خطبہ اول:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے اس کےاسلام پر جس نے دلوں کو پاکیزگی سےسیراب کیا اورزمین پر اس کا دریا بہا دیا اور میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے کوئی شریک ایسے گواہی جو ہمیشہ باقی رہے اور جو لکجیشوں پر پردہ ڈال دے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہےایسی گواہی جس کا چرچا پوری کائنات پھیلا ہوا ہے اللہ تعالی ان پر ان کے آل پر ان کے صحابہ کرام پر ہمیشہ درود و سلام نازل فرمائے جب تک آسمان سے بارش کے قطرے گرتے رہیں
امابعد:
اے مسلمانو ں ! اس اللہ سے ڈرو جو پوشیدہ چیزوں کا خوب جاننے والا ہے اور دلوں کے ارادوں اور نیتوں سے باخبر ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ1
‘‘اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرو، مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو‘‘۔
اےمسلمانوں: عظیمت اور کمالات والے لوگوں کی صفات میں سے ایک صفہ دیا ہے کہ وہ لایعنی اور غیر ضروری کاموں کو چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے ایسی چیزوں میں مشغول ہونے سے گریز کرتے ہیں جو فائدہ نہ دیتی ہو
ابن مبارک رحمہاللہ فرماتے ہیں :میں نےامام ممالک کو فرماتے ہوئےسناکہ آدمی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک وہ لایعنی چھوڑ دے اور جب وہ ایسا کر لیتا ہے جو قریب ہے کہ اللہ اس کے دل کو کھول دے اور بعض حکیموں نے کہا جو شخص غیر ضروری کام میں مشغول ہو جاتا ہے تو وہ ضروری چیزوں سے محروم وہ ہو جاتا ہے اور جو شخص اس چیز سے بےنیاز نہیں ہوتا جو اس کے لیے کافی ہےتو دنیا کوئی چیز اس سے بے نیاز نہیں کر سکتی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ2
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی اورفضول باتوں کوچھوڑ دے ‘‘
ابن عبدالبررحمہ اللہ فرماتے ہیں !یہ ایسا جامع کلام ہے جو مختصر جملوں میں عظیم معنی پر مشتمل ہے علماء نے واضح کیا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے کون سی چیزیں اہم اور ضروری ہیں اور کون سی غیراہم ہے ابن الملقن رحم اللہ نے فرماتے ہیں وہ امور جو انسان کے لیے اہم ہے وہ ہے جو اس کی دنیا بے زندگی کی ضرورت ہو اور اس کی آخرت کی سلامتی سے متعلق ہواور یہ اہم امور غیراہم چیزوں کے مقابلے میں بہت کم ہے بس جب انسان صرف انہی امورپر اتفاق کریں جو اہم اور ضروری ہے تو وہ بہت بڑے شر سے محفوظ رہتا ہے اور سلامتی ایک عظیم نعمت ہے لہذا شرسے بچنا بھی اس کام کی خوبیوں میں سے ہے۔
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں !نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تقوی پرہیزگاری کا تمام تر خلاصہ ایک ہی جملے میں پیار فرما دیا چنانچہ اپ نے فرمایا کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی چیزوں کو چھوڑ دے۔
یہ حدیث ہر لا یعنی اور فضول چیز کو ترک کرنے پر مشتمل ہے خواہ وہ بات چیت ہو دیکھ نہ ہو سن نہ ہو پکڑنا ہو چلنا ہو سوچنا ہو یا ظاہری و باطل تمام حرکات بس یہ مختصر کی حدیث تقوی و پرہیزگاری کے لیے کافی اور شافی ہے۔
ابن رجب رحم اللہ فرماتے ہیں جب کسی شخص کا اسلام اچھا ہو جاتا ہے تو اس کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان تمام تر حرام مشتبع مکروہ اور فضول مبا ح چیزوں کو چھوڑ دے جن کی اسے کوئی ضرورت نہیں کیونکہ جب مسلمان پہ اسلام مکمل ہوتا ہے یہ سب چیزیں اس کے لیے لا یعنی اور فضول بن جاتی ہے اور انسان کا اپنی ضروری کمل مشکور رہنے چھوڑنے کا نتیجہ اور سمرا یہ ہوتا ہے کہ اسے بلندی راحت سکون اطمینان اور عمر قول عمل اہل و عیال مال و دولت اور اولاد و برکت حاصل ہوتی ہے۔
ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں بس اگر انسان صرف ضرورتوں پراکتفا کرے تو وہ تمام افراد برائیاں اور جھگڑوں سے محفوظ رہے گا اور یہ اس کے اسلام کے خوبی ایمان کی مضبوطی تقوی کی حقیقت اور اپنی خواہشات سے دوری کے فوائد کی دلیل ہوگی۔
اے مسلمانو! لوگوں میں سب سے زیادہ بدبخت پریشان حال اور بدحال وہی لوگ ہوتے ہیں جو غیر ضروری کاموں میں مشغول رہتے ہیں سابق نے کہا اگر نفس جاہلانہ اور بے وقوفی کی وجہ سے اپنےغیر ضروری کاموں کے پیچھے پڑ جائے اسے دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کے ساتھ بے رخی کی علامتی ہیں کہ اللہ اسے لا یعنی اور غیر ضروری کاموں کے لیے مشغول کر دے۔
مسلمان کا غیر ضروری اور لا یعنی کاموں میں مشغول ہونا ایک مہلک بیماری ہے جو ہر شر کا باعث بنتا ہے اور ان غیر ضروری کاموں کی ایک شکل یہ ہے کہ انسان دوسروں کے حالات کے زیادہ بحث تحقیق میں لگا رہے ان کے رازوں اور خبروں کے جاننے کی کوشش کریں ان کے معاملات کے ٹوہ میں لگا رہے ان کے عیوب کو بے نقاب کرے ان کے معاملات کی تفصیلات کی جاننے کا شوق رکھے ان کی باتوں کو دوسروں تک منتقل کرتا رہے ان کے مال و اسباب گھروں بیبیوں اولاد اور آنے جانے والوں کے بارے میں تجسس کرے یہاں تک ایسا کرنے سے وہ لوگوں کو ان کے چھپائے ہوئے معاملات پیش ہونے کی وجہ سے انہیں تکلیف اور حرج میں مبتلا کر دیتا ہے یہ ایک نہایت برا اور ناپسندیدہ فعل ہے۔
جس کی مذمت مغرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی آئی ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنْ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ3
’’معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ انہیں کوئی ایسی حدیث لکھئے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ بلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی۔ لوگوں سے بہت مانگنا‘‘
ابن رجب فرماتے ہے!کسی خاص شخص سے اس کے حالات کی تفصیلات کے بارے میں بار بار سوال کرنا انہیں ناپسندیدہ باتوں میں شامل ہے کیونکہ اکثر اوقات یہ بات اس شخص پر ناگوارگزرتی ہے جس سے سوال کیا جاتا ہے اس بدبخت افسوس اور لوگوں کے پوشیدہ حالات اور ذاتی معاملات کے بارے میں سوالات نےکتنی برکتیں اورخیرات چھین لی ہےاور اس نے کتنی عداوتیں بوئی ہے کتنی دشمنیاں اور جھگڑے جنم دیے ہیں اور کتنی مصیبتیں اور رنجشیں پیدا کی ہیں لوگوں ان لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں جو ان کے چھپے ہوئے معاملات کی کھوج لگاتے ہیں ان کی حالات کے ٹو ہ لگاتے ہیں اور ان کے گھر والوں بچوں اور مال و دولت کے بارے میں تجسس کرتے ہیں جو لوگ دوسروں کی خبروں کو چھان بین کرتے ہیں لوگوں کے دلوں سے نفرت کرتے ہیں ان کی طبیعت نافذ کرتی ہیں اور ان کی محفلیں ان سے بیزار ہو جاتی ہیں کہا گیا جو شخص غیر ضروری باتوں کے بارے میں سوال کرتا ہے وہ ایسی باتیں سن لیتا ہے جو اسے ناگوار گزرتی ہے۔
روایت ہے کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جبکہ وہ اپنا جوتا مرمت کر رہے تھے اس نے ان سے پوچھا کہ اس نے بتایا آخر اس نے کہا کہ آپ جوتا کیوں مرمت کر رہے ہیں نیا جوتا کیوں نہیں لیتے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تم اس لیے آئے ہو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس وجہ سے ڈانٹا کہ تم اسی لیے آئے ہو کہ اس نے ایسی بات کہی جو لایعنی اور فضول تھی۔
انسان کا غیر ضروری مشہور ہونے کی ایک اور صورت یہ ہے کہ وہ کسی قوم کے راز یا دو افراد یہ گفتگو کی دخل اندازی کرے جبکہ انہوں نے اسے شامل نہ کیا ہو یا ایسے لوگوں کی باتیں سنیں جو کسی خاص معاملے میں مشورے کر رہے ہو اور اس سے علیحدہ ہو چکے ہوں کیونکہ وہ اسے اس معاملے میں شریک نہیں کرنا چاہتے ہیں
عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَوْمٍ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ أَوْ يَفِرُّونَ مِنْهُ صُبَّ فِي أُذُنِهِ الْآنُكُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ4
’’اور جو شخص دوسرے لوگوں کی بات سننے کے لیے کان لگائے جو اسے پسند نہیں کرتے یا اس سے بھاگتے ہیں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا‘‘
اور الْآنُكُ کا معنی ہے کہ پگھلا ہوا سیسہ
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ 5
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” چغل خور جنت میں نہیں جائے گا ‘‘۔
اور قَتَّاتٌ وہ شخص ہوتا ہے جو چھپ کر لوگوں کی باتیں سنتا ہے جبکہ وہ اس کی موجودگی سے بے خبر ہو پھر انسان کا غیر ضروری کام میں مشغول ہونے کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ لوگوں کے عیب تلاش کریں ان کی پوشیدہ باتوں کی توہ میں لگا رہے ان کی لگوشوں کو ڈھونڈتا پھرے حالانکہ یہ کبھی عمل سے اس کا دین میں کوئی فائدہ نہیں ہے بدترین لوگ جو دوسروں کی وہی تلاش کرنے میں مشغول رہتے ہیں جیسے مکی ہمیشہ زخم والے مقام پر بیٹھتی ہے۔
اور ابن زنزی البغدادی نے کہا وہ لوگوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور عیب تلاش کرتے رہتے ہیں ان لوگوں کی جن میں کوئی عیب نہیں ہوتا تاکہ ہلاکت اور تباہی کی دوا دی جائے اگر انہیں کسی بھلائی کی معلوم ہوتی ہے تو اسے چھپا لیتے ہیں اور اگر برائی کو جان لیتے ہیں تو صرف پھیلا دیتے ہیں اور اگر نامعلوم ہو تو جھوٹ کر لیتے ہیں اور انسان کی خوش نصیبی اور سعادت یہ ہے کہ وہ دوسروں کے عیوب کی بجائے اپنے عیوب میں مشکور رہے شاعر نے کہا اگر کوئی شخص عقلمند اور پرہیزگار ہو تو اس کا تقوی اسے دوسروں کی عیب بیان کرنے سے روک دیتا ہے جیسے ایک بیمار شخص اپنے تکلیف ہوئی ایسا مشغول ہو جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے درد محسو س نہیں کر پاتا۔
ابن حبان نے فرمایا !عقلمند شخص پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کے عیب تلاش کرنے سے بچ کر اپنے کاموں میں لگا رہے کیونکہ جو شخص دوسروں کے بجائے اپنے ساتھ مشغول ہو جاتا ہے وہ اپنے جسم کو راحت دیتا ہے اور دل کو تھکاوٹ سے بچاتا ہے جب بھی وہ اپنے کسی عیب کو دیکھتا ہے تو اپنے بھائی میں اسی طرح کی عیب دیکھ کر اس پر حلقہ گزرتا ہے اور جو شخص دوسروں کے عیبوں پہ لگا رہتا ہے اور اپنے عیوب کو بھول جاتا ہے کہ اس کا دل اندھا ہو جاتا ہے اس کا جسم تھک جاتا ہے اور اس کے لیے اپنے کو چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے اور اس سے عاجز وہ ہے جو لوگ ان کی ملامت کریں تو جو لوگ عیب لگاتا ہے لوگ اس عیب لگاتے ہیں۔
اے مسلمانو !انسان کے غیر ضروری کمے مشہور ہونے کی ایک شکل یہ ہے کہ فضول بات تمہیں پڑھنا جس میں کوئی فائدہ نہیں۔
ابن رجب رحمہ اللہ نے فرمایا !سب سے زیادہ چیز جس پر لایعنی اور بے فائدہ چیزوں کا اطلاق ہوتا ہے وہ زبان کو فضول کلام سے بچانا ہے۔
اللہ تعالی نے مومن کی صفات بیان فرمایا:
وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ6
’’جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں ‘‘۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد ہے:
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا7
’’اور وہ جو جھوٹ میں شریک نہیں ہوتے اور جب بے ہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں‘‘۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد ہے:
وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ8
’’اور جب وہ لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال سلام ہے تم پر، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے‘‘۔
اللَّغْوَ کا مطلب باطل ہے اور اس میں شرک گناہ اور بے فائدہ اقوال اعمال سب شامل ہیں اللہ تعالی نے انہیں جو حکم دیا تھا اس میں مصروف رہنے کی وجہ سے ان لوگوں سے دور رہتے ہیں
اور سہل رحمہ اللہ نے فرمایا !جو شخص بدگمانی کرتا ہے وہ یقین سے محروم ہو جاتا ہے اور جو لا یعنی اور فضل باتیں کرتا ہے تو وہ سچ سے محروم ہو جاتا ہے اور جو فضول باتیں مشہور ہو جاتا ہے پر اس طرح سے محروم ہو جاتا ہے اور جب انسان ان چیزوں سے محروم ہو جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔
اور کہا گیا عقلمند شخص کو چاہے کہ اپنی زبان سے باخبر ہو اپنے معاملات میں مشغول رہے اور اپنی زبان کی حفاظت کرے اور جو شخص اپنی گفتگو کو اپنے اعمال میں شمار کرتا ہے اور کم بولتا ہے سوا اس کے جو فائدہ مندہو۔
اور حسن بن عبید نے فرمایا !جب عقلمند ہو جاتا ہے تو وہ حیا اور تقوی کو اختیار کرتا ہے اور اس کے فضل باتیں کم ہو جاتی ہے۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرماتے ہیں جب انسان خاموش رہنے کا حقوق کو چھوڑ کر فضول باتوں میں پڑ جاتا ہے جس میں کچھ بھی خیر و بھلائی نہیں تو یہ بات اس کے لیے وبال بن جاتی ہے کیونکہ یہ ناپسند عمل ہے اور ناپسندید عمل اس کے درجے کو پھٹا دیتا ہے جب وہ لایلی بات تو وہ میں پڑ جاتا ہے تو اس کی اصلاح میں کمی ا جاتی ہے تو یہ چیز اس کے لیے وبال بن جاتی ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نےفرمایا !جو چاہتا ہے کہ اللہ اس کے دل کو منور کر دے اسے چائے کو لائین باتوں کو چھوڑ دے۔
اور آپ نے بھی فرمایا !تین چیزیں عقل میں اضافہ کرنی ہیں علماء کی صحبت ند لوگوں کے مجلس اور باتوں سے اجتناب اور جو شخص ایسی باتوں اور کاموں کو ترک کر دے جن کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس کی کوئی فائدہ ہے تو اس نے اپنے نفس کو بچا لیا اور جو چاہتا ہو کہ اس کے گناہ ہلکے ہو جائیں گناہوں کی بوجھ میں کمی ہو جائے دل کو سکون اور راحت حاصل ہو اس کا ذکر خیر ہو اور عمل درست ہو تو اس کوچائیے کہ وہ لایعنی چیزیںمیں مشغول ہونےکو ترک کر دے
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا !اگر تم اپنے دل میں سختی اپنے جسم میں کمزوری اور اپنے رزق محرم میں محسوس کرو تو جان لو تم نے ایسی باتیں کی ہیں جو تمہارے لیے بے فائدہ تھی
اور زید بن اسلم سے مروی ہےانہوں نے فرمایا ابو دجانۃ رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ لوگ داخل ہوئے جب وہ بیمار تھے اور ان کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا لوگوں نے پوچھاآپ کے چہرےپریہ خوشی کیسی ہے انہوں نے فرمایا میرے اعمال میں دو چیزیں ایسی ہیں جن پر مجھے سب سے زیادہ اعتماد ہے پہلے یہ ہے کہ میں کبھی ایسی بات نہیں کرتا تھا جو میرے لیے بھی فائدہ ہو اور دوسری یہ ہے کہ میرا دل ہمیشہ مسلمانوں کے لیے صاف رہا ۔
اے مسلمانو !انسان کے غیر ضروری کام میں مشغول ہونے کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ علماء سے ایسے مسائل واقعات اور حادثات کے بارے میں سوالات کریں جو غیر ضروری ہیں اور اسی طرح مال تکلف اور غلو کی بنیاد پر ایسے امور کے بارے میں بیجا کثرت سے سوال کرے جس کی ضرورت پیش نہیں آئی ہو نے ۔
ابن حجرنےفرمایا سلف کی ایک جماعت سے ثابت ہے کہ ایسے سوالات پسند کرتے تھے جن کا واقعہ ان عادت ناممکن ہو یا بہت نادر ہو وہ اس سے نہ پسند کرتے تھے کیونکہ اس میں تکلف اور گمان سے بات کرنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور ایسا کرنے والا اکثر خطا کا شکار ہو جاتا ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام عکر مہ سےفرمایا جائے لوگ کوفتوی دیجیے جو آپ کے پاس بامقد سوال لے کر اائے اسے فتوی دو اور جو شخص گیا سوال کریں اسے فتوی مت دو کیونکہ اس سے آپ لوگوں کے دو تہائی مسائل کا بوجھ اپنے اوپر سے ہلکا کر لو گے ۔
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں !جب اللہ تعالی کسی بندے کے ساتھ خیر بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے راہ راست پر گامزن کر دیتا ہے اور اس کے سوالات بامقصد انورکے متعلق بنا دیتا ہے اور اس کا علم اس کے لیے نافع بنا دیتا ہے۔
اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے جب کسی مسئلے کے متعلق پوچھا جاتا تو فرماتے ہیں !کیا ایسا واقع ہوا ہے اگر وہ کہے تھے کہ ایسا وقت نہیں ہوا ہے فرماتے ہیں کہ اسے چھوڑ دو جہاں تک کہ واقع ہو جائے ۔
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں دینی مسائل کا فہم اور علمی سوالات کرنا تب ہی قابل تعریف ہے جب عمل کے غرض سے ہوں
اور ابن بطہ نے لوگوں کے بارے میں فرمایا! جو تکلف کے ساتھ اسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں جو نہ واضح کتاب میں موجود ہو اور نہی صلب صالحین اس کی نظر میں ملتی ہووہ شخص جس نے اپنی نگاہ میں اس کام میں سر کی اور دل میں اس کو لگا دیا جس کی مثال نہیں ہے جیسے کوئی سورج کو دیکھ کر اس کی حقیقت جانے کی کوشش کریں یا کوئی سمندر کی تارییخوں میں کود کر اس کی تہ تک پہنچنے کاسوچےایسا شخص جس قدرآگے بڑھے گا اتنا ہی دور ہوتا جائے گا اور جتنا اس میں غور فکر کرے گا اتنا حیران رہ جائے گا لہذاعقل مندکو چاہیے کہ وہ کسی چیز قبول کرے جو اس کے لیے نفا مند ہو اور اپنے نظر و فکر کو ایسی باتوں پر نہ لگائے جس کا اس کو مقلف نہ بنائے ہو اور ان باتوں پیچھے نہ پڑیں جن کے لیے میں حاصل کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ امن و شانتی والے سیدھے راہ کارائی بنے کھلی اور کشادہ کو پکڑے واضح دلائل سیدھے سیدھےصاف اور مل کو لازم پکڑے اور جو اس کے مخالف چلے اور اس سے بھر کرایسی چیز کو ہقیرسمجھے جو اس کو حکم ددیا گیا ہے تو اس چیز کی مخالفت کرے اس منع کیا گیا ہے۔
اے مسلمانو اپنے نفسوں سے جہاد کرو تاکہ آدب و سلوک کے اس عظیم اصولوں پر کار سکو اور جو شخص اپنے نفس کی تربیت غیر مفید چیزوں کو چھوڑنے پر کرے گا تو اسے اللہ تعالی اپنی پناہ میں بھی لینے گا اور اس کی مراد کو بھی پوری کرئے گا۔
عرق عجلی فرماتے ہیں برسوں سے ایک چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ابھی تک حاصل نہیں کر سکا اور اس کو تلاش کرنے کا پیچھے بھی نہ چھوڑوں گا لوگوں نے پوچھا وہ کیا چیز ہے فرمانے لگےلایعنی چیزوں سےدور رہنا۔
اور ابو لسن فرماتے ہیں تقوی والا اصل یہ ہے کہ انسان اپنے دل کی تربیت کرےاور لایعنی چیزوں کو چھوڑ دے جب بھی دل سے فائدہ بڑھ جائے تو اسے با مقصد چیزوں کی طرف لوٹا دے یہ سخت ترین اور افضل جہاد ہے جو انسان کو مشغول رکھے گا اللہ تعالی مجھے اور آپ سب ان لوگوں میں شامل فرمائے جو بامقصد سوچتے ہیں اور لایعنی چیزوں میں مشغول نہیں ہوتے ہیں اور ان کاموں کے اس کے در پہ ہوتے ہیں جو انہیں اللہ کا قریب کر دے میں نے جو کہا تم نے سنا میں اپنے لیے ہر تمام مسلمانوں کے لیے ہر گناہ و غلطی سے اللہ استقبال کرتا ہو تم میں سے استغفار کرو اللہ تعالی استغفار کرنے والوں کو کامیابی کی چاہے کہنے۔
خطبہ ثانی:
ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو ہر اس شخص کو پناہ دیتا ہے جو اس کا طلب گار ہوتا ہے اور میں گواہ یہ تو اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہوتا ہے اس کو کوئی شریک نہیں جو بیماریوں کے علاج سے مایوس لوگوں پر احسان کرتا ہے اور علاج کا بندوبس کرتا ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پربے شمار رحمت اور درود و سلام نازل ہو ۔
امابعد:
مسلمانوں اللہ سے ڈرو اور اس کی نگرانی کااحساس اپنے دل میں ہمیشہ زندہ رکھو اس کی اطاعت کرو اور اس سے ڈرو۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ9
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہوجاؤ‘‘۔
مسلمانو غیر مفید چیزوں میں مشغول ہونے کی صورت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو فتوی اور احکام مسائل کے مقام پر فائز کر لے اور شرعی علوم میں دخل اندازی شروع کر دے جب تو اس کی اہل نہ رکھتا ہو بغیر علم کے دینی مسائل میں کلام کرے ولا علم باتیں کریں اور بغیر علم کے فتوی دے ۔
شیخ الاسلام بنت فرماتے ہیں! جو شخص دین میں بغیر علم کی گفتگو کرے وہ جھوٹا ہوتا ہے اگرچہ وہ جھوٹ بولنےکی امید نہ رکھتا ہو ۔
مسلمانو !اپنے قلوب اور جوار کو ایسے امور سے بچا کر رکھے جو تمہیں نفس بنا دے کیونکہ انسان جب ایسے کام میں مشہور ہو جاتا ہے جو اس کے لیے نفرت نہ ہو تو نفع بخش سے وہ روک دیا جاتا ہے پھر اس کا خسارہ اور ناکام یقینی اور ندامت پیشیمانی ہو جاتی ہے۔
اما م ابن قیم رحمہ اللہ فرماتےہے! جب انسان کی زبان بے فائدہ اور لغو باتوں میں مشغور؎ل ہو جائے پھر انسان فائدہ مند باتیں نہیں کر پاتا جب تک انسان اپنے زمانوں کو بےہودہ اور لغو باتوں لو پاک و صاف نہ کر لے اسی طرح انسان کے اعضاء جوار ہ اطاعت الہی سے عاری عمر میں مشغول ہو جائے تو انہیں اس وقت اطاعت کے کاموں میں نہیں لگا سکتا جب تک کہ وہ بے فائدہ کاموں سے انہیں بچا نہ لے اسی طرح جو دل اللہ کی محبت چاہت انسیت اور اس سے ملاقات کے شوق سے عاری کا موں میں مگن ہو جائے تو اس وقت اللہ کی محبت چاہت الفت اور ملاقات کے شوق میں اسے نہیں لگا سکتا جب تک اسے غیر اللہ کے تعلق سے صاف نہ کر لے اور اگر زبان اللہ کا ذکر کے علاوہ دیگر کام میں مشغول ہو جائے تو پھر اس وقت کا ذکر الہی کی طرف مائل نہیں ہوں گے جب تک اسے غیر اللہ کے ذکر اور خدمت سے الگ نہ کرنے جائے اور جب دل مخلوقات اور غیر نافع علوم میں مشغول ہو جائے تو اس میں اللہ تعالی سے تعلق اس کے اس میں اسماوصفات اور احکام کے معرفات کے جوابات نہیں ہے اور اس کا راضی ہے کہ دل کی سماعت کانوں کی سماعت کے مانند ہے جب وہ اللہ کی باتوں کے علاوہ اپنی طرف سے کان لگا کر مائل ہو جائے تو اس میں کلام الہی کی طرح میلان اور اس کے فہم کی صلاحیت باقی نہیں رہتی بالکل ایسے ہی جب کوئی غیر اللہ کی محبت کی طرف مائل ہو جائے تو اس میں محبت الہی کی طرف میلان باقی نہیں رہتا اور دل کا معاملات زبان کی طرح ہے جب وہ ذکر الہی کے علاوہ کسی اور چیز مشہور ہو جائے
حدیث میں آیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَأَنْ يَمْتَلِئَ جَوْفُ أَحَدِكُمْ قَيْحًا، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمْتَلِئَ شِعْرًا10
’’سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تم میں سے کسی کا پیٹ پیپ سے بھر جائے یہ اس کے لیے بہتر ہے کہ شعروں سے بھرے‘‘
اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے انسان کے اندر اشعار بھر سکتا ہے اسی طرح شکوک و شبہات خیالات اور ایسے تخمینوں سے بھی بھر جاتا ہے جن کا وجود نہیں ہوتا اسی طرح غیر نافع علوم تنز و مزاح ہنسی مزاق اس سے کہانیوں وغیرہ سے بھی بھرا جاتا ہے اور جب دل ایسی چیزوں سے بھر جاتا ہے پھر قرآن کی سچائیاں اور وہ علوم جو دل کے کمال اور اس کی سعادت کا باعث بنتے ہیں اس کے لیے دل میں جگہ باقی نہیں رہتی اور نہ ہی اسے قبول کرتا ہے پھر وہ اسے چھوڑ کر اگے گزر جاتے ہیں اور ایسی جگہ جاگزی ہو جاتے ہیں جہاں انہیں کوئی جگہ نہیں ملتی کہا گیا اپنے دل کو ہمارے لیے ہمارے سوا ہرچیز سے پاک کر تاکہ تم ہمیں پا سکو کیونکہ ہمارے دروازے صرف اس کے لیے کھلے ہیں جو خود پاک رکھے ہدایت کے راز دکھانے والے ہر تمام مخلوق کی شفاعت کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے کیونکہ جو ان پر ایک مرتب بھیجے گا۔
اے اللہ ہمارے نبی رحمت نازل فرما اے اللہ خلفا راشدین اونچی شان اور مرتبائی والے ہدایت یافت ائمہ ابوبکر عمر عثمان اور علی اور اپ کے تمام صحابہ اصحاب سے اور ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا اے کرم کرنے والے اے اللہ اسلام اور مسلمان غلبہ عطافرما شرک مشرکین کو ذلیل و خوار کردین اسلام سےدشمنی رکھنےوالوں کونیست نابود کر دے ہمارے ہاں مسلمانوں کو ملک کے خلاف سازش کرنے والوں کی سازشوں اور مکاروں کی مکار یوں سےشمنوں کی عداوت اور حسدکرنے والے کے حسد سے ہمیں محفوظ فرما ۔
اے میری پروردگار اس شہر کو امن والابنا دے اے اللہ ہمارے امام اور حاکم اور خادم حرمین شریفین کواس چیزکی توفیق کے عطافرما جس سے تومحبت کرتا ہے اور جس سے تو پسند کرتا ہے اے اللہ ان کو ہارون کے والی حد کو اور تمام مسلمان حکمران اسی کافر فرما اس میں اسلام کی شان شقت ہو۔
اے اللہ ہمارے بیماریوں کی شفا دے مصیبت زد ہکو عافیت دے اے اللہ ہمارے مرنے والوں پر رحم فرما اے اللہ ہمارے فلسطین بھائیوں کو ظالم و جابرو اور ناقائد اپنے دمانے والوں کو قتل فرما اے اللہ مسجد اقصی کو غاصب یہودیوں کی گندگی سے پاک کر دے فلسطے میں ہمارے بھائی کی حفاظت فرما ان کے کوجلد نصیب فرما ان کی لگزیشوں کو معاف کر دے ان کی تکلیف کو دور کر ان کے قیدوں راہ نصب فرما ان کی بیماریوں کو شفا دے اے اللہ سعادت مندی کے ساتھ ہماری زندگیوں پر خاتمہ فرما ہماری امیدوں اور تمناؤں کو پورا فرما ہمیں صبح شام عافیت سے سرفراز فرما جنت کو ہمارا آخری منع بنا دے اپنے فضل احسان کے ساتھ ہمارے اعمال قبول فرما یقینا تو دعا کو قبول کرنے والا ہے خیرات برکت بنانے والا ہے اے اللہ ہماری پکار کو سن لے ہماری دعا قبول کر لے اے کریم و عظیم ہر رحم کرنے والے۔
خطبہ جمعہ: مسجد نبوی
04 ذی القعدہ 1446ھجری بمطابق 2 مئی 2025 عیسوی
فضیلۃ الشیخ: صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ
______________________________________________________________________________________________________________________