رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدائش کے واقعات جو عمومی طور پر کتبِ سیرت و تاریخ میں پائے جاتے ہیں ان میں سے اکثر کی کوئی اصل نہیں ہے اور مستندکتب احادیث میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا ، جبکہ ان کا اصل وبنیادی ماخذ کتب ِدلائل،معجزات و کتب ِتاریخ ہیں جن میں صحیح ، حسن (صحیح حدیث کی قسم ) اور ضعیف (ناقابل ِقبول) ہر قسم کی روایات موجود ہیں۔ ان کتب کی تالیف کا مقصد عمومی طور پر تمام واقعات کا احاطہ کرنا تھا جس میں ان واقعات کے ثبوت میں صحیح و سقیم ، قوی و ضعیف کے فرق کو مدِّنظر نہیں رکھا گیا گو کہ تاریخ و سیرت کی کتابوں میں بھی بڑی تعداد میں ضعیف اور منکر روایات پائی جاتی ہیں کیونکہ تاریخ کی کتب میں موجود روایات کے نقد و تحقیق پر قطعی توجہ نہیں دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ دیگرعلوم کے اصول کی طرح ابھی تک تاریخ کے اصول وضع و مرتب نہیں کئے گئےجبکہ تاریخ میں موجود راویات کا تعلق بھی رسول اللہ ﷺ سے تھا اصولاً تو احادیث کی طرح ان کی نقد و تحقیق کے اصول بھی وضع کئے جانےچاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا اسی لیے آج جہاں ایک طرف تو اصولِ تاریخ نہ ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں ضعیف اور موضوع روایات کا رد نہ ہوسکا اور دوسری طرف اُن ضعیف یا من گھڑت روایات کے منتشر ہونے کی وجہ سے ایسے بہت سے عقائد ، افکار و نظریات ہمارے معاشرے میں رائج ہوچکے ہیں جنکا ثبوت قرآن و حدیث میں نہیں ہے اور جو خیرالقرون یعنی صحابہ و تابعین کے زمانے میں موجود نہیں تھے۔
شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
ان کتب میں زیادہ تر تو وہی روایات جمع کرنے کا قصد کیا گیا ہے جو حدیث کی مستند کتب میں شامل نہیں کی گئی تھیں یہ راویات عام طور پر قصہ گو واعظین کی زبان زد تھیں جو ان سے محض رونق محفل کا کام لیتے تھے ، ان کتب کے مولفین نے اسرائیلیات اقوالِ مکی، قصص و حکایات اور حدیث کے مختلف ٹکڑوں کو حدیث کا درجہ دےکر باقاعدہ کتابوں میں مدون کیا۔(حجۃ اللہ البالغہ جلد1، ص 133)
بر صغیر پاک و ہند میں جو کتب میلاد ناموں کی حیثیت سے رائج ہیں ان کے ماخذ درج ذیل کتب دلائل و معجزات ہیں:
۱۔ دلائل النبوۃ، حافظ ابو نعیم (430ھ)
۲۔ دلائل النبوۃ، البیہقی (923ھ)
۳۔ المواھب الدینہ، القسطلانی (923ھ)
۴۔ معارج النبوۃ ، ملا معین الدین الھروی (907)
۵۔ الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، قاضی عیاض موسیٰ (544ھ)
٦۔ الخصائص الکبریٰ ، حافظ سیوطی (911ھ)
۷۔ مدارج النبوۃ ، حافظ شاہ عبد الحق دھلوی (1052ھ)
میلاد ناموں کا دوسرا بڑا ماخذ کتب ِسیرت ہیں جن میں قدیم ترین ابن اسحاق ، واقدی ، ابن سعد اور طبری کی کتب ہیں۔
عمومی طور پر متاخرین نے جتنی بھی کتب تالیف یا تصنیف کیں وہ سب بالواسطہ یا بلا واسطہ انہی مذکورہ کتب سے ماخوذ ہیں اور ان کتب کا اگر تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو جو صورتِ حال ہمارے سامنے آتی ہے وہ درج ذیل ہے:
کتب دلائل معجزات میں حافظ ابو نعیم اور بیہقی کی دلائل النبوة بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں کیونکہ بعد میں حافظ قسطلانی نے انہی دو کتب کی روایات بغیر نقد اور تحقیق کے اپنی کتاب المواھب الدینیہ میں جمع کردیا جس میں صحیح روایات کی تعداد بہت کم جبکہ ہزاروں کی تعداد میں موضوع اور ضعیف روایات درج کی گئی ہیں۔ بعد میں ملا معین الدین الھروی نے معارج النبوۃ میں انہی روایات کو فارسی زبان میں بیان کیا ، چونکہ اس وقت بر صغیر کی علمی و معاشرتی زبان فارسی تھی، لہٰذا اس کتاب کی روایات کو پھیلنے میں زیادہ دیر نہ لگی اور برِّصغیر کی عمومی تاریخ میں یہ ویسے بھی بے راہ روی کا دور ہے جس میں یونانی فلسفہ اور تصوف کی تعلیمات کو اسلام کے نام سے پیش کیا جا رہا تھا یونانی فلسفہ اور تصوف میں ہندوانہ افکار کے عاملین صوفیاء نے اس تمام مواد کو اسلام کی طرف منسوب کرکے پیش کیا،جس کی وجہ سے میلاد ناموں کی ان ضعیف روایات کو جگہ بنانے میں آسانی ہوئی جن کے ضعف کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ یہ تمام روایات بغیر سند کے بیان کی گئی تھیں اور اسرائیلیات ، اخبارِ یہود اور بے بنیاد عجیب و غریب روایات و حکایات سے بھرپور تھیں ، المواھب الدینیہ اور معارج النبوۃ کے علاوہ دلائل النبوۃ کے نام سے موسوم دونوں کتب بھی غیر معتبر اور موضوع روایات پر مشتمل ہیں چونکہ ان کے مؤلفین نے ان روایات کو بغیر نقد و تحقیق کے قبول کرلیا تھا اور انہیں کتب میں درج کردیا تھا اور بعد میں آنے والوں نے ان مولفین کی بڑے نام دیکھ کر ان روایات کو بلا نقد و تحقیق قبول کرلیا جبکہ ان روایات کو بیان کرنے والے ایسے راوی تھے جو ائمہ جرح و تعدیل کے مطابق قطعاً احتجاج و اعتبار کے قابل نہ تھے۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابو نعیم اپنی تساہل پسندی ، موضوع روایات پر خاموشی اور روایات کے نقل و جمع میں بے احتیاطی میں اہلِ علم کے درمیان معروف ہیں۔ حافظ ابو نعیم ان کے ہم عصر ابن مندہ نے بعض اوقات سخت الفاظ میں تنقید کی جس پر حافظ الذھبی نے میزان الاعتدال میں تحریر کیا: مجھے ان دونوں کا اس سے زیادہ گناہ معلوم نہیں کہ یہ موضوع روایات کو خاموشی کے ساتھ روایت کرجاتے تھے (56/1)
حافظ ابو نعیم کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کتاب التوسل میں بیان کرتے ہیں کہ فضائلِ اعمال وغیرہ میں جن لوگوں نے کتب تصنیف کیں مثلاً ابن السنی اور ابو نعیم وغیرہ ، ان کی کتب میں بہت سی روایات موضوع ہیں جن پر اتفاق کرنا ، انکا اعتبار کرنا ، باتفاق العلماء جائز نہیں۔(ص193)
اور اسی کتاب میں ایک اور مقام پر تحریر کیا کہ وہ فضائل اعمال وغیرہ میں بکثرت روایات بیان کرتے ہیں جن میں صحیح و حسن کے ساتھ ساتھ ضعیف بلکہ موضوع اور بے بنیاد روایات بھی ہوتی ہیں۔(ص201)
حتی کہ قاضی عیاض نے اپنی مشہور کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ میں ایسی روایات بغیر کسی سند کے تحریر کیں ، اور یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ میلاد ناموں میں پائی جانے والی روایات اسی کتاب میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ موجود ہیں۔
جبکہ اس کتاب کے بارے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تحریر کیاکہ:
اس طرح کی روایات پر شریعت کی بنیاد رکھنا کسی طور بھی جائز نہیں بلکہ جمہور مسلمانوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ان روایات سے دین (کے کسی مسئلہ میں) میں کوئی دلیل نہیں لی جاسکتی کہ ان کا تعلق اسرائیلیات سے ہے (جو ہماری شریعت میں دلیل کی حیثیت نہیں رکھتیں) ۔(198)
متاخرین میں سے سب سے معروف کتاب ہے وہ حافظ سیوطی کی تالیف الخصائص الکبریٰ ہے۔
سابقہ کتب اور اس کتاب میں یہ فرق ہے کہ سابقہ کتب کا حصہ ضعیف و موضوع روایات پر مشتمل ہے جس میں سند کا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا ، لیکن اس کتاب کے ماخذ اسکو سابقہ کتب سے بہتر ثابت کر رہے ہیں جن میں صحاحِ ستہ یعنی امام بخاری ، مسلم، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ،ترمذی کے علاوہ طیالسی، حاکم، ابو یعلیٰ، بیہقی، ابو نعیم، ابن السعد ، طبرانی ، ابن شاینی ، ابن النجار ، ابن مندہ ، ابن عساکر ، دیلمی ، خرائطی اور خطیب بغدادی کی معروف کتب شامل ہیں ، لیکن جب اس کتاب کے مندرجات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حافظ سیوطی نے اس کتاب میں ضعیف، موضوع، صحیح، سقیم ہر قسم کی روایات بغیر اسناد کے درج کردی ہیں اور ایک حیران کن امر یہ ہے کہ حافظ سیوطی نے ان کتب میں بعض ایسی روایات کو بھی درج کردیا جو ان کے نزدیک ضعیف تھیں یا جن روایات کی بابت انہیں علم تھا کہ یہ ضعیف ہیں لیکن وہی جلالت شان والا قاعدہ استعمال ہوا اور متقدمین کی کتب سے ماخوذ واقعات اس کتاب میں درج کردیئے گئے۔ چنانچہ میلاد ناموں کے حوالے سے ابو نعیم کے حوالے سے کچھ واقعات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اس روایت میں اور اس سے قبل کی روایت میں شدید قسم کی نکارت پائی جاتی ہے میں نے اپنی کتاب میں اس سے زیادہ منکر روایات درج نہیں کی گو کہ میرا دن ان روایات کو درج کرنے پر آمادہ نہ تھا لیکن حافظ ابو نعیم کی پیروی میں ایسا کیا۔(ج1/ص49)
اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جس روایات کی بات حافظ سیوطی صاحب یہ تحریر کر رہے ہیں وہ روایات ابو نعیم کی مطبوعہ دلائل النبوۃ میں موجود ہی نہیں ہے۔
روایئات میلاد کے حوالے سے بر صغیر میں سب سے اہم ترین کتاب شاہ عبد الحق محدث دھلوی کی مدارج النبوۃ ہے جو کہ فارسی زبان میں ہے اس کتاب کا منہج بھی حسب سابق ہے یعنی روایات بغیر سند کے درج کی گئی ہیں اور ہر قسم کی روایات بلا تعدد و تحقیق شامل تحریر کی لی گئی روایات میں ایک بڑا ماخذ کتب سیرت ہے جس میں ابن اسحاق، واقدی، ابن سعد اور طبری کی کتب شامل ہیں۔ ان میں واقدی پر شدید جرح کی گئی ہے بلکہ محدثین نے واقدی سے ترک روایت کو ہی مستحسن خیال کیا ہے۔(تذکرۃ الحفاظ، ذ ھبی ج1/ص318)
واقدی کے علاوہ ابن اسحاق پر بعض علماء نے جرم کی ہے جس کی وجہ غالبا یہی ہے کہ محدثین نے روایات حدیث پر ابن اسحاق پر زیادہ اعتبار نہیں کیا اور اسی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں کتاب المغازی کے ابواب میں ابن اسحاق کے ایک بھی روایت نہیں بیان کی، لیکن ایک بات اہم ہے کہ ابن اسحاق، طبری، ابن سعد کی جلالت شان کہیں بھی یہ مفہوم بیان نہیں کرتی کہ ان کی کتب صحیح ہیں بلکہ ان تینوں کی روایات میں ضعیف اور منکر روایات بھی شامل ہیں مثال کے طور پر سیرت ابن اسحاق کے بارے میں امام ابن حبان نے تحریر کیا: وہ روایت نقل کرنے میں فحش غلطیوں کا ارتکاب کرتے تھے اور کثیر الوھم تھے اور اگر وہ روایت کو تنہا نقل کریں اس سے احتجاج جائز نہیں۔(تہذیب التہذیب ، ابن حجر العسقلانی ج2/ص376)
اور ابن سعد واقدی کے شاگرد خاص ہیں اور ان کی نصف سے زائد روایات واقدی سے ہی اخذ کی ہوئی ہیں، جنہیں محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے اور ابن سعد کی واقدی سے بیان کردہ روایات کے علاوہ باقی روایات بھی ایک کثیر تعداد غیر ثقہ راویوں سے بیان کی گئی ہیں۔(شبلی نعمانی، سیرت النبی ج1/ص49)
کتب سیرت میں ضعیف روایات کی کثرت کی معروف وجہ تو یہ ہے کہ سیرت میں کسی بھی واقعہ کی تمام تر جزئیات صحیح روایات سے نہیں مل پاتی، لہٰذا واقعات کے ایسے مقامات جو صحیح روایات میں بیان نہیں ہوئے وہ مجبوراً ضعیف اور موضوع روایات سے اخذکئے جاتے ہیں اور دوسری وجہ حدیث کی صحت میں سب سے بڑی وجہ اتصال سند ہے اور تاریخ میں اتصال سند کی کوئی شرط نہٰں اور اتفاقا میلاد نامے کی جتنی بھی روایات کتب سیرت میں پائی جاتی ہیں ان تمام میں اتصال سند کی شرط نہیں پائی جاتی۔
تیسری وجہ جو صحتِ حدیث میں اہم ہے وہ راوی کا ثقہ ہونا ہے جبکہ میلاد ناموں کی روایات میں راوی کی ایک بہت بڑی تعداد ضعیف اور منکر ہے۔
چوتھی وجہ کتب سیرت کے مولفین کا یہ فہم تھا جس کے تحت راویات کی تعداد تحقیق ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب احکام و مسائل پر مبنی روایات اور احادیث سامنے ہوں اس سے ہٹ کر روایات میں نقد و تحقیق کی کوئی ضرورت نہیں یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا کتب میں صحیح روایات کے ساتھ ضعیف اور موضوع روایات کی ایک بہت بڑی تعداد جمع ہوگئی ہے ، جس کا سب سے بڑا مظہر میلاد نامے ہیں اور حیران کن امر یہ ہے کہ اس غیر معقول منھم کو اختیار کرنے والوں کی فہرست بعض نام مثلا حاکم، قاضی عیاض، حافظ سیوطی، حافظ موسیٰ المدینی، ابن عساکر، خطیب وغیرہم کبار محدثین میں شمار ہوتے ہیںم گوکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی ایک توجیہہ بیان کی:
ان روایات کے بیان کرنے سے ان کی یہ غرض ہوتی ہے کہ مطلوبہ واقعہ میں موجود جو کچھ بھی مرویات پایا جائے وہ لوگوں کے سامنے لایا جائے اور ان کا مقصد ان روایات سے استدلال نہیں ہوتا تھا۔(کتاب الوسیلہ ص202)
اگر ابن تیمیہ کی اس توجیہہ کو مدنظر رکھا جائے تو جو صورت حال سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ کتب تاریخ و سیرت کے علاوہ ایسی روایات کتبِ تفسیر وغیرہ میں بھی کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ لیکن سوال پھر بھی موجود ہے کہ فرمانِ رسول ﷺ ’’ سنی سنائی بات کو بیان کرنا کذب بیان ہے‘‘ کے باوجود کتب تاریخ میں ایسی روایات کے بیان کرنے میں تساہل پسندی کیوں کر ممکن ہوئی اور یہ خیال از تصور کس طرح ایک فہم اختیار کرگیا کہ نقد و تحقیق اوراحتیاط پسندی صرف احکام و مسائل پر مبنی روایات میں ضروری ہے۔
اس تمہیدی سطور کے بعد یہ بات کہنا آسان ہے کہ جب میلاد ناموں پر مبنی کتب کی روایات کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان کا سب سے بڑا ماخذ ابو نعیم، ابن عساکر ، طبری اور سیوطی وغیرہ کی کتب ہیں۔ روایات کے ضعف کے لئے یہی کافی ہے ، درجہ اولیٰ یا دوم کی تمام کتب ان روایات سے خالی ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ولادت رسول ﷺ سے متعلق یہ روایات سرے سے ہی غیر مستند اور موضوع ہیں ان کو وضع کرنے والے قصاص اور واعظین ہیں جنہوں نے اپنے بیانات کو پر کشش بنانے کے لئے ایسے جھوٹے واقعات کا سہارا لیا اسی وجہ سے ان قصہ گو واعظین کو ابن الجوزی’’ مغطم البلاء‘‘ کہتے تھے
ان روایات کے وجود میں آنے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ واعظ حضرات نے اپنی تخیلات کی بنیاد پر رسول اللہﷺ کی پیدائش کو دل کش بنانے کے لئے شاعرانہ انداز میں بیان کرنا شروع کیا مثلاً آپ ﷺ کی پیدائش کے بعد سیدہ آمنہ کا گھر منور ہوگیا، مکہ کے سوکھے درختوں میں بہار آئی، ستارے زمین پر جھک گئے، آسمان کے دروازے کھل گئے، فرشتوں نے اظہار مسرت کیا، شیطان کو باندھ دیا گیا، اس سال مکہ میں کسی لڑکی کی پیدائش نہیں ہوئی وغیرہ وغیرہ۔(سیرت النبی، شبلی نعمانی۔ص734)
اور بعد کے غیر محتاط قصہ گو افراد نے اس شاعرانہ تخیلات کو بھی امر واقعہ سمجھ لیا۔
بلکہ ہر واعظ اور قصہ گو نے اس میں اپنی طرف سے اضافہ بھی کیا ایسی روایات کی ایک واضح مثال معین الدین الھروی کی معروف کتاب معارج النبوۃ ہے۔
اسی وجہ سے مشہور مفسر ابو الکلام آزاد نے معارج النبوۃ کے بارے میں لکھا ہے کہ:
ملا معین الدین الھری، حکایات طرازی، روایات ضعیفہ و موضوعہ نقل کرنے میں اسرائیلیات اور اخبار یہود وغیرہ میں اپنا جواب نہیں رکھتا اس نے انہی سب بے سروپا روایات کو اپنی معارج النبوۃ میں فارسی میں زنگ و روغن کے ساتھ جمع کردیا چنانچہ اردو زبان میں جس قدر بھی مولود نامے لکھے گئے وہ سب بالواسطہ یا بلا واسطہ اسی معارج النبوۃ اور ان جیسی کتب سے ماخوذ ہیں۔(ولادۃ النبوی،ابو الکلام آزاد ص81)
میلاد ناموں پر مبنی کتب میں ضعیف و منکر کے علاوہ موضوع روایات کا ایک انبار ہے ان ہی میں چند مشہور روایات درج ذیل ہیں:
۱۔ محمد ﷺ کا نور اللہ کے نور سے پیدا کیا گیا ہے۔
۲۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کا نور پیدا کیا۔
۳۔ اے نبی ! اگر تو نہ ہوتے تو تو آسمان کو پیدا نہ کرتا۔
۴۔میں اس وقت بھی نبی تھا، جب آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے مرحلے میں تھے۔
۵۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ اللہ کے رسولﷺ آپ کی نبوت کب واجب ہوئی، فرمایا جب آدم علیہ السلام روح اور حکم کے درمیان تھے۔
۶۔ جس رات نبی ﷺ کی ولادت ہوئی اس رات کسری کے محل میں زلزلہ آگیا اور ۱۶ کنگرے گر گئے اور نہر ساہ خشک ہوگئی اور فارس کا آتش کدہ بجھ گیا۔
الغرض ایسی تمام روایات میں سے ایک بھی روایت قابلِ اعتبار نہیں اسی طرح کا کوئی واقعہ حدیث کی مستند کتب میں منقول ہے، یہ تمام واقعات اور روایات دلائل معجزات اور تاریخ سیرت کی کتب سے نقل کئے گئے جو بقول شبلی نعمانی محتاج نقیح ہیں۔(سیرت النبی، شبلی نعمانی ج1/ص84)
مشہور مفکر تقی اپنی معروف کتاب حدیث کا درایتی معیار میں میلاد ناموں پر مبنی روایات کی تحقیق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ صحابہ کرام میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کی عمر رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کے وقت روایات بیان کرنے کی وہ اور اگر تمام روایات واقعات مبعوث ہونے کے بعد رسول ﷺ نے خود بیان فرماتے ہوتے تو اتنے اہم واقعات کا تذکرہ حدیث کی مستند کتابوں میں ضرور ہوتا، یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام بڑے بڑے محدثین متفقہ طور پر آپ ﷺکی پیدائش اور ایام طفولیت کے دلائل نبوت کو نظر انداز کردیتے اگر یہ واقعات عوام میں ایک حقیقت کے طور پر مشہور ہوتے تو اعلان نبوت کے بعد آپ ﷺ کو تبلیغ رسالت میں جس قدر دشواریاں پیش آئیں وہ نہ آتیں بلکہ ہر شخص ان واقعات کی شہرت کی بناء پر ایمان لانے پر مجبور ہوتا۔(ص208)