قرآنی تعویذات کیوں منع ہیں ؟
قرآنی تعویذات منع ہونے کی وجوہات میں سے ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ تعویذ کے عمل کے دوران قرآن مجید کی تحریف کی جاتی ہے۔ وہ اس طرح کہ قرآن مجید کےالفاظ کیلئے اعداد یا نمبرز کیے جاتے ہیں اور اعداد مقرر کرنے کے بعدایک مجوزہ عدد قرآنی لفظ کے متبادل کے طور پر لکھ دیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر بسم اللہ کو ہندسوں میں تبدیل کرکے 786 لکھاجاتا ہے ۔ کیونکہ علم الاعداد میں حروف ابجد کے اعتبار سے 786 کوبسم اللہ الرحمن الرحیم کا عدد قرار دیتے ہیں ، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(ب: 2 ۔ س: 60 ۔ م: 40 ۔ الف: 1 ۔ل: 30 ۔ ل : 30 ۔ھ: 5 ۔الف: 1 ۔ل: 30 ۔ر: 200 ۔ح: 8 ۔م: 40 ۔ن: 50 ۔الف: 1 ۔ل: 30 ۔ر: 200 ۔ح: 8۔ ی: 10 ۔م: 40)
چنانچہ اس حساب سے بسم اللہ کا 786 مخفف نکالتے ہیں۔ پھر اس ٹوٹل کوبسم اللہ کا خلاصہ کہتے ہیں ۔ اس طرح یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ہم قرآن پاک کی بے حرمتی سے بچ گئے ۔ یعنی کاغذ پر اللہ کا نام لکھا ہوا ہوتو اسے ادب سے رکھنا چاہیے لیکن 786 لکھا ہوتو اس قدر احتیاط کی ضرورت نہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے خیال میں 786 بسم اللہ کا بدل نہیں ہے۔اسی لیے اس کا ا حترام کرنا ضروری نہیں ورنہ اگر عدد بھی بسم اللہ ہے تو اس کا احترام بھی اسی طرح ضروری ہے۔
786 کی حقیقت
اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو786 بسم اللہ کا عدد نہیں بنتا ۔بلکہ ان کے مجوزہ اعداد کے مطابق بسم اللہ کا درست عدد 787 نکلتا ہے ۔مثال کے طور بسم اللہ الرحمن الرحیم کے اعداد 786 نکالتے ہیں لیکن اس میں رحمان کی میم میں کھڑی زبر کا الف اپنی جہالت کی وجہ سے شمار نہیں کرتے کہ انہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ الف بھی ہے۔ اوراگراس الف کو شمار کریں تو انہی کے قاعدہ قانون کے مطابق یہ عدد787 بنتا ہے نہ کہ 786۔ حقیقت میں 786 ہندوؤں کے ایک بت ’’ ہری کرشنا ‘‘کے نام کا مخفف ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:قرآنی تعویذ اور شیطانی تعویذ
اہانت وتحریف ِقرآن
مثال کے طور پر آپ نے 786 لکھ دیا تو کسی کو کیا معلوم کہ آپ نے اللہ کا نام لکھا ہے ؟یا ہندوؤں کے ایک بت سے آپ نے مدد مانگی ہے ؟لہذا اعداد کے نمبر دیکھ کر ان کو شمار کرنا ایک تو قرآن کی سیدھی سیدھی تحریف ہے۔دوسری بات اس عمل سے قرآن پاک کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔
مثال کے طور پر لفظ مولوی کا نمبر 92 بنتا ہے تو اب آپ کسی مولوی کو مولوی صاحب کہنے کے بجائے ’’ 92 صاحب ادھرآ ئیں ‘‘ کہہ دیں تو وہ اس طرح پکارنے کوتوہین محسوس کرے گا تو جب ایک انسان اپنے سامنے یہ عدد اپنے لیے یا کسی اور کے لئے استعمال کرنے میں اپنی بےعزتی اور توہین محسوس کرتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَاللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ
(سورۃ الحج آیت : 32)
ترجمہ :اور جو کوئی اللہ کے شعائر (نشانیوں) کی تعظیم کرتا ہے، تو یہ کام دلوں کی پرہیزگاری کی دلیل ہے۔
یعنی جس شخص کے دل میں اللہ کا تقویٰ اور اللہ کی محبت جاگزیں ہو وہ ان چیزوں کا ضرورادب کرے گا جو اللہ کے نام سے منسوب ہیں یا جنہیں شعائر اللہ کہا جاتا ہے۔ ان چیزوں کی توہین یا بے حرمتی، بے ادبی وہی شخص کرسکتا ہے جس کے دل میں نہ اللہ کا خوف ہو اور نہ اس کی محبت ہو۔ واضح رہے کہ اللہ کے نام منسوب کردہ اشیاء کی تعظیم یاادب کرنا عین توحید ہے۔ شرک یہ ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں کے نام منسوب کردہ چیزوں کا ایسے ہی ادب و احترام کیا جائے جیسا کہ اللہ کی طرف منسوب اشیاء کا کیا جاتا ہے۔
لہذا ہمیں تو اللہ تعالی کے شعائر کی تعظیم کرنی چاہیے لیکن یہاں تو قرآن مجید کو اعداد میں تبدیل کیا جا رہا ہے اور پھر تبدیل کرنے کے بعد نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہ اعداد ہندؤوں کے بتوں کے نام سے بھی موافق آرہے ہیں۔ جب یہ ایک لفظ کا متعین شدہ عدد ہے اور کسی کے نام پر بھی وہ لفظ موافق آسکتا ہے تو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ بسم اللہ ہے یا کچھ اور؟
غیر شرعی عمل
علم الاعداد (numerology) کہ جسے علم الارقام، علم الحروف بھی کہہ دیتے ہیں، کی کسی بھی اعتبار سے دینی یا سائنسی حیثیت نہیں ہے۔مؤرخین کے مطابق علم الاعداد کو ایجاد کرنے والے بابلی (Babylonians)ے کہ جنہوں نے جادو ٹونے کی غرض سے اس علم کو ایجاد کیا تھا۔ یہ ایک غیر شرعی عمل ہے ۔اس سے قرآن کی توہین کا پہلو نکلتا ہے ۔ ایک لحاظ سے قرآن میں تحریف یعنی تبدیلی ہوتی ہے اور پھر تبدیل کردہ عدد کی بابت یہ دعوی کیا جاتا ہےکہ یہ قرآن ہے حالانکہ حقیقت میں وہ قرآن نہیں ہے ۔
اعراب کی تحریف
اعداد نکالنے کے عمل میں کتاب اللہ میں تحریف کی دوسری صورت یہ پائی جاتی ہے کہ قرآن پاک جو اعراب یعنی زیر،زبر،پیش سے بھرا ہوا ہے۔ اعداد نکالنے کے عمل میں ان اعراب کو بھی حذف کر دیا جاتا ہے ، حالانکہ ہم کسی ایک حرف کی اعراب میں ہیرپھیر نہیں کر سکتے۔ لیکن اعداد نکالنے کے عمل میں پوری آیت اور عبارت کو اعداد میں تبدیل کردیا جاتا ہے ۔لہذا تعویذ کے نام پر اعداد نکالنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ بلکہ یہ قران میں ایک لحاظ سے تبدیلی ہے۔ اللہ تعالی کے کلام کی ایک توہین ہے۔ قرآن میں تحریف اورتبدیلی اوراس کی توہین ایک بہت خطرناک عمل ہےاور بہت بڑا گناہ ہے ۔اللہ تعالی معاف فرمائےیہ چیز انسان کو کفر کی طرف لے جاتی ہے۔
قرآنی الفاظ کو خانوں میں تقسیم کرنا
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اعداد نکالنے کے عمل کے دوران قرآن کے حروف اورالفاظ کو کاٹا جا تا ہے ،اور پھرخانے بناکران کاٹے ہوئے الفاظ کوان خانوں میں تقسیم کرکے لکھا جاتا ہے ۔ایک باکس میں ایک لفظ لکھیں گے اور دوسرے باکس میں دوسرا لفظ لکھیں گے ۔اور آیت کی ترتیب اوپر نیچے کر کے الگ الگ باکس میں لکھیں گے جیسے مثال کے طور پرایک آدمی محبت کے تعویذ کے لیے یہ آیت لکھے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ
(البقرۃ آیت نمبر:165)
ترجمہ :بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں۔
اس میں لوگوں نے پہلے باکس میں’’ يُحِبُّونَهُمْ ‘‘لکھا ہے اس کے سامنے دوسرے باکس میں ’’ كَحُبِّ اللَّهِ ‘‘لکھا ۔ یعنی اللہ کا نام الگ باکس میں لکھا پھر
’’ وَالَّذِينَ ‘‘ الگ خانے میں لکھا پھر’’ آمَنُوا‘‘ کو بالکل نیچے لیکرآئے ۔ پھر دوسری لائن میں تو آیت کو بلکل الٹ دیا ہے’’ يُحِبُّونَهُمْ ‘‘سے پہلے’’ كَحُبِّ اللَّهِ ‘‘ لکھ دیا ہے یعنی سارے حروف اوپر نیچے ،آگے پیچھے کر کے غلط طریقے سے لکھ دئیے ہیں ۔
اس کی مثال یُوں سمجھئے
یحبونھم | کحب | اللہ | والذین |
کحب | اللہ | والذین | اٰمنوا |
اللہ | والذین | اٰمنوا | اشد حبا |
والذین | اٰمنو | اشد حبا | للہِ |
حروف اور الفاظ کی بے ترتیبی
قرآنی تعویذات ممنوع ہونے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اعداد نکالنے کے عمل کے دوران قرآن کے حروف اور الفاظ کی ترتیب الٹ پلٹ کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن کے حروف اورالفاظ کی جو ترتیب ہے اس کا خیال رکھنا اتنالازمی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ پرجب قرآن نازل ہوتا تھا تو آپ فرماتے تھے کہ اس آیت کو اس آیت کے بعد رکھو اس سورت کو اس سورت کے بعد رکھو۔ لہذا قرآن کا ایک لفظ جو بعد میں ہے اس کو کیسے پہلے لے کر آسکتے ہیں! اور کیسےخانوں میں اس کو کاٹ رہے ہیں تو یہ قرآن کی توہین اورکفر نہیں تو اورکیا ہے ؟
اصولِ تجوید سے انحراف
قرآن کریم کی تفہیم وتحفیظ کے لیے مختلف علوم وضع کئے گئے جن کو علوم القرآن کہتے ہیں انہی علوم میں سے ایک علم وقف و ابتداء ہے ۔ جو کہ ایک معززفن ہےاوراجماع صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثابت ہے۔اس علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ رسولِ نبی کریم ﷺ خود صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو وقف و ابتداء کی تعلیم دیتے تھے جیسا کہ حدیث ابن ِعمر رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوتا ہے۔
سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ ابن عُمَرَ يَقُولُ: لَقَدْ عِشْنَا بُرْهَةً مِنْ دَهْرِنَا وَإِنَّ أَحَدَنَا لَيُؤْتَى الْإِيمَانَ قَبْلَ الْقُرْآنِ وَتَنْزِلُ السُّورَةُ على محمد فَیتَعَلَّمُ حَلَالَهَا وَحَرَامَهَا وَمَا يَنْبَغِي أَنْ يُوقَفَ عِنْدَهُ فِیهَا كَمَا تَعَلَّمُونَ أَنْتُمُ الْقُرْآنَ ثُمَّ قال:لقد رایت الْيَوْمَ رِجَالًا يُؤْتَى أَحَدُهُمُ الْقُرْآنَ فَيَقْرَأُ مَا بَيْنَ فَاتِحَتِهِ إِلَى خَاتِمَتِهِ مَا يَدْرِي مَا آمرُهُ وَلَا زَاجِرُهُ وَلَا مَا يَنْبَغِي أَنْ يُوقَفَ عِنْدَهُ مِنْهُ 1
ابن ِعمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم اپنے زمانے میں ایک طویل مدت تک اسی طرح زندگی گزارتے رہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو قرآن حاصل کرنے سے پہلے ایمان دیا جاتااور نبی ﷺ پر کوئی سورت نازل ہوتی تو ہم سب آپ ﷺسے اس کے حلال وحرام کی تعلیم حاصل کرتے اور ان مقامات کو معلوم کرتے کہ جہاں وقف کرنا چاہیے ۔ جس طرح آج کل تم قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہو ۔بے شک آج ہم بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ سورۃالفاتحہ سے سورۃالناس تک قرآن پڑھ لیتے ہیں مگرانہیں اس چیز کا ادراک نہیں ہوتا کہ قرآن کا امر کیا ہے اور زجر کیاہے اور نہ ہی معلوم کرتے ہیں کہ قرآن پڑھتے ہوئے کون کون سے مقامات پروقف کرنا چاہیے ۔
ابو جعفر النحاس رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
((فَهَذَا الْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى أَنَّهُمْ كَانُوا يَتَعَلَّمُونَ الْأَوْقَافَ كَمَا يَتَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ))2
’’یہ حدیث اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وقوف کی تعلیم اسی طرح حاصل کرتے تھے جیسے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔‘‘
علم وقف اور ابتداء کی اہمیت
علم تجوید سے قرآن مجید کی صحت ِ ادامعلوم ہوتی ہے تو علم وقف سے اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔اسی وجہ سے ابوحاتم السجستانی رحمہ اللہ کا قول ہے :
من لم يعرف الوقف لم يعرف القرآن 3
’’ جو شخص وقوف کا علم نہیں رکھتا وہ قرآن کو نہیں پہچانتا‘‘۔
علم تجوید و قراء ات کے ساتھ وقف کااتنا گہرا تعلق ہے جیسے چولی دامن کا ساتھ۔ علم وقف کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے بعض علماء کاقول ہے کہ جب تک قاری کو وقف و ابتداء کی معرفت حاصل نہ ہوجائے اُسے سند نہ دی جائے، کیونکہ قاری کے لیے یہ بات انتہائی معیوب ہے کہ ترتیل کے جزء پرتو عمل کرے اور دوسرے سے غفلت برتے۔ چنانچہ ابو بکر محمد بن القاسم بن بشّار الانباری کہتے ہیں :
(( من تمام معرفة القرآن معرفة الوقف والابتداء ،إذ لا يتأتى لأحد معرفة معاني القرآن إلَّا بمعرفة الفواصل))4
یعنی پورے قرآن کی معرفت کا دارو مدار علم وقف وابتداء پر موقوف ہے کوئی شخص اس وقت تک معانی قرآن کی معرفت حاصل نہیں کر سکتا جب تک اسے وقف کے مواقع کا علم نہ ہو۔
درج بالا حدیث اوراقوال أئمہ سےمعلوم ہوا کہ وقف اورابتداء اصول تجوید کے اہم ارکان ہیں اور قرآن میں وقف اورابتدا کی اتنی اہمیت ہے کہ ایسی آیت پر وقف کرنا جائز نہیں ہے جس کا معنی صحیح نہ بنتا ہو بجائے اس کے کہ آپ لفظ کو ہی بالکل کاٹ کے توڑکے باکس میں غلط طریقے سے آگے پیچھے کر کے لکھیں۔ تو یہ قرآن کے ساتھ قرآن کی بے حرمتی اورقرآن کی تحریف ہے ۔ اور یہ کفر نہیں تو اس سے بڑا اور کونسا کفر ہے ۔تو اس وجہ سے یہ چیز بالکل بھی جائز نہیں ہے ۔
قرآن سے دُور کرنے کاذریعہ
قرآنی تعویذات ممنوع اورنا جائز ہونے کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگوں کودعا ، اذکارِ مسنونہ اور تلاوتِ قرآن سے دور کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔جبکہ قرآن مجید کو خود اللہ تعالٰی نے خود شفا ء قرار دیا ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
((يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ))
(سورۃ یونس آیت نمبر: 57)
لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آچکی۔ یہ دلوں کے امراض کی شفا اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے ۔
ایک اورمقام پراللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
((قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ))
(سورۃ فصلت آیت : 44)
’’آپ کہہ دیجیے کہ یہ قرآن باعث ہدایت و شفا ہے ان لوگوں کے لئے جو اہل ایمان ہیں‘‘۔
ایک اورمقام پراللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
((وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا))
(سورۃ الإسراء آیت : 82)
اور ہم قرآن میں جو کچھ نازل کرتے ہیں وہ مومنوں کے لئے تو شفا اوررحمت ہے مگر ظالموں کے خسارہ میں ہی اضافہ کرتا ہے۔
امام ابن جوزی رحمہ الله کا قول
امام ابن جوزی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ یہاں ’’مِن‘‘ بیانِ جنس کے لئے ہے لہٰذا تمام قرآن شفا ہے اور اس شفا کے بارے میں تین اقوال ہیں: ایک تو یہ ہے کہ اپنے اندر ہدایت کی وجہ سے گمراہی سے شفا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ اپنے اندربرکت کی وجہ سے بیماریوں سے شفا ہے۔ تیسرا یہ کہ وہ فرائض و احکام کے بارے میں شفا ہے۔5
امام ابن قیم رحمہ الله کا قول
امام ابن قیم رحمہ الله فرماتے ہیں کہ’’ اللہ نے آسمان سے کوئی ایسی شفا نازل نہیں کی جو بیماری کو دور کرنے میں قرآنِ كریم سے زیادہ نفع مند اور عظیم تراورکامیاب ہو‘‘۔ 6
سورتِ فاتحہ میں عقلی و نفسیاتی شفاء
اوپر جو کچھ بیان ہوا وہ سورہ فاتحہ کی جسمانی امراض میں تاثیرکے بابت تھا، جبکہ عقلی اور نفسیاتی شفا کے معاملے میں جناب امام ابو داؤدروایت کرتے ہیں :
عن عمِّهِ ، أنَّهُ مرَّ بقومٍ فأتوهُ ، فقالوا : إنَّكَ جِئتَ من عندِ هذا الرَّجلِ بخيرٍ، فارقِ لَنا هذا الرَّجلَ فأتوهُ برجلٍ مَعتوهٍ في القيودِ، فرقاهُ بأمِّ القرآنِ ثلاثةَ أيَّامٍ غدوةً وعشيَّةً ، كلَّما خَتمَها جمعَ بزاقَهُ،ثمَّ تفلَ فَكَأنَّما أُنْشِطَ من عقالٍ
(صحيح أبي داود: 3420)
خارجہ بن صلت کے چچا علاقہ بن صحار تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا گزر ایک قوم کے پاس سے ہوا تو وہ لوگ ان کے پاس آئے اور کہا کہ آپ (یعنی نبی اکرم ﷺ) کے پاس سے بھلائی لے کر آئے ہیں، تو ہمارے اس آدمی کو ذرا جھاڑ پھونک کردیں، پھر وہ لوگ رسیوں میں بندھے ہوئے ایک پاگل کو لے کر آئے، تو انہوں نے اس پر تین دن تک صبح و شام سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا، جب وہ اسے ختم کرتے تو (منہ میں) تھوک جمع کرتے پھر تھو تھو کرتے، پھر وہ شخص ایسا ہو گیا، گویا اس کی گرہیں کھل گئیں۔
سورہ فاتحہ تریاق ہے
اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ میں شفا ہےچنانچہ صحیح بخاری کے ایک واقعہ مذکور ہے کہ :
كُنَّا في مَسِيرٍ لنا فَنَزَلْنا، فَجاءَتْ جارِيَةٌ، فقالَتْ: إنَّ سَيِّدَ الحَيِّ سَلِيمٌ، وإنَّ نَفَرَنا غَيْبٌ، فَهلْ مِنكُم راقٍ؟ فَقامَ معها رَجُلٌ ما كُنَّا نَأْبُنُهُ برُقْيَةٍ، فَرَقاهُ فَبَرَأَ، فأمَرَ له بثَلاثِينَ شاةً، وسَقانا لَبَنًا، فَلَمَّا رَجَعَ قُلْنا له: أكُنْتَ تُحْسِنُ رُقْيَةً – أوْ كُنْتَ تَرْقِي؟ – قالَ: لا، ما رَقَيْتُ إلَّا بأُمِّ الكِتابِ، قُلْنا: لا تُحْدِثُوا شيئًا حتَّى نَأْتِيَ – أوْ نَسْأَلَ – النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَلَمَّا قَدِمْنا المَدِينَةَ ذَكَرْناهُ للنبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فقالَ: وما كانَ يُدْرِيهِ أنَّها رُقْيَةٌ؟ اقْسِمُوا واضْرِبُوا لي بسَهْمٍ
(صحیح البخاری،5007)
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)س بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے ۔ہم نے ایک قبیلہ کے نزدیک پڑاؤ کیا ۔ پھر ایک لونڈی آئی اور کہا کہ قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں ، کیا تم میں کوئی بچھو کا جھاڑ پھونک کرنے والا ہے ؟ ایک صحابی ( خود ابوسعید ) اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے ، ہم کو معلوم تھا کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں جانتے لیکن انہوں نے قبیلہ کے سردارپر دم کیا تووہ اس سے صحت مند ہوگیا ۔ اس نے اس کے شکرانے میں تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہمیں دودھ پلایا ۔ جب وہ جھاڑ پھونک کر کے واپس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کیا تم واقعی کوئی دم جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں! میں نے تو صرف سورہ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کر دیا تھا ۔ ہم نے کہا کہ اچھا جب تک ہم رسول کریم ﷺ سے اس کے متعلق نہ پوچھ لیں ان بکریوں کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو ۔ چنانچہ ہم نے مدینہ پہنچ کرنبی کریم ﷺ سے ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ تریاق ہے ؟ ۔جاؤ یہ مال حلال ہے اسے تقسیم کر لو اور اس میں میرا بھی حصہ رکھنا۔
ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سورہ فاتحہ ہر بیماری کے لئے شفاءہے7
اب جس بندے کو آپ نے بتا دیا کہ یہ قرآنی تعویذباندھ لو تو وہ کہے گا کہ اب مجھے سورہ فاتحہ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ؟
اسی طرح بسم اللہ پڑھنے کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جب انہوں نے آپ ﷺسے اپنے بدن میں ایک درد کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا:
ضَعْ يَدَكَ علَى الَّذي تَأَلَّمَ مِن جَسَدِكَ، وَقُلْ: باسْمِ اللهِ، ثَلَاثًا، وَقُلْ سَبْعَ مَرَّاتٍ: أَعُوذُ باللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِن شَرِّ ما أَجِدُ وَأُحَاذِرُ.
( صحيح مسلم: 2202)
یعنی ’’تم اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور تین بار (بسم اللہ) کہو، اس کے بعد سات بار یہ کہو کہ’’ أَعُوذُ بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِر‘‘
’’میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے جس کو پاتا ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں“۔
تو نبی ﷺ نےیہ دعا اور یہ طریقہ دم کرنے کا بتایا ہے ۔ اب جس شخص کو آپ نے تعویذ باندھ کے دے دیا تو وہ کہے گا کہ مجھے اس دعا کو یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو ایک تو آپ نے اللہ کے نبی ﷺ کی سنت کو چھوڑ دیا ۔ یعنی جس طریقے سے شفا حاصل ہونی تھی وہ طریقہ ہی آپ نے اختیار نہیں کیا اور دوسرا غیر شرعی طریقہ اختیار کرکے اس کو باندھ لیا تو یہ تعویذ اس وجہ سےبھی یہ جائز نہیں ہے۔
علماء کرام کے فتاوی
اس مسئلہ کے بارے میں علماء کے بھی فتاوی بھی موجود ہیں جیسے سعودیہ کی لجنہ دائمہ کمیٹی ہے ان کا متفقہ فتویٰ ہے کہ قرآنی تعویذباندھنا بھی جائز نہیں ہے ۔اس کی وجوہات انہوں نے یہی ذکر کی ہیں کہ اللہ کے نبی نے تعویذات میں فرق نہیں کیا جیسا کہ دم میں فرق کر کے بتایا کہ “جس دم میں شرک نہ ہو وہ جائز ہے” لیکن تعویذ کو آپ ﷺ عمومی طور پر منع کیا ہے ۔اور اس طرح کفریہ تعویذ اور قرآنی تعویذ میں کوئی خلط ملط نہ ہو جائے۔ یہ بھی انہوں نے وجہ ذکر کی ہے ۔
عن إبراهيم قال: “كانوا يكرهون التمائم كلها، من القرآن وغير القرآن”8
اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا یہ قول بھی ہے وہ کہتے ہیں کہ سلف صالحین تمام قسم کے تعویذوں کو مکروہ سمجھتے تھے اگرچہ وہ قرآن سے ہوں یا غیر قرآن سے ہوں۔
ان دلائل کی روشنی میں یہ بات حتمی ہے کہ قرآن مجید کے بھی تعویذ لکھ کر باندھنا یا لٹکانا، گھروں پر یادروازوں پریا گاڑیوں میں یا اپنے ہاتھ میں بازو میں کڑے کی شکل میں یا چھلے کی شکل میں، انگوٹھی پے لوگ لکھوا لیتے ہیں یہ کسی طور پر بھی شریعت میں جائز نہیں ہے۔جو چیز جائز ہےوہ وہی طریقہ ہے جو آپ ﷺ نے شرعی دم کی شکل میں سکھایا ہے ۔بہرحال تمیمہ اور تعویذ کسی بھی صورت میں ہو اس کا لٹکانا اس کا پہنناشرعاً جائز نہیں ہے۔
قرآن سے شفاء كیسے حاصل كریں
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے شفا رکھی ہے، اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے۔ لیکن قرآن کریم کا اندازِشفا اس کے پڑھنے اور سننے میں ہے۔ اس کی تاثیر اس پر عمل کرنے میں ہے۔لہٰذا اس کو پڑھیں ، اس کی تلاوت کریں ، اورپڑھ کرخود اپنے اوپر دم کریں، مریض پر دم کریں، اس کا ثبوت خود اللہ کے نبی ﷺ سے ملتا ہے۔
لوگ اس کی ایک دنیاوی مثال بھی دیتے ہیں کہ شہد میں اللہ رب العالمین نے شفا رکھی ہے تو کیا شہد کی بوتل لٹکانے سے شفا مل سکتی ! نہیں مل سکتی تو لازم ہے کہ شہدپیا جائے، استعمال کیا جائے تو شہد سے شفا مل سکتی ہے۔ تو اللہ رب العالمین نے جس چیز میں شفا رکھی ہے اس کو اسی انداز سے اپنا نے میں ہی انسان کے لئے اس میں خیر وشفاہوگی ۔ لیکن شیطان انسان کے دل میں ایسے افکار و نظریات ڈال دیتا ہے جس سے وہ اس کے اصل فائدے سے بھی دور ہو جاتا ہے بلکہ اخروی نقصان کا بھی حامل ٹھہرتا ہے۔ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید کی جو تاثیر رکھی ہے اس کے ساتھ ایسے امور کرنا ،ایسے اعمال بجا لانا جو قرآن کریم کے لیے انتہائی نامُناسب ہیں۔یہ اللہ رب العالمین کے کلام کی توہین ہے اور ہو سکتا ہے یہ عمل کرکے انسان کفر تک چلا جائے ۔ اور یہی شیطان کا مقصد ہے کہ قرآن مجید کے تعلق سے اللہ کے بارے میں پیارے رسول ﷺ کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں ایسے افکار و نظریات ڈال دے کہ جس سے ہم کسی بھی طریقے سے اللہ کی توہین کر بیٹھیں ۔ رسول کریم ﷺ کی توہین کر بیٹھیں یا اللہ کے کلام قرآن پاک کی توہین کر بیٹھیں، تو انسان کا دنیاوآخرت سے ایمان بھی جائے گا، اس کے اعمال بھی برباد ہوجائیں گے اور ہوسکتا ہے ان بدعات و شرکیات کے ارتکاب کے سبب وہ خاتمہ بالخیر سے بھی محروم ہوجائے۔
واللہ المستعان
- (المستدرک علی الصحیحین کتاب الإیمان،کیف یتعلم القرآن )
- ( الإتقان في علوم القرآن – ص282 )
- (القول المفيد للشيخ محمد مكي نصر، ص: 195 المكتبة العلمية لاھور)
- (منار الهدى في بيان الوقف والابتدا :1/ 13)
- (زاد المسیرلا بن الجوزی: 5؍ 79)
- (الجواب الکافی لاابن قیم:1؍ 3)
- ( سنن دارمی :430 )
- ( شرح فتح المجيد للغنيمان -ج 37 ،ص: 16)