یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا بیت المقدس کے ساتھ جس طرح نظریاتی ، دینی ، تاریخی اور تہذیب و ثقافت کا مضبوط تعلق اور رشتہ ہے اسی طرح جہاد اور فتوحات کا بھی ایک عظیم رشتہ ہے جو ایک طویل اور قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔ انبیاء بنی اسرائیل نے بھی بیت المقدس کی آزادی کیلئے جہاد کیا ہے ۔ تفاسیر ، احادیث نبویہ ، سیرت اور تاریخ کے مطالعے سے مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ جہاد اور فتوحات کے رشتے نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں ۔ درج ذیل سطور میں مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ جہاد اور فتوحات کے رشتے کے چند پہلوؤں کو بیان کرنا مقصود ہے ۔
یوشع بن نون علیہ السلام اور فتح بیت المقدس
حضرت موسی علیہ السلام اور بنو اسرائیل جب فرعون مصر اور اس کی افواج سے نجات پا کر فلسطین کی طرف جا رہے تھے ، تو حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا تھا :
يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللہُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنقَلِبُوا خَاسِرِينَ
(سورۃ مائدہ: 21 )
اے میری قوم! اس پاک سر زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے مقدر کر رکھی ہے اور پیچھے نہ ہٹو ورنہ نقصان اٹھا کر لوٹو گے”
اس وقت فلسطین اور بیت المقدس پر عمالقہ حکمران تھے جو ایک زبردست قوم تھے ، لہذا اس مقدس سرزمین میں داخلے کے لئے ان کے خلاف جہاد کرنا ضروری تھا لیکن بنی اسرائیل اس پر آمادہ نہ ہوئے اور حضرت موسی علیہ السلام سے کہنے لگے : تم اور تمہارا رب دونوں جا کر ان سے لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کیا تو ارشاد ہوا کہ یہ پاک سرزمین ان پر چالیس سال تک حرام کر دی گئی ہے ، چنانچہ وہ پیغمبر کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے چالیس سال تک وہیں سرگرداں رہے اور بیت المقدس میں داخل نہ ہوسکے ۔ اس دوران ان کی نافرمانی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں متعدد انعامات سے نوازا ، مثلاً بادلوں کا سایہ ، من و سلوی کا نزول ، پتھر سے بارہ چثموں کا اجرا وغیرہ ۔ اسی اثنا میں حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام بھی وفات پا گئے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو ان کی طرف نبی بنا کر بھیجا ، چنانچہ وہ بنی اسرائیل کو لیکر فلسطین روانہ ہوئے ، عمالقہ کی بہادر فوج کے خلاف انہوں نے جہاد کیا اور بالآخر بیت المقدس کو فتح کر لیا ۔ 1
چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما حُبِسَتِ الشمسُ على بَشَرٍ قطُّ ، إلَّا على يُوشَعَ بنِ نُونَ لَيالِي سارَ إلى بَيتِ المَقْدِسِ
(السلسلۃ الصحيحۃ: 2226 )
ترجمہ: بیشک سورج کسی بشر کے لیے کبھی بھی نہیں روکا گیا، سوائے یوشع بن نون کے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ بیت المقدس کی طرف جا رہے تھے”۔
صحیحین میں اس واقعہ کا تذکرہ کچھ تفصیل کے ساتھ یوں بیان ہوا ہے ۔ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
غَزَا نبيٌّ مِنَ الْأنْبِياءِ صَلَوَاتُ اللهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهمْ، فَقَالَ لِقَومهِ: لَا يَتْبَعَنِّي رَجُلٌ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَهُوَ يُريدُ أَنْ يَبْنِي بِهَا وَلَمَّا يَبْنِ بِهَا، وَلَا أَحَدٌ بَنَى بُيُوتًا لَمْ يَرْفَعْ سُقُوفَهَا، وَلَا أحَدٌ اشْتَرَى غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَهُوَ يَنْتَظِرُ أَوْلَادَهَا»، فَغَزا، فَدَنَا مِنَ القَرْيَةِ صَلَاةَ الْعَصْرِ أَوْ قَريبًا مِنْ ذلِكَ، فَقَالَ لِلشَّمْسِ: «إِنَّكِ مَأْمُورَةٌ وَأَنَا مَأْمُورٌ، اللَّهُمَّ احْبِسْهَا عَلَيْنَا»، فَحُبِسَتْ حَتَّى فَتَحَ اللهُ عَلَيهِ،
(أخرجہ البخاري:3124، ومسلم :1747).
”بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ایک نبی (یوشع علیہ السلام) نے غزوہ کرنے کا ارادہ کیا تو اپنی قوم سے کہا کہ میرے ساتھ کوئی ایسا شخص جس نے ابھی نئی شادی کی ہو اور بیوی کے ساتھ رات بھی نہ گزاری ہو اور وہ رات گزارنا چاہتا ہو اور وہ شخص جس نے گھر بنایا ہو اور ابھی اس کی چھت نہ رکھی ہو اور وہ شخص جس نے حاملہ بکری یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور اسے ان کے بچے جننے کا انتظار ہو تو (ایسے لوگوں میں سے کوئی بھی) ہمارے ساتھ جہاد میں نہ چلے۔ پھر انہوں نے جہاد کیا ‘ اور جب اس آبادی (اریحا) سے قریب ہوئے تو عصر کا وقت ہو گیا یا اس کے قریب وقت ہوا۔ انہوں نے سورج سے فرمایا کہ تو بھی اللہ کا تابع فرمان ہے اور میں بھی اس کا تابع فرمان ہوں۔ اے اللہ! ہمارے لیے اسے اپنی جگہ پر روک دے۔ چنانچہ سورج رک گیا ‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عنایت فرمائی”۔
سیدنا موسی علیہ السلام کے بھانجے سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جب فلسطین فتح ہوا تو سب سے پہلا مفتوحہ شہر اریحا تھا۔ ارض فلسطین کو ارض مقدسہ کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے شہر اریحا شہر مقدس ہے کیونکہ یہی سب سے پہلا مفتوحہ شہر بنا۔ یہیں سے بیت المقدس کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا بیت المقدس کی طرف سفر مبارک
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں چار مرتبہ ارض شام كا سفر فرمایا ہے۔ دو بار نبوت ملنے سے پہلے اور دو بار نبوت ملنے کے بعد ۔
پہلی مرتبہ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شام کا سفر کیا، اس سفر کی منزل شام کا شہر بُصریٰ تھا۔ اس سفر کے دوران بُصریٰ میں آپ ﷺ کی ملاقات بُحیرہ راہب (عیسائی سادھو) سے ہوئی، اس وقت آپ ﷺ کی عمر مبارک بارہ سال تھی ۔
دوسری مرتبہ آپ ﷺ نے حضرت خدیجۃ رضی اللہ عنہا کا سامان تجارت لیکر شام کا سفر کیا ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبیﷺ کے ساتھ اپنا ایک غلام بھی روانہ کر دیا۔ جس کا نام میسرہ تھا ۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر پچیس سال تھی۔
تیسری مرتبہ سفر معراج کے وقت جبریل عیہ السلام کے ہمراہ تشریف لائے، آپ ﷺ نے بیت المقدس میں نماز پڑھی اور انبیاء کی امامت کرائی ۔
چوتھی مرتبہ جب ہجرت کے نویں سال غزوہ تبوک کے وقت مسلمانوں کے ساتھ تبوک کی طرف نکلے تھے۔تبوک، ملکِ شام کے اَطراف میں مدینہ طیبہ سے کافی فاصلے پر ایک مقام ہے، جدید دور کے حساب کی رُو سے تبوک کی طرف جانے والے راستے کا فاصلہ نو سو کلومیٹر کے قریب ہے۔ 2
بیت المقدس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی بشارت
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں جنگ تبوک میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ ﷺ چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے ، تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بشارت دیتے ہوئے اپنی امت سے ارشاد فرمایا کہ:
قیامت سے پہلے چھ چیزیں گن کر رکھو(1) میری وفات (2) بیت المقدس کی فتح (3) پھر طاعون کی وبا جو بکریوں کی گلٹیوں کی طرح تمہارے اندر شروع ہو جائے گی۔(4) اس قدر مال کی کثرت ہو جائے گی کہ کسی آدمی کو سو دینار دینے پر بھی وہ خوش نہیں ہوگا۔ (5) ایک ایسا فتنہ اٹھے گا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہیں رہے گا جس میں فتنہ داخل نہ ہوا ہو۔ (6) تمہارے اور رومیوں کے درمیان ایک صلح ہوگی اور رومی عہد شکنی کریں گے وہ اَسی جھنڈے کو لے کر تمہارے اوپر حملہ آور ہوں گے اورہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہوگی۔ 3
نبی ﷺ اور جہاد بیت المقدس
واقعہ اسراء و معراج اور بیت المقدس میں انبیاء کی امامت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس سے دلی لگاؤ ہونے لگا توآپ ﷺ اور صحابہ کرام کا بیت المقدس کے ساتھ جہاد و فتوحات کے رشتے کا آغاز ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی فتح کے لئے ملک شام کے ساتھ کئی معرکوں میں مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی طرف جانے والے راستوں پر فوجی دستے بھیجنا شروع کردیا تھا ۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ گیارہ ہجری کے ماہِ صفر کے آخری دنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بلقا اور فلسطین کے علاقوں میں جا کر رومیوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا۔اس جنگ کے لیے تیار ہونے والے لشکر میں مہاجرین اور انصار میں سے کبار صحابہ بھی شامل تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کا قائد اسامہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا تھا. 4
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر تیار کیا تاکہ بیت المقدس کو فتح کر سکیں، اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر ارشاد فرمایا: ’’تم اس مقام کی طرف روانہ ہوجاؤ، جہاں تمہارے باپ نے شہادت پائی تھی۔ وہاں خوب جنگ کرو۔ میں تمہیں وہاں جانے والے لشکر کا امیر مقرر کرتا ہوں۔ 5 لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر اسامہ کی روانگی سے قبل ہی وفات پاگئے۔ جہاد شام و فتح بیت المقدس کے لئے کفر و اسلام کے بہت سے معرکے ہوئے ہیں ۔ یہاں ہم بیت المقدس کی سرحدوں پر لڑی گئی چند مشہور غزوات و سرایا کا ذکر کرتے ہیں ۔
غزوہ دومۃ الجندل۔ ربیع الاول 5 ہجری
یہ غزوہ ربیع الاول 5 ہجری کو پیش آیا۔ دومتہ الجندل حکومت روم کی حدود میں صوبہ شام کا ایک سرحدی شہر تھا۔ دومتہ الجندل اور اس کے گرد و نواح کے علاقے ڈاکوؤں اور لٹیروں کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ جو ان علاقوں میں سے گزرنے والے تجارتی قافلوں اور مسافروں کو لوٹ لیتے تھے۔ کسی کو ان کی سرکوبی کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ چونکہ دومتہ الجندل ایک تجارتی گزرگاہ تھی ان ڈاکوؤں نے مسلمانوں کے قافلوں کو روکنا اور لوٹنا شروع کر دیا۔ اس لیے نبی ﷺنے فوری طور پر ان کی سرکوبی کا فیصلہ فرمایا۔ آپ ﷺ ربیع الاول 5 ہجری کو ایک ہزار سپاہیوں کا لشکر لے کر دومتہ الجندل کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن جب ان لوگوں کو لشکر اسلام کی آمد کی اطلاع ملی تو یہ لوگ بھاگ گئے۔ جب مجاہدین وہاں پہنچے تو سارا علاقہ خالی پڑا تھا۔ صرف ان کے جانور چر رہے تھے۔ جنہیں مجاھدین نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ نبی کریمﷺ نے قرب و جوار میں بھی اپنے دستے روانہ کیے لیکن وہاں کوئی آدمی نہ ملا۔ نبی کریمﷺ نے چند روز وہاں قیام فرمایا پھر مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے۔ اس غزوہ میں جانوروں کی بڑی تعداد بطور مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آئی جسے مجاہدین میں برابر تقسیم کر دیا گیا۔ یہ لشکر 20 ربیع الثانی 5 ہجری کو واپس مدینہ منورہ پہنچا۔ 6
غزوہ خیبر ۔جمادی الاخر 7 ہجری :
شمال حجاز میں یہود کا بڑا مرکز خیبر تھا جو شام کے راستے میں مدینہ منورہ سے تقریباً آٹھ میل پر واقع ہے۔اہل خیبر جن میں وہ تمام یہودی بھی جا ملے تھے جو مدینہ سے جلا وطن کئے گئے تھے، یہ لوگ ہمیشہ مسلمانوں سے لڑنے کی تیاریاں کرتے رہتے تھے اور انہوں نے بنی اسد اور بنی غطفان کو اپنا حلیف کرلیا تھا اور اپنے مضبوط قلعوں پر نازاں تھے۔ یہود کی اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں جب بہت بڑھ گئیں تو سنہ7ھ میں رسول اللہ ﷺ بھی مع لشکر وہاں پہنچے، ایک مہینہ تک لڑائی جا ری رہی اور پھر اُن کوشکست دی۔ 7
سریہ کعب بن عمیر غفاری رضی اللہ عنہ۔ ربیع الاخر 8 ہجری
رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن عمیر غفاری رضی اللہ عنہ کو ربیع الاخر 8 ہجری میں ذات اطلاح کی طرف روانہ فرمایا جو سرزمین شام میں وادی القریٰ کے پشت پر تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے کعب بن عمیر غفاری کو 15 آدمی دیکر بھیجا جب وہ ذات اطلاح پہنچے تو کعب رضی اللہ عنہ کو دشمن کا ایک بہت بڑا مجمع ملا ، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب کعب رضی اللہ عنہ ذات اطلاح کے قریب پہنچے تو دشمن کے ایک جاسوس نے ان کو دیکھ لیا اور اس نے فورا ہی اپنے آدمیوں کو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاع دیدی ، جس کے نتیجے میں ایک بڑا مجمعہ جمع ہوگیا ۔ کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں اسلام کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول نہ کیا بلکہ تیر اندازی کی۔ صحابہ نے بہت سخت مقابلہ کیا لیکن تعداد کی زیادتی کی وجہ سے سب شہادت حاصل کر گئے سوائے کعب رضی اللہ عنہ کے جو شہداء میں پڑے تھے اور وہ لوگ انہیں بھی شہید سمجھ کر چھوڑ گئے۔ جب رات کو انہیں موقع ملا تو بڑی مشکل سے مدینہ پہنچ گئے رسول اللہﷺ کو اس پر بڑی تکلیف ہوئی آپ ﷺ نے اس طرف ایک اور مہم بھیجنے کا ارادہ فرمایا لیکن معلوم ہوا کہ وہ لوگ وہاں سے کہیں نکل گئے ہیں تو ارادہ ملتوی کر دیا۔ 8
غزوہ موتہ (جمادی الاول 8 ہجری)
موتہ (میم کے پیش اور واو ساکن ) موتہ شام میں ایک مقام کا نام ہے، جہاں سے بیت المقدس دو مرحلے پر واقع ہے۔ یہ سب سے بڑا خونریز معرکہ تھا جو مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں پیش آیا اور یہی معرکہ عیسائی ممالک کی فتوحات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اس کا زمانہ ٔ وقوع جمادی الاولیٰ 8ھ بمطابق اگست یا ستمبر 629 ء ہے۔ اس معرکے کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم بُصریٰ کے نام ایک خط لکھا ، عرب اور شام کے سرحدی علاقوں میں جو عرب رؤساء حکمران تھے ان میں ایک شرحبیل بن عمرو غسانی بھی تھا جو اسی علاقہ بلقاء کا رئیس اور قیصر کا ماتحت تھا۔ یہ عربی خاندان ایک مدت سے عیسائی تھا اور شام کے سرحدی مقامات میں حکمران تھا ۔ جب حارث بن عُمیر اَزْدِی رضی اللہ عنہ خط لیکر کر حاکم بُصریٰ کے پاس گئے تو انہیں قیصر روم کے گورنر شرحبیل بن عمرو غسانی نے گرفتار کرلیا اور مضبوطی کے ساتھ باندھ کر ان کی گردن ماردی۔ یاد رہے کہ سفیروں اور قاصدوں کا قتل نہایت بدترین جرم تھا جو اعلانِ جنگ کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات سخت گراں گزری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قصاص کے لئے تین ہزار فوج تیار کر کے شام کی طرف روانہ کی ۔9
غزوۃ تبوک ۔رجب 9 ہجری
تبوک، ملکِ شام کے اَطراف میں مدینہ طیبہ سے کافی فاصلے پر ایک مقام ہے، یہ اُس زمانہ میں جزیرہ نمائے عربستان کا سرحدی علاقہ تھا جو روم کی سرحد سے شام میں ملتا تھا۔ آج تبوک سعودی عرب کا ایک شہر ہے جو اردن کی سرحد کے نزدیک ہے اور مدینہ سے اس کا فاصلہ تقریباً چھ سو کلو میٹر ہے۔اس معرکے کا سبب یہ ہے کہ عرب کا غسانی خاندان جو قیصر روم کے زیر اثر ملک شام پر حکومت کرتا تھا چونکہ وہ مسیحی تھا اس لیے قیصر روم نے اس کو اپنا آلہ کار بنا کر مدینہ پر فوج کشی کا عزم کر لیا۔ چنانچہ ملک شام کے جو سوداگر روغن زیتون بیچنے مدینہ آیا کرتے تھے۔ انہوں نے خبر دی کہ قیصر روم کی حکومت نے ملک ِشام میں بہت بڑی فوج جمع کردی ہے۔ اور اس فوج میں رومیوں کے علاوہ قبائل لخم و جذام اور غسان کے تمام عرب بھی شامل ہیں۔ رجب 9 ہجری میں طائف سے واپسی کے بعد جب رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچی کہ عرب کے عیسائیوں کی سازش اور بَراَنگیختہ کرنے سے ہر قل شاہِ روم نے رومیوں اور شامیوں کا ایک بھاری لشکر جمع کر لیا ہے اور وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا اور مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر ان سے لڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔ جب رومیوں کے جاسوسوں نے قیصر کو خبردی کہ رسول اﷲ ﷺ تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک میں آ رہے ہیں تو رومیوں کے دلوں پر اس قدر ہیبت چھا گئی کہ وہ جنگ سے ہمت ہار گئے اور اپنے گھروں سے باہر نہ نکل سکے۔ رسول اﷲ ﷺ نے بیس دن تبوک میں قیام فرمایا اور اطراف و جوانب میں افواج الٰہی کا جلال دکھا کر اور کفار کے دلوں پر اسلام کا رعب بٹھا کر مدینہ واپس تشریف لائے اور تبوک میں کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ 10
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بیت المقدس
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفر ، 11 ہجری خود حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی سرکردگی میں ایک لشکر ترتیب دیا تھا اور اسے شام کی مہم سونپی تھی۔لیکن روانگی سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوگئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو یہ لشکر مدینہ سے تین میل دور پیش قدمی کے لیے تیار بیٹھا تھا۔اسلامی لشکر تک وفات نبوی کی نہایت افسوس ناک خبر پہنچی تو اُنھوں نے پیش قدمی کا ارادہ ملتوی کردیا لیکن منصبِ خلافت پر فائز ہونے کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے لشکر اسامہ کی روانگی کا حکم دے دیا ۔ 11
مرتدین کے ساتھ جنگیں ختم ہوتے ہی مسلمانوں کی نظریں شام کی طرف تھیں۔ چنانچہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے بھی شام کی طرف فوجی لشکر بھیجے اور بڑی بڑی لڑائیاں ہوئیں جن میں اجنادین، فحل، دمشق، اور یرموک نمایاں ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور فتح بیت المقدس
رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ بشارت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اس وقت پوری ہوئی جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شام کو فتح کرنے والی فوج کے سپہ سالار ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو اپنی فوج سمیت بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا ، چنانچہ خلیفہ کے حکم پر لبیک کہا اور پانچ ہزار فوجیوں کے ہمراہ بیت المقدس روانہ ہوگئے ، جو اس وقت ایلیا کہلاتا تھا۔ جب آپ رضی اللہ عنہ اردن پہنچے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے چند نمائندوں کے ہاتھ اہل ایلیا کے نام ایک خط روانہ کیا ، جس کا متن کچھ یوں تھا ،
سلامتی ہے ہر اس شخص پر جس نے سیدھا راستہ اختیار کیا ، اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا، اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو تسلیم کیا ۔ اما بعد ! ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دو ، اور تمہیں خبردار کرتے ہیں کہ قیامت بلا شبہ آنے والی ہے ، اور اللہ تعالی ہر شخس کو قبر سے اٹھانے والا ہے ، اگر تم ان باتوں کی گواہی دیتے ہو تو ہم پر تمہارا خون ، مال ،اور تمہاری اولاد حرام ہوجائے گی ، اوراگر تم نے ان باتوں کا انکار کردیا تو تمہیں ذلیل و خوار ہو کر ہم کو جزیہ ادا کرنا ہوگا ، اور اگر تم نے اس کا بھی انکار کردیا تو یاد رکھو ! میں تمہارے پاس ایسی فوج لے کر آیا ہوں کہ اسے موت اتنی ہی محبوب ہے جتنا تمہیں شراب نوشی کرنا اور خنزیر کا گوشت کھانا محبوب ہے ، اور یہ بھی یاد رکھو کہ میں ان شاء اللہ اس وقت تک نہیں پلٹوں گا جب تک تمہاری فوج کو قتل نہ کردوں اور تمہاری اولاد کو قیدی نہ بنا لوں 12
اس خط میں مذکورہ پہلی دونوں باتوں سے اہل ایلیا نے انکار کردیا ، جس پر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو بیت المقدس کا محاصرہ کرنے کا حکم دے دیا ۔ تقریباً چالیس دنوں تک محاصرہ جاری رہا ، بالآخر اہل ایلیا اس شرط پر صلح کے لیے تیار ہوگئے کہ مسلمانوں کے خلیفہ خود بیت المقدس آئیں اور صلح نامے پر دستخط کریں ۔ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے خط پڑھ کر صحابہ کرام سے مشورہ کیا اور متعدد صحابہ کرام کے ساتھ بیت المقدس روانہ ہوگئے ۔
خَرَجَ عُمَرُ بنُ الخَطَّابِ إلى الشَّامِ، ومَعَنا أَبو عُبَيْدةَ بْنُ الجرَّاحِ، فَأَتَوْا على مَخاضَةٍ، وعُمَرُ على ناقَةٍ لهُ، فنَزَلَ عنها، وخَلَعَ خُفَّيْهِ، فَوَضَعَهُما على عاتِقِهِ، وأَخَذَ بزِمامِ ناقَتِهِ، فخاضَ بها المخاضَةَ، فقالَ أَبو عُبيْدَةَ: يا أَميرَ المؤمنينَ، أأنتَ تَفْعَلُ هذا، أَتَخْلعُ خُفَّيْكَ وتَضَعُهُما على عاتِقِكَ، وتأْخُذُ بزِمامِ ناقَتِكَ، وتَخوضُ بها المَخاضَةَ؟ ما يَسُرُّني أنَّ أهْلَ البَلَدِ اسْتَشْرَفوكَ. فقالَ عُمَرُ: أَوَّهْ! لوْ يَقُلْ ذا غَيْرُكَ أبا عُبيدَةَ جَعَلْتُهُ نَكالًا لِأُمَّةِ مُحمَّدٍ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، إنَّا كُنَّا أذَلَّ قَوْمٍ فَأَعَزَّنا اللهُ بالإسْلامِ، فمَهْما نَطْلُبِ العِزَّ بِغيرِ ما أَعَزَّنا اللهُ به أذَلَّنا اللهُ»
(صحیح الترغیب : 2893 ،والحاکم : 208 )
عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے ، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ہمراہ تھے ۔ چلتے چلتے ایک گھاٹ پر پہنچ گئے ، جسے عبور کرنا ضروری تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی سے نیچے اترے ، اپنے موزوں کو اتار کر کندھوں پر رکھ لیا ، اونٹنی کی نکیل پکڑی اور گھاٹ کو عبورکر گئے ۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے : اے امیر المؤمنین آپ اس حالت میں گھاٹ عبور کرتے ہیں ! اگر ایلیا والے آپ کی اس حالت کو دیکھ لیتے ہیں تو مجھے اس سے خوشی نہیں ہوگی ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کاش یہ بات تیرے علاوہ کوئی اور کہتا تو میں اسے امتِ محمدیہ کے لیے باعثِ عبرت بنا دیتا ، یاد رکھو ! ہم ایک انتہائی ذلیل قوم تھے ، اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعے عزت بخشی ، اور اگر ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے طریقے سے عزت حاصل کرنا چاہیں گے تو اللہ ہمیں ذلیل کرکے چھوڑے گا ۔
عمر رضی اللہ عنہ بیت المقدس پہنچے اور ایک صلح نامے پر دستخط کیے ، جس کی رو سے اہل ایلیا پر لازم تھا کہ وہ بیت المقدس کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں ، اور انہیں جزیہ ادا کرتے رہیں ۔ اس کے بدلے میں مسلمانوں پر لازم تھا کہ وہ اہل ایلیا کی جان ، عزت اور ان کے مال و دولت کی حفاظت کریں گے، اور اہل ایلیا کو آزادی حاصل ہوگی کہ وہ چاہیں تو مسلمان ہو جائیں اور چاہیں تو اپنے دین پر قائم رہیں ۔ اس معاہدے کی دیگر شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ بیت المقدس میں نصرانیوں کے ساتھ کوئی یہودی رہائش نہیں رکھے گا ۔اس معاہدے کے گواہ درج ذیل صحابہ کرام تھے ، خالد بن ولید ، عمرو بن العاص ، عبد الرحمن بن عوف ، اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم ۔ یوں بیت المقدس کی فتح کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی بشارت پوری ہوئی اور مسجد اقصیٰ مسلمانوں کو واپس مل گئی ۔
سلطان نور الدین زنگی رحمہ اللہ اور بیت المقدس
خلافت عباسیہ زوال ہونے لگی تو عالم اسلام میں کئی سلطنتیں وجود میں آ گئیں جن میں سے ایک سلجوقی سلطنت تھی جو فلسطین اور شام میں تھی اور دوسری شیعہ رافضی فاطمی سلطنت تھی جو مصر میں قائم تھی، یہ نہایت ہی بدترین حکومت تھی۔ اس نے سنی سلجوقی سلطنت پر حملے شروع کر دیئے کیونکہ بیت المقدس انہی کے زیر انتظام تھا، بالآخر انہوں نے بیت المقدس کو سلجوقیوں سے چھین ہی لیا۔ جب یورپ کے عیسائیوں نے دیکھا کہ دو مسلمان ریاستیں بیت المقدس کے لیے آپس میں لڑ رہی ہیں تو انہوں نے 493ھ بمطابق 1099ء میں ایک زبردست حملہ کر کے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کا فاطمی گورنر افتخار الدولہ مالی فدیہ دے کر بھاگ گیا اور تمام مسلمانوں کو اس شیعہ خبیث نے صلیبیوں کے حوالے کر دیا، جنہوں نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ عزتیں لوٹی گئیں، بچے بوڑھے عورتیں، کسی کو بھی نہیں بخشا گیا، عین مسجد اقصیٰ کے اندر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا ۔ اس کے بعد مسجد اقصیٰ کو گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا اور قبۃ الصخرۃ پر صلیب نصب کر دی گی اور مسجد اقصیٰ کے برآمدے کو گھوڑوں کا اصطبل بنایا گیا اور پھر نوے سال تک کے لیے مسجد اقصیٰ صلیبیوں کے ناپاک ہاتھوں میں چلی گئی اور عیسائی فلسطین کے ایک اچھے خاصے رقبے پر قابض ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ نے اسی دور میں سلطان نور الدین زنگی کو سرزمین شام میں صلیبیوں کے مقابلے کے لیے کھڑا کیا، مسجد اقصیٰ فتح کرنے کے بعد صلیبیوں کے حوصلے اتنے بلند ہو گئے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی فتح کے خواب دیکھنے شروع کر دیے، بلکہ انہوں نے اپنا ایک لشکر جرار سمندری راستے سے رابغ روانہ کر دیا تاکہ وہاں سے یہ لشکر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں پر حملہ آور ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے سلطان نور الدین زنگی رحمہ اللہ کو انہوں نے انتہائی برق رفتاری کے ساتھ اپنی فوجوں کو خشکی کے راستے رابغ روانہ کر دیا۔ رابغ کے ساحل پر اسلامی افواج صلیبیوں کے لیے موت بن کر تیار کھڑی تھیں، نور الدین زنگی کی افواج نے نہ صرف صلیبیوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا بلکہ ان کو اس طرح ختم کیا کہ ان کا کوئی فوجی پلٹ کر پھر فلسطین نہیں جا سکا۔ اس سے صلیبیوں کے حوصلے اس طرح پست ہوئے کہ وہ مکہ اور مدینہ کے خواب بھول گئے، اسی دوران سلطا ن زنگی کی وفات ہو گئی۔
صلاح الدین ایوبی اور فتح بیت المقدس
جب سلطان نور الدین زنگی کی وفات ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جگہ غازئ ملت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کو بیت المقدس کی آزادی کے لیے کھڑا کر دیا۔ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے صحابہ کرام اور تابعین کے بعد اسلامی جہاد کی تاریخ میں ایک سنہرا باب رقم کیا ہے ، شجاعت اور بہادری کی ایک ایسی مثال قائم کی کہ تاریخ دانوں نے جب بھی جہاد کا ذکر کیا صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کا نام مجاہدین کی فہرست میں چمکتا ہوا نظر آیا ۔ صلاح الدین ایوبی کو جہاد سے بے حد محبت تھی ، اسی لئے ان کی زندگی کے بیشتر ایام گھوڑوں پر سواری کرتے ہوئے اور خیموں میں رات گزارتے ہوئے گزر گئے ، ان کے چہرے پر ہر وقت حزن و ملال کے آثار نمایاں رہتے تھے ، کسی نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو کہنے لگے :
كیف یطیب لي الفرح والطعام ولذة المنام ، وبیت المقدس بأیدي الصلیبیین
(المسجد الأقصى الحقيقۃ والتاريخ، عيسى القدومي، ص:54)
مجھے کیونکر خوشی ہو اور کیسے کھانا اچھا لگے اور کیسے آرام سے سونے کی لذت آئے جب کہ بیت المقدس صلیبیوں کے قبضے میں ہے ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے بے شمار معرکوں میں یورپی صلیبیوں کو شکست سے دوچار کیا ہے ، لیکن ان کی سب سے بدترین شکست حطین کے معرکہ میں ہوئی۔ جس میں 30 ہزار سے زیادہ عیسائی مارے گئے اور 30 ہزار سے زیادہ گرفتار ہوئے ، یہ معرکہ 25 ربیع الثانی 583ء بمطابق 4 جولائی 1187ء کو پیش آیا۔
اس معرکہ کے صرف تین ماہ بعد 27 رجب 583 کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو دوبارہ فتح کر کے مسجد اقصیٰ کو نصرانیوں کی غلاظت سے پاک کیا اور اس پر لگی ہوئی صلیب توڑی اور اس کے میناروں سے پھر سے اللہ اکبر کی صدا گونجنے لگی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے ساتھ مصر کی رافضی فاطمی حکومت کو بھی ختم کر دیا جس نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے ہاتھوں میں گروی رکھ دیا تھا۔
سلطان عبد الحمید ثانی رحمہ اللہ اور مسئلہ فلسطین
سلطان عبد الحمید ثانی کا سب سے بہترین کارنامہ سرزمین فلسطین کے متعلق ان کی وہ واضح پالیسی، دو ٹوک ایمانی رد عمل تھا جس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی کی وجہ سے ان کی مغفرت فرما دے گا۔ دنیا کی ساری صیہونی تنظیموں نے اپنے طور پر یہ کوشش کر لی کہ سلطان یہودیوں کو سرزمین فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے، اس سلسلے میں عالمی صیہونی تنظیم کے صدر ’’تھیوڈور ہرٹزل‘‘ نے 1890ء میں سلطان عبد الحمید ثانی سے ملاقات کی اور ان سے سرزمینِ فلسطین میں یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت طلب کی اور اس سلسلے میں انہیں 250 ملین فرانک بطورِ تعاون سلطنت عثمانیہ کو دینے کی پیشکش بھی کی اور یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ فلسطین میں آباد ہونے والے یہود سلطنت عثمانیہ کے تابع و فرمانبردار ہوں گے اور سلطنت کے تمام قوانین ان پر لاگو ہوں گے اور اس سلسلے میں انہیں یقین کامل تھا کہ سلطان عبد الحمید ثانی رحمہ اللہ ان کی شاندار پیش کش کو کبھی ٹھکرا نہیں سکتے، اس لیے کہ دولت عثمانیہ اپنے بدترین مالیاتی بحران سے گزر رہی تھی، بیرونی قرض اس قدر زیادہ ہو چکے تھے کہ سلطنت اصل قرض تو کجا سود بھی ادا کرنے سے قاصر تھی، یورپ کے اس مردِ بیمارمیں وہ دم خم باقی نہیں تھا کہ وہ اس گراں قدر امداد کو ٹھکرا دے، جس سے اس کی کئی مشکلات و پریشانیوں کا مداوا ہو جاتا اور سلطان عبد الحمید ثانی کی روشن خیالی اور مذہبی رواداری کے ڈنکے چہار دانگ عالم میں بجائے جاتے اور اس کے ساتھ ہی سلطنت عثمانیہ کو اور سلطان کو بقاء کی مہلت کے کچھ سال مزید مل جاتے لیکن قربان جاوں سلطان عبد الحمید ثانی کی ذات پر انہوں نے ان تمام مادّی اور سونے چاندی کے ڈھیر کو دیکھ کر اپنے ایمان کا سودا کرنے سے صاف انکار کر دیا، واضح اور دو ٹوک الفاظ میں ’’تھیوڈورہرٹزل‘‘ اور اس کے وفد کو بتلا دیا کہ:
والله لقبضة تراب قدس أحب إلي مما ترغبونني إليه، إن أرض فلسطين حصلوا آباءنا بالدماء ولا يحصل مني بالفلوس ما دمت حيا، فإذا مت لعلكم تحصلونه مجّانا، ومستحيل أن أبيع فلسطين ولو شبرا منها۔ أرض فلسطين ليست أرضي، إنها أرض الأمة، فليحتفظ اليهود بملايینهم، وإنهم يستطيعون الإستيلاء على فلسطين وبدون مقابل في حالة واحدة فقط ألا وهي إنهيار الدولة العثمانية۔ والصيهونيون يريدون إنشاء حكومة لهم وإنتخاب ممثلين سياسيين لهم، وإني أفهم جيدا معنى تصوراتهم الطامعة، وإنهم لسذج إذا تصوروا إني سأقبل محاولاتهم إن هرتزل يريدون أرضا لإخوانه في دينه لكن الذكاء ليس كافيا لحل كل شيء. و لماذا القدس؟ إنها أرضنا فى كل وقت وفي كل زمان وستبقى كذلك، فهي من مدننا المقدسة وتقع في أرض إسلامية، لا بد أن تظل القدس لنا ۔و تكون قد وقعنا قرارا بالموت علی إخواننا فى الدين- يقصد الفلسطينيين- إذا لم تتوقف عملية توطين اليهود في فلسطين ومهاجرتهم إليها.
(السلطان عبد الحميد الثاني، د.محمد حرب، ص: 89، 90)
’’اللہ کی قسم! بیت المقدس کی ایک مٹھی بھر مٹی مجھے اس چیز سے زیادہ محبوب ہے جس کی تم مجھے لالچ دے رہے ہو۔ فلسطینی سرزمین کو ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے خون سے حاصل کیا تھا اور جب تک میں زندہ ہوں یہ مجھ سے پیسوں کے بدلے نہیں خریدی جا سکتی، جب میں مرجاؤں تو شاید تم اسے مفت ہی حاصل کر لو‘‘۔
’’یہ میرے لیے ناممکن ہے کہ میں سرزمین فلسطین کی ایک بالشت زمین بھی فروخت کروں، اس لیے کہ یہ سرزمین میری نہیں بلکہ امت کی ہے، یہود اپنے کئی ملین کی رقم کو اپنی جیب میں رکھیں اور وہ سرزمین فلسطین پر صرف ایک ہی حالت میں مفت میں قبضہ کر سکتے ہیں اور وہ اسی وقت ہو گا جب کہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو جائے۔‘‘
’’ صیہونی اپنے سیاسی نمائندوں کو منتخب کر کے، سرزمین فلسطین پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں اور میں ان کے لالچی ارادوں کو اچھی طرح بھانپ چکا ہوں، وہ نہایت سادہ ہوں گے اگر انہوں نے میرے متعلق یہ گمان کر لیا کہ میں ان پیشکش کو قبول کر لوں گا، ’’تھیوڈورہرٹزل‘‘ اپنے دینی بھائیوں کے لیے ایک ہوم لینڈ چاہتا ہے، لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ مکاری ہر مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کافی نہیں‘‘۔
’’ آخر یہود قدس کے پیچھے ہی کیوں پڑے ہیں؟ سرزمین فلسطین ہر وقت اور ہر زمانے میں ہماری سرزمین رہی ہے اور اسی طرح ہماری رہے گی، یہ ہمارے مقدس شہروں میں سے ایک ہے اور اور اسلامی سرزمین پر واقع ہے، تو اس لیے ضروری ہے کہ بیت المقدس ہمارے قبضے میں رہے۔‘‘
’’ اگر سرزمین فلسطین میں یہودیوں کو وطن بنانے اور اس کی طرف ان کی ہجرت کو نہ روکا جائے تو گویا کہ ہم اپنے دینی (فلسطینی) بھائیوں کی قراردادِ موت پر دستخط کر رہے ہیں۔‘‘
سلطان عبد الحمید ثانی کی ایمانی غیرت نے ایک لمحے کے لیے بھی اس کو برداشت نہیں کیا کہ دنیا کی رذیل ترین قوم کو اس مقدس سرزمین پر آباد کر کے ملت اسلامیہ کے سینے میں خنجر گھونپے، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کا یہ اقدام ساری دنیا کے صیہونی، صلیبی اور ماسونی تنظیموں کو سیخ پا کر دے گا اور یہ ساری طاقتیں اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ، ان کی ذات کے خلاف ایک بھرپور پروپیگنڈے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوں گی اور سلطنت عثمانیہ کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کریں گی، لیکن ان تمام خدشات کے باوجود اس مرد مؤمن نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے موقف میں کوئی لچک نہیں دکھائی، بلکہ پوری جرأت اور بے باکی کے ساتھ اپنے اقتدار اور سلطنت کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو گیا، پھر وہ وقت بھی آیا کہ صیہونیوں نے 25/04/1909 کو سلطان عبد الحمید ثانی رحمہ اللہ کو خلافت سے معزول کر دیا لیکن افسوس کہ صیہونیوں اور ماسونیوں نے یہ کام بجائے خود انجام دینے کے محمود شوکت پاشا، مصطفیٰ کمال پاشا اتاترک جیسے ضمیر فروشوں سے کروایا، جو اپنے آپ کو مسلمان اور ترک کہتے اور اتحاد و ترقی کا نقیب گردانتے تھے۔ اور اس طرح مسجد اقصیٰ کا وہ عظیم محافظ جس نے صیہونیوں کی ناک میں نکیل ڈال رکھی تھی، یہودیوں کی سازشوں اور امت اسلامیہ کے غداروں کی بھینٹ چڑھ گیا۔
فلسطینیوں کا جذبہ جہاد
یوں مسلمان واقعہ اسراء و معراج سے اب تک بیت المقدس کی آزادی اور فتح کرنے کی آرزو اور جد وجہد کرتے آرہے ہیں، عرب اور مسلمان ممالک کے مایوس کن کردار اور دشمنوں کی جارحیت کے باوجود فلسطینی مجاہدین کے اندر جہاد کی یہ چنگاری آج تک برقرار ہے،اور مجاہدین نے فلسطینی عوام کے ساتھ یہودی غاصبانہ قبضے کے خلاف جہاد جاری رکھا ہوا ہے اور اس طرح سرزمین فلسطین آپ ﷺ کی اس حدیث کا مصداق بن رہی ہے جس میں چودہ سو سال پہلے آپ ﷺ نے بشارت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا :
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ إِلَّا مَا أَصَابَهُمْ مِنْ لَأْوَاءَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللہِ وَهُمْ كَذَلِكَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَأَيْنَ هُمْ قَالَ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ وَأَكْنَافِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ
(السلسلة الصحيحۃ: 4/599 ، ولہ شواہد، وتخريج المسند لشعيب الأرناؤوط: 22320، صحيح لغيره)
ترجمہ: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہے گا اور اپنے دشمنوں کو مقہورکرتا رہے گا، دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی الا یہ کہ بطورآزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے۔‘‘صحابہ کرام نے عرض کیا:’’ یارسول اللہ یہ لوگ کہاں کے ہوں گے۔‘‘تو نبی کریمﷺ نے جواب دیا :’’ یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فلسطین کو یہودیوں کے ناجائز قبضے سے آزاد فرمائے، جابر ظالموں کو ہلاک فرمائے اور مظلوم فلسطینیوں کی حفاظت فرما ئے۔ آمین ۔
- ( تفسیر ابن کثیر )
- (المجالس الوعظيۃ في شرح أحاديث خيرالبريۃ من صحيح البخاري، لمحمد بن عمر السفيري، ج1 ،ص:198)
- (صحیح البخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب ما یحذر من الغدر: 3176 )
- (السیرۃ النبویہ فی ضوء المصادر الاصلیہ، مهدي رزق الله احمد ،ص: 685)
- (فتح الباري:8/152 )
- (أملاك المغاربۃ في فلسطين، ظافر بن خضراء ونافذ أبو حسنۃ، ص27و28)
- (سيرة ابن هشام، والسيرة النبويۃ لأبي الحسن الندوي)
- ( غزوات النبی ، علی بن برہان الدین حلبیؒ، ص: 813)
- ( الرحیق المختوم ،ص: 1217)
- (طبقات ابن سعد: 276 تا278)
- (صحیح البخاري،کتاب المغازی،باب غزوۃ مؤتہ من أرض الشام،7/510)
- ( أتحاف الأقصا بفضائل المسجد الأقصٰی للسیوطی ، 1/227 ، الأنس الجلیل بتاریخ القدس الخلیل ، مجیر الدین الحنبلی ، 1/370 )