بسم اللہ ،والحمد للہ ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ، وبعد!
بہت سے لوگ قرآن پاک کی تلاوت کرتے وقت صرف اجر وثواب کی نیت کرتے ہیں ، یہ چیز قرآن وسنت کے مطابق درست ہے كیونكه یہ تو تمام نیکیوں میں مطلوب ہے ،لیکن تلاوت قرآن پاک کے وقت رضائے الہی اوراجر وثواب کی نیت کے ساتھ ساتھ اگر کئی دیگر بڑی نیتیں بھی کرلی جائیں تو اللہ تعالیٰ کی بے شمار انعامات وبرکات کے ساتھ دنیا وآخرت کے بے شمار فوائد بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
إنَّما الأعْمالُ بالنِّيّاتِ، وإنَّما لِكُلِّ امْرِئٍ ما نَوَى
صحيح البخاري: 1
تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے اور بندے کو وہی ملتا ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے۔
نیت کی اہمیت
نیت کی اہمیت درج ذیل حدیث سے لگا سکتے ہیں ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يُبْعَثُ كُلُّ عَبْدٍ علَى ما ماتَ عليه
صحيح مسلم: 2878
ہر بندے کو کو اسی نیت پر اٹھایا جائے گا جس پر وہ دنیا سے چلا گیا ہے۔
اچھی نیت کے فوائد
اچھی نیت کے کا فائدہ یہ ہے کہ کہ اگرکسی نے کسی نیکی کا ارادہ کیا اور پھر اسے کسی عذر نے روک دیا تو وہ عمل کرنے والوں کے اجر کا مستحق ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے۔
إذَا مَرِضَ العَبْدُ، أوْ سَافَرَ، كُتِبَ له مِثْلُ ما كانَ يَعْمَلُ مُقِيمًا صَحِيحًا
صحيح البخاري: 2996
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر کرتا ہے تو اس کے لیے ان تمام عبادات کا ثواب لکھا جاتا ہے جنہیں اقامت یا صحت کے وقت یہ کیا کرتا تھا۔
علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
علی العاقل أن یكثر من النوافل ما دام في حال الصحة لأن جمیع النوافل التي یعملها في صحته إذا مرض وعجز عنها كُتبت له كاملة كأنه یفعلها
الشرح الممتع : ج 4 ص:80
عاقل آدمی کو چاہیئے کہ جب تک صحت کی حالت میں ہو کثرت سے نفلی نمازیں پڑھے۔ اس لیے کہ وہ تمام نفل نمازیں جو وہ صحت کی حالت میں پڑھتارہا، اگر وہ بیمار ہو جائے اور ان کو ادا نہ کر سکے تو وہ اس کے لیے مکمل نماز ہی لکھی جاتی ہیں، گویا وہ ان کو پڑھ رہا ہے۔
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ في غَزَاةٍ، فَقالَ: إنَّ أَقْوَامًا بالمَدِينَةِ خَلْفَنَا، ما سَلَكْنَا شِعْبًا وَلَا وَادِيًا إلَّا وَهُمْ معنَا فِيهِ، حَبَسَهُمُ العُذْرُ
صحيح البخاري : 2839
نبی کریم ﷺ ایک غزوہ (تبوک) میں شریک تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کچھ لوگ مدینہ میں ہمارے پیچھے رہ گئے ہیں لیکن ہم کسی بھی گھاٹی یا وادی میں (جہاد کے لیے) چلیں وہ ثواب میں ہمارے ساتھ ہیں کہ وہ صرف عذر کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں آسکے۔ صحیح مسلم میں بیماری کا تذکرہ ہے ۔
إنَّ بالمَدِينَةِ لَرِجَالًا ما سِرْتُمْ مَسِيرًا، وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِيًا، إلَّا كَانُوا معكُمْ؛ حَبَسَهُمُ المَرَضُ. وفي رواية: إلَّا شَرِكُوكُمْ في الأجْرِ
صحيح مسلم: 1911
جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جہاں بھی تم چلے اور جس وادی کو بھی تم نے طے کیا وہ ( ہر ایک کے اجر میں) تمہارے ساتھ تھے، انہیں مرض نے تمہارے ساتھ آنے سے روک رکھا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ مگر وہ لوگ تمہارے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں۔
نبی ﷺ ایسے لوگوں کے بارے میں بتا رہے ہیں جو کسی مرض یا اس طرح کی کسی اور مجبوری کی وجہ سے جہاد فی سبیل اللہ میں شریک نہ ہو سکے۔ آپ ﷺ بتا رہے ہیں کہ جہاد کرنے والے جتنا بھی چلے ہیں اور انہوں نے جس وادی اور گھاٹی کو بھی عبور کیا ہے ان کے اس عمل کا ثواب ان لوگوں کے لیے بھی لکھا گیا ہے۔
لہذا ہمیں اس دنیائے فانی میں میسر آنے والے زندگی کے لمحات اور مواقع کو غنیمت جان کر زیادہ سے زیادہ اچھے اعمال کرنے میں گزارنا چاہئے ۔اس کا سب سے بڑا تو اچھی نیت کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کوئی بیماری ،سفر یا کسی اور عذر کے سبب نیک اعمال ادا نہ کرسکےتو اس بندے کے لیے ویسے ہی اعمال لکھے جاتے ہیں، جیسے کہ وہ حالتِ اقامت اور زمانہ صحت میں کیا کرتا تھا۔
نیت کی اہمیت اور سلف صالحین کے اقوال
یحییٰ بن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تعلموا النية فإنها أبلغ من العمل
حلية الأولياء لأبي نعيم : 3/70
نیت کو درست کرو کیونکہ نیت عمل سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
زبید الیامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إني لأحب أن تكون لي نية في كل شيء حتى في الطعام والشراب
جامع العلوم والحكم: 70
میں پسند کرتا ہوں کہ ہر چیز میں میری نیت مستحضر ہو یہاں تک کہ کھانے پینے میں بھی۔
ابن ھیرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ بغیر نیت کے کوئی عمل قبول نہیں کرتا، یہاں تک کہ ایک مسلمان کو اس کی نیت کے مطابق اس کے کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے اور سونے جاگنے پر بھی اللہ تعالیٰ کئی گنا بڑھا کر اجروثواب عطا کرتا ہے۔(الافصاح عن معاني الصحاح: 1/136)
بعض سلف سے مروی ہے:
من سره أن يكمل له عمله فليحسن نيته فإن الله عز وجل يأجر العبد إذا حسنت نيته حتى باللقمة
جامع العلوم والحكم: 71
جو شخص چاہتا ہے کہ اس کے عمل پر اسے پورا اجر ملے تو چاہئے کہ وہ اپنی نیت درست رکھے، کیونکہ اللہ عزوجل بندے کو اس کے حسن نیت پر اجر دیتا ہے یہاں تک کہ لقمہ پر بھی۔
سلف صالحین کے اقوال اور حدیث نبوی ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ نیت عمل سے زیادہ اہمیت کے حامل ہے۔
تلاوت قرآن کے وقت چند خاص نیتیں
ذیل میں بطور مثال کچھ نیتیں ذکر کی جارہی ہیں جنہیں تلاوت قرآن کے وقت یاد رکھنا بہتر ہوگا۔
حصولِ شفا
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ اللہ تعالی قرآن کو ہمارے لئے تمام بیماریوں کیلئےشفا کا سبب بنا دے کیونکہ قرآن مجید کو خود اللہ تعالیٰ نے شفا ء قرار دیا ہے ، یہ روحانی اور جسمانی دونوں قسم کی بیماریوں کا علاج ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ
یونس – 57
لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آچکی۔ یہ دلوں کے امراض کی شفا اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے ۔
ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ
فصلت – 44
آپ کہہ دیجیے کہ یہ قرآن باعث ہدایت و شفا ہے ان لوگوں کے لئے جو اہل ایمان ہیں۔
ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا
الاسراء – 82
اور ہم قرآن میں جو کچھ نازل کرتے ہیں وہ مومنوں کے لئے تو شفا اور رحمت ہے مگر ظالموں کے خسارہ میں ہی اضافہ کرتا ہے۔
امام ابن جوزی رحمہ الله کا قول
امام ابن قیم رحمہ الله فرماتے ہیں کہ اللہ نے آسمان سے کوئی ایسی شفا نازل نہیں کی جو بیماری کو دور کرنے میں قرآنِ كریم سے زیادہ نفع مند اور عظیم تر اور کامیاب ہو۔ (الجواب الکافی لابن القیم:1؍ 3)
حصولِ شفاعت
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ اللہ تعالی قرآن کو ہمارے لئے سفارش کا سبب بنا دے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
اقْرَؤُوا القُرْآنَ فإنَّه يَأْتي يَومَ القِيامَةِ شَفِيعًا لأَصْحابِهِ، اقْرَؤُوا الزَّهْراوَيْنِ البَقَرَةَ، وسُورَةَ آلِ عِمْرانَ، فإنَّهُما تَأْتِيانِ يَومَ القِيامَةِ كَأنَّهُما غَمامَتانِ، أوْ كَأنَّهُما غَيايَتانِ، أوْ كَأنَّهُما فِرْقانِ مِن طَيْرٍ صَوافَّ، تُحاجَّانِ عن أصْحابِهِما، اقْرَؤُوا سُورَةَ البَقَرَةِ، فإنَّ أخْذَها بَرَكَةٌ، وتَرْكَها حَسْرَةٌ، ولا تَسْتَطِيعُها البَطَلَةُ
صحيح مسلم: 804
ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرما رہے تھے:قرآن پڑھا کرو کیوں کہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا۔کھلتے ہوئے پھولوں کی مانند دو سورتیں سورة البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو، کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن بدلیوں کی صورت میں یایہ دونوں پرندوں کی صورت میں یا پر پھیلائے ہوئے پرندوں کے دو غولوں میں آئیں گی اور اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں جھگڑا کریں گی۔ سورة البقرة پڑھا کرو کیوں کہ اس کا پڑھنا باعث برکت اور اس کا چھوڑ نا باعث حسرت ہےاور باطل لوگ اسے پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصيامُ والقرآنُ يشفعانِ للعبدِ يومَ القيامَةِ ، يقولُ الصيامُ : أي ربِّ إِنَّي منعْتُهُ الطعامَ والشهواتِ بالنهارِ فشفِّعْنِي فيه ، يقولُ القرآنُ ربِّ منعتُهُ النومَ بالليلِ فشفعني فيه ، فيَشْفَعانِ
صحيح الجامع: 3882 ، ومسند احمد :2/176
روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گےروزہ کہے گا اے میرے رب ! میں نے اسے دن میں کھانے پینے اور شہوت کے کام سے روکے رکھا تھا ، لہذا اس کے بارے میں میری شفاعت قبول فرما ، قرآن کہے گا اے رب ! ہم نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا تھا ، لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما ، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان دونوں کی سفارش قبول فرمالے گا۔
حصولِ مغفرت
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ اللہ تعالی قرآن کو ہمارے گناہوں کی مغفرت کا سبب بنا دے کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
سورةٌ منَ القرآنِ ثلاثونَ آيةً تشفعُ لصاحبِها حتَّى يغفرَ لَهُ (تبارَكَ الَّذي بيدِهِ الملْكُ)
صحيح أبي داود: 1400، وصحيح الترمذي: 2891
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”قرآن کی ایک سورۃ جو تیس آیتوں والی ہے اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہو جائے اور وہ «تبارك الذي بيده الملك» ہے۔
کثرتِ حسنات
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ تلاوت قرآن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کریں۔ کیونکہ قرآن کی تلاوت ایک نیک عمل ہے اور قرآن وحدیث میں آتا ہے کہ ایک نیکی کا اجر دس نیکیوں کے برابردیا جاتا ہے ، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا
الانعام – 160
جو شخص نیکی کرے گا تو اسے(بطوراجر) اس کا دس گنا ملے گا۔
اور آپ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ جس نے قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے اس کے بدلے دس نیکیاں ہیں ،جیساکہ درج ذیل حدیث میں مذکور ہے :
مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ
صحيح الترمذي: 2910
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی ، اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی ، میں نہیں کہتا « الم » ایک حرف ہے ، بلکہ « الف » ایک حرف ہے ، « لام » ایک حرف ہے اور « میم » ایک حرف ہے “ (یعنی الم پڑھنے پر تیس نیکیاں ملیں گی)۔
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا۔ یہ کم ازکم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور احادیث دونوں سے ثابت ہے کہ بعض نیکیوں کا اجر کئی کئی سو گنا بلکہ ہزاروں گنا تک ملے گا۔ جیساکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ
صحيح مسلم: 1151
ابن آدم کے ہر عمل میں روزے کے علاوہ نیکی کو دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔
اللہ کی عبادت
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ تلاوتِ کلام پاک کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ، كیونكہ تلاوت قرآن خود اللہ رب العزت کا فعل ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ
القیامة – 18
جب ہم اس کی قراءت پوری کرلیں تو آپ ﷺ اسے پڑھ لیا کیجیے۔
اور جب اللہ رب العزت نے نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا، تو آپ ﷺ کے فرائض منصبی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ
الکھف – 27
اے نبی! جو کچھ آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے، اپنے پروردگار کی کتاب میں سے وہ انہیں پڑھ کر سنا دو۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا
المزمل – 4
اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھئے ۔
تیسرے مقام پراللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ
المزمل – 20
پس جتنا آسان ہو قرآن پڑھ لیا کرو۔
ان تینوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قرآن كریم كوپڑھنے کا حکم دیا ہے۔
درج بالا قرآنی آیات اور احادیث سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن ایک عظیم عبادت ہے۔ مزید براں قرآن پاك كی تلاوت نبی کریمﷺ کا محبوب عمل اور حضرات صحابہ کرام کا پسندیدہ مشغلہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں اور رسول ﷺ نے کلام اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے، تو جس چیز کی یہ شان واہمیت ہو اس کے پڑھتے ہوئے چند بڑی نیتیں بھی کر لی جائیں تو اس کے فوائد وثمرات بھی کیا کچھ ہوں گے۔ لہذا قرآن مجید روزانہ جتنا ممکن ہو سکے پڑھنا چاہیئے، یہ عظیم عبادت اور مومن کیلئے بہت اہم اور مفید ہے۔
جہنم سے نجات
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ تلاوت قرآن سے ہمیں جہنم سے نجات حاصل ہو۔ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں:
لو جُعِل القرآنُ في إهابٍ ، ثمَّ أُلقي في النَّارِ؛ ما احترق
السلسلة الصحيحة: 3562 / وأحمد :17365
اگر قرآن کو کسی چمڑے میں لپٹا کرآگ میں ڈال دیا جائے تو اللہ تعالی اسے آگ سے نہیں جلائے گا۔
درجات کی بلندی
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ قرآن کی ہر آیت پر عمل کرنے کی نیت ہو تاکہ جنت میں بلند درجات حاصل ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
يُقالُ لصاحِبِ القرآنِ اقرأ وارتَقِ ورتِّل كما كنتَ ترتِّلُ في الدُّنيا فإنَّ منزلَكَ عندَ آخرِ آيةٍ تقرؤُها
صحيح أبي داود: 1464
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (روزِ قیامت) قرآن مجید پڑھنے والے سے کہا جائے گا : قرآن مجید پڑھتا جا اور جنت میں منزل بہ منزل اُوپر چڑھتا جا اور یوں ترتیل سے پڑھ، جیسے تو دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا، تیرا ٹھکانا جنت میں وہاں پر ہوگا جہاں تو آخری آیت تلاوت کرے گا۔‘‘
سکون اور رحمتِ الہی کا نزول
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ ہمارےگھروں میں رحمت الہی کے نزول ہو۔
وَما اجْتَمع قَوْمٌ في بَيْتٍ مِن بُيُوتِ اللهِ، يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بيْنَهُمْ؛ إِلَّا نَزَلَتْ عليهمِ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَحَفَّتْهُمُ المَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَن عِنْدَهُ
صحيح مسلم: 2699
جب کوئی قوم اللہ کے کسی گھر میں جمع ہو کر اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتی ہے اور اسے آپس میں پڑھتی پڑھاتی ہے، تو ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت ان کو گھیر لیتی ہے اور فرشتے ان کو ڈھانپ لیتے ہیں اور ان کا ذکر اللہ تعالی اپنے پاس کے لوگوں کے سامنے فرماتے ہیں۔
کیونکہ سکون اور اطمنان قرآن پڑھنے سے ملتا ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن کو آہستہ اور غور سے پڑھےتو سکون اس وقت تک اترتا رہتا ہے جب تک کہ پڑھنے والے کے دل تک نہ پہنچ جائے۔
رنج وغم کا مداوا
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ اس قرآن سے ہمارے دلوں کوتازگی، ہماری آنکھوں کو روشنی اور ہمارے رنج و غم کا مداوا ہو۔ کیونکہ یہ قرآن مومنین کے لئے موسم بہار کی طرح ہے جس طرح زمین کے لئے بارش۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے:
اے اللہ! تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور، میرے غم کو دور کرنے والا، اور میری پریشانی کو لے جانے والا بنا دے۔
ذریعہ ہدایت
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ کلام الہی کی تلاوت ہمارے لئے ہدایت کا سبب بنے ۔کیونکہ نزولِ قرآن کا ایک مقصد ہدایت ہے، ارشاد ربانی ہے :
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ
البقرۃ – 2
یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں، اس میں ان ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔
إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا
الاسراء – 9
یہ قرآن تو وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور جو لوگ ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں انھیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
المائدۃ – 15/16
تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور واضح کتاب آچکی ہے۔ جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں اور انہیں اپنے حکم سے اندھیریوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، اور انہیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔
محبتِ الہی
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ کلام الہی کی تلاوت کے نتیجے میں ہمیں اللہ کی محبت حاصل ہو۔ حدیث میں آتا ہے:
أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا علَى سَرِيَّةٍ، وكانَ يَقْرَأُ لأصْحَابِهِ في صَلَاتِهِمْ فَيَخْتِمُ بقُلْ هو اللَّهُ أحَدٌ، فَلَمَّا رَجَعُوا ذَكَرُوا ذلكَ للنبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَ: سَلُوهُ لأيِّ شيءٍ يَصْنَعُ ذلكَ؟، فَسَأَلُوهُ، فَقالَ: لأنَّهَا صِفَةُ الرَّحْمَنِ، وأَنَا أُحِبُّ أنْ أقْرَأَ بهَا، فَقالَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: أخْبِرُوهُ أنَّ اللَّهَ يُحِبُّهُ
صحيح البخاري : 7375
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو لشکر کی ایک ٹکری کا امیر بنا کر بھیجا، وہ اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھایا کرتا تھا، اور قرأت «قل هو اللہ أحد» پر ختم کرتا تھا، جب لوگ لوٹ کر واپس آئے، تو لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”ان سے پوچھو، وہ ایسا کیوں کرتے تھے؟“ ان لوگوں نے ان سے پوچھا: انہوں نے کہا: یہ رحمن عزوجل کی صفت ہے، اس لیے میں اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ اسے بتا دو کہ اللہ عزوجل بھی اسے پسند کرتا ہے“۔
نزولِ ملائکہ
ہم قرآن مجید کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ کلام الہی کی تلاوت کے نتیجے میں ہمارے گھروں میں رحمت کے فرشتے نازل ہوں۔ حدیث میں آتا ہے:
بيْنَما هو يَقْرَأُ مِنَ اللَّيْلِ سُورَةَ البَقَرَةِ، وفَرَسُهُ مَرْبُوطَةٌ عِنْدَهُ، إذْ جالَتِ الفَرَسُ، فَسَكَتَ فَسَكَتَتْ، فَقَرَأَ فَجالَتِ الفَرَسُ، فَسَكَتَ وسَكَتَتِ الفَرَسُ، ثُمَّ قَرَأَ فَجالَتِ الفَرَسُ، فانْصَرَفَ، وكانَ ابنُهُ يَحْيَى قَرِيبًا مِنْها، فأشْفَقَ أنْ تُصِيبَهُ، فَلَمَّا اجْتَرَّهُ رَفَعَ رَأْسَهُ إلى السَّماءِ، حتَّى ما يَراها، فَلَمَّا أصْبَحَ حَدَّثَ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، فقالَ: اقْرَأْ يا ابْنَ حُضَيْرٍ، اقْرَأْ يا ابْنَ حُضَيْرٍ، قالَ: فأشْفَقْتُ يا رَسولَ اللَّهِ أنْ تَطَأَ يَحْيَى، وكانَ مِنْها قَرِيبًا، فَرَفَعْتُ رَأْسِي فانْصَرَفْتُ إلَيْهِ، فَرَفَعْتُ رَأْسِي إلى السَّماءِ، فإذا مِثْلُ الظُّلَّةِ فيها أمْثالُ المَصابِيحِ، فَخَرَجَتْ حتَّى لا أراها، قالَ: وتَدْرِي ما ذاكَ؟ قالَ: لا، قالَ: تِلكَ المَلائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ، ولو قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَنْظُرُ النَّاسُ إلَيْها، لا تَتَوارَى منهمْ
صحيح البخاري: 5018
حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رات کے وقت وہ سورة البقرہ کی تلاوت کر رہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا۔ اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا تو انہوں نے تلاوت بند کردی تو گھوڑا بھی رک گیا۔ پھر انہوں نے تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر بدکنے لگا۔ اس مرتبہ بھی جب انہوں نے تلاوت بند کی تو گھوڑا بھی خاموش ہوگیا۔ تیسری مرتبہ انہوں نے تلاوت شروع کی تو پھر گھوڑا بد کا۔ ان کے بیٹے یحییٰ چونکہ گھوڑے کے قریب ہی تھے اس لیے اس ڈر سے کہ کہیں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ انہوں نے تلاوت بند کردی اور بچے کو وہاں سے ہٹا دیا پھر اوپر نظر اٹھائی تو کچھ نہ دکھائی دیا۔ صبح کے وقت یہ واقعہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ابن حضیر! تم پڑھتے رہتے تلاوت بند نہ کرتے (تو بہتر تھا) انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے ڈر لگا کہ کہیں گھوڑا میرے بچے یحییٰ کو نہ کچل ڈالے، وہ اس سے بہت قریب تھا۔ میں نے سر اوپر اٹھایا اور پھر یحییٰ کی طرف گیا۔ پھر میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو ایک چھتری سی نظر آئی جس میں روشن چراغ تھے۔ پھر جب میں دوبارہ باہر آیا تو میں نے اسے نہیں دیکھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں معلوم بھی ہے وہ کیا چیز تھی؟ اسید نے عرض کیا کہ نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ وہ فرشتے تھے تمہاری آواز سننے کے لیے قریب ہو رہے تھے اگر تم رات بھر پڑھتے رہتے تو صبح تک اور لوگ بھی انہیں دیکھتے وہ بھی لوگوں کی نظروں سےاوجھل نہ ہوتے۔
شیطان سے حفاظت
ہم قرآن مجید کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ کلام الہی کی تلاوت کے نتیجے میں ہمارے گھر شیطان کے شرسے محفوظ رہے۔ حدیث میں آتا ہے:
إِنَّ اللهَ كتب كتابًا قبلَ أنْ يَخْلُقَ السمواتِ والأرضَ بِألفَيْ عَامٍ ، أنْزَلَ مِنْهُ آيَتَيْنِ ، خَتَمَ بِهما سورةَ البَقَرَةِ ، لا يقْرَآنِ في دَارٍ ثلاثَ لَيالٍ فَيَقْرَبُها شَيْطَانٌ
صحيح الترغيب: 1467، وصحيح الترمذي: 2882
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس کتاب کی دو آیتیں نازل کیں اور انہیں دونوں آیتوں پر سورۃ البقرۃ کو ختم کیا، جس گھر میں یہ دونوں آیتیں ( مسلسل ) تین راتیں پڑھی جائیں گی ممکن نہیں ہے کہ شیطان اس گھر کے قریب آسکے“۔
حضرت علی مرتضی ٰرضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
مَن یقرأ القرآنَ لا یزالُ فی حِرَزٍ وحِصْن
کنز العمال،ج1،ص:272
جو قرآن کی تلاوت کرتا رہتاہے وہ ہمیشہ اللہ کی پناہ اورحفاظت میں ہوتا ہے۔
ایمان میں اضافہ
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ کلام الہی کی تلاوت کے نتیجے میں ہمارے ایمان میں زیادتی اور اضافہ ہو ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
وَإِذَا مَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
التوبة – 124
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو منافقین میں سے بعض (بطور استہزا) پوچھتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا دیا ہے؟ پس جو اہل ایمان ہیں ان کے ایمان میں اضافہ کردیا ہے اور وہ اس سے خوش ہورہے ہیں۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
الانفال – 2
سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب اللہ کی آیات انہیں سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
نیک بندوں میں شمولیت
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ اس تلاوت کے بدلے اللہ تعالی ہمیں اپنے خاص بندوں میں شامل فرما لے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
إنَّ للهِ أَهْلينَ منَ النَّاسِ قالوا: يا رسولَ اللهِ ، من هُم ؟ قالَ: هم أَهْلُ القرآنِ ، أَهْلُ اللهِ وخاصَّتُهُ
صحيح ابن ماجه: 179
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”لوگوں میں سے کچھ اللہ والے ہیں“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ قرآن پڑھنے پڑھانے والے ہیں، جو اللہ والے اور اس کے نزدیک خاص لوگ ہیں۔
قرآن والے یعنی قرآن پڑھنے والے، یاد کرنے والے، احادیث رسول ﷺ کے ذریعے سے اس کا فہم حاصل کرنے والے، اس پر عمل کرنے والے، اور اس کی تبلیغ کرنے والے، یہ سب قرآن والوں میں شامل ہیں۔
قرآن والے یعنی قرآن پڑھنے والے، یاد کرنے والے، احادیث رسول ﷺ کے ذریعے سے اس کا فہم حاصل کرنے والے، اس پر عمل کرنے والے، اور اس کی تبلیغ کرنے والے، یہ سب قرآن والوں میں شامل ہیں۔
وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ
الانعام – 92
اور یہ کتاب جو ہم نے اتاری ہے بڑی خیر و برکت والی ہے۔
اور اسی خیر وبرکت کے بابت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَيُحِبُّ أحَدُكُمْ إذا رَجَعَ إلى أهْلِهِ أنْ يَجِدَ فيه ثَلاثَ خَلِفاتٍ عِظامٍ سِمانٍ؟ قُلْنا: نَعَمْ، قالَ: فَثَلاثُ آياتٍ يَقْرَأُ بهِنَّ أحَدُكُمْ في صَلاتِهِ، خَيْرٌ له مِن ثَلاثِ خَلِفاتٍ عِظامٍ سِمانٍ
صحيح مسلم: 802
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ جب گھر میں لوٹ جائے تو وہاں تین حاملہ اور فربہ و بڑی اونٹنیاں پائے؟ ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو شخص اپنی نماز میں قرآن کی تین آیتیں پڑھتا ہے تو وہ اس کے لئے تین حاملہ اور بڑی موٹی اونٹنیوں سے بہتر ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
نوِّرُوا منازلکم بالصلاة وقرأة القرآن
الاتقان في علوم القرآن،ج1،ص137
اپنے گھروں کو نماز اور قرآن کی تلاوت سے منور کریں۔
علم ومعرفت
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ کلام الہی کی تلاوت کے ذریعے ہمیں اپنے رب کے بارے میں مزید علم و معرفت حاصل ہوجیساکہ اللہ نے ارشاد فرمایا:
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ
العنکبوت – 49
بلکہ یہ قرآن تو صاف اور واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہیں جن کو علم دیا گیا ہے اور ہماری آیات کو ماننے سے انکار صرف وہی کرتے ہیں جو ظالم ہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
مَنْ أَرَادَ الْعِلمَ فَعَلَيْهِ بِالْقُرْآنِ ، فَإِنَّ فِيهِ خَبَرَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ
الاتقان في علوم القرآن،ج2،ص :160
کہ جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ قرآن کا مطالعہ کرے کیونکہ اس میں اگلوں اور بعد کی نسلوں کی معلومات موجود ہیں۔
یعنی قرآن پاک کی تلاوت اس نیت کے ساتھ کریں کہ علم میں اضافہ ہو، تاکہ ہمارے اندر اللہ کے لیے مزید عاجزی اور انکساری پیدا ہو اور ہر وقت اور ہر لمحہ اللہ کے محتاج اور اس سے مدد د کے طالب ہوں ۔کیونکہ قرآن علم و حکمت کی کتاب ہے۔ قرآن کریم امت کے لیے ایک طرز زندگی ہے اور اس میں وہ رہنمائی ہے جو کسی اور کتاب میں نہیں ملتی۔
خاتمہ خیر
ہم قرآن پاک کی تلاوت اس نیت سے کریں کہ ہمارا خاتمہ قرآن پر ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو شہادت کے رتبہ سے نواز جب وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو جیسی زندگی گزارتا ہے اسی پر اس کی موت ہوتی ہے اور جس حالت پر موت ہوتی ہے اسے اسی حالت میں دوبارہ زندہ اٹھایا جائے گا۔یہ بات انہوں نے درج ذیل آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے کہی۔
أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
الجاثیة – 21
جو لوگ بداعمالیاں کر رہے ہیں کیا وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کردیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہوگا یہ کیسا برا فیصلہ کر رہے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کا پابند بنائے نیز اسے سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔