الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علیٰ اشرف الأنبیاء والمرسلین نبینا محمد، وعلیٰ آلہ وصحبہ أجمعین۔
اما بعد:
تعوذاتِ نبوی، یعنی وہ امور جن کے شر سے نبی کریم ﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی پناہ طلب کی۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہو سکے کہ ہم نے کن چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا ہے اور کن امور سے اللہ کی پناہ مانگنی ہے۔
چار چیزوں سے پناہ مانگنا:
اس ضمن میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے تھے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنْ عِلْمٍ لا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لا تَشْبَعُ، وَمِنْ دُعَاءٍ لا يُسْمَعُ۔
یعنی:
اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔ . 1
ایسے دل سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو خشوع نہ کرے۔.2
ایسے نفس سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو کبھی سیر نہ ہو۔.3
اور ایسی دعا سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو سنی نہ جائے۔.4
یہ چاروں امور نہایت عظیم اور گہری حقیقتیں لیے ہوئے ہیں۔
غیر نافع علم سے پناہ –1
سب سے پہلے اللہ کے نبی ﷺ نے ایسے علم سے اللہ کی پناہ مانگی جو نفع نہ دے۔ علم، انسان کو دیگر تمام مخلوقات پر فوقیت دینے کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن اگر یہ علم انسان کو عمل کی طرف نہ لے جائے تو یہ نقصان دہ ہے۔
اسی لیے آپ ﷺ اپنی دعاؤں میں یوں فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَيِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا1
اے اللہ! میں تجھ سے نافع علم، پاکیزہ رزق اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
علم دو قسم کے ہیں:
علم باللسان: زبان پر رہنے والا علم، جو صرف پڑھنے اور دہرانے تک محدود ہو۔ .1
علم بالقلب: دل میں راسخ ہونے والا علم، جو خشیتِ الٰہی اور تقویٰ پیدا کرے۔ .2
پس، دل میں اترنے والا علم ہی نافع علم ہے جبکہ محض زبان کا علم اگر عمل میں نہ آئے تو وہ قیامت کے دن انسان کے خلاف حجت بن جائے گا،
جیسا کہ قرآن کے بارے میں فرمایا:
وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ2
یعنی قرآن تمہارے حق میں بھی دلیل بن سکتا ہے اور تمہارے خلاف بھی
غیر خاشع دل سے پناہ -2
نبی کریم ﷺ نے ایسے دل سے بھی پناہ مانگی جو خشوع سے خالی ہو۔ دل کی کیفیت انسان کی اصل حقیقت ہے۔ اگر دل نرم ہو تو اس سے زیادہ قابل تعریف کوئی چیز نہیں، اور اگر سخت ہو تو اس سے زیادہ مذموم کوئی چیز نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ3
یعنی جن کے دل اللہ کے ذکر سے سخت ہو گئے، ان کے لیے ویل (ہلاکت)ہے۔
لالچی نفس سے پناہ-3
تیسری چیز جس سے پناہ مانگی گئی وہ ایسا نفس ہے جو کبھی سیر نہ ہو، ہمیشہ خواہشات کے پیچھے لگا رہے اور قناعت نہ کرے۔
اللہ کے نبی ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
وَكُنْ قَنِعًا تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ4
یعنی قناعت اختیار کرو، تم سب سے زیادہ شکر گزار بن جاؤ گے۔
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ
کامیاب وہ شخص ہوا جو اسلام لے آیا، اسے بقدرِ ضرورت رزق ملا اور اللہ نے اسے اپنے نصیب پر راضی کر دیا۔
غیر مقبول دعا سے پناہ– 4
چوتھی چیز جس سے پناہ مانگی گئی وہ ایسی دعا ہے جو قبول نہ ہو۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور اگر دعا رد ہو جائے تو انسان محرومی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ مستقل یہ دعا کیا کرتے تھے تاکہ ہر وقت قبولیت کے دروازے کھلے رہیں۔
خلاصہ:
یہ عظیم دعا ہم کو سکھاتی ہے کہ:
محض علم کافی نہیں بلکہ نافع علم چاہیے۔
دل کی اصل قیمت خشوع میں ہے۔
نفس کی اصل خوبی قناعت ہے۔
اور دعا کی اصل اہمیت قبولیت ہے۔
لہٰذا ہم کو چاہیے کہ ہم ان دعاؤں کو یاد کریں، اپنی روز مرہ دعاؤں میں شامل کریں اور اللہ سے ہمیشہ انہی چار چیزوں سے پناہ مانگتے رہیں۔
_________________________________________________________________________