صلہ رحمی

صلہ رحمی اور رشتہ داری

پہلا خطبہ:

یقیناً تما م تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بجالاتے ہیں اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں، ہم اپنے نفس کی برائیوں  اور برے اعمال سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں، جس شخص کو اللہ تعالی ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے  اور جسے وہ گمراہ کر دےاسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سواہ کوئی سچا معبود نہیں ،وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔او ر میں گواہی دیتا ہوں  کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ جنہوں نے رسالت کو  پہنچا دیا  ور امانت کو ادا کر دیا  ،امت کی خیر خواہی فرمائی اور آخری دم تک اللہ کی خاطر جہاد کرتے رہے، بہت زیادہ درود و سلام نازل ہوں آپ ﷺ پر ،آپ کی آل پر ،صحابہ  کرام پر اور قیامت تک آپﷺ کی سنت و سیرت پر چلنے والوں پر۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

 سب سے بہترین کلام اللہ تعالی کا کلام ہے  اور سب سے بہترین  سیرت  وطریقہ  محمد بن عبداللہ ﷺ  کا ہے،سب سے بد ترین کام نئے ایجاد کردہ  ہیں، ہر نیا کام بدعت ہے  اور بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ کی طرف لے جانے والی ہے،  اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کے اوامر بجا لانے میں تقویٰ اختیار کرو اور اس کی منع کردہ اور زجر وتوبیخ پر مبنی اشیاء کے ارتکاب سے باز رہو ، ارشادِ باری تعالی ہے:

ـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمُ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالًا كَثِيۡرًا وَّنِسَآءً‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِىۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِهٖ وَالۡاَرۡحَامَ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيۡكُمۡ رَقِيۡبًا

النساء -1

اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک شخص (آدم) سے پیدا کیا ‘ اور اسی سے اس کی بیوی (حواء) پیدا کی اور ان دونوں سے بہ کثرت مردوں اور عورتوں کو پھیلادیا اور اللہ سے ڈرو جس کے سبب سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو ‘ اور رشتہ سے قطع تعلق کرنے سے ڈرو ‘ بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔

اللہ کے بندو!  یقیناً صلہ رحمی، مودت و محبت، حسن معاشرت، عہد و وفا کی پاسداری اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنا عبادت و تقرب الہی کا سبب ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں پر حق بھی ہے جس پر اس نے اجرو ثواب مقرر کر رکھا ہے اور اس کی مخالفت پر گناہ اور عذاب و سزا بھی مقرر کر رکھی ہے، والدین کے ساتھ حسن سلوک اور حقوق زوجین سے لے کر قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ملنے جلنے، صلہ رحمی کرنے، پڑوسیوں اور دوستوں کے حقوق کا خیال  رکھنے تک بلکہ دیگر عام  مسلمانوں کے حقوق تک کا  حکم دیا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے :

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَةٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَ اَخَوَيۡكُمۡ ‌ۚ‌وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ

الحجرات -10

بیشک سب مومن آپس میں بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اور مزید فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرلو  ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لا يؤمنُ أحدُكم حتى يحبَّ لأخيه ما يحبُّ لنفسِه۔

(متفق علیه)

تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے”۔

  اور نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے كہ رسول الله ْﷺ نے ارشاد فرمایا:

مثلُ المؤمنين في تَوادِّهم،وتَرَاحُمِهِم،وتعاطُفِهِمْ۔مثلُ الجسَدِ إذااشتكَى منْهُ عضوٌ تدَاعَى لَهُ سائِرُالجسَدِ بالسَّهَرِ والْحُمَّى

(مسلم)

’’مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے بایں طور کہ نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔  

 اور سنو! لوگوں میں سے سب سے زیاده محبت، رحم دلی اور ہمدردی  كے حق دار انسان كے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں اور اسی طرح وه لوگ بهی جو باہمی تعلق میں ایك نسبت ركهتے ہیں اور اسلام ان كے درمیان وحدت و یگانگت، الفت و محبت اور اتفاق و اتحاد كا خواہاں  ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

 فَـَٔاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِ ۖ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ

(الروم 38)

 تم رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی جو لوگ اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں ان کے لیے یہی بہتر ہے اور وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔

 اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی سے کام لے ،صلہ رحمی کرے۔

(بخاری)

 لو گوں سے باہمی مخالفت و اختلاف، نفرت انگیزی، قطع تعلقی، بے رخی، کنارہ کشی، کینہ پروری، حسد کرنا، بغض و عناد رکھنا، عداوت و دشمنی رکھنا، شر انگیزی اور ہر وہ چیز جو سینوں کے اندر کینہ وحسد کی آگ کو بڑھا دے یہ وہ چیزیں ہیں جو تباہی و بربادی اور فساد کی اصل جڑ ہیں جن سے صلہ رحمی پارا پارا ہو کر رہ جاتی ہے ،قریبی رشتے دار دور ہو جاتے ہیں، میاں بیوی کے باہم محبت رکھنے والے ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں ،پڑوسیوں دوستوں اور بھائیوں كی الفت و محبت، خرابی اور فساد كی بهینٹ چڑھ جاتی ہیں جیسا کہ ابو هریره رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو، كسی كی جاسوسی نہ كرو   اور كسی كے عیبوں كے پیچھے مت پڑو، تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے بن جاؤ جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے۔” اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا، (پھر فرمایا): “کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے، ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔”

(مسلم)

 مسلمانو!  ایک ہی خاندان کے افراد کے درمیان قطع تعلقی اور باہمی کنارہ کشی کی ایسی ایسی چیزیں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ جن سے دل پھٹ جائے اور پیشانی تر ہوجائے کہ کیسے شیطان نے ان میں داخل ہو کر ان کے شیرازے کو منتشر کر دیا ہے اور ان کی وحدت و یگانگت کو پارا پارا کر دیا ہے۔ نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 ظلم و بغاوت اور قطع تعلقی جیسا کوئی اور گناہ نہیں ہے جو اس لائق ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتكب کو اسی دنیا میں سزا دے دے باوجود اس کے کہ اس کی سزا بھی اس نے آخرت کے لئے مؤخر کر رکھی ہے۔

 اور سنو! باہمی رابطوں میں لاپرواہی اور بے اعتنائی برتنے اور ازسرنو تعلق داری کو قائم نہ کرنے سے قطع تعلقی کا ایسا بازار گرم ہوتا ہے جس سے الفت و محبت جاتی رہتی ہے جس کا اثر پھر نئی نسل پر پڑتا ہے لہذا اللہ کے بندو !تجدید عہد كرو ،باہم ایك دوسرے سے رابطے ،ملاقات اور زیارت كرنے میں سبقت كرو ،حد درجہ قطع تعلقی سے بچو، محبت و مودت كے احساسات پیدا كرو،  لوگوں کو معاف  اور در گذر کرنا، غصے کو پی لینا اور ان کی تکلیفوں کو برداشت کرنا تقرب الہی کے حصول کے بڑے ذرائع میں سے ہے اور لوگوں میں سے سب سے زیادہ اس چیز کے حق دار انسان کے اپنے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ  عَرْضُهَا  السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُۙ اُعِدَّتْ  لِلْمُتَّقِیْنَ ا لَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْـكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ

(ال عمران 133،134)

 اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی جانب سے بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے ڈرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

 اور دوسری جگہ ارشارد فرمایا:

وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ ٱلْأُمُورِ

(الشوری 43)

 اور جو شخص صبر سے کام لے اور معاف کر دے یقیناً یہ بہت بڑی ہمت كے كاموں میں سے ہے۔

اور مزید ارشاد فرمایا:

فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُهٗ عَلَى اللّٰهِ‌ؕ

(الشوری 40)

پس جس نے معاف کردیا اور اصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔

لہذا اپنے اندر معاف كرنے اور درگزر كرنے كا مادہ پیدا كرو، اجرو ثواب كی امید ركهو، ایك دوسرے كو صبر كرنے اور رحم كرنے كی تلقین كرو ، الله تعالی سے ڈرو، اپنے آپس کے معاملات  اور تعلقات درست كرلو، الله اور اس كے رسول كا حكم مانو اگر تم مومن ہو،الله میرے اور آپ كے لئے قران كریم كو بابركت بنائے اس كی آیات ذكر حكیم سے مجهے اور آپ سب كو نفع پہنچائے ـ میں اسی بات پر اپنی بات كو مكمل كرتا ہوں ،الله تعالی سے استغفار كرتا ہوں یقیناً وه الله بہت زیاده بخشنے والا مہربان ہےـ

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں الله عزوجل كے لیے ہیں جس نے پانی سے انسان كو پیدا كیا پهر اس كو خاندان والا اور سسرال والا بنادیا ،صلہ رحمی كو واجب قرار دیا اور اس میں بہت بڑا اجر ركھ دیا اور میں توشہ  آخرت بنانے كے لیے اقرار  كرتے ہوئے یہ  گواہی دیتا ہوں کہ  الله تعالی كے سوا كوئی معبود برحق نہیں وہی تنہا ہے اس كا كوئی شریك نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ـ

 لوگوں میں سے سب سے زیاده جو عزت ومقام والے اور بلند تذكرے والے بہت زیاده سلامتی نازل ہو آپﷺ پر، آپ كی آل پر اور آپ كے صحابہ كرام پر  ـ

لوگو!صلح پسندی میں ہی خیر و بهلائی ہے جو عظیم ترین عبادت بهی ہے اس كی وجہ سے كتنی جانوں،مالوں اور عزتوں كو الله تعالی نے بچایا، كتنے فتنوں سے الله نے محفوظ ركها،كتنی لڑائیوں كو ختم كیا اور اسی كی بدولت كتنی ہی دشمنیوں اور باہمی دوریوں كو الله تعالی نے ختم كردیااور الله سبحانہ وتعالی نے فتنوں اور لڑائی جھگڑوں كی آگ بجھا كر  باہمی چپقلش، كینہ پروری ،بغض و عناد مٹا كر  اور صلہ رحمی و صفائی كی فضا قائم كركے تمہیں آپس كے تعلقات درست ركهنے كا حكم صادر فرمایا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَةٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَ اَخَوَيۡكُمۡ ‌ۚ‌وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ

الحجرات -10

بیشک سب مومن آپس میں بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

 اور مزید فرمایا:

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ۪

(الانفال 75)

اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس میں میل (صلح صفائی)رکھو.

اور مزید ارشاد فرمایا:

لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِؕ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا

(النساء 176)

ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں مگر جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا اور جو اللہ کی رضا چاہنے کو ایسا کرے اُسے عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے۔

 آپس كے تعلقات كو درست ركهنا اور صلح جوئی كرنا قربت الہی  كے حصول اور اجر و ثواب  والے كاموں میں سے عظیم ترین كام ہے  ،نیز یہ سب سے پاكیزه اعمال  وصدقات  میں سے بهی ہے جیسا كہ ابو هریره  رضی اللہ عنہ   سے روایت ہے کہ  رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا :

كل سُلامى من الناس عليه صدقة كل يوم تطلع فيه الشمس: تَعْدِلُ بين اثنين صدقةٌ، وتُعِينُ الرجلَ في دابتِه فتَحملُهُ عليها أو تَرفعُ له عليها متاعَهُ صَدَقَةٌ، والكلمةُ الطيبةُ صدقةٌ، وبكل خُطْوَةٍ تمشيها إلى الصلاة صدقةٌ، وتُميط الأذَى عن الطريق صدقةٌ۔

(بخاری ومسلم)

لوگوں کے ہر جوڑ پر ہر روز، جس میں سورج طلوع ہوتاہے، صدقہ ہے۔” فرمایا: تم دو (آدمیوں) کے درمیان عدل کرو (یہ) صدقہ ہے۔اور تمہارا کسی آدمی کی، اس کے جانور کے متعلق مدد کرنا کہ اسے اس پر سوار کرادو یا اس کی خاطر سواری پر اس کا سامان اٹھا کر رکھو، (یہ بھی) صدقہ ہے۔”فرمایا: “اچھی بات صدقہ ہے اور ہر قدم جس سے تم مسجد کی طرف چلتے ہو، صدقہ ہے اور تم راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دو (یہ بھی) صدقہ ہے۔

اور عبدالله بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول الله ﷺنے ارشاد فرمایا:

أفضلَ الصَّدَقة إِصلاحُ ذاتِ البَيْن

(طبرانی)

لوگوں كے درمیان صلح كروانا افضل ترین صدقات میں سے ہے ۔

الله كے بندو!  صلح جوئی سے امت كی وحدت و یگانگت کی تكمیل ہوتی ہے ،نفوس كا تزکیہ ہوتا ہے  اور الله تعالی دلوں كو جوڑ دیتا ہے اور اسی كے ذریعہ  الله تعالی امت سے افتراق و اختلاف اور اس كے شیرازہ كے انتشار كو دور كر دیتا ہے اور  پے درپے آنے والے مصائب سے بچا لیتا ہے  ، آپس کے تعلقات كی بہتری كےساتھ ہی  امت ایك مضبوط عمارت اور ایك جسم كے مانند ہوتی ہے ،جب اس كے ایك عضو كو تكلیف ہوتی ہے  تو باقی سارا جسم بیداری اور بخار كے ذریعے سب اعضاء كو ایك ساتھ ملا كر اس كا ساتھ دیتا ہے  ۔

جیسا کہ ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے ارشاد فرمایا:

ألا أخبركم بأفضل من درجة الصيام والصلاة والصدقة؟ فقالوا: بلى يا رسول الله۔ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إصلاح ذات البين، فإن فساد ذات البين هي الحالقة

مسلم

” کیا میں تمہیں روزے ، نماز اور صدقے سے بڑھ کر افضل درجات کے اعمال نہ بتاؤں ؟ “ صحابہ  نے کہا : کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول ! آپ ﷺ نے فرمایا ” آپس کے میل جول اور روابط کو بہتر بنانا ۔ ( اور اس کے برعکس ) آپس کے میل جول اور روابط میں پھوٹ ڈالنا ( دین کو ) مونڈا دینے والی خصلت ہے ۔ “

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  ایسی خصلت جو مونڈ دینے والی ہے یا  برباد کر دینے والی ہے اور دین کو ختم کر دینے والی ہے ۔لوگو! اس ساری باتوں کے بعد گزارش یہ ہے اللہ تعالیٰ سے ڈرو حقداروں کو ان کا حق ادا کرو۔

 جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

“تمہیں روز قیامت حق والوں کے حق ضرور ادا کرنے ہوں گے حتیٰ کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا “۔

 اپنے نفسوں کا محاسبہ کرلو،  قبل  اس کے تمہارا محاسبہ کیا جائے ، موت سے پہلے پہلے اپنے آپ کو بری کرلو، حق داروں کے حقوق کے تعلق سے اپنا معاملا ت صاف کرلو،  اور کیے ہوئے ظلم کا بدلہ چکالو،  اور رشتہ دار کو اس کا حق ادا کردو،ارشاد باری تعالی ہے :

وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَ لَّا تَعْدِلُوْا ۗ اِعْدِلُوْاۗ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۖ

المائدة
کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے ۔

 اے اللہ  ہمیں حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما او رصلہ رحمی میں ہماری مدد فرما ، ہمارے آپس کے معاملات درست فرما   اور ہمیں حسد سے پاک فرما اور موت کو ہمارے لیے ہر شر سے راحت کا سبب بنا دے۔ اے اللہ حقوق ادا کرنے کی توفیق ادا فرما اور صلہ رحمی میں ہماری مدد فرما اور ہمارے اوپر ایسا بوجھ نہ ڈالنا جس کے ہم طاقت نہ رکھتے ہوں، ہمیں سب سے زیادہ حقوق پورے کرنے اور تقویٰ اختیار کرنے والوں میں سے بنا اور ہمیں معاف فرما۔  اور انہیں جن کے ہمارے اوپر حقوق ہے انہیں بھی معاف فرمادے ، اے اللہ ایمان کو ہمارے دلوں میں مزین کر دے اور کفر ، فسوق اور گناہ کو  ہمارے  دلوں سے دور کر دے  ، اے اللہ ہمارے دلوں کو اسلام پر ثابت قدم رکھنا ،اے اللہ اپنی اطاعت کی طرف ہمارے دلوں کو پھیر دے، اے اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، اپنے موحد بندوں کی مدد فرما ،اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا دے، اے اللہ تو ہمارے وطن میں امن پیدا فرما ،ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما، اے اللہ ہمارے حاکم خادم حرمین شریفین کو خصوصی توفیق عطا فرما ،ان کی تائید و نصرت فرما ان کو  صحت یابی  عطا فرما ،اے جہانوں کے پالنے والے رب ان کو اور ان کے ولی عہد کو اپنے پسندیدہ کاموں  کی توفیق عطا  فرما اے دعاؤں کو سننے والے اے اللہ ہمارے اعمال کو قبول فرما بیشک تو سننے والا اور جاننے والا ہے اوہ ہماری توبہ کو قبول فرما بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا ہے او ر مہربان ہے اے اللہ نبی ﷺپر اور ان کی آل پر اور صحابہ اکرام پر رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرما ۔

خطبة الجمعة مسجدالنبويﷺ:

فضیلة الشیخ ڈاکٹر عبداللہ البعیجان حفظه اللہ
23 صفر 1445 ھ بمطابق 08 ستمبر 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالرحمٰن بعیجان حفظہ اللہ

آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، آپ ایک بلند پایہ خطیب اور بڑی پیاری آواز کے مالک ہیں۔جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کلیۃ الشریعۃ میں مدرس ہیں۔