اے صاحبانِ عرفان رمضان آگیا!

ramzan agaya.

پہلا خطبہ :

 ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے جو وسیع بخشش ، خوب نوازشوں والا ، فضل و احسان اور کرم والا ہے، اس نے زندگی کے دنوں میں بھلائیوں کے موسم اور نیکیوں سے توشہ لینے کے مواقع بنائے ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بندوں کا رب اور تمام مخلوقات کا خالق ہے ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندہ اور رسول ،شریف ترین، پاکیزہ خصائل سے متصف ہیں۔

درود و سلام اور برکتیں نازل ہوں آپ ﷺ پر جب تک آسمان اور زمین باقی  رہیں۔

 امابعد !

 اے اللہ کے بندو! اللہ ملک العلام کا تقوی اختیار کرو اور ماہ صیام میں تقوی کو ساتھی بنالو، اسے سدا کے لیے تمہاری مضبوط صفت ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

البقرۃ – 183

” اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے ، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو”۔

 مسلمانو! اللہ پاک اپنی مخلوقات پر احسان جتاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

 وَمَا بِكُم مِّن نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ

النحل – 53

“تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اللہ کی دی ہوئی ہیں”۔

معلوم ہوا کہ ساری نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں، اس کے سوا کسی کی طرف سے نہیں، اس لیے ہمیں اللہ کی طرف راغب ہونا چاہیے اور یہ سوال کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں نعمتوں سے نوازے اور ان کے شکر کی توفیق دے۔

یہ باتیں رہیں اور بندے پر اللہ کی نعمت، اس کا فضل اور احسان یہ ہے کہ وہ بندے کو صحت اور عافیت کے ساتھ زندہ باقی رکھے یہاں تک کہ وہ بھلائیوں کے موسم کو پاسکے اور قربتوں سے توشہ لے سکے اور طاعت کے میدانوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کر سکتے۔ حدیث میں آیا ہے: ” دولوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا، ایک شہید ہو گیا اور دوسرا اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہا اور جب خواب میں دیکھا گیا کہ جو اپنے بستر پر مراوہ شہید سے پہلے جنت میں داخل ہوا تو صحابہ کرام کو تعجب ہوا۔

فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مِنْ أَيِّ ذَلِكَ تَعْجَبُونَ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا كَانَ أَشْدَّ اجْتِهَادًا، ثُمَّ اسْتُشْهِدَ في سَبِيلِ اللهِ، وَدَخَلَ هَذَا الْجَنَّهُ قَبْلَهُ، فَقَالَ: “أَلَيْسَ قَدْ مَكَثَ هَذَا بَعْدَهُ سَنَةَ قَالُوا: بَلَى. قال: “وَأَدْرَكَ رَمَضَانَ فَصَامَهُ؟ قَالُوا: بَلَى قَالَ: “وَصَلَّى كَذَا وَكَذَا سَجْدَةً في السَّنَةِ؟

“نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم کس چیز پر تعجب کررہے ہو؟ صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ دونوں میں زیادہ محنت کرنے والا تھا پھر اللہ کے راستے میں شہید بھی ہوا اور یہ دوسرا اس سے پہلے جنت میں داخل ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ اس کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا؟ صحابہ کرام نے کہا : کیوں نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: اس نے رمضان پایا اور اس کے روزے رکھے؟ صحابہ نے کہا: کیوں نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا: اور ایک سال میں اتنی اتنی نمازیں پڑھیں اور سجدے کیے؟۔

یہ حدیث لمبی عمر اور اچھی طرح سے کیے گئے مزید عمل کی فضیلت بیان کرتی ہے جیسا کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے :

خيرُ النَّاسِ مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ.

“لوگوں میں سب سے اچھے وہ ہیں جن کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھا ہو ” ۔

اللہ کے بندے! اچھا مجاہدہ یہ ہے کہ تو اپنے نفس کی خواہش پرغلبہ پا اور اسے پاکیزہ کر اور اچھی زمین تیرا وہ نفس ہے جس میں تو نے بھلائی ہوئی، نفس کو پیدا کرنے والے اللہ کا فرمان ہے:

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا

الشمس – 9

” جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا” ۔

 سعادت بخت وہ ہے جس نے دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھاد ھو کہ کی نظر سے نہیں، نیکی کرنے میں جلدی کی انتظار نہیں کیا، اس لیے عمل میں جلدی کر، آج اپنے نفس کو خرید لے کہ اخروی فوائد کا بازار لگا ہوا ہے، قیمت موجود ہے اور سامان وافر ہیں اور اس بازار اور سامان پر ایک دن آنے والا ہے جب تم نہ کم تک پہنچ سکو گے اور نہ زیادہ تک۔ اللہ کا فرمان ہے:

ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ

التغابن – 9

اور اللہ تعالیٰ  کا فرمان ہے:

 وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يدَيْهِ

الفرقان – 27

” اس روز ظالم اپنے ہاتھ چبائے گا”۔

نعمت پر بعض لوگ ایسے ہیں کہ انہیں فائدہ مند تجارت کے قیمتی مواقع حاصل ہوتے ہیں لیکن وہ انہیں غنیمت نہیں جانتے۔ جب عمر زیادہ ہو جاتی ہے اور زمانہ گزر جاتا ہے تب نادم ہوتے ہیں کہ انہوں نے اس طرح نہ پایا اور نہ حاصل کیا اور نہ محنت کی جس طرح دوسروں نے کیا۔ جب تم تقوی کا توشہ لے کر رحلت نہ کروگے اور موت کے بعد ایسے لوگوں سے ملو گے جنہوں نے توشہ لیا ہو گا تمہیں ندامت ہوگی کہ تم ان کے جیسے نہیں ہوئے اور جس طرح انہوں نے کل کے لیے سازوسامان لیا تم نے نہیں لیے۔

مسلمانو! اللہ کے فضل و کرم سے رمضان پھر سے ہمارے اوپر سایہ فگن ہو چکا ہے، ہمیں اللہ کی اس پر شکر گزاری کرنی چاہیے ساتھ ہی ماہ رمضان پانے کے بعد اپنے احوال پر غور کرو کہ ہم میں سے کچھ ایسے ہیں کہ مہینے کے آغاز میں اس مہینے کو پایا اور جلد ہی یکا یک ان کی موت آگئی اور وہ رحلت کر گئے اور ہم میں سے کچھ ایسے ہیں کہ رمضان کو تو پالیا ہے لیکن بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے وہ روزہ رکھنے اور اسے غنیمت جاننے سے قاصر ہیں اور ہم میں سے کچھ ایسے محروم ہیں ۔ اللہ کی پناہ۔ کہ ان پر شیطان حاوی ہے ، انہوں نے اس دین سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے جس میں ان کے معاملے کی حفاظت ہے ، نہ نماز پڑھتے ہیں اور نہ روزہ رکھتے ہیں، بس اس پر اکتفا کیے ہوئے ہیں کہ نام کو اسلام کی طرف نسبت کیے رہیں اور ہم میں سے بعض وہ ہیں جنہیں اللہ نے توفیق دی ہے، وہ روزہ اور نیکیوں سے توشہ لینے کے حریص ہیں اور ان کے بھی کئی درجات ہیں، ان میں سب سے افضل اور خوش نصیب وہ توفیق یاب افراد ہیں جنہوں نے رمضان کی صحیح قدر کی، اس کے شرف وفضل کو جانا اور اس پر بہترین طریقے سے متوجہ ہوئے ، کاوش و کوشش اور محنت کی کہ بھلائی اور نیک اعمال کا فراواں حصہ پائیں۔

 بعض لوگوں نے پچھلے رمضان میں کوتاہی کی ، رمضان کے جانے کے بعد اپنی کو تاہی پر حسرت کی، انہیں اپنی کو تاہی کا احساس ہوا اور آنے والے رمضان کے اس عزم کے ساتھ مشتاق ہوئے کہ تلافی کریں اور بھر پور طریقے سے متوجہ ہوں، یہ دیکھئے کہ وہ ابھی ہیں ، اللہ نے انہیں ان کی مراد تک پہنچا دیا ہے ، تو وہ اب کیا کرنے والے ہیں ؟ اور کیا ان سے جو غفلت ، زیاں اور معصیت سرزد ہوئی تھی اس کی تلافی کریں گے؟۔

مسلمانو! نفس گمراہی ، دوری، غفلت اور سستی سے دوچار ہو جاتا ہے پھر یہ مہینہ آتا ہے کہ نفس کو صیقل کرے اور اسے پھر سے راستے پر لوٹا دے اور وہ اللہ کے حکم پر استوار ہو جائے ، اسے نیک نامی اور بیداری مل جائے، اسی طرح بندے کو ایسی فکر اور دل کی زندگی نصیب ہوتی ہے جو اسے اپنے آقا کی اطاعت پر اور ہر اس چیز سے رکنے پر ابھارتی ہے جو اسے عیب لگائے اور اس کے شایان شان نہ ہو ۔ اور وہ اپنے دل میں بھلائی کی وہ رغبت پاتا ہے جو اس مہینے کے سوا کسی دوسرے مہینے میں نہیں پاتا۔ ہم جس مہینے میں ہیں اس کا ہمیں احساس ہونا چاہیے ، خالص توبہ کرنی چاہیے اور بھلائیوں اور نوازشوں کے موسم میں طاعتوں اور باقی رہنے والی نیکیوں کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہیے ۔ ہم فائدہ اٹھانے میں جلدی کریں، نفسوں کو ایمان سے معمور کریں تا کہ ہم تقوی اور اللہ رحمن و رحیم کی رضا پا سکیں۔

اللہ کے بندو! ان ایام کو غنیمت جانے پر جو چیزیں ابھارتی ہیں ان میں آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے:

إذا كان أول ليلةٍ من شهر رمضانَ صُفِّدَتِ الشياطين ومَرَدةُ الجنّ، وخُلقت أبواب النار فلم يُفتح منها باب، وفتحت أبواب الجنة فلم يُغلق منها باب، ويُنادي منادٍ كل ليلة: يا باغي الخير أقبل، ويا باغي الشر أقصر، والله عتقاء مِنَ النارِ، وذلك كل ليلة

جب رمضان کی پہلی شب ہوتی ہے ، شیطان اور سرکش جن قید کر دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ، ان میں سے ایک بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا، جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور ہر رات پکار لگانے والا پکار لگاتا ہے: اے خیر کے جو یا آگے بڑھ ، اے شر کے جو پارک جا اور اللہ جہنم سے لوگوں کو آزاد کرتا ہے اور یہ ہر رات ہوتا ہے۔

اور آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے :

 من قام ليلة القَدْرِ إِيمَانًا واحتسابًا غُفِرَ له ما تقدَّم من ذنبه ومَنْ صام رمضان إيمانًا واحتسابًا غُفِرَ له ما تقدَّم من ذنبه

جس نے شب قدر میں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے گناہ بخشے گئے ، اور جس نے ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ بخشے گئے:

من قام رمضان إيمانا واحتسابًا غُفِرَ له ما تقدَّم من ذنبه

جس نے ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کیا اس کے پچھلے گناہ بخشے گئے۔

اور آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے:

أتاني جبريل، فقال: رَغمَ أَنفُ امري أُدْرَكَ رمضان فلم يُغفر له، قُل: آمين، فقلتُ: آمين

 میرے پاس جبریل آئے اور کہا: اس آدمی کی ناک خاک آلود ہو جس نے رمضان کو پایا اور اس کو بخشا نہ گیا، کہو: آمین، تو میں نے کہا: آمین۔ اور آپ ﷺ کا ماہ رمضان میں طریقہ یہ تھا کہ آپ متنوع عباد میں کثرت کرتے تھے اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین اس معاملے میں آپ ﷺکی پیروی کریں اور ہر قسم کی عبادتوں میں انہیں وافر ترین حصہ ملاہو۔

اے اللہ کے بندے! اس مہینے میں کوشش کر کہ بھلائی، نیکی اور احسان میں تمہارا حصہ ہو اور حسب امکان مختلف عبادتوں کے گوشوں میں تمہارا بھی حصہ ہو۔ اور یہ معلوم بات ہے کہ خیر کے دروازوں میں ہر نفس کے لیے ایک دروازہ ہوتا ہے جو اس کے لیے کھولا جاتا ہے اور وہ اس میں داخل ہوتا ہے اور ترقی کرتا ہے تو جب تو عبادت کے گوشوں میں سے کسی گوشے پر اپنے نفس کے اندر ہمت و نشاط دیکھے تو اس پر چل پڑے نہ سستی دکھا اور نہ کوتاہی کر ، بلکہ اس میں زیادہ کثرت کر، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی تیرے نفس کی پاکیزگی اسی میں رکھ دے، جس کے لیے نماز کا دروازہ کھل جائے وہ خوب نماز پڑھے ، جس کے لیے قرآن کی تلاوت کا دروازہ کھل جائے وہ خوب تلاوت کرے ، جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل جائے وہ خوب دعا کرے ، جس کے لیے عمومی ذکر کا دروازہ کھل جائے وہ خوب ذکر کرے اور جس کے لیے صدقہ کا دروازہ کھل جائے وہ خوب صدقہ کرے اور بندہ اپنے وقت کو اس چیز میں لگائے جو اسے اپنے مولی سے زیادہ نزدیک کرے اور اس کے پاس اس کا مقام بلند کرے۔

میں نے وہ کہا جو آپ نے سنا اور میں اپنے لیے اور آپ کے  لیے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔تو آپ بھی اُسی سے مغفرت طلب کیجئے ۔ بے شک وہ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ :

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے ، اس نے روزوں کو ڈھال اور جنت تک پہنچانے والا ذریعہ بنایا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ صاحب جلال واکرام ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندہ اور رسول ہیں۔ آپ ﷺ اپنے رب کے لیے نماز پڑھنے والوں ، روزہ رکھنے والوں اور قیام کرنے والوں میں سب سے افضل ہیں۔

 آپ ﷺ پر سب سے افضل اور پاکیزہ ترین درود و سلام نازل ہو۔

اما بعد !

 اے اللہ کے بندو! اپنے رب اور مولی کا تقوی اختیار کرو، اس کی اطاعت کرو، اس کی نوازشوں پر اس کی شکر گزاری کرو اور جہنم سے آزادی اور مغفرت کے مہینے میں غفلت ، نافرمانی اور فائدوں کے خسارے سے بچو۔ کہ ایسے شخص کی ندامت کیا ہی سخت ہوتی ہے اور محرومی کیا ہی بڑی ہوتی ہے ۔ اور عقلمند وہ ہے جو اپنی عمر کی قدر جانے اور اس کے معاملے میں اپنے نفس کا خیال کرے۔

اللہ میری اور آپ کی رہنمائی کرے۔ یہ یاد دہانی، عبرت اور وعظ کا عظیم موقع ہے ،اس کے اندر نفوس خیر پر آمادہ اوراس کے مشتاق ہوتے ہیں۔ اس لیے اے بامراد آدمی، خوب محنت و کاوش کر اور دوسروں کو بھی ابھار اور خود یاد رکھ اور دوسروں کو یاد دلا اور ہم میں سے ہر کوئی اپنی طرف سے اپنے رب کو خیر دکھائے اور ہم ڈریں کہ اس فضلیت والے مہینے کی قدسیت کی پامالی ہو اور برائیوں اور گناہوں کے ارتکاب سے اس کے روز وشب کی شفافیت میلی ہو ، اس ماہ میں ہمیں برائیوں اور عیوب سے اپنے کانوں ، نگاہوں اور زبانوں کی حفاظت کرنی ہے۔ ایمانی بھائیو ! روزہ ان عبادتوں میں سے ہے جن کا مقصد نفسوں کا تزکیہ اور ان کی تربیت ہے اور اس میں ایک ایک فرد کے حال کی درستی ہے ۔

اور جو رمضان فوت ہو گیا اس کی تلافی کو غنیمت جانے کہ بسا اوقات اسے ضائع کرنے سے وہ ہلاک ہو جائے گا۔ جب اسلاف میں سے بعض علماء رمضان میں علمی درس چھوڑ دیا کرتے تھے کہ وہ قرآن پڑھیں اور اس کی بکثرت تلاوت کریں تو کیا ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم اپنے وقت کی حفاظت کریں اور اس سے بچیں کہ ہمیں پھیرنے والی اور غفلت میں ڈالنے والی چیزیں، سوشل میڈیا، اجتماع گاہیں، انٹرنیٹ اور سٹیلائٹ نیٹ ورک کے پروگرامز اور ان جیسی چیزیں مشغول کریں۔

روزہ مسلمان کی تربیت کرتا ہے کہ وہ اپنے رویے کو مہذب کرے، نفس پر کنٹرول رکھے اور اسے ایمان، تقوی، اخلاق اور فضائل جیسے سخاوت، خرچ سے آراستہ کرے، صدق، امانت، بس ایک اللہ کے ڈر، بقیہ تمام اطاعتوں کی انجام دہی اور اس کے ساتھ قرآن اور اس کے تدبر پر اس کی تربیت کرے۔ یوں انسان کے پاس قسم قسم کی ہدایتیں اور انوار اکٹھے ہو جائیں گے جن سے پاکیزگی ، صفائی اور ستھرائی حاصل ہو جائے گی ۔ اور جب روزہ اس طریقے پر ہو گا جسے اللہ نے مقرر کیا ہے یعنی اللہ کے نبی ﷺ کے طریقے کے مطابق ،تو وہ ہمیں بری عادتوں سے روکے گا اور غلط خصلتوں کی بیٹیوں سے آزاد کرے گا جنہوں نے ہمیں قید کر رکھا ہے یوں بندہ اپنے رب مولی کے لیے آزاد ہو گا، اس کا نفس نہ تو قیدی ہو گا اور نہ جھکے گا اور نہ اپنے رب اور خالق کے سوا کسی کے لیے اس کے پاس کسی قسم کی کوئی بندگی ہوگی۔ یہ بندگی پیٹ کے لیے ، شرم گاہ کے لیے ، زبان کے لیے ، مال کے لیے یا کسی اور چیز کے لیے ہو سکتی ہے۔

اللہ کے بندو! اس مہینے میں ہم میں سے ہر کوئی اپنے حسب حال جس مرض سے جو جھ رہا ہوتا ہے اس سے شفا حاصل کرتا ہے، اس میں ہر مریض اپنی دوا اور شفا پاتا ہے۔ یہ ریا اور ناموری کے مرض سے شفا حاصل کررہا ہے، یہ غضب اور جلد بازی کے مرض سے شفا حاصل کررہا ہے ، یہ بخالت ، کنجوسی اور مفاد پرستی کی بیماری سے شفا حاصل کر رہا ہے، یہ شکم پروری اور لالچ کے مرض سے شفا حاصل کر رہا ہے، یہ سستی اور کاہلی کے مرض سے شفا حاصل کررہا ہے، یہ آخرت سے غفلت اور اعراض کی بیماری سے شفا حاصل کر رہا ہے، یہ دل کی سختی اور اس کی زنگ آلودگی کے مرض سے شفا حاصل کر رہا ہے۔ اسی طرح، ہم میں سے ہر کوئی اس چیز سے اپنے نفس کا جلد علاج کرے جو اس کے نفس کو پاکیزہ کرے اور اس کی اصلاح کرے۔

اللہ کے بندو! اور درود و سلام بھیجو سب سے بہتر مخلوق اور پاکیزہ ترین بشر پرجیسا کہ اس کا حکم تمہیں رب العالمین نے اپنے اس قول سے دیا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَيْكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيُّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا صَلُوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

الله تعالى اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو “۔

اے اللہ! درود نازل فرما محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ پر جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ اسلام اور آل ابراہیم علیہ السلام  پر درود نازل فرمایا۔

 اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کوغلبہ عطا کر، کفراور کافروں کو رسوا کر، دین کے دشمنوں کو تباہ کر، اسلام اور مسلمانوں کے ہر دشمن سے بلاد حرمین کی حفاظت فرما۔

 اے اللہ! اسے اور مسلمانوں کے بقیہ تمام ملکوں بر سکون اور خوش حال و فارغ البال بنا، اے اللہ! ہمارے اس ملک سے بطور خاص اور مسلمانوں کے بقیہ ملکوں سے بطورعام مہنگائی ، وہا، بیماری ، سود، زنا، زلزلوں، آزمائشوں اور ظاہر و باطن برے فتنوں کو دور کر۔

اے اللہ! کمزوروں کے لیے ، تیری راہ میں جہاد کرنے والوں کے لیے، سرحدوں پر تعینات ان کی حفاظت میں لگے ہوئے لوگوں کے لیے تو ہو جا۔

اے اللہ! تو ان کا معین و مددگار اور حامی و ناصر ہوجا۔

 اے اللہ! ہمیں اپنے وطنوں اور گھروں میں امن سے نواز۔

اے اللہ! ہمارے سربراہوں اور حکمرانوں کی اصلاح فرما اور ہماری سربراہی انہیں سونپ جو تجھ سے خوف کھائیں، تیرا تقوی اختیار کریں اور تیری خوشنودی کی پیروی کریں، اے رب العالمین۔

اے اللہ! ہمارے سر براہ کو ان گفتار و کردار کی توفیق دے جو تیری مرضی اور منشا کے مطابق ہو ، اے جی و قیوم ، اے اللہ انہیں بھلائی اور تقوی کی راہ پر چلا۔

 اے اللہ !اسے دعاؤں کے سننے والے ، اے وسیع فضل و سخا اور نوازش والے، ہم تجھ سے مانگتے ہیں کہ تو ہم پر فضل کر کہ ہم زندگی کے ایام ان میں لگائیں جن سے تیری رضا حاصل ہو اور تو ہمیں ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے رمضان کے صیام و قیام اور شب قدر کے قیام کی توفیق ارزانی کر اور تو ہمیں ان لوگوں میں سے بنا جنہیں تو اس مہینے میں جہنم سے آزاد کرتا ہے۔

 اے اللہ! ہم تجھ سے ایسے اقوال و اعمال کی توفیق طلب کرتے ہیں جس سے تیری رحمت ملے اور ایسے پختہ عزائم مانگتے ہیں جن سے تیری مغفرت حاصل ہو اور ہر گناہ سے حفاظت طلب کرتے ہیں اور ہر بھلائی میں حصہ مانگتے ہیں، جنت سے سرفرازی اور جہنم سے نجات مانگتے ہیں۔

ہر قسم کی تعریف اللہ کے لیے ہے اور درود و سلام نازل ہو محمد ﷺ اور آپ ﷺ کی تمام آل و اصحاب پر۔

خطبہ جمعہ مسجدِ حرام: فضیلۃ الشیخ فیصل الغزاوی حفظہ اللہ
2 رمضان 1444ھ بمطابق 24 مارچ 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلة الشیخ فیصل الغزاوی حفظه الله