کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟

muflis kon he?

پہلا خطبہ :

ہر طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنی واضح کتاب کی ہدایت سے عقلمندوں کی بصیرتوں کو روشن کیا اور تمام جہانوں کے لئے حق و ہدایات کے نشانات قائم کئے اور آخری نبی کی سنت سے ان کے پہلؤوں کو منور کیا۔

 میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ آپﷺ نے سالکین کے لئے راستے کے نشانات کو واضح کیا، مومنوں پر شفقت، الفت، مہربانی اور رحمت کرتے ہوئے امت کی خیر خواہی کی۔

 اے اللہ درود و سلام نازل فرما تو اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر، ان کی پاکباز ال پر، روشن اور مبارک صحابہ کرام پر تابعین پر اور قیامت تک اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں پر۔

 اما بعد !

 اللہ کے بندوں! اللہ کا تقوی اختیار کرو، کیونکہ تقوی بیداروں کا راشتہ ہے، عقلمندوں کا نج اور اہل بصیرت کا طریقہ ہے۔ اس میں لغزشوں سے سلامتی، جنت کا حصول اور جہنم سے نجات ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے :

وَمَن يُطع اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقَهِ فَأُوْلَبِكَ هُمُ الْفَابِرُونَ

النور -52

جو بھی اللہ تعالی کی ، اس کے رسول فرما برداری کریں ،خوف الہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں ، وہی نجات پانے والے ہیں۔

 مسلمانو! گہری نظر، پختہ فکر ، باشعور بصیرت اور درست دل ، یہ سب وہ وسائل ہیں جن سے عقل رکھنے والے آرزؤوں کو پانے ، امیدوں تک پہنچنے ، مقاصد کے حصول اور دنیا و آخرت کی زندگی میں سعادت حاصل کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ وہ اس کے لئے ہر راستہ سے کوشش کرتے ہیں، ہر ذریعہ اپناتے ہیں، تا کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کریں اور بے فائدہ جھاگ کو اس پانی سے الگ کریں جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور زمین میں ٹہر ارہتا ہے۔

تو آپ ان کے اندر مضبوط محرکات، شدت خواہش اور کمال طلب کے ساتھ تیز احساس، پاکیزہ پر ہیز گاری اور اس بات کا ڈر پائیں گے کہ وہ اپنی مضبوط عمارت میں کسی قسم کا دراڑ یا شگاف پائیں ۔ جو ان کے باقی رہنے والے اعمال صالحہ کے ذخیروں اور ذخیرہ شدہ اعمال کے خزانوں سے کچھ حصے کے نکلنے کا باعث ہو۔

جن کے جمع کرنے میں بڑے قیمتی دن لگے ہیں۔ کیونکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ کم کا جانازیادہ کے جانے کا اشاریہ ہے اور تھوڑے میں کو تاہی بڑے میں کو تاہی کا سبب ہے ۔ چھوٹے گناہوں کو کمتر سمجھنا بتدریج بڑے گناہوں میں پڑنا ہے۔ بطور خاص جب اس کے ساتھ معاملات کو ہلکا سمجھا جائے اور ان گناہوں کے اسباب کو برابر برتا جائے ۔ ان کی جڑوں کو باقی رکھا جائے اور تلافی مافات ،ٹوٹے کو جوڑنے اور ٹیڑھے کو سیدھا کرنے میں سستی پائی جائے۔

اس روشن رویہ میں صاحبان خرد کی مثال اس مالی سرمایہ کے مالک کی ہے جس نے اس سرمایہ کو جمع کرنے میں بڑی محنت اور کد و کاوش سے کام لیا۔ تاکہ وہ مصیبت کے وقت اس کا توشہ بنے اور شب و روز کی مصیبتوں اور گر دشوں سے وہ مال اسے بچائے۔ اس لیے وہ اس کی حفاظت ، اس کے فروغ اور اسے ثمر آور بنانے میں سرگرداں رہتا ہے۔ اسے برباد اور ضائع کرنے سے بچارہتا ہے۔

اللہ کے بندو! یہ بیدار گروہ باقی رہنے والے نیک اعمال کو جمع کرتا ہے تا کہ اس درست راستہ کو اختیار کرے۔ سیدھے راستے پر چلے۔ نبی اکرم ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ، ان کے طریقے کو تھامتے ہوئے جو کہ آپ ﷺ کی سنت ِصحیحہ میں پھیلا ہوا ہے اور آپ ﷺ کی حدیث سے ثابت ہے ۔ جو کچھ آپ سے مسند اور ثابت ہے اس میں یہ حدیث ہے ۔ جسے آپ ﷺ نے ایک منفر د سوالیہ شکل میں بیان کیا ہے۔ صحیح سنت میں نبی کریم ﷺ سے اس طرح کا خطاب وہ ہے ۔ کیونکہ یہ عقلوں کو متنبہ کرتا ہے ، ذہنوں کو تیز کرتا ہے ، فہم کو تقویت دیتا ہے اور کمال حفظ اور تمام ضبط کو تحریک دیتا ہے۔

امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں اور امام ترمذی  رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

أَتَدْرُونَ ما الْمُفْلِسُ؟ قالوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لا دِرْهَمَ له ولا مَتاعَ، فقالَ صلى الله عليه وسلم-: إِنَّ الْمُفْلِسَ مِن أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَومَ القِيامَةِ بِصَلَاةٍ، وصِيَامٍ، وزَكَاةٍ، ويَأْتِي قَدْ شَتَمَ هذا، وَقَذَفَ هذا، وأَكَلَ مَالَ هذا، وَسَفَكَ دَمَ هذا، وَضَرَبَ هذا؛ فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَناتِهِ، وهذا مِنْ حَسَناتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَناتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى ما عليه؛ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيهِ؛ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ

کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟ صحابہ نے جواب دیا : ہم میں سے مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی روپیہ پیسہ اور ساز و سامان نہ ہو ۔ اس پر آپ ﷺنے فرمایا: میری امت کا مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکوۃ جیسے اعمال لے کر آئے گا۔ تاہم اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ، کسی پر تہمت دھری ہوگی، کسی کا مال ناحق کھایا ہو اور کسی کا خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا۔ چنانچہ اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور اس پر واجب الا داء حقوق ابھی بھی باقی رہے تو ان لوگوں کے گناہ لے کر اس سے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔

اللہ کے بندو! یہ شاندار تصویر کشی، بلند بیان اور لطیف و باریک جائزہ ہے۔ جس کے مقاصد ایک ایسے جامع خطاب میں جمع ہو گئے ہیں جس کے حروف اور الفاظ کی تعداد تو کم ہیں لیکن اس کے معانی اور مقاصد بہت ہیں ۔ اس سے مراد جیسا کہ اہل علم نے بیان کیا ہے : یہی مفلس کی حقیقت ہے۔ جہاں تک اس کی بات ہے جس کے پاس مال نہیں ہے یا جس کے پاس مال کم ہے ، تو لوگ اسے مفلس کہتے ہیں ، لیکن حقیقت میں مفلس وہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ افلاس اس کی موت کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا یا شاید اس کی زندگی میں آنے والی خوشحالی سے ختم ہو جائے۔ حدیث میں مذکور مفلس اصل میں وہ ہے جو پوری طرح ہلاک ہونے والا اور بھیانک حد تک قلاش ہے۔ جس کی نیکیاں لے کر اس کے حق داروں کو دے دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ختم گئیں تو ان کے گناہوں کو لے کر اس پر ڈال دیا جائے گا، پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اس طرح اس کی ناکامی، ہلاکت اور افلاس طے ہے۔

اس لئے عقلمندوں سے یہ تعجب نہیں کہ وہ نبی کریم ﷺکے اس مبارک بیان سے یہ سمجھیں کہ انسان اس دنیا میں جن اعمال کو جمع کرتا ہے اور آخرت کے لئے ان کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔ تو وہ ناگہانی خطرے کے دہانے پر ہے ۔ وہ خطرہ ہے ان کا رفتہ رفتہ گھٹتے رہنا۔ یہاں تک کہ ان کا پھول مرجھا جاتا ہے۔ ان کے چشمے خشک ہو جاتے ہیں۔ ان کی ہریالی سوکھ جاتی ہے۔

اور ان کے ذخائر کا انبار ان بندوں کے حقوق کے بھاری بوجھ تلے ختم ہو جاتا ہے ۔ جن پر اس نے دنیاوی زندگی میں ناحق ظلم کیا اور ان پر ظالمانہ زیادتی کی، اس کے یہاں ظلم و ستم کا بازار گرم ہوا اور اس کے آنگن میں زیادتی کے گواہ جھنڈے بلند ہوئے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ افلاس کا رہا جو کہ حقیقی مفلسی ہے۔ اس سے چھٹکارا تبھی مل سکتا ہے جب وہ ان سکوں سے خرچ کرے جنہیں اس نے ضائع کر دیا اور اس جمع پونجی سے خرچ کرے جسے اس نے نکال کے تتر بتر کر دیا، اور اس کرنٹ اکاؤنٹ سے خرچ کرے جسے بند اور منجمد کر دیا گیا۔ اس جیسے مفلس کے لئے کہاں ممکن ہے کہ جسے اس نے کھو دیا ہے اسے واپس لے لے جبکہ نیکیوں کی کرنسی ختم ہو گئی، اعمال کا بیلنس خالی ہو گیا اور باقی رہنے والی نیکیوں کے ذخیروں کے کرنٹ اکاؤنٹ کا چشمہ سوکھ گیا۔

اللہ آپ پر رحم کرے! باقی رہنے والے نیک اعمال کے ذخیرے کی پاسداری کرو۔ اور زمین میں نا حق فساد مچانے اور لوگوں پر کسی طرح کا ظلم اور کسی طرح کی زیادتی کرنے سے بچو۔ چاہے اس کا محرک اور سبب کچھ بھی ہو۔ اسی سے سرمایوں کی حفاظت ہو گی اور ذخیروں کو محفوظ رکھا جائے گا ۔ تا کہ وہ سختی اور ملاقات قیامت کے دن کا توشہ بنیں۔ جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

فَلَمَّا أَنجَهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الحَقِّ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنفُسِكُم مَّتَعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنَبئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

یونس – 23

جب اللہ تعالی ان کو بچا لیتا ہے تو فورا ہی زمین میں ناحق شر کشی کرنے لگتے ہیں۔ اے لوگو! یہ تمہاری شر کشی تمہارے لئے وبال ہونے والی ہے۔ دنیاوی زندگی کے چند فائدے ہیں۔ پھر ہمارے پاس تم کو آنا ہے پھر ہم سب تمہارا کیا ہوا تم کو بتا دیں گے۔

اللہ تعالی مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کی ہدایت اور اپنے نبی صلی علیم کی سنت سے فائدہ پہنچائے ۔ میں اپنی یہ بات کہتا ہوں۔ اور اللہ رب العزت سے اپنے لئے آپ کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر طرح کے گناہوں سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ وہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ :

ہر طرح کی حمد اللہ کے لئے ہے جو کا ساز اور لائق حمد وثنا ہے۔ جو چاہے کر گزرتا ہے۔ میں اس پاک ذات کی حمد بیان کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں گواہی دیتا ہو کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ ( شافع مشفع) شفاعت کرنے والے اور آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور درست راستے والے ہیں۔

اے اللہ درود و سلام نازل ہو تیرے بندے اور رسول محمد پر اور ان کے ال و اصحاب پر جو فضل و تقوی اور بہترین اخلاق والے ہیں ۔

 اما بعد !

اے اللہ کے بندو! مفلس کی حقیقت کو واضح کرنے والی اس حدیث میں اور اللہ کے اس قول میں کوئی تعارض نہیں ہے :

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى

الانعام – 164

 اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔

 کیوں کہ مفلس کو جیسا کہ اہل علم نے بیان کیا ہے۔ اس کے کر توت، گناہ اور ظلم کی سزا دی گئی۔ قرض خواہوں کے حقوق اس پر لد گئے تو انہیں اس کی نیکیاں دے دی گئیں ۔ جب نیکیاں ختم ہو گئیں اور قرض خواہوں کے حقوق ابھی بھی باقی بچ گئے تو مخلوقات میں اللہ تعالی کی حکمت اور بندوں میں اس کے عدل کے تقاضے کے مطابق بدلے میں ان حقوق کے بقدر حقدار کے برے اعمال لے کر اس پر ڈال دیے گئے اور اس طرح اس کو جہنم کی سزا دی گئی ۔ پتا چلا کہ حقیقت میں سزا اس کے ظلم کی وجہ سے ہے اور ایسا نہیں کہ ظلم و زیادتی کے بغیر اس کو سزا دی گئی۔ اس طرح سے یہ آیت اور حدیث جمع ہو جاتی ہیں اور اس میں کوئی تعارض نہیں ہے۔

اللہ کا تقوی اختیار کرواے اللہ کے بندو! اور جان لو کہ سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے اور یہ سے افضل طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔ سب سے بری بات دین کے اندر نئی ایجادات ہیں۔ ہر نئی چیز بدعت ہے ۔ ہر بدعت گمراہی ہے ۔ اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ جہ ۔ چنانچہ اے مسلمانو! دنوں وحیوں کی ہدایت کو مضبوطی سے تھام لو اور ان دونوں نوروں پر عمل کرو۔ تاکہ دنیا اور آخرت میں تمہارا بہتر انجام ہو ۔

درود و سلام بھیجو سب سے بہتر مخلوق پر ، تمہارے رب عز و جل نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ اس کا فرمان ہے :

إِنَّ اللهَ وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيُّ يَتَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ تو جہانوں میں درود نازل فرما آل محمد ﷺ پر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم علیہ السلام  پر درود نازل فرمایا، بلا شبہ تو لائق تعریف اور صاحب عظمت ہے، اے اللہ تو جہانوں میں برکتیں نازل فرما محمد ﷺ اور آل محمد ﷺ پر جیسا کہ تو نے برکتیں نازل کیں ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر، بلاشبہ تولا ئق تعریف اور صاحب۔

اے اللہ ! تو راضی ہو جا چاروں خلفاء ابو بکر ، عمر ، عثمان اور علی سے اور تمام ال و صحابہ کرام اور تابعین سے اور ان سے جو اچھے طریقے سے قیامت تک ان کی پیروی کریں اور ان لوگوں سے ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا اپنے عفو، کرم ، سخاوت، احسان سے۔اے وہ اللہ جو سب سے بہتر در گزر کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔

اے اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا کر ۔ دین کے قلعہ کی حفاظت فرما۔ مسلمانوں کے دلوں کو جوڑ دے۔ ان کی صفوں کو متحد فرما۔ ان کے حکمرانوں کی اصلاح فرما۔ حق پر ان کے کلمہ کو جمع کر دے اے رب العالمین ! اپنے موحد بندوں کی مدد کر اور اس ملک اور بقیہ تمام مسلمانوں کے ملکوں کو پرامن اور پر سکون بنا ۔

اےاللہ ! ہمیں اپنے وطن میں امن سے نواز۔ ہمارے سربراہوں اور حکمرانوں کی اصلاح فرما ۔ ہمارے سر براہ اور حکمراں کی حق سے تائید کر اور انہیں نیک مشیروں سے نواز اور اے دعا کے سنے والے انہیں تو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چلنے کی توفیق دے ۔

اے اللہ! انہیں اور ان کے ولی عہد کو اس کی توفیق دے جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہو اور جس میں بندوں اور ملک کا مفاد ہو۔ اے وہ اللہ جس کی طرف قیامت کے دن سب لوٹنے والے ہیں ۔

اے اللہ ! ہمارے دین کی اصلاح فرما جس میں ہمارے معاملے کی حفاظت ہے اور ہماری دنیا کی اصلاح فرما جس میں ہماری زندگی ہے اور ہماری آخرت کی اصلاح فرما جس کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ اور زندگی کو ہمارے لئے ہر بھلائی میں اضافے کا باعث بنا اور موت کو ہر شر سے نجات کا ذریعہ بنا۔ اے اللہ! تمام معاملات میں ہمارا انجام درست کر ۔ اے اللہ ! ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا۔

اے اللہ! ہم تیری نعمت کے ختم ہونے تیری عافیت کے بدلنے ،اچانک آنے والے تیرے عذاب اور تیری ہر نا راضگی سے پناہ چاہتے ہیں۔

اے اللہ! ہمیں اور دے اور کم نہ کر۔ نواز اور محروم نہ کر۔ عزت دے ذلیل نہ کر۔ ہمیں ترجیح دے اور ہم پر کسی کو ترجیح نہ دے ۔ ہمیں راضی کر اور ہم سے راضی ہو جا۔

اے اللہ! تو ہمارے لئے کافی ہو جا تو اپنے اور ہمارے دشمنوں کے لئے جس طرح تو چاہے اے ربالعالمین ۔

 اے اللہ! اہم تجھے تیرے اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔

اے اللہ! ہمارے مریضوں کو شفا دے۔ ہمارے گزر چکے لوگوں پر رحم فرما، ہماری ان آرزؤوں کو جو تیری مرضی کے مطابق ہوں پورا فرما ۔ باقی رہنے والے نیک اعمال پر ہمارے اعمال کا خاتمہ کر۔

اے اللہ ! ہمارے دلوں کو تقوی عطا کر ۔ ان کا تزکیہ فرما ۔ تو ہی سب سے بہتر تزکیہ کرنے والا ہے ۔ تو ہی ان کا ولی اور مولی ۔

 ربَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ

الاعراف – 23

اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

رَبَّنَا وَاتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

البقرۃ – 201

 اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھی نیکی دے اور آخرت میں کبھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے ۔

اللهم صل وسلم على عبدك ورسولك محمد، وعلى آله وصحبه أجمعين
والحمد لله رب العالمين

اے اللہ درود و سلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمدﷺ اور آپﷺ کی تمام آل واصحاب پر اور ہر قسم کی تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

خطبہ جمعہ مسجدِ حرام : فضیلۃ الشیخ اُسامہ خیاط حفظہ اللہ
11 شعبان 1444ھ بمطابق 3 مارچ 2023

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اُسامہ خیاط حفظہ اللہ

مسجد الحرام کے عظیم المرتبت خطباء میں ایک نام ڈاکٹر اسامہ خیاط کا ہے، آپ 12 فروری 1956ء کو پیدا ہوئے ۔ ام القریٰ یونیورسٹی مکہ المکرمہ سے پی ایچ ڈی کیا اور پھر یہیں تدریس بلکہ کتاب و سنت ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی رہے ۔ آپ ایک بلند پایہ مصنف بھی ہیں اور رابطہ عالم اسلامی کے بنیادی رکن بھی ہیں۔