سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہاں کے لوگ نیروز اور مہرجان کے نام سے دو خوشی کے تہوار مناتے ہیں تو آپ ﷺنے صحابہ کرام سے پوچھا:
ما هذانِ اليومانِ قالوا كنَّا نلعبُ فيهما في الجاهليَّةِ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ إنَّ اللَّهَ قد أبدلَكم بِهما خيرًا منهما يومَ الأضحى ويومَ الفطرِ
( صحیح سنن أبي داود للألبانی : 1134)
تو صحابہ نے رضوان اللہ علیہم کہا: جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں میں کھیلتے کودتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں: ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن۔“
عید الفطر اس وقت منائی جاتی ہے جب مسلمان رمضان المبارک میں فرض روزوں کی تکمیل کر کے اس مقدس مہینے کے ایک تربیتی دور سے گزر کر اپنی روحانیت کو جلا بخشتے ہیں اور عید الاضحی اس وقت منائی جاتی ہے جب مسلمان دس ذوالحجہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی دیتے ہیں ۔ درج ذیل سطور میں عیدین کے مسائل، احکام اور سنتوں سے متعلق چند گزارشات پیش خدمت ہیں ۔
تکبیرات
ذو الحجہ کا چاند دیکھتے ہی تکبیرات کہنی شروع کردینی چاہئیں ۔ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھے تکبیرات کہتے رہنا چاہیئے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ :
وَاذْكُرُوا اللهَ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ: أَيَّامُ الْعَشْرِ ، وَالْأَيَّامُ الْمَعْدُودَاتُ: أَيَّامُ التَّشْرِيقِ.
(صحیح البخاری: 969)
آیت”اور معلوم دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرواس میں “ایام معلومات‘‘ سے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں اور’’ ایامِ معدودات‘‘ سے مراد ایام تشریق ہیں۔
تکبیرات کے الفاظ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تکبیرات کے یہ الفاظ منقول ہیں:
اَللهُ أَكْبَرُ ، اَللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ، وَاللهُ أَكْبَرُ، اَللهُ أَكْبَرُ، وَلِلهِ الْحَمْدُ1
اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، اور تمام تعریفیں اللہ کےلیے ہیں۔
کثرت سے تکبیرات کہنے کا حکم
سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ أَیَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللہِ وَلَا أَحَبُّ اِلَیْهِ مِنَ الْعَمَلِ فِیْہِنَّ مِنْ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ، فَأَکْثِرُوْا فِیْہِنَّ مِنَ التَّہْلِیْلِ وَالتَّکْبِیْرِ وَالتَّحْمِیْدِ2
ذوالحجہ کے پہلے دس دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت ہی عظمت اور بزرگی والے ہیں اور ان دنوں کے اعمال اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں بہ نسبت دوسرے دنوں کے ، پس تم ان دنوں میں کثرت سے تہلیل ، تکبیر اور تحمید کہا کرو ۔
پورا عشرہ ذی الحجہ تکبیرات کہنا
پورا عشرہ ذی الحجہ تکبیرات کہنا صحابہ کرام کا مبارک عمل تھا، صحيح بخاری میں معلق روایت ہے:
وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُكَبِّرَانِ وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا، وَكَبَّرَ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ خَلْفَ النَّافِلَةِ
(صحیح البخاری: 969)
حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ذو الحجہ کے پہلے دس دنوں میں جب بازار کی تشریف لے جاتے تو چلتے پھرتے تکبیریں کہتے اور لوگ بھی ان تکبیرات سن کر تکبیر کہتے اور محمد بن باقر رحمہ اللہ نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے۔
عورتوں کا بھی تکبیرات کہنا
وَكَانَتْ مَیْمُونَةُ: تُكَبِّرُ یَوْمَ النَّحْرِ وَكُنَّ النِّسَاءُ یُكَبِّرْنَ خَلْفَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ، وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ العَزِیزِ لَیَالِیَ التَّشْرِیقِ مَعَ الرِّجَالِ فِی المَسْجِدِ
(صحیح البخاری:971 )
ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا دسویں تاریخ میں تکبیرکہتی تھیں اورعورتیں ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ اورعمربن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پیچھے ایام تشریق مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیرکہتیں تھیں۔
حجامت
جس شخص کی جانب سے قربانی کرنی ہو اس شخص کو چاہیئے کہ وہ عشرہ ذوالحجہ کے دوران اپنی حجامت نہ بنوائے ۔ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے پہلے اپنی حجامت وغیرہ بنوا سکتا ہے کیونکہ قربانی کرنے والے کے متعلق حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن كانَ له ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فإذا أُهِلَّ هِلالُ ذِي الحِجَّةِ، فلا يَأْخُذَنَّ مِن شَعْرِهِ، ولا مِن أظْفارِهِ شيئًا حتَّى يُضَحِّيَ
(صحيح مسلم: 1977)
جس شخص کے پاس قربانی کا جانور ہو ، اور وہ اس کو قربانی کے دن قربانی کے لیے ذبح کرنا چاہتا ہو تو اس کو چاہیئے کہ جب سے ذوالحجہ کا نظر آجائے تو وہ اپنے بال اور ناخن وغیرہ نہ کٹوائے یعنی حجامت نہ کروائے یہاں تک کہ وہ قربانی کرے ۔
اگر قربانی کی استطاعت نہ ہو
جس شخص میں قربانی کی استطاعت نہ ہو تو اس کو بھی چاہیئے کہ وہ بھی عشرہ ذو الحجہ میں حجامت نہ بنوائے بلکہ عید کے بعد حجامت بنوائے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت اور فضل سے قربانی کا ثواب عطا فرمائے گا ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے :
أُمِرتُ بيومِ الأضحى ، جعلَهُ اللَّهُ عيدًا لِهَذِهِ الأمَّةِ ، فقالَ الرَّجلُ : أرأيتَ إن لم أجِد إلَّا مَنيحةَ ابني ، أفأضحِّي بِها ؟ قالَ : لا ، ولَكِن تأخُذُ من شعرِكَ ، وتقلِّمُ أظفارَكَ ، وتَقصُّ شاربَكَ ، وتحلقُ عانتَكَ ، فذلِكَ تمامُ أضحيَّتِكَ عندَ اللَّهِ3
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دسویں ذی الحجہ کو مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے ، ایک شخص کہنے لگا: بتائیے اگر میں مادہ اونٹنی یا بکری کے سوا کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو، اور زیر ناف کے بال لے لو، اللہ عزوجل کے نزدیک (ثواب میں) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے۔
عیدین کا روزہ
عیدین ( عید الفطر اور عید الاضحی) کے دن کا روزہ رکھنا منع ہے کیونکہ حدیث میں آتا ہے ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
أنَّ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ نَهَى عن صِيَامِ يَومَيْنِ، يَومِ الفِطْرِ، وَيَومِ النَّحْرِ
( صحيح مسلم: 2674 )
رسول اللہ ﷺ نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔
عیدین کے دن کھانا
عید الفطر کی نماز کے لیے عیدگاہ جانے سے پہلے کچھ کھا پی کر جانا چاہیئے اور عید الاضحی کے دن عید کی نماز پڑھ کر کچھ کھانا پینا چاہیئے ۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے :
کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لَا یَخْرُجُ یَوْمَ الْفِطْرِ حَتّٰی یَطْعَمَ، وَلَا یَطْعَمُ یَوْمَ اْلأَضْحٰی حَتّٰی یُصَلِّيَ4
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن(کھجوریں)کھانے کے بغیر(نماز کے لیے)نہیں جاتے تھے اور عید الاضحی کے دن نماز پڑھنے کے بعد ہی کھاتے تھے۔
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لا يَغْدو يَومَ الفِطْرِ حتى يَأكُلَ، ولا يَأكُلُ يَومَ الأضْحى حتى يَرجِعَ، فيَأكُلَ مِن أُضحِيَّتِه5
آپ ﷺعید الاضحی والے دن کچھ نہیں کھاتے تھے جب تک لوٹ نہ آتے تھے پھر لوٹ کر اپنی قربانی کا گوشت کھاتے تھے۔
عیدگاہ کی طرف پیدل جانا
عید گاہ کی طرف پیدل جانا سنت نبی ﷺ کی سنت ہے. اس سلسلہ میں بہت سی حدیثیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار مروی ہیں۔ چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ :
أن النبي صلى الله عليه و سلم كان يخرجُ إلى العيدِ ماشيًا ويرجعُ ماشيًا6
نبی ﷺعید کی نماز کے لئے پیدل جاتے تھے اور پیدل واپس آتے تھے۔“
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
مِنْ السُّنَّةِ أَنْ تَخْرُجَ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا7
سنت طریقہ یہ ہے کہ عید پڑھنے کے لئے پیدل چلا جائے ۔‘‘
عیدگاہ جاتے اور آتے ہوئے راستہ بدلنا
حضرت جابر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ:
إذا كان يوم عيد خالف الطريق كانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ إذَا كانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ
صحيح البخاري : 986
رسول اللہ ﷺعید کے دن عید گاہ جانے اور واپس ہونے کے لیے راستہ تبدیل فرماتے تھے۔(یعنی ایک راستہ سے جاتے تھے اور دوسرے راستے سے واپس آتے تھے)۔
سنت یہی ہے کہ عید گاہ کی طرف پیدل چل کر جائے اور واپس بھی پیدل چل کر آئے ،البتہ اگر کوئی کمزور اور مریض ہے یا عیدگاہ دورفاصلے پر ہے زیادہ چلنے کی طاقت نہیں ہے تو پھر سواری بھی آنا جانا جائز ہے ۔
عیدگاہ جاتے اور آتے ہوئے بلند آواز سے تکبیرات
عید گاہ کی طرف جاتے وقت اور واپس آتے وقت بلند آواز سے تکبیرات پڑھنی چاہیئے ، جیسا کہ حضرت نافع رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ
أنَّه كان إذا غدَا يومَ الفِطرِ ويومَ الأضحى يَجهَر بالتكبيرِ حتى يأتيَ المصلَّى، ثم يُكبِّرَ حتى يأتيَ الإمامُ8
حضرت عبد اللہ بن رضی اللہ عنہما عید الاضحی اورعید الفطر کے دن جب عید گاہ جاتے توعید گاہ پہنچنے تک بلند آواز سے تکبیریں کہتے ، پھر عید گاہ پہنچ کر بھی تکبیریں کہتے رہتے یہاں تک کہ امام صاحب نمازِعید پڑھانے کے لیے پہنچ جاتے ۔
أنَّه كان يَجهَرُ بالتَّكبيرِ يومَ الفِطرِ إذا غدا إلى المصلَّى، حتى يخرُجَ الإمامُ فيُكبِّرَ9
حضرت عبد اللہ بن رضی اللہ عنہما عید الفطر کے دن جب عیدگاہ جاتے تو بلند آواز سے تکبیریں کہتے رہتے یہاں تک کہ امام صاحب نمازِ عید پڑھانے کے لیے پہنچ جاتے اور نماز عید کی تکبیر کہتے ۔
نماز شروع ہونے تک تکبیرکہنا
عید کی نماز کے لیے جاتے ہوئے تکبیر بلند کرنا چاہیئے اور نماز شروع ہونے تک بلند کرتے رہنا چاہیئے کیونکہ حدیث میں آتا ہے :
كان رسولُ اللهِ يخرج يومَ الفطرِ فيكبِّرُ حتى يأتيَ المصلَّى وحتى يقضيَ الصلاةَ ، فإذا قضى الصلاةَ قطع التَّكبيرَ
( السلسلة الصحیحة :171)
رسول اللہ ﷺعید الفطِر کے دِن (نماز کے لیے) نکلتے تو تکبیر بلند کرتے یہاں تک عیدگاہ پہنچ جاتے اور نماز ادا فرماتے اور اس کے بعد تکبیر روک دیتے ۔
عورتوں کو عیدگاہ میں لے جانا
نماز عیدمیں شرکت کے لیے مردوں ،عورتوں اور بچوں کا عیدگاہ جانا سنت ہے ،احایث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے عہد میں صحابیات عیدگاہ جایا کرتی تھیں ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
خَرَجْتُ مع النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ فِطْرٍ أوْ أضْحَى فَصَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ، ثُمَّ أتَى النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُنَّ، وذَكَّرَهُنَّ، وأَمَرَهُنَّ بالصَّدَقَةِ
( صحيح البخاري : 975، ومسلم :884)
’’میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کے دن نکلا، آپ نے پہلے نماز پڑھی، پھر خطبہ ارشاد فرمایا، پھر عورتوں کی طرف تشریف لے گئے اور انھیں وعظ و نصیحت کی اور صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی۔‘‘
اسی طرح سیدہ ام عطیه رضی الله عنها بیان كرتی هیں:
أُمِرْنَا أنْ نُخْرِجَ الحُيَّضَ يَومَ العِيدَيْنِ، وذَوَاتِ الخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ، ودَعْوَتَهُمْ ويَعْتَزِلُ الحُيَّضُ عن مُصَلَّاهُنَّ، قالتِ امْرَأَةٌ: يا رَسولَ اللَّهِ إحْدَانَا ليسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِن جِلْبَابِهَا
(صحيح البخاري : 351)
كه رسول الله ﷺ نے همیں اس بات كا حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو بھی باہر لے جائیں۔ تاکہ وہ مسلمانوں کے اجتماع اور ان کی دعاؤں میں شریک ہو سکیں۔ البتہ حائضہ عورتوں کو نماز پڑھنے کی جگہ سے دور رکھیں۔ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کے لیے) چادر نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اوڑھا دے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے هے :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بَنَاتَهُ وَنِسَاءَهُ أَنْ يَخْرُجْنَ فِي الْعِيدَيْن10
رسول اللہ ﷺ اپنی بیٹیوں اور گھر والیوں کو حکم دیتے کہ وہ عیدین کی نماز میں حاضر ہوں۔
عیدین کا خطبہ سننا
عید کا خطبہ سننا مستحب عمل ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَ ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاةَ قَالَ : إِنَّا نَخْطُبُ ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ لِلْخُطْبَةِ فَلْيَجْلِسْ ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَذْهَبَ فَلْيَذْهَبْ11
کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر ہوا ، جب نبی ﷺ نے نماز ادا کر لی تو فرمایا : ہم اب خطاب کریں گے ،خطبہ دیں گےلہذا جو چاہے وہ خُطبہ (سُننے )کے لیے بیٹھے اور جو جانا چاہے وہ چلاجائے۔
عیدین کی نماز میدان میں
مسنون وافضل طریقہ یہ ہے کہ عید کی نماز کھلے میدان میں ادا کی جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا عمل یہی تھا کہ آپ ﷺ ہمیشہ کھلے میدان میں عید کی نماز پڑھا کرتے تھے ۔جیساکہ حدیث میں آتا ہے :
كانَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَخْرُجُ يَومَ الفِطْرِ والأضْحَى إلى المُصَلَّى،
(صحيح البخاري.: 956)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ تشریف لے جاتےتھے۔
سیدنا ابو عمیر بن انس رحمہ اللہ نے اپنے ایک چچا صحابی رضی اللہ عنہ سےبیان کرتے ہیں کہ :
أنَّ رَكبًا جاءوا إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يشهدونَ أنَّهم رأوا الهلالَ بالأمسِ فأمرَهم أن يفطروا وإذا أصبحوا أن يغدوا إلى مصلَّاهم12
چند سوار آپ ﷺ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے شہادت دی کہ انہوں نے کل شام چاند دیکھا تھا۔ آپ ﷺ نے حکم دے دیا کہ ”روزہ افطار کر دو اور کل صبح نماز عید کے لئے عید گاہ میں آ جاؤ۔“
ان ا حادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھنی چاہیے اور اجتماعی طور پر پڑھنی چاہیے۔اور نماز عیدین عیدگاہ میں پڑھنا بہتر اور افضل ہے ، بشرطیکہ کوئی عذر شرعی مثل بارش و برف باری، شدیدسردی یا کوئی اور عذر موجود نہ ہوں ۔
وقال العلامة ابن الحاج رحمه اللہ : والسنة الماضية في صلاة العيدين أن تكون في المصلى، لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: ( صلاةٌ في مسجدِي هذا خيرٌ من ألفِ صلاةٍ في ما سواه إلا المسجدَ الحرامَ
ثم هو مع هذه الفضيلة العظيمة خرج -ﷺ- إلى المصلى وتركه، فهذا دليل واضح على تأكد أمر الخروج إلى المصلى لصلاة العيدين13
امام ابن الحاج المالکی رحمہ اللہ کہتے ہیں: دونوں عید کی نماز میں سنت یہ رہی ہے کہ یہ نمازیں (مسجد میں نہیں بلکہ)عیدگاہ میں ادا کی جائیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میری اس مسجد میں ایک نماز کعبہ کے علاوہ دوسری مساجد کی ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے“ اور یہ فرمانے کے ساتھ اِس عظیم فضیلت کو چھوڑ کر عیدوں کی نماز اپنی مسجد میں نہیں ادا کی بلکہ باہر عید گاہ میں تشریف لے گئے ۔ یہ بات نماز عیدین کے لیےعیدگاہ کی طرف نکلنے کے حکم کی تاکید کا واضح ثبوت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے حتی الوسع ہمیشہ افضل کام پر مداومت و محافظت فرمائی ہے۔
عید گاہ کی فضیلت
عیدگاہ میں نماز عید ادا کرنے میں کئی فضیلتیں اور خوبیاں حاصل ہوں گی جو دوسری جگہ نماز پڑھنے میں حاصل نہ ہوگی، پہلی فضیلت تو اتباع رسولﷺ دوسری فضیلت خلفاء راشدین کی پیروی،کیونکہ آپ ﷺ ہمیشہ صحابہ کرام کے ساتھ مسجد نبوی میں گنجائش ہونے کے باوجود نماز عیدین عید گاہ میں ادا فرماتے تھے۔
عید ین کی نماز مسجد میں
بارش یا کوئی اورعذر ہو تو مسجد میں نماز عید جائز ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
أنَّهُ أصابَهُم مطرٌ في يومِ عيدٍ فصلَّى بِهِمُ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ صلاةَ العيدِ في المسجِدِ
(ضعيف أبي داود : 1160)
ایک دفعہ عید کے ن بارش ہوگئی تو بارش کی وجہ سے نبی ﷺ نےصحابہ کرام کو عید کی نماز مسجد میں پڑھائی ۔
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح ہےیعنی مسئلہ اسی طرح ہے کہ نماز عید کھلے میدان میں پڑھنا افضل ہے،تاہم معقول شرعی عذر کی وجہ سے مسجد میں نماز عید پڑھی جا سکتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم عموماً نماز عید باہر عیدگاہ میں جا کر ہی پڑھتے تھے ۔
عیدین کی نماز کا وقت :
عید الفطر کی نماز یکم شوال اور عیدالاضحی کی نماز 10 ذوالحجہ کو ادا کی جائے گی ، ان دونوں نمازوں کا وقت سورج طلوع هوجانے کے بعد سے شروع ہوكر زوال تک یعنی ظہر کے وقت سے کچھ پہلے تک رہتا ہے ۔ دونوں عید کی نماز کا وقت ایک ہی ہے اوران دونوں کے اوقات میں صحیح حدیث سے کوئی فرق ثابت نہیں ہوتا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جب سورج ایک یا دو نیزہ بلند ہوجائے تو نماز ادا کریں ، یہ حکم جہاں عام نفل نمازوں کے لئے ہے وہیں نماز عیدین کے لئے بھی ہے ۔سیدنا عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قلتُ يا رسولَ اللَّهِ أيُّ اللَّيلِ أسمَعُ قالَ جوفُ اللَّيلِ الآخرُ فصلِّ ما شئتَ فإنَّ الصَّلاةَ مشْهودةٌ مَكتوبةٌ حتَّى تصلِّيَ الصُّبحَ ثمَّ أقصر حتَّى تطلعَ الشَّمسُ فترتفعَ قيسَ رمحٍ أو رمحينِ فإنَّها تطلعُ بينَ قرني شيطانٍ ويصلِّي لَها الْكفَّارُ ثمَّ صلِّ ما شئتَ فإنَّ الصَّلاةَ مشْهودَةٌ مَكتوبةٌ حتَّى يعدلَ الرُّمحُ ظلَّهُ
(صحيح أبي داود:1277)
ترجمہ:میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! رات کا کون سا حصہ زیادہ مقبول ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :آخر رات کا درمیانی حصہ ، سو جس قدر جی چاہے نماز پڑھو ۔ بیشک نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اس کا اجر لکھا جاتا ہے حتیٰ کہ فجر پڑھ لو ۔ پھر رک جاؤ حتیٰ کہ سورج نکل آئے اور ایک یا دو نیزوں کے برابر اونچا آ جائے ۔ بیشک یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کی عبادت کرتے ہیں ۔ پھر نماز پڑھتے رہو ، بیشک نماز میں فرشتے حاضر ہوتے اور اس کا اجر لکھا جاتا ہے حتیٰ کہ نیزے کا سایہ اس ( نیزے ) کے برابر ہو جائے ( یعنی دوپہر ہو جائے اور کوئی زائد سایہ باقی نہ رہے ) ۔
مذکورہ حدیث سے ہمیں معلوم ہوگیا کہ عیدین کی نماز کو اول وقت یعنی سورج ایک نیزہ بلند ہوجانے کے وقت ادا کرنا افضل ہے ، اس کی صراحت ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے ۔
خرَجَ عبدُ اللهِ بنُ بُسْرٍ صاحبُ النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مع النَّاسِ يومَ عيدِ فِطرٍ، أو أَضْحى، فأنكَرَ إبطاءَ الإمامِ، وقال: إنْ كُنَّا مع النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قد فرَغْنا ساعَتَنا هذه، وذلك حينَ التسبيحِ14
عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے روز نماز کے لیے گئے۔ امام نے نماز میں تاخیر کردی تووہ فرمانے لگے: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اس وقت نماز سے فارغ ہوچکے ہوتے تھے۔ راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا۔
اس حدیث سے جہاں اول وقت میں عید کی نماز ادا کرنے کا علم ہوتا ہے وہیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ زوال سے قبل اول وافضل وقت کے بعد بھی ادا کی گئی نماز ہوجاتی ہے ۔ یہاں ایک اور بات یہ معلوم ہوئی کہ عید الفطر اور عیدالاضحی کا وقت رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک ہی تھا۔
عیدالفطر اور عید الاضحی کے وقتوں میں فرق سے متعلق جو روایات ملتی هیں وه ضعیف هیں تو ثابت ہوا کہ سورج طلوع ہوجائے اور کراہت والا وقت گزرجائے ، تونمازِ عید کا وقت شروع ہوجاتا ہے، لہذا پوری کوششیہی ہونی چاہیئے کہ عید کی نماز جلدی پڑھ لی جائے۔ عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کی مندرجہ بالا حدیث سے پتہ چل رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کی نماز جلدی پڑھا کرتے تھے، تاخیر سے نہیں پڑھتے تھے۔
عیدین میں اذان واقامت نہیں
عیدین کی نماز کے لیے ازان واقامت نہیں ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس اور جابر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
لَمْ يَکُنْ يُؤَذَّنُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَلَا يَوْمَ الْأَضْحٰی
(أخرجه البخاري : 917، ومسلم في الصحيح: 886)
کہ عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے اذان نہیں کہی جاتی تھی۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
صَلَّيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْعِيْدَيْنِ غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ
(أخرجه مسلم في الصحيح: 887)
کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کئی مرتبہ بغیر اَذان اور اِقامت کے نماز عیدین پڑھی ہے۔
عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے
عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھنی چاہیئے جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
شَهِدْتُ الْعِيْدَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ، فَکُلُّهُمْ کَانُوْا يُصَلُّوْنَ قَبْلَ الْخُطْبَةِ
( صحیح البخاري : 920، وصحیح مسلم : 888)
میں نمازِ عید میں رسول اللہ ﷺ، حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی الله عنهم کے ساتھ حاضر ہوا۔ یہ سب خطبہ سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے۔
نمازِ عید ین کی رکعات
عید الاضحی اور عید الفطر کی نماز دو رکعتیں ہیں ۔ حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
صلاةُ الجمُعةِ رَكْعتانِ، وصلاةُ الفطرِ رَكْعَتانِ، وصلاةُ الأضحَى رَكْعتانِ، وصَلاةُ السَّفرِ رَكْعتانِ تمامٌ غيرُ قَصرٍ على لِسانِ مُحمَّدٍ
(صحيح النسائي: 1419،وصحيح ابن ماجه: 879)
جمعہ کی نماز دو رکعت ہے، عید الفطر کی نماز دو رکعت ہے، عید الاضحی كی نماز دو ركعت ہے اور مسافر کی نماز دو رکعت ہے، ۔ اور یہ سب (دو دو رکعت ہونے کے باوجود) بزبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔
نمازِ عیدین سے پہلے اور بعد میں نوافل
عیدین كی نماز سے پهلے اور بعد میں میں آنحضرتﷺ سے عید گاہ میں نفل پڑھنے كا ثبوت نهیں ملتا ۔ جیساكه صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمابیان كرتے هیں کہ:
أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ صَلَّى يَومَ العِيدِ رَكْعَتَيْنِ، لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا ولَا بَعْدَهَا
(صحيح البخاري: 5883 ومسلم :884)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن دو رکعتیں پڑھائیں نہ اس کے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعدکوئی نماز پڑھی ۔ معلوم ہوا کہ عید گاہ میں نفل پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں نہ نماز عید سے پہلے اور نہ نماز عید کےبعد اور اسی طرح نماز عیدسے پہلے گھر میں بھی نفل پڑھنا ثابت نہیں ، ہاں بعد نماز عید کے گھر میں آکر دو رکعت نفل پڑھنارسول اللہﷺ سے ثابت ہے۔
عید الاضحی کے دن عیدگاہ میں نحر اور ذبح کرنا
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ يَنْحَرُ -أوْ يَذْبَحُ- بالمُصَلَّى. )
صحيح البخاري: 982)
ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ ہی میں نحر اور ذبح کیا کرتےتھے۔
عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے
عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھنی چاہیئے جیساکہ حدیث میں آتا ہے ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :
شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَبِي بَكْرٍ ، وَعُمَرَ ، وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَكُلُّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ قَبْلَ الْخُطْبَةِ
(صحیح البخاری : 962 ، وصحیح مسلم : 884)
میں نے رسول اللہ ﷺ ، ابو بکر، عُمر اور عُثمان (رضی اللہ عنہم ) کے ساتھ عید میں حاضر ہوا (اور دیکھا کہ ) سب کے سب خُطبہ سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے ۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :
كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، وأَبُو بَكْرٍ، وعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عنْهمَا، يُصَلُّونَ العِيدَيْنِ قَبْلَ الخُطْبَةِ.
( صحيح البخاري.: 963.و مسلم :888)
رسول کریم ﷺ ، حضرت ابوبکراور حضرت عمر رضی اللہ عنہماعیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے ۔
نماز عیدین کی تکبیرات
عید کی نماز ادا کرنے کا طریقہ وہی ہے جو عام نماز کا ہے ،اس میں فرق صرف یہ ہے کہ نماز عید میں بارہ تکبیرات زائد ہیں ۔پہلی رکعت میں دعائے استفتاح کے بعد سات زائد تکبیرات (ٹھہر ٹھہر کر )کہیں ،پھر قراءت کریں اور دوسری رکعت میں کھڑے ہو کر پانچ زائد تکبیرات کہیں ،پھر قراءت کریں۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
كبَّرَ في الفطرِ والأضحى سبعًا وخمسًا سوى تَكبيرتيِ الرُّكوعِ 15
رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی اور عید الفطر میں رکوع کی تکبیروں کے علاوہ سات اور پانچ تکبیریں کہیں۔ حضرت عمروبن عوف المزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ كبَّر في العيدينِ : في الأولى سبعًا قبلَ القراءةِ ، وفي الآخرةِ خمسًا قبلَ القراءةِ16
نبی ﷺعیدین کی پہلی رکعت میں قرات سے پہلے سات اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیرات کہا کرتے تھے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ كانَ يُكبِّرُ في الفطرِ والأضحى ، في الأولى سبعَ تَكبيراتٍ وفي الثَّانيةِ خمسًا17
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحی کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہتے تھے ۔ مسند امام احمد میں حضرت عبد اللہ عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كبَّرَ في عيدٍ ثِنتَي عشْرةَ تكبيرةً؛ سَبعًا في الأولى، وخَمسًا في الآخِرةِ، ولم يُصلِّ قبلَها، ولا بعدَها18
کہ نبی کریم ﷺ نے نماز عید میں بارہ تکبریں کہیں ، پہلی رکعت میں سات اور آخری رکعت میں پانچ اور نماز سے پہلے اور بعد آپﷺ نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔
یہ سب روایات مرفوع ہیں ،ان میں نبی ﷺ کا عمل بیان ہواہے اور آپ کا عمل نماز عیدین کی دورکعتوں میں بارہ تکبیرات کہنا ہے یعنی سات پہلی رکعت میں اور پانچ دوسری رکعت میں ۔بعض صحابہ سے بھی صحیح سند کے ساتھ یہی عمل منقول ہے چنانچہ نافع مولی ابن عمر بیان کرتے ہیں :
شهدتُ الأضحَى والفطرَ مع أبي هريرةَ فكبَّرَ في الركعةِ الأُولَى سبعَ تكبيراتٍ قبلَ القراءةِ وفي الآخرةِ خمسَ تكبيراتٍ قبلَ القراءةِ19
میں ابوھریرہ کے ساتھ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں شریک ہواپس انہوں نے پہلی رکعت میں قرات سے سات تکبیرات اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیرات کہیں ۔
یہاں پر سات تکبیروں میں تکبیرتحریمہ بھی داخل ہے اور رکوع کی تکبیر اس میں داخل نہیں ہے اور یہی صحیح بات ہے ۔ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ یہ بات ثابت ہے کہ سات تکبیرات میں تکبیرتحریمہ بھی ملایا جائے گا ۔
عن عبدِ اللهِ بنِ عباسٍ أنهُ كان يُكبِّرُ في العيدِ في الأُولى سبعَ تكبيراتٍ بتكبيرةِ الافتتاحِ وفي الآخرةِ ستًّا بتكبيرِ الركعةِ كلُّهنَّ قبلَ القراءةِ20
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ عید کی پہلی رکعت میں تکبیرتحریمہ کو ملاکر سات تکبیرات کہتے اور دوسری رکعت میں تکبیر قیام کو ملاکر چھ تکبیرات کہتے ، یہ تکبیرات قرات سے پہلے ہوتیں۔ یشخ البانی نے اس اثر کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے ۔
تكبیرات عیدین میں رفع الیدین
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے.21 اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے.22
تکبیروں کے درمیان کیا پڑھے؟
تکبیرات کے دوران تسبیح، تحمید، تکبیر اور نبی کریم ﷺپر درود پڑھنا مشروع ہے۔23
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
في صلاةِ العيدِ بينَ كلِّ تكبيرتيْنِ حمدٌ للهِ عزَّ وجلَّ وثناءٌ على اللهِ24
کہ نماز ِعید کی ہر دو تکبیر کے درمیان اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء پڑھیں ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس موقعہ پر کوئی خاص دعاء منقول نہیں ہے، بلکہ اس دوران اللہ کی حمد وثناء بیان کی جائے گی اور نبی کریم ﷺپر درود پڑھی جائے گی، اور کچھ بھی نا پڑھیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔25
عیدین کاخطبہ منبر پردینا
عیدین کے دن منبر پر خطبہ دینا خلاف سنت ہے ۔ کیونکہ صحیح اور راجح موقف کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید کا خطبہ منبر پر نہیں دیتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری کتاب العیدین میں”عید گاہ کی جانب منبر کے بغیر جانے کے بیان میں‘‘ کاعنوان قائم کرتے ہوئے یہ حدیث لائے ہیں:
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن (مدینہ کے باہر) عیدگاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے، نماز سے فارغ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے۔ تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وعظ و نصیحت فرماتے، اچھی باتوں کا حکم دیتے۔ اگر جہاد کے لیے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو اس کو الگ کرتے۔ کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تو وہ حکم دیتے۔ اس کے بعد شہر کو واپس تشریف لاتے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ برابر اسی سنت پر قائم رہے لیکن معاویہ کے زمانہ میں مروان جو مدینہ کا حاکم تھا پھر میں اس کے ساتھ عیدالفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے نکلا ہم جب عیدگاہ پہنچے تو وہاں میں نے کثیر بن صلت کا بنا ہوا ایک منبر دیکھا۔ جاتے ہی مروان نے چاہا کہ اس پر نماز سے پہلے (خطبہ دینے کے لیے) چڑھے اس لیے میں نے ان کا دامن پکڑ کر کھینچا اور لیکن وہ جھٹک کر اوپر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ واللہ تم نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو) بدل دیا۔ مروان نے کہا کہ اے ابوسعید! اب وہ زمانہ گزر گیا جس کو تم جانتے ہو۔ ابوسعید نے کہا کہ بخدا میں جس زمانہ کو جانتا ہوں اس زمانہ سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ مروان نے کہا کہ ہمارے دور میں لوگ نماز کے بعد نہیں بیٹھتے، اس لیے میں نے نماز سے پہلے خطبہ کو کر دیا۔26
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: عیدین ، حج اور دیگر خطبوں کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجد نبوی میں اکثر خطاب منبر پر ہوتے تھے۔27
عید کےكتنے خطبے ہیں ؟
اصلاً عید کے لیے ایک خطبہ ہے۔ دو خطبے کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ امام بخاری رحمہم اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ باب قائم کیا ہے کہ ’’ باب الخطبۃ بعد العید ‘‘پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کرتے ہیں۔اور رسول اﷲﷺ ،ابوبکر، عمر اورعثمان رضی اللہ عنہم کا عمل نقل کرکے لکھتے ہیں:
فَکُلُّهُم کَانُوا یُصَلُّونَ قَبلَ الخُطبَةِ
(صحیح البخاری:962)
پھر دوسری روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے:
کَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ، وَ اَبُو بَکرِ ، وَ عُمرُ رَضِیَ الله عَنهُمَا یُصَلُّونَ العِیدَینِ قَبلَ الخُطبَةِ
(صحیح البخاری:963)
ان روایات میں وارد لفظ’’ اَلخُطبَةِ ‘‘ سے معلوم ہوتا هےکہ عید کا صرف ایک خطبہ ہے۔ دو نہیں اور جو لوگ دو خطبوں کے قائل ہیں، ان کا استدلال بعض ضعیف روایات سے ہے۔ اسی طرح وہ خطبۂ عید کو جمعہ کے خطبہ پر قیاس کرتے ہیں۔ بعض اہلِ علم نے اس مسلک کو اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ مذہب مرجوح ہے۔راجح بات ایك خطبه والی ہے۔کیونکہ دو خطبےوالی دلیل کمزور ہے،کیونکہ جن روایات میں دو خطبوں کا ذکر ہے وہ ضعیف ہیں.28 اور اس پر قیاس کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ كیونكه عبادات میں اصل ’’عدمِ قیاس‘‘ ہے۔ نیز یہاں قیاس ممکن بھی نہیں کیونکہ جمعہ میں خطبہ پہلے ہے جبکہ عید میں نماز پہلے ہے،خطبہ جمعہ سننا فرض ہے جبکہ خطبہ عید سننا مستحب ہے ۔
عید کا خطبہ بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر؟
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ بیان كرتے هیں:
أنَّ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ كانَ يَخْطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ قَائِمًا، فمَن نَبَّأَكَ أنَّهُ كانَ يَخْطُبُ جَالِسًا فقَدْ كَذَبَ؛ فقَدْ -وَاللَّهِ- صَلَّيْتُ معهُ أَكْثَرَ مِن أَلْفَيْ صَلَاةٍ.
( صحيح مسلم: 862)
كه رسول اللہ ﷺکھڑے ہوکر خطبہ دیتے تھے، پھر بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہوتے اور کھڑے ہوکر خطبہ دیتے، اس لئے جس نے تمھیں یہ بتایا کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے، اس نے جھوٹ بولا۔اللہ کی قسم! میں نے آپ کے ساتھ دو ہزار سے زائد نمازیں پڑھی ہیں۔ (جن میں بہت سے جمعے بھی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام خطبے کھڑے ہوکر دیے)
خطبہ کے وقت ہاتھ میں عصاپكڑنا
خطیب کاعصا پکڑنا، خطبہ حاجت پڑھنا اور وعظ و نصیحت کرنا،جیسا براء بن عازب نے کہا کہ:
أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ نُووِلَ يومَ العيدِ قوسًا فخطَبَ عَليهِ29
نبی کریمﷺ کو عید کے دن کمان پکڑائی گئی تو آپ نے اس پر ٹیک لگاکر خطبہ دیا۔ نیز جابر بن عبد اللہ رضی الله عنه فرماتے هیں:
فَلَمَّا قَضَى الصَلَاةَ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ30
جب آپ ﷺ نے عید کی نماز ادا کرلی توسیدنا بلال رضی الله عنه ر ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے،اللہ کی حمد و ثنا بیان کی،اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی۔
عید كی مباركباد دینا
اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ جائز الفاظ کے ذریعے مبارک بادی پیش کی جاسکتی ہے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے ایسا کرناثابت ہے جیسا کے جبیر بن نفیر فرماتے ہیں کہ:
كان أصحابُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا الْتَقَوْا يومَ العيدِ يقولُ بعضُهم لبعضٍ : تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا ومنكَ
حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے31
عید کے دن جب صحابہ کرام ایک دوسرے سے ملتے تو مبارک بادی پیش فرماتے اور ((تقبل اللہ منا و منك)) کہا کرتے تھے۔
امام مالک سے ایک بارپوچھا گیا کہ عید کے دن ایک دوسرے کو تقبل اللہ منا و منك,اور غفر اللہ لنا و لك کہنا مکروہ ہے ؟تو آں رحمہ اللہ نے فرمایا:نہیں بالکل مکروہ نہیں ہے.32
معلوم ہوا کہ عید کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے (تقبل اللہ منك) جیسے الفاظ کہے جا سکتے ہیں ، البتہ عیدین میں نمازعیدکے بعدمعانقہ کرنے کی جورسم ہے یہ ایک عام رواج ہے ،مسنون طریقہ نہیں ،مسنون طریقہ صرف سلام ومصافحہ ہے ،تاہم یہ قومی رواج ایساہے جس میں شریعت کی خلاف ورزی کاکوئی پہلونہیں ،اس لئے قومی رواج کے طورپرمعانقہ(بغل گیرہوکرملنے)میں کوئی حرج نہیں ہے۔
نماز عیدین کی قراءت
نمازعیدین میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعدقرات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذیل دوطریقے ثابت ہیں ،امام کوچاہیے کہ وہ سنت پر عمل کرتے ہوئے پہلی رکعت میں سورۂ الاعلی اوردوسری رکعت میں سورۂ الغاشیہ پڑھے۔یاسورۂ ق اورسورۂ القمر پڑ ھے۔عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے:
أنَّ عُمَرَ بنَ الخَطَّابِ سَأَلَ أَبَا وَاقِدٍ اللَّيْثِيَّ: ما كانَ يَقْرَأُ به رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ في الأضْحَى وَالْفِطْرِ؟ فَقالَ: كانَ يَقْرَأُ فِيهِما {ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ}، وَ{اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ}.
(صحيح مسلم: 891)
کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوواقد لیثی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عید اضحی اور فطر میں کیا پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں ’’ ق ٓ والقرآن المجید‘‘ اور اقتربت الساعۃ وانشق القمر ‘‘ پڑھا کرتے تھے۔
جبکہ دوسری روایت میں سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يَقْرَأُ في العِيدَيْنِ وفي الجُمُعَةِ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى}، وَ{هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ}. قالَ: وإذَا اجْتَمع العِيدُ وَالْجُمُعَةُ في يَومٍ وَاحِدٍ، يَقْرَأُ بهِما أَيْضًا في الصَّلَاتَيْنِ.
( صحيح مسلم: 878)
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ میں «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى» اور «هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ» پڑھا کرتے تھے۔ اور جب جمعہ اور عید دونوں ایک دن میں ہوتیں تب بھی انہی دونوں سورتوں کو دونوں نمازوں میں پڑھتے تھے۔
ان دونوں حدیثوں میں کوئی تضاد نہیں،کبھی آپ یہ سورتیں پڑھتے اور کبھی وہ سورتیں،بہر حال ان کی قراءت مسنون ہے،فرض نہیں،لیکن ایسا نہیں کہ بعض لوگوں کی طرح ان مسنون سورتوں کو پڑھے ہی نہیں۔ مسنون عمل کو بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوجھ کر چھوڑنا سخت گنا ہ ہے۔
نماز عیدین كی قضا
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
فَما أدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وما فَاتَكُمْ فأتِمُّوا
( صحيح البخاري: 635، ومسلم :603)
كه نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ مل جائے اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے پورا کر لو۔
لهذا اگرکسی کوبوجہ عذریابلاعذرعیدکی نمازنہ مل سکے یابیماری کی وجہ سے عیدگاہ نہ جاسکے تواسے دورکعت تنہااداکرلینی چائیں ،نیزگاوں ،دیہات اورگوٹھ میں بھی نماز عید پڑ ھنی چاہیےاورعورتیں بھی ایساہی کریں اوروہ لوگ بھی جوگھروں اوردیہاتوں وغیرہ میں ہوں اورجماعت میں نہ آسکیں وہ بھی دو رکعت ادا کریں۔
نماز عیدکی قضا اسی طرح ادا کرے جس طرح نماز عید پڑھی جاتی ہے یعنی وہ دورکعت ادا کرے اور اس میں اس طرح تکبیریں اور ذکر کرے جیسے نماز عید میں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی افتاء کمیٹی کا فتویٰ حسب ذیل ہے:
’’نماز عیدین کی ادائیگی فرض کفایہ ہے اگر اتنے افراد پڑھ لیں جو کافی ہوں تو باقی افراد سے اس کا گناہ ساقط ہو جاتا ہےاور جس کی یہ نماز فوت ہو جائے اور وہ اس کی قضا دینا چاہے تو اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خطبہ کے بغیر نماز عید کے طریقہ کے مطابق اسے ادا کر لے۔33
وَأَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ مَوْلاَهُمْ ابْنَ أَبِی عُتْبَةَ بِالزَّاوِیَةِ فَجَمَعَ أَهْلَهُ وَبَنِیهِ، وَصَلَّى كَصَلاَةِ أَهْلِ المِصْرِ وَتَكْبِیرِهِمْ،وَقَالَ عِكْرِمَةُ:أَهْلُ السَّوَادِ یَجْتَمِعُونَ فِی العِیدِ، یُصَلُّونَ رَكْعَتَیْنِ كَمَا یَصْنَعُ الإِمَامُ، وَقَالَ عَطَاءٌ:إِذَا فَاتَهُ العِیدُ صَلَّى رَكْعَتَیْنِ34
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام ابن ابی عتبہ زاویہ نامی گاؤں میں رہتے تھے انہیں آپ نے حکم دیاتھاکہ وہ اپنے گھروالوں اوربچوں کوجمع کرکے شہروالوں کی طرح نمازعیدپڑھیں اورتکبیرکہیں ،عکرمہ نے شہرکے قرب وجوارمیں آبادلوگوں کے لئے فرمایاکہ جس طرح امام عید کی نماز ادا کرتاہے یہ لوگ بھی عیدکے دن جمع ہو کر دو رکعت نمازپڑھیں ،عطاءنے کہاکہ اگرکسی کی عیدکی نماز(جماعت)چھوٹ جائے تودورکعت(تنہا)پڑھ لے۔
نمازعیدین اور جمعه
نمازعید اور جمعہ اکھٹے آجائیں تو بعض جاہل اور دین سے ناواقف لوگ بڑی فضول باتیں کرتے ہیں ، وہ اس کو نحوست اورباعث ِزحمت سمجھتے ہیں حالانکہ دوعیدوں کاجمع ہوجانامزیدسعادت کاباعث ہے نہ کہ نحوست کا۔ جب عید اور جمعہ اکھٹے آجائیں تواس کے متعلق حدیث میں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قدِ اجتمعَ في يومِكم هذا عيدانِ فمن شاءَ أجزأَهُ منَ الجمعةِ وإنَّا مجمِّعونَ35
تم لوگوں کے آج کے دِن میں دو عیدیں اکٹھی ہو گئی ہیں تو جو چاہے (عید کی نماز کے ذریعے ) جمعہ کو چھوڑے لیکن ہم دونوں نمازیں پڑھیں گے۔
حضرت ایاس بن ابی رملۃ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
شَهدتُ معاويةَ بنَ أبي سفيانَ وَهوَ يسألُ زيدَ بنَ أرقمَ قالَ أشَهدتَ معَ رسولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عيدينِ اجتمعا في يومٍ قالَ نعم. قالَ فَكيفَ صنعَ قالَ صلَّى العيدَ ثمَّ رخَّصَ في الجمعةِ فقالَ من شاءَ أن يصلِّيَ فليصلِّ36
کہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو وہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی دِن میں دو عیدیں دیکھی ہیں؟یعنی جمعہ کے دِن عید الفِطر یا عید الاَضحی؟ زید رضی اللہ عنہ نے کہا : جی ہاں، معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے پوچھا : تو رسول اللہ ﷺنے کیا کیا تھا ؟ زید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے عید کی نماز پڑھی اور پھر جمعہ کی نماز کے لیے رُخصت ( نہ پڑھنے کی اجازت) دیتے ہوئے فرمایا:جوجمعہ پڑھنا چاہتا ہے وہ جمعہ پڑھ لے ۔
اسی طرح حضرت عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
عن عطاءَ اجتمعَ يومُ جمعةٍ ويومُ فطرٍ على عَهدِ ابنِ الزُّبيرِ فقالَ عيدانِ اجتمعا في يومٍ واحدٍ فجمعَهما جميعًا فصلاَّهما رَكعتينِ بُكرةً لم يزد عليْهما حتَّى صلَّى العصر37
کہ عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے دور میں عید جمعہ کے دِن ہوئی تو اُنہوں نے صرف عید کی نماز اور جمعہ کی نماز کو جمع کر لیا اور جمعہ کی نماز نہیں پڑھی بلکہ عید کی نماز پڑھنے کے بعد (عصرکے وقت ) عصرکی نماز پڑھی ۔
نماز عیدین کے لیےغسل
نمازِ عیدین کے لیے جانے سے پہلے غسل کرنا چاروں مکاتب فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے نزدیک مستحب ہے ۔اس کی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابن ماجہ رحمه الله نے حضرت ابن عباس رضی الله عنهماسے روایت کیا ہے كه رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّ هذا يومُ عيدٍ ، جعلَهُ اللَّهُ للمسلمينَ ، فمن جاءَ إلى الجمعةِ فليغتسل ، وإن كانَ طيبٌ فليمسَّ منْهُ ، وعليْكم بالسِّواك38
’’یقینا یہ جمعہ کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کے لیے عید بنایا ہے، سو جو شخص جمعہ کے لیے آئے، اسے چاہیے، کہ غسل کرے۔ اور اگر خوشبو میسر ہو، تو اسے استعمال کرے، اور تم مسواک کو لازم کرو۔‘‘
جب جمعہ کے دن غسل کرنے، خوشبو استعمال کرنے اور مسواک کرنے کا اس حدیث میں سبب یہ بیان کیا گیا ہے، کہ جمعہ کو اللہ تعالیٰ نے اہلِ اسلام کے لیے عید بنایا ہے، تو پھر عید کے دن تو ان تینوں کاموں کا کرنا اور زیادہ ضروری اور پسندیدہ ہوگا۔
نیزامام مالک نے حضرت نافع ؒ سے روایت نقل کی ہے، کہ:
أنَّه كان يَغتسل يومَ الفِطر قبلَ أنْ يَغدُوَ إلی الْمُصَلّٰی39
’’كه حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے دن عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔
ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ سے غسل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
اغتسل كل يوم إن شئت،فقال:الغسل الذي هو الغسل،قال:يوم الجمعة ويوم عرفة ويوم النحر ويوم الفطر40
اگر تم چاہو تو ہر روز غسل کرو تو اس نے کہا غسل سے مراد مسنون غسل مراد ہے تو آپ نےفرمایا: مسنون غسل یوم جمعہ،یوم عرفہ ، قربانی اورعید الفطر کے دن ہے۔
عید کے دن عمدہ لباس پہننا
نماز عید کے لیے بہترین لباس پہن کر نکلناچاروں مکاتب فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے نزدیک مستحب ہے۔ اس بات کی تائید اُس حدیث سے ہوتی ہے جسےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان كیا هے :
کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی اللهُ عليهِ وسلّم یَلْبَسُ یَوْمَ الْعِیْدِ بُرْدَۃً حَمْرَاء
(السلسلۃ الصحیحۃ: 1279 )
كه رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن سرخ دھاریوں والی چادر زیب تن فرماتے تھے۔
نیز حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان كرتے هیں :
أنَّ عُمرَ بنَ الخَطَّابِ رأى عُطَاردًا التَّميميَّ يَبيعُ حُلَّةً مِن دِيباجٍ، فأتى رسولَ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، فقال: يا رسولَ الله، إنِّي رأيت عطاردًا يَبيعُ حُلَّةً من دِيباج، فلو اشتريتها فلبستَها للوفودِ وللعيدِ وللجُمُعة؟ فقال: إنَّما يَلْبَسُ الحريرَ مَن لا خَلاقَ له41
کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عطارد کو کچھ ریشمی جوڑے بیچتے ہوئے دیکھا تو بارگارہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے عطارد کو ریشمی جوڑے بیچتے ہوئے دیکھا ہے اگر آپ اس میں سے ایک جوڑا خرید لیتے تو وفود کے سامنے اور عید اور جمعہ کے موقع پر پہن لیتے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ریشم کا یہ لباس وہ شخص پہنتا ہے جس کا کوئی آخرت میں حصہ نہ ہو۔
وجہ ا ستدلال
أنَّ الحديثَ يدلُّ على أنَّ التجمُّلَ للعيدِ كان أمرًا معتادًا بينهم42
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کے ہاں عید کے لیے سجاوٹ کا رواج عام تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید اور وفود سے ملاقات کے وقت زینت کا اہتمام کرنے کی تجویز پر کچھ اعتراض نہیں فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس جبہ کی خریداری کے متعلق مشورے پر سرزنش کی(یونکہ مردوں کے لیے ریشمی جبہ پہننا حرام ہے۔
علامہ سندھی رقم طراز ہیں، کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تجویز سے یہ بات معلوم ہوتی ہے، کہ عید کے دن زینت کا اہتمام ان کے ہاں ایک معروف دستور تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پر اعتراض نہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے، کہ یہ طریقہ [اسلام میں بھی] باقی ہے.43
علاوہ ازیں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں امام بیہقی نے نافع سے روایت نقل کی ہے:
أنَّ ابنَ عُمرَ كان يَلبَسُ في العيدينِ أحسنَ ثِيابِه44
کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عیدین کے موقع پر اپنا سب سے عمدہ لباس زیب تن کرتے تھے۔‘‘
تنبیہ:
عیدین کے موقع پر بہترین لباس پہننے کے سلسلے میں یہ تنبیہ ضروری ہے، کہ کوئی مسلمان اس غرض سے اپنے وسائل سے تجاوز نہ کرے، کیونکہ ایسا کرنا درست نہیں۔ ہر مسلمان اپنے وسائل کی حدود میں عمدہ لباس پہنے۔
اجتماعی دعا کرنا
عیدكے دن اجتماعی دعا كرنا مسنون هے، جیساكه خواتین عید گاہ میں لانے کے متعلق ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان كرتی هیں كه:
أُمِرْنَا أنْ نُخْرِجَ الحُيَّضَ يَومَ العِيدَيْنِ، وذَوَاتِ الخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ، ودَعْوَتَهُمْ
(صحيح البخاري : 351)
ہمیں حکم تھا کہ حائضہ عورتوں، دوشیزاؤں اور پردہ والیوں کو عیدگاہ لے جائیں تاكه وه مسلمانوں کے اجتماع اور ان كی دعاؤں میں شریک ہوں۔
عید کے دن کھیل کود
عید مسلمانوں کا ایک قومی تہوار ہے لہٰذا اس دن خوشی کا اظہار کرنا، چھوٹے بچوں کا دف بجا کر ایسے اشعار پڑھنا جو اسلامی رواج کے منافی نہ ہوں، جائز ہیں۔ اسی طرح ایسا کھیل کود جو جنگی مشقوں پر مشتمل ہو اور جسمانی صحت کے لیے بھی مفید ہو ، جائز ہے۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
دَخَلَ أبو بَكْرٍ وعِندِي جَارِيَتَانِ مِن جَوَارِي الأنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بما تَقَاوَلَتِ الأنْصَارُ يَومَ بُعَاثَ، قالَتْ: وليسَتَا بمُغَنِّيَتَيْنِ، فَقالَ أبو بَكْرٍ: أمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ في بَيْتِ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وذلكَ في يَومِ عِيدٍ، فَقالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: يا أبَا بَكْرٍ، إنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وهذا عِيدُنَا.
( صحيح البخاري : 952 ، ومسلم:892)
کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے درآنحالیکہ میرے پاس انصار کی دو بچیاں (وہ اشعار) ترنم کے ساتھ پڑھ رہی تھیں جن میں اس بہادری کا ذکر تھا جو انصار نے جنگ بُعاث میں دکھائی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ مغنیہ نہ تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجہ؟ اور یہ عید کے دن کی بات تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! ہر قوم کیلئے ایک خوشی کا دن ہوتا اور یہ ہمارا خوشی کا دن ہے۔
یہ صحیح ہے کہ دونوں عیدوں کے دنوں میں مسلمانوں کوخوشی منانے کی اجازت دی گئی ہے لیکن یہ جائز نہیں ہے کو وہ عید کی خوشیوں کا اظہار ایسے طریقے سے کریں جو اسلام کی تعلیمات اور اس کے آداب کے خلاف ہو ۔مثلاً اگر عید کی خوشیوں میں مردوں اور عورتوں کا آپس میں اختلاط ہوتا ہے، نمازیں ضائع کی جاتی ہیں، حرام کام کا ارتکاب کیا جاتا ہے، گانے وغیرہ سنے جاتے ہیں تو یہ جائز نہیں ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و سنت کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔
- ( مصنف ابن أبی شیبة ، باب ، التکبیر من أیّ یوم ھو إلی أیّ ساعۃ (2/165-168) وإرواء الغلیل (3/125)
- (صححه أحمد شاكر في المسند، 5446 ، وشعیب أرناؤوط: 6154 )
- (صححه أحمد شاكر في تخريج المسند: 10/81 ، وحسّنه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند: 6575 )
- صحیح سنن الترمذي: 542 ، وصحیح ابن ماجه (1756)
- (حسّنه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند: 22984)
- (حسّنه الألبانی في صحيح ابن ماجه : 1077)
- ( حسنه الألباني في صحيح الترمذي: 530)
- (رواه الدارقطني :1712، بإسناد صحيح وصحَّحه الألباني في إرواء الغليل:650)
- (صحَّحه الألباني في إرواء الغليل:650)
- (مسند احمد:2054، والسلسلة الصحیحة:2115)
- (صححه الألباني في صحيح أبي داود: 1155)
- (صححہ الألبانی فی صحيح أبي داود.: 1157)
- (صحیح البخاری : 1190 ،المدخل ،ج2،ص:283)
- (تخريج المسند لشعيب الأرناؤوط: 29/242. إسناد صحيح على شرط مسلم)
- (صححه الألبانی فی صحیح ابن ماجه : 1065)
- (صححه الألبانی فی صحيح الترمذي : 536)
- (صححہ الألبانی فی صحيح أبي داود:1149)
- (تخريج المسند لشاكر: 10/165، إسناده صحيح)
- ( موطا امام مالک ،ج1ص180حدیث :435،،وسندہ صحیح )
- (ارواء الغلیل:3/111، اسناده صحیح علی شرط الشیخین)
- (ابو داؤد ،ج1ص111حدیث :722 و مسند احمد ،ج2ص134حدیث :6175 )
- (دیکھئے ارواء الغلیل،ج 3 ص : 113)
- اللجنة الدائمة (8/ 302)
- (إرواء الغليل : 3/115، إسناده جيد)
- ( مجموع الفتاویٰ (16/ 241)
- (صحیح البخاري ، باب الخروج إلي المصلي بغير منبر، :956، ومسلم، حديث:889)
- (فتح الباری: 3/ 403)
- (السلسلة الضعیفۃ:5789)
- (حسّنه الألباني في صحيح أبي داود: 1145)
- (صحیح مسلم :2085 ،و النسائی:1575،والارواء:646)
- (تمام المنة : 354 : إسناده صحيح، فتح الباری 446؍2)
- (دیکھئے:المنتقی شرح المؤطا:1/322)
- (فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ، ص: 306، ج8)
- (صحیح بخاری، العیدین، بَابٌ إِذَا فَاتَهُ العِیدُ یُصَلِّی رَكْعَتَیْنِ)
- (صححہ الألبانی فی صحيح أبي داود.: 1073)
- (صححه الألباني في صحيح أبي داود: 1070)
- (صححه الألباني في صحيح أبي داود: 1072)
- ( حسنه الألباني في صحيح ابن ماجه: 908)
- ( الموطأ ، حديث:430 ،وصحَّحه النوويّ في المجموع :5/6)
- (رواه البيهقي في السنن الكبرى برقم 6343 ، قال الألباني:وسنده صحيح)
- (مسند احمد :6339 ، وصحیح مسلم:2068 ، وسنن النسائی: 1561)
- (فتح الباري لابن رجب :6/67)
- (حاشیۃ السندي علٰی سنن النسائي 3/181)
- ( رواه البيهقي : 6363، واللفظ له. وصحَّح إسنادَه ابنُ رجب في فتح الباري:6/68)