حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روشنی میں:
عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنه قال: ’’حدثنا رسول اللہ ﷺ وھو الصادق المصدوق: إن أحدکم یجمع خلقه في بطن أمه أربعین یوما نطفة، ثم یکون علقة مثل ذلک، ثم یکون مضغة مثل ذلک، ثم یرسل إلیه الملک فینفخ فیه الروح، ویؤمر بأربع کلمات: بکتب رزقه وأجله وعمله وشقی أو سعید. فواللہ الذی لاإلٰه غیرہ إن أحدکم لیعمل بعمل أھل الجنة حتی مایکون بینه وبینھا إلا ذراع فیسبق علیه الکتاب فیعمل بعمل أھل النار فیدخلھا، وإن أحدکم لیعمل بعمل أھل النار حتی مایکون بینه وبینھا إلا ذراع فیسبق علیه الکتاب فیعمل بعمل أھل الجنة فیدخلھا‘‘
ترجمہ:’’سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: ہمیں رسول اللہ ﷺ جو صادق ومصدوق ہیں نے بیان فرمایا:تم میں سے ہر شخص کی خلقت، اس کی ماں کے پیٹ میں نطفہ کی صورت میں چالیس دن جمع کی جاتی ہے،پھر وہ اتنی ہی مدت جما ہواخون بن جاتا ہے، پھر اتنا ہی عرصہ کیلئے گوشت کی بوٹی بن جاتاہے،پھر اس کی طرف فرشتہ کو بھیجا جاتاہےجو اس کے اندر روح پھونک دیتاہے،فرشتہ کو چار کلمات کاحکم دیاجاتاہے،چنانچہ و ہ اس کارزق،اس کی عمر،اس کاعمل اوراس کا شقی (بدبخت) یاسعید(نیک بخت)ہونا لکھ دیتاہے، اللہ کی قسم!جس کے سوا کوئی معبودِ حق نہیں ہے،تم میں سے کوئی شخص جنت والے کام کرتا رہتا ہے،حتی کہ اس کے اور جنت کے مابین ایک ہاتھ کافاصلہ رہ جاتا ہے، پھر اس کی تقدیر اس پرغالب آتی ہے اور وہ جہنم والاکوئی عمل انجام دے کر جہنم کالقمہ بن جاتاہے،اور تم میں سے کوئی شخص جہنم والے عمل کرتاہے،حتی کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک ہاتھ کافاصلہ رہ جاتاہے ،پھر اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جنت والاعمل کرکے،جنت میں داخل ہوجاتاہے۔‘‘[1]
شرحِ حدیث
اس حدیث کے راوی،فقیہ الامت،ابوعبدالرحمن عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ہیں،انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حدیث روایت کرتے ہوئے،آپ ﷺ کو ’الصادق المصدوق‘ کہا ہے۔صادق اس شخص کو کہا جاتاہے جو سچی خبر دےاور سچی بات کہے،جبکہ مصدوق وہ شخص کہلاتا ہے جسے صرف سچی خبریں یا باتیں بتلائی جائیں،اور وہ ان سچی خبروں یا باتوں کو بصدقِ تمام آگے پہنچادے۔
رسول اللہ ﷺ بذاتِ خود صادق تھے،آپ کے اس وصف کی پوری قوم،آپﷺ کے رسول بننے سے پہلے بھی معترف تھی۔
رسول اللہ ﷺ کا مصدوق ہونے کا معنی یہ ہے کہ آپﷺ مخبَر بالصدق ہیں،یعنی آپﷺ کو سچی باتیں بتائی جاتی ہیں،اس سے مراد وحیٔ الٰہی ہے،اس لحاظ سے آپ مصدوق ہیں،اور چونکہ آپﷺ بتمام صدق وامانت سے اس وحی کو آگے پہنچانے والے ہیں لہٰذا آپﷺ صادق بھی ہیں۔سوال یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اس حدیث کی روایت سے قبل رسول اللہ ﷺ کو ’الصادق المصدوق‘ کیوں کہا؟اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث چند امورِ غیبیہ پر مشتمل ہے، ان امورکاتعلق انسانی تخلیق کے مختلف مراحل سے ہے جن کا کوئی مشاہدہ نہیں کرسکتا،ان امورکی معرفت طریقِ وحی سے ہی ممکن ہے،خاص طورپہ رسول اللہ ﷺ جس دور میں مبعوث ہوئے اس میں،آج کے دور کے برعکس طبی یاسائنسی ترقی معدوم تھی،اس دور میں انسانی تخلیق کے ان ادوار ومراحل کی خبر دینا، آپﷺ کی نبوت کے صدق وحقانیت کازبردست ثبوت تھا،اس بات کی دلیل تھا کہ آپﷺ ناطقِ وحی ہیں،کیونکہ ان امور کی معرفت، مقدورِ بشریت سے انتہائی بعید ہے ،لہٰذا آپﷺ کا یہ خبریں بیان فرمانااس بات کی دلیل ہے کہ آپﷺ کی اساس اللہ تعالیٰ کی وحی ہے۔
بلکہ اس حدیث میں چند ایسے امورِ غیبیہ کا ذکربھی ہے جن تک آج کے دور کی طب اور سائنس کی بھی رسائی نہیں ہے،اور وہ فرشتوں کا ہرپیداہونے والے شخص کیلئے چارچیزوں کالکھنا:اس کارزق،اس کی عمر،اس کاعمل اوراس کا شقی (بدبخت) یاسعید(نیک بخت)ہونا۔
سائنس اگرچہ ایسے آلات ایجاد کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے، جن کی مدد سے شکمِ مادر میں پلنے والے بچےکے احوال وتغیرات منکشف ہوسکتے ہیں،لیکن یہ سائنس جتنی بھی ترقی کرجائے مذکورہ بالاچار چیزوں کی دھول بھی نہیں پاسکتی۔
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا اس حدیث کے آغاز میں رسول اللہ ﷺ کو ’صادق مصدوق‘کہنا،ان کی ذہانت وفقاہت کی زبردست دلیل ہے،اور مضمونِ حدیث کے عین مطابق ہے۔
’وھو الصادق المصدوق‘یہ جملہ،ماقبل جملے(رسول اللہ )کی تاکید ہےکیونکہ جوشخص آپﷺ کو رسول اللہ مانتا ہے،اسے الصادق المصدوق بھی ماننا پڑے گا،ورنہ اس کا ایمان بالرسول ناقابل قبول ہے،اسی لئے کلمہ ’ لاالٰہ الااللہ‘ کی صحت وقبولیت کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کلمے کا نطق اور اقرار واعتراف ایسے صدق کے ساتھ ہو جس میں کذب کی کوئی گنجائش نہ ہو،لہٰذا جوشخص اس کلمہ کا اقرار کرتاہے اور اپنے آپ کو مسلمان قرار دیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے آمدہ ہر خبر اور فرمان کو سچا جاننا ہوگا۔
قَالَ اللَّـهُ هَـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
المائدة – 119
ترجمہ:’’اللہ فرمائے گا کہ آج وہ دن ہے کہ سچوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ابدالآباد ان میں بستے رہیں گےاللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں یہ بڑی کامیابی ہے ۔‘‘
اس حدیث میں انسانی خلقت کے تین اطوار کاذکر ہے:
(1) نطفہ (2) علقہ(3)مضغہ
نطفہ کے جمع کئے جانے سےمراد یہ ہے کہ آدمی اور عورت کا نطفہ جو متفرق تھا،اسے رحمِ مادر میں جمع کیاجاتاہے،جس سے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوجاتاہے،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ ﴿٥﴾ خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ ﴿٦﴾ يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ
الطارق – 5/7
ترجمہ:’’تو انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کاہے سے پیدا ہوا ہے ،وہ اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا ہے،جو(مردکی) پیٹھ اور(عورت کے) سینے کے بیچ میں سے نکلتا ہے ۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
أَلَمْ نَخْلُقكُّم مِّن مَّاءٍ مَّهِينٍ ﴿٢٠﴾ فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ﴿٢١﴾ إِلَىٰ قَدَرٍ مَّعْلُومٍ ﴿٢٢﴾ فَقَدَرْنَا فَنِعْمَ الْقَادِرُونَ
المرسلات – 20/23
ترجمہ:’’کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے نہیں پیدا کیا؟ اس کو ایک محفوظ جگہ میں رکھا ،ایک وقت معین تک،پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم کیا ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔‘‘
واضح ہوکہ اس حدیث میں جو نطفہ کے جمع ہونے کو خلقِ انسان کا پہلامرحلہ قراردیاگیاہے تو اس نطفہ سے مراد وہ نطفہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کسی انسان کے پیداہونے کا فیصلہ فرمائے،ہرنطفہ خلقِ انسان کی بنیاد نہیں بن سکتا،صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان منقول ہے:
’ ما من كل الماء يكون الولد وإذا أراد الله خلق شئی لم يمنعه شئی‘
یعنی:’’ ہر منی سے بچہ نہیں بنتا۔اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمالیتاہےتو اسے کوئی چیزنہیں روک سکتی۔‘‘ [2]
بلکہ یہ سارامعاملہ اورنظام اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف ہے۔
تخلیق انسان کادوسرامرحلہ علقہ ہے
علقہ سے مراد گاڑھا جماہوا خون ،جبکہ تیسرا مرحلہ مضغہ ہے،مضغہ سے مراد گوشت کی بوٹی جو چبائے جانے کے قابل ہو۔
تخلیقِ انسانی کے ان تین مراحل میں سے ہرمرحلہ کی مدت چالیس دن ہے،گویا ان تینوں مراحل کی مجموعی مدت چار مہینے یا 120دن بنتی ہے۔
قرآن پاک میں جابجا ان مراحل کا ذکرواردہواہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ
الحج – 5
ترجمہ:’’لوگو اگر تم کو مرنے کے بعد جی اُٹھنے میں کچھ شک ہو تو ہم نے تم کو (پہلی بار بھی تو) پیدا کیا تھا (یعنی ابتدا میں) مٹی سے پھر اس سے نطفہ بنا کر۔ پھر اس سے خون کا لوتھڑا بنا کر۔ پھر اس سے بوٹی بنا کر جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی تاکہ تم پر (اپنی خالقیت) ظاہر کردیں۔ اور ہم جس کو چاہتے ہیں ایک میعاد مقرر تک پیٹ میں ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتے ہیں۔ پھر تم جوانی کو پہنچتے ہو۔ اور بعض (قبل از پیری مرجاتے ہیں اور بعض شیخ فانی ہوجاتے اور بڑھاپے کی) نہایت خراب عمر کی طرف لوٹائے جاتے ہیں کہ بہت کچھ جاننے کے بعد بالکل بےعلم ہوجاتے ہیں۔‘‘
نیز سورۃ المؤمنون میں فرمایا:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ﴿١٢﴾ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ﴿١٣﴾ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّـهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
المؤمنون – 12/14
ترجمہ:’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے ،پھر اس کو ایک مضبوط (اور محفوظ) جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا،پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔ پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا۔ تو اللہجو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ۔‘‘
واضح ہو کہ تخلیقِ انسان کے حوالے سے ان تینوں ادوار واطوار کی خبر رسول کریم ﷺ نے دی،جو کہ آپﷺ کی نبوت کی صداقت کی زبردست دلیل ہے۔کما تقدم
اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ جوکہ پوری کائنات کا خالق ومالک ہے کی قدرت اورحسنِ صنعت کی بھی واضح برہان ہے ،وہ اکیلا ہی خالق وباریٔ ہے، جس کاتقاضا یہ ہے کہ اس علم ومعرفت کے بعد،اسی کی عبادت بجالائی جائے اور اس عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایاجائے ؛کیونکہ خلق میں کوئی شریک اور سھیم نہیں ہے،بلکہ تخلیق کے مذکورہ مراحل میں سے کسی مرحلے کے کسی حصہ میں بھی کسی کی شراکت شامل نہیں ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
البقرة – 21
ترجمہ:’’لوگو! اپنے پروردگار کی عبات کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو ۔‘‘
تخلیقِ انسانی کا اگلا مرحلہ،فرشتہ کی بعثت اوراس کے ذریعہ نفخِ روح کاہے ۔اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق ،اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجاجاتاہے،فرشتہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے بھیجنے سے آتاہے۔
فرشتہ کا پہلا کام نفخِ روح ہے،یعنی وہ اس گوشت کے لوتھڑے میں روح پھونکتاہے،جس سے اس مردہ لوتھڑے میں جان پڑ جاتی ہے، اور وہ زندہ ہوجاتاہے۔ قرآن حکیم میں ہر انسان کی دوزندگیوں اور دوموتوں کا ذکر ملتا ہے،جیسا کہ ایک مقام پر کفار کا قول مذکور ہے:
قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ
غافر – 11
ترجمہ:’’وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہم کو دو دفعہ بےجان کیا اور دو دفعہ جان بخشی۔ ‘‘
پہلی موت سے مراد نفخِ روح سے قبل کا مرحلہ ہے ،جبکہ پہلی زندگی نفخِ روح کے بعد شروع ہوتی ہے اور دنیوی زندگی کے خاتمہ تک قائم رہتی ہے۔دوسری موت دنیوی زندگی کے خاتمے سے لیکر قیامت کے قائم ہونے تک ہے،لیکن یہ موت برزخی حیات کے منافی نہیں ہے؛ کیونکہ برزخی حیات کتاب وسنت سے ثابت ہے۔
دوسری زندگی قیامت کے قائم ہونے سے شروع ہوگی اور یہ دائمی زندگی ہوگی جس کی کوئی انتہاء نہ ہوگی۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
البقرة – 28
ترجمہ:’’(کافرو!) تم اللہ سے کیوں کر منکر ہو سکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے ۔‘‘
روح پھونکنے کی کیفیت،اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا،چنانچہ اس کیفیت کے تعلق سے کسی بھی قسم کی بحث محض عبث ہوگی،ہمیں صرف اتنا علم دیاگیا ہے کہ فرشتہ گوشت کے لوتھڑے میں پھونک مارتاہےجسے وہ جسم قبول کرلیتا ہے اور زندہ ہوجاتاہے۔ اس طرح انسان موت یاعدم سے زندگی یاوجود کی طرف منتقل ہوجاتاہے،رسول اللہ ﷺ سے روح کی بابت سوال کیاگیا تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور آپﷺ کو حکم دیا کہ ان سوال کرنے والوں کو صرف یہ بتادو:
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ۖ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلً
الاسراء – 85
ترجمہ:’’اور تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ میرے پروردگار کی ایک شان ہے اور تم لوگوں کو (بہت ہی) کم علم دیا گیا ہے ۔‘‘
ثابت ہوا کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر یعنی شان سے ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اس کاخالق ہے،فرمانِ باری تعالیٰ: [وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا ]سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ انسانوں کو روح کے بارے میں بہت کم علم دیاگیا ہے،بلکہ اس فرمان میں کسی حد تک ڈانٹ ڈپٹ کا پہلو بھی ہےکہ تمہارے استفسار کیلئے صرف روح ہی باقی رہ گئی ہے؟باقی تمام مسا ئل تم جان چکے ہو؟۔روح کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کےعلم اور انسان کے علم میں فرق موسیٰ اور خضرعلیہما السلام کے قصہ سے بخوبی واضح ہوتاہے ،جب ان دونوں ہستیوں کے سامنے ایک پرندہ نے اپنی چونچ سے سمندر کا پانی پیا تو خضر علیہ السلام نے فرمایاتھا:
’مانقص علمی وعلمک من علم اللہ إلاکما نقص ھذا العصفور بمنقارہ من البحر‘
یعنی:’’میرے اور تمہارے (اور تمام مخلوقات)کے علم نے اللہ تعالیٰ کے علم سے اتنا ہی حصہ کم کیاہے جتنا اس پرندے کی چونچ میں موجود پانی نے سمندر سے۔‘‘گویا کوئی کمی پیدا نہیں کی ۔[3]
’الأرواح جنود مجندة ..۔‘
میں یہ حقیقت واضح فرمادی کہ انسانوں کی روحیں،پیدا ہوکر عالم ارواح میں رکھی جاچکی ہیں جوکہ بیرکوں میں موجود فوجیوں کی مانند ہیں،جس طرح بیرکوں سے فوجی کسی مہم کی ادائیگی کیلئے روانہ ہوتے ہیں اور دوسرے فوجی کوئی مہم اداکرکے واپس لوٹتے ہیں،اسی طرح فوت شدہ لوگوں کی روحیں واپس لوٹتی ہیں اور نئے پیدا ہونے والوں کی وہاں سے روانہ ہوتی ہیں۔[4]
معتزلہ ایک گمراہ فرقہ،جس کی بناء عقل پر ہے اور وہ خودساختہ عقلی حقائق کو وحی الٰہی سے مقدم قرار دیتے ہیں،خلقِ ارواح کے نصوص کے منکر ہیں،ان کا کہنا ہے کہ روح جسم میں مستقر ہوتی ہے،لہذا جسم کی تخلیق سے پہلے روح کیسے پیداہوسکتی ہے؟وہ کہاں استقرار کرے گی؟
ہم کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر فرمان اور ہرخبر پر کسی شک وشبہ اور اعتراض کے بغیر ایمان لاتے ہیں، اللہ تعالیٰ جو روحوں کاخالق ہے،انہیں اجسام کے بغیر رکھنے پر قادر ہے،نیز مقررہ وقت پر ہرروح کو اس کے جسم میں منتقل کرنےپر بھی۔
[اِنَّ اللّٰہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ]
ماں کےپیٹ میں بننے والابچہ،مذکر ہوگایامونث،یہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں سے ہے،لیکن نفخِ روح کے بعد فرشتے کو علم ہوجاتا ہے کہ یہ لڑکاہے یالڑکی،لہٰذا اب یہ علم غیب نہ رہا،لہٰذا اب سائنسی ایجادات کے ذریعہ اس بچے کے لڑکا یالڑکی ہونے کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے،لیکن نفخِ روح سے قبل نہ تو کسی فرشتے کو علم ہو سکتا ہے اور نہ ہی سائنسی آلات کی رسائی ممکن ہے کہ وہ اس کے مذکر یامونث ہونے کا ادراک کرسکیں۔
نفخِ روح کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ فرشتےکو چارباتوں کا حکم ارشاد فرماتاہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1)فرشتہ کو اس کا رزق لکھنے کا حکم دیاجاتاہے،رزق سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے انسان انتفاع کرتاہے،رزق کی دوقسمیں ہیں:ایک وہ چیزیں جوانسان کے بدن کو قائم رکھتی ہیں،مثلاً:کھانا،پینا،لباس، گھر اور سواری وغیرہ،دوسرے وہ امور جو انسان کے دین کو قائم رکھتے ہیں، مثلاً: علم وایمان وغیرہ۔
حدیث میں رزق سے مراد دونوں امور ہیں۔
جس انسان کا جورزق مقدر ہے اسے حاصل کئے بغیر اس کی موت واقع نہیں ہوسکتی،سنن ابن ماجہ میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی مذکور ہے:’ فَإِنَّ نَفْسًا لَنْ تَمُوتَ حَتَّى تَسْتَوْفِيَ رِزْقَھَا‘[5]
یعنی:کوئی ’’نفس اس وقت تک مر ہی نہیں سکتا جب تک اپنا لکھا ہوا پورا رزق حاصل نہ کرلے۔‘‘
(1)فرشتہ کو اس انسان کے أجل یعنی دنیا میں مدتِ بقاء لکھنے کا حکم دیاجاتاہے،مدتِ بقاء یا عمر کے تعلق سے انسانوں میں یکسانیت یا برابری نہیں رکھی گئی،بلکہ اس تعلق سے انسانوںمیں بڑا تفاوت وتباین ہے،کچھ لوگ تو ولادت کے وقت ہی مر جاتے ہیں اور کچھ کو مختصر اور کچھ کو طویل زندگی دی جاتی ہے۔
سابقہ امتوں کی عمریں بہت لمبی ہوا کرتی تھیں،جیساکہ نوح علیه السلام کا اپنی قوم میں 950سال رہنے کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث کے مطابق اس امت کی عمریں 60اور 70سال کے مابین ہیں،اور آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ 70کے عدد کو کم لوگ عبور کرسکیں گے۔[6]
واضح ہو کہ عمروں کا چھوٹا ،بڑاہونا کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ کے امراور مشیئت سے ہے،نہ ہی عمروںکافیصلہ کسی انسان کی ظاہری صحت یا مرض سے کیا جاسکتا ہے،کتنے ہی مریض سالہاسال بستر مرگ پر ایڑھیاں رگڑتے رہ جاتے ہیں اور کتنے ہی صحتمند لوگ اچانک کسی حادثہ کی نذر ہوجاتے ہیں،لہٰذا تمام آجال کی تقدیر صرف اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے،جب اللہ تعالیٰ کا امر آجائے گا تو ایک لحظہ کی تاخیرکے بغیر موت واقع ہوجائے گی،جبکہ اللہ تعالیٰ کے امر سے ایک لحظہ کی تقدیم بھی ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان :
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
الاعراف – 34
ترجمہ:’’اور ہر ایک گروہ کے لیے (موت کا) ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ آ جاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کرسکتے ہیں نہ جلدی ۔‘‘
(3)فرشتہ کو اس انسان کاعمل،جو وہ زندگی بھر کرتارہے گا،لکھنے کا حکم دیاجاتاہے،عمل سے مراد ہرقسم کا عمل ہے،خواہ قولی ہو ،عملی ہو یاقلبی۔
(4)چوتھی چیز جسے لکھنے کا فرشتہ کو حکم دیاجاتاہےوہ بندے کا سعید یعنی نیک بخت ہونا یا شقی یعنی بدبخت ہونا ہے،سعید وہ ہے جس کیلئے اسبابِ سعادت وسرورکی تکمیل ہوجائے،جبکہ شقی انسان کا معاملہ اس سے برعکس ہے۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ تیسری چیز یعنی عمل میں سعادت یا شقاوت دونوں چیزیں آسکتی ہیں،چنانچہ اگر اس کیلئے اعمالِ صالحہ لکھے جاتے ہیں تو یہ موجب سعادت ہے اور اگر اعمالِ سیئہ لکھے جاتے ہیں تو شقاوت کا باعث ہیں؟
جواب یہ ہےکہ سعادت یا شقاوت کا تعلق انسان کے خاتمہ سے ہے،بعض اوقات ایک شخص زندگی بھر عملِ صالح اختیار کئے رہتا ہے لیکن عین خاتمہ کے وقت کسی معصیت کا ارتکاب کربیٹھتا ہے،اور جہنم کا مستحق قرارپاتاہے،یہی اس کی شقاوت ہے،جبکہ بعض اوقات اعمالِ سیئہ کا مرتکب انسان،موت کے وقت توبہ یا عملِ صالح کی توفیق دے دیاجاتاہے،اسی پر اس کاخاتمہ ہوجاتا ہے ،اور وہ جنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
گویا ہر انسان کے شقی یاسعید ہونے کا فیصلہ اس کی موت کے وقت ہوتا ہے،اس تعلق سے انسانوں کے چار احوال ہیں:
(1) کچھ وہ لوگ ہیں جن کاآغاز عملِ صالح سے ہوتاہے اور عملِ صالح پر ہی انجام ہوجاتاہے،ان لوگوںکا تعلق اہل سعادت سے ہے۔
(2)کچھ وہ لوگ ہیں جن کا آغاز اور انجام دونوں برے عمل پر ہوتا ہے،یہ انسان سراسر شقی ہیں۔
(3)کچھ وہ لوگ ہیں جن کاآغاز برے اعمال سے ہوتا ہے،لیکن آگے چل کر توبہ کی توفیق دے دیئے جاتے ہیں ،چنانچہ وہ عملِ صالح اختیار کرلیتے ہیں اور اسی پر ان کا انجام قائم ہوجاتا ہے،ان کا تعلق بھی اہل سعادت سے ہے۔(4)کچھ وہ لوگ ہیں جن کاآغازِأمر،عملِ صالح پر قائم ہوتا ہے، لیکن آگے چل کر بگڑ جاتے ہیں یا مرتد ہوجاتے ہیں اور اسی ارتداد پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے،(والعیاذباللہ)ان کاتعلق اہل شقاوت سے ہے۔
آخری دونوں حالتوں کا ذکر حدیث الباب میں موجود ہے، جس کی مزید وضاحت کیلئے دومثالیں پیش خدمت ہیں: (1) ایک شخص رسول اللہ ﷺکے ساتھ ایک جنگ میں شریک تھا ،بڑی دادِ شجاعت دے رہاتھا،کوئی دشمن تنہا ملتا تو اسے ٹھکانے لگا دیتا،جہاں دشمنوں کا کوئی جتھہ دیکھتا تو ان میں داخل ہوکر انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیتاتھا،صحابہ کرام نے اس کی اس بہادری پر تعجب کااظہارکیا،کچھ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایسی شجاعت ہم نے کبھی نہیں دیکھی،مگر ناطقِ وحی رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’ھو من اھل النار‘
یہ شخص تو جہنمیوں میں سے ہے۔
صحابہ کرام پر یہ بات بڑی گراں گزری،بھلایہ بہادر انسان کیسے جہنمی ہوسکتا ہے؟ایک شخص اس کے تعاقب میں نکل گیا،اب یہ بہادر انسان دشمن کا ایک تیر کھاکر بڑی تکلیف محسوس کرنے لگا،جب تک تکلیف برداشت سے باہر ہوگئی تو اپنی تلوار نکالی،اس کادستہ زمین سے ٹیک دیا اور اس کی نوک پر اس قدر جھول گیا کہ تلوار کمر سے باہر نکل گئی اور یوں خودکشی کربیٹھا۔(والعیاذباللہ) یہ شخص سیدھا رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا:’أشھد أنک رسول اللہ‘میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔آپﷺ نے فرمایا:اس وقت یہ گواہی کیوں دے رہے ہو؟اس شخص نے اس بہادر انسان کا پورا واقعہ بیان کردیا،تورسول اللہﷺ نے فرمایا:
’إن الرجل لیعمل بعمل أھل الجنة فیما یبدوللناس وھو من أھل النار‘
یعنی:’’ایک شخص بظاہر جنت والے کام کرتا ہے لیکن درحقیقت وہ جہنمی ہوتاہے ۔‘‘
(2) انصار کے قبیلے بنوعبدالا ٔ شھل میں اصیرم نامی ایک شخص دین اسلام کو مسلسل ٹھکراتارہتاتھابلکہ عداوت کا اظہار کیاکرتاتھا، جب صحابہ کرام جنگ احد کیلئے نکلے تواللہ تعالیٰ نے اس کےد ل میں ایمان کی شمع روشن فرمادی،اس نے اسلام قبول کرلیا جس کا کسی کو علم نہ ہوا، یہ شخص جنگ احد میں شہیدہوگیا۔
معرکۂ احد کے بعد صحابہ کرام شہداء احد کا تفقد کرنے نکلے تو اسے بھی شدید زخمی حالت میں پایا،اس سے پوچھا:تم یہاں کیونکرآئے؟کیا اپنی قوم کی غیرت وحمایت میں؟یا اسلام کی رغبت وچاہت میں؟
اس نے جواب دیا:اسلام کی رغبت وچاہت میں۔
پھر اس نے کہا:نبی ﷺ کو میرا سلام پہنچادینا،پھر اس کا انتقال ہوگیا۔[8]
اس شخص نے عمربھر دین سے دشمنی قائم رکھی لیکن موت سے قبل اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کی کایاپلٹ دی اور شہادت کے مرتبہ پر فائز کردیا۔
فرعون کے جادگروں کی مثال بھی دی جاسکتی ہے،جن کی پوری عمر کفر اور سحر میں گزری ،لیکن خاتمہ سے قبل انہیں رب موسیٰ وہارون پر ایمان لانےکی توفیق مرحمت فرمادی گئی۔ اس کی ایک اور مثال رسول اللہ ﷺکے دور میں ایک یہودی کے بیٹے سے دی جاسکتی ہے،جو رسول اللہ ﷺکی خدمت کیا کرتا تھا، اچانک بیمارپڑگیا،رسول اللہ ﷺ اس کی تیمارداری کیلئے تشریف لے گئے،اسے مرض الموت میں پایا ،اس پر اسلام کی دعوت پیش کی،جسے اس نے قبول کرلیا اور انتقال کرگیا،رسول اللہ ﷺ اس کے گھر سے باہر تشریف لائے اورفرمایا:
’الحمدللہ الذی أنقذہ من النار‘
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کیلئے ،جس نے اسے جہنم سے نجات دے دی۔[9]
قرآن حکیم نے شقی اور سعید دونوں قسم کے انسانوں کا تذکرہ فرمایا ہے:
يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ ﴿١٠٥﴾ فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ ﴿١٠٦﴾ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ﴿١٠٧﴾ وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ
هود – 105/108
ترجمہ:’’جس روز وہ آجائے گا تو کوئی متنفس ا للہ کے حکم کے بغیر بول بھی نہیں سکے گا۔ پھر ان میں سے کچھ بدبخت ہوں گے اور کچھ نیک بخت ،تو جو بدبخت ہوں گے وہ دوزخ میں (ڈال دیئے جائیں گے) اس میں ان کا چلانا اور دھاڑنا ہوگا ،(اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں، اسی میں رہیں گے مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ بےشک تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے کردیتا ہے ۔ اور جو نیک بخت ہوں گے وہ بہشت میں داخل کئے جائیں گے (اور) جب تک آسمان اور زمین ہیں ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ مگر جتنا تمہارا پروردگار چاہے۔ یہ (اللہ کی) بخشش ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگی ۔‘‘
واضح ہوکہ ہرانسان اپنے لئے سعادت یاشقاوت کا راستہ اپنی مرضی اور اختیار سے چنتاہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور ارادہ سے خارج نہیں ہے،لہٰذا ہرشخص مخیَّر بھی ہےاور مسیَّر بھی،مخیَّر سے مراد یہ کہ وہ نیک یابد راستہ چننے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزادی اوراختیار دیاگیاہے،اور مسیَّر سےمراد یہ ہے کہ وہ جو راستہ چنتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے مطابق ہوتاہے،کوئی انسان ایسا راستہ اختیار کر ہی نہیں سکتا جو اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے خلاف ہو۔
جب سعادت یا شقاوت کا تعلق انسان کے خاتمہ سے ہے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی ہے:
’إنما الأعمال بالخواتیم‘
تو پھر ہر شخص کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ خوف اور رجاء دونوں کیفیتوں کےساتھ رہے۔ شقاوت پہ مبنی خاتمہ کا مسلسل خوف اس کے دل میں موجود رہے اور اللہ تعالیٰ سے ایسے انجام کی پناہ مانگتا رہے،اسی طرح سعادت پر مبنی خاتمہ کی حرص ورغبت ،ہمیشہ اس کے دل میںموجود رہے اور اللہ تعالیٰ سے اس حسنِ خاتمہ کی دعا کرتا رہے۔رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا مانگاکرتے تھے:
’یامقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک‘
’’اے دلوں کے پھیرنے والے!میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدمی عطافرما۔‘‘
جب ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس بابت استفسار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’إن القلوب بین إصبعین من أصابع الرحمن یقلبھا کیف یشاء‘
یعنی:’’تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دوانگلیوں کے بیچ میں ہیں،اللہ تعالیٰ جیسے چاہے ان دلوں کو پھیر دے۔‘‘[10]
اس حدیث کا ایک اہم ترین درس یہ ہے کہ زندگی میں انسان کے ظاہری اعمال پر قطعاً حکم نہ لگایاجائے،کیونکہ ہر انسان کی سعادت یا شقاوت اس کے خاتمہ پر قائم ہے،لہٰذا ایک برائی میں لتھڑے ہوئے انسان کیلئے ممکن ہے کہ اس کاخاتمہ توبہ اورعمل صالح پر ہوجائے،اور آپ اسے برا ہی کہتے رہیں،یہ آپ کیلئے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوگا،لہٰذا ایسا حکم لگانے سے یکسر گریزکیاجائے جس کی زد میں خود آنے کا اندیشہ ہو۔(واللہ المستعان )
[1] صحیح البخاری، کتاب الاحادیث الانبیاء،باب خلق آدم وذریتہ،حدیث:3332 [2] صحیح مسلم،کتاب النکاح،باب حکم العزل،حدیث:3554 [3] صحیح البخاری ،کتاب الاحادیث الأنبیاء،باب حدیث الخضر مع موسیٰ علیہ السلام،حدیث:3400 [4] صحیح البخاری ،کتاب الاحادیث الأنبیاء،باب الارواح جنود مجنّدۃ ،حدیث:3336 [5] سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات ،باب الاقتصاد في طلب المعیشۃ،حدیث:2144 [6] جامع الترمذی،233،کتاب الزھد عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء في فناء اعمارھذہ الامۃ مابین ستین الی سبعین [7] صحیح البخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ خیبر ،حدیث:4207 [8] سنن ابي داؤد،کتاب الجھاد،باب فیمن یسلم ویقتل في مکانہ في سبیل اللہ عزوجل،حدیث:2537 [9] صحیح البخاري،کتاب الجنائز،باب اذا سلم الصبي فمات ھل یصلی علیہ؟1356 [10] صحیح الترمذی، کتاب القدر،باب ماجاء ان القلوب بین اصبعی الرحمن،حدیث:2140