جشن یا تفریح فارغ وقت میں دلچسپ سرگرمی اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں مستعمل ہے۔ دورِ جدید میں تفریح انسانی زندگی کے معمولات کا لازمی حصہ بن چکی ہے۔ تیز مشینی دور اور مقابلے کی فضا میں کام کرنے سے انسان تھک کر چُور ہو جاتا ہے اس کا حل تفریح میں ڈھونڈا گیا ہے۔ مگر بہت سی تفریحی سرگرمیاں انسان کو دوبارہ کام کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ اس سے دین بھی چھین لیتی ہیں۔
جشن یا تفریح کیا ہے؟
تفریح عربی زبان کا لفظ ہے جو ”فرح“ سے مشتق ہے جس کے معنی گپ شپ، دل لگی ، ہنسی مذاق ،خوشی و مسرت ، فرحت اور اطمینان وغیرہ حاصل کرنے کے آتے ہیں۔ فرح کے بارے میں امام ابن القيم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الفرح لذة تقع في القلب بإدراك المحبوب 1
کہ پسندیدہ چیز کے پا لینے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے اسی کو فرحت اور خوشی کہتے ہیں۔
اگر یہ فرحت احساسِ نعمت اور شکر گزاری سے تعبیر ہو اور اس کے فضل و کرم کے استحضار پر مبنی ہو تو وہ شرعاً مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا
یونس – 58
آپ کہہ دیجیے کہ انہیں اللہ کے اس فضل اور اس رحمت پر خوش ہونا چاہیے۔
اسلام میں جشن کا تصور
دینِ اسلام کے اندر خوشی ، جشن یا تفریح کا تصورقرآنی تعلیمات اور احادیثِ نبوی پر مبنی ہے۔ جس میں حلال و حرام، شرم و حیا اور اخلاقی پابندیوں کو اہم مقام حاصل ہے۔ اور جس تفریح یا جشن کی بنیاد دین سے دوری، اسلامی تعلیمات سے غفلت و بے پرواہی پر ہو، مشرکین ، یہود و نصاری اور کفارکی نقالی پر ہو ، کفر وشرک کے شعار پر ہو اور لھو الحدیث کے زمرے میں آتا ہو تو اس تفریح سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ جیسے آج کل تفریح ، جشن اور کھیل کے نام پر عریانی و فحاشی، بے ہنگم موسیقی، شراب نوشی، جوئے بازی، لاٹری، فحش ایپی سوڈ، مخلوط مجالس کا تصورعام ہو چکا ہے جس سے معاشرے میں حرص و ہوس، صحت و اخلاق کی خرابی، ذہنی بے سکونی اور جنسی پیاس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کو’ آرٹ یا فن‘ کا نام دیا جاتا ہے اور اعلی تہذیب کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ جس کی مثال مغربی معاشرے میں دیکھی جا سکتی ہے۔
قرآن میں اہلِ ایمان کی نشانی
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی خوبی اور نشانی یہ بتائی ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ
المؤمنون – 3
اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ بیہودہ باتوں سے دور رہتے ہیں ۔
لَغْو کا مفہوم
لغو سے مراد باطل یعنی ہر فضول اور لایعنی قول یا فعل ہے۔ شرک اور گناہ کے تمام کام بھی اس کی تعریف میں آتے ہیں۔2
یعنی ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا اس میں دینی یا دنیاوی نقصانات ہوں ان سے پرہیز مقصود ہے۔ یعنی ان کی طرف خیال بھی نہ کیا جائے۔ چہ جائیکہ انہیں اختیار یا ان کا ارتکاب کیا جائے۔
انسان کو دنیا میں بھیجنے کا مقصد
اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کر کے اس دنیا میں بھیجا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ
الملک – 2
جس نے موت اور زندگی کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر غالب بھی ہے اور بخش دینے والا بھی ۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اندر انسان کو پیدا کیا اور اس کی موت و حیات کا سلسلہ قائم کیا اسے قوت ارادہ و اختیار اور عقل و تمیز عطا کی کہ دیکھا جائے کہ کون کائنات کی دوسری اشیاء کی طرح اللہ کے حکم کے سامنے سرِِ تسلیم خم کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ کون اچھے اعمل کرتا ہے اور کون نہیں کرتا۔ گویا یہ دنیا ہر انسان کے لیے دار الامتحان ہے اور اس امتحان کا وقت انسان کی موت تک ہے۔ اس حقیقت سے یہ معلوم ہوا کہ زندگی اللہ پاک کا عظیم عطیہ اور قیمتی امانت ہے۔ اس کا درست استعمال انسان کے لیے دنیوی کامیابی اور اخروی سرفرازی کا سبب ہے اور اس کا ضیاع انسان کو ہلاکت و بربادی کے دہانے تک پہنچا دیتا ہے۔
اللہ کے سامنے جوابدہی
جشنِ سالِ نو کے نام پر عریانی و فحاشی، شراب نوشی، جوئے بازی اور مشرکین، یہود ونصاری اور کفارکی نقالی اختیار کرنے سے پہلے انسان یہ سوچ لے کہ کل قیامت کے دن اپنے ہر قول و عمل کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے پورا حساب دینا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا تَزُولُ قَدَمَا ابنِ آدمَ يومَ القيامةِ مِن عندِ ربِّه، حتى يُسْأَلَ عن خَمْسٍ: عن عُمُرِه فِيمَ أَفْنَاه؟ وعن شبابِه فِيمَ أَبْلَاه؟ وعن مالِه مِن أين اكتسبه وفِيمَ أنفقه؟ وماذا عَمِل فيما عَلِم؟3
قیامت کے دن ابن آدم کے قدم اپنے رب کے پاس سے اس وقت تک حرکت نہیں کریں گے جب تک اس سے پانچ سوال نہ کر لئے جائیں۔ اس کی عمر کے متعلق کہ کس کام میں ختم کی؟ اس کی جوانی کے متعلق کہ کس کام میں بوسیدہ کی؟ اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا؟ کہاں خرچ کیا؟ اور جتناعلم تھا اس پر کتنا عمل کیا؟
اس حدیث کے مطابق جن چیزوں کے متعلق استفسار ہوگا ان میں سب سے پہلے اس زندگی کے بارے میں سوال ہوگا جس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اس لیے اسے حیات مستعار سمجھتے ہوئے اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری میں گزارنا چاہیئے کیونکہ اس زندگی کا مکمل حساب لیا جائے گا۔ اگر ہم نے اس قیمتی سرمائے کو بے عملی اور اللہ کی نافرمانی میں ضائع کر دیا تو روزِ قیامت حسرت اور ندامت کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان کسی بھی عمل کو انجام دینے سے پہلے اس بات پر بہ خوبی غور کر لے کہ اس عمل کے ارتکاب کی صورت میں وہ کل کیا صفائی پیش کرے گا اور اپنے معبودِ حقیقی کو کیا منہ دکھائے گا؟؟۔
اسی طرح جوانی میں انسان اپنے آپ کو اللہ و رسول کے حرام کردہ چیزوں سے بچائے۔ اس میں کوتاہی کرنے کی صورت میں اللہ کی گرفت سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔ اسی طرح مال و دولت کماتے اور خرچ کرتے وقت دونوں صورتوں میں اللہ کا خوف سامنے رکھے، اسی طرح حاصل کردہ علم کے مطابق عمل کے بارے میں سوال ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دین و شریعت کا علم حاصل کرے کیونکہ یہی اس کے لیے فائدہ مند اور نفع بخش ہے۔
جشنِ سالِ نو کی حقیقت
یہ جشن دراصل یہود و نصاری کی عید ہے جو یورپ سے ہمارے اندر آئی ہے۔ چونکہ رقص و ساز ان کا فن ہے، فحاشی و عریانی ان کی تہذیب ہے، زنا و شراب نوشی ان کا کلچر ہے لہذا ان کی ہر عید اور جشن میں بھی یہ چیزیں واضح طور پر موجود رہتی ہیں بلکہ ان کی عیدوں میں فحاشی و عریانیت کی بعض ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جو انسانیت و اخلاق سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔
جشنِ سالِ نو کی خرافات
آج مسلمانوں نے دیگر اقوام کی دیکھا دیکھی بہت سی ایسی چیزوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیا اور انہیں اپنے لیے لازم و ضروری سمجھ لیا جو دین و دنیا دونوں کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ہیں۔ ان ہی خرافات اور ناجائز رسومات میں سالِ نو کا جشن بھی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سالِ نو کے جشن میں کیا کیا خرافات اور قباحتیں پائی جاتی ہیں۔
کفار اور مشرکین کی نقالی
جشنِ سالِ نو کے اندر پائی جانے والی خرابیوں میں ایک خرابی یہ ہے کہ اس میں یہود و نصاری اور مشرکین و کفار کی نقالی پائی جاتی ہے اور نبی کریم ﷺ نے دوسری قوموں کی عادات، رسم و رواج ، طور طریقے اور مذہبی شعار اپنانے سے منع فرمایا ہے اور اسے دائرہِ اسلام سے نکل کر انہی کے مذہب کے دائرے میں داخل ہونے کے مترادف قرار دیا ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
من تشبَّهَ بقومٍ فهوَ منهم
صحيح أبي داود – 4031
”جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے‘‘۔
لہذا کفار کے عقائد و عبادات اور اُن عادات و اطوار میں مشابہت جو کہ اُن کی پہچان ہیں کسی طور پر بھی جائز نہیں۔ اس کا نتیجہ بعض مرتبہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان جیسی عظیم اور لا زوال نعمت چھن جاتی ہے۔
نئے سال كی مبارک باد
نئے سال کی مبارک باد کی کچھ حیثیت اور افادیت ہوتی تو سب سے پہلے نبی کریم ﷺ اس کی طرف توجہ فرماتے اور محرم الحرام کی پہلی تاریخ کا استقبال دھوم دھام سے کیا جاتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم مسلمان کیوں نئے سال کا جشن منائیں؟ کیونکہ اس رسم کو نہ تو آپ ﷺ نے نہ خلفائے راشدین نے اورنہ ہی دیگر صحابہ کرام نے انجام دیا ہے۔ حالانکہ اس وقت تک اسلام ایران،عراق،مصر،شام اور مشرقِ وسطیٰ کے اہم ممالک تک پھیل چکا تھا۔ لہذا مسلمانوں كے لیے عیسوی سال کی ابتدا پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے اور اسی طرح اس دن تہوار کی شکل میں جشن منانا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ ہر دو صورت میں کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے اور ہمیں ایسا کرنے سے روکا گیا ہے۔ اور ویسے بھی ہر سال اسی دن کے آنے پر مبارکباد دینا ہی اسے عید یعنی سال کے بعد آنے والا تہوار بنا دیتا ہے اور یہ بھی شریعت میں منع ہے۔
آتش بازی
جشن سال نو کے خرافات میں سے ایک یہ ہے کہ اس موقع پر رات بھر آتش بازی کی جاتی ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمه الله فرماتے ہیں:
من البدع الشنیعة ما تعارف الناس في أكثر بلاد الهند من اجتماعهم للهو واللعب وإحراق الكبریت4
بُری بدعات میں سے یہ اعمال ہیں جو ہندوستان کے زیادہ تر شہروں میں متعارف اور رائج ہیں جیسے آگ کے ساتھ کھیلنا اور تماشہ کرنے کے لیے جمع ہونا گندھک جلانا وغیرہ۔‘‘
آتش بازی کیوں حرام ہے؟
آتش بازی کرنا اور پٹاخے پھوڑنا درج ذیل متعدد وجوہات کی بنا پر نا جائز اور حرام ہے۔
(ا)اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ۔
آتش بازی میں جسمانی نقصان و ہلاکت کا اندیشہ رہتا ہے جبکہ شریعتِ مطہرہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
البقرۃ – 195
اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو۔ بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔
آتش بازی میں اکثر جان کی ہلاکت و زخمی ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں ۔
(ب)فضول خرچی ۔
آتش بازی میں بلا کسی منفعت و فائدہ کے مال کا ضیاع ہوتا ہے جو فضول خرچی اور اسراف ہے۔ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا
بنی اسرائیل – 27
بلا شبہ جو لوگ بے ہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا نا شکرا ہے۔
(ج)- مسلمانوں کے لئے باعثِ تکلیف
جشنِ سالِ نو کے موقع پر رات بھر آتش بازی کی جاتی ہے اور رات کے وقت آتش بازی کرنا یقیناً مسلمانوں کی ایذا کا باعث بنتی ہے اور بغیر عذرِِ شرعی کسی مسلمان کو اذیت دینا بھی حرام ہے۔ حدیث پاک میں ہے:
صعد رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم المنبر فنادَى بصوتٍ رفيعٍ فقال يا معشرَ من أسلمَ بلسانهِ ولم يُفضِ الإيمانُ إلى قلبهِ ، لا تُؤذُوا المسلمينَ
صحیح الترمذي – 2032
سیدنا عبد الله بن عمر رضي الله عنهما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ منبر پر چڑھے اور با آواز بلند فرمایا : اے لوگوں! جو اپنی زبان سے اسلام لائے ہو مگر ایمان ان کے دلوں تک نہیں پہنچا ! مسلمانوں کو تکلیف مت پہنچاؤ۔
ہوائی فائرنگ
ہمارے ملک میں جب بھی کوئی خوشی کا موقع آ جائے خواہ شادی ہو، عیدین کا موقع ہو، الیکشن ہوں یا نئے سال کی آمد ہو لوگ بے تحاشا ہوائی فائرنگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے پورا علاقہ خوف و ہراس کا شکار ہو جاتا ہے، كمزور دل كے لوگ خوف اور دہشت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، لوگ اپنے ضروری کام کیلئے بھی گھر سے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں۔ بعض دفعہ ہوائی فائرنگ سے بہت سے لوگ زخمی اور کئی معصوم لوگ گولیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کسی مسلمان کو ڈرانے اور دھمکانے سے منع فرمایا ہے۔ جناب عبد الرحمن بن ابو لیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّهُمْ كَانُوا يَسِيرُونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَانْطَلَقَ بَعْضُهُمْ إِلَى حَبْلٍ مَعَهُ، فَأَخَذَهُ فَفَزِعَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا.
صحيح أبي داود – 5004
نبی ﷺ کے صحابہ نے ہمیں بیان کیا کہ وہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے تو ان میں سے ایک آدمی سو گیا اور دوسرا اس سے ایک رسی لینے لگا جو اس کے پاس تھی تو وہ سویا ہوا شخص ڈر گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا : ’’ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ دوسرے مسلمان کو ڈرائے ۔‘‘
بہترین مسلمان کون؟
سیدنا ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی نے پوچھا :
أيُّ المسلمينَ أفضلُ قالَ من سلِمَ المسلمونَ من لسانِهِ ويدِهِ
صحيح الترمذي – 2504
کہ مسلمانوں میں سب سے افضل کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
اعلانیہ گناہ
جشن ِسال نو سرعام گناہ کرنے کا دن ہے، جشن کے نام پر ہر قسم کے گناہ، اللہ کی معصیت اور بے حیائی کے تمام کام انجام دیئے جاتے ہیں جن میں شراب نوشی، موسیقی، ناچ گانے، ڈھول بجانے، اختلاط مرد و زن وغیره شامل هیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ :
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ
الاعراف – 33
اے نبی(ﷺ) آپ کہہ دو! کہ میرے پروردگار نے بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی ہو“۔
لہذا سال نو جشن منانا سراسر حرام ہے کیونکہ یہ دن اعلانیہ گناہ اور کھلے عام زنا کرنے كا دن ہے۔ یہ یوم جشن نہیں بلکہ یومِ گناہ ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سرِ عام گناہ کرنے کے وبال پر فرمایا :
كُلُّ أُمَّتِي مُعَافًى إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ
صحيح البخاري – 6069
میری پوری امت معاف کر دی جائے گی لیکن کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔
شراب نوشی
جشنِ سالِ نو کی قباحتوں میں ایک بڑی قباحت موسیقی اور ناچ گانے کے ساتھ ساتھ شراب نوشی ہے۔ شراب و کباب کی محفل سجائی جاتی ہے جبکہ شراب انسان کی بد ترین دشمن ہے۔ اسی وجہ سے قرآن حکیم نے اس کو حرام قرار دیا اور لوگوں کو اس سے اجتناب کا حکم فرمایا۔ چنانچہ قرآنِ حکیم میں ہے:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا
البقرۃ – 219
لوگ آپ سے شراب اور جوے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں اور ان کے گناہ ان کے نفع سے زیادہ بڑے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
لا تَشربِ الخَمرَ، فإِنَّها مِفتاحُ كلِّ شرٍّ
صحيح ابن ماجه – 2733
شراب مت پیو یقیناً یہ ہر برائی کی جڑ ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
مَن شَرِبَ الخَمْرَ في الدُّنْيا، ثُمَّ لَمْ يَتُبْ مِنْها؛ حُرِمَها في الآخِرَةِ
صحيح البخاري – 5575
’’جس نے دنیا میں شراب پی، اور توبہ نہیں کیا تووہ آخرت میں (جنت کی شراب طہور) سے محروم رہے گا‘‘۔
شرابی ملعون ہے
سیدنا عبد اللہ ابن عمررضی الله عنهما فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لعن اللهُ الخمرَ ، وشاربَها ، وساقِيها ، وبائِعَها ، ومبتاعَها ، وعاصِرَها ، ومعتصِرَها ، وحامِلَها ، والمحمولةَ إليه
صحيح أبي داود – 3674
’’اللہ تعالی نے شراب پر، شراب پینے والے پر، شراب پلانے والے پر، شراب فروخت کرنے والے پر، شراب خریدنے والے پر، شراب کو انگوروں سے نچوڑنے والے پر، اس کو بنانے والے پر، اس کو لادنے والے پر اور اس پر بھی جس کے پاس لاد کر لے جائی جائے ،لعنت فرمائی ہے‘‘ ۔
محفل موسیقی
جشنِ سالِ نو میں جہاں دوسری قباحتیں پائی جاتی ہیں وہیں ایک بڑی قباحت موسیقی اور ناچ گانے کی محفل ہے۔ ناچ گانا، ڈھول، باجا بجانا سخت حرام ہے لہذا جو لوگ ناچ گانے کی مجلس منعقد کرتے ہیں اور جو ایسی بری مجلس میں شرکت کرتے ہیں، یقینا سب کے سب فاسق و فاجر، حرام اور کبیرہ گناہ کے مرتکب ہیں۔ اللہ کے شدیدغضب اور عذابِ جہنم کے مستحق ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لَيَكونَنَّ مِن أُمَّتي أقْوامٌ يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ والحَرِيرَ، والخَمْرَ والمَعازِفَ، ولَيَنْزِلَنَّ أقْوامٌ إلى جَنْبِ عَلَمٍ، يَرُوحُ عليهم بسارِحَةٍ لهمْ، يَأْتِيهِمْ -يَعْنِي الفقِيرَ- لِحاجَةٍ، فيَقولونَ: ارْجِعْ إلَيْنا غَدًا، فيُبَيِّتُهُمُ اللہُ ويَضَعُ العَلَمَ، ويَمْسَخُ آخَرِينَ قِرَدَةً وخَنازِيرَ إلى يَومِ القِيامَةِ
صحيح البخاري – 5590
“میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بد کاری، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال ٹھہرا لیں گے۔ ان میں سے کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر واقع اپنے بنگلوں میں رہائش رکھیں گے اور جب کوئی ضرورت مند آدمی ان کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے جائے گا تو کل آنے کا کہہ کر ٹال دیں گے۔ اللہ تعالی رات کے وقت ہی ان پر پہاڑ کو گرا دے گا اور ایسے ہی کچھ اور لوگوں کو قیامت تک کےلئے بندر و خنزیر بنا دے گا‘‘ ۔
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ گانے باجے حلال سمجھنے والے لوگ عذابِ الٰہی میں گرفتارہوں گے۔یہاں پر بندر اور سور کا بالخصوص ذکر کیا گیا ہے اور بندر حرص میں اور سور بے حیائی میں ضرب المثل ہے یعنی حدیث میں مذکورہ صفات کے حاملین دنیا دار، شہوت پرست اور حریص و لالچی ہوں گے اور بے حیائی و بے غیرتی میں سور کی مثل ہوں گے۔
سنتِ نبوی میں موسیقی اور گانے کی مذمت:
حضرت جابر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّما نَهَيْتُ عَنْ صوتَيْنِ أحمقَينِ فاجريْنِ ، صوتٌ عند نغَمَةٍ مزمارُ شيطانٍ ولَعِبٌ ، و صوتٌ عندَ مصيبةٍ ، خمشُ وجوهٍ ، وشقُّ جيوبٍ ، و رنَّةُ الشيطانِ5
مجھے دو احمق اور بدکار آوازوں سے منع کیا گیا ہے: ایک خوشی کے وقت بانسری کی آواز یعنی شیطانی نغمہ اور مصیبت کے وقت چِلّانا، نوحہ کرنا، چہرہ نوچنا اور گریباں چاک کرنا۔
صَوْتانِ ملعونانِ في الدنيا والآخرةِ: مزمارٌ عند نعمةٍ ، ورَنَّةٌ عند مُصيبةٍ6
دو آوازیں ملعون ہیں: خوشی کے وقت میوزک کی آواز اور مصیبت کے وقت آہ وبکاء۔
موسیقی اور گانے کے شوقین لوگوں کے لئے وعید
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
لقمان – 6
اور لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو لھو الحدیث خریدتے ہیں تاکہ لوگوں کو جہالت کے ساتھ اللہ کے راستے سے گمراہ کر دیں اور (دین اسلام سے) استہزاء کریں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا۔
اس آیت مبارکہ میں لھو الحدیث کی تشریح میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
[عن] ابنِ مسعودٍ أنه سُئلَ عن هذه الآيةِ ﴿وَمِنَ النّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ فقال هو الغناءُ والذي لا إله إلا هوَ يُردِّدُها ثلاثَ مراتٍ7
اس ذات کی قسم جس کے سوا دوسرا کوئی الہ نہیں ہے. اس آیت (میں لھو الحدیث) سے مراد گانا بجانا ہے۔
مرد و زن کا اختلاط
آج کل “حقوقِ نسواں” کے تحفظ کے دعویدار گمراہ کن پروپیگنڈہ کرتے ہوئے یہ دعوت دے رہے ہیں کہ عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہیے اور کسی بھی میدان میں انھیں مردوں سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے۔ حالانکہ یہ دعوت عورتوں کو بربادی کی طرف دھکیلنے کے برابر ہے کیونکہ اس کے پیچھے دعویداروں کا مقصد عورتوں کی ترقی نہیں بلکہ ان کا اصل مقصد شرم و حیا کا خون کرنا ہے۔ تاکہ جو شخص جب چاہے، جہاں چاہے اور جسے چاہے اپنے دامِ فریب میں گرفتار کر کے اس کی عزت کو تار تار کر دے۔ جیسا کہ آج کل بصد افسوس ہو رہا ہے! ہماری بہنوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ نے عورت کو مردوں کے لئے سب سے خطرناک فتنہ قرار دیا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ:
ألَا لا يَخْلُوَنَّ رجُلٌ بامرأةٍ لا تَحِلُّ له؛ فإنَّ ثالثَهما الشَّيطانُ8
کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت اختیار نہ كرے كیونکہ جب کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔‘‘
بنا بریں! عورتوں کا مردوں سے اختلاط مرد و زن دونوں کے لئے باعثِ فتنہ ہے اور اس سے دونوں کا دین و ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے ایسے تمام دروازوں کو بند کر دیا ہے جو مرد و زن کے اختلاط کی طرف لے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ
الاحزاب – 53
اور جب تم ان (امہات المومنین) سے کوئی سامان مانگو تو پردے كی اوٹ سے مانگو، ایسا کرنے سے تمہارے اور ان کے دل زیادہ پاکیزہ رہیں گے۔
بے پردگی
سالِ نو کے جشن کی قباحتوں میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ اس موقع پر عورتیں بناؤ سنگھار کر کے اور بے پردہ ہو کر گھروں سے نکلتی ہیں جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خواتین کو اپنے گھروں کے اندر ٹھہرے رہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے :
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللهَ وَرَسُولَهُ
الاحزاب – 33
اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو، اور قدیم زمانہِ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگار کے ساتھ نہ نکلا کرو اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔
اس آیت میں تبرج سے منع کیا گیا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ :
- عورت بے پردہ ہو کر غیر محرم مردوں کے سامنے نہ آئے۔
- اور نیم عریاں لباس پہنے ہوئے اپنی زینت یا اعضاء زینت میں سے کسی عضو کو ان کے سامنے ظاہر نہ کرے۔
- اور مٹک مٹک کر نہ چلے جس سے مردوں کی جنسی خواہش بھڑک اٹھے۔
- اور وہ غیر محرم مردوں سے نرم اور پست آواز میں گفتگو نہ کرے جس سے ان کے دلوں میں برے خیالات پیدا ہوں۔
- اور وہ غیر محرم مردوں سے مصافحہ نہ کرے اور ان کے ساتھ اختلاط سے پرہیز کرے۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
أيما امرأةٍ استعطرتْ فمرتْ على قومٍ ليجدوا من ريحِها فهي زانيةٌ
صحيح النسائي – 5141
جو عورت خوشبو لگا کر کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو کو محسوس کر سکیں تو وہ بد کار عورت ہے۔
معلوم ہوا کہ بناؤ سنگھار کو ظاہر کرتے ہوئے بے پردہ ہو کر گھروں سے باہر نکلنا کبیرہ گناہ ہے۔
نئے سال کا اہم پیغام اور اس کا تقاضا
خود احتسابی
شریعت کے موافق اور مخالف افعال کی جانچ پڑتال کا نام محاسبہ ہے، جس کو روازانہ بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ ہر لمحہ محاسبہ کا عمل جاری رکھے۔ اگر اس کے افعال شریعت کے موافق ہوں تو شکر باری تعالیٰ بجالانا چاہئے اور اگر مخالف ہوں تو توبہ اور استغفار کرنا چاہئے، الله تعالیٰ كا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ، وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
الحشر – 18/19
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر آدمی دیکھ لے کہ اس نے کل (یعنی روز قیامت) کے لئے کیا تیاری کی ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں ایسا بھلایا کہ وہ اپنے آپ کو بھی بھول گئے۔ یہی لوگ فاسق ہیں۔
دینی محاسبہ
سال کے اختتام پر ہمیں اپنے دینی امور كا محاسبہ کرنا چاہئے کہ نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہم نےكیا كھویا اور كیا حاصل كیا؟ ہم نے ہم نے اس گذرے سال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی یا نافرمانی کی ۔ كیا ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا ہوئے؟ كیا ہماری نمازیں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا ہوئیں؟ كیا روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر اللہ کا خوف پیدا ہوا؟ كیا ہم نے یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھا؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں تک پہنچایا یا نہیں؟ ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی کے لئے کچھ اقدامات بھی کیے یا صرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر کرتے رہے؟ ہم نے اس گزرے سال میں انسانوں کو ایذائیں پہنچائیں یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کیے؟ ہم نے یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کی یا صرف تماشہ دیکھتے رہے؟ ہم نے قرآن کریم کے ہمارے اوپر جو حقوق ہیں وہ ادا کیے یا نہیں؟ ؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کیے یا نہیں؟
دنیاوی محاسبہ
ہمیں دینی امور کے ساتھ ساتھ اپنے دنیاوی امورکے بارے میں بھی محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم نے ان سالوں میں کیا کھویا کیا پایا؟ اگر ہمیں ان میں ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا تواس کے کیا اسباب ہیں؟ ان اسباب پرغور و فکرکرنے کے بعد ہم اپنا پروگرام تیارکریں کہ آئندہ ان پہلوؤں سے بچ کر رہنا ہوگا جس کی وجہ سے ہم ناکام ہوئے۔ انسان کا کسی چیز میں ناکام ہونا برا نہیں ہے۔ بری بات یہ ہے کہ انسان بے حسی میں مبتلا ہو جائے۔ وہ ناکام ہو اور اپنی ناکامی کے اسباب پرغور نہ کرے۔ جو شخص اپنے نقصان کا جائزہ لیتا ہے، اپنی کتابِ زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے، اپنی کمیوں اورکوتاہیوں کو محسوس کرتا ہے، وہی گر کر اٹھتا اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے۔ جس میں اپنے احتساب اور اپنی کمزوریوں کے اعتراف کی صلاحیت ہی نہ ہو وہ کبھی اپنی منزل کو نہیں پا سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ کا بھی ارشاد ہے کہ :
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
النجم – 39
اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اس نے محنت کی ۔
خصوصی دعا و استغفار
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اچھے اعمال کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ جو فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی یا گناہ ہوئے ان پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں اور نئے سال کی ابتدا پر پختہ ارادہ کریں کہ زندگی کے باقی ماندہ ایام میں اپنے خالق و مالک حقیقی کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے اور منکرات سے بچ کر اللہ کے احکام کو اپنے آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق بجا لائیں گے اور اپنی ذات سے اللہ کی کسی مخلوق کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔ ان شاء اللہ
زندگی کی قدر و قیمت
سالِ نو کا ایک خاص پیغام یہ ہے کہ زندگی ایک قیمتی نعمت ہے لہذا زندگی کی قدر و قیمت کا احساس کریں۔ اس سے انسان بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے لیکن یہ نعمت موت تک ہے۔ موت کے بعد یہ قیمتی سرمایہ چھین لیا جائے گا اور ہمیشہ کے لئے عمل کا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس لئے موت سے پہلے اس سے جتنا نفع اٹھایا جائے اور جس قدر محنت و کوشش کی جائے کم ہے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اغْتَنِمْ خَمْسًا قبلَ خَمْسٍ: شَبابَكَ قبلَ هِرَمِكَ ، وصِحَّتَكَ قبلَ سَقَمِكَ، وغِناكَ قبلَ فَقْرِكَ، وفَرَاغَكَ قبلَ شُغْلِكَ، وحَياتَكَ قبلَ مَوْتِكَ
صحيح الترغيب – 3355
یعنی پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جان لو۔ موت سے پہلے اپنی زندگی کو، بیماری سے پہلے اپنی صحت و تندرستی کو، مصروفیت سے پہلے فراغت کو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو اور فقیری سے پہلے امیری کو۔‘‘ مولانا حالی رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:
غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے
فراغت مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی بڑھاپے کی زحمت سے پہلے
اقامت مسافر کی رحلت سے پہلے
فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت
جو کرنا ہے کرلو کہ تھوڑی ہے مہلت
ذرا غور فرمائیے! وقت کس قدر تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی جانب بڑھتے چلے جا رہے ہیں ، گردشِ لیل و نہار عمر عزیز کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ جو دن گزر رہا ہے عمر کو کم کر رہا ہے اور جو چیز ہر روز کم ہوتی رہتی ہے وہ بالآخر ختم ہو جاتی ہے اور گزرے ہوئے لمحات کبھی واپس نہیں آتے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا تقومُ السَّاعةُ حتَّى يتقارَبَ الزَّمانُ ، فتَكونُ السَّنةُ كالشَّهرِ، والشَّهرُ كالجُمُعةِ ، وتَكونُ الجمعةُ كاليَومِ، ويَكونُ اليومُ كالسَّاعةِ ، وتَكونُ السَّاعةُ كالضَّرمةِ بالنَّارِ
صحيح الترمذي – 2332
قیامت سے قبل وقت مختصر ہو جائے گا حتی کہ سال مہینے اور مہینہ ایک ہفتے اور ہفتہ ایک دن کی طرح اور دن ایک گھڑی اور گھڑی ایک مرتبہ جلائی ہوئی آگ کے زندہ رہنے کی مدت کی طرح معلوم ہو گی۔‘‘
اگر یقین نہیں آتا تو بتائیے! آپ کا بچپن وہ کیا ہوا؟ لڑکپن کا با نکپن کدھر گیا؟ جوشِ جوانی کہاں گیا؟ عمرِ عزیز کتنی تیزی سے بیت گئی، کچھ پتا بھی چلا؟ یہ بچپن اور لڑکپن ابھی کل کی باتیں تو ہیں- اللہ جل شانہ کا فرمان برحق ہے:
وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
الحدید – 20
اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔
كیونكہ اس جہاں کو ثبات نہیں ہے۔ اسی لیے نبی كریم ﷺ نے اپنی امت کو وصیت فرمائی ہے:
كُنْ في الدُّنْيَا كَأنَّكَ غَرِيبٌ أوْ عَابِرُ سَبِيلٍ
صحيح البخاري – 6416
دنیا میں ایک اجنبی یا ایک مسافر کی طرح رہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں ہی شمار کرو۔
موت کے قریب
ایک سال کا اختتام اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی سے ایک سال کم ہو گیا، حیات مستعار کا ایک ورق الٹ گیا اورہم موت کے مزید قریب ہوگئے، اس لحاظ سے ہماری فکر اور ذمہ داری اور بڑھ جانی چاہیے، ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور وقت کو نیک اعمال کیلئے منظم کرکے اچھے اختتام کی کوشش میں لگ جانا چاہیے۔ اسی لیے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بادِرُوا بالأعْمالِ سِتًّا: طُلُوعَ الشَّمْسِ مِن مَغْرِبِها، أوِ الدُّخانَ، أوِ الدَّجَّالَ، أوِ الدَّابَّةَ، أوْ خاصَّةَ أحَدِكُمْ، أوْ أمْرَ العامَّةِ
صحيح مسلم – 2947
ان چھ امور سے پہلے پہلے اعمال کر لو: مغرب سے سورج کا طلوع ہونا، دجال، دھواں، زمین کا چوپایہ، موت اور عوام الناس کا معاملہ یعنی ایسا فتنہ جو لوگوں کا گھیراؤ کر لے گا، یا وہ معاملہ جس میں عوام خود مختار بن جائیں گے۔
کاش ہمىں اس بات کا احساس ہوجائے کہ ہم روز بروز اپنی موت کے قرىب ہوتے جارہے ہىں ہر گزرتا لمحہ ہمىں موت کى طرف لے جارہا ہے۔
نادانی یا حقیقت سے عدم واقفیت
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح وقت اپنی رفتارسے گزرتا چلا جا رہا ہے اسی وقت کے ساتھ ساتھ انسان کی زندگی سے اس کا دن اور سال بھی کم ہوتا جا رہا ہے لیکن حیف صد حیف! کہ بجائے اس کے کہ انسان اس وقت کے گزرنے پراپنے اعمال کا محاسبہ کرے وہ جشن اور مستی میں ڈوب جاتا ہے، وہ اس طرح سے خوشیاں مناتا ہے کہ گویا اس کی زندگی سے وہ سال کم نہیں ہوا بلکہ اس کی زندگی میں ایک سال کا اضافہ ہو گیا ہے۔ حیرت ہے ایسے انسانوں پر جو وقت کے گزرنے پر اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کے بجائے جشنِ سالِ نو کا اہتمام کرتا ہے اور ہزاروں لاکھوں روپے اس جشن میں برباد کر دیتا ہے۔ وہ جس سالِ نو کی آمد پر جشن کا اہتمام کرتا ہے در حقیقت وہ بیوقوف انسان اپنی زندگی سے ایک سال کم ہونے کا ماتم کرتا رہتا ہے جسے وہ اپنی خوش فہمی کی وجہ سے جشن کا نام دے دیتا ہے۔
جشنِ سالِ نو کے اثرات
سالِ نو کی تقریبات نے پوری دنیا کی ثقافت پر گہرے اثر چھوڑے ہیں۔ اس کی فحاشی، عریانی اور بے حجابی کے جراثیم آہستہ آہستہ نوجوان نسل کی اخلاقیات کو چاٹ رہے ہیں جس سے بے حیائی ، آوارگی اور جنسی بے راہ روی عام ہو رہی ہے۔ ہمارے ملکِ پاکستان میں بھی یا تو نوجوان اپنے من پسند جوڑے لے کر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں اپنے ایمان کو برباد کرتے ہیں او جو وہاں نہیں جا سکتے تو سڑکوں ، چوراہوں اور چوکوں پر آتش بازی، فائرنگ اور دیگر ایمان شکن اور حیا سوز افعال کے ساتھ نئے سال کا استقبال کرتے ہیں جس میں درجنوں مرتے ہیں اور سینکڑوں زخمی ہو جاتے ہیں۔ اسلام نے تو جو کام جائز اور مباح ہیں ان میں بھی غیروں کے ساتھ مشابہت کو نا جائز قرار دیا ہے تو پھر شرعاً، عرفاً اور عقلاً جو رسم نا جائز اورحرام ہو اس میں مشابہت مسلمان کے لیے کیسے درست ہو سکتی ہے ؟
عزمِ مصمم
دوستو! آئیے ہم سالِ نو کی ابتدا پر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ توحید اور ایمان کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے، کفر و شرک اور بدعت کو چھوڑ دیں گے، فرائض کی حفاظت کریں گے، شرعی علوم کو سیکھنے اور اسے پھیلانے کی کوشس کریں گے، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور دوسرے محرمات سے پرہیز کریں گے، حلال رزق کمائیں گے، والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں گے، خیانت ، تکبر اور حسد سے اپنے آپ کو بچائیں گے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اچھی طرح ادا کریں گے۔ اللہ اس نئے سال کو ہمارے لئے خیر و بھلائی اور برکت کا ذریعہ بنائے۔آمین۔
- مدارج السالكين – 3/118
- ( تفسیر قرطبی)
- السلسلة الصحيحة – 2609 / وصحيح الجامع – 7299
- ما ثبت من السنة في أيام السنة: 87
- صحيح الترمذي – 1005 / صحيح الجامع – 5194
- صحيح الترغيب – 3527 / صحيح الجامع -3801
- الراوي: – • الألباني، السلسلة الصحيحة (6/1017) • إسناده صحيح
- صحّحه شعيب الأرناؤوط في تخريج المسند – 15696