رمضان المبارک کے آخری عشرے کی تیاری

radan ka akhri ashra

پہلا خطبہ :

ہر قسم کی تعریف و توصیف اللہ عزوجل کے لیے ہے اور درود و سلام نازل ہوں اللہ کے رسول ﷺ پر، ان کی آل وعیال اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر ، اور ان کے ساتھ دوستی و محبت رکھنے والوں پر۔

اما بعد !

آخری عشرے کی پر کیف ہوائیں چلنے ہی والی ہیں، اس کے جھونکے قریب آچکے ہیں، اس کی روشنیاں نظر آنے لگی ہیں اور صالح لگی ونیک افراد اس کے فضائل کو سمیٹنے کے لیے بے تاب ہیں۔جب انسان اپنے دل کی سیر کرتا ہے، اپنی یادِ ماضی کو تازہ کرتا ہے، گزشتہ ایام پر غور و فکر کرتا ہے اور اپنی کمزوری، کوتاہی، لا پروائی، گناہوں اور کمیوں کو یاد کرتا ہے تو وہ اس موسم میں بے اختیار اپنی ہمت و حوصلے کو بلند کرتا ہے، اپنے دل کے عزم وارادے کی تجدید کرتا ہے، اپنی نیند سے بیدار ہو جاتا ہے ، اور اپنی گردن سے سستی و کاہلی کے لباس کو اتار پھینکتا ہے، تا کہ جو اس سے چھوٹ چکا ہے اس کا تدارک کر سکے اور جو آنے والا ہے اس سے فائدہ اٹھا سکے تو ایسے وقت میں عزائم اور حوصلوں میں تفاوت نمایاں ہو جاتا ہے اور اربابِ عزیمت ایک دوسرے پر فوقیت لے جاتے ہیں، ان میں سے بعض لوگ تو ہر لمحے کو غنیمت جانتے ہیں اور ہر منٹ کو نیکی کمانے میں صرف کرتے ہیں، چنانچه تسبیح و تہلیل، تحمید، تکبیر، قیام، ذکر، تلاوت قرآن اور تدبر جیسی عبادتوں کی نعمت میں ہی مگن رہتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو اس عشرے کی قدر و قیمت سے واقف ہیں، اسی عشرے کے ساتھ ، اس کے اندر اور اس کے سائے تلے وقت گزارتے ہیں جس میں وہ عبادت کی لذت، تقرب الہی کی انسیت، تلاوت کے حسن و جمال، ایمان کی چاشنی اور رحمن کی رحمتوں کے جھونکوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ان کی روحیں آسمان کی بلندیوں میں منڈلاتی رہتی ہیں، ان کے نفوس پاک وصاف ہوتے ہیں اور ان کے دل علو و بلندی کی منزلیں طے کرتے ہیں، اور یہ روزے کی حکمتوں میں سب سے عظیم حکمت ہے جو اللہ تعالی کے اس ارشاد میں مذکور ہے:

لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

البقرۃ – 183

تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو جائے۔

ان دس دنوں کی ساعتیں محدود ہیں، لمحات گنے چنے ہیں، یہ گھڑیاں جلدی گزر جانے والی ہیں اور یہ ایام آنکھ جھپکتے رخصت ہو جائیں گے۔ اہل بصیرت مضبوط ہمت و حوصلے اور مکمل بیداری کے ساتھ ، نیز دنیاوی مشغولیات اور الجھنوں سے الگ ہو کر ان ایام سے خوب مستفید ہوتے ہیں۔

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ماہ ِر مضان میں نبی اکرم ﷺ کے احوال کو بڑے بلیغ اور مختصر مگر جامع الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ”جب یہ عشرہ داخل ہوتا تو نبی اکرم ﷺ اپنی کمر کس لیتے، شب بیداری فرماتے اور اپنی بیویوں کو بھی بیدار کرتے۔“ (بخاری)۔ تا کہ آپﷺ کا یہ طریقہ عبادت امت کے لیے روشنی کا مینار ہو، تو بہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہو، اطاعت کرنے والے اسے اپنا منہج بنا لیں، وہ گنہگاروں کی پناہ گاہ ہو اور اہل ایمان اس سے ترقی کی منزلیں طے کریں۔

اس عشرے کی راتوں میں رب کے ساتھ مناجات و سر گوشی کتنی اچھی لگتی ہے بندہ اپنے مالک و مولا کے ساتھ خلوت نشینی اختیار کرتا ہے۔ اپنے رنج و غم اور حزن و ملال کا اظہار کرتا ہے۔ اپنی شکایتیں پیش کرتا ہے۔ اپنے خالق کے سامنے اپنی آرزوئیں اور امیدیں رکھتا ہے۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہے۔ اپنی خطاؤں کا اقرار کرتا ہے۔ اپنی توبہ کا اعلان کرتا ہے۔ اپنے آنسو خوب بہاتا ہے۔ اپنے دل کو خشیت، امید ، اور عاجزی و انکساری سے آباد کرتا ہے اور اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے خفیہ انداز میں دعائیں کرتا ہےکہ اس کے سوا کوئی رب نہیں۔ وہی ٹوٹے دلوں کو جوڑتا ہے۔ چنانچہ پھر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ فیوض و برکات کا نزول ہوتا ہے اور رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

البقرۃ -186

جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں۔

اور حدیث میں ہے: ” بے شک تمھارا رب باحیا، اور سخی ہے ، وہ اپنے بندے کے اپنی بارگاہ میں اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے ہوئے حیا کرتا ہے۔“(ترمذی)۔

 لہذا اپنے آپ کو خرید لو، ابھی بازار ختم نہیں ہوا ہے۔ قیمت بھی موجود ہے اور ٹال مٹول کے وسوسے پر دھیان مت دو۔شب قدر کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ ‎﴿١﴾‏ وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ ‎﴿٢﴾‏ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ ‎﴿٣﴾‏ تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ ‎﴿٤﴾‏ سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ ‎

القدر – 1/2/3/4/5

 شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں ( ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں. یہ رات سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے۔

کیا روزے دار اس عظیم اجر و ثواب کا تصور کر سکتا ہے جو ہزار مہینے کے اجر و ثواب سے بہتر ہے؟ اور اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہونے والا کیا اس خوفناک منظر اور عظیم اجتماع کے بارے سوچ سکتا ہے، جس میں اس رات کی عظمت کی وجہ سے فرشتے اور جبریل علیہ السلام اترتے ہیں۔ یہ جو فرشتوں کا نزول (اترنا) ہے یہ اپنے اندر امن و امان اور سلامتی کے سارے معانی کو سموئے ہوتا ہے۔ یہ رات سراپا خیر ہے، اس میں شر و برائی کا نام و نشان نہیں۔ ہر آفت و بلا سے محفوظ ہے۔ اور طلوع فجرتک خیر و برکت اترتی رہتی ہے اور مسجدوں میں عبادت کرنے والوں پر فرشتے سلام بھیجتے رہتے ہیں۔

 وہ بڑی خوش گوار رات ہوتی ہے نہ گرم نہ ٹھنڈی۔ بڑی مبارک رات ہوتی ہے ، شروع رات سے طلوع فجر تک خیر ہی خیر نازل ہوتی رہتی ہے۔ یہ اللہ کے اولیا اور اطاعت گزاروں کے لیے سلامتی کی رات ہوتی ہے۔ پوری رات دائمی سلامتی اور سرمدی امن وامان سے معمور ہوتی ہے جس سے ہر وہ مومن بہرہ ور ہوتا ہے جو طلوع فجر تک شب بیداری کرتا ہے۔

 اس عظیم فضل اور بکثرت اجر وثواب کی مناسبت سے ہمیں چاہیے کہ ہم بالکل تیار ہو جائیں، مسلسل عبادت کرتے رہیں، جن چیزوں کے ہم عادی ہو چکے ہیں انھیں چھوڑ دیں اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ یہ تو بس چند ایام ہیں۔ پھر پھل توڑنے کا وقت آجائے گا۔ اور انسان اس بات پر اپنے رب کا شکر ادا کرے گا کہ اس کے رب نے اسے چن لیا تھا تا کہ وہ اس غنیمت کو حاصل کر سکے، اس کی نیکیوں میں اضافہ ہو اور وہ برکتوں سے بہرہ مند ہو سکے۔

حدیث شریف میں ہےکہ  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا، گویا ساری بھلائی سے محروم رہ گیا۔ “ (اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے)۔

اُم المؤمنین  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سوال کیا:اگر مجھے لیلتہ القدر کا علم ہو جائے تو بتلائیں کہ میں اس رات میں کیا کہوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم کہو :

 اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنيّ

اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے، اور تو معافی کو پسند کرتا ہے پس مجھ کو معاف فرما دے۔“ (اسے ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے ، یہ الفاظ احمد کے ہیں)۔

اللہ سبحانہ و تعالی معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، وہ ہمیشہ سے عفو و درگزر کی وجہ سے معروف ہے اور اپنے بندوں کے گناہوں کو بخشنے کی صفت سے متصف ہے۔ پھر جب ایک مسلمان اسے پکارتا ہے کہ (اے اللہ) تو مجھے معاف کر دے، تو اس کی معافی کے کیا کہنے!۔

 جب اللہ کی بخشش آپ کو نصیب ہو جائے تو وہ آپ کو سعادت مند بنا دے گا، آپ کو حیران و ششدر کر دے گا، آپ کے جسم، دل اور روح کو پاک وصاف کر دے گا، وہ آپ سے راضی ہو جائے گا اور آپ کو خوش کر دے گا۔

جب صدق دل سے زبان پر یہ دعا جاری و ساری رہے، یہ کلمات، ندامت اور توبہ وانابت کی حالت میں آسمان کی طرف بلند ہوں، فرشتوں کے نزول اور لیلتہ القدر کے انوار بھی ساتھ مل جائیں تو یہ ایک ایسی نعمت ہو گی جس کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا، ایسا فضل ہو گا جس کا کوئی مقابلہ نہیں ہو سکتا اور ایسی سعادت ہو گی جو بیان سے باہر ہو گی۔

اللہ تعالی کے عفوومعافی سے مراد یہ ہے کہ اللہ گناہوں کو بخش دیتا ہے، خطاؤں سے درگزر کرتا ہے، ان پر پردہ پوشی کرتا ہے، معصیتوں کو مٹا دیتا ہے، نیکیوں کو ڈگنا کر دیتا ہے، بلکہ گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:

إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

الفرقان – 70

مگر جو شخص تو بہ کرے گا اور ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا، تو اللہ اس کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بڑا معاف کرنے والا، بے حد مہربان ہے۔

اور حدیث میں ہے: ”اللہ تعالٰی مومن کو اپنے نزدیک بلالے گا اور اسے اپنے پہلو میں لے لے گا اور اسے چھپالے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا :کیا تجھے فلاں گناہ یاد ہے ؟ فلاں گناہ یاد ہے ؟ وہ مومن کہے گا ہاں! اے میرے پروردگار۔ آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرلے گا اور اسے یقین آجائے گا کہ اب وہ ہلاک ہو گیا تو اللہ تعالی فرمائے گا کہ: میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پر دو ڈالا۔ اور آج بھی میں تیری مغفرت کرتا ہوں۔ چنانچہ اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی۔ “ ( اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے)۔

اللہ تعالی کے کمال عفو و درگزر کا عالم یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس پر جس قدر بھی زیادتی کرلے، پھر اس کی طرف تو بہ کرتے ہوئے رجوع کرلے تو وہ اس کے تمام جرائم کو معاف کر دیتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

الزمر – 53

 کہہ دے! اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ، بیشک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بیشک وہی تو بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

اس کی رحمتیں کتنی وسیع ہیں، اس کی معافی کتنی خوبصورت ہے اور اس کا فضل کتنا عظیم –

دوسرا خطبہ :

یہ بابرکت مجمع جو ندائے الہی پر لبیک کہتا ہوا حاضر ہوا ہے، جس کے آنے سے حرمین کے سارے گوشے اور صحن بھر گئے ہیں، یہ وہ اہل ایمان ہیں جو اللہ کے گھروں میں صف بندی کیے ہوئے ہیں اور جو اپنے گھروں میں قدموں پر کھڑے کھڑے قیام اللیل کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کی طرف متوجہ ہیں۔ ان کی زبانیں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتی ہیں۔

 یہ لوگ آیات بینات کو سنتے ہیں، وعظ و نصیحت سن کر ڈرتے ہیں۔ اللہ کے حکموں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ حدود الہی پر ٹھہر جاتے ہیں، اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اس کی بخشش و مغفرت کی بار ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ دنیا کے مشرق و مغرب سے آئے ہوئے یہ لوگ رمضان کے روزوں اور قیام کی حلاوت و مٹھاس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ لوگ محبین کی طرح تڑپ، تو بہ کرنے والوں کی طرح خشوع و خضوع، گناہ گاروں کی طرح آہ و بکا، ڈرنے والوں کے جیسے دل اور بچے لوگوں کی طرح آرزوئیں اور امیدیں لے کر لیلتہ القدر کو تلاش کرتے ہیں۔

 اللہ تعالی ایسے بندوں کو کبھی نا امید نہیں کرتا جو ایمان اور ثواب کی امید سے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اچھے اعمال کرنے والوں کے اجر کو کبھی ضائع نہیں کرتا، وہ اللہ سبحانہ و تعالی بے حد مشفق و مہربان اور وسیع بخشش و مغفرت والا ہے، جس کی رحمت ہر چیز کو محیط ہے ، حدیث میں ہے: ” یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھ جانے والا بھی محروم نہیں رہتا۔

 اور ارشادِ باری تعالی ہے:

وَهُوَالَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوعَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

الشوریٰ – 25

 اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اور ان کے گناہوں کو معاف کرتا ہے ، اور تمہارے اعمال کو جانتا ہے۔

اس ماہ عظیم کے دوران مسجد اقصی کے صحنوں اور احاطوں میں نمازیوں کے خلاف جس ظلم و بربریت کا ارتکاب کیا گیا اس کی سخت مذمت جو ہماری حکومت کی طرف سے کی گئی اس کی ہم تعریف کرتے ہیں، ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے قابل ملامت و عار ہیں ، جن کا انجام بھی براہوگا، مقدس مقامات کا ایک احترام اور تقدس ہوتا ہے ، اس کو پامال کرنا اور اس کی بے حرمتی کرنا قابل معافی جرم ہے، اللہ تعالی مسجد اقصی اور اس کی حفاظت پر مامور لوگوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔

اے اللہ! مسجد اقصی کو اور اس کے مکینوں کو ہر شر اور برائی سے محفوظ رکھ ، اے اللہ ان کی خصوصی حفاظت فرما، ان کی نگہبانی فرما، ظلم وزیادتی کرنے والوں کے مکر و فریب اور تدبیروں کو انہیں پر لوٹادے۔

اے اللہ! تو اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما۔ کفر اور کافروں کو ذلیل ورسوا فرما، دین کے دشمنوں کو تہس نہس کر دے، اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن والا بنا دے۔

 اے اللہ! ہم تجھ سے ہر بھلائی کا سوال کرتے ہیں خواہ وہ جلد ملنے والی ہے یا دیر سے، اسے ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔ اور ہر اس برائی سے تیری پناہ مانگتے ہیں ، جو جلدی آنے والی ہے یا دیر سے ، اسے ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔

اے اللہ! ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں، اور ایسے قول و فعل کی توفیق کا سوال کرتے ہیں جو ہمیں جنت سے قریب کر دے۔

 اےاللہ! ہم جہنم کی آگ سے تیری پناہ چاہتے ہیں، اور ہر ایسے قول و فعل سے بھی جو ہمیں جہنم کے قریب کر دے۔

 اے اللہ! ہم تجھ سے خیر و بھلائی کی ابتدا و انتہا، اس کی جامع چیزیں، اور اس کے اول و آخر، ظاہر و باطن کا سوال کرتے ہیں اور جنت میں بلند درجات کا سوال کرتے ہیں۔

 اے اللہ! ہم تیری نعمت کے زائل ہونے سے، تیری دی ہوئی عافیت کے پھر جانے سے، تیری ناگہانی گرفت سے ، اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے پناہ مانگتے ہیں۔

 اے اللہ! ہمارے امام خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما، ان کے ولی عہد کو ہر خیر کی توفیق عطا فرما، ان دونوں کو نیکی اور تقوی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی شریعت کے نفاذ اور اپنے نبی کی سنت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما۔

اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا و آخرت میں خیر و بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

خطبہ جمعہ مسجدِ نبویﷺ: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبدالباری بن عواض الثبیتی حفظہ اللہ
16رمضان 1444ھ بمطابق 07 اپریل 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ 

مسجد نبوی کے معروف خطباء میں سے ایک نام فضیلۃ الشیخ داکٹر عبدالباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ کا ہے ، جن کے علمی خطبات ایک شہرہ رکھتے ہیں۔