حسن اخلاق

پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لیے ہیں جس نے اس امت کو رواداری پر مبنی پاکیزہ شریعت سے نوازا ہے اور میں اس کی ظاہری اور باطنی نعمت پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں  کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اوراسی گواہی سے ہم دنیا و آخرت کی نجات کی امید رکھتے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں اعلی اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا۔ رب تعالی ان پر رحمتیں نازل فرمائے ، جس طرح انہوں نے ہمیں نور کی روشنی سے منور فرمایا اور ہدایت کا راستہ دکھایا۔

 ہر ہر قدم پر اللہ سے ڈرتے رہو ۔ ارشاد باری تعالی ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہ وَ لَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ

(سورہ آل عمران : 102)

”اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنا چاہئے اور تمہاری موت آئے تو اسلام پر آئے۔

 مسلمانوں! سب سے عظیم ترین چیز اخلاق ہے۔ مال دار کی زینت ہے۔ جس کا اخلاق بہتر ہوتا ہے اس کے رزق میں فراوانی ہوتی ہے۔ جس کا اخلاق برا ہوتا ہے اس کی جدائی سے لوگ خوش ہوتے ہیں۔ کتنے کم تر انسان اخلاق کی بدولت بلند تر ہو جاتے ہیں، ایسے ہی بلند شخصیات اپنے اخلاق کی بدولت لوگوں کی نظر میں حقیر بن جاتے ہیں ۔ جن کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں وہ دوسروں کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

“جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، اگر تم سے برائی صادر ہوجائے تو نیکی کرو ، وہ تمہاری برائی مٹا دے گی اور لوگوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آو”۔

آپ ﷺ کی صورت اور سیرت دونوں ہی خوبصورت تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلی ترین اخلاق کا مالک بنایا تھا۔ عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ  دعا فرماتے :

” جس طرح آپ نے ہماری خلقت کو خوبصورت بنایا ہمارے اخلاق کو بھی خوبصورت بنا”۔

  اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا: جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو فرماتے کہ :

وَجَّهْتُ وَجْهي لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأرْضَ حَنِيفًا، وَما أَنَا مِنَ المُشْرِكِينَ، إنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي، وَمَحْيَايَ وَمَمَاتي لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ، لا شَرِيكَ له، وَبِذلكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ المُسْلِمِينَ، اللَّهُمَّ أَنْتَ المَلِكُ لا إلَهَ إلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي، وَاعْتَرَفْتُ بذَنْبِي، فَاغْفِرْ لي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إنَّه لا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لأَحْسَنِ الأخْلَاقِ، لا يَهْدِي لأَحْسَنِهَا إلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا، لا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ كُلُّهُ في يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ ليسَ إلَيْكَ، أَنَا بكَ وإلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إلَيْكَ.

(صحيح مسلم: 771)

“میں نے اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ، میں تمام ادیان سے کٹ کر سچے دین کا تابعدار اور مسلمان ہوں، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اللہ کے ساتھ  دوسروں کو شریک ٹہراتے ہیں ، میری نماز،  میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے ، جو پوری کائنات کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا تابع دار ہوں۔

اے اللہ تو بادشاہ ہے، تیرے سوا میرا کوئی اور معبود نہیں، تو میرا رب ہے، میں تیرا بندہ ہوں، میں نے  اپنے نفس پر ظلم کیا، مجھے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں  کا احساس ہے ، میرے گناہوں کی  مغفرت فرما، تیرے سوا گناہوں کی مغفرت کرنے والا کوئی نہیں ہے ، مجھے حسن اخلاق کی ہدایت فرما، اخلاق حسنہ کی جانب تو رہنمائی کرنے والا ہے، بری عادتوں اور بدخلقی کو مجھ سے دور فرما، صرف تو ہی ان بری عادتوں کو دور کرنے والا ہے۔ میں حاضر ہوں تیرے  حکم کی تعظیم کے لیے۔ تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں ، تیری طرف برائی کی  نسبت نہیں کی جاسکتی، میں  تیرا ہوں اور میرا ٹھکانہ بھی تیری طرف ہے، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں۔

قرطبی فرماتے ہیں :

اللہ نے اس سلسلہ میں اپنے نبی ﷺ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا چنانچہ اپ کے اندر وہ سارے اخلاقی کمالات یکجا کردیے گئے جو اس کائنات میں مختلف لوگوں میں بٹے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ کو اللہ نے یہ کہہ کر خطاب کیا کہ بیشک آپ ﷺ بلند اخلاق پر فائز ہیں ۔

شاعر کہتا ہے :

اخلاق و کردار اس باغ کی مانند ہے جس سے نسیمِ سحر  معطر ہوتی ہیں، پکے ہوئے تر و تازہ پھل برآمد ہوتے ہیں ، ایک حکیم نے بیٹے سے کہا : اے میرے فرزند! ادب و تہذیب  بہترین جائیداد، حسن اخلاق  بہترین دوست، توفیق الہی بہترین رہنما اور محنت و جفا کشی نفع بخش تجارت ہے اور کوئی بھی مال عقل سے زیادہ فائدہ مند نہیں، کوئی بھی مدد گار نیک مشورے سے زیادہ بھروسے مند نہیں اور خود پسندی سے زیادہ خوف سے کوئی خلوت نہیں اور جہالت سے بڑی کوئی محتاجگی نہیں اور کم عقل سے بڑی کوئی بیکار چیز نہیں  ۔

احنف  نے کہا :

کیا میں تمہیں ایسی خوبی کے بارے میں نہ بتلاؤں جس میں کسی بھی طرح کی کمی نہ ہو، نرم اور خوش اخلاق ہونا اور بری باتوں سے باز رہنا اور کیا میں تمہیں سب سے بڑی بیماری سے خبردار نہ کروں ، برے اخلاق کا ہونا اور بد زبانی کرنا ۔ مسلمانوں! نیک اخلاق پختہ عقل کا نتیجہ ہے ، جن کی گفتگو نرم ہوتی ہے اور صحبت و رفاقت عمدہ ہوتی ہے۔ ان کی محبت دلوں میں بیٹھ جاتی ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

إنَّ مِن أحَبِّكُمْ إلَيَّ أحْسَنَكُمْ أخْلَاقًا

(صحيح البخاري: 3759)

” “میرے نزدیک تم میں  سب سے محبوب  و مکرم  وہ شخص ہے جو سب سے بہترین اخلاق سے آراستہ ہو

مسلمانوں ! حسن اخلاق کا معنی ہے  کہ مسلمان کے حقوق ادا کرنا، احسان و بھلائی کرنا ، فرمانبرداری کرنا ، صلہ رحمی کرنا ، دل کو صاف رکھنا ، خندہ پیشانی سے ملنا ، راست گوئی  اور انصاف سے متصف ہونا، عذر قبول کرنا ، عفو و درگزر کرنا، نرمی و آسانی پیدا کرنا ، برے اخلاق سے دُور رہنا ، مکارم اخلاق سے آراستہ ہونا، لوگوں کی باتوں میں نہ پڑنا، ان کی ٹوہ میں نہ لگنا ، ان کے معاملات کو نہ ٹٹولنا ،ان کے اقوال و افعال بیان کرتے نہ پھرنا ، ان کے راز و بھید معلوم کرنے کے لیے تجسس نہ کرنا، اسی طرح سخت کلامی، بد خلقی، سنگ دلی ، سرد مہری، جلد بازی، تشدد اور غیض وغضب سے دور رہنا، رشتہ کاٹنے والوں سے رشتے جوڑنا ، محروم کرنے والوں کو عطا  کرنا، ظلم کرنے والوں کے ساتھ عفوو درگزر کا معاملہ کرنا اور ان کی طرح بد خلقی  کا جواب نہ دینا بھی حسن اخلاق ہے۔

 ارشاد باری تعالی ہے:

 خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

(سورہ اعراف :199)

 اے نبی(ﷺ) ! آپ  درگزر کرنے کا رویہ اختیار کیجیے ، نیک  کاموں کا حکم دیجیے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کیجیے۔

جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا  :

قرآن کریم میں کوئی بھی آیت اس آیت سے زیادہ مکارم اخلاق کو شامل نہیں ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حسن اخلاق ان تین خصلتوں میں ظاہر ہوتا ہے ،محرمات سے اجتناب کرنا ،حلال رزق تلاش کرنا اور اہل و عیال پر خرچ کرنے میں وسعت سے کام لینا ۔

امام احمد سے حسن اخلاق کے بارے سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا: غضبناک نہ ہو اور نہ ہی حدت و تیزی دکھائے۔

قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا:

” حسن اخلاق کا معنی ہے لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ان کے سامنے مسکرانا ، محبت و الفت کا اظہار کرنا ، شفقت و ہمدردی کے ساتھ پیش آنا،  ان کی اذیت کو برداشت کرنا ، حلم و برد باری کا اظہار کرنا، ان کی طرف سے تکلیف دہ امور پر صبر کا دامن تھامنا، کبر و گھمنڈ اور زبان درازی سے باز رہنا ، سختی اور غیض و غضب سے دور رہنا اور ان کی غلطیوں کا مواخذہ نہ کرنا ، اعلی و عمدہ اخلاق کا حامل انسان نہ کسی بے وقوف سے الجھتا ہے اور نہ ہی کسی جھگڑالو انسان سے بحث کرتا ہے اور نہ اپنے ساتھیوں کی سرزنش کرتا ہے۔ بیمار پڑنے پر اگر کسی نے عیادت نہیں کی، سفارش کرنے پر اگر اسے ٹھکرا دیا گیا، مجلس میں آ گے نہیں بڑھایا گیا، اس نے بات کی مگر اس کی بات نہیں سنی گئی، اعلی و عمدہ اخلاق کا حامل انسان ان باتوں سے نہ چراغ پا ہوتا ہے اور نہ ہی طیش میں آتا ہے اور نہ ہی اپنے بھائیوں کے لیے اپنا اخلاق بدلتا ہے اور نہ وہ عام لوگوں اور ہم نشینوں کے سامنے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ فلاں نے بے رخی برتی، فلاں نے ان کی عزت نہیں کی، فلاں نے ظلم کیا  بلکہ ان سب کے بدلے وہ ایسا شریف و بلند اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے  جس میں حکمت و بصیرت، رحمت و شفقت اور تسامح اور عفو و درگزر عیاں ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ معافی مانگنے والے کو درگزر کردیا کرتے تھے، لوگوں کی سخت روی، بدسلوکی اور ان کی لرزشوں پر صبر کرتے تھے۔

انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا، آپ ﷺ کے جسم پر موٹے کنارے والی نجرانی چادر تھی، اتنے میں ایک دیہاتی شخص آیا اس نے آپﷺ کی چادر کھینچی، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے شانے کو دیکھا کہ اتنے زور سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے سے نشان پڑ گئے تھے۔ اس شخص نے کہا: اے محمد(ﷺ) ! اللہ کا مال جو آپکے پاس ہے اس میں سے مجھے دینے کا حکم کریں۔ اس پر آپ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دیئے۔ آپﷺ نے اسے مال دینے کا حکم دیا۔ ایسے اخلاق کو سلام ہو جو ہرعیب و عار اور غلطیوں سے مبرا ہو۔

عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپﷺ نہ بد زبان تھے، نہ گندی باتوں اور کاموں میں پڑتے تھے، آپﷺ فرماتے تھے : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے ۔

نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ سے نیکیوں اور گناہوں کے بارے میں سوال کیا ، آپﷺ نے فرمایا: نیکی حسن اخلاق کا نام ہے، اور گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تمہیں یہ پسند نہ ہو کہ اور لوگوں کو اس کی خبر ہو ۔

مسلمانوں! مومن اپنے اخلاق، اعلی طبیعت، حسن معاشرت اور ایذ ارسانی سے دور رہ کراعلی و ارفع مقام و مرتبہ اور بلند درجات تک رسائی حاصل کرلیتا ہے ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  کا فرمان ہے کہ مومن اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے روزے دار اور تہجد گذار کا درجہ پا لیتا ہے ۔

ابو امامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے مروی  ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں گھر دیے جانے کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے۔ میں  اس شخص کے لیے جنت کے درمیان میں گھر کا ضامن ہوں جو مذاق میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور اس شخص کے لیے بھی جنت کے بالائی حصے میں گھر کی ضما نت دیتا ہوں جو اچھے اخلاق کا مالک بن جائے ۔

 أبو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

قیامت کے دن مومن بندے کے میزان میں خوش اخلاقی سے زیادہ بھاری  کوئی چیز نہ ہوگی، یقینا اللہ تعالی ٰبے حیا اور فحش گو سے سخت نفرت کرتا ہے ۔

ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو سب سے زیادہ لوگوں کو جنت میں داخل کرے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا ڈر اور اچھے اخلاق ۔ پھر آپﷺ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو لوگوں کو سب سے زیادہ جہنم میں داخل کرے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : زبان اور شرم گاہ ۔

اللہ تعالی مجھےاور آپ سب کو اچھے اخلاق اور کشادہ رزق والے لوگوں میں شامل فرمائے۔ جو میں نے بیان کیا اور جو آپ نے سماعت فرمایا، میں اس پر اللہ تعالی سے استغفار کرتا ہوں ، آپ بھی اسی سے استغفار کیجئے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو بھی اس سے پناہ لیتا ہے اسے پناہ دیتا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو ان کی اتباع کرے گا وہ ہدایت یافتہ ہوجائے گا اور جو ان کی نافرمانی کرے گا وہ گمراہ و برباد ہوجائے گا ۔ اللہ تعالی ان پر اور ان کے ساتھیوں پر رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے ۔

اے مسلمانوں! اللہ کا تقوی اختیار کرو، اس کی نگرانی کا احساس اپنے دل میں قائم رکھو ، اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو اور اس کی نافرمانی نہ کرو۔ اے لوگوں! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

مسلمانوں! بد اخلاقی بد تہذیبی، بد خوئی ، محرومی  و ناکامی کی علامت و نشانی ہے۔ جس شخص کا اخلاق برا ہو، انتہائی متکبر ہو، عجب و خود پسندی کا شکار ہو اور لوگوں کو اپنے سے کم تر اور حقیر سمجھتا ہو ، ایسے شخص  کا مقام گر جاتا ہے، ندامت و رسوائی اس کا مقدرر بن جاتی ہے، اس کی عزت و کرامت جاتی رہتی ہے، بد اخلاق ، بد شرست اور سخت مزاج انسان جو لوگوں کے ساتھ بد خلقی اور تکبر کے ساتھ پیش آتا ہے، لوگوں کو تکبر سے دیکھتا ہے اور ان کے سامنے اترا کر چلتا ہے ، نہ ان کے سامنے مسکراتا ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے اور نہ ہی کسی کے مقام و مرتبے کا خیال کرتا ہے،  ایسا آدمی اللہ سے دور ہوجاتا ہے اور لوگوں میں بھی مبغوض بن جاتا ہے۔

عبدالرحمن ابن مہدی فرماتے ہیں کہ آدمی جس طرح حرام سے بچتا ہے ٹھیک اسی طرح گھٹیا اخلاق سے بھی بچنا چاہیے۔

ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

بسا اوقات آدمی کے اندر کئی اچھی  خصلتیں ہوتی ہیں لیکن ایک بری خصلت ساری نیک خصلتوں کو برباد کردیتی ہے ۔

مسلمانوں! اخلاق فطری اور جبلی شے ہے لیکن اس خوش اخلاقی کا اظہار سعی ، کوشش ، ریاضت اور مجاہدوں کی صحبت کے ساتھ حاصل  کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ اختلاط اور معاشرت اور ہم نشینی کے ذریعہ بھی اسے حاصل کیا جاتا ہے اور تہذیب و اصلاح کے ذریعے سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ خوش اخلاقی انسان کی مستقل طبیعت و عادت بن جاتی ہے۔ 

شاعر کہتا ہے : میں پوری رغبت سے شریف بننے کی کوشش کرتا ہوں جو بھی  شرف و کرم کے اوصاف کو شمار کرے گا وہ میری اس عادت، میرے والد کی تربیت جیسی تربیت کا خواہاں ہوگا اور جس کی تادیب اور تربیت نہ کی گئی ہو وہ حقیقت میں اخلاق سے نابلد ہوتا ہے۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :

جو شخص سوال کرنے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالی اسے سوال کرنے سے محفوظ رکھتا ہے، جو شخص صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالی بھی اسے صبر عطا کرتا ہے اور جو شخص بے نیاز ہونے کی کوشش کرتا ہے اللہ تعالی اسے بے نیاز کردیتا ہے۔

 کسی شاعر نے کہا ہے کہ  شریف بننے کی ضرور کوشش کرو تاکہ تم بہترین اخلاق کے عادی بن جاو، کیونکہ کوئی بھی شریف انسان کوشش کے بغیر شریف نہیں بن سکتا ۔

 اس سے ان لوگوں کا قول بالکل غلط ثابت ہوجاتا ہے جو کہتے ہیں کہ مزاج و طبیعت میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، اگر اخلاق و عادت کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے اور انہیں سنوارنے کی کوشش نہ کی جائے تو پھر نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر شخص اپنی عادات میں پروان چڑھے گا اور اپنی پوری زندگی برے اخلاق کا حامل بن کر رہ جائے گا۔ غلط رویے اور برے  اخلاق اور طبی عادتوں میں تبدیلی لے آنا انسان کے لیے ممکن ہے، لہذا لوگوں! اچھے اور بلند و بالا اخلاق اپنانے کی کوشش کرو اور برے اخلاق اور کمتر سے دور رہو ۔

جو رہبرِ کونین ، شافع محشر جناب محمد ﷺ پر درود بھیجے گا اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجے گا ۔ اے اللہ! ہمارے بنی ﷺ پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما جنہوں نے ثواب و رحمت کی خوشخبری سنائی اور عقاب و سزا سے ڈرایا۔ جو حساب و کتاب کے دن سفارش کریں گے اور ان کی سفارش قبول ہوگی۔ اے اللہ ہمارے خلفائے راشدین ابوبکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہوجا جو ہدایت یافتہ، بڑے عزت و شرف والے تھے اور اسی طرح آپﷺ کی آل اور دیگر صحابہ سے بھی راضی ہوجا اور ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا۔ اے عطا اور بخشش کرنے والا۔ اے اللہ!  مسلمانوں کو کلمہِ عزت عطا کر   ، مشرکوں کو ذلیل و رسوا کردے اور دشمنانِ دین کو نیست و نابود کردے۔ ہمارے ملک سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک کی مکاروں اور چال بازوں  کے مکر و فریب سے اور حاسدین اور بد خواہوں سے  حفاظت فرما۔ یارب العالمین! ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما ، ہماری سر حدوں کی حفاظت فرما۔  اے اللہ! جو ہم میں بیمار ہیں انہیں شفا دے اور جو مصیبت زدہ ہیں ان کی مصیبتیں دور فرما۔ جو وفات پاگئے ہیں ان پر رحم کر۔ یا کریم یا عظیم، اے اللہ! فلسطینیوں کی تنگی کو کشادگی میں بدل دے اور ہر طرح کی پریشانی سے نکال دے۔ ہر بلا سے نجات دے، اے اللہ! تو ہمارا معبود ہے تو ہی ہماری پناہ گاہ ہے اور تجھ ہی پر ہم توکل کرتے ہیں، تو ان کی عزت و آبرو اور جانوں کی حفاظت فرما۔  انہیں انہی کے دشمنوں پر غالب کردے جو تیرے بھی دشمن ہیں۔ اے  دعا  قبول کرنے والے! اے اللہ ! مسجد اقصی کو یہودیوں کی نجاست سے پاک کر، جو اس پر ناجائز طریقے سے قابض ہیں۔ اے اللہ! ہماری دعا کو قبول فرما  اور ہماری پکا ر کو سن لے۔

یا کریم یا عظیم یا رحیم

خطبة الجمعة، المسجد النبوی ﷺ  

فضیلۃ الشیخ: صالح بن محمد البدیر حفظہ اللہ تعالی

16 جمادی الاخری 1445 بمطابق 29 دسمبر  2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

  فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ

مسجد نبوی کے ائمہ و خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ صلاح بن محمد البدیر کا ہے جو متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں اور امام مسجد نبوی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ جج بھی ہیں۔