طرح جسے فون کیا گیا ہے اُس کے لیے بھی مناسب ہے کہ اگر وہ ایسی جگہ موجود ہے جہاں فون کا جواب نہیں دے سکتا تو وہ موبائل کو ساکت(Silent)کر دے پھر بعد میں عذر پیش کرتے ہوئے جواباً رابطہ (Call Back) کرے یا جلدی سے بتا دے کہ وہ ایسی جگہ پرہے جہاں فون کا جواب نہیں دے سکتا، یہ دل کی صفائی کا اچھا طریقہ ہے اور اس سے مسلم معاشرہ بدگمانی کی بیماری سے محفوظ رہتاہے۔
Ring دینے میں شرعی آداب کو ملحوظ رکھناچاہیے :
تین بار فون کی گھنٹی بجنے کے باوجود اگر فون نہیں اٹھایا گیا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اجازت نہیں ہے اور کال کو کسی دوسرے وقت کے لیے مؤخر کردینا چاہیے ،کتنے لوگ جواب نہ ملنے پر بار بارکال کرتے ہیں بلکہ کچھ لوگ توجواب نہ ملنے پر غصہ ہوجاتے ہیں اور جلدبازی میں نا مناسب الفاظ بھی بول دیتے ہیں۔ اس طرح جسے فون کر رہے ہوں اُس کی طرف سے جواب نہ ملنے پرہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہیے۔
فون کرنے کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کیاجائے :
ہروقت کوئی بھی شخص فون کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں رہتا ، کبھی گھریلو مشغولیات ہوتی ہیں ، کبھی کام کے تقاضے ہوتے ہیں۔ بالخصوص ایسے اشخاص سے بات کرتے وقت مناسب وقت کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے جو انتہائی مصروفیت کی زندگی گذار رہے ہو اور خیال رکھا جائے کہ جس وقت فون کررہے ہیں وہ آرام کا وقت نہ ہو جیسا کہ ظہر کے بعد یا رات کا وقت لہٰذا ایسے اوقات میں فون کرنے سے گریز کیا جائے جو آرام کے اوقات ہوں ۔ فون کرنے کے لیے مناسب وقت کی رعایت بہت ضروری ہے ۔
فون کرنے کی مدت کا بھی تعین رکھنا چاہیے :
کتنے ایسے لوگ ہیں جو فون کرنے بیٹھتے ہیں تو گھنٹوں باتیں کرتے رہتے ہیں ، ایک مسلمان زندگی کے کسی بھی شعبے میں افراط سے کام نہیں لیتا ۔ فون پر ہمارے جتنے پیسے برباد ہو رہے ہیں اگر اس میں سے ہلکی سی کٹوتی کرلیں تو میں سمجھتا ہوں ہمارے کئی ایک معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
بہرکیف عرض مدعایہ ہے کہ فون پر ہذیان گوئی، بیکار گفتگو اور ضیاع وقت سے پرہیز کرنا چاہیے۔فون ضرورت کے تحت استعمال کیا جائے اُسے طفلِ تسلی نہ بنایا جائے ۔
جب مسجد میں داخل ہوں تو موبائل فون بند کردیں یا ساکت (Silent)پر کردیں:
اگرآپ کوکسی وزیر یا بادشاہ سے ملنے کاموقع مل جائے توپہلی فرصت میں آپ اس کے پاس جانے سے پہلے اپناموبائل فون کو بند کردیں گے یا سائلنٹ میں کردیں گے مباداکہ دوران ملاقات اس کے بجنے سے ناگواری محسوس ہو ۔جب انسان سے ملنے سے پہلے اتنا اہتمام کیا جاسکتا ہے تو مسجد‘ جوکہ اللہ کا گھرہے اوراس کے نزدیک سب سے پیاری جگہ، جہاں لوگ اپنے رب سے سرگوشی کرنے آتے ہیں، ظاہر ہے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے موبائل فون کو سب سے پہلے سائلنٹ میں کردینا چاہیے ، تاکہ خشوع وخصوع سے نماز ادا کی جاسکے ،اور فون کی رِنگ (گھنٹی) سے دوسرے نمازیوں کی نمازیں بھی متاثر نہ ہوں، لیکن بھول چوک انسانی فطرت ہے ،اس لیے اگر لاعلمی میں موبائل فون کھلا رہ گیا اور بحالت نماز کال آجائے تو فوراً موبائل فون بند کرنا ضروری ہے کیونکہ اس سے لوگوں کی نمازیں متاثر ہوتی ہیں۔ کتنے لوگ فون آنے پر موبائل بند نہیں کرتے اور مسجد میں دوسروں کی نمازیں خراب کرتے رہتے ہیں جوکہ گناہ عظیم ہے ۔
اسی طرح جو آدمی غیرشعوری طور پر موبائل فون بند کرنا بھول گیا اُسے معذور سمجھنا چاہیے اور خواہ مخواہ اس کے ساتھ سخت کلامی سے پیش نہیں آناچاہیے ۔ کیا ہم دیکھتے نہیں سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کیاتھا؟ ایک دیہاتی مسجد نبوی کے ایک کونہ میں پیشاب کرنے بیٹھ جاتا ہے ۔ صحابہ کرام اُسے ڈانٹتے ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انہیں منع کر دیتے ہیں،پھر جب وہ پیشاب سے فارغ ہو جاتا ہے تو آپ ایک بالٹی پانی منگواتے ہیں اورحکم دیتے ہیں کہ اُس گندگی کی جگہ پر بہا دیا جائے ۔ اُس کے بعد فر ماتے ہیں :
فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ
’’ تم آسانی کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو سختی کر نے کے لیے بھیجے نہیں گئے ‘‘۔[8]
مجلس میں بیٹھ کر بات نہ کریں:
اگر آپ معززشخصیات کی مجلس میں بیٹھے ہوں اور دوران مجلس کال آجائے تو مناسب ہے کہ ایسی جگہ پر موبائل کو آہستہ سے سائلنٹ کر دیں اور اگرکوئی ضروری کال ہوتو اجازت لے کر باہر نکل جائیں۔بڑوں کی مجلس میں بیٹھے ہوئے فون کا جواب دیتا مناسب نہیں ۔ ہاں! اگر دوست واحباب کی مجلس ہو‘ تو مجلس کے اندر ہی بات کرنے کی گنجائش ہے ،بشرطیکہ اجازت لے لی جائے ۔
گھر میں نوجوان بچیوں کو فون اٹھانے نہ دیا جائے:
اِس سے بچیوں میں بے راہ روی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اور
فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ
الاحزاب – 32
بلکہ آئے دن اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں جس سے ہماری عزت وآبرو کا خون ہو رہا ہے ۔ ہاں! ضرورت کے تحت فون اٹھایا جا سکتا ہے لیکن عورتیں فون اٹھاتے وقت نرم لہجہ میں بات نہ کریں تاکہ کوئی انسان میں کسی طرح کا غلط خیال تک نہ دلائے ۔ ذرا غور کیجئے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے نبی پاک ﷺ کی بیویوں کو حکم دیا کہ جب وہ مردوں سے بات کریں تو دبی زبان میں بات نہ کریں۔
اے نبی کی بیویو! اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو ‘ وہ کوئی خیال کرے اور ہاں! قاعدے کے مطابق کلام کرو۔
ذرا غورکیجیے کہ وہ عہد نبوت میں تھیں، لوگوں کی ماؤں کی حیثیت رکھتی تھیں ، اُن کے بارہ کسی کے دل میں غلط خیال بیٹھ نہیں سکتا تھا اُس کے باوجود یہ حکم دیا جا رہا ہے،اِسی سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہماری بہنیں اور بیٹیاں اِس حکم کی کس قدر مخاطب ہو ں گی ۔ ہمیں یہ باور کرنا چاہئے کہ شریعت دراصل فطرت کی آواز ہے، فطری طور پر عورت کی آواز میں دلکشی، نرمی اور نزاکت پائی جاتی ہے۔ اِسی لیے عورتوں کو یہ حکم دیا گیا کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت ایسا لب ولہجہ اختیار کیا جائے جس میں نزاکت اور لطافت کی بجائے سختی اور روکھاپن ہو تاکہ کسی بدباطن کے دل میں بُرا خیال بھی پیدا نہ ہو۔
یادرکھیے کہ سن شعور کو پہنچنے سے پہلے بچوں کوبھی فون اٹھانے سے منع کریں :
بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی اہم ضرورت سے کسی کے ہاں فون کریں فون اٹھانے والا گھر کا بچہ ہوگا جو اپنے انداز میں بات کرتا ہے ۔ منٹوں کے بعد بات سمجھ پاتا ہے اور کبھی وہ بھی نہیں سمجھ پاتا کچھ خبیث طبیعت کے لوگ تو بچوں سے راز کی باتیں بھی معلوم کرنے لگتے ہیں ۔ ظاہر ہے اِس کا واحد علاج یہ ہے کہ بالکل چھوٹے بچوں کو فون اٹھانے نہ دیا جائے ۔
فون کی آواز آن کرنا یا آواز محفوظ (ریکارڈ )کرنا منع ہے:
گفتگو کرنے والے کی بات کو ریکارڈ کرنا یاموبائل کی آواز سب کے سامنے کھول کردینا تاکہ اسے دوسرے بھی سنیں‘ غلط ہے بلکہ ایک طرح کی خیانت ہے ۔ کتنے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب انہیں کوئی فون کرتاہے تو اس کی آواز کو ریکارڈ کرنے لگتے ہیں یا آواز کھول دیتے ہیں تاکہ حاضرین اس کی گفتگو سنیں۔ ایسا کرنا سراسر غلط ہے ۔ کوئی دانا ایسا نہیں کرسکتا ۔ ہاں اگر بات کرنے والے سے اجازت لے لی جائے ، اور گفتگو سب کے لیے مفید ہو تو ایسی صورت میں آواز اونچی کرنےمیں کوئی حرج نہیں ۔
علامہ ڈاکٹر بکر ابوزید رحمہ اللہ اپنی کتا ب ’’أدب الھاتف ‘‘ میں لکھتے ہیں :
“لایجوز لمسلم یرعی الأمانة ویبغض الخیانة أن یسجل کلام المتکلم دون اذنه وعلمه مھما یکن نوع الکلام دینیا أو دنیویا”
‘‘ایسامسلمان جوامانت کی رعایت کرتا ہو اور خیانت کو ناپسند کرتا ہو‘ اس کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ گفتگو کرنے والے کی بات کو اس کی اجازت اوراسکے علم کے بغیر ریکارڈ کرلے، چاہے گفتگو جس نوعیت کی ہو‘ دنیوی ہو یا دینی جیسے فتوی اور علمی مباحث وغیرہ ۔
رنگ ٹونز کے طور پر عادی گھنٹی کا استعمال کریں :
موبائل فون میں عادی ٹونز کا استعمال ہوناچاہیے ،بالعموم لوگ موسیقی یا نغمے والی ٹونز رکھنا پسند کرتے ہیں حالانکہ سب سے پہلے تو یہ حرام ہے ،پھردینی مزاج رکھنے والے اور سنجیدہ طبیعت کے لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے ،ایسے لوگوں کواس سے اذیت اور تکلیف ہوتی ہے ، بالخصوص جب مساجد یا لوگوں کے اجتماعات میں ایسے نغمے سنے جائیں تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے ۔
اس کے برعکس پچھلے چند سالوں سے دینی مزاج رکھنے والے افراد نے قرآنی آیات کو رنگ ٹون کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے ،حالانکہ ایسا کرنا بھی صحیح نہیں ہے ،عصر حاضر کی متعدد فتوی کمیٹیوں نے اس کی حرمت کا فتوی دیا ہے جن میں مفتیٔ مصر ،سعودی عرب کے کبار علماء ،اور رابطہ عالم اسلامی کی اسلامی فقہ اکیڈمی قابل ذکر ہے ، کیونکہ اس میں قرآن کی بے حرمتی کا پہلو پایا جاتا ہے جیسے بیت الخلا ء میں فون آجائے یا لہوولعب کے اڈے پر رِنگبجنے لگےاسی طرح اگر رنگ دیتے وقت فون اٹھالیاجاے تو بسااوقات آیت منقطع ہوکر رہ جاتی ہے ،یا الفاظ ادھورے رہ جاتے ہیں جس سے معنی کچھ کا کچھ ہوجاتا یا مبہم رہ جاتا ہے ، اگر ایک آدمی سنجیدگی سے غور کرے تو اسے خود سمجھ میں آجاے گا کہ واقعی اس سے قرآنی آیات کی بے حرمتی ہوتی ہے، کوئی عقل مند آدمی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس میں قرآنی آیات کی تعظیم وتکریم ہے جبکہ ہمیں حکم ہے کہ قرآنی آیا ت کی تعظیم وتکریم کریں، کیونکہ یہ ہمارے خالق ومالک کا کلام ہے جو ہماری ہدایت کے لیے اترا ہے۔
SMSسے متعلق ہدایات
موبایل فون میں باہمی ربط کا دوسرا طریقہ مختصر پیغام رسانی ہے جسے انگلش میں Short Message Service کہا جاتا ہے۔ اس کا مخفف S.M.Sہے پیغام رسانی کا یہ ذریعہ نوجوانوں میں انتہائی مقبول ہے اس طریقہ کو استعمال کرتے وقت درج ذیل نکات کو مدنظر رکھیں :
(1) ضروری پیغام( Message )ہی ارسال کریں :
فضول اور خواہ مخواہ SMS مت کریں ، ہمارے ہاں فضول میں SMS کرنے کی بیماری اس قدر عام ہوچکی ہے کہ ایک ہی Messageکئی لوگوں کی طرف سے بار بار وصول ہوتاہے۔
(2) موقع کی مناسبت سے میسج بھیجیں :
اپنے دوستوں جاننے والوں ، عزیز رشتہ داروں کو موقع کی مناسبت سے SMS بھیجیں ، مثلاً : عیدمبارک، رمضان المبارک کی آمد، شادی بیاہ پر خوشی کے اظہار اور غمی کے مواقع پر تعزیت وغیرہ کے Messageبھیجے جاسکتے ہیں ۔
(3) عشقیہ SMS سے بچیں :
ہمارا نوجوان طبقہ ایک دوسرے کو عشقیہ میسیج بھیجنا شاید اپنا اولین مشن سمجھتا ہے کہ لڑکیاں لڑکوں کو اور لڑکے لڑکیوں کو عشقیہ میسیج بھیجتے رہتے ہیں اس سے بچنا ہوگا یہ اسلامی اصولوں کے منافی ہے اور اس سے مسلم معاشرہ بے راہ روی کی طرف گامزن ہوجاتاہے، بعض دفعہ لڑکے لڑکیاں بن کر دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں یہ ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہے۔
(4) فحش Messageنہ کریں :
ہمارے ہاں فحش اور گندے SMS بھیجنے کی بیماری عام ہوتی جارہی ہے ۔ نبی ﷺنے فرمایا :
لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلاَ اللَّعَّانِ وَلاَ الفَاحِشِ وَلاَ البَذِيء
’’ مومن طعن کرنے والا،لعنت کرنے والانہیں ہوتا اور نہ ہی فحش گوئی اور غلط باتیں کرنے والا ہوتاہے۔‘‘[9]
(5) Message بھیجنے سے پہلے نمبر کنفرم کریں :
آپ جس نمبر پر میسیج بھیجنا چاہتے ہیں اس کو اچھی طرح کنفرم کرلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میسیج کسی غلط (Wrong )نمبر پر چلا جائے۔
(6) Picture Messages :
موبائل فون پر یہ سہولت بھی میسر ہے کہ آپ کوئی تصویر دوسروں کوارسال کرسکتے ہیں اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھیں نہ ہی کوئی غلط،فحش یا اجنبی عورت کی تصویر اپنے پاس رکھیں اور نہ کسی کوارسال کریں۔ بعض دفعہ کسی ضرورت کے لیے گھریلو خواتین کی تصویریں ارسال کرنا پڑتی ہیں ، مثلاً : سرکاری کاغذات کی تکمیل کے لیے تو آپ جس نمبر پر تصویر ارسال کرنا چاہتے ہیں اس کی تسلی کر لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی گھریلو خواتین کی تصویریں کسی اوباش کے ہاتھ لگ جائیں اور وہ ان کو غلط انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کردے ، اس طرح دوست ایک دوسرے کو لڑکیوں کی تصاویر میسیج کرتے ہیں یہ سراسر فحاشی اور گناہ کا کام ہے ۔
(7) SMS پر وقت ضائع نہ کریں :
بعض لوگ سارا دن میسیج لکھتے رہتے ہیں اور اپنا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں ، اس نعمت کی قدر کریں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے متعلق سوال کرنے والا ہے ۔
(8) خالی Message :
بعض دفعہ بے دھیانی میں یا یہ کہ بچے موبائل کے مختلف بٹن دباتے رہتے ہیں جس سے خالی پیغام ارسال ہوتا ہے جبکہ بٹن دبانے والے کو علم بھی نہیں ہوتا ۔ بعض دفعہ بار بار میسیج ریسیو ہوتے ہیں اس سے احتیاط کریں تاکہ آپ کا بیلنس بھی ضائع نہ ہو اور دوسرا آدمی پریشان بھی نہ ہو ۔
نوٹ : اس مضمون کی تیاری کے وقت درج ذیل علمی مواد سے استفادہ کیا گیا ہے ۔باری تعالیٰ خدمت دین میں مصروف عمل شخصیات، ادارہ جات کو اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین۔
1 ٹیلی فون اور موبائل کااستعمال آداب، فوائد، نقصانات، مولفہ محمد اختر صدیق
2 ٹی وی کے نقصانات اور اس کے فوائد کا جائزہ ، مولفہ ام عبد الرب
3 سہ ماہی مجلہ ’’التراث ‘‘ غواڑی، بلتستان، ج 17، شمارہ نمبر 50
4 مکتبہ صید الفوائد (عربی ویب سائٹ)
5 Hamariweb(اردوویب سائٹ)
6 ماہنامہ مجلہ’’ طوبیٰ‘‘ مطبوعہ جامعہ ابن تیمیہ، بہار ہندوستان ، نومبر 2011ء
7 مسلمانوں کا فکری اغو، مولفہ :ام عبد منیب
8 سہ ماہی’’ ایقاظ‘‘ لاہور، مدیر: حامد کمال الدین
[2] منقول از: المنتظم فی تاریخ الامم والملوک (ص181، ج 17) مولفہ ابن جوزی رحمہ اللہ
[3] الجواب الکافی ، ص109
[4] صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ والآداب ، باب صلۃ الرحم
[5] الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع ص 142
[6] حسنہ الالبانی فی تخریج مشکاۃ المصابیح 4566
[7] بخاری:كتاب استئذان،باب اذا قال من ذا فقال انا
[8] بخاری کتاب الوضوء باب صب الماء علی البول فی المسجد[9] سنن ترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ما جاء فی اللعنۃ