الله رب العزت كی جانب سے رحمتوں اور مغفرتوں سے بھرا ہوا رمضان المبارک کا مہینہ رخصت ہوا. اس با برکت مہينے كے لمحات گیارہ ماہ کے لیے ہم سے رخصت ہو گئے۔ مسلمانوں نے ایمان و احتساب کے ساتھ روزوں اور قیام اللیل کا اہتمام کیا۔ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ دروس کے ذریعے قرآن مجید کے معانی و مفاہیم پر تدبر و تفکر اور اس کے پیغام کو سمجھنے پر بھی وقت لگایا۔ غریب اور نادار بھائیوں کی تنگدستی کا احساس کرتے ہوئے صدقہ و خیرات میں غیر معمولی حصہ لیا اور نیکی و بھلائی اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی۔
لیکن رحمتوں اور برکتوں کا یہ حصول، ماہِ مقدس کی یہ عبادات، صدقہ و خیرات، ذکر و اذکار ہمیں دھوکہ میں نہ ڈال دے کیونکہ عبادات کی کثرت انسان کو فخر و غرور اور گھمنڈ و تکبر میں مبتلا کر سکتی ہے ۔ شیطان انسان کو اسکے اعمال کے حوالے سے وسوسے اور دھوکے میں ڈال سکتا ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ اے انسان تم نے بڑی بڑی عبادات اور کارہائے خیر کو انجام دیا ہے. رمضان کی ایک مہینے کی عبادت سے تمہارے پاس نیکیوں کا پہاڑ اور آجر و ثواب کا ذخیرہ جمع ہو چکا ہے اب اس کے بعد تمہیں نیکیوں کی ضرورت نہیں. ایسی سوچ غرور اور خود پسندی کی علامت ہے جو آپ کے نیک اعمال کو برباد کر سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ كا ارشاد ہے:
ثلاثٌ مُهلِكاتٌ ، و ثلاثٌ مُنْجِياتٌ ، فقال : ثلاثٌ مُهلِكاتٌ : شُحٌّ مُطاعٌ ، و هوًى مُتَّبَعٌ ، و إعجابُ المرءِ بنفسِه . وثلاثٌ مُنجِياتٌ : خشيةُ اللهِ في السرِّ و العلانيةِ ، و القصدُ في الفقرِ و الغِنى ، و العدلُ في الغضبِ و الرِّضا
(السلسلة الصحيحة: 1802)
تین عادتیں ہلاک كرنے والی ہیں اور تین عادتیں نجات دلانے والی ہیں ! اور ہلاک کرنے والی تین عادتیں یہ ہیں: انتہائی بخل، خواہش پرستی، اور خود پسندی یعنی غرور و تکبر ۔ اور نجات دلانے والی تین عادتیں یہ ہیں: ظاہری اور پوشیدہ حالات میں اللہ کا خوف، محتاجی اور تونگری میں میانہ روی، غصے اور خوشی میں انصاف کرنا۔
لہذاالله رب العزت نے جتني عبادت كي توفيق بخشی اس پر اس كا شكر ادا كريں اور اس پر تكبر اور غرور نہيں ہونا چاہیے۔
رمضان المبارک میں ہم نے روزہ، تراویح، صدقہ وخیرات اور دعاء و استغفار کے ذریعے جو کمائی کی ہے اسے ضائع ہونے سے بچانے اور اس پر کاربند رہنے کے لیے کبائر سے اجتناب، اللہ ورسول کی نا فرمانی سے پرہیز، شرک و کفر اور ریاء و نمود سے دوری، قطع رحمی، والدین کی نافرمانی اور مسلمانوں کی ایذا رسانی سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل اعمال کی پابندی ضروری اور لازمی ہے۔
دعائے استقامت
جس طرح ہم رمضان المبارک میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائيگی کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن کریم كا اہتمام كرتے تھے اور راتوں كو نوافل سے آباد كرتے تھے۔ رب العالمین سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگیں کہ وہ ان عبادتوں پر ہميں استقامت عطا فرمائے اور یہ دعا پڑھا کریں:
﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ﴾
(آل عمران: 8)
اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد کج روی میں نہ مبتلا کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ، بے شک تو بڑا عطا کرنے والا ہے ۔
علامہ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اسلاف و اکابر کا طریقہ یہ رہا کہ وہ چھ ماہ دعا کرتے تھے کہ ہمارے لیے رمضان المبارک کا ماہ مبارک مقدر فرما اور چھ ما ہ یہ دعا کرتے اللہ ہمارے رمضان کے روزے اور تمام عبادتوں کو قبول فرما!
دین اسلام استقامت کا دین ہے ، اس میں سستی ، کاہلی درست نہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ :
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
(سورۃ ھود: 112)
پس آپ جمے رہیئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کرچکے ہیں خبردار تم حد سے نہ بڑھنا ۔ اللہ تمہارے تمام اعمال کا دیکھنے والا ہے۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ
(سورۃ الحجر: 99)
اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے ۔
اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وأنَّ أحَبَّ الأعْمالِ إلى اللَّهِ أدْوَمُها وإنْ قَلَّ
(صحيح البخاري : 6464 )
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی کی جائے خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
كانَ عَمَلُهُ دِيمَةً
(صحيح البخاري : 1987)
کہ نبی کریم ﷺ کے عمل میں ہمیشگی ہوا کرتی تھی ۔
نفلی روزے
ماہ رمضان چلے جانے سے نیکیاں ختم نہیں ہوئیں ، روزے ختم نہیں ہوئے ، نمازیں ختم نہیں ہوئیں ، بندہ مومن نے رمضان المبارک میں فرض روزے رکھے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ روزے کا دروازہ آئندہ رمضان تک کے لیے بند ہوگیا ، ایسا بالکل نہیں ، مومن کی علامت اور نشانی یہ ہے کہ وہ نفلی روزوں کی عبادت کو سارا سال قائم رکھتا ہے ، نفلی روزے کا ثواب کے بارے میں رسول اﷲﷺنے فرمايا :
ما من عبدٍ يصومُ يومًا في سبيلِ اللَّهِ عزَّ وجلَّ ، إلَّا بعَّدَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ بذلِكَ اليومِ وجهَهُ عنِ النَّارِ ، سبعينَ خريفًا
(صحيح البخاري: 2840 ، وصحيح مسلم: 1153)
جو شخص اﷲ کی راہ ميں ايک روزہ رکھتا ہے ، اﷲ تعالیٰ اس کے بدلے اسکے اور جہنم کے درميان ستر سال کا فاصلہ پيدا فرما ديتے ہيں۔
شوّال کے 6 روزے
ماہ شوال کے چھ روزوں کی بڑی اہمیت ہے ، اس سے اﷲ تعالیٰ ایک سال مکمل روزہ رکھنے کا ثواب عطا فرماتے ہیں ، حضرت ابو ايوب رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ ﷺنے فرمايا :
مَن صامَ رَمَضانَ ثُمَّ أتْبَعَهُ سِتًّا مِن شَوَّالٍ، كانَ كَصِيامِ الدَّهْرِ.
( صحيح مسلم: 1164)
جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے پھر شوّال کے چھ روزے رکھے گويا اس نے سال بھر کے روزے رکھے ۔
کيونکہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے :
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا
(الأنعام: 160)
جو شخص ایک نیکی کرے گا اسے اس کا دس گنا ملے گا ۔
اس قانون الٰہی کے مطابق ايک ماہ کے روزے دس ماہ کے برابر اور چھ دن کے روزے دو ماہ کے برابر ، تو يہ کل بارہ ماہ يعنی پورے سال کے برابر ہوئے ۔ یاد رہے کہ يہ روزے شوال کے پورے مہينے ميں ايک ساتھ بھی اور وقفے وقفے سے بھی رکھے جاسکتے ہيں کيونکہ حديث پاک ميں ايک ساتھ رکھنے يا ابتدائے مہينہ ميں رکھنے کی کوئی قيد نہيں ۔
پير اور جمعرات کا روزہ
ان دونوں دنوں کے روزوں کی بھی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہوئی ہے ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رسول اﷲﷺسے روايت کرتے ہيں :
تُعرَضُ الأعمالُ يومَ الاثنينِ والخميسِ فأحبُّ أن يُعرَضَ عملي وأنا صائمٌ
(صحيح الترمذي 747)
ہر پير اور جمعرات کو اعمال اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ ميں پيش کیے جاتے ہيں ۔ ميں چاہتا ہوں کہ ميرے اعمال روزے کی حالت ميں پيش ہوں ۔
ايام بيض کے روزے
يعنی ہر قمری مہينے کی 15, 14, 13 تاريخ کو ايام بيض کہتے ہيں کيونکہ ان دنوں کی راتيں چاندنی کی شباب کی وجہ سے روشن ہوتی ہيں، ان دنوں کے روزوں کی بھی بڑی فضیلت آئی ہے، حضرت ابوذر غفاری سے روايت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمايا :
صيامُ ثلاثةِ أيَّامٍ من كلِّ شَهرٍ صيامُ الدَّهرِ ، وأيَّامُ البيضِ صبيحةَ ثلاثَ عشرةَ وأربعَ عشرةَ وخمسَ عشرة.
( صحيح النسائي: 2419)
’’ ہر مہینے تین روزے رکھنا ( ثواب کے لحاظ سے ) زمانے بھر کے روزوں کے برابر ہے ۔ اور ایام بیض ( چمکتی راتوں والے دن ) تیرہ ، چودہ اور پندرہ ہیں ۔‘‘
ایک اور حدیث میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَامَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، فَذَلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي كِتَابِهِ: {مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا} فَالْيَوْمُ بِعَشْرَةِ أَيَّامٍ
(سنن ابن ماجه :1708)
جس نے ہر مہينے ميں تين دن کے روزے رکھے اس نے سال بھر کے روزے رکھے، کيونکہ اﷲ تعالیٰ نے اس کی تصديق قرآن مجيد ميں اتاری ہے “جو کوئی ايک نيکی کرے اسے دس نيکيوں کا ثواب ملتا ہے” ، لہٰذا ايک دن کا روزہ دس روزوں کے برابر ہے۔
یوم عرفہ کا روزہ
یوم عرفہ کا روزہ گزشتہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ”
(صحیح مسلم: 1162)
(مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا، اور مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ یومِ عرفہ کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
یہ اللہ تعالی کا ہم پر فضل ہے کہ اس نے ہمیں ایک دن کا روزہ رکھنے پر پورے سال کے گناہ معاف ہونے کا بدلہ دیا۔
ذی الحجہ کے 9 دن كے روزے
كانَ رسولُ اللَّهِ ﷺيصومُ تسعَ ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ والخميسَ
(صحيح أبي داود.: 2437.)
نبی كریم ﷺ كی ازواج مطهرات بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ذی الحجہ کے ( شروع ) کے نو دنوں کا روزہ رکھتے، اور یوم عاشورہ ( دسویں محرم ) کا روزہ رکھتے نیز ہر ماہ تین دن روزه رکھتے، اور مہینے کے پہلے پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے۔
یوم عاشوراء کا روزہ
جمہور کے نزدیک یوم عاشوراء سے مراد ماہ محرم کا دسواں دن ہے۔1
یوم عاشوراء کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ”
(صحیح مسلم: 1162)
مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا، اور مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ یومِ عاشوراء کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔
نبی ﷺ یومِ عاشوراء کی شان کے باعث اس کا روزہ رکھنے کیلئے خصوصی اہتمام کرتے تھے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :
ما رَأَيْتُ النبيَّ ﷺيَتَحَرَّى صِيَامَ يَومٍ فَضَّلَهُ علَى غيرِهِ إلَّا هذا اليَومَ؛ يَومَ عَاشُورَاءَ، وهذا الشَّهْرَ. يَعْنِي شَهْرَ رَمَضَانَ.
(صحيح البخاري : 2006)
میں نے نبی کریم ﷺ کو سوا عاشوراء کے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سےرکھنے کا اہتمام کرتے ہوئے نہیں دیکھا” ۔
اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَفْضَلُ الصِّيامِ، بَعْدَ رَمَضانَ، شَهْرُ اللهِ المُحَرَّمُ، وأَفْضَلُ الصَّلاةِ، بَعْدَ الفَرِيضَةِ، صَلاةُ اللَّيْلِ.
(صحيح مسلم : 1163)
رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے ۔
اعتکاف
ماہ رمضان ختم ہوا ہے لیکن اعتکاف ختم نہیں ہوا ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ” قیام رمضان ” میں کہا کہ : پورے سال کے ایام اوررمضان المبارک میں اعتکاف کرنا سنت ہے ، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :
وَأَنْتُمْ عاكِفُونَ فِي الْمَساجِدِ
(البقرة: 187)
اورتم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں ہو ۔
احادیث نبویہ میں بھی نبی ﷺ کے اعتکاف کا ثبوت ملتا ہے ، نبی کریم ﷺ وسلم نےشوال کے دس دن کا بھی اعتکاف کیا تھا ۔ متفق علیہ ۔
اورسلف سے بھی آثار تواتر سے پائے جاتے ہیں چنانچہ عمررضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :میں نے نبی ﷺسےکہا کہ میں نے دورجاہلیت میں مسجد حرام کےاندر ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرو ، توعمر رضي اللہ تعالی عنہ نے ایک رات اعتکاف کیا۔2
تلاوت قرآن مجید
رمضان المبارک میں تلاوت قرآن کا بڑا اہتمام کیا جاتا ہے اور لوگ کئی کئی مرتبہ قرآن کو مکمل کرنے کے خواہش رکھتے ہیں لیکن رمضان کے بعد اس کو طاقوں کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی تلاوت وتدبر کا کثرت سے اہتمام کرنا چاہیے، کوئی بھی مومن اور مسلم کسی وقت بھی اس کی تلاوت اور تدبر وتفکر سے مستغنی نہیں ہو سکتا، لہذا اپنے اعضاء وجوارح کو جلا بخشنے اور اپنی دنیا وآخرت کو سنوارنے کے لیے پابندی سے اس کی تلاوت ضروری ہے، حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
اقْرَؤُوا القُرْآنَ فإنَّه يَأْتي يَومَ القِيامَةِ شَفِيعًا لأَصْحابِهِ، اقْرَؤُوا الزَّهْراوَيْنِ البَقَرَةَ، وسُورَةَ آلِ عِمْرانَ، فإنَّهُما تَأْتِيانِ يَومَ القِيامَةِ كَأنَّهُما غَمامَتانِ، أوْ كَأنَّهُما غَيايَتانِ، أوْ كَأنَّهُما فِرْقانِ مِن طَيْرٍ صَوافَّ، تُحاجَّانِ عن أصْحابِهِما، اقْرَؤُوا سُورَةَ البَقَرَةِ، فإنَّ أخْذَها بَرَكَةٌ، وتَرْكَها حَسْرَةٌ، ولا تَسْتَطِيعُها البَطَلَةُ..)
صحيح مسلم: (804)
یعنی قرآن مجید پڑھا کرو، یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں : البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کی دو ڈاریں ہوں ، وہ اپنی صحبت میں ( پڑھنے اور عمل کرنے ) والوں کی طرف سے دفاع کریں گی ۔ سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے ترک کرناباعث حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔
روزہ اور قرآن کی شفاعت
”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:
الصيامُ والقرآنُ يشفعانِ للعبدِ يومَ القيامَةِ ، يقولُ الصيامُ : أي ربِّ إِنَّي منعْتُهُ الطعامَ والشهواتِ بالنهارِ فشفِّعْنِي فيه ، يقولُ القرآنُ ربِّ منعتُهُ النومَ بالليلِ فشفعني فيه ، فيَشْفَعانِ
(صحيح الجامع: 3882)
قیامت کےدن روزہ اور قرآن دونوں بندہ کے لیے شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے (پینے) اور (دوسری) نفسانی خواہشات سے روکے رکھا، پس تو اس شخص کے متعلق میری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو رات کے وقت جگائے رکھا پس اس کے متعلق میری شفاعت کو قبول فرما۔ آپ ﷺنے فرمایا: پس ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔“
ایک اور حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
والْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ، أوْ عَلَيْكَ،
(صحيح مسلم: 223 )
“اور قرآن تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل بنے گا‘‘
یعنی قرآن کی ہدایت سے استفادہ کرو گے تو یہ دنیا میں تمہارے لیے دلیل ہے اور آخرت میں تمہارے لیے شافع بن کر کھڑا ہوگا، اس لحاظ سے قرآن مجید دنیا میں بھی حجت ہے‘ بایں طور کہ صحیح اور سیدھے راستے کی طرف آپ کی رہنمائی کرتا ہے اور قیامت میں بھی آپ کے حق میں شافع بن کر کھڑا ہوگا۔ اس کے بر عکس اگر قرآن کو آپ نے رد کر دیا ، اس کے احکام کو توڑ دیا یا قرآن کی ہدایت کو قبول کرنے سے اعراض کیا تو اس صورت میں یہ آپ کے خلاف گواہ بن کر کھڑا ہو گا۔
ہم دیکھتےہیں کہ ماہ رمضان میں قرآن پاك كی خوب تلاوت كرتے هیں لیکن جیسے ہی ماه رمضان چلا گیا تو قرآن پاک کی تلات بھی چھوڑ دیتے ہیں،کیا قرآن صرف رمضان کے لئے اترا ہے ؟ لوگو! ماہ رمضان چلا گیا ہے ،قرآن کی تلاوت نہیں ، لہذا قرآن کی تلاوت مت چھوڑیں ۔
نمازِ با جماعت:
جس طرح رمضان المبارک میں نمازِ با جماعت کا اہتمام کیا جاتا تھا اسی طرح ماہِ مقدس کے گزر جانے کے بعد بھی اس کا اہتمام کیا جائے، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے کو اکیلے نماز پڑھنے والے پر 27 درجات کی فضیلت حاصل ہے ، جیساکہ حدیث میں آتا ہے ۔
صَلَاةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الفَذِّ بسَبْعٍ وعِشْرِينَ دَرَجَةً.
(صحيح البخاري: 645)
باجماعت نماز اکیلے نماز سے 27 درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
ایك اور حدیث میں نماز باجماعت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَن تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ فأسْبَغَ الوُضُوءَ، ثُمَّ مَشَى إلى الصَّلَاةِ المَكْتُوبَةِ، فَصَلَّاهَا مع النَّاسِ، أَوْ مع الجَمَاعَةِ، أَوْ في المَسْجِدِ غَفَرَ اللَّهُ له ذُنُوبَهُ.
(صحيح مسلم: 232)
”جو شخص نماز کے لیے پورا وضو کرے پھر فرض نماز کے لیے (مسجد کو) چلے اور لوگوں کے ساتھ یا جماعت سے یا مسجد میں نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا۔“
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔
عشاء اور فجر كی نماز جماعت كے ساتھ ادا کرنے كی فضیلت
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّى اللَّيْلَ كُلَّهُ
(صحيح مسلم: 656)
جس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی تو گویا اس نے آدھی رات کا قیام کیا اور جس نے صبح کی نماز ( بھی ) جماعت کے ساتھ پڑھی تو گویا اس نے ساری رات نماز پڑھی ۔
ایک اور حدیث میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں :
مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ كَانَ كَقِيَامِ نِصْفِ لَيْلَةٍ، وَمَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ فِي جَمَاعَةٍ كَانَ كَقِيَامِ لَيْلَةٍ .
( صحيح أبي داود: 555)
جس نے جماعت سے عشاء کی نماز پڑھی، گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا، اور جس نے عشاء اور فجر دونوں جماعت سے پڑھیں، اس نے گویا پوری رات قیام کیا ۔
سنن مؤکدہ کا اہتمام
سنن مؤکدہ کی حیثیت ادائیگی میں فرائض و واجبات کی تو نہیں ہے البتہ بہت اہم ضرور ہیں، احادیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور خاص طور پر سنن موکدہ کی نبی کریم ﷺ نے بہت زیادہ تر غیب بھی دلائی ہے، اور قیامت کے دن فرائض میں اگر کچھ کوتاہی رہ گئی ہو تو ان کی تکمیل انہیں نوافل سے کی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ رضائے الہی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وما يَزالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إلَيَّ بالنَّوافِلِ حتَّى أُحِبَّهُ، فإذا أحْبَبْتُهُ، كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذي يَسْمَعُ به، وبَصَرَهُ الَّذي يُبْصِرُ به، ويَدَهُ الَّتي يَبْطِشُ بها، ورِجْلَهُ الَّتي يَمْشِي بها، وإنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، ولَئِنِ اسْتَعاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ،.
( صحيح البخاري : 6502)
اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں ۔
لہذا ہر مومن بندہ کو چاہیے کہ سنن مؤکدہ میں خاص کر وہ سنن جو فرائض کے آگے پیچھے ہیں اس میں کوتاہی نہ کرے۔
فجر کی دو رکعتیں
فجر کی دو رکعت کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
رَكْعَتَا الفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَما فِيهَا.
(صحيح مسلم: 725)
فجر کی دو رکعتیں دنیا اور دنیا میں موجود تمام چیزوں سے بہتر ہے۔
ظہر سے پہلے چار رکعتیں
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
وكانَ يُصَلِّي في بَيْتي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَخْرُجُ فيُصَلِّي بالنَّاسِ، ثُمَّ يَدْخُلُ فيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ،
( صحيح مسلم: 730)
آپ ﷺ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے پھر گھر سے نکلتے اور لوگوں کو فرض نماز پڑھاتےپھر گھر میں آ کر دو رکعت پڑھتے تھے۔
ظہر کی چار سنتوں کی فضیلت میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من رَكعَ أربعَ رَكعاتٍ قبلَ الظُّهرِ وأربعًا بعدَها حرَّمَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ لحمَه علَى النَّارِ
(صحيح النسائي: 1811)
ظہر سے پہلے چار رکعتوں کی فضیلت
أنَّ رسولَ اللهِ ﷺكان يصلي أربعًا بعد أن تزولَ الشمسُ قبلَ الظهرِ وقال : إنها ساعةٌ تُفتح فيها أبوابُ السماءِ، وأُحبُّ أن يصعَد لي فيها عملٌ صالحٌ
(صحيح الترمذي: 478)
رسول اللہ ﷺ سورج ڈھل جانے کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے، اور فرماتے: ”یہ ایسا وقت ہے جس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرا نیک عمل اس وقت اوپر چڑھے۔
ظہرکے بعد چار رکعتیں
ايک حدیث میں ظہر کے بعد چار رکعتوں کا اجر بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا :
من رَكعَ أربعَ رَكعاتٍ قبلَ الظُّهرِ وأربعًا بعدَها حرَّمَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ لحمَه علَى النَّارِ
(صحيح النسائي: 1811)
جس شخص نے ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا ۔
عصر سے پہلے چار رکعتیں
اسی طرح نبی كریم ﷺ نے عصر سےپہلے چار ركعت نفل كی فضیلت كے بارے میں فرمایا:
رحِمَ اللَّهُ امرَأً صلَّى قبلَ العصرِ أربعًا )
(صحيح أبي داود: 1271)
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں ۔
اذان اور اقامت كے درمیان نوافل
ہراذان اور اقامت كے درمیان نوافل یعنی تحیة الوضو اور تحیة المسجدپڑھیئے ۔ حدیث میں آتا هے کہ:
” بيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ، قالَهَا ثَلَاثًا، قالَ في الثَّالِثَةِ: لِمَن شَاءَ.
(صحيح مسلم.: 838.)
ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے، آپ ﷺنے یہ جملہ تین بار فرمایا، اور تیسری مرتبہ میں کہا: ”اس شخص کے لیے جو پڑھنا چاہے۔
” ما مِن صلاةٍ مفروضةٍ إلَّا وبينَ يدَيْها ركعتانِ
(السلسلة الصحیحة :232)
ہر فرض نماز سے پہلے (کم از کم) دو رکعت (نفلی نماز) ہے۔
تحیۃ الوضو:
حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نماز فجر کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلا کر پوچھا کہ :
أنَّ النبيَّ ﷺقالَ لبِلالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الفَجْرِ: يا بلَالُ، حَدِّثْنِي بأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ في الإسْلَامِ؛ فإنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بيْنَ يَدَيَّ في الجَنَّةِ. قالَ: ما عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِندِي: أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طُهُورًا، في سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ، إلَّا صَلَّيْتُ بذلكَ الطُّهُورِ ما كُتِبَ لي أَنْ أُصَلِّيَ.
(صحیح البخاری – 1149)
اے بلال! مجھے وہ عمل بتادو جس عمل سے آپ کو اللہ سے سب سے زیادہ اس بات کی امید ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے گا، اس لیے کہ آج رات کو میں نے جنت میں تممارے قدموں کی آہٹ سنی ہے، تم وہ کونسا عمل کرتے ہو کہ میں معراج کے وقت جنت میں داخل ہوا تو میرے آگے کسی کی چلنے کی آواز آرہی تھی۔ میں نے پوچھا تو بتایا گیا کہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں، تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میرا کوئی اور خاص عمل نہیں ہے صرف یہی ہے کہ میں جب بھی میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی۔
یہ نفل نمازتحیۃ الوضو کہلاتا ہے ، تحیۃ الوضو کی اتنی اہمیت اور فضیلت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کے قدموں کی آہٹ جنت میں سنی ۔یہ واقعہ معراج کے موقع پر پیش آیا تھا۔
نمازِ اشراق
نمازِ اشراق کا وقت طلوعِ آفتاب سے چند منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ اسے نمازِ فجر اور صبح کے وظائف پڑھ کر اٹھنے سے پہلے اسی مقام پر ادا کرنا چاہیے۔ نماز اشراقِ کی رکعات کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ چھ (6) ہیں۔
حدیث مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
من صلى الفجرَ في جماعةٍ ثم قعدَ يذكُرُ اللهَ حتى تطلُعُ الشمسُ ثم صلى ركعتين كانت له كأجرِ حَجَّةٍ وعمرةٍ. قال: قال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: تامَّةٍ، تامَّةٍ، تامَّةٍ.
(صحيح الترمذي: 586)
نبی کریم ﷺنے فرمایا : جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھ کر طلوع آفتاب تک بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہا پھر دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی اس کے لئے کامل (و مقبول) حج و عمرہ کا ثواب ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لفظ تامۃ ’’کامل‘‘ تین مرتبہ فرمایا۔
نماز چاشت
نماز چاشت کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے پر شروع ہوتا ہے۔ جب طلوعِ آفتاب اور آغازِ ظہرکے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔ نماز چاشت کی کم از کم چار (4) اور زیادہ سے زیادہ بارہ (8) رکعات ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے تین وصیتیں کیں:
أَوْصَانِي خَلِيلِي ﷺبثَلَاثٍ: بصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِن كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَرْقُدَ
(صحيح مسلم |: 721)
مجھے میرے خلیل ﷺ نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ، کہ میں ہر ماہ تین روزے رکھوں ، چاشت کی دو رکعتیں ادا کروں اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کروں ۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
أنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: كَمْ كانَ رَسولُ اللهِ ﷺيُصَلِّي صَلَاةَ الضُّحَى؟ قالَتْ: أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَيَزِيدُ ما شَاءَ. وفي رواية: يَزِيدُ ما شَاءَ اللَّهُ.
( صحيح مسلم: 719)
ان سے کسی نے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ چاشت کی کتنی رکعتیں پڑھا کرتے تھے تو ام المؤمنین نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ چاشت کی چار رکعات پڑھا کرتے تھے اور کبھی اﷲ تعالیٰ جس قدر زیادہ چاہتا اتنی پڑھ لیتے تھے۔
نماز چاشت کی فضیلت
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يُصْبِحُ علَى كُلِّ سُلَامَى مِن أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ، وَأَمْرٌ بالمَعروفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيٌ عَنِ المُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَيُجْزِئُ مِن ذلكَ رَكْعَتَانِ يَرْكَعُهُما مِنَ الضُّحَى.
(صحيح مسلم : 720)
صبح کو تم میں سے ہر ایک شخص کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہوتا ہے ۔ پس ہر ایک تسبیح ( ایک دفعہ سبحان الله کہنا ) صدقہ ہے ۔ ہر ایک تمحید ( الحمد لله کہنا ) صدقہ ہے ، ہر ایک تہلیل ( لا اله الا الله کہنا ) صدقہ ہے ہر ایک تکبیر ( اللہ اکبر کہنا ) بھی صدقہ ہے ۔ ( کسی کو ) نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور ( کسی کو ) برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے ۔ اور ان تمام امور کی جگہ دو رکعتیں جو انسان چاشت کے وقت پڑھتا ہے کفایت کرتی ہیں ۔
انفاق فی سبیل اللہ
ضرورت مندوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مد نظر رکھتے ہوئے مال خرچ کرنے کا قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے،
ٱلشَّيْطَٰنُ يَعِدُكُمُ ٱلْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِٱلْفَحْشَآءِ وَٱللَّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا وَٱللَّهُ وَٰاسِعٌ عَلِيمٌ۔
(البقرہ:268)
شیطان تمہیں فقیری سے دھمکاتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ تم سے اپنی بخشش اور فضل کا وعده کرتا ہے، اللہ تعالیٰ وسعت والا اور علم والاہے۔
یعنی اچھے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہو جاؤ گے، لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا۔ بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے اور ان کے لیے خفتہ آرزوؤں کو اس طرح جگاتا ہے کہ ان پر انسان بڑی سے بڑی رقم بے دھڑک خرچ کر ڈالتا ہے۔
مومن بندے کی نشانی یہ ہے کہ جس طرح رمضان میں زکوٰۃ ، صدقات اور خیرات کرتا ہے ، غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں، بیواؤں کی دست گیری کرتا ہے ، اور ننگوں ، بھوکوں ، بیماروں اور محتاجوں کا خیال رکھتا ہے ۔ رمضان کے بعد بھی وہ رب کی راہ میں برابرخرچ کرتا ہی رہتا ہے ، جیسا کہ فرمان باری ہے :
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ ، وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
(البقرة: 4،3 )
اس کتاب میں کوئی شک وشبہ نہیں ، اﷲ سے ڈرنے والوں کے لیے رہنمائی کرتی ہے ، جو غیبی امور پر ایمان لاتے ہیں ،اور نماز قائم کرتے ہیں ، اور ہم نے ان کو جو روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرتے ہی رہتے ہیں۔
قیام اللیل:
اسے بالعموم صلوٰۃ اللیل یا تہجد کی نماز کہا جاتا ہے، عام مسلمانوں کے لیے یہ ایک نفل نماز ہے اور جنہیں اللہ تعالیٰ توفیق دے ان کے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ وہ نبی ﷺ کی پیروی میں اس کا اہتمام کریں۔ مومن بندے کی علامت اور نشانی ہے کہ جس طرح اس نے رمضان المبارک میں تراویح، نوافل اور تہجد وغیرہ کی پابندی کی تھی ۔اسی طرح وہ رمضان کے بعد بھی قیام اللیل کی پابندی کریں ۔قیام اللیل اور شب بیداری رسول کریمﷺ اور صحابہ کرام کی عادت مبارکہ رہی ہے ، سیدہ عائشہ رضي الله عنها اپنے بھانجے حضرت عبد اﷲ بن زبیررضي الله عنه کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتی تھیں :
لاَ تدع قيامَ اللَّيلِ فإنَّ رسولَ اللَّهِ ﷺكانَ لاَ يدعُهُ وَكانَ إذا مرضَ أو كسلَ صلَّى قاعدًا.) صحیح أبي داود: 1307)
) صحیح أبي داود: 1307)
قیام اللیل یا تہجد نہ چھوڑو کیونکہ رسول اللہ ﷺ اسے نہیں چھوڑتے تھے، جب آپﷺ بیمار یا سست ہوتے تو بیٹھ کر ادا فرماتے تھے۔
حضرت بلال سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺنے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا :
عليكُم بقيامِ اللَّيلِ ، فإنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحينَ قبلَكُم ، و قُربةٌ إلى اللهِ تعالى ومَنهاةٌ عن الإثمِ و تَكفيرٌ للسِّيِّئاتِ ، ومَطردةٌ للدَّاءِ عن الجسَدِ
(صحيح الجامع: 4079)
تم قیام اللیل یعنی تہجد کا اہتمام کیا کرو، کیونکہ تم سے پہلے کے صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے، اور رات کا قیام یعنی تہجد، اللہ سے قریب ہونے، گناہوں سے دور ہونے، برائیوں کے مٹنے ، اور بیماریوں کو جسم سے دور بھگانے کا ایک ذریعہ ہے۔
اس حدیث میں قیام اللیل کے چار اہم فوائد بتائے گئے ہیں، پہلا فائدہ یہ ہے کہ وہ دورِ قدیم سے صلحاء کا شعار، طریقہ اور ان کی عبادت رہی ہے، دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وہ قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے، اس سے ربِ کریم کی قربت ومحبت نصیب ہوتی ہے۔ تیسرا فائدہ یہ کہ وہ کفارہ سیئات کا ذریعہ ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :’’نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں‘‘، اور نمازِ تہجد بہت بڑی نیکی ہے۔ چوتھا فائدہ یہ کہ وہ گناہوں سے بچاتی ہے اور ترکِ معاصی سے تہجد کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔
مومن بندے کی نشانی یہ ہے کہ اسے اس وقت تک چین وسکون نہیں ملتا ، جب تک وہ رات میں اٹھ کر رب کے دربار میں آنسو نہ بہالے ، اور پروردگار عالم سے راز ونیاز نہ کرلے، الله رب العزت اس ماہ مبارک اور آئندہ آنے والی زندگی میں بھی تمام مسلمانوں کو ان باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔
نماز وتر کی پابندی
نمازِ وتر کی خاص طور پر پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی کریم ﷺسفر وحضر میں ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرماتے تھے اور تاکید بھی فرماتے۔ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
الوِترُ حقٌّ فمن شاءَ أوترَ بسبعٍ ومن شاءَ أوترَ بخمسٍ ومن شاءَ أوترَ بثلاثٍ ومن شاءَ أوترَ بواحدةٍ
(صحيح النسائي: 7011)
’’ وتر حق ہے جو چاہے سات پڑھ لے ، جو چاہے پانچ پڑھ لے ، جو چاہے تین پڑھ لے اور جو چاہے ایک پڑھ لے ۔‘‘
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن خَافَ أَنْ لا يَقُومَ مِن آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَن طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ؛ فإنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذلكَ أَفْضَلُ
(صحيح مسلم: 755)
جسے ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا ، وہ رات کے شروع میں وتر پڑھ لے ۔ اور جسے امید ہو کہ وہ رات کے آخر میں اٹھ جائے گا ، وہ رات کے آخر میں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل بات ہے ۔
حضرت علی بن أبي طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
الوِتْرُ ليس بِحَتْمٍ كصلاتِكم المكتوبةِ ولكنْ سَنَّ رسولُ اللهِ ﷺوقالَ إنَّ اللهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الوِتْرَ ، فأَوْتِرُوا يا أهلَ القُرآنِ3
وتر تمہاری فرض نماز کی طرح لازمی نہیں ہے ۱؎، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنت قرار دیا اور فرمایا: اللہ وتر ( طاق ) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے، اے اہل قرآن! تم وتر پڑھا کرو۔
ذکرواذکار کی پابندی:
جس طرح رمضان المبارک میں دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ ذکر واذکار کی پابندی اور اہتمام کیا گیا اسی طرح رمضان کے بعد بھی اس کا اہتمام ضروری ہے، کوئی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَاذْکُرُوْنِيْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِيْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ
(البقرۃ، 2 : 152)
’’سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کیا کرو اور میری ناشکری نہ کیا کرو۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:
یٰاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللهَ ذِکْرًا کَثِيْرًا وَّسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِيْلًا
(الأحزاب : 41)
’’اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو اور صبح و شام اسکی تسبیح کیا کرو ‘‘
یعنی دن ہو یا رات، خشکی ہو یا تری، سفر ہو یا حضر، ذکر کرنے والا غنی ہو یا فقیر، بیمار ہو یا تندرست، چھپ کر کرے یا اعلانیہ کرے، ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يقولُ اللَّهُ تَعالَى: أنا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بي، وأنا معهُ إذا ذَكَرَنِي، فإنْ ذَكَرَنِي في نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ في نَفْسِي، وإنْ ذَكَرَنِي في مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ في مَلَإٍ خَيْرٍ منهمْ، وإنْ تَقَرَّبَ إلَيَّ بشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إلَيْهِ ذِراعًا، وإنْ تَقَرَّبَ إلَيَّ ذِراعًا تَقَرَّبْتُ إلَيْهِ باعًا، وإنْ أتانِي يَمْشِي أتَيْتُهُ هَرْوَلَةً.
( صحيح البخاري: 7405)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (ذکر خفی) کرے تو میں بھی(اپنے شایان شان) خفیہ اس کا ذکر کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
توبہ و استغفار :
رمضان المبارک میں کیے گئے اعمال کی پابندی اور ہمیشہ اس پر قائم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے ندامت کے آنسو بہاتے رہنا اور توبہ کرتے رہنا بہت ضروری ہے، توبہ گناہوں کی بخشش، دخول جنت اور کامیابی کا ذریعہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے،
وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(النور: 31)
“اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ” .
خالص توبہ یہ ہے کہ، جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے، اسے ترک کر دے، اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے، آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم رکھے، اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے اس کا ازالہ کرے، جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے، محض زبان سے توبہ کر لینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی رمضان المبارک میں کی گئی ہماری عبادات کو قبول فرمائے، کمی اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور ہمیشہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔