شبِ معراج: مسائل و دروس

sheb e meraaj 27 rajab

اس کائنات میں تشریف لانے والے مختلف رسولوں اور نبیوں کو مختلف معجزے عطا ہوئے تاکہ وہ ان معجزات کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور توحید لوگوں پر واضح کر سکیں ۔ چنانچہ نبی کریم  ﷺ کوبھی کئی معجزوں سے نوازا گیا ، ان میں سے ایک اہم اور انوکھا معجزہ معراج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ میں اپنے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کو اپنی قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرایا۔ واقعہ معراج میں جہاں اللہ تعالیٰ کی آیات کبریٰ کا مشاہدہ اور بہت سے فوائد و اسباق ہیں۔ وہیں اس واقعہ میں عقائد کے متعلق کئی اہم مسائل موجود ہیں جنہیں تسلیم کیے بغیر اور ان پر ایمان لائے بغیر کسی مسلمان کا ایمان سلامت نہیں رہتا۔ اس تحریر میں قارئین کے لیے واقعہ معراج سے ثابت ہونے والے عقیدے کے چند مسائل پیش ِخدمت ہے۔

پہلا مسئلہ عقیدہ : واقعہ اسراء و معراج پر مکمل ایمان

واقعہ معراج میں عقیدے سے متعلق پہلا مسئلہ واقعہ معراج پر مکمل ایمان لانا واجب ہے۔ اس لیے کہ اسراء و معراج پر ایمان لانا اللہ تبارک و تعالیٰ پر ایمان کا حصہ ہے اور واقعہ معراج کا انکار کرنا کتاب و سنت سے ثابت شدہ معجزے کا انکار ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسراء و معراج کا قصہ قرآن کریم میں اور اپنے پیغمبر کی زبانی ہمیں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبی ﷺ کی سنت کا منکر ہی اسراء و معراج کا انکار کر سکتا ہے۔

معراج کا انکار قرآن کا انکار ہے

سفر معراج کے دو حصے ہیں ۔ایک حصہ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ(بیت المِقدس) تک جس کو قرآن پاک میں اسریٰ کہا گیا ہے۔ یہ لفظ قرآن کی آیت سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ کے لفظ ’’  أَسْرَىٰ ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جبکہ بیت المِقدس سے آسمان تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ حدیث ِمعراج  میں مذکور’’ ثُمَّ عُرِجَ بنا إلى السَّماءِ‘‘1  کے لفظ ’’ عُرِجَ  ‘‘سے ماخوذ ہے۔

معراج کا انکار قرآن کا انکار ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں اسراء کا لفظ صراحتاً ثابت ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

(سورہ الأسراء آیت :1 )

پاک ہے وہ جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو حرمت والی مسجد سے بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

پس اگر کوئی شخص اسراء کا انکار کرے تو وہ قرآن کا منکر ہو جاتا ہے کیونکہ ایک ادنی مسلمان بھی جب اس آیت کو پڑھتا یا سنتا ہے تو اس آیت کے معنی و مدلول کو بخوبی سمجھ جاتا ہے۔ لہذا اسراء کا انکار کرنے والا قرآن کا منکر ہے اور قرآن کا منکر کافر ہے۔ واقعہ معراج کے ثبوت کیلئے قرآن پاک کی یہ آیت نہایت واضح اور صاف دلیل ہے اور اس میں کوئی بحث یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

چنانچہ شرح عقائدِ نسفیہ اور نِبراس میں ہے:

’’فالإسراء ھو من المسجد الحرام إلی البیت المقدس قطعي أی یقیني ثبت بالکتاب أی القرآن و یکفر منکرہ( صحيح مسلم:  162 )2

 مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک کے سفر کو اسراء کہا جاتا ہےجو قطعی، یقینی اور کتاب اللہ سے ثابت ہے اور اس کا منکر کافر ہے ۔

معراج کا انکارحدیثِ رسول ﷺ کا انکار ہے

معراج کا انکار حدیثِ رسول کا انکار ہے ۔آیئےپہلےاسراء اور معراج کے متعلق چند احادیث ملاحظہ کریں تاکہ اس کی حقیقت واضح ہوجائے۔

پہلی حدیث :  حدیث ِمعراج میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ

(صحيح البخاري : 349)

پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔

ثُمَّ عَرَجَ بي حتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أسْمَعُ فيه صَرِيفَ الأقْلامِ.

(صحيح البخاري : 349 )

پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی۔ (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی)

پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى انْتَهَى بِي إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا حَبَايِلُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ”.

(صحيح البخاري : 349 )

پھر جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔

دوسری حدیث:  معراج کے موقع پرسدرۃ المنتہی اور جنت کی سیر کے بعد آپ ﷺ کو جہنم دکھائی گئی ۔ چنانچہ آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :

لمَّا عُرِجَ بي مَرَرْتُ بِقومٍ لهُمْ أَظْفَارٌ من نُحاسٍ ، يَخْمُشُونَ وُجُوهَهُمْ وصُدُورَهُمْ ، فقُلْتُ : مَنْ هؤلاءِ يا جبريلُ ؟ قال : هؤلاءِ الذينَ يأكلونَ لُحُومَ الناسِ ، ويَقَعُونَ في أَعْرَاضِهِمْ

(صحيح أبي داود: 4878 )

جب مجھے معراج کرائی گئی ، تو میرا گزر ایسے لوگوں پر سے ہوا،جن کے ناخن تا نبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے منہ اور سینے نو چ رہے تھے ، میں نے پوچھا: جبرئیل! یہ کو ن لوگ ہیں؟ کہا: یہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے (غیبت کرتے) اور ان کی بے عزتی کرتے تھے۔

 تیسری حدیث:  حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَيلةَ أُسْريَ بي، أُتيتُ بقَدَحَيْنِ، قَدَحِ لَبَنٍ، وقَدَحِ خَمرٍ، فنظَرتُ إليهما، فأخَذتُ اللَّبَنَ، فقال جِبريلُ: الحَمدُ للهِ الذي هداكَ للفِطْرةِ، لو أخَذتَ الخَمرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ.

( صحيح البخاري: 5576)

’’جس رات مجھے بیت المقدس لے جایا گیا تو میرے سامنے دو پیالے لائے گئے ایک دودھ کا اور دوسرا شراب کا تھا۔ میں نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ لے لیا۔ اس وقت جبرئیل نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو فطری راستہ (یعنی اسلام) کی رہنمائی کی آپ اگر شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔‘‘ تمام احادیث اس بات پر دلالت كرتی ہیں  كہ نبی كریم ﷺ كے لیے اسراء و معراج كاواقعہ حق اور صداقت پر مبنی ہے ۔بلكہ احادیثِ متواتره اور مشہوره سے ثابت ہےلہٰذا جو معراج كا انكار كرے وه حدیث كا منكر ہے اور حدیث كا مطلقامنكر دائرہ  اسلام سے خارج ہے ۔

جسمانی معراج یا روحانی؟

اہل سنت والجماعت کے محقق علماء کرام کا فیصلہ ہے کہ معراج بیداری کی حالت میں اور جسم اور روح کےسمیت ہوا ہے اور یہی قول برحق ہے ۔اس کے دلائل درج ذیل ہیں :

معراج جسمانی قرآن کریم کی روشنی میں

اہل سنت والجماعت کے محقق علماء کرام کا فیصلہ ہے کہ معراج بیداری کی حالت میں جسم اور روح کےسمیت ہوا ہے اور یہی قول برحق ہے ۔اس کے دلائل درج ذیل ہیں :

اس واقعہ کے بیان کے لئے اللہ تعالیٰ نے تعجب کا صیغہ ’’ سبحان‘‘ استعمال کیا ہے۔ اگر یہ واقعہ صرف ایک خواب ہوتا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ خواب میں زمین وآسمان کی سیر ایک عام آدمی سے بھی ہو سکتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے معراج کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ اللہ اپنے بندے کو لے گیا ،اور یہ بات معلوم ہے کہ بندہ جسم اور روح دونوں کے مرکب کا نام ہے۔ قرآن کی متعدد آیات میں لفظ ’’عبد‘‘ یعنی بندہ جسم اور روح دونوں کے مجموعے پر بولا گیا ہے ۔مثال کے طور پر سورہ طہ آیت (۷۷ ) سورہ شعراء آیت (۵۲ ) سورہ دخان آیت (۳۳) اور سورہ بقرہ آیت( ۸۶ )وغیرہ

اسریٰ کا لفظ بھی بیداری کی حالت پر بولا جاتا ہے جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام کو ارشاد ہوتا ہے:

فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ

(سورة الحجر : 15)

اب تو اپنے خاندان سمیت اس رات کے کسی حصہ میں چل دے اور آپ ان کے پیچھے رہنا۔

سورۃ النجم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىٰ  

(سورۃ النجم،آیت:17)

نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی ۔

یعنی معراج کی رات آسمان پر نبی کی آنکھ نے واقعات دیکھنے میں کوئی غلطی یا بے احتیاطی نہیں کی۔ جو کچھ دیکھا بچشم جسم دیکھا ہے یہ بھی دلیل ہے کہ معراج جسمانی تھا۔ کیونکہ خواب یا کشف کا تعلق دماغ یا دل سے ہے، نہ کہ آنکھ سے۔ اور لفظ بصر جسمانی نگاہ کے لئے آتا ہے، خواب یا دل کے دیکھنے کو بصر نہیں کہتے۔

اور قاضی عیاض فرماتے ہیں :

لأنه لایقال فی النوم أسریٰ3

کہ معراج جسم کے ساتھ ہے کیونکہ اسریٰ کا لفظ خواب پر نہیں بولا جاتا۔

ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  قرآن کریم میں سورہ اسراء کی آیت نمبر 60 :

 وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ (اور جو خواب ہم نے آپ کو دکھایا اس سے مقصد صرف لوگوں کا امتحان تھا) کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ:

 قالَ: هي رُؤْيا عَيْنٍ، أُرِيَها رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ به إلى بَيْتِ المَقْدِسِ

( صحيح البخاري : 4716)

 اس میں رؤیا سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہی مراد ہے۔ جو رسول اللہ ﷺ کو اس معراج کی رات میں دکھایا گیا تھا جس میں آپ کو بیت المقدس تک لے جایا گیا تھا ۔

معراج جسمانی حدیث نبوی کی روشنی میں

پہلی حدیث:  حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ، قُمْتُ في الحِجْرِ، فَجَلا اللَّهُ لي بَيْتَ المَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عن آياتِهِ، وأنا أنْظُرُ إلَيْهِ.

( صحيح مسلم : 170(

کہ جب کفار مکہ نے میرے اس سفر کو جھٹلایا اور مجھ سے بیت المقدس کے متعلق سوال شروع کر دیے تو اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بیت المقدس کر دیا میں اسے دیکھ کر بتاتا جا رہا تھا۔

یعنی کفار نے اس معراج کے جسم کے ساتھ ہونے کا ہی انکار کیا تھا ورنہ خواب کی بات کو جھٹلانے کا کوئی تک ہی نہیں تھا کیونکہ خوابوں میں کئی مرتبہ عام انسان بھی اپنے آپ کو پرواز کرتے اور آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ کفار کو تعجب تو تب ہوا جب آپ نے کہا کہ میں اس جسم کے ساتھ گیا تھا۔ کفار کا یہ رد عمل ہی اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جسم کے ساتھ معراج کا دعویٰ کیا تھا۔

دوسری حدیث:  حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:

مررْتُ ليلةَ أُسرِيَ بي بأقوامٍ تُقرضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ من نارٍ ، قُلْتُ : من هؤلاءِ يا جبريلُ ؟ قال : خُطَباءُ أمتِكَ الذينَ يقولونَ ما لا يفعلونَ ويقرؤونَ كتابَ اللهِ ولا يعملونَ بِه

(صحيح الترغيب : 125)

میں نے معراج کی رات کچھ لوگوں کودیکھاکہ ان کے  منہ آگ کی قینچیوں  سے  کاٹے  جارہے  ہیں  اورپھروہ ویسے  ہی ہوجاتے  ہیں  میں  نے  پوچھااے جبریل!یہ کون لوگ ہیں  ؟جبریل علیہ السلام نے کہا:یہ آپ کی امت کے وہ خطیب حضرات ہیں جولوگوں کووہ باتیں بتایا کرتے تھے جس پر وہ خودعمل نہیں کرتے تھے، وہ لوگ اللہ کی کتاب کو پڑھتے تھےلیکن عمل نہیں کرتے تھے ۔

یہی بات تفسیرِ خازن میں درج ہےکہ :

والحق الذي علیه أكثر الناس ومعظم السلف وعامة الخلف من المتأخرین من الفقهاء والمحدثین والمتكلمین أنه أسری بروحه وجسده صلیٰ الله علیه وسلم ، ویدل علیه قوله سبحانه وتعالیٰ (سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا) ولفظ العبد عبارة عن مجموع الروح والجسد4

یعنی حق بات وہی ہے جس پر کثیر لوگ، اکابر علماء اور متأخرین میں سے عام فقہاء، محدثین اور متکلمین ہیں کہ نبی كریم ﷺ كوجسم اور روح مبارک کے ساتھ معراج كرایا گیا ، اور اس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے: پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا، کیونکہ لفظ عبد روح اور جسم دونوں کے مجموعے کا نام ہے۔

دوسرا مسئلہ عقیدہ ۔ اللہ تعالیٰ کیلئے صفت علو کا اثبات

واقعہ معراج سےاللہ تعالیٰ کیلئے صفت علو ثابت ہوا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر ہونا۔احصادیث متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ کو معراج کے موقع پر ساتویں آسمان تک اور پھر سدرہ المنتہی تک لے جایا گیا ۔  حدیث ِمعراج میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ

(صحيح البخاري : 349)

پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔

ثُمَّ ذَهَبَ بِي إِلَى السِّدْرَةِ الْمُنْتَهَى

( صحیح مسلم :411)

پھر جبرئیل علیہ السلام مجھ کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے۔

ثُمَّ عَرَجَ بي حتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أسْمَعُ فيه صَرِيفَ الأقْلامِ.

(صحيح البخاري : 349 )

پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز سنی۔

صفت علو کے دلائل

قرآن و حدیث سے بہت سے شواہد موجود ہیں جوذاتِ الہی کی صفت علو کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ کے وہ تمام اسمائے حسنیٰ جو بلندی کے تمام معانی کو ظاہر کرتے ہیں جیسے:

– الْأَعْلَى:  جیسے ارشاد باری تعالی ہے

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى

(سورة الأعلىٰ،آیت: 1)

آپ اپنے سب سے بلند رب کے نام کی تسبیح کریں۔

–  الْعَلِيُّ: جیسے ارشاد باری تعالی ہے :

وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

( سورۃ البقرة: 255)

اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں۔ وہ بلند و برتر اور عظمت والا ہے۔

إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا (سورۃ النساء: 34)

(سورۃ النساء: 34)

بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند، بہت بڑا ہے۔

یہ تمام اسمائے حسنی ذاتِ الہی کی صفت علو کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اسی طرح اس بات کی صراحت بھی موجود ہے کہ چیزیں الله کی طرف چڑھتی اور اس کی طرف سے نازل ہوتی ہیں ، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ

 ( سورة الفاطر:10)

اس کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلند کرتے ہیں۔

اور فرمایا:

تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ

(سورة المعارج:4 )

فرشتے اور روح ( جبریل) اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

فَكَانَتْ زَيْنَبُ تَفْخَرُ علَى أزْوَاجِ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ تَقُولُ: زَوَّجَكُنَّ أهَالِيكُنَّ، وزَوَّجَنِي اللَّهُ تَعَالَى مِن فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ

(صحيح البخاري: 7420)

کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا تمام ازواج مطہرات پر فخر کرتے ہوئےکہتی تھی کہ تم لوگوں کی تمہارے گھر والوں نے شادی طے کی جبکہ میری شادی اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے طے کی۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب اپنے بستر پر سونے کے لیے جاتے تواپنی دعا میں یہ الفاظ بھی پڑھا کرتے :

وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فليسَ فَوْقَكَ شَيءٌ

(صحيح مسلم: 2713)

تو سب سے ظاہر (یعنی اوپر ہے)  تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں ہے۔

حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

يا رَسولَ اللهِ، وكَانَتْ لي جَارِيَةٌ تَرْعَى غَنَمًا لي قِبَلَ أُحُدٍ والْجَوَّانِيَّةِ، فَاطَّلَعْتُ ذَاتَ يَومٍ فَإِذَا الذِّيبُ قدْ ذَهَبَ بشَاةٍ مِن غَنَمِهَا، وأَنَا رَجُلٌ مِن بَنِي آدَمَ، آسَفُ كما يَأْسَفُونَ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فأتَيْتُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ فَعَظَّمَ ذلكَ عَلَيَّ، قُلتُ: يا رَسولَ اللهِ، أفلا أُعْتِقُهَا؟ قالَ: ائْتِنِي بهَا فأتَيْتُهُ بهَا، فَقالَ لَهَا: أيْنَ اللَّهُ؟ قالَتْ: في السَّمَاءِ، قالَ: مَن أنَا؟ قالَتْ: أنْتَ رَسولُ اللهِ، قالَ: أعْتِقْهَا، فإنَّهَا مُؤْمِنَةٌ.

(صحيح مسلم: 537)

کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد اور جوانیہ کے اطراف میں میری بکریاں چراتی تھی ، ایک دن میں اس طرف جا نکلا تو بھیڑیا اس کی بکریوں سے ایک بکری لے جا چکا تھا ۔ میں بھی بنی آدم میں سے ایک آدمی ہوں ، مجھے بھی اسی طرح افسوس ہوتا ہے جس طرح ادوسرے لوگوں کو ہوتا ہے ( مجھے صبر کرنا چاہیے تھا ) لیکن میں نے اسے زور سے ایک تھپڑ جڑ دیا اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے میری اس حرکت کو بڑی ( غلط ) حرکت قرار دیا ۔ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں ؟ آپ نے فرمایا :’’ اسے میرے پاس لے آؤ ۔‘‘ میں اسے لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا ، آپ نے اس سے پوچھا :’’ اللہ کہاں ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : آسمان میں ۔ آپ نے پوچھا : میں کون ہوں ؟ ‘‘ اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسے آزاد کر دو کیونکہ یہ مومنہ ہے ۔

تیسرا مسئلہ عقیدہ ۔ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا اثبات

واقعہ معراج سےاللہ تعالیٰ کیلئے صفت ِکلام ثابت ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے دیگر انبیاء کرام کی طرح نبی کریم ﷺ کو بھی ہم کلام ہونے کا اعزاز بخشا ۔صفت کلام  اللہ تعالیٰ کی فعلی صفت ہے یعنی وہ جیسے اور جب چاہتا ہے کلام فرماتا ہے۔اس نے ماضی میں بھی کلام فرمایااورقیامت کے دن بھی کلام کرے گا ۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ اللہ تعالی کی گفتگو سفرِ معراج کے موقع پر ثابت ہے ۔ چنانچہ آپ ﷺ فرماتے ہیں :

فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ ؟ قَالَ: أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ، فَرَجَعْتُ، فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ… فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ: سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ.

(بخاری، 3674 ،  و مسلم: 162 )

آپ ﷺ فرماتے ہیں: میں وآپسی  پر موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا: “آپ کو کس چیز کا حکم دیا گیا ہے؟”آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے روزانہ پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔موسی علیہ السلام نے کہا:  یقیناً آپ کی امت روزانہ پچاس نمازوں کی استطاعت نہیں رکھتی، اللہ کی قسم! میں نے آپ سے پہلے لوگوں کو آزمایا ہے اور بنی اسرائیل پر میں نے بہت ہی محنت کی تھی، اس لیے آپ اللہ تعالی کے پاس واپس جائیں اور ان سے اپنی امت کیلئے تخفیف کی درخواست کریں”آپ ﷺ نے فرمایا: (میں واپس گیا تو اللہ تعالی نے دس نمازیں کم کر دیں، پھر جب دوبارہ موسی علیہ السلام کے پاس گیا تو انہوں نے پھر وہی بات دہرائی کہ آپ اللہ تعالی کے پاس واپس جائیں اور ان سے اپنی امت کیلئے تخفیف کی درخواست کریں ” تو آپ ﷺ نے فرمایا:  میں نے اللہ تعالی سے اتنا مانگ لیا ہے کہ اب مجھے حیا آنے لگی ہے، لیکن میں اب راضی ہوں اور اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

هذا من أقوى ما استُدل به على أن الله سبحانه وتعالى كلَّم نبيَّه محمَّداً صلى الله عليه وسلم ليلة الإسراء بغير واسطة5

یہ حدیث سب سے قوی ترین دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد ﷺ سے معراج کی رات براہِ راست گفتگو فرمائی

نیز ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:

 ( مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللہُ ) يعني: موسى ومحمَّداً صلى الله عليه وسلم، وكذلك آدم )6

اللہ تعالیٰ کے فرمان ( مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ) ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن سے اللہ نے کلام فرمایا) اس میں موسی علیہ السلام، محمد ﷺ اور آدم علیہ السلام شامل ہیں ۔

قرآن وحدیث میں بہت سے شواہد موجود ہیں جواللہ تعالیٰ کی صفت کلام کی نشاندہی کرتے ہیں ۔چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ

(الشوریٰ:51)

’’ کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے روبرو بات چیت کرے۔ البتہ یہ وحی کی صورت میں یا پردے کے پیچھے سے ہو سکتی ہے یا وہ کوئی فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ اللہ کے حکم سے جو کچھ اللہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے وہ یقیناً عالی شان اور حکمت والا ہے۔

در پردہ گفتگو بھی نبیوں کے لیے ایک بہت ہی عظیم مرتبہ ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ

[البقرۃ:253]

یہ رسول (جو بھیجے گئے) ہم نے انہیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر فضیلت دی۔ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور کچھ وہ ہیں جن کے درجات بلند کئے۔

اور جن انبیائے کرام سے اللہ تعالی نے گفتگو فرمائی ان میں درج ذیل انبیائے کرام شامل ہیں:

1۔ آدم علیہ السلام

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

أن رجلا قال: يا رسول الله أنبيٌّ كان آدم ؟ قال: ( نَعَمْ مُكَلَّمٌ ) قال: فكم كان بينه وبين نوح ؟ قال: عَشْرَةُ قُرُون7

کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آدم علیہ السلام نبی تھے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: ”ہاںوہ نبی تھے، اللہ نے ان سے کلام بھی فرمایا تھا۔“ اس نے کہا:آدم اور نوح علیہما السلام کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:: ”دس صدیاں۔“

2 ۔  موسی علیہ السلام کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:

وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَى تَكْلِيمًا

(النساء:164)

اور اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام سے خود بول کر کلام فرمایا۔

 تو سفر معراج کے دروس میں سے ایک درس یہ ملا نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلام  ہونے کا شرف عطا فرمایا جس سے اللہ تعالیٰ کیلئے صفتِ کلام و اضح ہوا  ۔

چوتھا مسئلہ عقیدہ :  جنت و جہنم کے وجود کا ثبوت

معراج کے موقع پر آپﷺ کو جنت وجہنم کا مشاہدہ کرایا گیا ۔ اس سے جنت وجہنم کا وجود ثابت ہوا کہ جنت اور جہنم اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اوروہ اس وقت موجود ہیں ۔ قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں اہل حق کا یہ عقیدہ ہے کہ جنت اور جہنم اس وقت موجود ہیں۔ جبکہ بعض گمراہ فرقے اس طرف گئے ہیں کہ جنت اورجہنم کی ابھی تخلیق نہیں ہوئی ۔انہی گمراہ فرق میں سے ایک فرقہ معتزلہ بھی ہے،جس کا یہی نظریہ ہے کہ جنت  وجہنم اس وقت موجود نہیں ہے۔ معراج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کا جنت اور جہنم کا مشاہدہ کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جنت اور جہنم معرض وجود میں آچکی ہیں ۔چنانچہ بخاری ومسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:

ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى أَتَى بِي السِّدْرَةَ المُنْتَهَى، فَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لاَ أَدْرِي مَا هِيَ ؟ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الجَنَّةَ، فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤِ، وَإِذَا تُرَابُهَا المِسْكُ

(بخاری:3342،  ومسلم:1033)

’’ پھر جبرائیل چلے یہاں تک کہ مجھے سدرۃ المنتہی پہنچایا گیا اور اس پر بہت سے رنگ چھا رہے تھے، میں نہ سمجھا کہ یہ کیا ہیں؟ پھر میں جنت میں داخل کیا گیا (تو کیا دیکھتا ہوں) کہ اس میں موتی کی لڑیاں ہیں اور ان کی مٹی مشک ہے۔‘‘

دوسری حدیث میں سیدنا انس  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا:

عُرِضَتْ عَلَيَّ الجَنَّةُ وَالنَّارُ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَومِ في الخَيْرِ وَالشَّرِّ، ولو تَعْلَمُونَ ما أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا  

(صحيح مسلم: 2359)

میرے سامنے جنت اورجہنم کو پیش کیا گیا تو میں نے آج کے دن کی طرح کوئی خیراورکوئی شر کبھی نہیں دیکھی اور اگر تم بھی وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو تم لوگ کم ہنستےاور بہت زیادہ روتے۔

قرآن سے جنت وجہنم کے وجود کا اثبات:

اللہ رب العزت نے انسانوں کو اپنی مغفرت کی طرف جلدی کرنےکاحکم دیا اور فرمایا:

وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ 

(آل عمران:133)

اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں نبی ﷺ کے واقعہ معراج کا تذکرہ کیا اور جنت کے وجود کا بھی اثبات کیاچنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰى،عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰى،عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰى

(النجم:13تا15)

اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا۔سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔ اسی کے پاس جنتہ الماویٰ ہے ۔

جہنم کے بارےمیں فرمایا:

وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْٓ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ

(آل عمران:131)

اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا، لِّلطَّاغِينَ مَآبًا  

(النباء – 21:22)

’’جہنم یقینا ایک گھات ہے،جو سرکشوں کا ٹھکانا ہے۔‘‘

پانچواں مسئلہ عقیدہ : حیات برزخی كا ثبوت

قصہ اسراء و معراج سے حاصل ہونے والے عقائدکےمسائل میں ایک مسئلہ برزخی زندگی کااثبات ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے۔کیونکہ اس کی دلیل قرآن اور سنت نبوی ﷺ سے بکثرت موجود ہے اور رسول اللہ ﷺ نےمعراج كےموقع پر برزخ کی زندگی کے مناظر دیکھے ۔درج ذیل حدیث میں برزخی زندگی کے بارے میں چند شواہدپیش خدمت ہے۔حضرت سمرہ  رضی الله عنه سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

رَأَيتُ لَيلةَ أُسريَ بي رَجُلًا يَسبَحُ في نَهرٍ ويُلقَمُ الحِجارةَ، فسَأَلتُ: ما هذا؟ فقِيلَ لي: آكِلُ الرِّبا8

شب معراج میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو نہر میں تیر رہا تھا اور اس کے منہ میں پتھروں کا لقمہ دیا جا رہا تھا، میں نے اس کے متعلق پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ وہ سودخور ہے۔

ایک اور حدیث میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مررْتُ ليلةَ أُسرِيَ بي بأقوامٍ تُقرضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ من نارٍ ، قُلْتُ : من هؤلاءِ يا جبريلُ ؟ قال : خُطَباءُ أمتِكَ الذينَ يقولونَ ما لا يفعلونَ ويقرؤونَ كتابَ اللهِ ولا يعملونَ بِه

معراج کی رات میں ایسے لوگوں سے گذر ہوا جن کے منہ آگ کے قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں اور پھر ویسے ہوجاتے ہیں ۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ جبریل علیہ السلام نے کہا کہ یہ آپ کی امت کے وہ خطیب ہیں جو لوگوں کو تو بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں مگر خود ان پر عمل نہیں کرتے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لما عُرِجَ بي مررتُ بقومٍ لهم أظفارٌ من نُحاسٍ يخْمِشون وجوهَهم وصدورَهم , فقلتُ: من هؤلاء يا جبريلُ ؟ قال: هؤلاء الذين يأكلون لحومِ الناسِ ، ويقعون في أعراضِهم

صحيح أبي داود: 4878

”جب مجھے معراج کرائی گئی، تو میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا، جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے منہ اور سینے نوچ رہے تھے، میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ کہا: یہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے (غیبت کرتے) اور ان کی عزتوں سے کھیلتے تھے“۔

برزخ سے کیا مراد ہے؟

برزخ سے مراد وہ ٹھکانہ ہے جو موت کے بعد سے لے کر قیامت کے دن زندہ ہونے تک کا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

المؤمنون – 100

اور ان کے پیچھے برزخ کی زندگی ہے جب تک انہیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جاتا۔

 تو انسان کے مرنے کے بعد سے دوبارہ زندہ ہونے تک کا جتنا وقت ہے برزخ کہلاتا ہے اور یہ زندگی قبر کے عذاب یا اس کی نعمت کا محل ہے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وَمِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آگے کی طرف، سامنے اور پیچھے حائل موجود ہے یعنی موت اور حشر کے درمیان برزخ موجود ہے۔9

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ

الغافر – 46

وہ صبح و شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (تو حکم ہوگا کہ) آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔

اس سے بالکل واضح ہے کہ آگ پر پیش کیے جانے کا معاملہ، جو صبح وشام ہوتا ہے، قیامت سے پہلے کا ہے اور قیامت سے پہلے برزخ اور قبر ہی کی زندگی ہے۔ قیامت والے دن ان کو قبر سے نکال کر سخت ترین عذاب یعنی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

امام ابن کثیر رحمه الله نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے:

وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور

 یعنی یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے۔10

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

التوبة – 101

ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

یعنی عنقریب ہم ان منافقوں کو دو دفعہ عذاب دیں گے، ایک دفعہ دنیا میں اور دوسری دفعہ قبر میں۔ 11

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي ، فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا

طه – 124

او جو شخص میری یاد سے روگردانی کرے گا وہ دنیا میں تنگ حال رہے گا اور قیامت کے دن اسے ہم اندھا اٹھائیں گے۔

رسول اللہ ﷺ کی تفسیر

اس آیت کی تفسیر رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے، اس لیے وہی سب سے راجح ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ويضيَّقُ عليْهِ قبرُهُ حتَّى تختلِفَ فيهِ أضلاعُهُ فتلك المعيشة الضنكة التي قال الله: فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا12

یعنی قبر اس پر تنگ ہو جائے گا یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گُھس جائیں گی۔ یهی تنگ حال زندگی كا مطلب ہے۔

قارئین كرام!  نبی كریم ﷺ کے سفر معراج و اسراء سے حاصل هونے والے عقائد كے چندنمایاں مسائل آپ کے سامنے بیان کیے ہیں، جن کا مقصد یہ ہے کہ ہم نبی ﷺ کے معجزات پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے عقائد كی اصلاح کریں اور اپنا ایمان پخته ومضبوط کریں تاکہ ہماری اخروی زندگی كے لیے كار آمد ہوں اورهم قیامت كے دن الله تعالیٰ كے سامنے سرخرو هوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق سے نوازے، آمین۔ یا رب العالمین۔

  1. ( صحيح مسلم:  162 )
  2. (النبراس، ص:295)
  3. (الشفا بتعريف حقوق المصطفى، للقاضي عياض، ص: 191)
  4. (تفسیر خازن ، ج 1 ، ص:158)
  5. (فتح الباري: 7 / 216 ).
  6. (تفسير ابن كثير : 1 / 670)
  7. (صححه شعيب الأرناؤط في تخریج صحیح ابن حبان:6190، والسلسلة الصحيحة: 2668)
  8. صححه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند  : 20101
  9. (تفسیر قرطبی:  12/ 150)
  10. ( تفسیر ابن كثیر سورة غافر)
  11. (جامع البیان 14/ 441)
  12. حسّنه الألباني في صحیح الترغیب : 3561 ،  وشعیب الأرناؤوط في تخریج صحیح ابن حبان: 3113

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ