پہلا خطبہ :
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں، جو غلبے والا ، عطاء کرنے والا ، گناہ بخشنے والا ، توبہ قبول کرنے والا ، اور سخت عذاب دینے والا ہے ، ہر کسی کے اعمال کی خبر گیری کرنے والا ، ہر کسی کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دینے والا ، بھلائی کا بھلائی کے ساتھ اور برائی کا برائی کے ساتھ ۔ نیکیوں کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے ، اور گناہوں سے در گزر کر دیتا ہے ، اور کسی پر ظلم نہیں کرتا، اس نے کتاب کو نازل کیا ، اس میں تمام حقوق الٰہیہ اور حقوق العباد کو بیان کیا، اور ان پر جزاء وسزا کو مرتب کیا۔ لہذا تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں ، اور تمام نعمتوں پر اس کا شکر ہے جنہیں ہم جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے، جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے، نہایت رحم کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سر دار محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جن کی اللہ کی طرف سے عطا کر وہ اسباب کے ساتھ اور اس کے فضل سے حکمت و دانائی اور قوت گویائی کے ساتھ تائید و نصرت کی گئی ہے۔
اے اللہ درود و سلام اور برکتیں نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر اور تمام آل و اصحاب پر۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ تعالی کے حقوق جاننے کے بعد انہیں سر انجام دینے میں اس سے ڈرو، اور اللہ کے احکامات بجا لا کر اور منع کر دہ اشیاء کو حقارت سے ٹھکرا کر اپنے اپنے نفس کو پاک کرو، کیوں کہ تقوی ہی اللہ عزوجل کی رضامندی اور جنت کا ضامن ہے اور غضب الہی، بگاڑ اور سزاؤں سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
اے لوگو! نجات کی طرف آؤ، کامیابی کی طرف دوڑو، اور سیدھی راہ پر چلو، جو دنیاوی مصلحتوں کو منظم کرتی ہے، اور جو اپنے راہی کو آخرت میں نعمتوں والی جنت میں بلند مقام عطا کرتی ہے۔
اے لوگو! اپنی دائمی سعادت کی طرف آؤ، اپنے رب کی اس دعوت کو قبول کرو جس کے لیے تم پیدا کیے گئے ہو، اور اللہ تعالی کی آواز کے لیے اپنے دلوں کو کھول لو، ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
البقرۃ – 21/22
”اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے تمہارے لیے پھل پیدا کیے جو تمہارے رزق ہیں ، یہ جاننے کے باوجود اللہ کے ساتھ شریک نہ بناؤ۔ “
سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کی سب سے پہلی سورت کی اس عظیم آیت میں اللہ تعالی اپنی عبادت کا حکم دے رہا ہے، اور یہ ہمارے رب کی طرف سے احسان اور رحمت ہے، اور یہ انسان کے لیے بہت بڑا تعاون اور مدد ہے تا کہ وہ دنیا میں انسانی کمال تک پہنچ جائے اور اللہ تعالی نےاپنی جن پسندیدہ سنتوں کی جانب اپنے نیک بندوں کی رہنمائی کی ہے ان کے ذریعے انسان اپنی اصلاح کرلے، غرض یہ کہ اللہ تعالی نے اپنی عبادت کرنے والوں کے لیے آخرت میں دردناک عذاب اور ہلاکت سے نجات کی ذمہ داری لے لی ہے۔ اللہ تعالی کی عبادت ہی انسانی تخلیق کا مقصد اور غرض و غایت ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ ﴿٣٨﴾ مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
الدخان – 38/39
”اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھیل کے پر نہیں بنایا ہے۔ بلکہ انہیں حقیقی مصلحت سے پیدا کیا ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے ہیں۔“
دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّن رِّزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَن يُطْعِمُونِ ﴿٥٧﴾ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ
الذاریات – 56/57/58
” میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔ نہ میں ان سے کوئی رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ بے شک اللہ ہی بے حد رزق دینے والا، طاقت والا اور نہایت مضبوط ہے۔“
میں اس مقام تک پہنچ جائے جو اس کے لیے مقدر ہے، اور انسان اپنے رب کی عبادت کر کے اپنے نفس کی اصلاح کرلے، اور عبادت تمام نیک اعمال پر مشتمل ہے ، انسان کو ناپاک چیزوں، برائیوں اور ہلاکتوں سے بچاتی ہے ، اور یہ آخرت میں جنت کی نعتوں کی ضامن بھی ہے۔
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٦٠﴾ وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ
یٰس – 60/61
”اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے قول قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا و وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری عبادت کرنا، سیدھی راہ یہی ہے “۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ مَآبِ
الرعد – 36
” مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں۔ میں اس کی طرف دعوت دیتاہوں اور اسی کی طرف میر الوٹنا ہے۔“
تمام انبیاے کرام کی سب سے پہلی دعوت ہی صرف ایک اللہ کی عبادت اور شرک سے دوری تھی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ
المؤمنون – 23
”یقینا ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا، انہوں نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔“
اور ہود علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے:
وَإِلَىٰ عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ
ھود – 50
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ھود کو ہم نے بھیجا، اس نے کہا میری قوم والو! اللہ ہی کی عبادت کرو۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب نبی ﷺ نے معاذ بن جبل ﷺ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا: تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہے، لہذا تم سب سے پہلے انہیں اللہ کی عبادت کی طرف بلانا۔“ (اسے بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے)۔
اللہ تعالی نے ہمیں جن عبادات کا حکم دیا ہے اور جن محرمات سے منع کیا ہے وہ اللہ رب العالمین کے ہم پر بعض حقوق ہیں، کیو نکہ اللہ تعالی کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ ہمیشہ اس کا ذکر کیا جائےکبھی فراموش نہ کیا جائے، اس کی اطاعت کی جائے، کبھی نافرمانی نہ کی جائے، اس کی نعمتوں پر شکر بجالایا جائے، کبھی ناشکری نہ کی جائے، اور اس سے اپنی جان، مال، اور اہل وعیال سے بھی زیادہ محبت کی جائے، اور ہر چیز کی محبت پر اس کی محبت کو فوقیت دی جائے، اور بندہ اس کے سامنے مکمل طریقے سے سرنگوں اور جھکار ہے، اور ہدایت پانے پر بہت زیادہ خوش ہو، کیوں کہ اللہ تعالی تمام طرح کی عبادات کا مستحق ہے کیوں کہ اس کی ذات تمام طرح کی صفات جلال اور اوصاف کمال اور عظمت اور کبریائی، رحمت، ہر چیز پر قدرت سے متصف ہے، اور اس لیے کہ وہ مخلوقات پر ظاہری وباطنی بے شمار نعمتیں نازل کرتا ہے، اور اس لیے کہ وہ پیارے پیارے ناموں اور بلند وبالا اوصاف سے متصف ہے۔
اس سے بھی عظیم نعمت اور بڑا فضل واحسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اور تمام لوگوں کے لیے ان عبادتوں کی وضاحت فرمادی جن سے وہ راضی ہوتا ہے، اور ان برائیوں سے آگاہ کردیا جو اس کی ناراضگی اور اذیت کا باعث ہیں، تاکہ ایک مسلمان اللہ کا مخلص بندہ بن جائے، اس کی وجہ سے طاقتور بن جائے، اور اس کے دروازے پر ڈیرہ جمالے، تا کہ وہ اسے خیرات و برکات سے نوازتا رہے، اور ہر طرح کے شروفتن اور ہلاکت وتباہی سے اس کی حفاظت کرے، کیوں کہ اللہ تعالی عبادت کی وجہ سے ہی انسان کے مقام ومرتبہ کو بلند کرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ:
مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ
فاطر – 10
” جو شخص عزت چاہتا ہو سوعزت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔ اس کی طرف ہر پاکیزہ بات چڑھتی ہے اور نیک عمل اسے بلند کرتا ہے “۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
آل عمران – 139
” اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو ، اگر تم مومن ہو “۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ
المنافقون – 8
“حالانکہ عزت تو صرف اللہ کے لیے اور اس کے رسول کے لیے اور ایمان والوں کے لیے ہے“۔
اور عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اللہ تعالی نے اسلام کی وجہ سے ہمیں غلبہ عطا کیا ہے ، پس اگر ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی اور راستے سے غلبہ ڈھونڈیں گے تو اللہ ہمیں ذلیل ورسوا کرے گا“۔ اس لیے اس کائنات میں سب سے طاقتور انسان ایک موحد بندہ ہو تا ہے، اور سب سے کمزور انسان اللہ کی ذات میں کسی کو شریک کرنے والا ہو تا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
العنکبوت – 41
” ان لوگوں کی مثال جنھوں نے اللہ کے سوا اور مدد گار بنارکھے ہیں مکڑی کی مثال جیسی ہے ، جس نے ایک گھر بنایا، حالانکہ بیشک سب گھروں سے کمزور تو مکڑی کا گھر ہے ،اگر وہ جانتے ہوتے “۔
وہ کون سی نعمت ہے جو اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی سے بھی زیادہ عظیم ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے انسان، بہت زیادہ، لا تعداد، بے شمار، معبودان باطلہ اور جھوٹے خداؤوں کی غلامی اور بندگی سے عافیت پاتا ہے، بتوں اور مورتیوں کی عبادت، اور ضلالت و گمراہی اور ہوا پرستی سے نجات پاتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا
الفرقان – 43
” کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا ہے تو کیا تم اس پر نگہبان ہو ؟“۔
انسان کو کفر کے دائرے میں لے جانے والے شبہات جیسے امور انسان کو شرک میں ڈال دیتے ہیں۔ عبادات کی کئی قسمیں ہیں، جیسے دلوں کی عبادات، اعضاء وجوارح کی عبادات، ان میں دلوں کی عبادات زیادہ افضل اور اعلی ہیں، جیسے دعاء اخلاص، ایمان، یقین، ڈروخوف، احسان، بھروسہ، رجوع الی اللہ، محبت، رغبت، ڈروخوف، امید، اللہ کے لیے کسی سے محبت کرنا یا بغض رکھنا، پرہیزگاری وورع اس کے علاوہ دلوں کے بہت سارے اعمال ہیں۔
امام ابن جریر طبری، ابن کثیر نے اپنی تفسیروں کی اندر اور امام ابن قیم نے مدارج السالکین کے اندر ان کلمات اور مطالب کی ایسی شاندار اور دلنشین تشریح کی ہے کہ اس سے مز ید کی گنجائش نہیں ہے گویا وہ خالص شہد ہو۔ صحابہ کرام کی جماعت دلوں کے اعمال کے اہتمام اور ان کے مراتب کی تکمیل کی وجہ سے امت کے دیگر لوگوں پر فوقیت لے گئی، کیوں کہ یہی جوارح کے اعمال کی اساس ہیں۔ اور جوارح کے اعمال میں سے اسلام کے پانچ ارکان ہیں، ان کے علاوہ جو اعمال ہیں یہ انہیں کے تابع ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس کائنات اور اس کے اندر جو کچھ ہے ان کی تخلیق کا مقصد اور غرض وغایت محض اللہ کی عبادت کیوں ہے؟ کیوں کہ اس کے بغیر دنیا کا نظام درست نہیں ہوسکتا، اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ
المؤمنون – 71
”اور اگر حق ان کی خواہشوں کے پیچھے چلے تو یقینا سب آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے ، بگڑ جائیں“۔
اور کیوں کہ اللہ کی عبادت ہی اللہ کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے، اور اللہ تعالی سے ہمیں جوڑتی ہے، یہی رسول اللہ ﷺ کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے، یہی والدین کے حقوق، حاکم کے حقوق، قرابت داروں کے حقوق، بندوں کے ایک دوسرے پر حقوق کو تحفظ عطا کرتی ہے۔ اور اس کے بدلے میں اللہ تعالی ہمیں اجر و ثواب سے نواز تاہے۔
يَا عِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ ﴿٦٨﴾ الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ ﴿٦٩﴾ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ ﴿٧٠﴾ يُطَافُ عَلَيْهِم بِصِحَافٍ مِّن ذَهَبٍ وَأَكْوَابٍ ۖ وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ ۖ وَأَنتُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٧١﴾ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٧٢﴾ لَكُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ كَثِيرَةٌ مِّنْهَا تَأْكُلُونَ
الزخرف – 69/72
”اے میرے بندو! آج نہ تم پر کوئی خوف ہے اور نہ تم غمگین ہو گے؟ وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان لائے اور وہ فرماں بردار تھے جنت میں داخل ہو جاؤ تم اور تمہاری بیویاں، تم خوش کیے جاؤ گے؟ ان کے گردسونے کے تھال اور پیالے لے کر پھر آجائے گا اور اس میں وہ چیز ہو گی جس کی دل خواہش کر ینگے اور آنکھیں لذت پائیں گی اور تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو۔ اور یہی وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو، اس کی وجہ سے جو تم عمل کرتے تھے؟ تمہارے لیے اس میں بہت سے میوے ہیں، جن سے تم کھاتے ہو۔“
اور اللہ تعالیٰ کی عبادت سر انجام دینے میں لوگوں کے ایک دوسرے سے بڑھ کر مختلف درجے ہیں، لوگوں میں سے سب اعلی درجے پر فائز وہ شخص ہے جو عمل کرتے وقت رضائے الہی اور اس کے ثواب دونوں کو ہی مد نظر رکھتا ہے، یہ انصار و مہاجرین اور احسان کے ساتھ ان کے پیروکاروں کا درجہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ
الحشر – 8
“(یہ مال) ان محتاج گھر بار چھوڑنے والوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال باہر کیے گئے۔ وہ اللہ کی طرف سے کچھ فضل اور رضا تلاش کرتے ہیں“۔
انہوں نے اللہ کے فضل سے اپنے نیک عمل میں ثواب اوراللہ کی رضا دونوں کو جمع کرلیا۔ اور ارشاد باری تعالی ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ
الکھف – 28
”اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھ جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کی رضا چاہتے ہیں “۔
اور ارشاد باری تعالی ہے:
إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ
الممتحنة – 1
”اگر تم میرے راستے میں جہاد کے لیے اورمیری رضا تلاش کرنے کے لیے نکلے ہو“۔
چنانچہ آپ کو بھی عمل کرتے وقت پہلے پہل رضائے الہی اور ثواب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تا کہ آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہو جائے جو احسن طریقے سے انصار ومہاجرین کی پیروی کرنے والے ہیں، اور دوسرا درجہ ایسے شخص کا ہے جو عمل کرتے وقت اس کے ثواب کو تو پیش نظر رکھتا ہے، لیکن بسا اوقات رضائےالہی کو مد نظر رکھنے میں غافل رہتا ہے، تو وہ بھی خیر کے راستے پر ہی گامزن ہے جس کا سے پورا پورا بدلہ دیا جائےگا، ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا
الاسراء – 19
اور جس نے آخرت کا ارادہ کیا اور اس کے لیے کوشش کی ، جو اس کے لائق کوشش ہے، جبکہ وہ مومن
ہو تو یہی لوگ ہیں جن کی کوشش ہمیشہ سے قدر کی ہوئی ہے۔
اور تیسر اور جہ اس شخص کا ہے جو بعض فرض اعمال میں کو تاہی کرتا ہے اور کچھ حرام کاموں کا بھی ارتکاب کرتا ہے جس سے اس کے اعمال تو ضائع نہیں ہوتے، اگراس حالت میں فوت ہوگیا تو وہ اللہ کے رحم و کرم پر ہے اگر چاہے تو اس پر رحم کر دے اور اگر چاہے تو اس کے گناہوں کے مطابق اسے عذاب میں مبتلا کر دے۔ اور سب سے آخری و خطرناک چوتھا درجہ ہے جو ایسے شخص کا ہے جو کبھی عبادت کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا، پھر کبھی کرتا ہے کبھی چھوڑ دیتا ہے، اس کا معاملہ اس کے خاتمے پر منحصر ہے اگر عبادت کو چھوڑنے کی حالت میں فوت ہوا تو آگ میں جائے گا، اور اگر عبادت کرتے ہوئے فوت ہوا تو اللہ تعالی اس کے ظلم پر اس کا محاسبہ کرے گا جو اس نے اپنی جان پر کیا یا کسی دوسرے شخص پر، اور اس کا معاملہ اللہ تعالی کے فضل وعدل پر منحصر ہو گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ
النساء – 48
”بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا “۔
ان مذکورہ چاروں درجات کے علاوہ وہ سب لوگ ہمیشہ کے لیے آگ میں جائیں گے جنہوں نے اللہ تعالی کی نہ تو عبادت کی اور نہ ہی اس پر ایمان لائے، اور نہ ہی قیامت اور نبی ﷺ پر ایمان لائے۔ اور وہ اعتقادی منافقین بھی جو اسلام کو ناپسند کرتے ہیں، یا اسلام کے بعض امور کو نا پسند کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
غافر – 60
”بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے “۔
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا
النساء – 145
بیشک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تو ہر گزان کا کوئی مدد گار نہ پائے گا۔
لہذا اے اسلامی بھائی ! آپ پہلے درجہ والے لوگوں میں شامل ہو جائیے ، اور اپنے عمل کا ہدف اللہ کی رضا اور ثواب بنائے تو آپ کا میاب ہو جائیں گے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ ﴿٣٢﴾ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ
فاطر – 32/33
” پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا، پھر ان میں سے کوئی اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے اور ان میں سے کوئی میانہ رو ہے اور ان میں سے کوئی نیکیوں میں آگے نکل جانے والا ہے ،اللہ کے حکم سے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔ ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے، ان میں انھیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور ان کالباس ان میں ریشم ہو گا“۔
اللہ میرے لیے اور آپ سب کے لیے قرآن کو برکت کا ذریعہ بنائے۔
دوسرا خطبہ :
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو یکتا و اکیلا ہے ، نہ اس نے کسی کو جناہے اور اور نہ وہ کسی سے جنا گیا، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے، اور میں گواہی دیتاہوں اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہی معبود برحق ہے اور وہ بے نیاز ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی وسردار محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اے اللہ! درودوسلام اور برکتیں نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر جو عبادت گزاروں میں سے سب سے افضل ہیں، اور آپ کی آل اور صحابہ کرام پر جو ہر موقعے پر نیک کاموں میں سبقت کرنے والے تھے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
فرائض و واجبات کو انجام دے کر اور حرام کاموں سے دوری اختیار کر کے اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو، کیوں کہ جو تقوی الہی اختیار کرے گا اللہ تعالی اس کے سارے معاملات کو آسان کر دے گا ، اسے تباہ کن اعمال اور ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
اللہ کے بندو!
نیک اعمال کو سرانجام دو اور اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھو، بے شک کامیاب شخص وہ ہے جو اللہ تعالی کی عبادت کر تا ہے، نیک اعمال کوبجالا تا ہے اور اپنے پروردگار سے متعلق حسن ظن رکھتا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
البقرۃ – 218
”بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا وہی اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے ۔“
اور حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
میں اپنے بندے کے گمان کے قریب ہو تا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے ۔ “ اور وہ شخص خسارے اور گھاٹے میں ہے جو برے اعمال کا ار تکاب کرے اور نیک اعمال سر انجام دیئے بغیر اللہ تعالی سے امید میں وابستہ کیے رکھے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ ﴿١٣﴾ يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنتُمْ أَنفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ
الحدید – 13/14
”جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ان لوگوں سے کہیں گے جو ایمان لائے ، ہمارا انتظار کرو کہ ہم تمہاری روشنی سے کچھ روشنی حاصل کرلیں، کہا جائے گا: اپنے پیچھے لوٹ جاؤ، پس کچھ روشنی تلاش کرو، پھران کے درمیان ایک دیوار بنادی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہو گا، اس کی اندرونی جانب، اس میں رحمت ہو گی اور اس کی بیرونی جانب، اس کی طرف عذاب ہو گا، وہ انھیں آواز دیں گے: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں؟ الیکن تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم انتظار کرتے رہے اور تم نے شک کیا اور (جھوٹی) آرزوؤں نے تمہیں دھوکا دیا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آگیا اور اس دغاباز نے تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکا دیا۔“۔
لہذا تم بہترین طریقے سے عبادت کرو، اور اللہ عزوجل پر بھروسہ رکھو جو کہ بہت زیادہ سخی اور بڑا مہربان ہے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ ! تو اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، شرک واہل شرک، کافروں ، بے دین ملحدوں کو ذلیل ورسوا فرما۔
اے اللہ ! تو ہمارے اور مسلمانوں کے فوت شدگان کی مغفرت فرما۔
اے اللہ تو ہمارے اور مسلمانوں کے پیاروں کو شفایاب فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے معاملات آسان فرما۔ اور مسلمانوں سے مصیبتوں اورپریشانیوں کو دور کر دے ، اور ہمارے ملک اور فوج کی حفاظت فرما۔ اے جہانوں کو پالنے والے۔
اے اللہ ! تو خادم حرمین شریفین کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما، اور ہر خیر کے کام میں ان کی معاونت فرما۔
اے اللہ اوزیر اعظم ، ولی عہد کو بھی اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما، اور ہر خیر کے کام میں ان کی مدد فرما۔
اللہ کے بندو! بے شک اللہ انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو (مالی) تعاون دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ افعال اور سرکشی سے روکتا ہے وہ تمہیں نصیحت کر تا ہے تا کہ تم اسے قبول کر لو“۔
خطبة الجمعة مسجدِ النبوی ﷺ : فضیلة الشیخ ڈاکٹرعلی بن عبد الرحمٰن الحذیفی حفظه اللہ
18 ربیع الاول 1444ھ بموافق 14 اکتوبر 2022