ایک کتابچہ بنام’’کفن کی واپسی‘‘مؤلفہ جناب الیاس قادری (امیردعوت اسلامی) پڑھنے کا موقعہ ملا،جس میں ماہ رجب کے فضائل اور اس کے مخصوص اعمال کے متعلق احادیث ذکرکی گئیں ہیں، حقیقت یہ ہے کہ رسالہ میں تحریر کردہ تمام احادیث شدیدضعیف یاپھر موضوع و من گھڑت ہیں، عبادات اور دیگر اعمالِ صالحہ کی طرف عوام الناس کی ترغیب اچھی بات ہے لیکن اس کیلئے ضعیف وموضوع روایات کا سہارالینا انتہائی غلط بلکہ مجرمانہ فعل ہے، مؤلف کی دیگرکتب بھی اس کی طرح اسی باطل روش کی آئینہ دار ہیں، مذکورہ کتابچے کے متعلق کچھ گذارشات پیشِ خدمت ہیں۔
موصوف لکھتے ہیں :
’’رجب المرجب کے قدر دانو! تعلیم و تعلم اور کسب حلال میں رکاوٹ نہ ہو ،ماں باپ بھی منع نہ کریں تو جلدی جلدی اور بہت جلدی مسلسل تین ماہ کے یا جس سے جتنے بن پڑیں اتنے روزوں کیلئے کمربستہ ہوجائے۔‘‘ (کفن کی واپسی :صفحہ :2)
تبصرہ:
اس عبارت میں موصوف نے بہت زیادہ غلو سے کام لیا ہے، مسلسل تین ماہ کے روزے رکھنے کی ترغیب دلائی ہے ،جو کئی وجوہ سے غلط ہے :
اولاً: نبی ﷺ نے روزوں میں وصال کرنے سےمنع فرمایا۔(یعنی بغیر فاصلہ دئے روزانہ ،پےدرپہ روزے رکھنا)
(صحیح بخاری :1961 ،صحیح مسلم :1102 )
بلکہ نبی مکرّمﷺنے بھی کبھی تین مہینے کے روزے مسلسل نہیں رکھے، دلیل یہ ہے کہ سیدہ ام سلمۃ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں : کہ نبی ﷺ نے کبھی کسی پورے مہینے کے روزے نہیں رکھے ،البتہ رمضان کے ساتھ شعبان کو ملا لیا کرتے تھے ۔ (سنن ابوداؤد :2336 ،سنن نسائی: 2353، مسند احمد :26653 ،سنن دارمی : 1780 ،سنن الکبری :7966 )
اسی طرح سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی ﷺنے جب سے ہجرت کی آپ نے سوائے رمضان کے کسی مہینے کے مکمل روزے نہیں رکھے ۔ (سنن نسائی :2183 ،مسند احمد :1998 ،شرح السنۃ :1809)
خلاصہ یہ ہےکہ نبی مکرّم ﷺکا اپنا معمول بھی یہی تھا کہ آپ نے کبھی تین مہینے کے اکٹھے روزے نہیں رکھے ۔
ثانیاً:نبی مکرّمﷺنے تو شعبان کے بھی آخری ایام کے روزے رکھنے سےمنع فرمایا ہے یعنی شعبان و رمضان دو مہینوں کے لگاتارروزے رکھنے سے منع فرمایاہے۔
(سنن ابو داؤد :2337 ،ترمذی :738 ،مصنف عبدالرزق :7316،7325،مصنف ابن ابی شیبۃ :9026)
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان کے روزوں میں کسی قسم کی سستی یا ضعف(کمزوری) نہ آجائے۔
ثالثاً:اس کی کوئی صحیح صریح دلیل بھی نہیں ملتی ۔اور عبادات کی تعیین بغیر کسی صحیح صریح روایت کے کرنا، بالخصوص اس وقت کہ جب وہ دیگر نصوص کے بھی خلاف ہو، یہ بہت بڑی جرأت ہوگی ،اسے نیکی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ چیز مستقبل میں بدعت کا روپ دھار سکتی ہے۔
ماہِ رجب کی فضيلت کے حوالہ سے موصوف نے ایک روایت نقل کی :
’’رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے ،اور دوسرے دن کا روزہ دوسالوں کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے ،پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے ۔‘‘(کفن کی واپسی :صفحہ :2 ،بحوالہ الجامع الصغیر :5051)
تبصرہ:
موصوف نے اسے الجامع الصغیر کے حوالے سے روایت کیا ہے، اس روایت کو الخلال نے فضائل شھر رجب میں بالسند روایت کیا ہے، وہاں یہ روایت کچھ یوں درج ہے :
حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللهِ التَّمَّارُ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الله الطلالاينوسِيُّ أَبُو بَكْرٍ الصَّيْدَلانِيُّ ثنا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ الْمُقْرِئُ ثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ثنا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْعُقَيْلانِيُّ عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانٍ مَوْلَى عُثْمَانَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِي الله عَنْهُمَا قَالَ:قَالَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْمُ أَوَّلِ يَوْمٍ في رجب كفارة ثلاث سِنِينَ وَالثَّانِي كَفَّارَةُ سَنَتَيْنِ وَالثَّالِثُ كَفَّارَةُ سنةٍ ثُمَّ كُلُّ يومٍ شَهْرٍ.
فضائل شھر رجب للخلال: 10
اس کی سند میں محمد بن عبداللہ سے لے کر ابو عبداللہ العسقلانی تک روایت کرنے والے مجھول ہیں ۔جس روایت میں ایک راوی مجہول ہو وہ روایت محدّثین کے اصول کے مطابق درست قرار نہیں پاتی تو جس روایت میں کئی ایک راوی مجھول ہوں ایسی روایت درست و قابلِ عمل کیسے ہوسکتی ہے ؟ لہٰذا یہ روایت شدید ضعیف ہے اوررسول اللہ ﷺسے ثابت نہیں،اس لئے یہ قابلِ عمل نہیں ہے۔
ایک اور روایتشعب الایمان کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
’’سیدنابلال رضی اللہ عنہ نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت نبی ﷺناشتہ کررہے تھے ۔فرمایا :اے بلال ! ناشتہ کرلو ، عرض کی ، یا رسول اللہ عز و جل و صلی اللہ تعالی علیہ وسلم !میں روزہ دار ہوں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےفرمایا :ہم اپنی روزی کھارہےہیں اور بلال کا رزق جنت میں بڑھ رہا ہے ۔ اے بلال ! کیاتمہیں خبر ہےکہ جب تک روزے دار کے سامنے کچھ کھایا جائے تب تک اس کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں ، اسے فرشتے دعائیں دیتے ہیں ۔‘‘(کفن کی واپسی :4)
تبصرہ:
اس روایت کی سند میں محمدبن عبدالرحمن ،نامی راوی ہے جس کے بارے میں اقوال علماء ملاحظہ فرمائیں :
امام ابن عدی کہتے ہیں :یہ بقیہ کے مجہول اساتذہ میں سے ہے اور منکر الحدیث ہے ۔
امام ابو حاتم کہتے ہیں:متروک الحدیث ،جھوٹ بولتا تھاااور حدیث گھڑتا تھا۔
امام خلیلی کہتے ہیں:منکر روایات بیان کرتا تھا ۔
امام عقیلی کہتے ہیں :اس کی حدیث منکر ہے اس کی کوئی اصل نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی متابعت ہے اور یہ مجہول بالنقل ہے ۔
امام مزی کہتے ہیں:یہ ضعیف و متروک راویوں میں سے ہے ۔
امام حافظ ابن حجر کہتے ہیں:محدثین نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے ۔
امام دارقطنی کہتے ہیں:متروک الحدیث ہے ۔
امام ذهبي نے فرمایا:تالف(ہلاک شدہ)۔
امام ابو الفتح الازدي کہتے ہیں: جھوٹا ہے اور متروک الحدیث ہے ۔
[دیکھئے:تہذیب الکمال :6/410، تقریب التھذیب :2/195، میزان العتدال : 3/592، کتاب الضعفاء :4/1260، الجرح والتعدیل للذھبی :2/439، لسان المیزان :6/281 ]یہی اس روایت کی اصل آفت ہے، لہذا یہ روایت موضوع ہے ۔
اب روایت کا درجہ واضح ہوتے ہی اس فضیلت کی شرعی حیثیت واضح ہوگئی ۔
موصوف کی تحریر کردہ ایک حکایت :
’’بصرہ کی ایک نیک بی بی نے بوقتِ وفات اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ مجھے اس کپڑے کا کفن پہنانا جسے پہن کر میں رجب المرجب میں عبادت کیا کرتی تھی ۔ بعد از انتقال بیٹے نے کسی اور کپڑے میں کفنا کر دفنا دیا ۔ جب قبرستان سے گھر آیا تو یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اس نے جو کفن دیا تھا وہ گھر میں موجود اور وصیت کردہ کپڑے اپنی جگہ سے غائب تھے ۔ اتنے میں غیب سے آواز آئی ، اپنا کفن واپس لے لو ہم نے اس کو اسی کفن میں کفنایا ہے (جس کی اس نے وصیت کی تھی) جو رجب کے روزے رکھتا ہے ہم اس کو اس کی قبر میں غمگین نہیں رہنے دیتے ۔‘‘(کفن کی واپسی :9)
اسی واقعے کی بناء پر موصوف نے اپنے اس رسالے کا نام کفن کی واپسی رکھا ہے اوریہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موصوف کی اکثر کتب کے نام اسی طرز کے ہیں، جس سے واضح ہوتا ہے کہ موصوف قصے، کہانیوں اور ناولوں سے خاصا لگاؤ رکھتے ہیں ، اگر وہ اس لگاؤ کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھیں تو الگ مسئلہ ہے، لیکن پوری شریعت کو ناول ہی بنا کے رکھ دینا اور لوگوں کو بھی اس میں مشغول کرکے رکھ دینا انتہائی غلط کاری ہے۔
اور جہاں تک اس مذکورہ واقعہ کا معاملہ ہے ، یہ میزان ِشرعیہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ اس لئے کہ :
اولاً :یہ کوئی حدیث نہیں ۔
ثانیاً :یہ نصوص ِشرعیہ کے خلاف ہے ۔کیوں کہ نصوصِ شرعیہ میں رجب کے روزوں کی کوئی فضیلت ثابت ہی نہیں۔
ثالثاً:یہ ایک بلا سند حکایت ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ،محض سنی سنائی کہانیوں میں سےایک کہانی ہے جس کی بنیاد پر کسی شرعی عمل کو جاری نہیں کیاجاسکتا ۔
رابعا ً:یہ روایت موصوف نے ” نزھۃ المجالس ” نامی کتاب سے نقل کی ہے جس کی حیثیت کا ذکر آگے آرہا ہے ۔
شعب الایمان کے حوالے سے پیش کردہ ایک اور روایت:
’’ جنت میں ایک نہر ہے جس کا نام رجب ہے اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے جو ماہ رجب میں ایک روزہ رکھے اللہ عز و جل اسے اس نہر سے سیراب فرمائے گا ۔‘‘ (بحوالہ شعب الایمان ،کفن کی واپسی :12)
تبصرہ:
اس روایت کی سند میں دو راوی مجھول ہیں ، ایک منصور بن زید اور دوسرا موسی بن عمران مجھول ہیں ،بعض نے اس روایت کو موضوع تک قرار دیا ہے،تفصیل کے لئے دیکھئے:الآثار الموضوعۃ :(59) ،سلسلۃ الضعیفۃ : (4/1898) ،میزان : (4/189) ،المتناھیۃ : (2/912) ،فوائد حدیثیۃ :(161) ،
اس حدیث کے حوالے سے اقوال علماء بھی ملاحظہ فرمائیے :
امام ابن الجوزی :
لا یصح و فیه مجاھیل لا ندری من ھم
العلل المتناهیة: 912/2
یعنی : یہ روایت صحیح نہیں اس میں کئی مجھول راوی ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں ؟
امام ذھبی:
منصور بن یزید حدث عنه محمد بن المغیرة فی فضل رجب لا یعرف ، والخبر باطل
میزان الاعتدال : 1284
یعنی :منصور بن یزید سے محمد بن المغیرۃ رجب کی فضیلت میں غیر معروف باتین بیان کرتا ہے ۔اور یہ خبر باطل ہے ۔ اسی طرح محمد بن مغیرہ بن بسام کے ترجمے میں اس روایت کو باطل قرار دیا ۔(میزان الاعتدال :8664)
تنبیہ : امام ذھبی کی جرح منصور بن یزید پر ہے ،جبکہ سند میں راوی منصور بن زید ہے ،اسی طرح اس سند کے حوالے سے بعض مزید وھم بھی ہیں ،مثلاً یہاں شعب الایمان میں موسی بن عمران ہے، جبکہ فضائل شھر رجب میں موسی بن عمرہے ،ابن حبان رحمہ اللہ اس روایت کو المجروحین میں موسی بن عمیر العنبری کے ترجمے کے تحت لائے ہیں ،جس پر تعلیقات میں امام دارقطنی نے اس پر جو کلام کیا ہے،اس کا خلاصہ یہ ہے:
ابو حاتم (ابن حبان ) سے یہاںموسی بن عمیر کے بارے میں غلطی ہوئی ہے ۔ موسی بن عمیر تین ہیں ،ان میں سے جو عمرمیں سب سے بڑا اور پہلے ہے،وہ موسی بن عمیر العنبری ہے، یہ ثقہ ہے۔
دوسرا موسی بن عمیر، جو انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے یہ ضعیف و مجھول شیخ ہے۔
تیسرا موسی بن عمیر الجعدی ہے ۔۔۔ (تعلیقات الدارقطنی :230)
الغرض یہ روایت ضعیف ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس کے بعض طرق کی نشاندہی کرتے ہوئے یہی فیصلہ دیا۔ (تبیین العجب :80)
الجامع الصغیر کے حوالے سے پیش کردہ روایت:
’’پانچ راتیں ایسی ہیں کہ جس میں دعا رد نہیں کی جاتی (1)رجب کی پہلی رات (2) پندرہ شعبان (3) جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات (4) عید الفطر کی رات (5) عید الاضحی کی رات ۔ ‘‘ (کفن کی واپسی :13)
تبصرہ:
موصوف نے یہ روایت الجامع الصغیرکے حوالے سے نقل کی اور وہاں یہ روایت تاریخ دمشق کے حوالے سے منقول ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت بھی موضوع ہے ،اس روایت کی سندمیں بندار راوی ہے ،جس کے بارے میں تاریخ دمشق میں ابن عساکر نے یہ قول نقل کیا ہے :
عبد العزيز النخشبي أنه قال:” لا تسمع منه، فإنه كذاب “.
یعنی عبداالعزیز النخشبی کہتے ہیں کہ بندار سے روایت نہ سنو !یہ جھوٹا ہے۔
(تاریخ دمشق :10/408 ،2604،میزان الاعتدال :1/362،لسان المیزان :1/113)
اسی طرح اس میں ایک اور راوی ابراھیم بن یحی بھی کذاب ہے،جس پر سند کا اصل مدار ہے ۔ جیسا کہ امام یحی نے بھی اس کے بارے میں یہی کہا ہے کہ یہ کذاب راوی ہے ۔
اسی طرح ابو قعنب بھی مجھول ہے ۔
طبرانی کبیر کے حوالے سے تحریر کردہ حدیث:
’’رجب بہت عظمت والا مہینہ ہے ،اللہ تعالی اس ماہ میں نیکیاں دگنی کردیتا ہے ،جس نے رجب کا ایک روزہ رکھا گویا اس نے ایک سال کے روزے رکھے اور جس نے سات روزے رکھے تو دوزخ کے ساتوں دروازے اس پر بند کردیئے جائیں گے اور اگر کسی نے آٹھ روزے رکھے تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے اور جو دس روزے رکھ لے تو اللہ عز و جل سے جس چیز کو مانگے وہ اسے عطا کرے گا اور جو پندرہ روزے رکھے تو آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے تمہارے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اب اپنے اعمال دوبارہ شروع کرو اور جو اس سے بھی زائد روزے رکھے تو اللہ تعالی اس پر مزید کرم فرمائے گا اور ماہ رجب ہی میں اللہ تعالی نے نوح (علیہ السلام ) کو کشتی میں سوار کروایا تو نوح (علیہ السلام )نے خود بھی روزہ رکھا اور اپنے ہم نشینوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔‘‘ (بحوالہ طبرانی کبیر ، کفن کی واپسی :15)
تبصرہ:
یہ روایت موضوع ہے ؛اس میں ایک راوی عثمان بن مطر جو کہ اس روایت کے لئے آفت ہے اسکے بارے درجِ ذیل اہلِ علم فرماتے ہیں:
امام ابن حبان :یہ اثبات راویوں سے موضوع روایات بیان کرتا ہے ۔
حافظ ابن حجر:اس کے ضعیف ہونے پر امت کا اجماع ہے ۔ (تبیین العجب :97)
امام بخاری :یہ منکر الحدیث ہے۔
امام یحی بن معین : کان ضعیفا ضعیفا ۔یہ ضعیف ہے ضعیف ہے۔
امام علی بن مدینی نے اسے ضعیف جدا سخت ضعیف قرار دیا ہے ۔
امام ابو زرعۃ : یہ ضعیف الحدیث ہے۔
امام ابوحاتم :یہ ضعیف الحدیث ، منکر الحدیث ہے ۔
امام ابوداؤد اور امام النسائی : یہ ضعیف ہے۔
امام ابن عدی :اس کی ساری احادیث میں سے بعض (صرف لوگوں کی زبانوں پر) مشہور ہیں اور بعض منکر ہیں۔
امام دارقطنی نے بھی اسے الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا ہے ۔
امام حاکم: یہ منکر الحدیث ہے۔
اسی طرح ابن الجوزی نے بھی اسے الضعفاء میں ذکر کیا ہے ۔
[تہذیب الکمال :،5/138،تاریخ بغداد :11/278،تاریخ کبیر : 6/213، الضعفاء :3/946، الکامل :2/250، الضعفاء والمتروکین :407، المجروحین :2/99،]اسی طرح اس کا دوسرا راوی عبدالغفور ہے وہ بھی کذاب ہے ۔
امام ابن حبان:یہ ان لوگوں میں سے ہے جو ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے موضوع روایات بیان کرتے ہیں اس کی حدیث لکھنا، بیان کرنا جائز نہیں ،البتہ اعتبار (شواہد )کے لئے۔
اما م ہیثمی :یہ متروک ہے ۔
امام یحی بن معین : اس کی حدیث کوئی چیز نہیں ۔
امام بخاری :اسے محدثین نے چھوڑ دیا ہے ۔
امام ابن عدی : یہ ضعیف و منکر الحدیث ہے ۔
[دیکھئے: میزان الاعتدال ; 2/495، الکامل :1/329]اسی طرح اس میں ایک راوی عبدالعزیز بن سعید مجھول ہے ۔
لطیفہ :
مذکورہ روایت میں عثمان بن مطر نامی شخص ضعیف راوی ہے ،بقول حافظ ابن حجر اس کے ضعف پر تمام ائمہ کا اتفاق ہے ،مگر موصوف قادری صاحب اسے “صحابی “سمجھ کر لکھتے ہیں: ’’حضرت سیدنا عثمان بن مطر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ۔۔۔۔۔۔‘‘ (کفن کی واپسی :15)
قارئین کرام اسی سے ہی موصوف کے مبلغ علم کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
نہ تم سمجھے نہ ہم آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئے ذرا جبیں سے
احمد رضا خان کے حوالے سے تحریر کردہ روایت :
’’ فوائد نہاد میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ، رؤف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، ستائیس رجب کو مجھے نبوت عطا ہوئی جو اس دن کا روزہ رکھے اور افطار کے وقت دعا کرے دس برس کے گناہوں کا کفارہ ہو ۔‘‘ (بحوالہ فتاوی رضویہ ، کفن کی واپسی :17)
تبصرہ:
موصوف نےیہ فتاوی رضویہ سے نقل کیا ہے اور قابلِ تعجب بات یہ ہے کہ خود احمد رضا صاحب نے اس کے متعلق لکھا ہےکہ، ’’ اسنادہ منکر‘‘ یعنی اس کی سند منکر ہے ۔(فتاوی رضویہ :حوالہ مذکورہ ) ا ب اندازہ لگائیے جس روایت کے منکر ہونے کو احمد رضا خان بھی مان رہے ہیں اور لکھ بھی رہے ہیں مگر موصوف نہ جانے کیوں احمد رضا صاحب کے یہ الفاظ کھاگئے!!
ضرورت ہے خدا کے لئے نادم ہوجا
کر رہا ہے تیرے اغماض کا شکوہ کوئی
تنزیہ الشریعہ کے حوالےسے پیش کردہ روایت :
’’ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جو رجب کی ستائیس کا روزہ رکھے اللہ تعالی اس کیلئے ساٹھ مہینوں (پانچ سال ) کے روزوں کا ثواب لکھے گا اور یہ وہ دن ہے جس میں جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہ وسلم کیلئے پیغمبری لے کر نازل ہوئے ۔‘‘ (کفن کی واپسی :18)
تبصرہ:
اولاً : یہ روایت موقوف ہے ۔
ثانیاً: اس میں شھر بن حوشب راوی اگرچہ صدوق ،حسن الحدیث ہےمگر کثیر الارسال ،والاوھام بھی ہے ۔ اسی طرح شھر بن حوشب سے روایت کرنے والا مطر بن طھمان بھی صدوق ہے ،مگر کثیر الخطاء ہے۔
امام ابن سعدکہتے ہیں کہ : یہ حدیث میں ضعیف ہے۔
امام یحی بن سعید، مطر الوراق کی برے حافظے میں ابن ابی لیلی سے تشبیہ دیتے تھے ۔امام ابو زرعہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کو صالح اس انداز میں کہا کہ گویا کہ ان کو لین الحدیث کہہ رہے ہو۔امام نسائی کہتے ہیں : قوی نہیں ہے ۔امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیااور فرمایا یہ کبھی کبھی خطا کرتا ہے ۔امام عجلی فرماتے ہیں کہ یہ صدوق ہے ۔ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ یہ میرے نزدیک حجت نہیں اور جب یہ کسی حدیث میں اختلاف کرے تو قابلِ حجت نہیں ۔امام ابن عدی نے اسے ضعفاء میں لاکر اس کی احادیث کی مثالیں دیں اور فرمایا :اس راوی کے ضعف کے باوجو داس کی احادیث کو جمع کیا جائے گا ،اور لکھا جائے گا ۔
امام دارقطنی کہتے ہیں:یہ قوی نہیں ہے ۔امام ساجی کہتے ہیں: صدوق ہے، وہم کرتا ہے ۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں: صدوق ہے اور بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا ہے ۔اور اس کی حدیث عطا بن ابی رباح سے ضعیف ہے ۔
[دیکھئےتہذیب الکمال :5994،طبقات ابن سعد :،تاريخ الكبير: 7 / 1752،ضعفاء النسائی : 567 ،ضعفاء العقيلی :213، الجرح والتعديل: 8 /1319 ،الكامل لابن عدی: 3 /140 ،ثقات ابن حبان:435/5، سير أعلام النبلاء:5/ ،452ميزان الاعتدال: 4 / 8587 )]معلوم ہوا کہ یہ اگرچہ صدوق راوی ہے اور اس کی روایت متابعت وغیرہ میں چل سکتی ہے مگر ساتھ ہی یہ کثیر الخطا بھی ہے ۔
لہذا یہاں ان دونوں راویوں سے خطاء و وہم ہوا ہے اس لئے کہ اولاً:یہ صحیح روایات کے خلاف ہے ،ثانیا: ًاس روایت کے مقابلے میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہی ایک اور روایت بھی ہے جس میں ہے کہ اٹھارہ ذوالحجہ کا روزہ ساٹھ مہینوں کے اجر کے برابر ہے ۔ (دیکھئے :تاریخ دمشق :8/290)
ھذا حدیث منکر جدا ، بل کذب ، فقد ثبت فی الصحیح ما معناہ : ان صیام شھر رمضان بعشرة اشھر ، فکیف یکون صیام یوم واحد یعدل ستین شھرا ؟ ھذا باطل ۔
یعنی : یہ حدیث بہت زیادہ منکر ہے بلکہ جھوٹ ہے ،جبکہ صحیح روایت میں تو یہ ہے کہ رمضان کا روزہ تودس مہینوں کے برابر ہے ،بھلا کیسے یہ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک روزہ 60 مہینوں کے روزوں کے برابر ہو۔سو یہ خبر باطل ہے ۔(انسان العیون للحلبی: باب حجۃ الوداع ،385/3، کشف الخفاء : حرف المیم ، 2/307،)
تنبیہ : اگرچہ رمضان کے بارے میں یہ روایت بھی ہمیں نہیں ملی، البتہ یہاں تک تو بات مسلم ہے کہ رمضان کی عبادت کا مقام سب سے اعلی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ روایت کو بھی کئی ایک علماء نے ضعیف قرار دے رکھا ہے ،مثلاً:
قال ابو الخطاب :ھذا حدیث لا یصح
كتاب الباعث لابی شامة
یعنی :یہ حدیث صحیح نہیں ۔
تنزیہ الشریعہ سے استدلال :
ثالثاً: موصوف نے تنزیہ الشریعہ کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ علماء و طلباء بخوبی جانتے ہیں کہ اس کتاب کا موضوع ہی من گھڑت اور معلول روایات کی نشاندہی ہے یعنی اس کتاب میں لوگوں کے علم و معرفت کے لئے وہ روایات جمع کی گئی ہیں کہ جو من گھڑت و ضعیف ہوں تاکہ کوئی بھی ان روایات کو دلیل نہ بنا سکے اور ان روایات کی بناء پر کسی عمل کی بنیاد نہ رکھی جاسکے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ موصوف کے حوالے میں اس کتاب ہی پر اکتفاء کس بات کی چغلی کھا رہا ہے ،اب دو باتوں میں سے ایک ضرور ہے یا تو موصوف کو دھوکا دینے کی عادت ہوگئی ہے جانتے بوجھتے ہوئے بھی وہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ،یا پھر موصوف علمی اعتبار سے بالکل ہی کورے ہیں اورصرف ہر رطب ویابس جمع کرنا اورصحیح اور سقیم کی تمیز کئے بغیر انہیں بیان کرنا ،لوگوں میں پھیلاناہی ان کا شیوہ ہے۔
ٹوٹیں گے اپنے ہاتھ یا کھولیں گے یہ نقاب
سلطان عشق کی یہی فتح و شکست ہے
شعب الایمان کے حوالے سےتحریر کردہ ایک اور روایت :
’’ رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اس دن روزہ رکھے اور رات کو قیام (عبادت)کرے تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے اور یہ رجب کی ستائیس تاریخ ہے ۔ اسی دن محمد صلی اللہ تعالی علیہ و اٰلہ وسلم کو اللہ عز وجل نے مبعوث فرمایا۔‘‘ (کفن کی واپسی :18)
تبصرہ :
حسب سابق یہ روایت بھی منکر ہے۔
اس میں ھیاج نامی راوی ضعیف ہے ۔
اقوال العلماء پیشِ خدمت ہیں:
امام ابن حجر :ضعیف ہے اس کا بیٹا خالد بڑی منکر روایات بیان کرتا ہے ۔
امام ابن معین :یہ ضعیف ہے اور کوئی چیز نہیں ہے ۔
امام ابو داؤد :اسے محدثین نے چھوڑ دیا ہے یہ کچھ بھی نہیں ہے ۔
امام صالح بن محمد:ھیاج منکر الحدیث ہے ،اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی ،البتہ ایک یا دو تین اعتبار (شواہد)کے لئے۔
امام حاکم:یہ احادیث جس کے بارے میں صالح کا (مذکورہ بالا خیال ہے ) اس میں اصل گناہ اس (ھیاج)کے بیٹے خالد کی طرف سے ہے ،اس کا بوجھ اسی پر ہے ۔
امام یحی بن احمد بن زیاد الھروی :ھیاج کی احادیث کا انکار اس کے بیٹے خالد کی جہت سے ہے ۔
امام ابو حاتم :اس کی حدیث لکھی جائے گی اور اس سے حجت نہیں لی جائے گی ۔ابن حبان : یہ مرجیٔ تھا اورثقات کی طرف منسوب کرکے موضوع روایات بیان کیا کرتا تھا ۔
[تہذیب الکمال :7/437، تاریخ کبیر :8/124، الجرح والتعدیل :9/138،میزان الاعتدال :4/240، لسان المیزان :9/262، تاریخ بغداد :14/80،تقریب التہذیب :2/331،تبیین العجب ؛117،118]ھیاج کا بیٹا خالد بھی ضعیف ہے ،جیسا کہ مذکورہ بالا اقوال سے واضح ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت بھی ضعیف ہے ، لہذا اس سے استدلال بھی صحیح نہیں ۔
v شعب الایمان کے حوالے سے ایک اور روایت:
’’ رجب میں ایک رات ہے کہ ا س میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے ۔ جو اس میں بارہ رکعت پڑھے ، ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور کوئی ایک سورت اور ہر دو رکعت پر التحیات اور آخر میں سلا م پھیرنے کے بعدسو بار سبحان اللہ والحمدللہ و لاالہ الا اللہ واللہ اکبر سو بار درود پاک پڑھے اور اپنی دنیا و آخرت سے جس چیز کی چاہے دعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تو اللہ تعالی اس کی سب دعائیں قبول فرمائے گا سوائے اس دعا کے جو گناہ کیلئے ہو ۔ ‘‘ (کفن کی واپسی :19)
تبصرہ:
اس کی سند میں محمد بن فضل راوی ہے ،جس کی ائمہ نے تکذیب کی ہے ۔
اس کے بارے اہلِ علم کے اقوال :
امام احمد :اس کی حدیث جھوٹوں والی ہے ۔امام یحی: اس کی حدیث کو لکھا نہیں جائے گا ۔الفلاس : یہ کذاب راوی ہے ۔
امام ابن ابی شیبہ نے بھی اسے کذاب قرار دیا ہے ۔
کئی ایک علماء نے اسے متروک کہا ہے ۔
[دیکھئے: الجرح والتعدیل :8/56 ، الضعفاء :4/120 ، الکامل :6/170،المیزان :6/4 ،تقریب التہذیب :2/208]مجمع الزوائد کے حوالے سےتحریر کردہ روایت:
’’ جس نے ماہ حرام میں تین دن جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ کا روزہ رکھا اسکے لئے دو سال کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا ۔ ‘‘
(بحوالہ مجمع الزوائد ، کفن کی واپسی :24)
موصوف لکھتے ہیں: ماہ حرام سے مراد چار ماہ ذوالقعدہ ،ذوالحجہ،محرم اور رجب ہیں ،ان چاروں مہینوں میں سے جس ماہ میں بھی ان تین دنوں کا روزہ رکھ لیں گے تو ان شاء اللہ عز و جل دو سال کی عبادت کاثواب پائیں گے۔ (کفن کی واپسی :24)
تبصرہ:
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مجمع الزوائد میں محولہ مقام میں جو روایت موجود ہے اس میں دو سا ل کی عبادت کے الفاظ ہی نہیں ہیں بلکہ وہاں 60 مہینوں کی عبادت کے الفاظ ہیں ۔
ثانیاً : مذکورہ محولہ مقام پر اس روایت کی اسنادی حیثیت کو علامہ ہیثمی نےخود واضح کر دیا، جسے موصوف نےعادۃ بیان نہیں کیا اور مخفی رکھا ہے ،ہم اسے بیان کئے دیتے ہیں، چنا چہ امام ہیثمی نے جو سند پر بحث کی ہے وہ درج ذیل ہے :
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ مُوسَى الْمَدَنِيِّ عَنْ مَسْلَمَةَ، وَيَعْقُوبُ مَجْهُولٌ وَمَسْلَمَةُ هُوَ ابْنُ رَاشِدٍ الْحِمَّانِيُّ ; قَالَ فِيهِ أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ: مُضْطَرِبُ الْحَدِيثِ. وَقَالَ الْأَزْدِيُّ فِي الضُّعَفَاءِ: لَا يُحْتَجُّ بِهِ، وَأَوْرَدَ لَهُ هَذَا الْحَدِيثَ.
مجمع الزوائد : 5151
امام ہیثمی فرماتے ہیں:طبرانی نے اسے اوسط میں
ِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ مُوسَى الْمَدَنِيِّ عَنْ مَسْلَمَةَ،
کے طریق سے بیان کیا ہے اس میں یعقوب نامی راوی مجھول ہے اور مسلمۃ نامی راوی ، وہ راشد الحمانی کابیٹا ہے جس کے بارے میں ابو حاتم رازی نے کہا ہے کہ:یہ مضطرب الحدیث ہے اور ازدی نے الضعفاء میں کہا ہے کہ: اس سے دلیل نہیں لی جاتی ۔اور ازدی نے اس کی یہ روایت بھی درج کی(جو دلیل لئے جانے کے قابل نہیں ہے) ۔ قارئین نے ملاحظہ کیا کہ اس روایت کے کتنے راویوں کو خودصاحب مجمع الزوائد نے ضعیف قرار دیا ہے ۔مگر بلا دریغ موصوف اس روایت کو مجمع الزوائد کے حوالے سے نقل توکررہے ہیں ۔مگرصاحبِ کتاب نے جو اس روایت کا ضعف بیان کیا اور اسکے راوی پر جرح بیان کی وہ چھپا گئے ہیں ۔۔۔
بسا آرزو کہ خاک شد
تنبیہ : جیسا کہ گزر چکا کہ علامہ ہیثمی نے جو روایت ذکر کی ہے، اس میں ساٹھ ماہ کاذکر ہے ،البتہ اس روایت کا حوالہ طبرانی اوسط کا دے کر جس سند پر کلام کیا ہے ،وہ روایت وہی ہے جو الیاس قادری صاحب نے اپنے کتابچہ میں ذکر کی ہے،(کہ ماہ حرام کے دن کے روزوں کی فضیلت دوسال کے برابر ہے )نیز اسے روایت کرنے کے بعد خود امام طبرانی نے اس کی اسنادی حیثیت کی طرف کچھ یوں اشارہ فرمایا:
لم یرو ھذا الحدیث عن مسلمة الا یعقو ب تفرد به محمد بن یحییٰ
طبرانی اوسط، رقم 1789
یعنی :اس حدیث کو مسلمہ سے یعقوب کے علاوہ کوئی نہیں بیان کرتا ،اور یعقوب سے روایت لینے میں محمد بن یحی متفرد ہیں ۔
اور یعقوب نامی راوی کی حیثیت امام ہیثمی نے بیان کردی کہ وہ مجہول ہے۔
نزھۃ المجالس کے حوالے سے تحریر کردہ واقعہ :
’’ایک بار حضرت سیدنا عیسی روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کا گزر ایک جگمگاتے نورانی پہاڑ پر ہوا ۔ آپ علیہ السلام نے بارگاہ خداوندی عز وجل میں عرض کی ،یا اللہ عز و جل ! اس پہاڑ کو قوت گویائی عطافرما ۔وہ پہاڑ بول پڑا ، یا روح اللہ(علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام ) آپ کیا چاہتے ہیں ؟ فرمایا ، اپنا حال بیان کر ۔پہاڑ بولا : میرے اندر ایک آدمی رہتا ہے ۔ سیدنا عیسی روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے بارگاہ الہی عز وجل میں عرض کی ، یا اللہ اس کو مجھ پر ظاہر فرمادے۔ یکایک پہاڑ شق ہوگیا اور اس میں سے چاند سا چہرہ چمکاتے ہوئے ایک بزرگ برآمد ہوئے ۔ انہوں نے عرض کیا ، میں حضرت سیدنا موسی کلیم اللہ (علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام )کا امتی ہوں میں نےاللہ عز و جل سے یہ دعا کی ہوئی ہے کہ وہ مجھے اپنے پیارے محبوب ، نبی آخری زمان صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم کی بعثت مبارکہ تک زندہ رکھے تاکہ میں انکی زیارت بھی کروں اور ان کی امتی بننے کا شرف بھی حاصل کروں ۔ الحمدللہ عز و جل میں اس پہاڑ میں چھ سو سال سے اللہ کی عبادت میںمشغول ہوں ۔ حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللہ علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی ، یا اللہ عز و جل ! کیا روئے زمین پر کوئی بندہ اس شخص سے بڑھ کر بھی تیرے یہاں مکرم ہے ؟ ارشاد ہوا ، اے عیسیٰ علیہ السلام ! امت محمدی میں سے جو ماہ رجب کا ایک روزہ رکھ لے وہ میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ مکرم ہے ۔ ‘‘(کفن کی واپسی :26)
تبصرہ :
نزھۃ المجالس کے بارے میں اہل علم میں معروف ہے کہ اس میں بکثرت ضعیف و موضوع روایات اور قصے ہیں، چناچہ خود ایک مکتبہ نے اسےمترجَم شائع کیا مگراندر والے ٹائیٹل پہ کچھ یوں لکھا ہوا ہے:
یہ مشہور کتاب نزہۃ المجالس عجیب و غریب قصص و نادر حکایات ،امام شافعی کے مذہب کے موافق فقہی مسائل ، موضوع روایات اور بعض صحیح احادیث کے بیش بہا نہایت دلچسپ ذخیرے پر مشتمل ہے ۔
(مطبوعہ سعید ایچ ایم کمپنی ادب منزل پاکستان چوک کراچی ،)
دیکھئے اس کتاب کا تعارف کرواتے ہوئےخود یہ مذکورہ مکتبہ لکھتا ہے کہ بعض صحیح احادیث ،اور جب اس سے پہلے قصص ، موضوع روایات کی بات کی تو بعض کا لفظ استعمال نہیں کیا یعنی خود مذکورہ مکتبہ کو بھی یہ مسلم ہے کہ اس میں بکثرت ضعیف و موضوع روایات و قصص ہیں اور صحیح روایات بہت کم ہیں ۔
ثانیاً:اس واقعے کی کوئی سند پیش نہیں کی گئ ،لہذا بلا سندمن گھڑت واقعہ کو کسی نبی کی طرف منسوب کرنا کبیرہ گناہ اور قابلِ مذمّت فعل ہے ۔
ثالثا ً : کتب رجال کو کھنگال ماریئے ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ نبی ﷺ کا کوئی ایسا صحابی ہو اور اس کا یہ مذکورہ بالا قسم کا واقعہ ہو ،یعنی یہ ایک بلا سند و جھوٹا واقعہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ موصو ف کا دیگر کتابچوں کی طرح یہ کتابچہ بھی ضعیف ، موضوعات و من گھڑت روایات اور قصوں و حکایتوں سے مملوء ہے لہذا اس میں بیان کردہ رجب سے متعلقہ تمام فضائل کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ۔
دیگر بیان کردہ ضعیف روایتوں کی طرح ایک ضعیف روایت میں تورجب کے پورے مہینے کے روزوں سے بھی روکا گیا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ :1743، طبرانی الکبیر :10681، شعب الایمان :3/375 )
اب موصوف نے اسے نہ جانے کیوں اپنے اس کتابچےکا حصہ نہیں بنایا ؟
آپ ہی اپنی اداؤں پر غور کریں ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
اللہ کی توفیق و عون سے ماہ رجب کے حوالے سے موصوف کی موضوع وضعیف کے مجموعہ سے پُرتحریرکی حقیقت قارئین کی خدمت میں پیش کی جا چکی ہے۔
اب یہاں مناسب ہے کہ بعض اسلاف کے اقوال بھی اس باب میں پیش کردیئے جائیں ۔ جن سے مزید رجب کی فضیلت اور اس کے روزوں کی فضیلت میں موجود روایات کی حقیقت واضح ہوجائے گی ۔
(1) معروف محدث و امام شارح صحیح بخاری شریف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم یرد فی فضل شھر رجب ، ولا فی صیامه ، ولا فی صیام شئی منه معین ، ولا فی قیام لیلة مخصوصة فیه حدیث صحیح یصلح للحجة وقد سبقنی الی الجزم بذلک الامام ابو اسمٰعیل الھروی الحافظ ، رویناہ عنه باسناد صحیح، وکذلک رویناہ عن غیرہ ۔
تبیین العجب : 71
یعنی :رجب کے مہینے کی فضیلت کے حوالے سےکوئی صحیح روایت وارد نہیں ہوئی اور نہ ہی رجب کے روزوں کے بارے میں ، اور اسے مخصوص روزوں اور قیام کے بارے میں بھی کوئی صحیح روایت وارد نہیں جو حجت کے قابل ہو ۔اور مجھ سے پہلے یہی بات امام ابو اسمعیل نے کہی ہے جسے ہم نے سند صحیح کے ساتھ بیان کیا ہے ۔
(2) امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واماالصیام، فلم یصح فی فضل صوم رجب بخصوصه شئی عن النبی ﷺ ولا عن الصحابة
لطائف المعارف : 228
یعنی :نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ سے رجب کے روزوں سے متعلق کچھ بھی ثابت نہیں۔
(3) امام عبداللہ انصاری کے بارے میں آتا ہے :
كَانَ عَبْد اللهِ الأَنْصَارِيّ لَا يَصُوم رَجَب وَينْهى عَن ذَلِك يَقُول: مَا صَحَّ فِي فضل رَجَب وَفِي صِيَامه عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم شئ
الموضوعات لابن جوزی ، كتاب الصیام، 208/2 المغنی عن الحفظ والكتاب : باب صیام رجب وفضله۔ 371/1
یعنی : امام عبداللہ انصاری رجب کے روزے نہیں رکھتے تھے اور اس سے روکتے تھے اور فرمایا کرتے تھے :رجب کی فضیلت اور اس کے روزوں کے حوالے سے کوئی صحیح روایت مروی نہیں ۔
إن ما روی فی فضل صیام رجب ، فکله موضوع و ضعیف ، لا اصل له
الفوائد المجموعة : 392
یعنی :رجب کے روزوں کے بارے میں جو کچھ مروی ہے وہ سب ضعیف و موضوع ہے ۔
(5)امام ابن القیم رحمہ اللہ :
و کل حدیث فی ذکر صوم رجب و صلوٰة بعض اللیالی فیه ، فھوکذب مفتری۔
المنار المنیف: 84
یعنی :رجب اور اس کی بعض راتوں کے قیام کے حوالے سے تمام روایات جھوٹ اور بہتان ہیں ۔
ضروری وضاحت :
ہماری مذکورہ تمام گزارشات سے واضح ہوگیا کہ رجب کے روزوں کی فضیلت اور رجب کی دیگر مخصوص عبادات کسی صحیح حدیث یا اثر سے ثابت نہیں ہیں، البتہ یہاں کچھ باتوں کی وضاحت ضروری ہے:
1) اگر ایک شخص کی مسلسل روزے رکھنے کی کوئی ترتیب بنی ہوئی ہے اور اسی ترتیب میں رجب کا مہینہ بھی آرہا ہے تو اس جہت سے یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں ، مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ روزے مسلسل نہ ہوں یعنی لگاتار و پے درپہ بغیر گیپ کے نہ ہوں ،کیونکہ رسولِ اکرم ﷺنے اس سے منع فرمایا ہے اور فرمایا:” سب افضل روزہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن فاصلہ رکھتے” یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے اس سے زیادہ کی شرعاً اجازت نہیں،اگر کسی نے مسلسل نفلی روزے رکھنے ہوں تو وہ سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرح رکھے ۔
2) کفاروں و قضاء کی صورت میں مسلسل روزے رکھےجاسکتے ہیں کیونکہ وہ واجبی روزے ہیں نہ کہ نفلی۔
رسولِ اکرمﷺکی سنّتِ مبارکہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہر اسلامی مہینہ کی 13،14،1ٍ5 تاریخ کے روزے اور ہر پیر و جمعرات کے روزے عام مہینوں کی طرح ماہِ رجب میں بھی رکھے جاسکتے ہیں ، لیکن ان کا ماہِ رجب سے کسی بھی قسم کا کوےی تعلق نہیں ، آپﷺ عموماً پورے سال میں اس ترتیب سے روزے رکھتے تھے۔
رب کریم ہمیں تمام بدعات وناجائزرسومات سے بچا کر توحید و سنت پر کار بند رکھے ۔(آمین )
وآخرُ دعوانا ان الحمدُ للہ ربّ العالمین
***