ماہ محرم

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اُس اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس کی کوئی اولاد نہیں جو سب سے بڑا ہے ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں ۔اُسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں، جن کو ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا بنا کر مبعوث فرمایا۔

حمد و ثنا کے بعد!

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اچھی بات کرو۔اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دُرست کردے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا۔بے شک اللہ رب العالمین معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والاہے۔

اے مؤمنو! بے شک اللہ تعالیٰ نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام کر رکھا ہےاور تمہارے لئے بھی اُسے حرام قرار دیا ہے۔اور بد ترین ظلم یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو گناہوں کے دلدل میں پھنسادے اور اُس کا تذکیہ نہ کرے ۔ پھر ظلم اُس وقت اور بڑا ہوجاتا ہے جب اُس کا ارتکاب بڑے عظمت والے وقت اور جگہ پر کیا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

التوبة – 36

مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ﻇلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وه تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے۔

اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ

الحج – 22

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راه سے روکنے لگے اور اس حرمت والی مسجد سے بھی جسے ہم نے تمام لوگوں کے لئے مساوی کر دیا ہے وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں، جو بھی ﻇلم کے ساتھ وہاں الحاد کا اراده کرے ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔

ارشادِ نبی ﷺ ہے:

جس نے دین میں کوئی نئی بدعت ایجاد کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی، تو اُس پر اللہ تعالیٰ کی ، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔

تمہارے رب نے نبی اکرم ﷺ کی زبانی اس مہینے یعنی محرم کو اپنی طرف منسوب کیا ہے ۔اور اِس میں تمہیں روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے اور اُسے قیام اللیل کے ساتھ ذکر فرمایاہے۔چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ماہِ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ تعالیٰ کے اس مہینے کے روزے ہیں ۔جسے تم محرم کہتے ہو ۔اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز قیام اللیل ہے۔

اس حدیث میں ماہِ محرم کی نسبت اللہ رب العزت کی طرف کی گئی ہے جو کہ اِس کے فضل و شرف کی دلیل ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی خاص الخاص مخلوق کی نسبت ہی اپنی طرف کرتا ہے ۔تو اِسی مناسبت سے اُس  نے اِس مہینے میں روزے کو مشروع کیا ہے کیونکہ روزے کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے ۔جیسا کہ حدیثِ قدسی میں ہے:

بنی آدم کا ہرعمل اُس کے لئے ہے سوائے روزے کے ۔ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اُس کا بدلہ دوں گا۔اُس نے میری ہی وجہ سے اپنی شہوت اور کھانے پینے کو ترک کیا ہے۔

آپ ﷺ نے ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: روزے رکھا کرو کیونکہ فضل و شرف میں کوئی عمل اُس کے برابر نہیں ہے۔ روزہ انسان کو جہنم سے بچانے والی ایک ڈھال ہے۔جس طرح تمہارے پاس دشمنوں سے بچنے کےلئے ڈھال ہوتی ہے۔

چنانچہ اُس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو پنے آپ کو خالی پیٹ رکھتا ہے تاکہ بروزِ قیامت شکم سیر ہوسکے، اور جو اپنے آپ کو پیاسا رکھتا ہے تاکہ وہ روزِ قیامت سیراب ہوسکے۔اور خوشخبری ہے اُس شخص کے لئے جواُس دن کے لئے  اپنی وقتی شہوت کو تیج دیتا ہےجس کو اُس نے دیکھا تک نہیں۔اور خوشخبری ہے اُس شخص کے لئے جو دارِ بقا کےدائمی کھانوں اور سائے کےلئے اس دارِ فانی کے لقموں کو ترک کردیتا ہے۔

تقویٰ شعار بندوں کےلئے پوری زندگی ہی ماہِ صیام کی طرح ہے۔اُن کی عید الفطر کا دن وہ ہوگا جب وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے۔ اور اِس ماہِ صیام جیسی زندگی کا بیشتر حصہ گزرچکا ہےاور عید کا دن قریب آرہا ہے ۔جس میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوگی۔ جو بدن کم کھانے کی وجہ سے کم ہوتا ہے وہ قیام اللیل کے لئے چست ہوتا ہے ۔اور رات کی نماز کی فضیلت دن کی نمازوں پر ویسی ہی ہے جیسے چھپا کرکئے گئے صدقے کی فضیلت اعلانیہ کئے گئے صدقے پر ہے ۔کیونکہ اس میں رازداری اور اخلاص زیادہ پایا جاتا ہے ۔نیز رات کی نماز نفس پر زیادہ شاق گزرتی ہے کیونکہ نفس اُس وقت نیند اور آرام و سکون کا طالب ہوتا ہے۔اور اعمال میں سے افضل عمل وہ ہے جو نفس پر شاق گزرے۔

 اور رات کے وقت قرآن مجید کی تلاوت میں تدبر و تفکر زیادہ ہوتا ہے ۔کیونکہ انسان اُس وقت مشغولیات سے دور ہوتا ہے ۔دل و دماغ حاضر ہوتا ہے ۔فہم و ادراک میں دل زبان کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے ۔اللہ رب العالمین نے آپ ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ‎﴿١﴾‏ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ‎﴿٢﴾‏ نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ‎﴿٣﴾‏ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا ‎﴿٤﴾‏ إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا

المزمل – 1/2/3/4/5

اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ رات (کے وقت نماز) میں کھڑے ہوجاؤ مگر کم۔ آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کرلے۔ یا اس پر بڑھا دے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کر۔ یقیناً ہم تجھ پر بہت بھاری بات عنقریب نازل کریں گے۔

بے شک رات کا اُٹھنا دل جمعی کے لئے انتہائی مناسب ہے اور بات کو بالکل دُرست کردینے والا ہے ۔یقیناً تجھے دن میں بہت شغل رہتا ہے تو اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کر۔ اور تمام مخلوقات سے کٹ کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجا۔ رات کے آخری پہر قہار و جبار کا نزول ہوتاہے۔استغفار کی آوازے گونجتی ہیں،آسمان کے دروازے کھلتے ہیں،دعائیں قبول ہوتی ہیں اور رب العالمین کے پاس حاجت مندوں کی حاجتیں پیش ہوتی ہیں۔ اس میں عبادت کرنے والے اپنے اعمال کو چھپاتے ہیں ۔تواللہ تعالیٰ بھی اُن کے اعمال کے بدلے کو چھپاتا ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ‎﴿١٦﴾‏ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

السجدۃ – 16/17

ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وه خرچ کرتے ہیں۔ کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیده کر رکھی ہے، جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔

جو لوگ صدق ِ دل سے رات کو جاگ کر عبادت کرنے والے ہیں وہی حقیقی علم ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ

الزمر – 9

بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو، (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟۔

آپ ﷺ نے فرمایا: قیام اللیل اور تہجد کا اہتمام کروکیونکہ یہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا طریقہ ہے ۔اور رات کا قیام یعنی تہجد اللہ تعالیٰ سے قریب و نزدیک ہونے کا، گناہوں کی بخشش کا ،برائیوں سے روکنے اور جسم سے بیماری کو نکالنے کا بہترین ذریعہ ہے۔آپ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کے بعد جنابِ عبداللہ بن سلام نے آپ ﷺ کی زبانِ مبارک سے جو سب سے پہلی بات سنی وہ یہ تھی : اے لوگوں! کھانا کھلاؤ،سلام پھلاؤ اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔

اے مؤمنو! ماہِ محرم کی دس تاریخ کو یومِ عاشورہ کہتے ہیں۔ یہ بہت فضیلت والا ہےاور قدیم زمانے سے حرمت والا چلا آرہا ہے۔ جس کا روزہ اپنی فضیلت کی وجہ سے پہلے نبیوں کے درمیان بھی معروف رہا ہے۔ اور نبی اکرم ﷺ روزے کے لئے اس دن کو دیگر دنوں پر فضیلت حاصل ہونے کی وجہ سے تلاش کرتے اور مہینو میں سے اس مہینے یعنی رمضان کو تلاش کیا کرتےتھے۔

 نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہودی لوگ فرعون اور اُس کی قوم کےہلاک ہونے اور موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کے نجات پانے کی وجہ سے شکرانے کے طور پر اُس دن کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری بنسبت ہم موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریبی اور حقدار ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے خود اُس دن کا روزہ رکھا اور اُس کے رکھنے کا حکم بھی دیا۔ ایک شخص نے اِس دن کے روزے کے متعلق سوال کیا توآپ ﷺ نے فرمایا: میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اِس کے بدلے گزشتہ سال کے گناہوں کو معاف کردے گا۔ نیز فرمایا: اگر میں زندہ رہا تو اگلے سال نو محرم کا روزہ ضرور رکھوں گا۔(یعنی دس محرم کے ساتھ ،یہودیوں کی مخالفت کی وجہ سے)۔

اور جو شخص ایک دن پہلے کا روزہ رکھ لے یا ایک دن بعد کا یا تینوں دنوں کا رکھ لے یا سب کو چھوڑ کرصرف ایک دن اُسی دس محرم کے دن کا روزہ رکھ لے تو یہ بھی دُرست ہے۔امام مسلم رحمہ اللہ نے یہ روزہ حالتِ سفر میں بھی رکھنے کی صراحت کی ہے کیونکہ ایک اگر اِن روزوں میں سے کوئی ایک رہ جائے تو دوسرے دنوں میں اُس کی قضا نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ میرے لئے اور آپ کے لئے قرآن مجید کو بابرکت بنائے اور مجھے اور آپ کو اس بابرکت اور حکمت والے ذکر سے فائدہ پہنچائے ۔اللہ تعالیٰ سے استغفار کیجئے، میں بھی استغفار کرتاہوں۔

دوسراخطبہ:

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں ،بہت زیادہ تعریفیں۔ اور درود و سلام نازل ہومحمد بن عبداللہ ،رسولِ اُمی ﷺ پر۔

اما بعد!

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرواور نیک و سچ بولنے والوں کےساتھ رہو۔

اے مؤمنو! عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے مختلف بلادِ انصار کی طرف مکتوب روانہ فرمایاجس میں اُنہوں نے کہا :

تم بھی اُسی طرح کہو جس طرح نوح علیہ السلام نے فرمایا: “اے اللہ! اگر تونے میری مغفرت نہ فرمائی اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں بھی خسارہ اُٹھانے  والوں میں سے ہوجاؤں گا “۔

تم بھی اُسی طرح کہو جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: “اے پروردگار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہےلہٰذا مجھے بخش دے”۔

تم ویسے ہی فریاد کرو جیسے مچھلی والے نبی یونس علیہ السلام نے فریاد کی: “تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں،تیری ذات پاک ہےبے شک میں ہی قصور وار ہوں”۔

کیونکہ گناہ گار کا اپنے گناہ کا اقراراور ندامت کا اظہار بارگاہِ الٰہی میں مقبول توبہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہو اور توبہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس کی توبہ قبول فرماتاہے۔ ابلیس اپنے غرور اور خود پسندی ہی کی وجہ سے ہلاک ہوا۔ اُس نے کہا تھا: میں آدم سے بہتر ہوں۔ اور اُس کے برعکس اپنی غلطی کے اعتراف کی وجہ سے آدم علیہ السلام کامل ترین فضائل سے بہرہ ور ہوگئے۔ اُنہوں نے فرمایا تھا: “اے ہمارے رب! ہم نے اپنے نفس پرظلم کیا ہے”۔

ابلیس نے جب جب آدم علیہ السلام کے لئے حسد کی آگ بھڑکائی ، آدم علیہ السلام کے بدن سے نکلتی خوشبو نے اُسے منتشر کرڈالا اور ابلیس جل بھن کر رہ گیا۔

لہٰذا اس فتنے کو خوب ہوشیار رہوجس نے تمہارے باپ کو جنت سے نکالا ہے اور خو ب چوکنا رہو۔

  إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

اے اللہ! ہدایت یافتہ آئمہ ابو بکر ،عمر ، عثمان ،علی رضی اللہ عنھم  اور دیگر تمام صحابہ کرام سے تو راضی ہوجا اور ہمیں اُن سے راضی کردے۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! تو فلسطین کی اور  اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔

اے اللہ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ عدل کا بھلائی کا ور قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہےاور بے حیائی کے کاموں اور ناشائستہ حرکتوں ،ظلم و زیادتی سے روکتا ہے۔ وہ خو تمہیں نصیحت کررہا ہےکہ تم نصحت حاصل کرو۔ پس اللہ تعالیٰ کو یاد رکھووہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اور اُس کی نعمتوں پر اُس کا شکریہ ادا کرو، وہ مزید سے نوازے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ذکر تو سب سے بڑی چیز ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہواللہ اُسے جانتا ہے۔

خطبة الجمعة مسجد نبویﷺ: فضیلة الشیخ ڈاکٹر احمد طالب حميد حفظه اللہ
7 محرم 1444 ھ بمطابق 5 اگست 2022

مصنف/ مقرر کے بارے میں

فضیلۃ الشیخ احمد طالب حمید حفظہ اللہ