نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہؓ نے محض اس “جرم” پر سخت تکالیف برداشت کیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے تھے۔ لیکن ایمان جب دلوں میں راسخ ہو جائے، اللہ کی معرفت نصیب ہو جائے، آخرت کی حقیقت کا شعور جاگ جائے اور انسان یہ جان لے کہ دنیا فانی اور دھوکے کا سامان ہے تو پھر وہ سب سے بڑی طاقت کے سامنے بھی ڈٹ جاتا ہے۔
ایمان محض تمناؤں اور زبانی دعووں کا نام نہیں، جیسا کہ فرمایا گیا:
ليس الايمان بالتحلى ولا بالتمنى
بلکہ ایمان وہ ہے جو دل میں قرار پکڑ لے اور عمل اس کی تصدیق کرے:
ولكن ما وقر في القلب وصدقه العمل
پس ایمان کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ دلوں میں اتر کر عمل کے ذریعے ظاہر ہو۔ یہ ایمان انسان کو قربانی، ثابت قدمی اور اللہ کے راستے میں استقامت عطا کرتا ہے۔